
سلیمانی
علی ایک سمندر ہیں
وہ مسجد میں شہید ہوا، کیونکہ میدان میں اس کا مقابلہ ممکن نہیں تھا۔ مضمون شروع کرنے سے پہلے اپنی پستی اور ذلت کا ادراک رکھتا ہوں اور پھر صاحب بلاغت کی عطا کردہ مدحت کی زبان سے ان کی شجاعت کا تذکرہ کرنے جا رہا ہوں اور خدا سے مدد طلب کرتا ہوں کہ میں جلال علی بیان کر سکوں کہ وہ علی جو ہر میدان کا فاتح ہے، مگر اس نے اپنی فتح کا اعلان مسجد میں ضرب کھانے کے بعد کیا کہ:
فزت ورب الكعبة "رب کعبہ کی قسم میں (علی) کامیاب ہوگیا۔" جو آج بھی سوچنے والوں کے لیے ایک سوال ہے کہ وہ علی جو ہر میدان میں فاتح ہے، وہ مسجد اور محراب عبادت میں ہی کیوں کامیاب ہوا۔؟ ہاں وہ اتنا بہادر ہے کہ اس کی ایک ضرب ثقلین کی عبادت سے افضل ہے اور وہ آج بھی اتنے جلال کا مالک ہے کہ جب کوئی بہادر بہادری دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ در علی سے داد شجاعت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بے ساختہ زبان سے یاعلی مدد کا نعرہ لگاتا ہے۔
لیکن جس علی کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں، وہ فقط بہادر ہی نہیں بلکہ عالم اور باب العلم بھی ہے۔ جس کی دلیل دعویٰ سلونی ہے کہ قیامت تک کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ہر چیز کا علم رکھتا ہوں، تنہاء علی ہے کہ جنھوں نے فرمایا: ’’مجھ سے جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو، مجھ سے سوال کرو، قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو، کیونکہ میرے پاس اولین و آخرین کا علم ہے۔‘‘ لیکن وہ فقط عالم ہی نہیں بلکہ حکمت کا سمندر بھی ہے، جس کے موتی آج بھی دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں۔ جس کا فرمانا ہے کہ "حکمت مومن ہی کی گمشدہ چیز ہے، اسے حاصل کرو، اگرچہ منافق سے لینا پڑے" اور فرماتے ہیں کہ "دنیا میں عذاب خدا سے دو چیزیں باعث امان تھیں، ایک ان میں سے اٹھ گئی، مگر دوسری تمہارے پاس موجود ہے، لہٰذا اسے مضبوطی سے تھامے رہو۔ وہ امان جو اٹھالی گئی وہ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم تھے اور وہ امان جو باقی ہے وہ توبہ و استغفار ہے۔"
خیر ہم فقط ایک حکیم کا تذکرہ ہی نہیں کر رہے بلکہ ایک متقی اور زاہد کا بھی تذکرہ کر رہے ہیں، جس کا فرمانا ہے کہ ’’خدا کی قسم اگر (حجاب قدس کے) پردے ہٹا دیئے جائیں تو بھی میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا۔" یوں تو علی علیہ السلام ایک ہی وقت میں مزدور بھی ہیں اور حاکم بھی اور مزدوری میں اتنے ہی ایماندار ہیں کہ کافر لوگ بھی ان کی ایمانداری کی سند دیتے ہیں اور حاکم ایسے ہیں کہ حکومت کو اپنے پیوند لگے جوتے سے بھی کم تر جانتے ہیں۔ اگر عدالت علی کی مثال لیں تو فرماتے ہیں کہ ’’خدا کی قسم اگر مجھے سات اقلیم اس لئے دیئے جائیں کہ میں الله کی نافرمانی کرتے ہوئے چیونٹی کے منہ سے جو کا چھلکا چھین لوں تو میں ایسا نہیں کروں گا۔‘‘
مزید فرماتے ہیں کہ ’’خدا کی قسم اگر میرے لئے ایک مسند بچھائی جائے، اس پر بیٹھ کر میں توریت والوں کو (ان کی) توریت سے، انجیل والوں کو (ان کی) انجیل سے، اہل زبور کو (ان کی) زبور سے اور قرآن والوں کو (ان کے) قرآن سے فیصلے سناؤں، اس طرح کہ ان کتابوں میں سے ہر ایک کتاب بول اٹھے گی کہ پروردگارا علی (ع) کا فیصلہ تیرا فیصلہ ہے، خدا کی قسم میں قرآن اور اس کی تاویل کو ہر مدعی علم سے زیادہ جانتا ہوں، قرآن مجید کی آیت کے متعلق میں تمہیں یوم قیامت تک خبر دے سکتا ہوں‘‘
مولا علی ہر ایک کے لئے ایک سمندر ہیں، جس سے جو کوئی جو کچھ نکالنا چاہے نکال سکتا ہے۔ کائنات میں ایسی مثل لانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں بہادر، عالم، متقی، زاہد، حکیم اور وہ سب کچھ ہو، جو اساطیری کردار کے حامل خواب و خیال کے ہیرو میں ہوتی ہیں، یقیناً وہ تمام چیزیں علی میں ہیں، لیکن بدقسمتی سے آج بھی ہم علی کو پہچان نہیں پائے، ورنہ غیروں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ خوش نصیب ہے وہ قوم، جس میں علی جیسا عادل پیدا ہوا۔ حرف آخر آج بھی ہماری حالت حسنین اکبر کے اس شعر کی طرح ہے کہ
ایسے ہم ساقی کوثر کی طرف دیکھتے ہیں
جس طرح پیاسے سمندر کی طرف دیکھتے ہیں
تحریر: مہر عدنان حیدر
قدس فورس پسپائی پر مبنی سفارت کاری روکنے والا سب سے مؤثر عنصر ہے، آیت اللہ خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کی قدس فورس کو مغربی ایشیا میں پسپائی پر مبنی سفارت کاری کا سلسلہ روکنے والا سب سے مؤثر عنصر قرار دیتے ہوئے زور دیکر کہا کہ قدس فورس نے علاقے میں اسلامی جمہوریہ کی خود مختار اور پروقار پالیسی کو وجود عطا کیا۔ یوم شہادت حضرت علی علیہ السلام، یوم محنت کشاں اور یوم استاد کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی نے ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر والی اپنی تقریر میں اسلامی جمہوریہ ایران میں قدس فورس کے کردار کے بارے میں کہا کہ ان دنوں ملک کے بعض حکام سے ایسی باتیں سننے میں آئیں جو تعجب خیز اور افسوس ناک ہیں، ہم نے سنا کہ اسلامی جمہوریہ کے دشمن اور مخالف ذرائع ابلاغ نے ان باتوں کو نشر کیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ انسان یہ باتیں سن کر واقعی افسوس کرتا ہے، ان میں بعض باتیں دشمن کی معاندانہ باتیں ہیں، امریکہ کی باتوں کو دہرایا گيا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی تو برسوں سے علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اثر و رسوخ سے ناراض اور پریشان ہیں، اسی وجہ سے قدس فورس سے ناراض ہیں، اسی وجہ سے شہید سلیمانی سے بھی ناراض تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے شہید سلیمانی کو شہید کیا، جو چیز بھی علاقے میں اسلامی جمہوریہ کے فکری اثر و رسوخ کا سبب بنے وہ ان کی نظر میں بری ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے یاد دہانی کرائی کہ ملکی پالیسی کے پروگرام گوناگوں اقتصادی، عسکری، سماجی، علمی، ثقافتی پروگراموں نیز سفارتی روابط اور خارجہ تعلقات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ساری چیزیں مل کر کسی ملک کی پالیسی کے خدوخال طے کرتی ہیں،سارے شعبوں کو باہمی ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے اور ایک ساتھ آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اگر ایک شعبہ دوسرے شعبے کی نفی کرے اور دوسرا شعبہ اس پہلے شعبے کی نفی کرے تو یہ بے معنی ہے، یہ بہت بڑی غلطی ہے جو اسلامی جمہوریہ کے عہدیدار سے، اسلامی جمہوریہ کے عہدیداران سے سرزد نہیں ہونی چاہیئے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے قدس فورس کے کردار کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ واقعی قدس فورس مغربی ایشیا میں پسپائی پر مبنی سفارت کاری کا سلسلہ بند کرنے والا سب سے مؤثر عنصر ہے، قدس فورس نے مغربی ایشیا میں اسلامی جمہوریہ کی خود مختار پالیسی اور اسلامی جمہوریہ کی پروقار سیاست کو وجود عطا کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مغربی طاقتوں کی ضد ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کا رجحان ان کی طرف ہو اور وہ ان کے پرچم تلے آگے بڑھے وہ بھی فرمانبرداری کی شکل میں، کیونکہ برسوں تک یہی صورت حال تھی۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ قاجاریہ دور کے اواخر میں بھی اور اور پہلوی حکومت کی طولانی مدت کے دوران بھی ایران مغرب کی سیاست کے زیر تسلط تھا، اسلامی انقلاب نے ایران کو مغرب کے قبضے سے باہر کھینچ لیا جس کے بعد ان چالیس برسوں میں مغربی ممالک، یورپ اور امریکہ نے مستقل یہ کوشش کی کہ اس ملک پر ان کا پرانا تسلط بحال ہوجائے، اسی لئے آپ دیکھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ جب چین، روس اور اپنے ہمسایہ ممالک سے سیاسی و اقتصادی روابط قائم کرتا ہے تو انہیں بہت غصہ آتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ وہ ہمارے کمزور ہمسایہ ممالک پر دباؤ ڈالتے ہیں اور انہیں روکتے ہیں، ان چیزوں کا ہم خود مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مزید کہا کہ مجھے ایسی کئی مثالیں یاد ہیں کہ جب ہمارے ہمسایہ ممالک کے اعلیٰ رتبہ حکام ایران کا سفر کرنا چاہتے تھے اور امریکیوں نے جاکر ان کا دورہ کینسل کروا دیا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ مغربی طاقتیں ایران کی ہر طرح کی سفارتی سرگرمیوں کے خلاف ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ ایران ان کی اس خواہش کو دیکھ کر پسپائی اختیار نہیں کرسکتا، ہمیں خودمختاری کے ساتھ، باعزت طریقے سے اور پوری محنت اور بھرپور توانائی سے کام کرنا ہے اور علاقے میں یہی کام قدس فورس نے کیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس نکتے کا بھی ذکر کیا کہ دنیا میں کہیں بھی خارجہ پالیسی وزارت خارجہ میں وضع نہیں کی جاتی بلکہ ساری دنیا میں خارجہ پالیسی وزارت خارجہ سے بالاتر ادارے وضع کرتے ہیں اور ہمارے ملک میں وہ بالاتر ادارہ قومی سلامتی کی سپریم کونسل ہے، ان بالاتر اداروں میں ملک کے اعلی رتبہ حکام موجود ہوتے ہیں اور ملک کی خارجہ پالیسی وضع کرتے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ بے شک خارجہ پالیسی طے کرنے میں وزارت خارجہ کی بھی شرکت ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ فیصلے وزارت خارجہ کی سطح پر ہوتے ہوں، نہیں، وزارت خارجہ پر اجراء کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
ماہ رمضان المبارک؛شب قدر کے اعمال
انیسویں شب کی رات |
||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
یہ شب قدر کی راتوں میں سے پہلی رات ہے، شب قدر ایسی عظیم رات ہے کہ عام راتیں اس کی فضیلت کو نہیں پہنچ سکتیں کیونکہ اس رات کا عمل ہزارمہینوں کے عمل سے بہتر ہے۔ اسی رات تقدیر بنتی ہے اور روح کہ جو ملائکہ میں سب سے عظیم ہے وہ اسی رات پروردگار کے حکم سے فرشتوں کے ہمراہ زمین پر نازل ہوتا ہے۔یہ ملائکہ امام العصر (عج)کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ہر کسی کے مقدر میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی تفصیل حضرت(ع) کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ شب قدر کے اعمال دو قسم کے ہیں ۔ اعمال مشترکہ اور اعمال مخصوصہ ۔ اعمال مشترکہ وہ ہیں جو تینوں شب قدر میں بجالائے جاتے ہیں اور اعمال مخصوصہ وہ ہیں جو ہر ایک رات کے ساتھ مخصوص ہیں۔ اعمال مشترکہ میں چند امور ہیں: (۱)غسل کرنا اور علامہ مجلسی کافرمان ہے کہ غروب آفتاب کے نزدیک غسل کیا جائے اور نماز مغرب اسی غسل کے ساتھ ادا کی جائے۔ (۲)دورکعت نماز بجا لائے جس کی ہررکعت میں سورۃ الحمد کے بعد سات مرتبہ سورۃ توحید پڑھے ، بعد ازنماز ستر مرتبہ کہے:
|
||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حضرت رسول الله ﷺسے مروی ہے کہ ابھی وہ شخص اپنی جگہ سے اٹھا بھی نہ ہو گا کہ حق تعالی اس کے اور اس کے ماں باپ کے گناہ معاف کردے گا۔ (۳)قرآن کریم کو کھول کر اپنے سامنے رکھے اور کہے:
اس کے بعد جو حاجت چاہے طلب کرے (۴)قرآن پاک کو اپنے سرپر رکھے اور کہے:
|
||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|
||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
(۸)اول شب میں کئے ہو ئے غسل کے علاوہ آخر شب پھر غسل کرے اور واضح رہے کہ اس رات غسل ، شب بیداری ، زیارت امام حسین (ع)اور سورکعت نماز کی بہت زیادہ تاکید اور فضیلت ہے۔تہذیب الاسلام میں شیخ نے ابوبصیر کے ذریعے امام جعفر صادق (ع)سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: جس رات کے بارے میں یقین ہو کہ وہ شب قدر ہے تو اس میں سورکعت نماز اس طرح کہ ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورۃ توحید پڑھو۔ میں نے عرض کیا آپ پر قربان ہوجاؤں ! اگر یہ نماز کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکوں تو بیٹھ کر پڑھ لوں ؟ فرمایا اگر کھڑے ہونے کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھ سکتے ہو میں نے عرض کی اگر بیٹھ کر نہ پڑھ سکوں تو پھر کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا: بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتے ہو تو پشت کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔دعائم الاسلام میں روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول الله رمضان مبارک کے آخری عشرے میں اپنا بستر لپیٹ دیتے اور عبادت الہی میں مصروف ہو جاتے تئیسویں کی رات آپ اپنے اہل و عیال کو بیدار کرتے اور پھر جس پر نیند کا غلبہ ہوتا اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے دیتے۔ حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیھا)بھی اس رات اپنے گھر کے کسی فرد کو سونے نہ دیتیں ، نیند کا علاج یوں کرتیں کہ دن کو کھانا کم دیتیں اور فرماتیں کہ دن کو سو جاؤ تاکہ رات کو بیدار رہ سکو، آپ فرماتی ہیں کہ بدقسمت ہے وہ شخص جو آج کی رات خیرونیکی سے محروم رہ جائے۔ایک روایت میں آیا ہے کہ امام جعفر صادق (ع)سخت علیل تھے کہ تئیسویں رمضان کی رات آگئی آپ نے اپنے کنبے والوں اور غلاموں کو حکم دیا کہ مجھ کو مسجد لے چلو اور پھر آپ نے مسجد میں شب بیداری فرمائی علامہ مجلسی (علیہ الرحمہ) کا ارشاد ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس رات تلاوت قرآن کرے اور صحیفہ کاملہ کی دعائیں بالخصوص دعاء مکارم الاخلاق اور دعا توبہ پڑھے:نیز یہ کہ شب قدر کے دنوں کی عظمت وحرمت کا بھی خیال رکھے اور انمیں عبادت الہی اور تلاوت قرآن کرتا رہے، معتبر احادیث میں ہے کہ شب قدر کادن بھی رات کی طرح عظمت اور فضیلت کا حامل ہے۔ |
مسلمانوں کی ناقابلِ دفاع غلطی
اسلام ساری دنیا کے لئے اللہ کا آخری دین ہے۔ قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے، حضرت محمد رسول اللہﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں اور مسلمان بہترین امت ہیں۔ یہ بہترین امت اپنی محدود سوچ کی وجہ سے آج برائے نام بہترین رہ گئی ہے۔ مسلمان ایک طرف تو اسلام کو عالمین کے لئے ایک دین قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف اسلامی تعلیمات کو اپنی انتہائی چھوٹی سوچ کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ اسلام لانے کے بعد انسان کی فضیلت کی میزان فقط تقویٰ ہے اور دوسری طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رشتے داری کی بنیاد پر فضیلت کا اعلان کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اپنے اکابرین کی فضیلت یوں بیان کی جاتی ہے کہ جیسے نبی کا بیٹا، بیٹی، بیوی، ساس، سسر، داماد اور پوتا و نواسہ وغیرہ ہونا ہی باعث فضیلت ہے۔ ہماری اس محدود سوچ کی وجہ سے مستشرقین ہم پر تنقید کرتے ہیں اور منصف مزاج مسلمان بھی اس شک و تردید میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ نعوذ باللہ نبی اکرمﷺ بھی اپنوں کو نوازتے تھے، انہیں کے قصیدے پڑھتے تھے اور اُنہی کو دوسروں پر مقدم کرتے تھے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلامی اقدار کو ویسے ہی بیان کریں، جیسا کہ وہ ہیں۔ دینِ اسلام انسانوں کی تربیت و ہدایت اور کردار سازی کا دین ہے۔ اس دین میں جو حق پرست اور صاحب کردار ہے، وہی لائق تعظیم ہے۔ جو مومن و متقی ہے، چاہے جس نسل کا ہو، وہ بخارا کا ابوذر ؓ ہو یا مکے کا حمزہ ؓ ، یمن کا مقدادؓ ہو یا حبش کا بلالؓ ، قرن کا اویسؓ ہو یا حجاز کا عمار یاسرؓ، عرب کا حجر ابن عدی ہو یا عجم کا سلمانؓ۔۔۔ یہ سب اپنے اپنے کردار کی وجہ سے صاحب تعظیم ہیں نہ کہ نبی اکرمﷺ کی رشتے داری کی وجہ سے۔ کیا یہ سب ایک نسل سے ہیں؟ یہ جس نسل سے بھی تھے، ہم ان کی حق پرستی اور غیر متزلزل کردار کو سلام کرتے ہیں اور ان کے دشمنوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اگر کوئی اسلام لانے کے بعد کردار کو کسی نسل کی میراث سمجھتا ہے تو وہ اسلام اور کردار دونوں کو نہیں سمجھا۔
اصل غلط فہمی یہ ہے کہ اہل بیت اور صحابہ کرام ؓ دونوں کے بارے بارے میں غلط تبلیغ کی گئی ہے۔ لوگوں کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ نبیﷺ کے اہل بیت کی فضیلت یہ ہے کہ یہ نبی ؐ کے گھر اور خاندان والے ہیں۔ اسی طرح صحابہ کو اس لئے فضیلت ہے کہ یہ نبی ؐ کے ساتھ والے ہیں۔ یہ دونوں غلط نظریات ہیں۔ نہ نبی (ص) کے گھر اور خاندان والوں میں سے ہونے کی وجہ سے سے کوئی صاحب فضیلت ہوتا ہے اور نہ ہی نبی کریمﷺ کے ساتھ ملنے ملانے کی وجہ سے۔ جو نبی (ص) کا جتنا مطیع اور فرمانبردار ہے، وہ اتنا ہی بافضیلت ہے، چاہے گھر اور خاندان سے ہو اور چاہے ملنے ملانے اور ساتھ رہنے والوں سے۔ نبی کے افرادِ خانہ میں سے ہونا یا نبی کے ساتھ میں ہونا یہ افراد کی شناخت ہے، اُن کی فضیلت نہیں ہے۔ مثلاً اگر ہم سے کوئی پوچھے کہ فلاں شخص کون ہے؟ تو ہم اس کے تعارف کے لئے بتاتے ہیں کہ یہ ہمارا اپنا ہے، ہمارے گھر کا فرد ہے، ہمارا داماد ہے، ہمارا بیٹا ہے، ہمارا کلاس فیلو ہے، ہمارا خادم اور غلام ہے۔۔۔ ان چیزوں سے تعارف ہوتا ہے، ان میں فضیلت نہیں ہوتی۔
اب مسلمانوں نے انہی چیزوں کو فضیلت کی میزان خیال کیا اور پھر انہی رشتوں اور رشتے داریوں کے ساتھ چپک گئے۔ اب رشتوں سے چپکنے کے لئے نبی کی بیٹیوں کی تعداد، دامادوں کی تعداد، ساس و سسر کے فضائل و تعداد و فلاں فلاں۔۔ حتی کہ اگر نبیﷺ نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی ؑ اس کا دروازہ ہیں تو یہ شہر کی بھی چھت اور روشندان گھڑ کر لے آئے۔ مسلمانوں نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ نبی اکرمﷺ نے یہ جو حضرت علی کی فضیلت بیان کی ہے، یہ چچا زاد بھائی یا داماد ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ واقعتاً علم میں حضرت علی کا یہی مقام و مرتبہ ہے۔ واضح رہے کہ نبی اکرمﷺ رشتے داری کی بنیاد پر حضرت علی کے فضائل بیان نہیں کرتے تھے۔ ایسا کرنا مقام رسالت و نبوت کے خلاف ہے۔ نبی کریمﷺ اسی چیز کا اعلان کرتے تھے، جو حقیقت میں ویسی ہوتی تھی۔ یوں نہیں ہے کہ نبی اکرمﷺ رشتے داری کی بنیاد پر حضرت علی ؑکو بہادر اور شجاع کہتے تھے، یا میدان غدیر میں "من کنت مولا فھذا علی مولا" کا اعلان رشتے دار و داماد اور چچا زاد ہونے کی بنیاد پر تھا بلکہ یہ سارے اعزازات و فضائل حضرت علی ؑ نے کسب کئے تھے اور پیغمبرؐ نے ان کا اعلان کیا تھا۔
قطعاً ایسا نہیں تھا کہ دعوت ذوالعشیر میں حضرت علی ؑ خاموش بیٹھے رہے تھے۔ اسلام کی پہلی دعوت تبلیغ میں جب نبی اکرمﷺ نے یہ اعلان کیا کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اور میں اس کا رسول ہوں، آج کے دن جو میری تصدیق کرے گا، وہ میرا جانشین بھی ہوگا اور وصی بھی، اس اعلان کے بعد یوں نہیں ہوا کہ حضرت علی ؑ بھی بغیر تصدیق کے خاموش بیٹھے رہے اور پھر بعد میں جب پیغمبر ؐ نے انہیں اپنی بیٹی دے کر داماد بنا لیا اور اس کے بعد ایک دم میدانِ غدیر میں یہ اعلان کر دیا کہ جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی ؑ مولا ہے، لہذا آو علیؐ کی بیعت کرو۔ عقل و منطق اور تاریخ سے ہٹ کر بھی جو آدمی ختمِ نبوت پر ایمان رکھتا ہے، وہ یہ بھی ایمان رکھتا ہے کہ نبی اکرم ؑ نے حضرت علی ؑکے جتنے فضائل بیان کئے، وہ رشتے داری کی وجہ سے نہیں تھے بلکہ امام علیؑ حقیقت میں ایسے ہی تھے۔
اب رہی یہ بات کہ پیغمبر (ص) نے اپنے اہل بیت (ع) کی فضیلت کیوں بیان کی!؟ اگر کوئی دل سے سمجھنا چاہے تو یہ واضح ہے کہ پیغمبر (ص) نے ان افراد کی (علیؑ و فاطمہ سلام اللہ علیہا و حسن ؑ و حسین ؑ) کی خود اپنے ہاتھوں سے اور اپنی آغوش میں تربیت کی تھی۔ یہ پیغمبر کی تربیت کے شہکار تھے اور پیغمبر (ص) ان کے وجود میں اپنی تربیت کے جوہر دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ پیغمبرﷺ ان کی تربیت کی وجہ سے ان کی فضیلت بیان کرتے تھے نہ کہ اقربا پروری کی وجہ سے. پیغمبر نے ان کی جتنی بھی فضیلتیں بیان کیں، وہ پیغمبرﷺ کی سچی پیشین گوئیاں ثابت ہوئیں اور بعد ازاں ان شخصیات نے بھی اپنے کردار سے ثابت کیا کہ اللہ کے آخری اور صادق نبیﷺ نے ان کے بارے میں جو کچھ کہا، وہ رشتے داری کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ عین حقیقت پر مبنی تھا۔ اس میں کہیں بھی نسلی تعصب یا رشتے داری کا شائبہ تک نہیں۔
اگر رشتے ناطے باعث نجات ہوتے تو پیغمبرﷺ کی بیٹی فاطمہ ؑ نمازیں نہ پڑھتیں اور روزے نہ رکھتیں۔۔۔۔ امام علی (ع) جب نماز پڑھتے تھے تو آنسووں سے آپ کی داڑھی تر ہو جاتی تھی۔۔۔۔ امام حسن (ع) جب مصلی عبادت پر کھڑے ہوتے تھے تو خوف خدا سے آپ کا رنگ زرد ہو جاتا تھا۔۔۔۔ حضرت امام حسین عبادتِ خدا میں طولانی سجدے کرتے تھے۔۔۔ کیا یہ اطاعت ِخدا و رسولﷺ ہے یا نسل پرستی اور اقربا پروری۔۔۔ کیا ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ کہا یا ہمارے نبی کریمﷺ نے کبھی یہ کہا کہ بس رشتے داری کام دکھائے گی. دوسری طرف صحابہ کرام کو بھی نہیں سمجھا گیا۔ وہاں بھی پیغمبرﷺ کی اطاعت اور تربیت کے بجائے ہم نے خود سے معیار بنا لئے اور کردار کے بجائے وہاں بھی خالہ و خالو اور ساس و سسر اور ماموں و ممانی۔۔۔ جیسے رشتوں وغیرہ کے نام لے کر ہر قسم کے لوگوں کے فضائل لکھے بھی گئے اور بیان بھی کئے گئے، یوں رشتے داروں کے فضائل گھڑ کر صحابہ کرام ؓ کی توہین کی گئی۔
جب آپ رسول کے غیر مطیع افراد کو رشتے دار ہونے کی وجہ سے صحابہ کرام میں شام کریں گے تو اس سے نبی اکرمﷺ کے مطیع صحابہ کرام کی حق تلفی، توہین اور امت کی گمراہی کا دروازہ کھل جائے جائے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے بعد صرف نبی کی اطاعت و تربیت ہی معیار فضیلت ہے، باقی رشتے ناطے باعث نجات نہیں ہیں۔ نبی اکرمﷺ نے بھی اہل بیت کے جو فضائل بیان کئے ہیں، وہ اہلیت و حقیقت کے ترجمان ہیں، نہ کہ رشتے داری کی وجہ سے ہیں۔ صحابہ کرام کو بھی نبی اکرمﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی وجہ سے ہی تقدس و شرف حاصل ہے، نہ کہ رشتوں و ناطوں کی وجہ سے۔ مقامِ ختمِ نبوت کے خلاف ہے کہ کسی میں ایک فضیلت و خوبی اور اہلیت نہ ہو اور نعوذ باللہ نبی اکرمﷺ اُس کے لئے اپنی رشتے داری کی وجہ سے وہ فضیلت بیان کر دیں۔
تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
فلسطین میں پارلیمانی انتخابات ملتوی ہونے پر عوامی احتجاج
فلسطین کے صدر محمود عباس نے 15 برس کے دوران ہونے والے پہلے پارلیمانی انتخابات انعقاد سے کچھ وقت پہلے ہی ملتوی کردیئےجس کے بعد فلسطینی عوام نے احتجاج شروع کردیا ہے۔ ادھر فلسطینی تنظیم حماس نے صدر محمود عباس کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔فلسطینی صدر محمود عباس نے اعلان کیا کہ ملک میں 22 مئی کو ہونے والے قانون ساز فورم کے انتخابات کو آئندہ اطلاع تک ملتوی کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت تک انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب تک کہ مشرقی مقبوضہ بیت المقدس کے فلسطینی عوام کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ادھر فلسطینی عوام نے صدر کے اس فیصلے پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کیا ہے۔
ایران خطے میں اسرائیل کی موجودگی کو برداشت نہیں کرےگا
مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے سابق وزير دفاع اور قومی دفاع یونیورسٹی کے سربراہ جنرل احمد وحیدی نے کہا ہے کہ خطے میں غاصب صہیونی حکومت کی عسکری اور غیر عسکری موجودگی کو برداشت نہیں کیا جائےگا۔
جنرل احمد وحیدی نے آج صبح " خلیج فارس ہمارا گھر" کے عنوان سے منعقد سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خلیج فارس پر توجہ کا مسئلہ خاص اہمیت کا حامل مسئلہ ہے۔ خلیج فارس ہمارا گھر ہے اور ہم اپنے گھر کی سلامتی کو کسی بھی قیمت میں خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ علاقہ ہمارا گھر ہے جس میں وسیع ظرفیتیں موجود ہیں اور ہم باہمی تعاون کے ساتھ ان ظرفیتوں سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ خلیج فارس میں غیر علاقائي طاقتوں کی موجودگی سے خلیج فارس کے امن و اماں اور سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ غیر علاقائی طاقتیں علاقائي ممالک میں اختلاف کا سبب ہیں۔ اسرائيل خطے میں شرارت اور بد امنی کا اصلی محور ہے اور اسرائيل کی خطے میں موجودگی کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جائےگا۔ انھوں نے کہا کہ ایران علاقائی ممالک کے ساتھ قریبی تعاون کا خواہاں ہے۔
صفات اولیاء الٰہی
حدیث :
عن انس بن مالک قال:قالوا:یارسول اللّٰه ،من اولیاء اللّٰه الذین لا خوف علیهم ولاهم یحزنون؟فقال :الذین نظروا الیٰ باطن الدنیاحین نظرالناس الیٰ ظاهرها،فاهتموا بآجلها حین اهتم الناس بعاجلها،فآمتوا منها ما خشوا ان یمیتهم ،وترکوا منها ما علموا عن سیترکهم فما عرض لهم منها عارض الا رفضوه،ولا خادعهم من رفعتها خادع الا وضعوه،خلقت الدنیا عندهم فما یجددونها،وحربت بینهم فما یعمرونها،وما تت فی صدورهم فما یحبونها،بل یهدمونها فیبنون بها آخرتهم ،ویبیعونها فیشترون بها ما یبقیٰ لهم ،نظروا الیٰ اهلها سرعی قد حلت بهم المثالات ،فما یرون اماناً دون ما یرجون،ولا خوفاً دون ما یحذرون [1]
ترجمہ :
انس ابن مالک نے روایت کی ہے کہ پیغمبر سے پوچھا گیا کہ اے الله کے رسول، الله کے دوست (جن کو نہ کوئی غم ہے ا ور نہ ہی کوئی خوف)کون لوگ ہیں؟آپ نے فرمایا:” یہ لوگ وہ ہیں جب دنیا کے ظاہر کو دیکھتے ہیں تو ا سکے باطن کو بھی دیکھ لیتے ہیں،اسی طر ح جب لوگ اس دوروزہ دنیا کے لئے محنت کرتے ہیں تو اس وقت وہ آخرت کے لئے کوشش کرتے ہیں،بس وہ دنیا کی محبت کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اس لئے کہ وہ ڈرتے ہیں کہ دنیا ان کی ملکوتی اور قدسی جان کو تباہ کردے گی،اور اس سے پہلے کہ دنیا ان کو توڑے وہ دنیا کو توڑدیتے ہیں ،وہ دنیا کو ترک کردیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا انھیں جلد ہی ترک کردے گی،وہ دنیا کی تمام چمک دمک کو ردکردیتے ہیں اور اس کے جال میں نہیں پھنستے،دنیا کے نشیب و فراز ان کو دھوکہ نہیں دتیے بلکہ وہ لوگ تو ایسے ہیں جو بلندیوں کو نیچے کھینچ لاتے ہیں ان کی نظر میں دنیا پرانی اورویران ہے لہٰذا وہ اس کو دوبارہ آباد نہیں کرتے ،ان کے دلوں سے دنیا کی محبت نکل چکی ہے لہٰذا وہ دنیا کوپسند نہیں کرتے بلکہ وہ تو دنیا کو ویرا ن کرتے ہیںاور پھر اس ویرانہ میں ابدی (ہمیشہ باقی رہنے والا)مکان نباتے ہیں،اس ختم ہونے والی دنیا کو بینچ کر ہمیشہ باقی رہنے والے جہان کو خریدتے ہیں،جب وہ دنیا پرستوں کودیکھتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خاک پر پڑے ہیں اور عذاب الٰہی میں گرفتار ہیں،وہ اس دنیا میں کسی بھی طرح کاامن و امان محسوس نہیں کرتے وہ تو فقط الله اور آخرت سے لو لگائے ہیں اور صرف الله کی ناراضگی اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔
حدیث کی شرح :
غم اور خوف میں فرق:غم اور خوف کے فرق کے بارے میںمعمولاً یہ کہا جاتا ہے کہ خوف مستقبل سے اور غم ماضی سے وابستہ ہے۔اس حدیث میں ایک بہت اہم سوال کیا گیا ہے جس کے بارے میں غوروفکر ضروری ہے ۔پوچھاگیا ہے کہ اولیاء الٰہی جو کہ نہ مستقبل سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی ماضی سے غمگین ہیں کون افراد ہیں؟ حضرت نے اولیاء الٰہی کو پہچنوایتے ہوے ارشاد فرمایاکہ” اولیاء الٰہی کی بہت سی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دنیاپرستوں کے مقابلے میں باطن کو دیکھتے ہیں ۔قرآن کہتا ہے کہ دنیا پرست افراد آخرت سے غافل ہیں یعلمون ظاهراً من الحیاة الدنیا وهم عن الآخرة غافلون [2]اگر وہ کسی کو کوئی چیز دیتے ہیں تو حساب لگا کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں نقصان ہوگیاہے ،ہمارا سرمایہ کم ہوگیا ہے [3] لیکن باطن کو دیکھنے والے افراد ایک دوسرے انداز میں سوچتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ مثل الذین ینفقون اموالهم فی سبیل اللهکمثل حبة انبتت سبع سنابل فی کل سنبلة مآئة حبةوالله یضاعف لمن یشاء والله واسع علیم [4] جو لوگ اپنے مال کو الله کی راہ میں خرچ کرتے ہیں (انکا وہ مال) اس بیج کی مانند ہیں جس سے سات بالیاں نکلتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں اور الله جس کے لئے بھی چاہتا ہے اس کو دوگنا یا کئی گنا زیادہ کردیتا ہے الله (رحمت اور قدرت کے اعتبار سے وسیع) اور ہر چیز سے دانا تر ہے۔
جو دنیا کے ظاہر کو دیکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر سود لیں گے تو ہمارا سرمایہ زیادہ ہو جائے گا لیکن جو باطن کو دیکھنے والے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہی نہیں کہ زیادہ نہیں ہوگا بلکہ کم بھی ہو جائے گا ۔قرآن نے اس بارے میں دلچسپ تعبیر پیش کی ہے یمحق الله الربوا ویربی الصدقات والله لا یحب کل کفارا اثیم [5] الله سود کو نابود کرتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور الله کسی بھی ناشکرے او ر گناہگار انسان کو دوست نہیں رکھتا۔
جب انسان دقت کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ جس سماج میں سود رائج ہوتا ہے وہ سماج آخر کار فقر و فاقہ اور ناامنی میں گرفتا ر ہو جاتا ہے لیکن اسی کے مقابلے میں جس سماج میں آپسی مدد اور انفاق کا وجود پایا جاتاہے وہ کامیاب اور سربلند رہتاہے ۔
انقلاب سے پہلے حج کے زمانے میں اخبار اس خبر سے بھرے پڑے تھے کہ حج انجام دینے کے لئے مملکت کا پیسہ باہر کیوںلے جاتے ہو؟ کیونکہ وہ فقط ظاہر کو دیکھ رہے تھے لہٰذا اس بات کو درک نہیں کر رہے تھے کہ یہ چند ہزار ڈالر جو خرچ ہوتے ہیں اس کے بدلے میں حاجی لوگ اپنے ساتھ کتنا زیادہ معنوی سرمایہ ملک میں لاتے ہیں ۔یہ حج اسلام کی عظمت ہے اور مسلمانوں کی وحدت و عزت کو اپنے دامن میں چھپائے ہے کتنے اچھے ہیں وہ دل جو وہاں جاکر پاک وپاکیزہ ہو جاتے ہیں ۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس دنیا کی دو دن کی زندگی کے لئے لوگ کتنی محنت کرتے جبکہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس محنت کا سکھ بھی نصیب ہوگا یانہیں مثال کے طور پر تہران میں ایک انسان نے ایک گھر بنایا تھا جس کی نقاشی میں ہی صرف ڈیڑھ سال لگ گیا تھا ،لیکن وہ بیچارہ اس مکان سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا، بعد میں فقط اس گھر میں اس کا چہلم منایا گیا۔ اس دنیاکے لئے جس میں چار روز زندہ رہنا ہے کتنی زیادہ بھاگ دوڑ کی جاتی ہے لیکن اخروی زندگی کے لئے کوئی کام نہیں کیا جاتا اس کی کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے ۔
یہ حدیث اولیاء الٰہی کے صفات کا مجموعہ ہے۔اگر ان صفات کو جمع کرنا چاہیں تو ان کا خلاصہ ان تین حصوں میں ہو سکتا ہے :
1. اولیاء الٰہی دنیا کو اچھی طرح پہچانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ چند روزہ اور نابود ہونے والی ہے ۔
2. وہ کبھی بھی اس کی رنگینیوں کے جال میںنہیں پھنستے ہیں اور نہ ہی اس کی چمک دمک سے دھوکہ کھاتے ہیں۔کیونکہ وہ اس کو اچھی طرح جانتے ہیں
3. وہ دنیا سے صرف ضرروت کے مطابق ہی استفادہ کرتے ہیں،وہ فنا ہونے والی دنیا میں رہ کر ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت کے لئے کام کرتے ہیں،وہ دنیا کوبینچتے ہیں اور آخرت کو خریدتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ الله نے کچھ لوگوں کو بلند مقام پر پہونچایا ہے ۔سوال یہ ہے کہ انھوںنے یہ بلند مقام کیسے حاصل کیا؟جب ہم غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ وہ افراد ہیں جو اپنی عمر سے صحیح فائدہ اٹھاتے ہیں ،اس خاک سے آسمان کی طرف پرواز کرتے ہیں ،پستی سے بلندی پر پہونچتے ہیں ۔حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہمالسلام نے جنگ خندق کے دن ایک ایسی ضربت لگائی جو قیامت تک جن و انس کی عبادت سے برتر ہے۔”ضربة علی یوم الخندق اٴفضل من عبادة الثقلین“ کیونکہ اس دن کل ایمان کل کفر کے مقابلے میں تھا ۔بحارالانوار میں ہے کہ ”برز الایمان کلہ الیٰ کفر کلہ“علی علیہ السلام کی ایک ضربت کا جن و انس کی عبادت سے برتر ہونا تعجب کی بات نہیں ہے ۔
اگر ہم ان مسائل پر اچھی طرح غورکریں تو دیکھیں گے کہ کربلا کے شہیدوں کی طرح کبھی کبھی آدھے دن میں بھی فتح حاصل کی جاسکتی ہے ۔اس وقت ہم کو اپنی عمر کے قیمتی سرمایہ کی قدر کرنی چاہئے اور اولیاء الٰہی (کہ جن کے بارے میں قرآن میںبھی بحث ہوئی ہے ) کی طرح ہم کو بھی دنیاکو اپنا ہدف نہیں بنانا چاہئے۔
——————————————————————————–
[1] بحارالانوار ،ج/ ۷۴ ص/ ۱۸۱
[2] سورہ روم آیہ/ ۷
[3] پیغمبر اسلام (ص) کی حدیث میں ملتا ہے کہ ”اغفل الناس من لم یتعظ بتغیر الدنیا من حال الیٰ “ سب سے زیادہ غافل وہ لوگ ہیں جو دنیا کے بدلاؤس سے عبرت حاصل نہ کرے اور دن رات کے بدلاؤ کے بارے میں غوروفکر نہ کرے ۔(تفسیر نمونہ،ج/ ۱۳ ص/ ۱۳ )
[4] سورہٴ بقرة آیہ/ ۲۶۱
[5] سورہٴ بقرة آیہ:
حدیث :
عن انس بن مالک قال:قالوا:یارسول اللّٰه ،من اولیاء اللّٰه الذین لا خوف علیهم ولاهم یحزنون؟فقال :الذین نظروا الیٰ باطن الدنیاحین نظرالناس الیٰ ظاهرها،فاهتموا بآجلها حین اهتم الناس بعاجلها،فآمتوا منها ما خشوا ان یمیتهم ،وترکوا منها ما علموا عن سیترکهم فما عرض لهم منها عارض الا رفضوه،ولا خادعهم من رفعتها خادع الا وضعوه،خلقت الدنیا عندهم فما یجددونها،وحربت بینهم فما یعمرونها،وما تت فی صدورهم فما یحبونها،بل یهدمونها فیبنون بها آخرتهم ،ویبیعونها فیشترون بها ما یبقیٰ لهم ،نظروا الیٰ اهلها سرعی قد حلت بهم المثالات ،فما یرون اماناً دون ما یرجون،ولا خوفاً دون ما یحذرون [1]
ترجمہ :
انس ابن مالک نے روایت کی ہے کہ پیغمبر سے پوچھا گیا کہ اے الله کے رسول، الله کے دوست (جن کو نہ کوئی غم ہے ا ور نہ ہی کوئی خوف)کون لوگ ہیں؟آپ نے فرمایا:” یہ لوگ وہ ہیں جب دنیا کے ظاہر کو دیکھتے ہیں تو ا سکے باطن کو بھی دیکھ لیتے ہیں،اسی طر ح جب لوگ اس دوروزہ دنیا کے لئے محنت کرتے ہیں تو اس وقت وہ آخرت کے لئے کوشش کرتے ہیں،بس وہ دنیا کی محبت کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اس لئے کہ وہ ڈرتے ہیں کہ دنیا ان کی ملکوتی اور قدسی جان کو تباہ کردے گی،اور اس سے پہلے کہ دنیا ان کو توڑے وہ دنیا کو توڑدیتے ہیں ،وہ دنیا کو ترک کردیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا انھیں جلد ہی ترک کردے گی،وہ دنیا کی تمام چمک دمک کو ردکردیتے ہیں اور اس کے جال میں نہیں پھنستے،دنیا کے نشیب و فراز ان کو دھوکہ نہیں دتیے بلکہ وہ لوگ تو ایسے ہیں جو بلندیوں کو نیچے کھینچ لاتے ہیں ان کی نظر میں دنیا پرانی اورویران ہے لہٰذا وہ اس کو دوبارہ آباد نہیں کرتے ،ان کے دلوں سے دنیا کی محبت نکل چکی ہے لہٰذا وہ دنیا کوپسند نہیں کرتے بلکہ وہ تو دنیا کو ویرا ن کرتے ہیںاور پھر اس ویرانہ میں ابدی (ہمیشہ باقی رہنے والا)مکان نباتے ہیں،اس ختم ہونے والی دنیا کو بینچ کر ہمیشہ باقی رہنے والے جہان کو خریدتے ہیں،جب وہ دنیا پرستوں کودیکھتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خاک پر پڑے ہیں اور عذاب الٰہی میں گرفتار ہیں،وہ اس دنیا میں کسی بھی طرح کاامن و امان محسوس نہیں کرتے وہ تو فقط الله اور آخرت سے لو لگائے ہیں اور صرف الله کی ناراضگی اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔
حدیث کی شرح :
غم اور خوف میں فرق:غم اور خوف کے فرق کے بارے میںمعمولاً یہ کہا جاتا ہے کہ خوف مستقبل سے اور غم ماضی سے وابستہ ہے۔اس حدیث میں ایک بہت اہم سوال کیا گیا ہے جس کے بارے میں غوروفکر ضروری ہے ۔پوچھاگیا ہے کہ اولیاء الٰہی جو کہ نہ مستقبل سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی ماضی سے غمگین ہیں کون افراد ہیں؟ حضرت نے اولیاء الٰہی کو پہچنوایتے ہوے ارشاد فرمایاکہ” اولیاء الٰہی کی بہت سی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دنیاپرستوں کے مقابلے میں باطن کو دیکھتے ہیں ۔قرآن کہتا ہے کہ دنیا پرست افراد آخرت سے غافل ہیں یعلمون ظاهراً من الحیاة الدنیا وهم عن الآخرة غافلون [2]اگر وہ کسی کو کوئی چیز دیتے ہیں تو حساب لگا کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں نقصان ہوگیاہے ،ہمارا سرمایہ کم ہوگیا ہے [3] لیکن باطن کو دیکھنے والے افراد ایک دوسرے انداز میں سوچتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ مثل الذین ینفقون اموالهم فی سبیل اللهکمثل حبة انبتت سبع سنابل فی کل سنبلة مآئة حبةوالله یضاعف لمن یشاء والله واسع علیم [4] جو لوگ اپنے مال کو الله کی راہ میں خرچ کرتے ہیں (انکا وہ مال) اس بیج کی مانند ہیں جس سے سات بالیاں نکلتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں اور الله جس کے لئے بھی چاہتا ہے اس کو دوگنا یا کئی گنا زیادہ کردیتا ہے الله (رحمت اور قدرت کے اعتبار سے وسیع) اور ہر چیز سے دانا تر ہے۔
جو دنیا کے ظاہر کو دیکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر سود لیں گے تو ہمارا سرمایہ زیادہ ہو جائے گا لیکن جو باطن کو دیکھنے والے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہی نہیں کہ زیادہ نہیں ہوگا بلکہ کم بھی ہو جائے گا ۔قرآن نے اس بارے میں دلچسپ تعبیر پیش کی ہے یمحق الله الربوا ویربی الصدقات والله لا یحب کل کفارا اثیم [5] الله سود کو نابود کرتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور الله کسی بھی ناشکرے او ر گناہگار انسان کو دوست نہیں رکھتا۔
جب انسان دقت کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ جس سماج میں سود رائج ہوتا ہے وہ سماج آخر کار فقر و فاقہ اور ناامنی میں گرفتا ر ہو جاتا ہے لیکن اسی کے مقابلے میں جس سماج میں آپسی مدد اور انفاق کا وجود پایا جاتاہے وہ کامیاب اور سربلند رہتاہے ۔
انقلاب سے پہلے حج کے زمانے میں اخبار اس خبر سے بھرے پڑے تھے کہ حج انجام دینے کے لئے مملکت کا پیسہ باہر کیوںلے جاتے ہو؟ کیونکہ وہ فقط ظاہر کو دیکھ رہے تھے لہٰذا اس بات کو درک نہیں کر رہے تھے کہ یہ چند ہزار ڈالر جو خرچ ہوتے ہیں اس کے بدلے میں حاجی لوگ اپنے ساتھ کتنا زیادہ معنوی سرمایہ ملک میں لاتے ہیں ۔یہ حج اسلام کی عظمت ہے اور مسلمانوں کی وحدت و عزت کو اپنے دامن میں چھپائے ہے کتنے اچھے ہیں وہ دل جو وہاں جاکر پاک وپاکیزہ ہو جاتے ہیں ۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس دنیا کی دو دن کی زندگی کے لئے لوگ کتنی محنت کرتے جبکہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس محنت کا سکھ بھی نصیب ہوگا یانہیں مثال کے طور پر تہران میں ایک انسان نے ایک گھر بنایا تھا جس کی نقاشی میں ہی صرف ڈیڑھ سال لگ گیا تھا ،لیکن وہ بیچارہ اس مکان سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا، بعد میں فقط اس گھر میں اس کا چہلم منایا گیا۔ اس دنیاکے لئے جس میں چار روز زندہ رہنا ہے کتنی زیادہ بھاگ دوڑ کی جاتی ہے لیکن اخروی زندگی کے لئے کوئی کام نہیں کیا جاتا اس کی کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے ۔
یہ حدیث اولیاء الٰہی کے صفات کا مجموعہ ہے۔اگر ان صفات کو جمع کرنا چاہیں تو ان کا خلاصہ ان تین حصوں میں ہو سکتا ہے :
1. اولیاء الٰہی دنیا کو اچھی طرح پہچانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ چند روزہ اور نابود ہونے والی ہے ۔
2. وہ کبھی بھی اس کی رنگینیوں کے جال میںنہیں پھنستے ہیں اور نہ ہی اس کی چمک دمک سے دھوکہ کھاتے ہیں۔کیونکہ وہ اس کو اچھی طرح جانتے ہیں
3. وہ دنیا سے صرف ضرروت کے مطابق ہی استفادہ کرتے ہیں،وہ فنا ہونے والی دنیا میں رہ کر ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت کے لئے کام کرتے ہیں،وہ دنیا کوبینچتے ہیں اور آخرت کو خریدتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ الله نے کچھ لوگوں کو بلند مقام پر پہونچایا ہے ۔سوال یہ ہے کہ انھوںنے یہ بلند مقام کیسے حاصل کیا؟جب ہم غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ وہ افراد ہیں جو اپنی عمر سے صحیح فائدہ اٹھاتے ہیں ،اس خاک سے آسمان کی طرف پرواز کرتے ہیں ،پستی سے بلندی پر پہونچتے ہیں ۔حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہمالسلام نے جنگ خندق کے دن ایک ایسی ضربت لگائی جو قیامت تک جن و انس کی عبادت سے برتر ہے۔”ضربة علی یوم الخندق اٴفضل من عبادة الثقلین“ کیونکہ اس دن کل ایمان کل کفر کے مقابلے میں تھا ۔بحارالانوار میں ہے کہ ”برز الایمان کلہ الیٰ کفر کلہ“علی علیہ السلام کی ایک ضربت کا جن و انس کی عبادت سے برتر ہونا تعجب کی بات نہیں ہے ۔
اگر ہم ان مسائل پر اچھی طرح غورکریں تو دیکھیں گے کہ کربلا کے شہیدوں کی طرح کبھی کبھی آدھے دن میں بھی فتح حاصل کی جاسکتی ہے ۔اس وقت ہم کو اپنی عمر کے قیمتی سرمایہ کی قدر کرنی چاہئے اور اولیاء الٰہی (کہ جن کے بارے میں قرآن میںبھی بحث ہوئی ہے ) کی طرح ہم کو بھی دنیاکو اپنا ہدف نہیں بنانا چاہئے۔
——————————————————————————–
[1] بحارالانوار ،ج/ ۷۴ ص/ ۱۸۱
[2] سورہ روم آیہ/ ۷
[3] پیغمبر اسلام (ص) کی حدیث میں ملتا ہے کہ ”اغفل الناس من لم یتعظ بتغیر الدنیا من حال الیٰ “ سب سے زیادہ غافل وہ لوگ ہیں جو دنیا کے بدلاؤس سے عبرت حاصل نہ کرے اور دن رات کے بدلاؤ کے بارے میں غوروفکر نہ کرے ۔(تفسیر نمونہ،ج/ ۱۳ ص/ ۱۳ )
[4] سورہٴ بقرة آیہ/ ۲۶۱
[5] سورہٴ بقرة آیہ:
آسمان امامت کے دوسرے ستارے امام حسن مجتبیٰ (ع) کی زندگی پر ایک نظر
فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان خود سے متعلق چیزوں اور اپنے عزیزوں سے زیادہ محبت کرتا ہے اور اس میں کبھی کبھی حد سے بھی بڑھ بھی جاتا ہے، خصوصاً جب انسان کے نفس کی تربیت نہ ہوئی ہو تو اپنے عزیز اور محبوب کا ہر عمل بھلا لگتا ہے، اگرچہ اصولوں اور قوانین کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ پس کسی کے لئے ہم جیسے عام انسان کی تائید، تصدیق اور تشویق زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، چونکہ ہم اکثر اپنے احساسات و عواطف اور جذبات سے متاثر ہوتے ہیں، لیکن تاریخ میں ایسی ہستیاں بھی گزری ہیں، جنہوں نے کبھی بھی کوئی بات جذبات، احساسات اور عواطف کی بنیاد پر نہیں کہی، ان میں سے ایک ہستی ایسی بھی ہے، جب کسی سے اظہار محبت کرتی ہے اور حد سے زیادہ چاہت دکھاتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتی، ان کی محبت اور دشمنی ہمیشہ خدا کے لئے ہوتی ہے۔
تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ *مَایَنطَقُ عَنِ الھَوَا اِن ھُوَ اَلاَّ وَحیٍ یُّوحَی* کی مالک شخصیت جب کسی ہستی سے اتنی محبت کا اظہار کرتی ہے تو یقیناً انسانی جذبات اور احساسات سے ہٹ کر یہ عمل انجام دے رہی ہوتی ہے، جس کا اظہار وہ خود اپنے بہت سے فرامین میں کرچکی ہے، جس میں اپنے لاڈلوں سے اظہار محبت ہمیشہ کچھ معمول سے ہٹ کر کیا ہے، کبھی حسنین شریفین کے لئے ناقہ بنتے نظر آئے تو کبھی خطبہ دینے کے دوران منبر سے اتر کر ان کو اپنی گود میں لیتے تو کبھی فرامین کے ذریعے دنیا والوں کو ان کی اہمیت اور شخصیت بتانے کی کوشش کی۔ ان ہستیوں کی طہارت اور اہمیت کی گواہی قرآن نے دی ہے، لیکن اس کے باوجود امت مسلمہ نے آپ کے جانے کے فوراً بعد ان ہستیوں کی حرمت کا کوئی پاس نہیں رکھا۔ طرح طرح کی تہمتیں لگائیں اور اذیتیں پہنچانے سے گریز نہیں کیا۔
امام حسن مجتبیٰ (ع) کی ولادت
?الارشاد میں مرحوم شیخ مفید علیہ الرحمہ کے مطابق آپ کی کنیت ابو محمد ہےو شہر مدینہ میں پندرہ رمضان المبارک تیسری ہجری کو آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کی ماں دختر رسول فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے ایک ایسے جنت کے کپڑے میں لپیٹ کر (کہ جو جبرئیل رسول خدا کے لئے جنت سے لایا تھا) اپنے بابا کے پاس لے آئیں اور آنحضرت نے آپ کا نام حسن رکھا۔(1) جبکہ بعض دیگر حدیثی کتب کے مطابق جب آپ کی ولادت ہوئی تو حضرت فاطمہ (س) نے علی علیہ السلام سے فرمایا ہمارے اس بچے کے لئے نام رکھیں، آپ نے فرمایا اس بچے کو نام رکھنے میں، میں رسول خدا پر سبقت نہیں لوں گا۔ جب رسول اللہ تشریف لائے تو آپ ہی نے دائیں کان میں اذان، بائیں کان میں اقامت پڑھی اور علی علیہ السلام سے پوچھا اس بچے کے لئے کیا نام رکھا ہے۔؟ آپ نے فرمایا یارسول اللہ میں نام رکھنے میں آپ پر سبقت نہیں لوں گا اس وقت آنحضرت نے فرمایا میں بھی اپنے رب پر سبقت نہیں لوں گا، اسی وقت جبرئیل نازل ہوئے اور کہا کہ آپ کو اللہ نے مبارک باد دی ہے اور فرمایا ہے کہ آپ اور علی کی نسبت موسیٰ اور ہارون کی سی ہے(علی کو آپ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی) لہذا اس بچے کا ہارون کے بیٹے کا نام رکھ دیں، آپ نے پوچھا ان کا نام کیا تھا؟؟ جبرئیل نے کہا شبّر فرمایا میری زبان عربی ہے، کیا رکھوں۔؟ فرمایا حسن، اس طرح آنحضرت نے آپ کا نام حسن رکھا۔۔۔(2)
امام حسن قرآن کی نگاہ میں
❄️ تمام شیعہ علماء اور بعض اہل سنت علماء کے مطابق امام حسن علیہ السلام آیہ تطہیر کے مصادیق میں سے ہیں۔ آیہ تطہیر آپ کے گھر والوں کی طہارت اور
پاکیزگی پر گواہ ہے۔ "إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً"(3) آپ اصحاب مبابلہ میں سے ہیں، جن کی شان میں آیہ مباہلہ نازل ہوئی، جس کے بارے میں اہل سنت علماء کا بھی اتفاق ہے۔ "فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ"(4) آیہ مودت آپ ہی کے اقرباء کی شان میں نازل ہوئی، جس میں آپ کی محبت کو واجب قرار دیا گیا ہے۔(5)
سورہ دھر کی آیت 5 سے دس تک آپ ہی کے گھرانے کی شان میں نازل ہوئیں۔ مرحوم علامہ امینی نے الغدیر میں اس آیت کا شان نزول اہل بیت علیہم السلام ہونے کو اہل سنت کی 34 کتابوں سے ذکر کیا ہے اور مرحوم قاضی نوراللہ شوشتری نے ان کی 36 کتابوں سے نقل کیا ہے۔(6)
امام حسن پیغمبر گرامی اسلام (ص) کی نظر میں
?آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے ایسے اوصاف کے ذریعے اپنے نواسوں کو یاد کیا ہے کہ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ آپ کی مرتبت حضور کی نگاہوں
میں کتنی تھی۔ آپ کی فضلیت کے لئے صرف حدیث ثقلین کافی ہے، جس میں اہل بیت کو قیامت تک کے لئے قرآن کا ہم پلہ اور قرآن سے جدا ناپذیر قرار دیا۔۔۔ براء بن عازب کہتے ہیں "رایت النبی صلی اللہ والحسن علی عاتقہ یقول اللھم انی احبہ فاحبہ۔۔" "میں نے رسول خدا کو یہ کہتے ہوئے سنا، جب آپ کے پاس امام حسن بیٹھے تھے، اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر" اور ایک روایت میں آپ فرماتے ہیں "اللّهُمَّ إنّي اُحِبُّهُ فأحِبَّهُ، و أحِبَّ مَن يُحِبُّهُ"(7) پيامبر خدا صلى الله عليه و آله نے امام حسن عليہ السلام کے بارے میں فرمایا: "خدايا! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے اور اس کے دوستوں سے بھی محبت کر۔۔" رسول اللہ کی وہ حدیث جو امام حسین علیہ السلام کے بارے میں معروف ہے، اسی مضمون کے ساتھ امام حسن کے بارے میں بھی ملتی ہے: "قال رسول الله (صلی الله علیه وآله وسلم):«حَسَنٌ مِنّی وَاَنا مِنه، اَحَبّ اللهُ مَن اَحَبّه.." آنحضرت نے فرمایا حسن مجھ سے ہے اور میں حسن سے ہوں، خدا اس سے محبت کرتا ہے، جو حسن سے محبت کرتا ہے"(8)
كنز العمّال کی روایت ہے: وفَدَ المِقْدامُ بنُ مَعْدِيكَرِب و عَمرو بنُ الأسودِ إلى قِنِّسْرِينَ، فقالَ معاويةُ للمِقْدامِ: أعَلِمْتَ أنّ الحسنَ بنَ عليٍّ تُوفّي؟ فاسْتَرجَعَ المِقدامُ، فقالَ لَه معاويةُ: أتَراها مُصيبةً؟! قال: و لِمَ لا أراها مُصيبةً و قد وضَعَهُ رسولُ اللّه ِصلى الله عليه و آله في حِجْرِهِ فقالَ: هذا مِنّي؟!(9) "مقدام بن معديكرب و عمرو بن اسود قِنّسرين گئے۔ معاويہ نے مقدام سے کہا: تمہیں پتہ ہے کہ حسن بن على کی وفات ہوئی ہے۔؟ مقدام نے آيہ «إنّا للّه و إنّا إليه راجعون» پڑھی۔ معاويہ نے اس سے کہا: آيا اس کو مصیبت سمجھتے ہو؟! مقدام نے جواب میں کہا: کیسے مصيبت نہ سمجھوں، جبکہ پيغمبر خدا صلى الله عليه و آله وسلم نے اس کو اپنے زانو پر بٹھایا اور فرمایا یہ مجھ سے ہے۔۔۔" رسول اللہ سے منقول ہے، ھَذا (حسن) مِنّی و حُسین من علی رضی اللہ عنھما۔۔ "یہ (حسن) مجھ سے ہے اور حسین علی سے"(10) ابو ہریرہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ میں جب بھی حسن بن علی کو دیکھتا ہوں، میری آنکھوں سے آنسوؤ جاری ہوتے ہیں، چونکہ میں نے خود رسول اللہ کو دیکھا کہ اپنے لبوں کو حسن کے لبوں پر رکھ کر فرماتے تھے: اللھم اِنِّی اُحَبہ فاحبہ واحب من یُحبّہ.. "خدایا میں اس (حسن) سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے اور اس سے محبت کرنے والوں سے محبت رکھ ۔۔۔۔"(11 )
امام حسن اور یاد خدا
امام حسن جب بھی مسجد جاتے سر مبارک کو آسمان کی طرف کرکے بارگاہ الہیٰ میں فرماتے تھے، خدایا تیرا مہمان تیرے در پر آیا ہے، اے نیکی دینے والے رب، ایک گنہگار تیری بارگاہ میں آیا ہے، اے کریم! تیرے خوبصورت فضل و کرامت کا واسطہ میرے گناہوں سے درگذر فرما۔۔ آپ جب بھی عبادت کے لئے تیار ہوتے تو آپ کا رنگ تغییر کرتا تھا اور جسم لرزنے لگتا تھا۔(12)
امام کی زندگی کے مراحل
☀️امام کی زندگی دو مرحلوں میں تقسیم ہوتی ہے، امامت سے پہلے اور بعد کی زندگی۔۔ خود امامت سے پہلے کی زندگی یعنی علی علیہ السلام کی شہادت سے پہلے کی زندگی تین حصوں میں تقسیم ہوتی ہے۔
1۔ آپ کا بچپنا: یعنی 7 سال اپنے نانا رسول خدا کے ساتھ گزارے، اس مختصر عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے مختلف مواقع میں آپ کی فضیلت اور اہمیت کو بیان کرنے سے کوئی فرصت فروگزار نہیں کی۔ جب بھی موقعہ ملتا تھا، ان دونوں ہستیوں کا تعارف کرایا اور ان دونوں کو جنت کے جوانان کے سردار قرار دیا۔
2۔ خلفاء ثلاثہ (تینوں خلفاء کا دور)* ان ادوار میں بھی آپ نے اپنے بابا کے ساتھ اسلام کی خدمت میں گزاری۔ بلاذری سند معتبر کے ساتھ انساب الاشراف میں لکھتے ہیں: «وَحَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ حماد بن سلمه، عن هشام ابن عُرْوَه، عَنْ عُرْوَه قَالَ: خَطَبَ اَبُو بَکْرٍ یوما فجاء الحسن فقال انْزِلْ عَنْ مِنْبَرِ اَبِی۔۔۔۔۔۔۔ عروه نقل کرتا ہے، ایک دن ابوبکر خطبہ دے رہا تھا. امام حسن (علیه السّلام) آئے۔۔ آپ نے ایک مرتبہ بلند آواز میں فرمایا میرے بابا کے منبر سے اتر جا، ابوبکر نے کہا قسم بہ خدا درست کہا، یہ منبر تیرے باپ کا ہے، نہ میرے باپ کا۔۔(13)
3۔ اپنے بابا کی حکومت کا دور: جہاں تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ تینوں جنگوں (جمل، صفین، نہروان) میں آپ کا کردار نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ جنگ جمل کے لئے افرادی قوت جمع کرنے میں محمد بن ابی بکر اور محمد بن جعفر جب کوفہ سے ناکام لوٹے تو آپ اور عمار گئے اور تاریخ نگاروں کے مطابق آپ نے ابو موسیٰ اشعری کو والی کوفہ کے منصب سے برطرف کرکے مسجد کوفہ میں ایک ایسا خطبہ دیا، جس سے ہزاروں کا لشکر اپنے ہمراہ لانے میں کامیاب ہوئے۔۔۔(14) جنگ صفین میں بھی آپ کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ رسول خدا کے دونوں نواسوں کی جنگ دیکھ کر علی علیہ السلام نے فرمایا، ان دونوں کو جنگ سے روکو، کہیں ان کی شہادت سے نسل رسول منقطع نہ ہو جائے۔۔۔۔
آپ کی امامت کا دور
?یہ دور دو حصوں پرمشتمل ہے، لوگوں کی بیعت سے صلح تک اور صلح سے شہادت تک، گرچہ ظاہری طور پر بھی امام حسن کی بیعت بھی باقی خلفاء کی بیعت کی طرح تمام تقاضوں کے مطابق ہوئی۔ آپ نے اپنے بابا کی شہادت کے بعد ایک معنی خیز خطبہ ارشاد فرمایا! "اے لوگوا اس رات میں قرآن نازل ہوا اور جناب عیسیٰ بن مریم کو آسمان پر اٹھایا گیا اور یوشع بن نون قتل ہوئے اور میرے بابا بھی اس رات کو شہید ہوئے۔ خدا کی قسم میرے بابا سے پہلے اور بعد کے اوصیاء میں سے کوئی بھی ان سے پہلے بہشت میں نہیں جائے گا، جب بھی رسول خدا ان کو جنگجووں سے لڑنے بھیجتے تو جبرئیل دائیں طرف اور میکائیل بائیں طرف لڑتے تھے، انہوں نے کوئی مال و دولت نہیں چھوڑی۔۔۔۔۔"(15) امام کے خطبے کے بعد عبیداللہ بن عباس اٹھے اور مسلمانوں کو بیعت کرنے پر آمادہ کیا اور کہا: اے لوگو یہ تمہارے پیغمبر کے فرزند اور تمہارے امام کے جانشین ہیں۔۔ لہذا اس کی بیعت کریں۔۔ لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور کہا آپ سب سے زیادہ شائستہ ہیں۔(16) لیکن معاویہ نے ان تمام اصولوں کو پامال کرتے ہوئے آپ کی حکومت کو ماننے سے انکار کیا اور آپ پر جنگ مسلط کی گئی۔
دشمنوں کا امام کی شخصیت پر وار
?یہ امام اس وقت بھی اور آج بھی مظلوم ہیں۔ جھوٹی تاریخ اور جعلی روایتوں کے ذریعے اس عظیم ہستی کی شخصیت کو پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بنی امیہ کی پوری مشینری کی طرف سے علی و آل علی کے خلاف ان کی شخصیت کو کم اور خراب کرنے کے لئے طرح طرح کی روایتیں گھڑی گئیں اور خصوصاً امام حسن کی شخصیت کو خراب کرنے میں ناداں دوستوں اور آگاہ دشمنوں خصوصاً منصور عباسی کے مکروہ عزائم نے سب سے زیادہ اپنا کردار ادا کیا۔ بنی عباس نے بنی ہاشم پر ہونے والے مظالم کو وسیلہ اور انتقام خون حسین علیہ السلام کا دلسوز نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کیا، لیکن جب اقتدار پر مکمل قابض ہوگئے تو پھر یہ ان لوگوں نے بھی بنی امیہ کی سیرت کو ہی اپنانا شروع کر دیا، جس پر اولاد حسن بن علی کی طرف سے مختلف ادوار میں حکومت بنی عباس کے ظلم کے خلاف شورش برپا کر دی۔ ان بغاوتوں کو دبانے اور آل حسن کی تحریکوں کو ناکام اور بےاثر کرنے کے لئے امام حسن کی شخصیت کشی کی گئی، تاکہ لوگ اولاد حسن بن علی کا ساتھ نہ دیں۔
اس میں ہمارے ہی کچھ سادہ لوح افراد اور کچھ بزرگوں کے سہو قلم کی وجہ سے اپنی کتابوں میں ان واقعات کو لکھ ڈالا، جو کہ تحلیل اور تحقیق کے طالب ہیں۔
صلح امام کی پیچیدگیوں کو امام کے بعض قریبی اصحاب بھی سمجھنے سے قاصر رہے، امام کے قریبی ساتھی حجر بن عدی جیسی ہستی نے بھی زبان اعتراض اور شکایت دراز کی، جس پر *وَغَمَزَالحُسَینُ حُجرَ* امام حسین (ع) نے حجر کو خاموش کرایا۔(17) آپ علیہ السلام نے صلح خوشی سے نہیں کی بلکہ آپ پر مسلط کی گئی تھی، لیکن امام کی بہترین تدبیر نے معاویہ کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے نمایاں کر دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں کہ اگر صلح امام حسن نہ ہوتی تو واقعہ کربلا بھی نہ ہوتا، اگر واقعہ کربلا نہ ہوتا تو آج پوری دنیا سے اٹھنے والی تحریکیں بھی نہ ہوتیں۔۔(18)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1) الارشاد شیخ مفید، جلد دوم، ص 1
2) معانی الاخبار، ص 57، علل الشرائع، ص137، بحارالانوار، ص 43/ص 240 حدیث8
3) سورہ احزاب آیت 33
4) آل عمران/61
5) شورا 23
6) الغدیر، ج،3 ص107/ احقاق الحق، ج 3، ص157
7) كنز العمّال: 37640 (ماخوذ از کتابخانه احادیث الشیعه)
8) مجلسی بحار الانوار، ج43، ص 306
9) كنز العمّال: 37658 (ماخوذ از کتابخانہ احادیث الشیعہ)
10) مسند احمد 132/4 چاپ مصر1313ھ ماخوذ از پیشوایان ہدایت گروہ مولفان سید منذر حکیم، وسام بغدادی، مجمع جہانی اہل بیت
11) تاریخ دمشق ابن عساکر 10/7، چاپ دارالفکر1405ھ
12) مناقب 180/3 بحارالانوار 339/43
13) بلارزی احمد بن یحی انساب الاشراف ج 3، ص 26/صواعق محرقہ 175۔۔ تاریخ الخلفا۔
14) پیشوای ہدایت سبط اکبر، ص 116 (سید منذ الحکیم و گروه مولفان)
15) امالی، ص 192
16) ابوالفرج اصفهانی مقاتل الطالبین، ص 34
17) انسان 250 ساله (مجموعه تقاریر رہبر انقلاب اسلامی)
18) دو امام مجاہد، ص 11(رہبر انقلاب کی تقاریر کا مجموعہ)
تحریر: محمد علی شریفی
پندرہ رمضان نواسہ رسول حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی ولادت
سن 3 ھ ق : امام حسن مجتبی علیہ السلام کی ولادت ۔ امام حسن بن علی بن ابیطالب علیہ السلام شیعوں کے دوسرے امام ہیں ۔ آپ پندرہ رمضان سن 3 ھ ق کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانےمیں مدینہ منورہ میں پیدا ہوے۔ (1)
آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے نواسے اور پہلے امام اور چوتھے خلیفہ امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام اور سیدۃ نساء العالمین فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کے فرزندہیں ۔
امام حسن مجتبی علیہ السلام ایسے گھرانےمیں پیدا ہوے جو وحی اور فرشتوں کے نازل ہونےکی جگہ تھی ۔وہی گھرانا کہ جس کی پاکی کے بارے میں قرآن نے گواھی دی ہے : ” إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّه لِيُذْهبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ اهلَ الْبَيْتِ وَيُطَهرَكُمْ تَطْهيرًا ” ۔یعنی: (بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اھل بیت علیہم السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے) ۔ (2) اس طرح خدای سبحان نے قرآن کریم میں اس گھرانے کی بار بار تحسین اور تمجید کی ہے ۔
امام حسن مجتبی علیہ السلام ، امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب (ع) اور سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زھرا(س) کے پہلے فرزند تھے ۔ اس لۓ آنحضرت کا تولدپیغمبر(ص) انکے اھل بیت اور اس گھرانے کے تمام چاہنے والوں کی خوشیوں کا باعث بنا ۔
پیغمبر (ص) نے مولود کے دائیں کان میں اذان اور بائيں کان میں قامت کہی اور مولود کا نام ” حسن ” رکھا ۔(3)
امام حسن مجتبی علیہ السلام کے القاب کئ ہیں ازجملہ : سبط اكبر، سبط اول، طيب، قائم، حجت، تقي، زكي، مجتبي، وزير، اثير، امير، امين، زاھد و برّ مگر سب سے زیادہ مشھور لقب ” مجتبی ” ہے اور شیعہ آنحضرت کو کریم اھل بیت کہتے ہیں ۔
آنحضرت کی کنیت ، ابو محمد ہے ۔(4)
پیغبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کو بہت چاہتے تھے اور بچپن سے ہی نانا رسولخدا (ص) اور والدامیر المؤمنین علی(ع) اور والدہ سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زھرا (س) کے ملکوتی آگوش میں پروان چڑھے اور ایک انسان کامل اور امام عادل جہان کو عطا کیا ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے ایک حدیث کےذریعے اپنی نور چشم حسن مجتبی (ع) کی فضیلت یوں بیان فرمائي ہے ۔ فرمایا: البتہ ، حسن میرا فرزند اور بیٹا ہے ، وہ میرا نور چشم ہے ، میرے دل کا سرور اور میرا ثمرہ ہے وہ بہشت کے جوانوں کا سردار ہے اور امت پر خدا کی حجت ہے ۔ اس کا حکم میرا حکم ہے اسکی بات میری بات ہے جس نے اسکی پیروی کی اس نے میری پیروی کی ہے جس نے اس کی مخالفت کی اس نے میری مخالفت کی ہے ۔ میں جب اسکی طرف دیکھتا ہوں تومیرے بعد اسے کیسے کمزور کریں گے ، اس یاد میں کھو جاتا ہوں؛ جبکہ یہ اسی حالت میں اپنی زمہ داری نبھا تا رہے گا جب تک کہ اسے ستم و دشمنی سے زھر دے کر شھید کیا جاۓ گا ۔اس وقت آسمان کے ملائک اس پر عزاداری کریں گے ۔اسی طرح زمین کی ھر چیز ازجملہ آسمان کے پرندے ، دریاؤں اور سمندروں کی مچھلیاں اس پر عزادری کریں گے ۔(6)
مدارک اور مآخذ:
1- الارشاد (شیخ مفید)، ص 346؛ رمضان در تاریخ (لطف اللہ صافی گلپایگانی)، ص 107؛ منتہی الآمال (شیخ عباس قمی)، ج1، ص 219؛ کشف الغمہ (علی بن عیسی اربلی)، ج2، ص 80؛ تاریخ الطبری، ج2، ص 213؛ البدایہ و النہایہ (ابن کثیر)، ج8، ص 37
2- آیہ تطہیر ]سورہ احزاب(33)، آیہ 33[
3- بحارالانوار (علامہ مجلسی)، ج43، ص 238؛ کشف الغمہ، ج2، ص 82
4- منتہی الآمال، ج1، ص 219؛ رمضان در تاریخ، ص 111؛ کشف الغمہ، ج2، ص 86
5- منتہی الآمال، ج1، ص 220؛ کشف الغمہ، ج2، ص 87؛ البدایہ و النہایہ، ج8، ص 37
6- بحارالانوار، ج44، ص 148
مؤلف: آغا سید عبدالحسین بڈگامی
عالمی یوم القدس کو غاصب صہیونی ریاست کے خلاف احتجاجی مظاہرہ ہونا چاہیے
بیت المقدس میں صیہونی ریاست اسرائیل کے مسلمانوں پر مظالم پہ امت مسلمہ کو خاموشی اختیار کرنے کے بجائے عالم کفر کے خلاف یکجا ہوکر عالمی سطح پر احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدرعارف حسین نے کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک بار پھر ماہ مضان المبارک کے دوران غاصب صیہونی اسرائیل نے بیت المقدس کے مسلمانوں کو مظالم کا نشانہ بنایا ہے اور حملہ میں سو سے زائد فلسطینی مسلمان زخمی ہوئے ہیں۔مرکزی صدر نے کہا کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم نے انسانی زندگی کو محصور کردیا ہے۔اور انہیں عبادت سے بھی روک دیا گیا ہے۔مرکزی صدر نے مزید کہا کہ غاصب صیہونی حکومت کے فوجیوں اور صیہونی آبادکاروں کی جانب سے مسلمانوں کے قبلہ اول مسجدالاقصی کو متعدد بار جارحیت کا نشانہ بنایا جا چکا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے اس مقدس مقام اور شہر بیت المقدس کا اسلامی تشخص ختم کر کے اسے صیہونیوں کا شہر بنانا ہے۔جس میں وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے فلسطین صرف فلسطینیوں کا ہے انشا اللہ وہ دن دور نہیں جب فلسطینیوں کی مزاحمت اور استقامت کی بدولت بیت المقدس غاصب ریاست کے چنگل سے آزاد ہوگا۔مرکزی صدر کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایس او پاکستان امسال بھی ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم القدس کے موقع پر ملک کے تمام شہروں میں فلسطینیوں کی حمایت اور عالمی استکبار و استعمار کے مظالم کے خلاف القدس ریلیوں کا انعقاد کرے گی ۔