سلیمانی

سلیمانی

 اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے نمائندوں نے ایران اور افغانستان کے درمیان معاہدے کے مسودے کو منظور کرکے  ایران اور افغانستان کے درمیان ریلوے رابطے کو قانونی حیثیت دیدی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایران اور افغانستان کے درمیان ریل  رابطے کے مسودے کے حق میں 178 نمائندوں نے ووٹ دیا جبکہ 2 نے مخالفت کی اور 2 نمائندوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ مہر کی رپورٹ کے مطابق خواف و ہرات ریلوے لائن کا افتتاح گذشتہ سال ایران کے صدر حسن روحانی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کیا تھا۔

پاکستانی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی عراق کے تین روزہ دورے پر ہیں جہاں انھوں نے نجف اشرف میں حضرت علی علیہ السلام کے روضہ مبارک کی زيارت کا شرف حاصل کیا اور نماز ادا کی۔ اطلاعات کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ نے اس سے قبل عراق کے وزیر خارجہ اور دیگر اعلی  عراقی حکام کے ساتھ  دو طرفہ تعلقات ، علاقائي  اور عالمی امور کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔  پاکستانی وزیر خآرجہ نے مسجد کوفہ اور دیگر تاریخی مقدس مقامات کی بھی زیارت کی ، جن میں حضرت مسلم بن عقیل (ع) اور حضرت ہانی بن عروہ (ع) کے مزارات بھی شامل ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے نجف اشرف میں ممتاز عالم دین آیت اللہ بشیر نجفی سے بھی ملاقات  اور گفتگو کی۔

Sunday, 30 May 2021 10:10

راستگوئي

جھوٹ بولنا ايک انتہائي برى صفت ہے اور گناہان کبيرہ ميں ہے دنيا کى تمام قوميں اور ملتيں ، جھوٹ بولنے کى مذمت کرتى ہيں اور جھوٹ بولنے والے کو پست اورگھٹيا قرار ديتى ہيں جھوٹ بولنے والے شخص کا دنيا والوں کى نظر ميں کوئي عزت واعتبار نہيں ہوتا ايک شريف اور اچھا شخص جھوٹ نہيں بولتا اسلام نے بھى اس برى صفت کى مذمت کى ہے اور اسے گناہ کبيرہ اور حرام قرار ديا ہے امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ہيں: ( ”جھوٹ خرابى ايمان کى بنياد ہے ” حضرت صادق عليہ السلام فرماتے ہيں:

کہ حضرت عيسى عليہ السلام نے فرمايا جو زيادہ جھوٹ بولتا ہے اس کى کوئي عزت ( نہيں ہوتى)

حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں: ( کوى کام جھوٹ سے بڑھ کے گھٹيا نہيں الله کے سب نبيوں اور سب دينى رہنماؤ ں نے لوگوں کو سچائي کى دعوت دى ہے سچ ايک فطرى اور طبيعى چيز ہے اور انسان کى سرشت کا حصہ ہے سب سچ اور سچّے کو پسند کرتے ہيں اور جھوٹے سے نفرت کرتے ہيں يہاں تک کہ جھوٹ بولنے والا شخص بھى ايسا ہى ہے اگر بچے کو اس کے حال پہ چھوڑدياجائےتو فطرى طور پر اس کى تربيت ايسى ہوگى کہ وہ سچا ہوگا يہ تو خارجى عوامل اور اسباب ہيں کہ جو اسے خداداد فطرت سے منحرف کرديتے ہيں اور اسے دروغ گوئي کى طرف لے جاتے ہيں جھوٹ بولنا ايک ننھے بچے سے اصلاً ميں نہيں کھاتا بعد از آن اسسے منحرف ہوجائے اور جھوٹ بولنے کا عادى بن جائے تو بڑے ہوکر يہ عادت ترک کرنا اس کيلئے دشوار ہوگا اور زيادہ امکان يہى ہے کہ وہ اس سے دستبر دار نہيں ہوگا پھر اس پر نہ کوئي آيت اثر کرے گى نہ روايت اور نہ وعظ ونصيحت ماں باپ کى ذمہ دارى ہے کہ وہ بچپن ہى سے اس بات کى فکر کريں کہ ان کى اولاد سچى ہو جھوٹ کے علل و اسباب کوروکيں اور سچائي کو جو ان کى سرشت ميں شامل ہے اس کى پرورش کريں سچائي کى تربيت کو نظر انداز نہيں کرنا چاہيے اور نہ اسے بڑے ہونے پرٹال دينا چاہيے جو ماں باپ اپنى اولاد کى تربيت کے خواہشمند ہيں اور احساسذمہ دارى رکھتے ہيں توانہيں چاہيے کہ

 

مندرجہ ذيل امور کى طرف توجہ فرمائيں

1بچے کى تربيت پر اثر انداز ہونے واى ايک نہايت اہم چيز خاندان کا ماحول ہے خاندان کے ماحول ميں بچہ پروان چڑھتاہے اور وہ ماں باپ سے اور ساتھ رہنے والوں سے اخلاق سيکھتا ہے اور ان کى پيروى کرتا ہے اگر گھر کا ماحول سچائي اور درستى پر بنى ہو ، ماں باپ اور ديگر افراد صداقت اور سچائي سے ايک دوسرے کے ساتھ پيش آنے والے ہوں تو ان کے بچے بھى يہى سيکھيں گے اس کے برعکس اگر گھر کا ماحول ہى جھوٹ اور دروغ گوئي پر بنى ہو، ماں باپ ايک دوسرے سے اپنى اولاد سے اور ديگر افراد سے جھوٹ بولتے ہوں بے گناہ بچے جو ايسے ماحول ميں پرورش پائيں گے يہى برى عادت ماں باپ سے سيکھيں گے اور دروغ گو بن جائيںگے جن بچوں کے کان جھوٹ سے آشنا ہو گئے ہوں اور جو ہر روز ماں باپ سے دروغ گوئي کے مظاہر ديکھتے ہوں ان سے کيسے توقع کى جا سکتى ہے کہ وہ سچّے اور صادق پروا ن چڑھيں ايسے ماحول ميں يہ صلاحيت نہيں ہے کہ وہ جھوٹے اور فريبى شخص کے علاوہ کچھ تريت کرے ايسا زہر يلا ماحول ہى ہے کہ جو ايک حساس اور اثرات قبول کرنے والے بچے کى فطرت کو سچائي سے منحرف کرديتا ہے اور دروغ گوئي کا عادى بنا ديتا ہے بعض نادان ماں باپ نہ صرف يہ کہ خود جھوٹ بولتے ہيں بلکہ اپنے بچوں کو بھى جھوٹ بولنے کى تلقين کرتے ہيں باپ گھر پہ ہے ليکن بچے کو کہتا ہے فلان شخص سے کہو ابو گھر پہ نہيں ہيں بچہ جو ٹھيک ٹھاک تھا اور اس نے گھر کا کام نہيں کيا باپ اس سے کہتاہے استاد سے کہنا ميں بيمار تھا ايسے سينکڑوں جھوٹ ہيں جن کا بعض گھروں ميں ہر روز تکرار ہوتا ہے ايسے نادان ماں باپ اپنے بچوں سے بہت بڑى خيانت کے مرتکب ہوتے ہيں جھوٹ بولنا گناہ ہے ليکن جھوٹ سکھانا اس سے کہيں بڑا گناہ ے جھوٹے ماں باپ جھوٹ بولنے کى سزاکى علاوہ بھى بہت بڑى سزاپائيں گے اور وہ ہے جھوٹ بولنے کى تربيت دينا ماں باپ کہ جو خاندان کے سرپرست ہوتے ہيں وہ جھوٹ بوليں تو يہ کوئي معمولى گناہ نہيں ہے بلکہ ہمت بڑا گرناہ ہے اس کے ساتھ بہت بڑا گناہ نمسلک ہے اور وہ ہے بچوں کو جھوٹ سکھانا ايسے ماں باپ نہ صرف گناہ کبيرہ کے مرتکب ہوتے ہيں اور انہيں اس کى سزا ملے گى بلکہ وہ اپنے معصوم بچوں کے ساتھ بھى ايک بہت بڑى خيانت کے مرتکب ہوتے ہيں جب کہ يہ بچے ان کے پاس الله کى امانت ہيں اور يہ خيانت ان کى معاشرے کے ساتھ بھى ہے ايسے ماں باپ ہى ہيں جو ايک جھوٹے اور فريب کار معاشرے کو وجود ديتے ہيں لہذا جو ماں باپ چاہتے ہيں ان کے بچے سچے ہوں ان کے پاس اس کے علاوہ کوئي چارہ نہيں کہ وہ خود راست گوئي اختيار کريں اور اپنى اولاد کے ليے بہترين ماحول فراہم کريں اور ان کے ليے نمونہ عمل بنيں رسل لکھتا ہے ”اگر آپ چاہتے ہيں کہ بچے جھوٹ بولنا نہ سيکھيں تو اس کے علاوہ کوئي چارہ نہيں کہ بڑے پور ى توجہ سے ہميشہ بچوں کے سامنے سچائي ( اختيار کريں ”)


 
 اے کاش رسل کہتا کہ بچوں کے سامنے بھى اور ہر کسى کے سامنے بھى سچائي اختيار کريں کيونکہ بچوں کى پاک فطرت ہر جھوٹ سے متاثر ہوتى ہے يہاں تک کہ مخفى جھوٹ بھى جلد ان کے سامنے آشکار ہوجاتے ہيں امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں: ”لوگوں کو بغير زبان کے اچھائي کى طرف دعوت ديں لوگ آپ سے تقوى ، محنت، نماز ، نيکى ديکھيں اور اس ( طرح اس ان کے ليے ايک نمونہ عمل مہيا ہوجائے ” )

 

Wednesday, 26 May 2021 20:12

اسرائیل کا مستقبل

صیہونی اخبار ہاریٹز کی رپورٹ کے مطابق ایک تجزیہ کار بن آلوف نے کہا کہ غزہ کی حالیہ جنگ اسرائیل کیلئے تاریخ کی سب سے بدترین شکست ہے۔ اس صیہونی کا اعتراف کرنا حماس اور محور مقاومت کی عظمت و ہیبت میں اضافہ کرتا ہے۔ محور مقاومت کی سیسہ پلائی ہوئی دیوار نے ثابت کر دیا کہ وہ ہر دشمن اسلام کے خلاف طاقتور ہیں۔ پہلے جب اسرائیل سے جنگ ہوا کرتی تھی تو کئی سالوں تک جاری رہتی تھی، جس میں دشمن منافقوں سے خوب فائدہ اٹھاتا تھا، مگر اب محور مقاومت اور اسلام پرور مملکت ایران کی بدولت 33 روز جنگ ہوتی ہے، 33 روزہ جنگ کے بعد 22 اور اسکے بعد اب 11 دن کی مسلسل استقامت کے نتیجے میں صیہونیت کو شکست دی اور اسلام مخالف ہر طاقت کو پیغام دیا کہ تم جس میدان میں آجاؤ، تمہاری شکست یقینی ہے۔ 

دشمن نے شام و عراق کو ٹکڑے کرنا چاہا، مگر راہیان اسلام و مدافعان حرم نے جان کی پرواہ کئے بغیر خونخوار لشکروں کو شکست دی، دشمن نے یمن کا میدان ڈھونڈا مگر عشقِ رسول و اولادِ رسول میں لبریز جوانوں نے الله اكبر کے نعرے بلند کرتے ہوئے آل یہود کی ناک زمین پر رگڑ دی، دشمن نے فلسطین پر قابض ہونے کی تیاری کی، مگر بوڑھوں سے لیکر بچوں تک ہر طبقے نے ہاتھوں میں پتھر لیکر دشمن کو دھول چٹا دی۔ دشمن اسلام کو چاہیئے کہ ماضی کی تاریک راتوں کو یاد کرے، ہوش کے ناخن لے، فلسطین سے بستر بوریا اٹھائے اور اپنی راہ لے۔ کیا غزہ حماس کے پیادہ جنگجوؤں کی کامیابی کے بعد تم کو عبرت نہیں ملی؟ کیا تم اس بدترین شکست کے بعد سوریا اور عراق کی طرف آنے کی کبھی جرأت کرسکتے ہو؟

دشمن جانتا ہے کہ مقاومت کا اسلحہ اور میزائل چند منٹوں میں اسرائیل کو تباہ کر دیں گے، حزب الله جس نے تمہیں عبرت کا نشان بنایا اور تم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے، یہ الہیٰ لشکر اب ہزار گنا مضبوط اور طاقتور ہے، معرکہ سیف القدس میں حزب الله نے شرکت نہ کرکے تمہارے لئے خطرناک پیغام دیا ہے کہ اگلی بار کوئی حماقت ہوئی تو تمہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا، یہ وہ پیشنگوئی ہے جس کے متعلق تمہاری ہی کتابوں میں ذکر کر دیا گیا ہے، تمہارے ہی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے اسرائیل  کا وجود بمشکل پانچ سال تک ہو، لہذا تمہارا کوئی وجود نہ تھا اور نہ رہے گا۔

یہی وجہ ہے اسرائیل کے نجس وجود کے ساتھ امریکہ، نام نہاد عرب ممالک اور تمام اسلام مخالف طاقتیں مسلسل زوال کی طرف گامزن ہیں، شرپسندی سے خون خرابہ تو ہوسکتا ہے مگر اپنے ناپاک مقاصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتے، کیونکہ شیطانی طاقتوں کا ہر راستہ زوال پذیر ہے، شیطان پرست گروہ کبھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران اور محور مقاومت عظمت و بلندی کی راہ پر ہیں، جس کا راستہ الہیٰ ہے اور اس راستے کو کبھی زوال نہیں۔ الہیٰ لشکر ہمہ وقت شیطانی طاقتوں کا سر کچلنے کیلئے تیار ہیں۔

تحریر: شاہد عباس ہادی

جنوبی لبنان سے غاصب صیہونیوں کی ذلت آمیز شکست کی 21ویں سالگرہ کی مناسبت سے لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے قوم سے خطاب کیا ہے۔ سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس وقت لبنانی مزاحمتی محاذ اپنی تاریخ کی بہترین حالت میں ہے، اطلاع دی کہ رمضان المبارک کے بعد سے ان کے منظر عام پر نہ آنے کی وجہ ان کی علالت تھی۔ سید مقاومت نے اپنے خطاب کے آغاز میں لبنان سے اسرائیل کی تاریخی شکست کی سالگرہ پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ غزہ میں پیش آنے والے واقعات کے آغاز سے لے کر حالیہ حوادث تک میں لبنان اور اس سے باہر موجود بھائیوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے تمام حالات کا جائزہ لے رہا تھا جبکہ اب ہم ماہ مئی میں 2 عظیم کامیابیوں؛ 25 مئی 2000ء کے روز لبنان میں اور 21 مئی 2021ء کے روز غزہ میں (غاصب صیہونی رژیم کی شکست کے حوالے سے) حاصل ہونے والی فتوحات پر جشن منایا کریں گے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے جنوبی لبنان کی آزادی میں موثر کردار ادا کرنے پر شہدائے مزاحمت کے سردار جنرل قاسم سلیمانی سمیت لبنانی، فلسطینی و عرب ممالک کے شہداء کو خراج تحسین پیش کیا اور تاکید کی کہ فلسطینی مزاحمتی محاذ کے کمانڈروں نے غزہ کے حالیہ معرکے میں خوب جوہر دکھائے ہیں۔

سربراہ حزب اللہ لبنان نے سال 2000ء میں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف حاصل ہونے والی تاریخی فتح کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ سال 2000ء میں لبنانی قوم و مزاحمتی محاذ کی جانب سے حاصل کی جانے والی کامیابی درحقیقت لبنانی عوامی تحریکوں اور قومی جماعتوں کی فداکاری کا نتیجہ تھا جبکہ سال 2000ء کی فتح کا اہم ترین محرک اس وقت کے لبنانی صدر "امیل لحود"، چیئرمین پارلیمنٹ "نبیہ بری" اور وزیراعظم "سلیم الحص" سمیت لبنانی حکام کا سرکاری و دوٹوک موقف تھا۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ سال 2000ء کی فتح ایک تاریخی و تزویراتی کامیابی تھی اور یہی وجہ ہے کہ دشمن صیہونی حکام نے اس تزویراتی شکست کے برے نتائج 

 

پر خبردار بھی کیا ہے، جبکہ اس کامیابی نے مسئلۂ فلسطین اور اس کے متعلقہ معرکوں کے حوالے سے دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمن فریقوں کو بھی مختلف تزویراتی رستوں پر گامزن کر دیا ہے۔

عرب چینل المنار کے مطابق اپنے خطاب میں سید حسن نصراللہ نے تاکید کی ہے کہ قدس کو لاحق خطرہ فلسطینی مزاحمتی محاذ کی عسکری کمان کی جانب سے تاریخی و دوٹوک موقف کے اختیار کئے جانے کا محرک بنا ہے جبکہ غزہ کی حالیہ جنگ کی اصلی وجہ صیہونی دشمن کی حماقت، اس کی جانب سے مزاحمتی محاذ کو کمزور سمجھنا اور (صیہونی) دشمن کے حساب کتاب کی غلطی تھی۔ سید مقاومت نے زور دیتے ہوئے کہا کہ غاصب صیہونی رژیم کا خیال تھا کہ قدس کو یہودی بنائے جانے کے اس کے گھناؤنے منصوبے پر سامنے آمنے والا ردعمل "بیان" سے بڑھ کر نہیں ہوگا جبکہ دشمن کے حساب کتاب کی سب سے اہم غلطی یہ تھی کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ غزہ اس قسم کا کوئی تاریخی فیصلہ بھی اٹھا سکتا ہے، درحالیکہ غزہ نے اپنے اس فیصلے اور قدس میں انجام پانے والے قابض صیہونی رژیم کے گھناؤنے اقدامات پر اپنے دندان شکن جواب سے دوست و دشمن دونوں کو ہی چونکا کر رکھ دیا ہے!

حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ غزہ نے جو کچھ حالیہ معرکے میں پیش کیا ہے، وہ نہ صرف ایک تاریخی قدم بلکہ اسرائیلی دشمن کے ساتھ جہاد کی پوری تاریخ میں ایک منفرد اقدام تھا، جبکہ "سیف القدس" مزاحمتی آپریشن کے سبب آنے والی اہم ترین تاریخی تبدیلی یہ تھی کہ غزہ نے صرف اور صرف قدس اور اس کے رہائشیوں کی خاطر اس جنگ میں قدم رکھا تھا، نہ کہ خود غزہ کے دفاع کے لئے! انہوں نے کہا کہ غزہ کے رہائشی اور اس کا مزاحمتی محاذ قدس و مسجد اقصیٰ کے دفاع میں اپنی جان نثار کر دینے کو تیار تھے اور یہی وجہ ہے کہ "سیف القدس" مزاحمتی آپریشن نے ایک ایسی حقیقت کو عیاں کر دیا ہے کہ جسے غاصب صیہونیوں کو سمجھ لینا اور اس کی بنیاد پر اپنے حساب کتاب کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیئے۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے 

 

کہ قدس، اس کے مقدس مقامات اور مسجد اقصیٰ کے خلاف جارحیت، ان کی کسی بھی دوسری شرارت سے مختلف ہے، جبکہ (قدس شریف اور اس کے مقدس مقامات کے خلاف) اس جارحیت کا تعلق صرف غزہ تک ہی محدود نہیں رہے گا، کیونکہ اگر قدس شریف میں اسلامی و عیسائی مقدس مقامات کو خطرہ لاحق ہوا تو کوئی ریڈلائن باقی نہیں رہے گی!

سید مقاومت نے اپنے خطاب کے دوران غاصب صیہونیوں کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی کہ قدس اور مسجد اقصیٰ کے خلاف جارحیت کا مطلب پورے خطے کی جنگ ہے! سید حسن نصراللہ نے کہا کہ جب اسرائیلی دشمن نے جان لیا کہ وہ اس دفاعی مساوات سے روبرو ہے تو پھر وہ یہ بھی جان لے گا کہ مستقبل میں اٹھایا جانے والا ہر اقدام اس (غیر قانونی) رژیم کے زوال پر ہی منتج ہوگا۔ سربراہ حزب اللہ لبنان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سیف القدس مزاحمتی آپریشن کے دوران پوری دنیا نے یہ محسوس کیا ہے کہ وہ ایک ایسی "متحد فلسطینی قوم" کے روبرو کھڑی ہے، جو پوری کی پوری واحد ہدف کے حصول لئے جدوجہد میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیف القدس مزاحمتی آپریشن نے نہ صرف عالمی سطح پر مسئلۂ فلسطین کو دوبارہ اجاگر کرکے پوری دنیا کے میڈیا کو اس کی کوریج پر مجبور کر دیا ہے بلکہ اس معرکے نے یہ ثابت کرتے ہوئے کہ مقبوضہ سرزمینوں کو واپس لینے کا واحد رستہ "مزاحمت" ہے، مزاحمتی ثقافت میں نئی روح بھی پھونک دی ہے۔

سید مقاومت نے سیف القدس مزاحمتی آپریشن کے اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ سیف القدس آپریشن کے بعد ہم یہ بات بآسانی کہہ سکتے ہیں کہ "صدی کی ڈیل" زوال پذیر ہوچکی ہے جبکہ اس مزاحمتی آپریشن کا ایک اور نتیجہ اسرائیل کے اپارتھائیڈ نظام حکومت سمیت اس کا گھناؤنا چہرہ عیاں کرنا بھی ہے، جبکہ خطے کی رائے عامہ کو حقیقی دشمن کی جانب موڑ دینا اس مزاحمتی آپریشن کا ایک اور اہم نتیجہ ہے۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ سیف القدس مزاحمتی آپریشن کے سبب پورے فلسطینی دفاعی نظام میں غزہ کی پٹی کی اہمیت دوبالا ہوگئی ہے، جو اس معرکے کے باعث وجود 

 

میں آنے والی ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جبکہ غزہ میں مزاحمتی محاذ کو حاصل ہونے والی حالیہ کامیابیوں میں سے ایک؛ پہلے سے اعلان کردہ وقت پر بڑی تعداد میں میزائل فائر کرنے کی صلاحیت ہے، درحالیکہ حالیہ معرکہ؛ تعداد، کیفیت اور میزائلوں کے رینج کے اعتبار سے مزاحمتی محاذ کی مختلف نئی صلاحیتوں کو بھی منظر عام پر لے آیا ہے۔

سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں تاکید کی کہ فلسطین میں موجود کوئی ایک صیہونی بھی جب غیر محفوظ ہونے کا احساس کرے گا تو اس کا کم از کم کام یہ ہوگا کہ وہ فلسطین کو ترک کر دے، جبکہ سیف القدس آپریشن کے اہم ترین نتائج میں سے ایک غاصب صیہونی رژیم کے امن و امان کا درہم برہم ہو جانا ہے، جو ایک تاریخی و اہم فوجی کامیابی ہے۔ سید مقاومت نے کہا کہ ہم ایک ایسی رژیم کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جو سر تا پا مکمل طور پر مسلح اور اس انتہائی کم رقبے کی حامل "غزہ کی پٹی" کے مقابلے میں انتہائی طاقتور فضائیہ کی حامل ہے، جو گذشتہ 15 سال خود اسی رژیم کے مکمل محاصرے میں موجود ہے جبکہ غزہ میں ایک ایسا مزاحمتی محاذ موجود ہے، جس نے اپنا اسلحہ یا تو خفیہ طریقے سے وہاں پہنچایا ہے یا مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) سے خریدا اور یا خود بنایا ہے.. لہذا ہم کوئی 2 بڑے ممالک کے بارے بات نہیں کر رہے، ہم غزہ کے مزاحمتی محاذ کے مقابلے میں "سر تا پا مسلح رژیم" کے بارے بات کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ معرکے نے مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کے بارے "غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے پرامن مقام" کے سابقہ تصور کو بھی توڑ ڈالا ہے جبکہ اس مزاحمتی آپریشن کے دوسرے نتائج میں ایک اور اہم نتیجہ؛ سال 1948ء کی مقبوضہ سرزمینوں کے رہائشیوں کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف جدوجہد میں بھرپور شرکت تھی، درحالیکہ (صیہونی) دشمن اس امر کو "اپنے وجود کے لئے خطرہ" گردانتا ہے۔ سید مقاومت نے تاکید کی کہ اس معرکے کا ایک اور اہم نتیجہ مزاحمتی محاذ کی جانب سے فائر کئے جانے والے راکٹوں کے مقابلے میں غاصب صیہونی رژیم کی کھلی شکست 

تھی، جو اس غاصب رژیم کی انٹیلیجنس ناکامی کو ظاہر کرتی ہے، درحالیکہ اگر "آئرن ڈوم" کہلانے والا دفاعی نظام کامیاب ہو جاتا تو (بنجمن) نیتن یاہو ہر جگہ اس پر فخر کرتا نظر آتا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اس مزاحمتی آپریشن کی ایک اور کامیابی مزاحمتی محاذ کے ان میزائلوں کے زرادخانوں کو نشانہ بنانے میں اسرائیلی ناکامی ہے، جو تاحال فائر نہیں کئے گئے جبکہ غزہ اور 1948ء کی مقبوضہ سرزمینوں کے ردعمل کا قبل از وقت اندازہ لگانے میں صیہونی شکست بھی اس آپریشن کی ایک اور اہم کامیابی ہے۔

انہوں نے تاکید کی کہ حالیہ معرکے میں غاصب صیہونی رژیم کی شکست کی واضح ترین علامت غزہ کے خلاف صیہونی دشمن کا زمینی جنگ میں داخل نہ ہونا ہے، جس سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ خود کو "خطے کی طاقتور ترین" کہلوانے والی فوج "زمینی جنگ" سے بری طرح ہراساں ہے جبکہ یہ کوئی عام نہیں بلکہ ایک تزویراتی شکست ہے، تاہم اس سے بڑھ کر یہ کہ دشمن اپنی فتح کے بارے کوئی تصور دینے کی طاقت بھی نہیں رکھتا۔ بعد ازاں خطاب کے دوران انہوں نے سیف القدس مزاحمتی آپریشن سے حاصل ہونے والے دوسرے نتائج کے حوالے سے اس جنگ میں کسی بھی تزویراتی ہدف کے حصول، مزاحمتی محاذ کی اصلی عسکری کمان کے مقامات کی تشخیص، (حماس کے عسکری ونگ کے کمانڈر) برادر محمد الضیف سمیت مزاحمتی کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ اور مزاحمتی محاذ کی حقیقی طاقت کا اندازہ لگانے میں غاصب صیہونی رژیم کی کھلی شکست کا ذکر کیا۔

سربراہ حزب اللہ لبنان نے اپنے خطاب کے دوران اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آج لبنانی مزاحمتی محاذ فوجی سازوسامان اور اپنی تیاری کے حوالے سے تاریخ کے کسی بھی دوسرے وقت کی نسبت سب سے زیادہ تیار ہے۔ سید حسن نصراللہ نے صیہونیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لبنان کے بارے حساب کتاب میں ایسی کوئی غلطی نہ کرنا، جو تم نے غزہ میں کی ہے اور جان لو کہ ہماری صورتحال یکسر مختلف ہے اور اس وقت لبنانی مزاحمتی محاذ انتہائی طاقتور ہوچکا ہے۔ انہوں نے شہید قدس "محمد طحان" کو یاد کرتے 

 

ہوئے کہا کہ یہ شہید آج کی اس نسل کا نمائندہ ہے، جو بغیر کسی اسلحے کے تمام سرحدیں و دیواریں عبور کرنے کو بالکل تیار ہے جبکہ مزاحمتی محاذ ہی فلسطینی قوم کی کامیابی کا اصلی راز ہے۔

سید حسن نصراللہ نے مسئلۂ فلسطین کو حاصل عراقی عوامی حمایت، عراق کے موجودہ حالات اور مرجع عالیقدر آیت اللہ سید علی سیستانی کے بیان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے ہر کونے میں موجود ہر دوست و دشمن کو چاہیئے کہ وہ مسئلۂ فلسطین کے بارے آیت اللہ سید علی سیستانی کے بیان پر توجہ دے۔ سید مقاومت نے مسئلۂ فلسطین کے بارے یمنی عوام کی حمایت کی جانب بھی اشارہ کیا اور کہا کہ فلسطینی عوام کے ساتھ یمنی قوم اور ان کے رہبر "سید عبدالملک الحوثی" کی یکجہتی کے تصور سے شکرانے کے آنسو بہہ نکلتے ہیں جبکہ یمنی قوم مزاحمتی محاذ کے لئے ایک بڑی قوت کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب میں یہ بات سنتا ہوں کہ جناب عبدالملک جو خود اپنے پورے ملک کے ہمراہ سخت ترین سرحدی محاصرے میں ہیں، یہ کہتے ہیں کہ ہم فلسطین کے ساتھ اپنے تمام وسائل تقسیم کرنے پر تیار ہیں، تو میں واقعا بہت متاثر ہو جاتا ہوں۔

سید مقاومت نے اپنی آنکھوں میں امڈے آنسو پیتے ہوئے کہا کہ میں انہیں کہتا ہوں کہ آپ تو خود سخت ترین سرحدی محاصرے میں ہیں! انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں زور دیتے ہوئے کہا کہ صیہونی رژیم کا زوال انتہائی نزدیک اور اس کا خاتمہ حتمی ہے جبکہ اس حوالے سے صرف اور صرف وقت اہم ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ آج کا اہم ترین موضوع خطے کے مختلف مقامات پر وجود میں آنے والی وہ مزاحمت، استقامت اور قیام ہے کہ جس نے آج فلسطین میں اہم کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران پائیدار و استوار ہے جبکہ جیسا کہ "جان بولٹن" چاہتا تھا، ویسا بالکل نہیں ہوا.. جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کو اب جنگ کی دھمکی بھی نہیں دی جا سکتی، درحالیکہ وہ اس وقت عائد پابندیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے صدارتی انتخابات میں مصروف ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کے رہنماؤں اسماعیل ہنیہ اور زیاد النخالہ  کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ہمارے دل آپ کی مجاہدت اورجدوجہد کے ساتھ  ہیں۔آپ کی دائمی کامیابی کے لئے ہماری دعاؤں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان شاء اللہ ، آپ نہائی فتح  اور کامیابی کو مشاہدہ کریں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطینی تنظیم  حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور جہاد اسلامی کے سکریٹری زیادہ النخالہ کے خطوط کے جواب میں غاصب صہیونی حکومت کے خلاف جد و جہد کو کفر اور ظلم کے خلاف استقامت قراردیتے ہوئے فرمایا: ہمارے دل آپ کی مجاہدت اورجدوجہد کے ساتھ  ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسماعیل ہنیہ اور زیاد النخالہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آپ کا جہاد اللہ تعالی کی مرضی اور خوشنودی کے مطابق ہے ۔ اللہ تعالی اپنے وعدوں میں سچا ہے اور وہ آپ کو نہائی کامیابی عطا فرمائے گا ۔ آپ کا جہاد اورآپ کی جد وجہد قرآن مجید کی اس آیہ " اِن تَنصُروا اللهَ یَنصُرکُم وَ یُثَبِّت اَقدامَکُم "  کا مصداق ہے۔ آپ صہیونیوں کے ناپاک وجود سے فلسطین کو پاک ہوتے ہوئے مشاہدہ کریں گے۔ ہماری دعائیں مسلسل آپ کی جد وجہد  کے ساتھ ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی نے العربیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ سعودی عرب نے سال 2021 کے حج کے لیے کورونا وائرس کے پیشِ نظر احتیاطی تدابیر اور شرائط کا اعلان کردیا ہے ، جس کے تحت 18 سال سے زائد عمر کے 60 ہزار ملکی اور غیر ملکی عازمین حج کی سعادت حاصل کرسکیں گے۔

سعودی وزارت صحت کی جانب سے 9 صفحات پر مشتمل دستاویز جاری کی گئی ہے جس میں حج کے حوالے سے مختلف شرائط کا ذکر کیا گیا جسے حرمین شریفین سے منسلک آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کیا گیا ہے۔

مذکورہ نکات کے مطابق عازمینِ حج کا صحت مند ہونا ضروری ہے اور انہیں حج کا سفر کرنے سے 6 ماہ قبل تک کسی بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں داخل نہ ہونا پڑا ہو جبکہ اس بات کا ثبوت دینا بھی لازمی ہے۔

اس کے علاوہ عازمین حج کے لیے ویکسینز کی دونوں خوراکیں لگوانا اور بطور ثبوت اپنے ملک کی وزارت صحت یا حکام سے جاری کردہ ویکسینیشن کارڈ فراہم کرنا ضروری ہوگا۔

حج پالیسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سعودی مملکت کی وزارت صحت کی جانب سے منظور کردہ ویکسین کی فہرست میں شامل ویکسین ہی لگوانا لازم ہے۔

واضح رہے کہ سعودی حکومت نے سعودی عرب میں  آنے والے مسافروں کے لیے صرف فائزر، ایسٹرا زینیکا اور موڈرنا اور جانسن اینڈ جانسن ویکسین کی منظوری دی ہے۔

ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ عازمین کو 2 خوراکوں والی ویکسین کی پہلی خوراک یکم شوال اور دوسری خوراک سعودی عرب پہنچنے سے 14 روز پہلے لگ چکی ہو۔

اس کے باجود غیر ملکی عازمین کو سعودی عرب پہنچنے کے بعد 3 روز کے لیے قرنطینہ کرنا ہوگا جبکہ سماجی فاصلہ رکھنے، ماسک پہننے سمیت دیگر احتیاطی تدابیر اپنانے کی شرط عازمین حج کے لیے برقرار رہے گی۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے غزہ جنگ میں یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کرکے اپنی شکست و ناکامی کا اعتراف کیا ہے جس کے بعد غزہ اور مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی شہریوں میں شادی اور خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں  بارہ روزہ جنگ میں فلسطینی عوام کو کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے فرمایا:  فلسطینی عوام کو اللہ تعالی نے ان چند دنوں کے امتحان میں سرافرازی اور کامیابی عطا فرمائي ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطین کے غیور، طاقتور، شجاع اور بہادر عوام اور جوانوں کو سلام پیش کرتے ہوئے اسرائیل کا مقابلہ کرنے والی تمام فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو مبارکباد پیش کی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں فلسطین کے مجاہدین اور مؤمنین کی عظیم کامیابی اور سرافرازی پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں راہ حق میں  شہداء پیش کرنے والے خاندانوں کے لئے صبر و تحمل کی دعا کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی شہداء پر رحمت اور بخشش مرحمت اور زخمیوں کو جلد از جلد شفا عنایت فرمائے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسرائیل کی درندہ صفت اور غاصب حکومت نے مظلوم فلسطینیوں پر بیشمار جرائم اور مظالم کا ارتکاب کیا ہے، جو اسرائیل کی ناتوانی اور ناکامی کا مظہر ہے۔ فلسطینی جوانوں نے غاصب صہیونی حکومت کا شجاعانہ اور دلیرانہ انداز میں مقابلہ کیا اور اسے ایک بار پھر تاریخي شکست سے دوچار کردیا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطینی عوام پر زوردیا کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اپنی آمادگی کا سلسلہ جاری رکھیں کیونکہ بیت المقدس اور فلسطین کی آزادی تک غاصب صہیونی حکومت کے خلاف نبرد کا سلسلہ جاری رہےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: فلسطینی عوام کی حمایت اور مدد اسلامی ممالک اور امت مسلمہ کی دینی، مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری ہے مسلم ممالک کو ہر لحاظ سے فلسطینیوں کی بھر پور حمایت کرنی چاہیے کیونکہ فلسطینی غاصب صہیونی حکومت کا فرنٹ لائن پر مقابلہ کررہے ہیں اور فلسطینیوں کی حمایت کے سلسلے میں مسلمانوں کو اپنی حکومتوں سے بھر پور مطالبہ کرنا چاہیے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسرائیل کے سفاک ،ظالم و جابر، بے رحم اور بچوں کے قاتل وزير اعظم نیتن یاہوکے خلاف جنگی جرائم کے تحت عالمی عدالت میں کارروائی ہونی چاہیے اور اسرائيل کے سفاک وزیراعظم کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔ تمام فلسطینیوں کو ان کی اسقتامت اور شجاعت پر انھیں مبارکباد پیش کرتے ہیں اور فلسطین و بیت المقدس کی نبرد میں ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

حزب اللہ لبنان نے اپنے ایک بیان میں  فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو 11 روزہ سیف القدس پیکار میں اسرائيل پر کامیابی اور فتح کے سلسلے میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیف القدس پیکار میں اسرائیل کو ایک اور شکست ہوئی ہے۔ اسرائیل مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے۔

حزب اللہ لبنان نے اپنے بیان میں اسرائيل پر فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی 11 روزہ جنگ میں کامیابی کو تاریخی کامیابی قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ  فلسطینی تنظیموں نے 11 روزہ سیف القدس جنگ میں طاقت کا توازن بدل دیا ہے۔ فلسطینی تنظیم حماس ، جہاد اسلامی اور دیگر تنظیموں نے ثابت کردیا ہے کہ اسرائیل کا گھر مکڑي کے گھر سے بھی زیادہ کمزور ہے۔فلسطین اوربیت المقدس کی کامیابی قریب پہنچ گئی ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے آج صبح 2 بجے سے یکطرفہ طور پر جنگ بندی قبول کرتے ہوئے شیخ جراح علاقہ سے خارج ہونے کا اعلان کردیا ہے جنگ بندی کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔