
سلیمانی
حضرت محمّد مصطفی ؐرحمت للعالمین ؐ
کلمۂ رحمت اور اسکی مشتقات پورے قرآن میں تقریباً ۳۳۸ مرتبہ ذکر ہوئی ہیں جس میں سے ۷۹ بار کلمہ رحمۃ مستقل طور پر ذکر ہوا ہے اور ۳۶ مرتبہ ضمائر مثلاً رحمتی، رحمتہ،رحمتک،رحمتنا کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔
خداوند اس رحمت کے سلسلے میں کبھی مصیبت والوں کو خطاب فرماتا ہے اولئک علیهم صلوات من ربّهم و رحمة (بقرة:۱۵۷)تو کہیں سختیاں دیکھنے والوں کو فرماتا ہے واذا اذقنا النّاس رحمة من بعد ضرّاء مسّتهم (یونس:۲۱)ایک جگہ پہ تورات کے بارے میں ذکر ہوتا ہے ومن قبله کتا ب موسی اماماً و رحمة (انعام:هود:۱۷) تو کہیں قرآن کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے فقد جائکم بیّنة من ربکم و هدیً و رحمة (انعام:۱۵۷)کبھی احسان کرنے والوں کے حق میں مہربانی ،عنایت اور بخشش کے سلسلے میں ارشاد فرماتا ہے انّ رحمة الله قریب من المحسنین (اعراف:۵۶)تو کہیں اس رحمت سے محروم ہونے والوں کیلئے بتاتا ہے أهؤلاء الذین اقسمتم لا ینالهم الله رحمة (اعراف:۴۹)کسی جگہ خدا کی رحمت کے امیدواروں کا ایڈریس دیتا ہے اولئک یرجون رحمة الله والله غفور رحیم (بقرة:۱۲۸)تو کسی مقام پر اپنی مغفرت و رحمت کی تعریف کرتا ہے لمغفرۃ من الله و رحمة خیر ممّا یجمعون( ) کہیں بیویوں کو سکون اور آرام کا باعث اور اپنی خلقت کا کمال قرار دے کر اس میں رحمت قرار دینے کے بارے میں فرماتا ہے ان خلق لکم من انفسکم ازاواجاًلتسکنوا الیها و جعل بینکم مودّة ورحمة (روم:۲۱)تو کہیں پیمبر کی پیروی کی صورت میں دلوں میں راٗفت اور رحمت ایجاد کر کے فرماتا ہے وجعلنا فی قلو ب الذین اتبعوہ رأفة ورحمة (حدید :۲۷)کہیں موسی سے خطاب ہوتا ہے و ماکنت بجانب الطوراذنادینا ولکن رحمۃ من ربّک( قصص:۴۶)
لیکن جب رسول گرامی اسلام ؐکے بارے میں ارشاد ہوتا ہے تو یہ آیت دوسری آیتوں سے مختلف ، وسیع تر اور عظیم تر نظر آتی ہے،اور خدا وند تمام عالمین کیلئے ان کی ذات مقدّسہ کو رحمت کے طور پہ تعارف کرواتا ہے وما ارسلناک الّا رحمۃ للعالمین (انبیاء:۱۰۷)
مختلف آیات سے اور خاص طور پر اس آیہ شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیمبر گرامیؐکی ذات تمام امتوں کیلئے نور،ہادی ،مبشر،بشیر و نذیر ،کاظمین الغیظ وعافین عن النّاس اور عالم انسانیت کیلئے مشعل راہ ہے ۔پیمبرؐ بشریت کو ہدایت کی جانب لے جانے والا ہے۔حبیب خدا اور خدا کی طرف سے لوگوں کو شفا اور جلا بخشنے والا ہے ،وہ حق کا طالب، بشریت کیلئے سعادت اور کمال کا طالب اور امت کے گناہوں کیلئے خدا کی بارگاہ میں بخشش کا طالب ہے۔
ابھی پیامبر گرامیؐتشریف نہیں لائے،حضرت عیسی(ع)انجیل میں احمدؐ کے آنے کی بشارت دے گئے، مسیحیت بھی ان کی منتظر ہے اور یہودیت بھی حتی معاشرے کا ہر فرد ان کا منتظر ہے جو سعادت ابدی تک ان کو پہنچائے ،ایسا کوئی منجی بشریت آنے والا ہے جس کی سب کو ضرورت اور انتظار ہے خاص طور پر جب کہ زما نہ بھی جا ہلیت کا ہے کہ جھان پر طرف خوف ودہشت کاما حول،ظالم و ستمگر طبقہ اژدھا کی طرح منہ کھولی ہو ئے ہے اور فقیرو ں ،غریبوں،حاجت مندوں اور ضعیفوں کو ہر آن نگلنے کی کوشش میں مصروف ہے ،ہرطرف غلامی کادوردورہ ہے لٹر کیوں کو اپنے لئے عیب،ذلت اور شرمندگی کا با عث سمجھکر زندہ درگور کیا جاتا ہے ۔
اچانک ہی حضرت عبد المطلب کے گھر میں ایک نور کا طلوع ہو تاہے جو انکے اور حضرت ابوطالب کی سرپرستی میں پروان چڑھتا ہے ،پرورش پاتاہے ،ابھی کسی کوان کے بارے میں کوئی خبر نہیں ،لیکن خداوند متعال حدیث قدسی میں ارشاد فرماتا ہے یا محمّد لولاک لما خلقت الافلاک ہاں یہ کوئی ایسی شخصیت ہے جسکی خاطر سب کچھ خلق کیا گیا ہے ،یہ آسمان ،زمین ،سیارے ،ستارے چاند، سورج بلکہ تمام موجودات ،حیوانات ،جمادات ونباتات و․․․ اسی عظیم ہستی کیلئے خلق ہوئے ہیں۔
پیامبرؐکو مبعوث ہونے کے بعد جو کہ اب ایک رہنما، ہادی ،نبی ،رسول اور امام ہیں وحی ہوتی ہے وماارسلناک الّارحمةللعالمین، اے پیمبر ؐ ہم نے تمھیں نہیں بھیجا مگر عالمین کیلئے رحمت بنا کر۔ ہم عالم کون ومکان میں (کہ جسکو عالم تکوین بھی کہتے ہیں )مشاہدہ کرتے ہیں،پیامبر گرامیؐقطعاً دنیا والوں کیلئے بلکہ ہر ایک شئی کیلئے باعث رحمت ہیں کیونکہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ انکی خاطر اور ان ہی کے صدقے میں خلق ہوا ہے اور جو بھی اس کائنات اور عالم افلاک سے فیض حاصل کرتا ہے،ان ہی کے صدقے میں․․․․․․․اور اب عالم تشریع میں دیکھا جائے ،اگر دین نہ ہو تو یہ انسانی معاشرہ اور سماج جنگل کی مانند ہو جائے گا، جہاں پر دین نہ ہو تو وہاں پر ڈکیتی ،چوری،ظلم وستم کا دور دورہ ہو جاتا ہے، لیکن جب دین آجائے تو یہ چیزیں ختم کرکے انسان کو ایک کمال کی منزل تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے ،مختلف متعدد انبیاء آئے ،انسان کی ہدایت اور اسکو کمال تک پہنچانے کیلئے، لیکن ہر ایک پیامبر اپنی جگہ مطمئن ہے کہ اس کے بعد کسی کو آنا ہے یہاں تک کہ حضرت عیسی(ع) ۔ اب حضر ت عیسی آئے توا نھیں بھی معلوم ہے کہ عقل کل ،پیامبر خاتمؐآنے والے ہیں ۔جب وہ آئیں گے تو دین خاتم بھی لائیں گے جو کہ کامل ترین اور بہترین آئین ہوگا اور حضرت محمّد عربی ؐجب پیامبر خاتم بن کر آئے تو دین کامل بھی لائے تبھی خدا وند نے فرمایا انّ الدّین عند الله الاسلام یا غدیر خم کے مقام پر فرمایا الیوم اکملت لکم دینکم ․․․ جسکا مطلب یہ ہوا کہ کامل ترین اور محبوب ترین دین خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔اور یہ اسلام سب عالمین کیلئے ہے ،اگر سب عالمین کیلئے ہے تو پھر پیامبر ؐعالم تشریع میں بھی دنیا والوں کیلئے (رحمۃ للعالمین )رحمت ہیں ۔پس پیامبر اور ان کا لایا ہوا یہ آئین بھی دنیا والوں کیلئے رحمت ہے ،مایہ ناز و افتخار ہے، آرام اور اطمئنان کا باعث ہے ،سعادت اور کمال ابدی کا موجب ہے ،تر قی اور سکون کا سبب ہے ،طلم وستم اور ظالمین ومستکبرین سے نجات کا باعث ہے۔جو چیز ایسی ہو وہ رحمت نہیں تو اور کیا ہے ۔
تفسیروں میں ملتا ہے ،آنحضرت ؐکی ولادت کے دن ابو لہب چچا ہونے کی بنا پر خوشحال ہوا تھا،اب جب بھی ہر سال پیامبر ؐکی ولادت کا دن ہوتا ہے تو ابولہب کو اس خوشحالی کے صلے میں عذاب سے رخصت دی جاتی ہے ،اس دن ابو لہب بھی جو کہ ان کا سرسخت ترین دشمن تھا ،ان کی ذات واجود رحمت کے صدقے میں عذاب سے نجات پاتا ہے ،یہ رحمت صرف ان کے روز ولادت کی ہے ، خود ان کی ذات اقدس کیا ہوگی کہ جن کے بارے میں خدا فرماتا ہے کہ وہ تمہارے لئے رؤوف ،رحیم اور رحمۃ للعالمین ہیں۔ اگر ہم لوگ ان کی ذات اقدس کو اپنا محور قرار دیں ،اپنا مرکزی نقطہ قرار دیں اور سب مل کر پہلے ان کی ذات کے بارے میں دقیق مطالعہ کریں اور پھر ان کی فرمایشات پر حقیقی طور پر عمل کریں۔ تو پھر خود بخود یہ ذات اقدس ہمارے لئے باعث وحدت ہوجائے گی ، ہم سب کا ہدف اور مقصد ایک ہی قرار پائے گا اور جب کمزور اور ناتوان لوگ ایک ہی پرچم کے نیچے جمع ہوجائینگے توظالم اور مستکبرین کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہوجائیگا۔
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب رحمۃ للعالمین آئے تو اس وقت قومیں مردہ تھیں ،ان کے ضمیر مردہ تھے،ظالم سامراج کے خلاف ان کے اندر آواز اٹھانے کی ہمت نہیں تھی،ان کے پاس کوئی تمدّن وتہذیب نہ تھی،کسی قسم کا اتّحاد نہ تھا،سب قبیلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، قومی اور نسلی امتیاز برقرار تھا،منافقت،حسد کینہ توزی کا لوگوں کے سینوں میں لاوا ابل رہا تھا،معاملات اور امانات میں خیانت برتی جاتی تھی،عفت وناموس کا کوئی پاس و لحاظ نہ تھا ، بت پرستی،انسان پرستی اورجہالت اور بے غیرتی کا دور رائج تھا۔لییکن اب جو رحمۃ للعالمین بن کر ،پیام وحی لے کر رسول اسلام ؐتشریف لائے جو کہ پہلے سے امین اور صادق کے لقب سے لوگوں میں مشہور تھے۔ان کا یہ پرنور و رحمت کا پیام باعث بنا کہ مردہ قومیں بیدار ہو گئیں،ان کے ضمیر جاگ گئے،ایک دوسروں کے درمیان خون کی پیاس کی جگہ صیغۂ اخوتّ وبرادری نے لے لی،اب حقیقی انسانی تہذیب وجود میں آئی،وہ لوگ اتّحاد کے علمبردار بن گئے،ہر قسم کے امتیاز کی جگہ تقوی اور پرہیزگاری نے لے لی ،رذائل کی جگہ فضائل نے پر کی ،خیانت کی بجائے آج کا یہ انسان ایک دورے کی امانات،عفت اور ناموس کا محافظ بن گیا،بت پرستی وغیرہ کی جگہ خفا پرستی آگئی،جہالت کی جگہ علم کی روشنائی نے لے لی ، اب ہرانسان (منافقین کے بغیر)اس فکر میں تھا کہ کمال ،سعادت اور حقیقت ابدی تک رسائی حاصل کی جائے ۔اسی تلاش کے نتیجے میں کوئی سلمان بن گیا تو کوئی بوذر،کوئی مقداد تو کوئی عمّار․․․
اور پھر نبی اکرمؐ ایک محدود ومخصوص زمانے کے لئے رحمت بن کر نہیں آئے تھے بلکہ خاتم النّبیین بن کر آئے تھے جس کی بنا ء پر وہ خاتم النّبیین ہونے کے ساتھ ساتھ روز قیامت تک رحمۃ للعالمین بھی ہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے ،اگر ایسا ہے تو آج کا مسلمان کیوں اس رحمت سے مستفید نہیں ہوتا؟آج کا مسلمان کیوں عملی طور پر دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا بن کر رہ گیا ہے ؟کیوں آج کے زمانے میں صرف امت مسلمہ ہی پسماندہ رہ گئی ہے؟؟؟!!!
یقیناً اس کا سبب یہی ہے ہم نے رسول گرامی ؐکی تعلیمات ،فرمایشات اور احکامات پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔ قرآن رسول اسلام ؐکو ہمارے لئے اسوۂ حسنہ اور بہترین نمونہ اور مطلوب ترین آئیڈیل قرار دیتا ہے لیکن ہم مغربی تہذیب کے شیدائی اور پیروکار ہوگئے ہیں ۔ہم مغرب زدہ ہوکر رہ گئے ہیں ،ہم نے ھی دین کو مغربیوں کی طرح افیون قرار دیدیا ہے یا یہ دین ہمارے لئے زندگیوں میں برائے نام اور صرف زبان تک محدود ہوکر رہ گیا ہے ۔ اگر آج ہم اس رحمت عظمی کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے،رحمۃ للعالمین کو اپنے لئے اسوۂ حسنہ قرار دیتے تو عالم استکبار اور ظالم سامراج کی جرات بھی نہ ہوتی کہ اسلام اور مسلمین کو امن ،آزادی اور آشتی کا مذہب ہے ،دہشت گردی کا الزام دیتا ۔آج امریکہ،برطانیہ اور خاص طورپوری دنیا کے بدن پر کینسر کے پھوڑے یعنی اسرئیل کی ہمت نہ ہوتی کہ مسلمانوں کی عزت اور غیرت کو للکارتایا ان پر حملہ کرتا۔آج دنیا میں ۵۵ سے زیادہ مسلمان ممالک ہیں۔اقتصاد کی شہ رگ یعنی تیل اور گیس بھی مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے، لیکن صرف پیامبر گرامی ؐکی ذات اقدس کو آئیڈیل بنانے کی ضرورت ہے،اگر یہ کمی پوری ہوجائے ساری دنیا مسلمانوں کے قدموں میں گر جائے،آج اس اسوہ کا تقریباً ،کسی حد تک ایک نمونہ ایران اسلام اور انقلاب اسلامی ہے،یہی انقلاب اسلامی ایران ہے کہ جس نے ظلم وستم کے ایوانوں کو لرزہ براندام کر رکھا ہے ۔ایران اسلامی ہی کی بدولت آج چھوٹے چھوٹے اور کمزور ملکوں میں جرات پیدا ہوگئی ہے کہ وہ امریکہ جیسی سپر طاقت کے سامنے کھڑے ہو جائیں اور اسے للکاریں، دھمکیاں دیں ،جیسے پیامبر ؐکی اسلامی حکومت ،قیصر وکسریٰ کیلئے خطرہ بن گئی تھی،اسی طرح آج یہ ایران اسلامی بھی خطرہ بن کر رہ گیا ہے۔اگر آج افغانستان اور عراق کو فتح کیا جا رہا ہے تو کیوں ؟وہ تو ان کی اپنی ہی منتخب حکومتیں تھیں کیونکہ وہ حکومتیں اب انکے کام کی نہ رہیں،سوچا ،ان کو ہٹا کر اپنی من پسند کی حکومتیں لائی جائیں تا کہ وہاں پر فوجی اڈے قائم کئے جائیں،تاجیکستان ،گرجستان،ترکی وغیرہ اور خلیجی ممالک میں بھی فوجی اڈے قائم کئے گئے ہیں تاکہ اس اسلامی حکومت کو چاروں طرف سے گھیر کر اس کا خاتمہ کیا جاسکے ،اسکو نابود کیا جا سکے لیکن یہ مصرعہ مشہور ہے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
اور پھر خدادئے جبّار کا فیصلہ ہے والله متمّ نوره ولو کره الکافرون اور اسی خدائے عزیز کا فرمان ہے جاء الحق وزهق الباطل انّ الباطل کان زهوقاً․
ہاں یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم رحمۃ للعالمین کو قرآن کے دستور کے مطابق اپنے لئے اسوۂ حسنہ اور آئیڈیل قرار دیں،اخلاق محمدیؐسے سسرشار اور آراستہ ہوجائیں،کردار محمدیؐاور ان کی بعثت اوررسالت کے صحیح اہداف اور مقا صد کو سمجھیں ،خاتم الانبیاء ؐاور ان کے اوصیاء کو رحمت الہی سمجھ کر ان کی فرمایشات پر عمل کریں۔تبھی ہماری دنیا بھی آباد ہو جائے گی اور آخرت بھی اللّهم اجعل محیای محیا محمّد وآل محمّد ومماتی ممات محمّد وآل محمّد علیهم السلام۔آمین۔
اگر ابو مہدی اور ایرانی بھائیوں کی قربانیاں نہ ہوتیں تو پوپ موصل نہیں جاسکتے تھے، علماء کونسل عراق کے سربراہ
عراقی علماء کونسل کے صدر شیخ خالد الملا نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ امریکہ نہیں چاہتا ہے کہ عراق پھر سے ایک خودمختار ریاست بن جائے، مزید کہا کہ پوپ فرانسس کے دورے پر سنی سیاسی ناراضگی بلاجواز ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ پوپ فرانسس سے ملاقات سنی دیوان وقف کی ہم آہنگی سے انجام پائی۔
شیخ الملا نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ آیت اللہ سیستانی کے بر وقت اور لاثانی مؤقف کی وجہ سے ویٹیکن نے ان کی قدردانی کی،کہاکہ پوپ فرانسس کے سفر میں سب سے اہم بات حضرت آیت اللہ سیستانی سے ان کی ملاقات تھی۔
عراقی علماء کونسل کے سربراہ نے اس بات پر زور دیاکہ اگر آیت اللہ سیستانی کے جہاد کفائی کا فتوی اور امریکہ کے توسط سے قتل ہونے والے ابو مہدی المہندس سمیت ہمارے اسلامی جمہوریہ ایران کے بھائیوں کی شہادت اور قربانیاں نہ ہوتیں،تو پوپ فرانسس موصل کا سفر نہیں کرسکتے تھے۔
پیغمبر اعظم(ص) کی بعثت کے اہداف و مقاصد
انسانی حقوق یا فرائض کا کوئی ضابطہ یا آئین موجود نہ تھا۔ اغواء، قتل و غارت اور اپنی لڑکیوں کو زندہ در گور کرنا معمول زندگی تھا۔ ذرا سی بات پر تلواریں نکل آتیں اور خون کی ندیاں بہا دی جاتیں۔ انسانیت ہر لحاظ سے تباہی و بربادی کے کنارے پر کھڑی تھی۔ ان حالات میں رحمت حق جوش میں آئی اور حضور اکرم (ص) مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ دنیا چشم زدن میں گہوارہ امن و امان بن گئی۔ راہزن رہنماء بن گئے۔ جاہل شتربان اور صحرا نشین جہان بان و جہان آراء بن گئے اور سرکش لوگ معلم دین و اخلاق بن گئے۔ تاریخ انسانیت کا یہ عظیم واقعہ دنیا میں ایک بڑے انقلاب کا باعث بنا اور اس نے پوری تاریخ انسانیت پر اثرات چھوڑ دیئے۔ دنیا میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں، انبیائے اولوالعزم مبعوث ہوئے ہیں اور بہت سے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں، لیکن رسول اکرم (ص) کی بعثت سے بڑھ کر کوئی واقعہ نہیں ہے اور اس سے بڑے واقعہ کے رونما ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اس عالم میں خداوند متعال کی ذات کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عظیم ہستی کوئی نہیں ہے اور آپ کی بعثت سے بڑا واقعہ بھی کوئی نہیں ہے۔ ایک ایسی بعثت کہ جو رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہے اور عالم امکان کی عظیم ترین شخصیت اور عظیم ترین الٰہی قوانین کی بعثت ہے۔
حضرت علی علیہ السلام بعثت انبیاء کےبارے میں فرماتے ہیں :اس نے پیغمبروں کو بھیجا، تاکہ اس کے بندے توحید اور صفات خدا کے بارے میں جو کچھ نہیں جانتے، سیکھ لیں اور انکار و عناد سے اجتناب کے بعد خدا کی واحدانیت، ربوبیت اور خالقیت پر ایمان لائیں۔ آپ فلسفہ نبوت کے بارے میں بعض نکات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔
1۔ خدا اور انسان کے درمیان ہونے والے عہد و پیمان کی تجدید: آپؑ فرماتے ہیں :{لیستادوا میثاق فطرته} تاکہ وہاں سے فطرت کی امانت کو واپس لیں۔
2۔ خداوند متعال کی نعمتوں کی یاد آوری:{و یذکروهم منسی نعمته} انہیں اللہ کی بھولی ہوئی نعمت یاد دلائیں۔
3۔ خداوند متعال کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا، تاکہ اس کے ذریعہ اتمام حجت ہوسکے، {ویحتجوا علیهم بالتبلیغ} تاکہ وہ تبلیغ کے ذریعے ان پر اتمام حجت کریں۔
4۔ لوگوں کی عقلوں کو ابھارنا اور انہیں باور کرانا : {و یثیروا لهم دفائن العقول} تاکہ وہ ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں۔
5۔ خداوند متعال کی حکمت اور قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرانا: تاکہ وہ انہیں قدرت الٰہی کی نشانیاں دکھلائیں، ان کے سروں کے اوپر موجود بلند چھت اور ان کے زیر قدم گہوارے کے ذریعے۔۔۔۔}
6۔ انبیاء کے ذریعے قابل ہدایت افراد پر اتمام حجت کرنا: اللہ نے انبیاء کو اپنے بندوں پر اپنی حجت بنا دیا، تاکہ بندوں کو یہ بہانہ نہ ملے کہ ان کے عذر کا خاتمہ نہیں کیا گیا ہے۔
قرآن کریم اتمام حجت کے علاوہ مندرجہ ذیل امور کو بھی انبیاء کی بعثت کے اہداف میں شمار کرتا ہے:
1۔ لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دینا اور طاغوت سے دور رکھنا: یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے، تاکہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
2۔ انسانی معاشرے میں عدل و انصاف نافذ کرنا: بےشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے، تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔
3۔ انسانوں کی تعلیم و تربیت: اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے، جو انہی میں سے تھا، تاکہ وہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے، ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔
4۔ باہمی اختلاف کی صورت میں فیصلہ کرنا: (فطری لحاظ سے) سارے انسان ایک قوم تھے۔ پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی، تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں۔
مذکورہ بالا مطالب سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ نبوت انسان کی فردی، اجتماعی، مادی اور معنوی زندگی سے مربوط ہے اور انبیاء کی ہدایت بھی انسان کی زندگی کی تمام جہات کو شامل ہے۔ اگرچہ عقل و حس بھی انسان کی ہدایت میں کردار ادا کرتی ہیں، لیکن حقیقت میں جس طرح انسان عملی و عقلی ہدایت کا محتاج ہے، اسی طرح وحی پر مبنی ہدایت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ان دونوں ہدایتوں کا سرچشمہ ذات الٰہی ہے، جو انسانوں پر حجت ہے۔
جناب ام فروہ
تاریخ اسلام کی باعظمت خواتین میں سے ایک باشرف خاتون جناب فاطمہ بھی ہیں جو ام فروہ کے لقب سے مشہور اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی زوجہ اور فرزند رسول الله صلي الله عليه و آله وسلم ، امام جعفر صادق علیہ السلام کی مادر گرامی ہیں آپ نے ان دو امام ہمام سے بہت زيادہ علوم اور فضائل و کمالات حاصل کئے ۔
بغداد کے مشہور و معروف مورخ و دانشور علی بن حسین مسعودی سے روایت ہے کہ ام فروہ اپنے زمانے کی تمام عورتوں سے فضل و کمال اور تقوی و پرہیزگاری میں ممتاز تھیں ۔
اس عظیم المرتبت خاتون کی تاريخ ولادت اور امام محمد باقر علیہ السلام سے شادی کی تاريخ کا صحیح علم نہیں ہے لیکن اس مقدس شادی کے نتیجے میں دو عظیم فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور عبد اللہ پیدا ہوئے ۔
فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہمیشہ اپنی مادرگرامی کے حسن عمل اور تقوی و پرہیزگاری کا ذکر فرمایا کرتے تھے آپ اپنی والدہ ماجدہ کی عظمت ایمان اور کمال معنویت کے بارے میں فرماتے ہیں : میری والدہ ماجدہ صاحب ایمان خواتین میں سے ہیں جو تقوی و پرہیزگاری سے مملو ، بہترین روش و اسلوب سے آراستہ اور نیک خاتون تھیں اور خداوندمتعال بھی نیک لوگوں کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہے ۔
امام علیہ السلام نے اس مختصر مگر جامع قول کو سورہ نحل کی آیت ایک سو اٹھائیس سے اخذ کیا اور اپنی مادرگرامی کے نیک و پسندیدہ اوصاف کوبیان کیا ہے ۔
اس با فضیلت خاتون نے معرفت اور تقوی، انسانی و اخلاقی فضائل و کمالات کے بلند مقامات پر فائز ہونے کے علاوہ حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہم السلام سے بے شمار حدیثیں بھی نقل کی ہیں اور ان کا شمار راویان حدیث میں ہوتا ہے۔
جناب ام فروہ ایک عقلمند و بادرایت اور با وفا خاتون تھیں روایت میں ہے کہ نوے ہجری قمری میں مدینے میں خطرناک چیچک کی بیماری پھیل گئی اور بعض بچے اس بیماری میں مبتلا ہوگئے اگر چہ فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی عمر مبارک سات برس تھی اور سات برس سے دس برس تک کے بچوں کو چیچک کی بیماری بہت ہی کم ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود ام فروہ امام علیہ السلام سمیت اپنے تمام بچوں کو لے کر مدینے سے باہر چلی گئیں تاکہ چیچک جیسی مہلک بیماری آپ کے بچوں میں سرایت نہ کرجائے۔
قابل ذکر ہے کہ گذشتہ زمانے میں اس مہلک بیماری سے بچنے کے لئے لوگ اپنے گھربار کو چھوڑ کر ہجرت کرلیا کرتے تھے تاکہ یہ بیماری انہیں اپنی لپیٹ میں نہ لےلے۔
جناب ام فروہ اپنے بچوں کو لے کر مدینے سے کچھ فاصلے پر طنفسہ نامی علاقے میں چلی گئیں لیکن کچھ ہی دنوں بعد انہیں احساس ہوا کہ خود وہ اس بیماری میں مبتلا ہوگئیں ہیں یہ عظیم خاتون بجائے اس کے کہ اپنی فکر کرتیں انہوں نے اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے درخواست کی کہ بچوں کو طنفسہ سے ایسی جگہ لے جائیں جہاں یہ بیماری نہ ہو۔ لہذا امام جعفر صادق علیہ السلام سمیت تمام بچوں کو وہاں سے ایک دیہات میں منتقل کردیا گیا ۔
ادھر مدینے میں امام محمد باقر علیہ السلام کو خبر دی گئی کہ آپ کی شریکہ حیات ام فروہ چیچک کی بیماری میں مبتلا ہیں چونکہ یہ خطرناک بیماری تھی اور اس زمانے میں اس کا علاج نہ تھا ۔امام محمد باقر علیہ السلام نے درس ختم کیا تاکہ اپنی شریکہ حیات کی عیادت کے لئے طنفسہ جائیں امام علیہ السلام نے طنفسہ جانے سے پہلے اپنے جد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر پر آئے اور ام فروہ کی شفا یابی کے لئے دعا فرمائی۔
جب ام فروہ نے اپنے شوہر نامدار کو دیکھا تو کہا کہ آپ یہاں کیوں تشریف لائے ہیں کیا آپ کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ میں چیچک جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوں کیا آپ نہیں جانتے کہ چیچک جیسی مہلک بیماری میں مبتلا افراد کی عیادت کے لئے نہیں جایا کرتے کیونکہ ممکن ہے وہ بیماری عیادت کرنے والے میں بھی سرایت کر جائے ۔
المختصر یہ کہ فرزند رسول امام محمد باقر علیہ السلام کی دعا سے جناب ام فروہ کو شفا نصیب ہوئی اور بیماری کا ذرہ برابر بھی اثر ان میں نہ رہا ان کی صحت یابی ایک نادر واقعہ تھا کیونکہ چیچک جیسی مہلک و خطرناک بیماری عمر رسیدہ کو بہت ہی کم ہوتی ہے اور اگر سرایت کرجائے تو مریض شفا یاب نہیں ہوتا ۔اور اس طرح سے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی دعا سے کہ جو عظمت و فضیلت کے عظیم منارہ تھے ام فروہ کو شفا نصیب ہوئی ام فروہ صحت یابی کے بعد مدینے واپس آگئیں لیکن چونکہ چیچک کی وبا ابھی تک مدینے میں تھی اس لئے اپنے ساتھ بچوں کو مدینہ نہیں لائيں-
جناب ام فروہ کی تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے لیکن اس عظیم و بہادر خاتون کی قبر مدینے میں ہے ۔
مرکزی مسجد سابانجی – آدانا – ترکی
ترک شہر آدانا کی مرکزی مسجد سابانجی (Sabancı Central Mosque) ملک کی بڑی مسجدوں میں شمار ہوتا ہے ۵۲۶۰۰ مربع میٹر پر واقع ہے اور سیاحوں کے لیے اہم دیدنی مرکز میں شامل ہے . یہ مسجد سال 1998 کی قایم کی گیی ہے۔
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
شہید، جانباز اور بہادر خواتین انقلاب کی بلندترین چوٹیاں ہیں: رہبر انقلاب اسلامی
رہبرانقلاب اسلامی کے دفتر سے وابستہ آفیشل ویب سائٹ کے مطابق رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے " لشکر فرشتگان تاریخ ساز" کے تحت قومی کانفرنس کے نام اپنے پیغام میں اسلامی انقلاب اور مقدس دفاع کے دوران قید و بند کی صعوبتیں برادشت کرنے، اس راہ میں جسمانی معذور ہونے خصوصا اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والی خواتین کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
آپ نے ان خواتین کو مجاہدہ، بہادر اور سرفروش قراردیا اور اسلامی انقلاب کی قابل فخر اور بلند ترین چوٹیوں سے تعبیر کیا۔
17 ہزار شہداء، غازیوں اور جانباز خواتین کی قومی کانفرنس "لشکر فرشتگان تاریخ" کے نام رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام شہید فاؤںڈیشن میں ولی فقیہ کے نمائںدے حجت الاسلام شکری نے پڑھ کر سنایا۔
اگر حضرت مسیح(ع) ہمارے درمیان ہوتے ۔
ایرانی معروف اخبار کیہان نے پوپ فرانسس کے دورہ عراق پر ایک اداریہ لکھا ہے جس کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے:
1۔ دنیا کے کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا پوپ فرانسس کا دور عراق اگرچہ بجائے خود بھی دنیا کے ذرائع ابلاغ کے لئے ایک دلچسپ خبر سمجھا جاتا تھا لیکن جس چیز نے اس دورے کو مزید اہمیت دی ہے اور اس کو بہت سے ذرائع کی پہلی خبر میں تبدیل کیا ہے، وہ یہ ہے کہ انھوں نے عالم تشیع کے مرجع عالی قدر حضرت آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کی ہے اور یہ ملاقات کل صبح نجف اشرف میں حضرت آیت اللہ سیستانی (حفظہ اللہ تعالی) کی رہائش پر انجام پائی۔ عالمی مذہبی مراکز اور سیاسی حلقوں کا خیال تھا کہ اس ملاقات میں بہت اہم اور فیصلہ کن مسائل پر بات چیت ہوگی کیونکہ حضرت آیت اللہ سیستانی عالم تشیع کے ایک نمایاں اور عالی قدر مرجع تقلید کے طور پر، جو اسلام کے دفاع و تحفظ کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں - اور پوپ فرانسس - جو عالمی کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا ہیں - اس ملاقات کے دو فریق تھے۔
2۔ حضرت آیت اللہ سیستانی کا چھوٹا اور سادہ سا گھر، شاید پوپ کے لئے اس ملاقات کا اولین پیغام تھا۔ ایک بزرگوار شیعہ مرجع تقلید - جن کو عراق میں بہت زیادہ طاقت اور مقبولیت حاصل ہے - ایسے حال میں ایک چھوٹے اور سادہ گھر میں رہنے پر اکتفا کرچکے ہیں، کہ اس ملک میں صدام کے افسانوی اور اشرافی محلات کافی شہرت رکھتے ہیں۔
3۔ کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا ایسے حال میں پورے امن و سکون کے ساتھ عراق میں داخل ہوئے ہیں اور حضرت آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کے لئے نجف اشرف چلے گئے ہیں، کہ کچھ عرصہ قبل امریکی ساختہ تکفیری دہشت گرد، مغربی-عبرانی-عربی اتحاد کی افشاء شدہ پشت پناہی سے، اس ملک کے مظلوم عوام کو خاک و خون میں تڑپاتے رہے ہیں لیکن حضرت آیت اللہ سیستانی کے فتوائے جہاد کی روشنی میں عراق کے پاک باز نوجوانوں نے الحاج قاسم سلیمانی اور الحاج ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھی مجاہدوں کی قیادت میں، داعش کے تکفیری دہشت گردوں کا قلع و قمع کردیا تھا اور عراق کی مقدس سرزمین اور اس ملک کے باسیوں - خواہ و شیعہ یا سنی ہوں خواہ عیسائی ہوں - کو فساد اور تباہی کے ان خونخوار جرثوموں سے نجات دلائی تھی۔
4۔ پوپ فرانسس ایسے حال میں حضرت آیت اللہ سیستانی اور عراقی عوام کے مہمان بنے ہیں اور ایسے حال میں تکریم و احترام کے ساتھ ان کی پذیرائی ہورہی ہے کہ امریکہ نے نہ صرف عراقی عوام کے بزرگوار اور جان نثار مہمان الحاج قاسم سلیمانی کی حرمت کا پاس نہیں رکھا تھا بلکہ نہایت نامردی کے ساتھ، چوری چپکے ان کے اور ان کے رفیق کار ابو مہدی المہندی - جو عراق میں تکفیری دہشت گردوں سے نمٹنے میں سب سے بڑا کردار ادا کرچکے تھے - کو عراقی سرزمین پر دہشت گردانہ حملے میں شہید کردیا تھا۔
5۔ نہ صرف عراق کے مسلم عوام، اپنے آج کے امن و سلامتی کو بزرگوار مرجعیت حضرت آیت اللہ سیستانی، الحشد الشعبی اور شہید سلیمانی و شہید ابو مہدی المہندس وغیرہ کا مرہون منت سمجھتے ہیں بلکہ عراق کے عیسائیوں کا امن و سکون اور ان عراق میں عیسائی گرجاگھروں کی بقاء ان عظیم شہیدوں کی پاک بازی اور ایثار کا ثمرہ ہے۔ حضرت آیت اللہ سیستانی کے دفتر نے پوپ کی ان کے ساتھ ملاقات کے بارے میں ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اس نکتے کی طرف اشارہ ہؤا ہے اور وہ یوں کہ "موصوف [حضرت آیت اللہ سیستانی] نے عیسائیوں کے تحفظ پر بھی زور دیا جو دوسرے عراقی شہریوں کی طرح امن و سلامتی سے بہرہ ور ہیں اور پورے بنیادی حقوق کے ساتھ عراق میں زندگی بسر کررہے ہیں"۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ حضرت آیت اللہ سیستانی نے اس ملاقات کے دوران، حالیہ برسوں میں عیسائیوں سمیت ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے تمام عراقی باشندوں کے تحفظ کے سلسلے میں دینی مرجعیت کے کردار پر روشنی ڈالی؛ بالخصوص ان ایام میں جب دہشت گردوں نے عراق کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا اور وہاں مجرمانہ اقدامات کے مرتکب ہوئے۔
6۔ اور بالآخر اس ملاقات میں امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے ساتھ پوپ جان پل دوئم کے نمائندے بشپ آنیبیل بوگنینی (Annibale Bugnini) کی یاد کو تازہ کر دیا جس کی طرف مختصر اشارہ، لطف سے خالی نہیں ہے:
حضرت امام (رح) نے اس ملاقات میں پوپ جان پل دوئم کے لئے پیغام بھجوایا لیکن بدقسمتی سے جناب پوپ نے اس کا جواب نہیں دیا۔ امام خمینی(رح) نے ان سے پوچھا تھا کہ اگر حضرت عیسی (علیہ السلام) ہمارے درمیان ہوتے اور ایران اور ایرانی عوام پر ہونے والے امریکی مظالم کو دیکھتے، تو آپ بتایئے کہ وہ ہماری حمایت کرتے یا امریکہ کی؟ امام خمینی(رح) کے کلام کا متن کچھ یوں ہے:
"اگر عیسی مسیح (علیہ السلام) اس وقت ہمارے پاس ہوتے، تو جناب پوپ اور دیگر مذہبی راہنما کیا یہ احتمال دے سکتے تھے کہ جناب عیسی [امریکی صدر] کارٹر اور ایران کے معزول شاہ سے جا ملتے اور ہماری مظلوم ملت کو اپنے حال پر چھوڑ دیتے؟! جناب پوپ اور عیسائی علماء اور تمام مذاہب کے مذہبی راہنما، کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر حضرت عیسی مسیح (علیہ السلام) آجائیں ہمارے پاس، تو وہ مظلوم کا ساتھ دیں گے یا ظالموں کی جماعت کا؟ قاعدہ یہ ہے - میں یہ بات حضرت عیسی (علیہ السلام) کے مقام و مرتبے کے لحاظ سے کہہ رہا ہوں - کہ مسیح کا عظیم مرتبہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ ظالم پر اعتراض کریں، ظالم کو ظلم سے باز رکھیں۔ آپ بھی حضرت عیسی (علیہ السلام) کی امت کے علماء ہیں اور آپ کی قومیں بھی حضرت عیسی (علیہ السلام کی پیروکار ہیں، ان اقوام کو بھی حضرت عیسی (علیہ السلام) کی پیروی کریں۔ کیا [عیسائی] اقوام کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) - نعوذ باللہ - ظالم کے ساتھ متفق ہیں؟! اور مظلوم کے خلاف ہیں؟! اور میں نہیں سمجھتا کہ ایک عیسائی ملے اور ایسی بات کرے"۔ (29 نومبر 1979ء)
یاد رہے کہ امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) نے مورخہ 25 دسمبر 1979ء کو بھی عیسائی علماء کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امریکی جرائم کے بعض نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "کیا جناب پوپ ان مسائل سے بخوبی واقف ہیں لیکن پھر بھی ہماری مذمت کرتے ہیں؟ یا کوئی انہیں غلط انداز سے رپورٹ دیتا ہے؟ اگر ان مسائل سے آگاہ ہیں تو وائے ہو ہمارے حال پر اور وائے ہو عیسائیت کے حال پر، اور وائے ہو عیسائی علماء کے حال پر، اور اگر آگاہ نہیں ہے تو وائے ہو ویٹیکن (Vatican) پر"۔
7۔ عراق کے شریف عوام پر ڈھائے گئے امریکی مظالم اس قدر وسیع و عریض اور مکرر در مکرر ہیں کہ انہیں گنا نہیں جاسکتا اور ان مظالم کی فہرست بہت طویل ہے۔ چنانچہ توقع کی جاتی ہے کہ جناب پوپ فرانسس حضرت آیت اللہ سیستانی کے ساتھ ملاقات اور ظلم، تباہی اور فساد کے خلاف جدوجہد اور خونخوار اور لٹیری عالمی استکباری طاقتوں کے چنگل سے بنی نوع انسان کی نجات کے حوالے سے ان کی اصل فکرمندیوں اور اندیشوں سے آگہی، کے بعد خمینی کبیر (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے بےجواب سوال کے لئے مناسب جواب تلاش کریں جبکہ یقینا جناب آیت اللہ سیستانی (حفظہ اللہ تعالی) کے کہے اور ان کہے سوالات کا جواب بھی ہے؛ کہ "اگر حضرت مسیح (علیہ السلام) ہمارے درمیان ہوتے، تو کیا وہ امریکہ اور حضرت عیسی (علیہ السلام) کی پیروی کے دعویدار دوسرے مغربی ممالک کے بےشمار جرائم پر خاموشی اور غیر جانبداری اختیار کرتے اور اپنی خاموشی سے امریکہ اور دوسری استکباری طاقتوں کی حمایت کرتے، یا نہیں، بلکہ مظلوم اقوام کے دفاع کے لئے آگے بڑھتے؟ اور ہاں جناب پوپ فرانسس، عالمی کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا کے طور پر کس طرف جاتے؛ حضرت عیسی (علیہ السلام) کا ساتھ دیتے یا پھر ۔۔۔ ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حسین شریعتمداری، روزنامہ کیہان کے ایڈیٹر انچیف
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
امام موسی کاظم کے زمان امامت پر مختصر نظر
ے باپ منصور کارویہ جو امام جعفر صادق علیہ السّلام کے خلاف تھا اسے معلوم تھا اس کا یہ ارادہ کہ جعفر صادق علیہ السّلام کے جانشین کو قتل کر ڈالاجائے یقیناً اس کے بیٹے ھارون کو معلوم ھوچکا ھوگا . وہ تو امام جعفر صادق علیہ السّلام کی حکیمانہ وصیت کا اخلاقی دباؤ تھا جس نے منصور کے ھاتھ باندہ دیئے تھے اور شھر بغداد کی تعمیر کی مصروفیت تھی جس نے اسے اس جانب متوجہ نہ ھونے دیا تھا ورنہ اب ھارون کے لیے ان میں سے کوئی بات مانع نہ تھی . تخت سلطنت پر بیٹھ کر اپنے اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے سب سے پھلے اس کے ذھن میں تصور پیدا ھوسکتا تھا کہ اس روحانیت کے مرکز کو جو مدینہ کے محلہ بنی ھاشم میں قائم ھے توڑنے کی کوشش کی جائے مگر ایک طرف امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کامحتاط اور خاموش طرزِ عمل اور دوسری طرف سلطنت کے اندرونی مشکلات جن کی وجہ سے نوبرس تک ھارون کو بھی کسی امام کے خلاف کھلے تشدد کا موقع نھیں ملا .
شہادت
سب سے آخر میں امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام سندی بن شاھک کے قید خانے میں رکھے گئے یہ شخص بھت ھی بے رحم اور سخت دل تھا- آخر اسی قید میں حضرت کوانگور میں زھر دیا گیا- 25رجب 183ھ میں 55 سال کی عمر میں حضرت کی شھادت ھوئی۔ بعد شھادت آپ کے جسد مبارک کے ساتھ بھی کوئی اعزاز کی صورت اختیار نھیں کی گئی بلکہ حیرتناک طریقے پر توھین آمیز الفاظ کے ساتھ اعلان کرتے ھوئے آپ کی لاش کو قبرستان کی طرف روانہ کیا گیا- مگر اب ذرا عوام میں احساس پیدا ھو گیا تھا اس لئے کچھ اشخاص نے امام کے جنازے کو لے لیا اور پھر عزت و احترام کے ساتھ مشایعت کر کے بغداد سے باھر اس مقام پر جواب کاظمین کے نام سے مشھور ھے، دفن کیا
مؤلف: تبیان ڈاٹ نیٹ
امام موسی کاظم علیہ السلام کی حیات طیبہ کا مختصر جائزہ
آپ کا اسمِ گرامی موسیٰ اور لقب کاظم ہے ۔ آپکی والدۂ گرامی اپنے زمانے کی با عظمت خاتون جناب حمیدہ خاتون تھیں آپکے والدِ گرامی امام جعفر صادق تھے آپ کی ولادت ۱۲۸ھ میں مدینہ کے نزدیک ابواء نامی قریہ میں ہوئی آپ نے مختلف حکاّم دنیاکے دور میں زندگی بسر کی آپ کا دور حالات کے اعتبار سے نہایت مصائب اور شدید مشکلات اور خفقان کا دور تھاہرآنے والے بادشاہ کیامام پرسخت نظر تھی لیکن یہ آپ کا کمالِ امامت تھا کہ آپ انبوہ مصائب کے دورمیں قدم قدم پر لوگوں کو درس علم وہدایت عطافرماتے رہے ، اتنے نامناسب حالات میں آپ نے اس دانشگاہ کی جوآپ کے پدر بزرگوارکی قائم کردہ تھی پاسداری اور حفاظت فرمائی آپ کا مقصد امت کی ہدایت اورنشرعلوم آل محمد تھا جس کی آپ نے قدم قدم پر ترویج کی اور حکومت وقت توبہرحال امامت کی محتاج ہے ۔
چنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ مہدی جو اپنے زمانے کا حاکم تھا مدینہ آیا اور امام مو سیٰ کاظم سے مسٔلۂ تحریم شراب پر بحث کرنے لگا وہ اپنے ذہنِ ناقص میں خیال کرتا تھا کہ معاذاللہ اس طرح امام کی رسوائی کی جائے لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ وارث باب مدینتہ العلم ہیں چنانچہ امام سے سوال کرتا ہے کہ آپ حرمتِ شراب کی قران سے دلیل دیجیے ٔ امام نے فرمایا ’’خداوند سورۂ اعراف میں فرماتا ہے اے حبیب !کہہ دو کہ میرے خدا نے کارِ بد چہ ظاہر چہ مخفی و اثم و ستم بنا حق حرام قرار دیا ہے اور یہا ں اثم سے مراد شراب ہے ‘‘ امام یہ کہہ کر خاموش نہیں ہوتے ہیں بلکہ فرماتے ہیں خدا وند نیز سورۂ بقر میں فرماتا ہے اے میرے حبیب !لوگ تم سے شراب اور قمار کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دو کہ یہ دونوں بہت عظیم گناہ ہے اسی وجہ سے شراب قرآن میں صریحاً حرام قرار دی گئی ہے مہدی، امام کے اس عالما نہ جواب سے بہت متأثر ہوا اور بے اختیارکہنے لگا ایسا عالمانہ جواب سوائے خانوادۂ عصمت و طہارت کے کوئی نہیں دے سکتا یہی سبب تھا کہ لوگوں کے قلوب پر امام کی حکومت تھی اگر چہ لوگوں کے جسموں پر حکمران حاکم تھے ۔ہارون کے حالات میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ قبرِ رسول اللہ پر کھڑ ے ہو کر کہتا ہے اے خدا کے رسول آپ پر سلام اے پسرِ عمّو آپ پر سلام ۔وہ یہ چاہتا تھا کہ میرے اس عمل سے لوگ یہ پہچان لیں کہ خلیفہ سرور کائنات کا چچازاد بھائی ہے ۔اسی ہنگام امام کاظم قبر پیغمبر کے نزدیک آئے اورفرمایا’’اے اﷲکے رسول! آپ پرسلام‘‘اے پدر بزرگوار! آپ پرسلام‘‘ ہارون امام کے اس عمل سے بہت غضبناک ہوا۔فوراً امام کی طرف رخ کر کے کہتا ہے ’’آپ فرزند رسول ہونے کادعوہ کیسے کرسکتے ہیں ؟جب کہ آپ علی مرتضیٰ کے فرزندہیں ۔امام نے فرمایاتونے قرآن کریم میں سورۂ انعام کی آیت نہیں پڑ ھی جس میں خدا فرماتا ہے ’’قبیلۂ ابراہیم سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ، ہارون، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ، اورالیاس یہ سب کے سب ہمارے نیک اورصالح بندے تھے ہم نے ان کی ہدایت کی اس آیت میں اللہ نے حضرت عیسیٰ کو گزشتہ انبیاء کا فرزند قرار دیا ہے ۔حالانکہ عیسیٰ بغیرباپ کے پیدا ہوئے تھے ۔حضرت مریم کی طرف سے پیامبران سابق کی طرف نسبت دی ہے اس آیۂ کریمہ کی روسے بیٹی کابیٹا فرزندشمار ہوتا ہے ۔ اس دلیل کے تحت میں اپنی ماں فاطمہ کے واسطہ سے فرزند نبی ہوں ۔اس کے بعدامام فرماتے ہیں کہ اے ہارون!یہ بتاکہ اگر اسی وقت پیغمبردنیا میں آجائیں اور اپنے لئے تیری بیٹی کا سوال فرمائیں تو تو اپنی بیٹی پیغمبرکی زوجیت میں دے گایا نہیں ؟ہارون برجستہ جواب دیتا ہے نہ صرف یہ کہ میں اپنی بیٹی کوپیامبر کی زوجیت میں دونگا بلکہ اس کارنامے پرتمام عرب و عجم پر افتخار کرونگا امام فرماتے ہیں کہ تو اس رشتے پر تو سارے عرب و عجم پر فخر کریگا لیکن پیامبر ہماری بیٹی کے بارے میں یہ سوال نہیں کر سکتے اسلئے کہ ہماری بیٹیاں پیامبر کی بیٹیاں ہیں اور باپ پر بیٹی حرام ہے امام کے اس استدلال سے حاکم وقت نہایت پشیمان ہوا ۔امام موسیٰ کاظم نے علم امامت کی بنیاد پر بڑ ے بڑ ے مغروراورمتکبربادشا ہوں سے اپنا علمی سکّہ منوالیا امام قد م قدم پرلوگوں کی ہدایت کے اسباب فراہم کرتے رہے ۔چنانچہ جب ہارون نے علی بن یقطین کو اپناوزیربنانا چاہا اورعلی بن یقطین نے امام موسیٰ کاظم سے مشورہ کیا تو آپ نے اجازت دیدی امام کا ہدف یہ تھا کہ اس طریقہ سے جان و مال و حقوق شیعیان محفوظ رہیں ۔امام نے علی بن یقطین سے فرمایا تو ہمارے شیعوں کی جان و مال کو ہارون کے شر سے بچانا ہم تیری تین چیزوں کی ضمانت لیتے ہیں کہ اگرتونے اس عہد کو پورا کیا توہم ضامن ہیں ۔تم تلوارسے ہرگز قتل نہیں کئے جاؤگے ۔ہرگزمفلس نہ ہو گے ۔ تمہیں کبھی قید نہیں کیا جائے گا۔علی بن یقطین نے ہمیشہ امام کے شیعوں کو حکومت کے شرسے بچایا اورامام کاوعدہ بھی پورا ہوا۔نہ ہارون، پسر یقطین کوقتل کرسکا۔نہ وہ تنگدست ہوا۔نہ قید ہوا۔لوگوں نے بہت چاہاکہ فرزند یقطین کو قتل کرادیاجائے لیکن ضمانتِ امامت، علی بن یقطین کے سرپرسایہ فگن تھی ۔ چنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ ہارون نے علی بن یقطین کو لباس فاخرہ دیا علی بن یقطین نے اس لباس کو امام موسیٰ کاظم کی خدمت میں پیش کر دیامولا یہ آپ کی شایانِ شان ہے ۔امام نے اس لباس کو واپس کر دیا اے علی ابن یقطین اس لباس کو محفوظ رکھو یہ برے وقت میں تمہارے کام آئے گا ادھر دشمنوں نے بادشاہ سے شکایت کی کہ علی ابن یقطین امام کاظم کی امامت کا معتقد ہے یہ ان کو خمس کی رقم روانہ کرتا ہے یہاں تک کہ جو لباس فاخرہ تو نے علی ابن یقطین کو عنایت کیا تھا وہ بھی اس نے امام کاظم کو دے دیا ہے ۔بادشاہ سخت غضب ناک ہوا اور علی ابن یقطین کے قتل پر آمادہ ہو گیا فورا ًعلی ابن یقطین کو طلب کیا اور کہا وہ لباس کہاں ہے جو میں نے تمہیں عنایت کیا تھا ؟علی ابن یقطین نے غلام کو بھیج کر لباس، ہارون کے سامنے پیش کر دیا ہارون بہت زیادہ خجالت زدہ ہو ا یہ ہے تدبیر امامت اور علم امامت۔ خدا ہم سب کو علوم ومعارفِ آل محمد سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے
- مؤلف:
- حجت الاسلام والمسلمین سید محضر علی نقوی
- ذرائع:
- بشکریہ فضائل ڈاٹ کام