
سلیمانی
بانی مقاومت شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور داعیان مقاومت
مقاومت کے دشوار اور کٹھن مراحل وہی شخص طے کرسکتا ہے، جس کی زندگی صرف خدا کیلئے ہو، جو دنیا اور اس کی لذتوں سے نکل کر شہادت کو اپنی زندگی کا محور قرار دے، یہ شہید ڈاکٹر ہی تھے، جن کی پوری زندگی خدا تعالیٰ کی رضا میں گزری، ان کی زندگی میں رضایت خدا کا ہر پہلو نظر آتا ہے، جب عالمی طاقتوں نے جوانوں کی زندگی کو مفلوج کرنا شروع کیا تو اس دور میں شہید ڈاکٹر نے ان صیہونی طاقتوں کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا، ان کی ہر سازش کو ناکام بنا دیا، ناصرف اسلام و انسانیت کی خدمت کی بلکہ میدان جنگ میں فرنٹ لائن پر دشمن کا مقابلہ کیا۔ جب امام خمینی (رہ) نے صدائے "ھل من ناصر ینصرنا" بلند کی اور کہا جو شخص جنگ کی طاقت رکھتا ہے، وہ محاذ پر جائے تو اس فرزند زہراء نے جان ہتھیلی پر رکھ کر مظلومیت کی آواز پر لبیك کہا اور پوری طاقت سے میدان جنگ میں حاضر ہوگئے، انسانیت اور اسلام کی خدمت کرکے "من يشري نفسه إبتغاء مرضات الله" کے مصداق بن گئے۔
شہادت کا اشتیاق اس قدر تھا کہ محاذ جنگ سے واپسی پر بہشت زہراء کے مقام پر فرماتے ہیں، دل چاہتا ہے کہ ان شہداء کے ساتھ زندہ اس قبرستان میں لیٹ جاؤں۔ ہائے افسوس کہ اس قدر شہداء کی چاہت رکھنے والے شہید ڈاکٹر کا نظریہ ابھی تک صرف کاغذ کی زینت بنا۔ آج تمام تنظیمیں، جماعتیں، شخصیات خود کو ڈاکٹر شہید کے نقش قدم پر چلنے والا کہتی ہیں۔ ہر جماعت، ہر شخصیت ان کے نام کا نعرہ بلند کرتی ہے۔ کیا انہوں نے شہید کے نظریئے کو عملی جامہ پہنایا؟ آخر انہوں نے شہید کے نظریئے کی کتنی عہد سازی کی، ان افراد نے شہید ڈاکٹر کی زندگی سے کون سا درس لیا، کتنے جوانوں کو یکجا کیا؟ کتنے جوانوں کی زندگی میں تحرک پیدا کیا؟ کتنے جوانوں کا ہاتھ تھاما؟ کتنے جوانوں کو مقاومت کا راستہ دکھایا؟ کتنے جوانوں کو حوصلہ دیا؟ جذبہ پیدا کیا؟ ان کو منزل دکھائی؟
آخر ان شخصیات نے جوانوں کیلئے کیا کیا؟ بلکہ جب بھی جوانوں کی طرف سے مقاومت کا نعرہ بلند ہوتا، ان کی آواز کو دبا دیا جاتا، حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی کی جاتی، جذباتیت کا طعنہ دے کر افکار و نظریات کے ٹکڑے کر دیئے جاتے۔ ہمیں شہید کے نظریئے کو عملی جامہ پہنانا چاہیئے۔ خود کو محدودیت سے نکال کر اسلام اور انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کر دینا چاہیئے، جیسا کہ ڈاکٹر شہید کی زندگی میں یہ پہلو روزِ روشن کی طرح واضح تھے، شہید ڈاکٹر مقاومتی شخصیت تھے، شہید ایک روشن چہرہ رکھتے تھے، وہ افکار و کردار میں سچے تھے، وہ مصلحت کے نام پر دوغلے پن سے مبریٰ تھے، وہ جرأت کردار رکھتے تھے، وہ گھر، ہسپتال، تنظیم، تحریک، معاشرہ، محفل، تنہائی، عوام و خواص سب میں وہ ایک ہی محمد علی تھے۔
قرآن کریم سے آیات حذف کرنے والا بیان ارتدادی فکر کا واضح ثبوت
انجمن شرعی شیعیان کے صدر حجۃ الاسلام والمسلمین آغا سید حسن الموسوی الصفوی نے قرآن مقدس سے کئی آیات بینات کو حذف کرنے سے متعلق زرخرید آلہ کار اور حکومتی وقف بورڈ کے چیرمین وسیم رضوی کے حالیہ بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قرآن مقدس آخری آسمانی صحیفہ اور قیامت تک نوع بشریت کے لئے وسیلہ ہدایت و نجات ہے جس میں زیر و زبر کی تبدیلی بھی ناقابال معافی جرم ہے۔
آغا صاحب نے وسیم رضوی کے نجس و فتنہ انگیز بیان کو اسلام دشمنی کی حد انتہا اور ارتدادی فکر و ذہنیت کا برملا ثبوت قرار دیا، آغا صاحب نے کہا کہ موصوف نے اعلانیہ طور پر اپنی ارتدادی فکر کا اظہار کیا ہے اور یہ علماء و مفتیان ہند کی شرعی مسؤلیت ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنی منصبی ذمہ داریاں پورا کرکے فتویٰ صادر کریں۔
مرکزی امام بارگاہ بڈگام میں بھاری جمعہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جموں و کشمیر انجمن شرعی شیعیان کے صدر نے علمائے لکھنو سے استفسار کیا کہ وہ وسیم رضوی کی حثیت اور اسکے منصب سے متعلق اپنا موقف واضح کرے کیوں کہ شخص مذکورہ مسلک اہلبیتؑ کا لبادہ اوڑھے ہوئے شیعیت کی بد ترین توہین اور تذلیل کر رہا ہے۔
آغا صاحب نے کہا کہ وسیم رضوی اور آر ایس ایس آلہ کار کئی دیگر لکھنوی مولوی متواتر اسلام اور مسلمین کے خلاف ناقابل برداشت بیان بازیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں صورت حال کا المناک پہلو یہ ہے کہ اس حوالے سے دیگرذمہ دار علمائے دین خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور وہی لکھنوی علماے دین کشمیر میں آکر دینی بیداری اور شیعیان کشمیر کی فلاح و بہبود کا نعرا لگا کر یہاں اپنے اثر و نفوذ کی سعی ناکام کر رہے ہی۔
۔
وسیم رضوی کے خلاف جموں و کشمیر کے شیعہ تنظیموں کا شدید احتجاج
جموں و کشمیر کے تمام شیعہ تنظیموں نے نام نہاد اور خود ساختہ لیڈر وسیم رضوی کی دریدہ دہنی پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے تختہ دار پر چڑھانے کا مطالبہ کیا ۔
نمائندے کے مطابق شیعہ مکتب فکر کے نامور سماجی و مذہبی تنظیموں بشمول اتحاد المسلمین ،انجمن شرعی شیعیان ،شیعہ ایسوسی ایشن ،شیعہ فیڈریشن جموں ،شیعہ ڈیولپمنٹ اونڈیشن کشمیر، انجمن صدائے حسینی ،پیروان ولایت ،ادارہ امام خمینی، متحدہ مجلس علمائے امامیہ ،پاسداران ولایت، جامعہ امام رضا ،جامعہ باب العلم سمیت درجنوں تنظیموں نے اپنے الگ الگ بیانات میں وسیم رضوی کی جانب سے سپریم کورٹ میں آیات قرآنی کو حذف کرنے کی عرضی کے خلاف شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے ۔
انہوں نے قرآن مقدس سے آیات حذف کرنا ارتدادی فکر قرار دیا اور کہا کہ اس فکر کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جائے گا انہوں نے وسیم رضوی کو ملعون اور فتنہ پرور قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام مسلمانوں کا یہ مشترکہ اور پختہ عقیدہ ہے کہ قرآن پاک میں کسی طرح کی کوئی تحریف اور کمی زیادتی نہ ہوئی ہے نہ تا روز قیامت ہوگی ۔بلکہ لاکھوں وسیم رضوی جیسے فرسودہ اور بیہودہ ذہن رکھنے والے افراد بھی متحد ہوجائیں تب بھی قرآن پاک کے ایک لفظ کو حذف نہیں کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قرآن پاک اربوں کی تعداد میں مسلمانوں کے دلوں پر نقش کنندہ ہے اس کو مٹانے کی دشمن کی تمام ترغیبیں اور تدبیریں بے کار ہیں ۔انہوں نے توہین آمیز عرضی کی شدید مخالفت اور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی گستاخی ناقابل معافی جرم ہے اس جرم کے مرتکب وسیم رضوی تختہ دار کا حقدار ہے اسے جلد از جلد یہ حق ملنا چاہئے ۔انہوں نے ملے اسلامیہ سے اپیل کی کہ وہ وسیم رضوی کو شیعہ مکتب فکر سے جوڑنے کی کوشش نہ کریں بلکہ علمائے امامیہ ہند نے اس خود ساختہ لیڈر کو پہلے ہی شیعت کے صف سے باہر کا راستہ دکھایا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد نورد کمال ( دنیا کے شمال بعید کی مسجد ) نوریلسک شھر ، روس
روس کے نوریلسک شہر میں مسجد نورد کمال کی تعمیر کا آغاز ۱۹۹۵ عیسوی میں ہوا ، یہ مسجد ۱۹ اگست ۱۹۹۸ عیسوی کو تیار ہوئی ۔
دنیا کے انتھائے شمال میں مسجد نورد کمال سے آگے کوئی اور مسجد واقع نہیں ہے ۔ پوری مسجد میں فرش بچھادیا گیا ہے جو لوگوں کے ذریعے مسجد کے لیے ہدیہ کیا گیا ہے ، نوریلسک شھر کی آبادی دو لاکھ افراد پر مشتمل ہے جس کی ایک چوتھائی آبادی مسلمان ہے جو علاقائی اور غیر علاقائی ہے ۔ قطب شمالی کے دائرے سے تین سو کلومیٹر کی دوری پر ۱۹۵۳ میں یہ شھر ، روس کے جغرافیائی نقشہ پر ظاہر ہوا ، آج کل یہ شھر قطب شمالی میں آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا شھر ہے ، یہ شھر روس کے بڑے صنعتی شھروں میں شمار کیا جاتا ہے جس میں نوریلسک نیکل کی کان کمپنی موجود ہے، آج کل نوریلسک نیکل کمپنی کا دنیا کی نیکل اور پلاٹیں کی پیداوار میں بیس فیصد حصہ ہے۔ وہاں پر تانبا ، کوبالٹ، اور دوسری قیمتی دھاتیں نکلتی ہیں ، یہ بات اتفاقی نہیں ہے کہ نوریلسک شھر کو کارخانوں کا شھر کہتے ہیں ،البتہ مسلماںوں کی روحانی ضروریات نوریلسک کے قیام کے ابتدائی سالوں میں مشکلات سے دوچار تھیں۔
۱۹۹۶ عیسوی میں ارتھوڈکس گرجاگر تعمیر ہوا اس کے دوسال بعد نوردکمال کی زمردی مسجد شھر کی زینت بنی۔
عبد اللہ حضرت گالموف ، روس کے اسلامک یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ، مسجد نوریلسک کے امام کہتے ہیں: اکثر مسلمان دنیا کے مختلف علاقوں سے یہاں ہجرت کرکے آئے ہیں ، قفقاز سے بہت سے لوگ یہاں آئے ہیں جن میں تاتار ، باشقیر اور آذربائیجانی ہیں ، عام طور پر وہ کام کے سلسلے میں یہاں آئے ہیں مرکزی ایشیا کے مہاجر ، داغستان ، تاتار اور آذربائیجانیوں کی تعداد ۴ ہزار سے زیادہ ہے یہ آبادی مختلف مذاھب سے تشکیل پائی ہے اور شیعہ ، سنی اتحاد و اتفاق سے اس مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں۔
مسجد کے امام کہتے ہیں ، ہماری سماجی زبان ایک ہی ہے ہم ایک گھرانے جیسے رہتے ہیں اور آپس میں بہت نزدیک ہیں۔
مسجد کے دروازے رات دیر گئے تک ہر ایک کے لئے کھلے چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔
قرآن کی مقدس آیات لکڑی کے دروازوں پر کندہ کی گئی ہیں ، مسجد کے خوبصورت فرش نے اس مسجد کو شھر کے فن تعمیر کا زیور قرار دیا ہے۔
دنیا کی سب سے شمالی مسجد کے فن تعمیر میں اھم خصوصیات ہیں ، مسجد کی شکل ستارہ جیسی اور اس کامینار چوکور اور اس کی لمبائی ۳۰ میٹر ہے عام طور پر مساجد کے منارے گول ہوتے ہیں لیکن نوریلسک مسجد کا مینار مربع شکل کا ہے جس کی وجہ شمال کی شدید سردی ہے سال کے دو تہائی حصے میں اس شہر کا درجہ حرارت صفر کے نیچے رہتا ہے اور جاڑے میں اس شہر کا درجہ حرارت منفی ۵۵ ڈگری تک پہنچتا ہے اگر اس مسجد کے مینار گول بنائے جاتے تو اس کی دیوار منجمد ہوجا تی اور شمالی ھواؤں کی نسبت رد عمل دکھاتی ، مسجد کی چھت اور مینار ڈھال کے طریقے پر بنائی گئی ہیں۔
مسجد کا شبستان گول اور دائرہ کی شکل کا ہے مسجد دو مںزلہ ہے جس میں پہلی منزل مدرسے کے طورپر استعمال ہوتی ہے اور اس میں اصول اسلام ، نماز کے قوانین ، ماہ مبارک میں روزوں کے احکام کے درس دیئے جاتے ہیں.
ہر اتوار کو مسلمان ایک ھفتے کے کام کاج کرنے کے بعد “ذکر” کرنے کے لئے مسجد میں جمع ہوتے ہیں یہ مسجد نوریلسک کی بہت سی عمارتوں کی طرح شمع جیسے ستونوں کی بنیادوں پر بنی ہے کیونکہ زمین کی سطح سے کم گہرائی پر برف جمی ہوتی ہے اوراس کی گہرائی ۳۰۰ سے ۵۰۰ میٹر تک ہوتی ہے لہذا عمارتوں کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لیے شمع کے مانند ستونوں کا استعمال کیا جاتا ہے ، بنیادوں کو زمین کی گہرائی میں ڈالا جاتا ہے دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ جمی برفیلی پتھروں میں انہیں منجمد کیا جاتا ہے۔
نوریلسک میں ہمشہ برف جمی رہنے کی وجہ سے وہا
نوریلسک شہر کے دنیا کے باقی شہروں کے ساتھ ایک بڑا فرق یہ ہے کہ وہاں پر قطبی راتیں اور قطبی دن ہوتی ہیں ، یعنی چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے ا
ں بھیڑوں کا پالنا ممکن نہیں ہے اس لئے وہ بقر عید پر بھیڑ کی قربانی کے بدلے شمالی ہرن کو قربان کرتے ہیں۔
ور شدید ہوائیں چلتی ہیں جو بہت سرد ہوتے ہیں ، یہ اس علاقے کے مسلماںوں کا ایمان ہی ہے جو اس مسجد کو گرمی بخشتا ہے تا کہ اتحاد و اخوت کے ساتھ ایک ہی صف میں خالق واحد کے مقابلے میں تعظیم کرکے اسلام کی عظمت کو سلام پیش کریں۔
استغفار اور زندگی میں اس کے بیش بہاء اثرات / منافقین کے لئے استغفار غیر مؤثر
حضرت امیر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ اللہ کے عذاب سے بچاؤ کے دو وسیلے اللہ نے قرار دیئے تھے۔ ایک وسیلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا وجود مقدس تھا اور دوسرا وسیلہ استغفار ہے جو ہمیشہ کے لئے سب کے لئے موجود ہے، تو اس کا دامن تھامے رہو۔
ایک دن اللہ نے شیطان کو اپنی درگاہ سے نکال باہر کیا، شیطان رجیم نے قسم اٹھا کر کہا: میں تیرے مخلص بندوں کے سوا باقی سب کو گمراہ کروں گا۔ اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات کے مطابق شیطان کی گمراہی سے تحفظ کے لئے بہت زیادہ استغفار کرنا چاہئے۔ استغفار یا "استغفراللہ" یا "اللہم اغفر لی" جیسے اقوال کو دہرانا یا بخشش و مغفرت کا باعث بننے والے افعال کو انجام دینا۔
استغفار "غَفَرَ" سے ماخوذ ہے جیسا کہ الحمد للہ میں حمد حَمَدَ سے اور تکبیر میں اکبر "کَبُرَ" سے ماخوذ ہے۔ (1)
استغفار اور زندگی میں اس کے قابل قدر اثرات / منافقین پر استغفار کا کوئی اثر نہیں ہوتا
کیا استغفار "توبہ" ہی ہے؟
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ استغفار اور توبہ میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ استغفار اور توبہ ایک ہی اور توبہ درحقیقت استغفار پر تاکید کے لئے ہے۔
لیکن کچھ دوسروں کے ہاں ان دو میں فرق ہے؛ اس لئے کہ استغفار توبہ پر مقدم ہے: "استغفر اللہ ربی و اتوب الیہ یا استغفر اللہ و اتوب الیہ"۔ اور استغفار کے توبہ پر تقدم کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرے اور بعدازاں اپنے آپ کو اللہ کے اوصاف سے آراستہ کرے۔ استغفار درحقیقت گناہ کے راستے پر گامزن ہونے کے بعد رک جانا اور توقف کرنا اور اپنے آپ کو پاک صاف کرنا ہے اور توبہ اللہ وجودِ بےانتہا کی طرف پلٹ آنے اور واپس ہونے کے معنی میں ہے؛
استغفار دھولینے کے مترادف ہے اور توبہ کمالات کے حصول کے مترادف ہے، ایک آلودہ شخص اپنے گندے لباس کو اتارتا ہے اور دھوتا نہاتا ہے اور پھر پاکیزہ لباس زیب تن کرتا ہے۔ یا زمین کو جھاڑو لگا کر صاف کرتا ہے اور پھر اس کے اوپر پاکیزہ اور صاف بچھونا بچھاتا ہے۔
توبہ کا حکم قرآن کریم میں سورہ ہود کی آیات 3 اور 52 میں آیا ہے۔ "واَنِ استَغفِروا رَبَّکُم ثُمَّ توبوا اِلَیهِ؛ اور یہ کہ بخشش کے طلبگار ہو اپنے پروردگار سے، پھر اس کی بارگاہ میں توبہ کرو (پلٹ آؤ)۔ (2)
دو دلیلیں توبہ اور استغفار کے درمیان مغایرت کو ثابت کرتی ہیں:
1۔ توبہ استغفار پر معطوف ہے اور ثمّ فاصلے اور ترتیب کے لئے ہے۔
2۔ ہر بولنے والے کے کلام سے نئے معنی مراد ہوتے ہیں۔
اس حساب سے، استغفار اور توبہ کا فرق یہ ہے کہ توبہ سے مراد اپنے برے اعمال سے اللہ کی طرف بازگشت اور پلٹنا مقصود ہے، جبکہ استغفار مغفرت اور بخشش کی درخواست ہے۔ البتہ اس بات میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ کیا استغفار توبہ کے اوپر قائم ہے یا نہیں۔ (3)
استغفار اور توبہ کی اہمیت
اسلامی شریعت میں، استغفار بہترین عبادت اور بہترین دعا ہے، اور اس کی کثرت کی بہت سفارش ہوئی ہے اور اس کا سب سے اہم اظہار اس جملے سے ہوتا ہے: "استغفر اللہ"۔ (4) استغفار کی اہمیت کی انتہا یہ ہے کہ معصومین (علیہم السلام) سے منقولہ دعائیں مختلف عبارات اور الفاظ کی صورت میں، استغفار پر مشتمل ہیں۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) نے استغفار کی تلقین کی ہے اور عام لوگوں کو اس کا حکم دیا ہے؛ چنانچہ آٹھ آیات کریمہ میں استغفار کی ترغیب دلائی گئی ہے؛ تقریبا 30 آیات میں انبیاء کے استغفار کا تذکرہ آیا ہے اور پانچ آیات میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ (5)
فرشتے مؤمنین (6) اور اہل زمین (7) کے لئے استغفار کرتے ہیں۔
گناہوں کی بخشش کی درخواست [یعنی استغفار]، پرہیزگاروں کی صفت ہے۔ (8)
"قُلْ أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيْرٍ مِّن ذَلِكُمْ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ * الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ؛ کہئے کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز بتاؤں؟ جنہوں نے پرہیز گاری سے کام لیا، ان کے لئے ان کے پروردگار کے یہاں وہ بہشت ہے جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور پاک و پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی بہت بڑی خوشنودی؛ اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے بندوں کا * [ایسے بندے] جن کا قول یہ ہے کہ [اے] ہمارے پروردگار! بلاشبہ ہم ایمان لائے، اب تو ہمارے گناہوں کو بخش دے اور بچا ہمیں آتش دوزخ کے عذاب سے"۔ (9)
بعض آیات کریمہ میں (10) استغفار کی ترغیب دلائی گئی ہے اور بعض دوسری آیات میں استغفار ترک کرنے والوں کو ڈانٹ پلائی گئی ہے اور استغفار کی ضرورت کو سب کے لئے واضح کیا گیا ہے:
"أَفَلاَ يَتُوبُونَ إِلَى اللّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ؛ تو یہ لوگ توبہ کیوں نہیں کرتے اللہ کی بارگاہ میں، اور اس سے مغفرت کیوں نہیں مانگتے، جبکہ اللہ تو بخشنے والا ہے بڑا مہربان ہے"۔ (11)
وجہ یہ ہے کہ ایک طرف عام لوگ غفلت، نادانی، حیوانی جبلتوں اور نفسانی خواہشوں کی سرکشی ہر وقت گناہ میں مبتلا ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں چنانچہ اللہ تعالی کے ساتھ راز و نیاز اور استغفار اور اس کی ضرورت، ان کی جان و روح و نفس کی صفائی، ستھرائی کے لئے، بدیہیات میں سے ہے، اور دوسری طرف سے کوئی بھی اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا حق ادا نہیں کرسکتا، بلکہ ہر شخص اپنی معرفت کی سطح کے تناسب سے، اس مہم کو سر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ حتی حقیقی زاہد اور پارسا انسان بھی اپنی عبادات و اعمال سے شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بارگاہ الہی میں ملزم ہی نہیں بلکہ گنہگار سمجھتے ہیں اور استغفار کی ضرورت کا ادراک کرلیتے ہیں۔ (12)
استغفار کی قسمیں
استغفار یا تو قول ہے جیسے "استغفر اللہ" یا پھر وہ فعل و عمل ہے جو انسان کی مغفرت کا باعث بنے۔
اگرچہ استغفار بذات خود مستحب ہے لیکن کبھی یہ بعض عوارض، واقعات اور روئیدادوں کی وجہ سے واجب یا حرام ہوجاتا ہے؛ چنانچہ حکم کے لحاظ سے استغفار کی تین قسمیں ہیں:
استغفارِ واجب
استغفار مُحرِم [یعنی احرام حج پہنے ہوئے حاجی] پر کفارۂ واجب کے طور پر، واجب ہے مثلا حاجی پر احرام کی حالت میں "فسوق و جدال" حرام ہے: "وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِي الْحَجِّ؛ حج میں نہ نا فرمانی [اور گناہ] ہے، اور نہ جھگڑا"۔ (13) چنانچہ اگر حج میں کوئی تین بار سے کم فسوق اور گناہ کا ارتکاب کرے تو اس کا کفارہ استغفار ہے اور واجب۔ (14) یا کفارے کے متبادل کے طور پر، ان لوگوں کے لئے جو کفارہ دینے (یعنی غلام آزاد کرنے، 60 روزے رکھے، 60 افراد کو کھانا کھلانے یا 60 افراد کو لباس پہنانے) سے عاجز ہوں۔ (15)
مستحب استغفار
جیسا کہ کہا گیا استغفار بہترین دعا اور عبادت ہے چنانچہ تمام حالات میں بالعموم (16) اور ذیل کے مواقع پر بالخصوص مستحب ہے:
- نماز کے دو سجدوں کے درمیان؛ (17)
- نماز کی تیسری اور چوتھی رکعتوں میں تسبیحات اربعہ کے بعد؛ (18)
- نماز بالخصوص نماز وتر کی قنوت میں؛ (19)
- سحر کے اوقات میں؛ (20)
- جنازے کی مشایعت، تدفین اور زیارتِ قبر کے دوران میت کے لئے استغفار؛ (21)
- نمازِ استسقا یا نمازِ باران میں؛ (22)
- ماہ مبارک رمضان میں؛ (23)
- استغفار کو ترک کرنے یا بعض آداب اور سنتیں ترک کرنے اور اپنے سر اور چہرے کو پیٹنے کے کفارے کے طور پر استغفار۔ (24)
حرام استغفار
- قرآن کریم کی رو سے مشرکین اور کفار و منافقین کے لئے استغفار حرام ہے۔ (25)
- خداوند متعال نے مؤمنین کو مشرکین کے لئے استغفار کرنے سے باز رکھا ہے۔ خواہ وہ اپنے اور رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ (26)
- مشرکین کے لئے استغفار بےاثر ہے اور اللہ شرک کو کبھی نہیں بخشتا۔ (27)
- مشرکین کے لئے استغفار ایک بیہودہ عمل اور مہمل کام ہے۔ (28)
- اور پھر مشرکین کے لئے استغفار درحقیقت ان کے ساتھ محبت اور رشتے کا اظہار ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ (29)
منافقین کے لئے استغفار بےاثر ہے
- ارشاد ربانی ہے کہ "کیا خواہ آپ ان کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں؛ خدا ہرگز انہیں نہیں بخشے گا۔ (30)
- نیز ارشاد ہوتا ہے کہ خواہ آپ کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں، حتی کہ آپ اگر ان کے لئے 70 مرتبہ بھی استغفار کریں، خدا ہرگز انہيں بخشے گا۔ (31)
عدد "ستر مرتبہ" مبالغے اور فراوانی کے لئے، اس حکم میں مذکور ہے۔ (32)
قرآن کریم میں استغفار
قرآن کریم میں مغفرت طلبی یا استغفار 68 مرتبہ مذکور ہے: 43 مرتبہ استفعال کی مختلف اشکال میں آیا ہے؛ 17 مرتبہ " إغفر" کی صورت میں، تین مرتبہ "یغفر" کی صورت میں، دو مرتبہ "تغفر" کی صورت میں اور ایک مرتبہ "مغفرۃ" کی صورت میں۔ (33)
قرآن کریم میں استغفار کا حکم "حطۃ" کی صورت میں آیا ہے اور منقول ہے کہ خداوند متعال نے بنی اسرائیل کو استغفار کا حکم دیا تاکہ وہ اللہ کی مغفرت سے بہرہ ور ہوسکیں۔ (34)
آثار استغفار
بہت سی آیات کریمہ اور احادیث شریفہ میں استغفار کے بےانتہا تعمیری اور قابل قدر اثرات کو بیان کیا گیا ہے؛ استغفار معاشرے کی اصلاح، اللہ کی برکتوں کے نزول اور دنیاوی اور اخروی عذاب سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ (35)
عذآب الہی سے بچاؤ کا وسیلہ
خداوند غفور نے ارشاد فرمایا: "۔۔۔ وَمَا كَانَ اللّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ؛ جب تک کہ لوگ استغفار کریں گے اللہ ان پر عذاب نہیں اتارے گا۔ (36)
اس آیت کے آغاز پر ارشاد ہؤا ہے کہ "وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ؛ اور اللہ ان پر عذاب نازل کرے گا جب تک کہ آپ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ) ان کے درمیان ہونگے۔
مفسرین نے اس آیت کے لئے ایک خاص شان نزول اور کئی احتمالات کا تذکرہ کیا ہے لیکن یہ آیت اس قانونِ عام پر مشتمل ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا لوگوں کے درمیان موجود ہونا اور لوگوں کا استغفار، دونوں شدید بلاؤں اور ناقابل برداشت مصائب کے سامنے ان کی سلامتی اور امن و امان کا سبب ہیں اور وہ شدید فطری اور غیر فطری سزاؤں: تباہ کن سیلابوں، زلزلوں اور جنگوں میں ان کی نجات کا ذریعہ ہیں۔ (37)
وَحَكَى عَنْهُ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْبَاقِرُ [عليه السلام] أَنَّهُ قَالَ كَانَ فِى الْأَرْضِ أَمَانَانِ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ وَقَدْ رُفِعَ أَحَدُهُمَا فَدُونَكُمُ الْآخَرَ فَتَمَسَّكُوا بِهِ أَمَّا الْأَمَانُ الَّذِى رُفِعَ فَهُوَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) وَأَمَّا الْأَمَانُ الْبَاقِى فَالِاسْتِغْفَارُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَما كانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَما كانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ؛ امام محمد باقر (علیہ السلام) امام امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "دو چیزیں زمین میں عذاب سے امان کا سرمایہ تھیں: ان میں سے ایک کو اٹھا لیا گیا، پس دوسری چیز کا دامن تھامے رکھو۔ جو سرمایۂ امان اٹھایا گیا ہے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) تھے؛ اور جو امان باقی ہے وہ استغفار ہے؛ کہ خداوند متعال نے فرمایا: "میں ان پر عذاب نازل نہیں کروں گا جب تک کہ آپ ان کے درمیان ہونگے، اور ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا جب تک کہ وہ استغفار کرتے رہا کریں گے"۔ (38)
گناہوں کی بخشش
سورہ نوح (39) میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے استغفار کا حکم دینے کے بعد، اللہ تعالی کے "بہت زیادہ بخشنے والا" کی صفت آئی ہے: "فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّاراً؛ (تو میں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو، بلاشبہ «وہ بڑا بخشنے والا» ہے)"۔ "غفار" کا وصف غفور، رحیم (40) اور ودود (41) کی مانند، اللہ کے اہم وعدے اور اللہ کی عظیم بشارت یعنی بندوں کے گناہوں کی مغفرت اور ان پر نزولِ رحمت کی طرف اشارہ ہے۔ (42) ایک حدیث میں گناہوں سے استغفار انسان کی روح و جان پر لگے ہوئے گناہ کے زنگ کو دور کرتا ہے اور روح و قلب کو روحانی تابندگی بخشتا ہے۔ (43)
رزق و اولاد میں اضافہ
سورہ نوح کی آیات 11 اور 12 میں موسلادھار بارشیں برسنے اور خشک سالی سے نجات، فقر و تنگ دستی کے خاتمے اور رزق و آمدنی اور مال و اولاد میں اضافے کی طرف اشارہ ہؤا ہے: "يُرْسِلِ السَّمَاء عَلَيْكُم مِّدْرَاراً * وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَاراً؛ وہ بھیجتا ہے بادل کو تم پر برستا ہوا * اور تمہیں مدد پہنچاتا ہے مال اور اولاد کے ساتھ اور قرار دیتا ہے تمہارے لئے باغ اور قرار دیتا ہے تمہارے لئے نہریں"۔
جیسا کہ ہم نے دیکھا سورہ نوح کی بارہویں آیت میں لاولد ہونے کے مسئلے کے دور ہونے یا اولاد کی کثرت کو استغفار کا ثمرہ قرار دیا گیا ہے۔
خوشحالی اور طویل العمری
حقیقی استغفار اچھی اور خوبصورت، خوشحال، پرامن و پرسکون اور عزت و آبرو سے بھرپور زندگی کے حصول کا سبب ہے۔ (44) جیسا کہ سورہ نوح کی آیت 12 میں ارشا ہؤا ہے اور سورہ ہود کی آیت 3 میں استغفار کے اس ثمرے اور اس خوبصورت مادی دنیا کو متاع حسن قرار دیا گیا ہے: "وَأَنِ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعاً حَسَناً؛ اور یہ کہ تم اپنے پروردگار سے طلب مغفرت کرو اور اس کی بارگاہ سے رجوع (توبہ) کرے، تاکہ وہ (اللہ) تمہیں متاع حسن (اچھا فائدہ) پہنچائے"۔
بعض مفسرین متاع حسن کو طویل العمری، قناعت و کفایت شعاری جیسی عظیم نعمت، لوگوں سے بےنیازی اور خداوند متعال کی طرف توجہ اور رجوع جیسی عزت و عظمت قرار دیتے ہیں جو اللہ سے بخشش طلب کرنے کا ثمرہ ہے۔ (45)
منقول ہے کہ کچھ لوگ جو خشک سالی، غربت اور تنگ دستی، بچوں کے نہ ہونے سے شکایت کررہے تھے اور حسن بصری سے اپنے مسائل کا حل چاہتے تھے تو اس نے انہیں استغفار کی سفارش کی اور سورہ نوح کی آیات 11 اور 12 کا حوالہ دیا۔ (46)
استغفار کے لئے بہترین مقام اور بہترین وقت
استغفار ایک خاص وقت اور مقام، یا کسی خاص صورت حال تک محدود نہیں ہے؛ لیکن زمان و مکان کے لحاظ سے مختلف حالات اور مواقع میں اس کا اپنا خاص کردار ہے اور ان حالات و مواقع میں استغفار اللہ کے ہاں درجۂ قبولیت پر فائز ہوتا ہے؛ چنانچہ رات کا وقت اللہ کے فیوضات کے نازل ہونے کے لئے بہترین موقع ہے: "إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْر؛ ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے"۔ (47) اور عبد کے عروج کے لئے بھی: "سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً؛ پاک ہے وہ جس نے اپنے بندے کو رات کے وقت اپنے بندے کو سیر کرائی"۔ (48)
خدائے متعال سورہ آل عمران کی آیات 15 تا 17 میں ارشاد فرماتا ہے: "وَاللّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ * الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ * الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالأَسْحَارِ؛ اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے بندوں کا * جن کا قول یہ ہے کہ [اے] ہمارے پروردگار! بلاشبہ ہم ایما ن لائے، اب تو ہمارے گناہوں کو بخش دے اور بچا ہمیں آتش دوزخ کے عذاب سے * جو صبر کرنے والے ہیں اور راست باز ہیں اور اطاعت گذار ہیں اور خیرات کرنے والے ہیں اور راتوں کو پچھلے پہر مغفرت کی دعائیں کرنے والے ہیں"۔
اور سورہ ذاریات کی آیات 16 تا 18 میں ارشاد فرماتا ہے: "إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُحْسِنِينَ * كَانُوا قَلِيلاً مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ * وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ؛ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اس سے پہلے (کے دور حیات میں بھی) نیکوکار رہے تھے * وہ رات کو بہت کم سوتے تھے * اور [رات کے] پچھلے پہروں کو وہ طلب مغفرت کرتے تھے"۔
"وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالأَسْحَارِ" اور "وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ" میں صراحت کے ساتھ سحر کے وقت کو استغفار کے لئے منتخب کیا گيا ہے اور سورہ یوسف کی آیت 98 میں ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے گنہگار بیٹوں سے فرمایا: "سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيَ؛ میں عنقریب تمہارے لئے اپنے پروردگار سے مغفرت کی التجا (استغفار) کروں گا"۔ اور مفسرین کی اکثریت کے مطابق سحر کے وقت کا استغفار دوسرے تمام اوقات پر ترجیح رکھتا ہے۔
سورہ یوسف کی مذکورہ بالا آیت کے مطابق، جب یعقوب (علیہ السلام) کے خطاکار بیٹوں نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان (اپنے والد) کے حق میں اور بھائی یوسف (علیہ السلام) کے حق میں جن گناہوں کے مرتکب ہوئے، ان کی بخشے جانے کے لئے، ان کے لئے استغفار کریں تو یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: میں مستقبل "میں تمہارے لئے اپنے رب سے استغفار (طلب مغفرت) کروں گا"۔ اس آیت کے سلسلے میں مذکورہ زیادہ تر احادیث میں بیان ہؤا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے قول "میں عنقریب تمہارے لئے استغفار کروں گا"، میں، (سوفَ یا) "عنقریب" سے "سحر کے اوفات میں استغفار" مقصود تھا۔ (49)
بعض مفسرین کے اقوال کے مطابق "شب جمعہ"، (50) ماہ رجب المرجب کی تیرہویں سے پندرہویں کی شب، (51) اور نماز شب یا تہجد کے اوقات (52) کو استغفار اور بخشش طلب کرنے کے لئے بہترین اوقات ہیں۔
کیا ہمارا استغفار قبول ہوگا؟
بے شک مشرکین، کفار اور منافقین کا استغفار قبول نہيں ہوگا اور اگر کوئی اور بھی ان کے لئے استغفار کرے تو ہرگز قبول نہیں ہوگا لیکن ان کے سوا تمام مؤمنین کا استغفار متعینہ شرائط کے ساتھ، اور توبہ و استغفار کے ساتھ اخلاص اور طلب مغفرت پر ترک گناہ کی صورت میں، قبول ہوگا کیونکہ:
1۔ بعض آیات کریمہ خداوند متعال کی بارگاہ میں استغفار کی قبولیت پر تصریح ہوئی ہے: "وَمَن يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّهَ يَجِدِ اللّهَ غَفُوراً رَّحِيماً؛ اور جو برائی کرے، یا اپنے اوپر ظلم کرے، پھر اللہ سے استغفار (اور بخشش طلب) کرے تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا پائے گا، نہایت مہربان"۔ نیز ارشاد ہوتا ہے: "وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُواْ اللّهَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللّهُ وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَى مَا فَعَلُواْ وَهُمْ يَعْلَمُونَ؛ اور وہ کہ جب کوئی بڑا برا کام کر ڈالتے ہیں یا اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں پر استغفار کرتے ہیں اور اللہ کے سوا ہے کون جو گناہوں کو معاف کرے جبکہ وہ اپنے کئے ہوئے [برے اعمال] پر جان کر اصرار نہیں کرتے"۔ (53) "فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ؛ تو اس سے مغفرت طلب کرو، پھر اس کی طرف پلٹ آؤ، یقینا میرا پروردگار نزدیک ہے، دعاؤں کا قبول کرنے والا"۔ (54)
نیز سورہ غافر کی آیت 60 میں خداوند متعال قبولیت کا معدہ دیا ہے: "ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ؛ مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا"؛ اور استغفار بہترین دعاؤں میں سے ایک ہے؛ (55) چنانچہ بطور اتم و اکمل اس الہی وعدے کے زمرے میں آتا ہے اور بےشک استغفار کی قبولیت کا یہ الہی وعدہ بجائے خود مؤمنین کو استغفار کی طرف راغب کرتا ہے۔
2۔ چونکہ قرآن کی متعدد آیات استغفار کا فرمان دیتی ہیں، (56) لہذا بعید ہے کہ اللہ استغفار کو قبول نہ کرے۔
3۔ اللہ کی بہت سی صفات بشمول "غفور، غافر، غفار، عفوّ، تواب" وغیرہ خود اللہ کی بخشش کا وعدہ دے رہی ہیں اور اللہ کی "بخشش" وہی ہے جس کی التجا "استغفار" میں ہوتی ہے۔
آخری نکتہ:
بہرصورت زبانی استغفار کے لئے عملی استغفار یعنی ترکِ گناہ شرط اور ترک گناہ پر استوار رہنا ہے؛ "وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَى مَا فَعَلُواْ"۔ (57)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، ج7، ص33۔
2۔ سورہ ہود، آیت 3۔
3۔ شہید ثانی، مسالک الافہام فی شرح شرائع الاسلام، ج9، ص535؛ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج33، ص163؛ رسائل فقہیۃ (شیخ انصاری)، ص56۔
4۔ السید ہاشم البَحرانی، تفسیر البرہان، ج5، ص64ـ65؛ عبدعلی بن جمعہ الحویزی (یا الہویزی)، تفسیر نور الثقلین، ج5، ص38۔
5۔ محمود روحانی، المعجم الاحصائی لالفاظ القرآن الکریم، ج3، ص1058، «غفر»۔
6۔ سورہ غافر، آیت 7۔
7۔ سورہ شوری، آیت 5۔
8۔ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج2، ص463۔
9۔ سورہ آلعمران، آیت 16-15۔
10۔ محمدفواد عبدالباقی، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص634، «غفر»۔
11۔ سورہ مائدہ، آیت 74۔
12۔ نہج البلاغہ، خطبہ 193۔
13۔ سورہ بقرہ، آیت 197۔
14۔ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص180۔
15۔ السید محمد کاظم الطباطبائی الیزدی، العروۃ الوثقی، ج1، ص683۔
16۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام، ج4، ص323۔
17۔ وہی مؤلف، جواہر الکلام، ج12، ص131۔
18۔ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج10، ص304۔
19۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج33، ص193۔
20۔ مناسک مراجع، م372 و مناسک مراجع، م377۔
21۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج33، ص295؛ و ص160-163، ج12، ص34-47۔
22۔ وہی مؤلف، جواہر الکلام ج12، ص88۔
23۔ وہی مؤلف، جواہر الکلام ج22، ص72۔
24۔ سید ابوالقاسم الخوئی، مصباح الفقاہۃ ج1، ص519-522۔
25۔ سورہ توبہ، آیت 113؛ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج12، ص47-51۔
26۔ سورہ توبہ، آیت 113۔
27۔ سورہ نساء، آیت 48؛ سورہ نساء، آیت 116۔
28۔ سید محمد حسین الطباطبائی، تفسیر المیزان، ج9، ص351۔
29۔ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج8، ص155۔
30۔ سورہ منافقون، آیت 6۔
31۔ سورہ توبہ، آیت 80۔
32۔ فخر الدين الرازى، التفسیر الکبیر، ج16، ص148؛ سید محمد حسین طباطبائی، تفسیر المیزان، ج9، ص351-352۔
33۔ محمدفواد عبدالباقی، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص634، «غفر»۔
33۔ سورہ بقرہ، آیت 58؛ سورہ اعراف، آیت 161۔
34۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج12، ص132؛ سورہ نوح، آیت 10-12؛ سورہ ہود، آیت 52۔
35۔ سورہ انفال، آیت 33۔
36۔ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج7، ص154155۔
37۔ نہج البلاغہ، حکمت 88۔
38۔ سورہ نوح، آیت 10۔
39۔ سورہ نساء، آیت 110۔
40۔ سورہ ہود، آیت 90۔
41۔ محمد بن جرير طبرى، تفسیر جامع البیان، ج4، ج5، ص371۔
42۔ ابن فہد الحلی، احمد بن محمد، عدۃ الداعی و نجاح الساعی، ص265۔
43۔ فضل بن حسن الطبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج10، ص543؛ فخرالدین الرازی، التفسیر الکبیر، ج30، ص137؛ سید محمد حسین الطباطبائی، تفسیر المیزان، ج10، ص300۔
44۔ محمد بن احمد انصاری قرطبی، الجامع لأحكام القرآن (تفسیر القرطبی)، ج9، ص4۔
45۔ فضل بن حسن بن فضل الطبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج10، ص543۔
46۔ سورہ قدر، آیت 1۔
47۔ سورہ اسراء، آیت 1۔
48۔ فضل بن حسن بن فضل الطبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج5، ص403؛ محمد بن احمد انصاری قرطبی، الجامع لأحكام القرآن (تفسیر القرطبی)، ج9، ص262؛ تفسیر الصافی، ج3، ص46۔
49۔ محمد بن جرير طبرى، تفسیر جامع البیان، ج8، ج13، ص85؛ ج5، ص403؛ فخر الدين الرازى، التفسیر الکبیر، ج18، ص209؛ محمد بن احمد انصاری قرطبی، الجامع لأحكام القرآن (تفسیر القرطبی)، ج9، ص262۔
50۔ وہی ماخذ، ج9، ص262؛ سید محمود الآلوسی البغدادی، تفسیر روح المعانی، ج8، ج13، ص79؛
51۔ عبد الرحمان بن ابی بکر بن محمد السیوطی، تفسیر الدر المنثور فی التفسیر الماثور، ج4، ص585۔
52۔ سورہ نساء، آیت 110۔
53۔ سورہ آلعمران، آیت 135۔
54۔ سورہ ہود، آیت 61۔
55۔ السید ہاشم البَحرانی، تفسیر البرہان، ج5، ص65؛ عبدعلی بن جمعہ الحویزی، تفسیر نور الثقلین، ج5، ص38۔
56۔ محمدفواد عبدالباقی، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص634، «غفر»۔
57۔ سورہ آل عمران، 135
۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔
110
امریکی زوال پر نیویارک پوسٹ کا اعتراف
نیویارک پوسٹ نے تشویش، ناراضگی اور سراسیمگی سے بھرپور تجزیئے میں لکھا: ایرانی ہر روز دنیا کے مختلف حصوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مصروف ہیں۔
وہ عراق، شام، لبنان، بحرین، یمن، وینزوئلا، اور کئی افریقی، یورپی، ایشیائی اور امریکی ممالک میں موجود ہیں اور ان ممالک میں ان کا گہرا اثر و رسوخ ہے۔
ایران نے دنیا کو ثابت کرکے دکھایا کہ امریکہ نامی بڑی طاقت اور امریکی تسلط اختتام پذکر ہوچکا ہے؛ اور وہ امریکیوں کی آنکھوں کے سامنے، اپنے بحری جہازوں کو جہاں بھی چاہے بھیجتا رہے گا؛ اور کوئی بھی ان کے راستے میں رکاوٹ نہيں ڈآل سکے گا۔
ایران نے برطانیہ اور فرانس کی بحری سلطنت کا مکمل خاتمہ کیا اور آج ایران ہی ہے جو آس پاس کے علاقے میں بحری سلامتی کے مقدرات کا تعین کرتا ہے۔
شام، ایران کی عالمی طاقت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت شام اور بشار اسد کے مقدر کا تعین کرے اور یہ ملک اپنے مقدرات کا فیصلہ خود ہی کرے گا۔ ایران نے شام میں دسوں ممالک کا مقابلہ کیا اور انہیں ان کے مقاصد تک نہیں پہنچنے دیا؛ اور یہ بات سب کو سمجھا دی کہ علاقے میں کوئی بھی چیز نہیں بدلے گی جب تک ایران نہیں چاہے گا۔
ایران نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ دور قصۂ پارینہ بن چکا ہے جب امریکہ اپنے طیارہ بردار جہازوں کو روانہ کرکے حکومتوں کو تبدیل کردیتا تھا اور اقوام کے مقدرات کا تعین کرتا تھا؛ اور آج ایران جیسا طاقتور ملک اس کے مد مقابل آ کھڑا ہؤا ہے۔
ایران نے ثابت کرکے دکھایا کہ امریکہ مزید بڑی طاقت (Superpower) نہیں ہے۔
دنیا میں کوئی بھی طاقت اور کوئی بھی فوج نہیں ہے جو ایران کے ساتھ لڑنے بھڑنے کی خواہاں ہو؛ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ہر جنگ کا آغاز باعث بنتا ہے کہ ایران اپنے مقاصد تک پہنچ جائے اور اسرائیل کو براہ راست نشانہ بنائے اور ایسی جنگ سے پوری دنیا کو نقصان پہنچے گا۔ ایرانی ہی ہونگے جو جنگ کے دورانیے اور محاذ کی وسعتوں کا تعین کریں گے۔
دنیا کے تمام مسائل اور واقعات سے ثابت ہے کہ ایران عنقریب تمام نیابتی (پراکسی) جنگوں میں ہی نہیں بلکہ اقتصادی جنگوں میں بھی، کامیاب ہوگا اور ایران کا اثر و نفوذ عنقریب وسیع سے وسیع تر ہوگا۔
واضح رہے کہ نیابتی جنگیں استکباری ممالک کی طرف کی جدید جنگوں کے زمرے میں آتی ہے اور دنیا بھر میں کہیں بھی ایران کی طرف سے کوئی نیابتی جنگ نہیں ہورہی ہے۔ ایران جن ملکوں میں تحریک مزاحمت کی حمایت کررہا ہے، وہاں تحریک مزاحمت کی رکن تنظیمیں اپنے ممالک کی آزادی اور خودمختاری کے لئے لڑ رہی ہیں اور ایران ان کی حمایت کررہا ہے چنانچہ یہ مغربی-عبرانی-عربی سازشی محاذ کی تشہیری ایجنڈے کا حصہ ہے کہ ایران کی طرف سے کہیں کوئی نیابتی جنگ لڑی جارہی ہے۔
سورس: تیمورا میڈیا گروپ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: فرحت حسین مہدوی
یوم بعثت رسول اسلام (ص) پر رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب
رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکی فوجیوں کو عراق اور شام سے نکلنا ہوگا آپ نے فرمایا امریکا نے داعش کو خود بنایا اور اس کا اعتراف بھی کیا لیکن داعش کے خلاف جنگ کے بہانے شام میں غاصبانہ طریقے سے موجود ہے -
رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ستائیس رجب عید مبعث کے موقع پراپنے نشری خطاب میں ایرانی قوم، امت مسلمہ اور دنیا بھر کے حریت پسندوں کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ عید مبعث انصاف کے طلبگاروں کی عید ہے۔
آپ نے فرمایا کہ یہ وہ عظیم دن ہے جس دن مرسل اعظم ص کا قلب مبارک گرانبہا الہی امانت یعنی وحی کا خزانہ بنا اور عالم وجود کی سنگین ترین ذمہ داری آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دوش مبارک پر ڈالی گئی ۔
رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ توحید کے معنی صرف یہ نہیں کہ انسان دل میں یہ عقیدہ رکھے کہ خدا ایک ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی حاکمیت کو قبول کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ انسانوں کی تعلیم، انصاف کا قیام تمام انبیائے الہی کی بعثت کا اہم ترین مقصد ہے کیونکہ انسانی سماج کو انصاف کی بنیادوں پر چلایا جانا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایران کے اسلامی انقلاب کو بعثت کا تسلسل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب ایران نے عصر حاضر میں بعثت کے مضامین کی تجدید کی ہے، خداوند متعال نے امام خمینی رح کو توفیق عطا کی کہ وہ عصر حاضر میں بعثت نبوی کے راستے کو اپنے اقدامات، شجاعت اور اعلی افکار کے ذریعے جلا بخشیں۔
آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کو بھی اپنی کامیابی کے بعد اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جس کا پیغمبراسلام صلی اللہ وآلہ وسلم کو کرنا پڑا تھا یعنی عالمی شرپسند اور جرائم پیشہ طاقتیں اس کے مقابلے میں صف آرا ہوگئی تھیں ۔
رہبرانقلاب اسلامی نے امریکہ اور سابق سویت یونین کی دشمنی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں اس کے علاوہ کسی اور چیز کی توقع بھی نہیں تھی اور ہمیں معلوم تھا کہ امریکہ اور سویت یونین ایسے انقلاب کو برداشت نہیں کریں گے اور اس کے خلاف صف آرا ہوجائیں گے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دشمن کے مقابلے کے لیے بصیرت اور استقامت جیسے عناصر کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے ہمیشہ دو عناصر کی سفارش کی ہے ایک بصیرت اور دوسرا صبر و استقامت کا عنصر ہے، اگر یہ دو عناصر موجود ہوں گے تو دشمن ہمارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا ۔
آپ نے اسلامی انقلاب کے خلاف دشمن کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن سافٹ وار کے ذریعے دو اہداف پر کام کر رہا ہے ایک حق اور صبر کی تلقین کا سلسلہ بند ہوجائے اور دوسرے حقائق کو توڑ مروڑ کر اور حتی برعکس ظاہر کرے ۔
رہبرانقلاب اسلامی نے دشمن کی دروغگوئی اور حقائق کو الٹا دکھانے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا دشمن اس قدر ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتا ہے کہ سننے والا اسے سچ سمجھنے لگتا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ یمن کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں پچھلے چھے برسوں سے امریکہ اور اس کا جارح عرب اتحاد یمنی عوام اور ان کے گھروں، اسپتالوں اور اسکولوں پر بمباری کر رہا ہے ، اس جارح اتحاد نے یمن کا اقتصادی محاصرہ کر رکھا ہے ، غذائی اشیا اور دوائیں تک نہیں پہنچانے دے رہا ، لیکن جیسے ہی یمن کے بہادر اور دلیر عوام اپنے وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے چھے سال سے جاری بمباری کا جواب دیتے ہیں تو پروپیگنڈہ مشینری سرگرم ہوجاتی ہے اور قتل و غارت گری کا شور مچانے لگتی ہے-
رہبر انقلاب اسلامی نے دشمن کی دروغگوئی کی ایک اور مثال کا ذکر تے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے سب سے بڑے ذخائر رکھنے اور اسے استعمال کرنے والا ملک امریکہ جس نے ایک دن میں دو لاکھ بیس ہزار سے زائد افراد کو ایٹمی بمباری کے ذریعے قتل کرڈالا ہے، آج کہتا ہے ہم عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خلاف ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اپنے مخالف کو قتل کرکے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والی سعودی حکومت کی حمایت کرنے والا امریکہ انسانی حقوق کی حمایت کے دعوے کرتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی تشکیل میں امریکہ کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوے فرمایا کہ داعش کو خود امریکہ نے بنایا اور اس کا اعتراف بھی کیا ہے، اور داعش کے خلاف جنگ کے بہانے شام میں اڈے قائم کر رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایران کی علاقائی موجودگی کے بارے میں منفی پروپییگنڈا کیا جاتا ہے اور اسے علاقے میں عدم استحکام کا سبب قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ ہم جہاں بھی موجود ہیں ان ملکوں کی قانونی حکومتوں کی درخواست پر ان کے دفاع کے لیے موجود ہیں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ علاقے میں کہیں بھی ایرانی فوجیں موجود نہیں ہیں اگر کہیں ہمارے فوجی ہیں بھی تو وہ مشاورت کے لئے ہیں البتہ امریکہ کسی بھی ملک کی اجازت کے بغیر داخل ہوتا ہے اور وہاں اپنے اڈے بنا لیتا ہے جیسا کہ اس نے شام میں کررکھا ہے ۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکہ کو عراق سے جانا ہوگا اور شام سے بھی جتنا جلد ممکن ہو امریکہ کو نکل جانا چاہیے۔
ایران کے سفارتخانے کے زیراہتمام تمام مسالک کے جید علمائے کرام کی مشترکہ نشست کا انعقاد
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے کے زیر اہتمام تمام مسالک کے جید علمائے کرام کی مشترکہ نشست کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری، ایرانی سفیر جناب محمد علی حسینی، سربراہ اسلامی تحریک حجت الاسلام و المسلمین علامہ سید ساجد علی نقوی، سربراہ امت واحدہ پاکستان حجت الاسلام و المسلمین علامہ محمد امین شھیدی، سربراہ ایم ڈبلیو ایم حجت الاسلام و المسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری، معروف اسکالر علامہ محمد عباس وزیری سیمت دیگر علماء کرام نے شرکت کی
شب عید مبعث حرم مطہر کے صحن جامع رضوی کا نام بدل کر صحن پیغمبر اعظم رکھ دیا جائے گا
بعثت رسول مکرم اسلام(ص) کے موقع پر پیغمبر گرامی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کی عظمت و منزلت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے امام رضاعلیہ السلام کے صحن جامع رضوی کو آپ (ص) کے مبارک نام سے مزیّن کیا جائے گا۔ تاکہ دین مبین محمدی(ص) کی تبلیغ و ترویج کے ہدف سے ثقافتی و دینی پروگراموں کے انعقاد کے لئے نیا پلیٹ فارم مہیا کرایا جاسکے
آستان قدس رضوی گذشتہ برسوں کے دوران بھی قومی اور بین الاقوامی سیمینار کے انعقاداور یورپ کے حق پسند اور حقیقت کے متلاشی لوگوں کے ساتھ ثقافتی تعلقات کی توسیع کے ذریعے اس سلسلے میں بہت سے اہم کام انجام دے چکا ہے اور اب حرم مطہر رضوی کے ایک اہم صحن کو پیغمبر گرامی اسلام(ص) کے مبارک نام سے مزیّن کرنے کے بعد اپنی سرگرمیوں کا دائرہ مزید وسیع کرے گا۔
ماضی میں زائرین و مجاورین کی جانب سے بہت ساری درخواستیں موصول ہوئی تھیں کہ حرم مطہر رضوی کے کسی ایک صحن کا نام پیغمبر گرامی اسلام(ص) کے مبارک نام سے مزیّن کیا جائے۔اسی سلسلے میں آستان قدس رضوی نے باقاعدہ طور پر اس موضوع کو اپنے پروگرا م میں شامل کیا اور ماہرین کی رائے لینے کے بعد فیصلہ کیا کہ شب عید مبعث کے موقع پر صحن جامع رضوی کا نام پیغمبر گرامی اسلام(ص) رکھ دیا جائے گا۔ یہ تبدیلی فقط نام تک محدود نہیں ہو گی بلکہ صحن پیغمبر اعظم(ص) کو دین مبین محمدی(ص) کی ترویج کا مرکز و محور بنایا جائے گا۔
مستقبل میں زائرین و مجاورین کے تمام بڑے اجتماعات اسی صحن میں منعقد کئے جائیں گے جو کہ پیغمبر اعظم(ص) کے نام سے مزیّن ہورہا ہے یہ اقدام ہیغمبر گرامی اسلام(ص) کے نام اور تعلیمات کی ترویج کے لئے اہم قدم ثابت ہو گا۔ واضح رہے کورونا وائرس سے قبل حرم مطہر رضوی میں سالانہ تین کروڑ زائرین زیارت سے مشرف ہوتے رہے ہیں جن میں چالیس لاکھ غیرملکی زائرین ہوا کرتے تھے یہ سبھی زائرین ک دنیا کے دور دراز ممالک میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ثقافتی اور مذہبی سفیر ہیں۔
پیغمبر اعظم کے نام منسوب ہونے والے اس صحن کا رقبہ ۱۱۷۵۸۴ مربع میٹر ہے جس کی تعمیر کا کام ۱۹۸۷ میں شروع ہوا اور ۲۰۰۲ میں اختتام پذیر ہوا، یہ صحن جو کہ ضریح امام رضا علیہ السلام کے جنوب میں واقع ہے اور اس کے چھ بلند و بالا مینار تین ایوان جن کے نام باب الہادیؑ،باب الکاظمؑ اور ایوان ولی عصر(عج) ہیں۔
پیغمبر اعظم کی سیرت طیبہ اور وحدت
آنحضرت (صعلم)کی سیرت طیبہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تمام کلمہ گو مسلمانوں کے لئے اسوہ حسنہ اور واجب الاتباع ہے
اہل سنّت بھائیوں کے منابع سےپیغمبر اعظم ﷺکی سیرت طیبہ اور وحدت
یہاں ہم اختصار کی بنا پر صرف رسول اکرم کی سیرت طیبہ سے وحدت کے چند نمونے پیش کرتے ہیں تاکہ ہمیں یہ معلوم ہو جاے کہ انھوں نے وحدت کی راہ میں کیا کیا قربانیاں دی ہیں اور ہم جو ان کے نقش قدم پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں ؛ وحدت کی راہ میں کیا قدم اٹھائے ہیں ۔
آنحضرت ۖکی سیرت طیبہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تمام کلمہ گو مسلمانوں کے لئے اسوہ حسنہ اور واجب الاتباع ہے۔ اگر آپ ان کی الٰہی سیرت اٹھا کر دیکھیں تو ان کی زندگی کے ہر قدم پر وحدت کے سینکڑوں نمونے نظر آتے ہیں جو نہ صرف ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے بلکہ تمام بشر یت کے لئے تا قیام قیامت نمونہ عمل ہے ۔آپ ﷺکی پاک سیرت میں وحدت واتحاد کے ایسےانمول نمونے پائے جاتے ہیں جس کی مثال سابقہ امتوں میں نہیں ملتی۔
حد یہ ہے کہ آپ ﷺے مدینہ تشریف لانے کے فورا بعد چند اہم اور بنیادی اقدامات انجام دىے، ان میں سے اىک قدم مختلف گروہوں ، امتوں اور قوموں کے درمیان وحدت اور اتحاد و اتفاق ایجاد کرنا تھا جو اپنی جگہ بے سابقہ ہے ہم یہاں چند نمونے ذکرکرتے ہیں ۔
ا۔امت واحدہ کی تشکیل میں تاریخی دستاویز
اسلام کا نورانی پیام مدینہ آنے کے بعد اس شہر میں مختلف مکاتب سے وابستہ لوگ بسنے لگے تھے ۔ نو مسلموں کے ساتھ ساتھ یہودی بھی چند قوموں کی شکل میں رہتے تھے ۔ بت پرست اور مشرک اقوام بھی آباد تھیں ۔جب سرور کائنات مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺنے یہ احساس کیا کہ اس شہر کی اجتماعی زندگی ٹھیک نہیں ہے ، نا منظم ہے اور ہر گروہ دوسرے گروہ کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے ،مختلف قبیلوں کے درمیان سخت قسم کے اختلافات اور تنازعے پائے جاتے ہیں ؛ سب سے بڑے دو قبیلے اوس وخزرج کے درمیان دیرینہ خونی دشمنی پائی جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں ؛ اب اس حالت میں ہر لمحہ ممکن تھا کہ کوئی نا گوار واقعہ پیش آے ۔
چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺے مدینہ میں رہنے والے تمام گروہوں کے درمیان باہمی تعاون اور یکجہتی کی وہ عظیم دستاویز پیش کی جو بعد میں اسلام کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی دستاویز کہلائی ؛ اور مورخین کے مطابق یہ قرارداد آپ ﷺنے اپنے پہلے خطبے کے فورا بعدپاس کی۔
رسالت مآب ﷺنے اس قرار داد میں مدینہ شہر میں رہنے والے مختلف گروہوں کے حقوق معین کےا اور یہ قرارداد مسالمت آمیز زندگی گزارنے اور ہر طرح کے ہنگامے اور اختلافات کے جنم لینے اور ان کے درمیان نظم وعدالت کو بر قرار رکھنے کی ضامن بنی ۔اس تاریخی قرارداد کے چند اہم نکات یہ تھے :
(1) مسلمان اور یہود ایک امت ہیں
(2) مسلمان اور یہود اپنے دین کی پیروی میں آزاد ہیں
(3) اس عہد نامہ پر دستخط کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ سب مل کر شہر مدینہ کا دفاع کریں
(4) مدینہ ایک مقدس شہر ہے جس میں ہر طرح کا خون خرابہ حرام ہو گا
(5) اس عہد نامہ پر دستخط کرنے والوںمیں اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں حل وفصل کرنے والے محمد ﷺہوں گے ۔ اس قرارداد کی تفصیلات اس طرح بیان کرسکتے ہیں۔
اس تاریخی قرارداد سے دو اہم نکتے ہمارے ذہن میں آتے ہیں جو کسی قوم یا جماعت کے درمیان اتحاد برقرار رکھنے اور یکجہتی پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
(1)مذہبی آزادی : امت مسلمہ کے درمیان اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لئے اہم ترین چیز مذہبی آزادی ہے خواہ اسلامی فرقوں کے درمیان ہو یا اس سے بھی زیادہ وسیع سطح پر مختلف ادیان کے درمیان ہو کہ جس کا خوبصورت ترین نمونہ پیغمبر اکرم ۖکی سیرت طیبہ میں ہمیں نظر آتا ہے ۔
چونکہ ایک دین میں مختلف فکری مذاہب ، شریعت کے فکری اور عملی احکام میں علماء کے اجتہادات اور قرآن وسنت سے استنباط کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں کہ جس کی ہم سب اجازت دیتے ہیں ،اب اس صورت میں ایک مسلمان کو کامل طور پر یہ اختیار حاصل ہونا چاہئے کہ وہ اپنی مرضی سے ان اسلامی فرقوں اور مذاہب میں سے اپنی نظر میں جو سب سے افضل ہو اور بروز قیامت پروردگار عالم کے حضور میں جواب گو ہو ؛ اسی مذہب کی پیروی کرے اور کسی کو یہ حق نہیں ہو گا کہ اسے کسی خاص مذہب کے انتخاب پر برا بھلا کہے یا اس کی مذمت کرے ؛ اسی طرح کسی کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ کسی دوسرے شخص کوکسی خاص مذہب کے انتخاب پر مجبور کرے چونکہ مذہب کا انتخاب ایمان اور قلبی اطمینان کے حصول کے ساتھ وابستہ ہے جو صرف اور صرف حجت اور دلیل کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
اور اسی طرح ہر مذہب کو اپنی آراء و نظریات خواہ عقیدتی میدان میں ہو یا فقہی اور عملی میدان میں ؛ پیش کرنے اور اس پر دلیل قائم کرنے کا پورا حق حاصل ہے اور یہ اس وقت تک مطلوب ہے جب تک بے فائدہ جدل ودشمنی اور ایک دوسرے کی اہانت کى سبب نه بنے ۔
(2) قومی انسجام :پہلے بھی عرض کیا کہ وحدت انسانیت اور اسلامیت کی بقا ء کا ضامن ہے یہ کسی خاص قوم یا کسی خاص زمان ومکان تک محدود نہیں بلکہ انسانی معاشرے کی بقاء کے لئے ایک دائمی اصل ہے ۔جس طرح اسلام اور مسلمانوں کی بقا ء وتحفظ اور ترقی وتمدن کے لئے اسلامی اتحاد کی ضرورت ہے ، اسی طرح کسی قوم وملک کی بقاء کے لئے اسکی ترقی و تمدن کے لئے بھی اس ملک کے اندر بسنے والے مختلف گروہوں قوموں اور مختلف طبقات اور مختلف مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان قومی اور ملی انسجام واتحاد شہ رگ کی مانند ہے ۔
اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ استعماری اور طاغوتی ایجنڈے اسلامی مالک میں نہ صرف مسلم فرقوں ،گروہوں کو آپس میں لڑوانے کے پیچھے ہیں بلکہ مختلف قوموںاور نژادوںکو قومیت اور نژادیت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جدا کر کے ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے کی بھر پور کوشش میں ہیں ۔
چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺنے بھی اسی اہم نکتے کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک معاشرتی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل اور اسلامی حکومت کی بنیاد رکھنے سے پہلے ہی مدینہ شہر کے رہنے والے مختلف مکاتب فکر سے وابستہ لوگوں کے درمیان قومی اور ملی اتحاد واتفاق کی قرار داد پاس کی کہ جس عہد نامے میں مسلمانوںاور یہودیوں کو ایک ملت قرار دیا گیا ، ان سب کی جان و مال کو محترم شمار کیا گیا اور سب پر مدینہ شہر کے دفاع کی ذمہ داری ڈالی گئی اس طرح مدینہ کی اجتماعی زندگی میں رونق آ گئی اور سب کے حقوق محفوظ ہوگئے۔
٢۔ انصارومہاجرین کے درمیان ا خوت کامعاہدہ
پیغمبر اعظم ﷺے ہجرت کے بعد اتحاد کی راہ میں جو دوسرا قدم اٹھایا وہ مہاجرین اور انصار کے درمیان رشتہ اخوت اور بھائی چارگی بر قرار کرنا تھا ۔
چونکہ اسلام سے پہلے دور جاہلیت میں دو بڑے گروہوں میں پیشہ اور نسل کے لحاظ میں تفاوت کے سبب کشمکش پائی جاتی تھی ؛ کیونکہ انصار جنوب عرب (یمن )سے ہجرت کر کے آئے تھے اور نسب کے اعتبار سے ان کا تعلق قحطان سے تھا جبکہ مہاجرین شمالی حصے سے آئے تھے اور ان کا تعلق عدنانی نسل سے تھا اور دوسری طرف انصار کا مشغلہ کاشتکاری و باغبانی تھا ؛ جبکہ مہاجرین اور اہل مکہ تجارت کرتے تھے اور کاشکاری کو ایک پست پیشہ سمجھتے تھے ؛ اس سے قطع نظر یہ دونوں گروہ الگ ماحول کے پروردہ تھے ؛ لیکن اب نوراسلام کی بدولت آپس میں بھائی بھائی ہو گئے تھے (٢)
لیکن ان دونوں گروہوں میں گزشتہ افکار و خیالات اور کلچر کے اثرات ابھی بھی بعض لوگوں کے ذہنوںمیں رہ گئے تھے اور ہر لحظہ یہ اندیشہ تھا کہ کہیں قدیمی عصبیت بھڑک نہ اٹھے ،اب ان اختلافات کے ہوتے ہوئے ایک عالم گیر الٰہی حکومت کی بنیاد ڈالنا نا ممکن تھا اور مکتب اسلام کو دوسرے مکاتب فکر اور مشرکین کے مقابلے میں مضبوط بنانے کے لئے آپ ﷺنے اپنی حکمت با لغہ سے ان کے درمیان( تآخوا فی اللہ اخوین) کا نعرہ بلند کر کے اخوت اور بھائی چارگی کا رشتہ برقرار کیا اور ہر مہاجر و انصار میں سے ایک کو دوسرے کا بھائی بنایا اور علی علیہ السلام کو اپنا بھائی بنا یا اور فرمایا : انت اخی فی الدنیا والآخرة… ( ٣) جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے درمیان اخوت و برادری اور وحدت ویکجہتی کی ایک نئی لہر دوڑ اٹھی ایک دوسرے کے درمیان سالہا سال پرانی دشمنی دوستی اور اخوت میں تبدیل ہو گئی کہ جس کی کوئی نظیر سابقہ امتوں میں نہیں ملتی ۔
اتحاد ووحدت کی راہ میں اس جیسے سینکڑوں نمونے آپ ﷺکی با برکت زندگی میں دیکھنے میں آتے ہیں اور آپ ۖاپنے آخری دم تک لوگوں کو اتفاق و وحدت کے ساتھ زندگی گزارنے کی دعوت دیتے رہے اور فرمایا کرتے تھے ايها الناس علکمت بالجماعة واياکم والفرقة (٤) لوگو! خبردار تفرقہ بازی اور گروہ بندی سے بچو اور ہمیشہ متحد ہو کے رہو،اسی طرح کسی اور مقام پر آپ ﷺفرماتے ہیں کہ تم میں سے کون ایسا عقلمند ہے جو اتحاد اور انسجام کی ضرورت کا احساس نہ کرے ؟ لیکن اسکے باوجود یہ سننے میں آتا ہے کہ بعض تنگ نظر جاہل ومقدس مآب اور متعصب افراد مختلف اسلامی فرقوں اور گروہوں کے درمیان وحدت برقرارکرنے کو پسند نہیں کرتے اورکھلم کھلا وحدت کی ضرورت کا انکا ر کرتے ہیں یقینا اس کی علت سیرت رسول اعظم ۖسے لا علمی و دوری اور اپنے من گھڑت عقائد وافکار پر اصرارکر نے کے سواکچھ نہیں ہے ۔
خدایا ! ہم سب کو سرور کائنات کی سیرت طیبہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما آمین !
حوالہ جات
(1)-ابن هشام : السیرة النبوی :ج 2 ص 147-150 مطبع المصطفی الباقی قاهره ۔
(2)-۔ابن هشام : السیره النبویة ؛ج 2 ص 150 اور مجلسی : بحار الانوار ج 19 ص۔
(3)- ابن هشام،ص 130۔: السیره النبویة ؛ج2 ص 150اور عسقلانی : الاصابة؛ج2 ص 507طبع بیروت دار ا التراث العربی 1328ق.بحارالانوار ج :8 ص :1 ۔
(4)۔محمد تقی هندی : کنز العمال ؛ج 1 ص 206حدیث نمبر 1028۔