سلیمانی

سلیمانی

اسلامی مشاورتی مجلس برائے بین الاقوامی امور کے اسپیکر کے معاون خصوصی نے کہا کہ ایران شام اور اس کی سلامتی کا بھرپور دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ شام کی مدد کے لئے اقوام متحدہ کی تعمیری کوششوں کی بھی حمایت کرتا ہے۔
یہ بات امیر عبداللہیان نے پیر کے روز اقوام متحدہ کے سیکرٹری کے خصوصی نمائندے برائے شامی امور "گیر۔ او۔ پدرسن"  کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اقوام متحدہ کی کوششوں اور شام کی علاقائی سالمیت، قومی خودمختاری اور دیرپا سلامتی کی واپسی کے لئے کسی بھی کوششوں کا خیرمقدم کرتا ہے۔

انہوں نے شام کی موجودہ صورتحال میں عدم اعتماد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے کچھ خطرناک دہشت گرد گروہ اپنے نام تبدیل کر کے اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں لہذا اقوام متحدہ کو غیر جانبدارانہ طریقہ کار کو اپنانا اور دوہرے معیاروں کو ترک کرنا ہوگا۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ آئینی کمیٹی کے کام میں تمام فریق ذمہ دار ہیں اور انھیں جوابدہ ہونا چاہئے اور شامی حکومت کو قصور وار ٹھہرانا غیرجانبدارانہ پالیسی کے منافی ہے۔

انہوں نے شام کے خلاف عائد پابندیوں خاص طور پر طب ، طبی سامان اور خوراک پر پابندیوں کو ظالمانہ قرار دے کر اور انسانیت سوز پابندیوں کو ختم کرنے کے لئے کارروائی کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

عبداللہیان نے مزید کہا کہ ایران بدستور شام اور اس کی سلامتی کا بھرپور دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ شام کی مدد کے لئے اقوام متحدہ کی تعمیری کوششوں کی بھی حمایت کرتا ہے نیز شام کے بارے میں غیرجانبدارانہ فیصلے پر زور دیتا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان رواں ہفتہ پاکستان کا دورہ کریں گے۔ افغان وزارت خآرجہ کے مطابق گذشتہ ماہ افغان صدر اشرف غنی اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ٹیلیفون گفتگو ہوئی تھی جس کی بنیاد پر پاکستان کے وزیر اعظم رواں ہفتہ افغانستان کاد ورہ کریں گے۔

اس سفر میں دوطرفہ تعلقات ، دہشت گردی کی روک تھام اور افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا جائےگا ۔ ذرائع‏ کے مطابق افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر میں امریکی سرپرستی میں ہونے والے معاہدے کے باوجود افغانستان میں طالبان کے حملے جاری ہیں۔

گلگت بلتستان میں شدید سردی کے باوجود انتخابات میں ووٹنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق گلگلت اور بلتستان کے اکثر علاقوں میں آج شدید سردی ہے، بارش اور بالائی علاقوں میں برف باری ہوئی ہے، نظامِ زندگی متاثر ہے تاہم موسم خراب ہونے کے باوجود بڑی تعداد میں ووٹرز ووٹ کاسٹ کرنے پولنگ اسٹیشنز پہنچ رہے ہیں۔

گلگت بلتستان میں برفباری اور موسم شدید سرد ہونے کے باوجود پولنگ اسٹیشنز کے باہر ووٹرز کا رش ہے جبکہ شدید سردی کے باوجود خواتین بھی بڑی تعداد میں صبح سویرے ہی ووٹ ڈالنے پہنچ گئیں۔

غذر کی بالائی تحصیل پھنڈر میں بھی برفباری ہوئی ہے جس کے باعث متعدد علاقوں کی رابطہ سڑکیں متاثر ہیں، نقطۂ انجماد سے نیچے درجۂ حرارت ہونے کے باوجود گلگت بلتستان کے باسی ووٹ ڈالنے کے لیے پرعزم ہیں۔

گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات کے سلسلے میں 23 نشستوں پر ووٹ ڈالنے کا عمل جاری ہے، پولنگ کا عمل بغیر وقفے کے شام 5 بجے تک جاری رہے گا۔

شام 5 بجے کے بعد جو ووٹرز پولنگ اسٹیشنز میں ہوں گے وہ اپنا ووٹ کاسٹ کر سکیں گے۔

گلگت بلتستان کے 3 ڈویژن 10 اضلاع پر مشتمل ہیں، گلگت ڈویژن میں گلگت، ہنزہ، نگر اور غذر کے اضلاع شامل ہیں، بلتستان ڈویژن اسکردو، گانچھے، شگر اور کھرمنگ کے اضلاع پر مشتمل ہے جبکہ دیامر استور ڈویژن میں 2 اضلاع دیامر اور استور شامل ہیں۔

گلگت بلتستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی مجموعی تعداد 7 لاکھ 45 ہزار 361 ہے، جن میں سے مرد ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 5 ہزار 63 ہےجبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 39 ہزار 998 ہے۔

یہاں ایک لاکھ 26 ہزار 997 ووٹرز پہلی بار اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کر رہے ہیں۔

گلگت بلتستان میں پولنگ اسٹیشنز کی مجموعی تعداد 1 ہزار 260 ہے جن میں سے مردوں کے پولنگ اسٹیشنز 503 ہیں، خواتین کے پولنگ اسٹیشنر 395 ہیں، جبکہ مشترکہ پولنگ اسٹیشنر 362 ہیں۔

ان 1 ہزار 260 پولنگ اسٹیشنز میں سے 297 پولنگ اسٹیشنز کو حساس، جبکہ 280 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔

الیکشن کے دوران سیکیورٹی کے لیے 13 ہزار 481 اہلکار تعینات کیئے گئے ہیں جن میں پولیس، رینجرز اور جی بی اسکاوئٹس شامل ہیں جبکہ دیگر صوبوں کی 5 ہزار 700 اہلکاروں پر مشتمل اضافی پولیس نفری بھی الیکشن ڈیوٹی کے لیے تعینات کی گئی ہے۔سینٹرل پولیس آفس گلگت میں کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے۔

عراق کے ایک حقوقداں طارق حرب نے اعلان کیا ہے کہ بغداد ایئر پورٹ پر شہید میجر جنرل سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس پر امریکہ کا بزدلانہ اور مجرمانہ حملہ عراقی حاکمیت اور اقوام متحدہ کے منشور کی کھلی خلاف ورزی تھا۔

طارق حرب نے کہا کہ قومی حاکمیت کی حفاظت کے لئے ہر ملک کا بنیادی آئين اس کا سب سے اعلی قانونی مرجع ہوتا ہے اور اس قانون کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی ، ملکوں کی حاکمیت کی خلاف ورزی شمار ہوتی ہے۔

اس نے کہا کہ اقوام متحدہ کا منشور دنیا کے لئے بنیادی آئین کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی خلاف ورزی عالمی قوانین کی خلاف ورزی شمار ہوتی ہے۔ طارق حرب نے کہا کہ بغداد ايئر پورٹ پر شہید سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس پر امریکہ کا مجرمانہ حملہ اقوام متحدہ کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھا۔ طارق حرب نے کہا کہ امریکہ کے مجرمانہ اور ظالمانہ حملے کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔ اس سے قبل عراقی پارلیمنٹ کے سکیورٹی اور دفاعی امور کے رکن ابناس المکصوصی نے عراقی وزير اعظم مصطفی الکاظمی سے کہا تھا کہ وہ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس کے بارے میں تحقیقات عراقی پارلیمنٹ میں پیش کریں۔

مسائل کسی کو پسند نہیں، اس کے باوجود انسانی زندگی اور مسائل ایک ساتھ چلتے ہیں۔ انسانی زندگی کی بقا کا انحصار مسائل کی درست شناخت اور ان کے حل پر ہے۔ جسے مسائل  کی درست شناخت نہیں، وہ مسائل کے حل کیلئے کوئی ٹھوس حل بھی نہیں تجویز کر سکتا۔ یعنی بیماری کی صحیح تشخیص کے بعد ہی اس کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ جہانِ اسلام کے فراموش شدہ موضوعات کی یاد آوری، ان مسائل کی صحیح تشخیص اور ان کے حل کیلئے تجاویز کے حوالے سے سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم کی آن لائن نشستیں میرے جیسے طالب علم کیلئے بہت مفید ہیں۔ یہ نشستیں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ اس انسان کی حالت کیسے بہتر ہو سکتی ہے کہ جسے اپنی بیماری کا  کچھ پتہ ہی نہ ہو اور وہ مختلف دوائیاں استعمال کرتا چلا جائے۔

مانا کہ ساری دوائیاں مفید ہوتی ہیں لیکن ساری دوائیاں سارے مریضوں کو نہیں کھلائی جاتیں۔ اسی طرح سیاسی و اقتصادی  نیز سماجی و معاشرتی مسائل بھی جسمانی بیماریوں کی طرح مختلف اقسام کے ہوتے ہیں اور ان کے حل کیلئے بھی متخصص ماہرین اور تجربہ کار دانشمندوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ کوئی بھی شخص سماجی و سیاسی اور اقتصادی مسائل کا متخصص اور ماہر اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک وہ کسی مسئلے کے تمام پہلوؤں سے آگاہ نہیں ہوتا۔ آگاہی کا یہ سفر اشتراکِ فکر، مکالمے اور مباحثے سے انجام پاتا ہے۔  ہمارے ہاں اشتراکِ فکر اور مکالمے  و مباحثے کیلئے جس وسعتِ قلبی کی اشد ضرورت ہے وہ خال خال ہی نظر آتی ہے۔ ہمارے ہاں مسائل کے حل کیلئے مشترکہ راہوں کی تلاش، مل کر سوچنے کی ریت، اجتماعی فعالیت، تنقید سے مثبت پہلو نکالنا، خامیوں کو اصلاح کے ساتھ دور کرنا اور فراخدلی کے ساتھ دوسرے کو اپنے پہلو میں جگہ دینا یہ سب کچھ نہ ہونے کے برابر ہے۔

اجتماعی سوچ اور آفاقی شعور کی کمی اور فقدان کے باعث ہمارے ہاں انانیت اور انفرادیت کا دور دورہ ہے۔ ظاہر ہے ایسے میں اجتماعی مفادات کو انفرادی فیصلوں پر قربان کر دینے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ جہاں پر اجتماعی مفادات کو انفرادی تجزیات اور شخصی آرا کی بھینٹ چڑھا دینا معمول ہو وہاں نئے افکار کی تولید اور نئے زاویوں کی تلاش نہیں کی جا سکتی۔ ہم وہ لوگ ہیں جو نوآوری اور اختلاف رائے کا دروازہ بند کر کے اندھی تقلید کے اندھے کنویں میں چھلانگ لگا چکے ہیں۔ ہمیں نہ ہی تو مخالفت کرنے کے آداب آتے ہیں اور نہ ہی مخالفت کو برداشت کرنے کا ہنر ہمارے پاس  ہے۔ پس ہمارا معاشرہ خصوصاً مشرقی معاشرہ ان دو بنیادی خوبیوں سے یکسر طور پر عاری ہے۔ یہ انٹرنیشنل فورم ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ ہم ہر صبح کو ٹرک کی ایک نئی بتی کے پیچھے  کیوں دوڑنے لگتے ہیں۔ اس دوڑ میں بھی ہمیں اپنی انفرادیت اور انا کا خاص طور پر خیال رہتا ہے۔

چنانچہ اس بھیڑ چال میں بھی ہم دوسروں کو پیچھے چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اب اس بھاگم بھاگ میں ہم یہ بھی بھول چکے ہیں کہ ہم اصل میں کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں ؟ کہاں کو دوڑ رہے ہیں؟ ہمارے پاؤں کیوں زخمی ہیں؟ ہمارے گریبان کیوں پھٹے ہوئے ہیں؟ ہم نے آستینیں کیوں چڑھا رکھی ہیں؟ ہماری بھنویں کیوں تنی ہوئی ہیں؟ ہماری ہر صبح و شام کا آغاز ایک نئی دوڑ اور ایک نئی لڑائی سے کیوں ہوتا ہے؟ ہم آخر کس قبیلے کے لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنے ہی دین کو بدنام کر دیا ہے؟ ہم آخر کس قماش کے انسان ہیں کہ جنہوں نے اپنے ہی بچوں کا حال اور مستقبل تاریک کر دیا ہے؟ ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے دنیا بھر میں اتنے مسلمانوں کو قتل کیا ہے کہ جہانِ اسلام میں  بیواؤں اور یتیموں کی  گنتی کسی کے بس میں نہیں۔ کہنے کو تو ہم قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں لیکن ہمارے وسائل ہمارے کسی کام کے نہیں، ہمارے ہاں کپڑے سینے والی ایک سوئی کے اوپر بھی میڈ اِن جاپان لکھا ہوتا ہے۔

ہم آج بھی غیروں کیلئے بیساکھی کا کام دیتے ہیں اور ہم دل و جان راضی ہیں کہ کل کو ہماری نسلیں بھی اغیار کے شکم کا ایندھن بنیں۔ اب مسلمانوں کے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو اسی بھیڑچال میں دوڑتے چلے جائیں، اپنے سوا باقی سب کو غلط، باقی سب کا منہ بند، باقی سب کی تکفیر، باقی سب باطل، باقی سب واجب القتل، باقی سب گمراہ  اور یا پھر اختلافِ رائے کا دروازہ کھولیں، سطحی اور عامیانہ باتوں کی بجائے تعلیم، تحقیقات اور مطالعات کی طرف آئیں، میں، انا اور انفرادیت کے بجائے، مکالمے، اصلاح، مدد اور تکمیل کا آغاز کریں اور  سب سے بڑھ کر  اپنے اندر دوسروں کو سننے اور سمجھنے  کا حوصلہ پیدا کریں۔  دوسروں  کو  سننے اور سمجھنے کے حوالے سے ۔۔۔۔

رتحریر: نذر حافیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اتوار یکم نومبر کو گلگت بلتستان کی آزادی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے جی بی کو عبوری صوبائی حیثیت اور آئینی حقوق دینے کے فیصلے کا اعلان کیا۔ وزیراعظم پاکستان کا واضح لفظوں میں کہنا تھا کہ یہ فیصلہ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو مدِنظر رکھ کر کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس فیصلے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور کیا واقعی مسئلہ کشمیر کے حل میں یہ اقدام موثر ہوگا؟ پاکستان کے پاس اس اقدام کے علاوہ کیا آپشن ہے۔؟ تاریخی طور پر گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا۔ لیکن 1948ء میں مقامی لوگوں کی مدد سے یہ پاکستان کے زیر کنٹرول آگیا۔ تقریباً 15 لاکھ آبادی کا یہ خطہ اپنے دیو مالائی حُسن، برف پوش پہاڑوں، خوبصورت وادیوں اور پھلوں سے لدے باغوں کی وجہ سے کسی جنت سے کم نہیں۔ حُسن کے ساتھ اس علاقے کی جعرافیائی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔ اس کی سرحدیں چین، انڈیا، تاجکستان اور پاکستان سے ملتی ہیں، جن میں سے تین ملک ایٹمی طاقت ہیں۔

گلگت بلتستان، چین پاکستان اقتصادی راہداری کا دروازہ ہے۔ پاکستان حکومت کا گلگت بلتستان کو اس کی عوام کے دیرینہ مطالبے کے تحت عبوری صوبہ قرار دینا اسی اقتصادی راہداری کے منصوبے کو محفوظ بنانے کے لیے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبوری کس لیے جبکہ بھارت اس کے مقابلے میں مقبوضہ وادی کو اپنی ریاست میں ضم کرنے کا قانون پاس کرچکا ہے اور اس نے اس سلسلے میں مقبوضہ وادی میں اقدامات کو بھی تیز کر دیا ہے۔ بھارت کا مقبوضہ وادی میں فوجیں رکھنے اور اس کو اپنی ریاست کا حصہ قرار دینے کا قانون اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے منافی ہے۔ 14-15 اگست 1947ء کو برطانیہ سے آزادی کے بعد دو خود مختار ریاستیں پاکستان اور بھارت وجود میں آئیں، چھوٹی آزاد ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے عوام کی منشا کے مطابق کسی بھی ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، مگر اس کے ہندو راجہ نے وقت پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

اکتوبر 1947ء میں کشمیر میں جاری داخلی خانہ جنگی میں پاکستان سے قبائلی لشکر بھی شامل ہوگئے۔ 26 اکتوبر 1947ء کو ہندو مہاراجہ نے بھارت سے مدد چاہتے ہوئے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے، تاہم یہ الحاق مشروط تھا کہ جیسے ہی حالات معمول پر آئیں گے، کشمیر میں رائے شماری ہوگی۔ 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر میں جاری بغاوت کو کچلنے کے لیے بھارت نے اپنی فوجیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر میں اتار دیں۔ کشمیر کے بہت سے علاقے مسلمانوں نے آزاد کروا لیے اور مزید ہزیمت سے بچنے کے لیے  یکم جنوری 1948ء کو بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوام ِ متحدہ سے مدد مانگ لی۔ 5 فروری 1948ء کو اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا، تاکہ وہاں رائے شماری کرائی جا سکے۔ یکم جنوری 1949 کو اقوامِ متحدہ نے جنگ بندی کراتے ہوئے دونوں ممالک کی فوجوں کو جنگ بندی لائن کا احترام کرنے کا پابند کیا اور وہاں رائے شماری کرانے کا اعلان کیا۔

اکتوبر 1950ء میں شیخ عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر میں انتخابات کا مطالبہ کیا، تاکہ ریاستی اسمبلی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرے۔ 30 مارچ 1951ء اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے کشمیر میں انتخابی عمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسمبلی رائے شماری کا متبادل نہیں ہے اور نہ ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرسکتی ہے، ساتھ ہی ایک نمائندہ مقرر کرنے اور کشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کا اعلان کیا، مگر اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ 17-20 اگست 1953ء کو بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان دہلی میں ملاقات ہوئی، جس میں اپریل 1954ء کے آخر تک وہ کشمیر میں رائے شماری کے لیے ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے پر متفق ہوگئے، تاہم جیسے ہی پاکستان اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات گہرے ہوئے تو بھارت نے اس مسئلے کو بھی سرد جنگ کا حصہ قرار دیتے ہوئے رائے شماری سے انکار کر دیا۔

مارچ 1965ء کو  بھارتی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا، جس کے تحت کشمیر کو بھارت کو صوبہ قرار دیتے ہوئے بھارت کو وہاں گورنر تعینات کرنے، کشمیر میں حکومت کو برطرف کرنے اور اسے آئین سازی سے روکنے کے اختیار حاصل ہوگئے۔ 10 جنوری 1966ء کو بھارت اور پاکستان کے مابین تاشقند معاہدے پر دستخط ہوگئے، جس کے تحت دونوں ممالک اپنی اپنی افواج کو جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں پر لانے پر متفق ہوگئے۔ جولائی 1972ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ ہوا، جس میں اقوام ِ متحدہ کی فائر بندی لائن کو لائن آف کنٹرول قرار دیا گیا، مزید یہ کہ اس معاہدے کی رو سے فریقین اس مسئلے کو دو طرفہ مذاکرات سے حل کریں گے۔ مارچ 1993ء میں سیاسی، سماجی اور مذہبی گروپوں پر مشتمل آل پارٹیز حریت کانفرنس نے حق خود اختیاری کا مطالبہ کیا۔ اگست 2019ء کو بھارتی حکومت نے آئین میں سے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا، جو کہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا تھا۔ اس طرح کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کر دیا گیا۔

اس دوران میں مقبوضہ وادی میں اپنے کنٹرول کو مستحکم کرنے کے لیے بھارت نے متعدد سیاسی اور عسکری اقدامات کیے۔ مقبوضہ وادی میں پارلیمنٹ کا قیام وہاں انتخابات کا انعقاد، کٹھ پتلی حکمرانوں کی تعیناتی، آبادی کی منتقلی، جبر و تشدد، گرفتاریاں، ماورائے عدالت قتل، خواتین کی بے حرمتی کونسا ایسا حربہ ہے جو بھارتی ریاست نے مسئلہ کشمیر کو دبانے کے لیے نہیں اپنایا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے آزاد کشمیر کے انتظامات کو چلانے کے لیے وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کا اعلان کیا، جبکہ گلگت اور بلتستان کے علاقہ میں سٹیٹ سبجیکٹ رول اور اسی طرح کے قوانین کے تحت نظام چلایا جاتا رہا۔ گلگت بلتستان کی مقامی آبادی کا ہمیشہ سے ہی مطالبہ رہا کہ پاکستان باقاعدہ طور پر گلگت بلتستان کے ساتھ الحاق کرکے اسے مستقل طور پر پاکستان میں ضم کر لے، چونکہ اس خطے کے عوام نے ڈوگرہ افواج سے باقاعدہ جنگ لڑ کر اس علاقے کو آزاد کروایا تھا۔

کشمیری گلگت بلتستان کے اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان متنازع علاقے کا حصہ ہے اور اسے اس وقت تک ایسا ہی رہنا چاہیئے، جب تک کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، حالانکہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں گلگت بلتستان کو نمائندگی حاصل نہیں ہے۔ کشمیری سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں کسی بھی استصواب رائے میں کشمیر کی آزادی کی آواز اسی صورت زیادہ موثر ہوگی، جب اس میں گلگت بلتستان کے عوام کی حمایت بھی شامل ہو۔ شاید اسی لیے پاکستان ماضی میں مقامی آبادی کے پُرزور مطالبے کے باوجود گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو بدلنے سے کتراتا رہا ہے۔ آج جبکہ حکومت پاکستان نے ملک کی سلامتی اور مفادات کے مدنظر یہ فیصلہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیا جائے اور مقامی لوگوں کے تحفظات کا ازالہ ہو، ساتھ ہی یہ کوشش کی گئی ہے کہ عبوری کے لفظ سے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے موقف کو عالمی سطح پر کم سے کم نقصان پہنچے۔

یہاں یہ سوال قابل ذکر ہے کہ عبوری صوبے کی حیثیت کیا پاکستان کے دیگر صوبوں جیسی ہوگی یا کچھ فرق ہوگا۔ کل یعنی اتوار کا روز گلگت بلتستان کی تاریخ میں اہم ہے، جب اس خطے میں پہلی صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ ان انتخابات میں جو قوت بھی برسر اقتدار آتی ہے، اہم مسئلہ یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کیا ہوگا۔؟ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا موجودہ حیثیت کو ہی اس مسئلہ کا عملی حل سمجھا جائے، یعنی مقبوضہ وادی پر بھارت کا تسلط ہو اور آزاد کشمیر ایک نیم خود مختار ریاست کے طور پر کام کرے نیز گلگت بلتستان پاکستان میں ضم ہو کر اس کا صوبہ قرار پائیں۔ میرے خیال میں یہ سب عارضی حل ہیں، مسئلہ کشمیر کا حقیقی حل استصواب رائے ہی ہے۔ اگر مقبوضہ وادی میں آبادی کا حق ہے کہ وہ پاکستان یا بھارت سے اپنے الحاق کا فیصلہ کریں، اسی طرح آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں۔

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام نے یہ فیصلہ عوامی انتخابات میں شرکت اور عملی سیاست کا حصہ بن کر دے دیا ہے۔ رہا سوال مقبوضہ وادی کا تو اقوام عالم کے سامنے عیاں ہے کہ وہاں ظلم و استبداد اور کرفیو کے سائے میں حکومتیں قائم کی گئیں جبکہ وہاں کی اکثریت آزادی مانگ رہی ہے۔ ہمیں اس وقت کے لیے کوشش کرنی ہے کہ مقبوضہ وادی کے لوگ بھی بزور بازو اپنی آزادی بھارت سے چھین لیں۔ جہاں تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کا سوال ہے تو وہ ریکارڈ کے طور پر رکھنے کے لیے بہترین ہیں، ان سے بہرحال پاکستان

کے موقف کو ہی اخلاقی برتری حاصل ہوتی ہے۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ بھارت ایل او سی کی خلاف ورزی کے ذریعے گلگت بلتستان کے عوامی انتخابات اور اس میں عوام کی بھرپور اور پرجوش شمولیت کو نہیں چھپا سکتا۔

تحریر: سید اسد عباس

 لبنانی مزاحمتی فورس حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے امریکہ کے ہاتھوں جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر پیشینگوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ دوسرے صدارتی دور میں حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور یہ خطہ امریکیوں کے وجود سے پاک ہو جائے گا جس کا پہلا حصہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست سے مکمل ہو گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سید مقاومت نے جاری سال کی ابتداء میں امریکی ہوائی حملے کے اندر ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی عراقی حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابومہدی المہندس اور رفقاء کے ہمراہ ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کے ردعمل میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ اور اس کی حکومت جان چکی ہے کہ نہ صرف یہ خطہ بلکہ اگلے (امریکی صدارتی) انتخابات بھی ان کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔

سربراہ حزب اللہ لبنان نے تاکید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ ہدف حاصل ہو گیا جو ان شاء اللہ ضرور حاصل ہو گا؛ تو قدس کی آزادی بھی پتھر پھینکنے کے برابر فاصلے پر باقی رہ جائے گی۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے خطے سے امریکی انخلاء پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب امریکہ ہمارے خطے سے نکل جائے گا تو یہ صیہونی بھی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر اس کے پیچھے خطے سے نکل جائیں گے اور یوں ممکن ہے کہ ہمیں اسرائیل کے ساتھ جنگ لڑنے کی ضرورت بھی پیش نہ آئے!!
 

 رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے پیغمبر رحمت حضرت محمد مصطفی (ص) اور آپکے فرزند حضرت امام جعفر صادق (ع) کی ولادت باسعادت اور ہفتہ وحدت کی مناسبت سے آج بروز منگل عوام سے براہ راست خطاب میں اس مناسبت اور مبارک ایام کی مبارکباد پیش کی۔

آپ نے قرآن مجید کی آیۂ مبارکہ کی روشنی میں حضرت پیغمبر اسلام (ص) کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا کہ آنحضرت (ص) امت پر مہربان اور انکے ہمدرد تھے اور انسانیت کی بھلائی چاہتے ہیں اور آج کا معاشرہ اسی آیت کا مخاطب ہے اور موجودہ انسانی معاشرے کی صورتحال پر یہ جملہ صادق آتا ہے۔ اس لئے کہ معاشرہ گوناگوں مسائل و مشکلات سے دوچار ہے، نا انصافی اور عدم مساوات عروج پر ہے، ہر چند کہ جدید ٹیکنالوجی بھی اس معاشرے میں ہے تاہم ان اس ٹیکنالوجی کو انسانوں کو کچلنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے 4 عشرے قبل ہفتہ وحدت کا اعلان کیا تھا اور ہفتہ وحدت  کی اہمیت اب ہر وقت سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ فرعون مصر کی قلمرو میں ظلم و ستم کرتا تھا تاہم امریکہ جو موجودہ دور کا فرعون  ہے وہ دیگر ممالک میں ظلم کرتا ہے اور ظلم کی آگ بھڑکاتا ہے۔ اسی طرح طاغوتی طاقتیں انسانوں کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکا رہی ہیں۔

آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے سورہ برائت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ  دشمن، سامراج اور صہیونزم ہیں اور فرانس میں جو المناک اور گھناونا واقعہ رونما ہوا وہ صرف ایک کارٹونسٹ کا اقدام نہیں تھا، اور جو گستاخانہ خاکوں سے پیغمبراکرم حضرت محمد (ص) کی شان اقدس میں گستاخی کی اور جرم کیا اس کے پیچھے بہت سے ہاتھ کارفرما تھے۔

آپ نے فرمایا کہ اس گستاخانہ کارٹون کے دفاع میں ایک ملک کا صدر کھڑا ہوتا ہے اور کئی دوسرے ممالک بھی اس کی حمایت کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب جان بوجھ کر اور ایک سازش کے تحت کیا جا رہا ہے اور فرانس کی حکومت اس کے ساتھ ہے۔

آپ نے چارلی ہیبڈو میگرین کیجانب سے نشر کیے گئے گستاخانہ خاکوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سامراجیت اور ناجائز صہیونی کیجانب سے اسلام کیخلاف تازہ ترین مقابلہ گزشتہ ہفتے کے دوران پیرس میں ہوا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ اس اقدام کو صرف کسی فنکار کیجانب سے غلطی نہیں قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے پیچھے کسی اور کا ہاتھ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اچانک ملک کے صدر اس فنکار کی حمایت کرتا ہے اور دوسرے ممالک بھی اس کی حمایت کرتے ہیں تو اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس اقدام کے پیچھے کوئی تنظیم ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ البتہ آج امت مسلمہ سخت غم و غصے اور احتجاج سے بھری ہوئی ہے؛ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے زندہ ہیں۔

آپ نے فرمایا کہ فرانسیسی حکومت اس مسئلے کو اظہار رائے کی آزادی سے جوڑنے کی کوشش کرتی ہے یہ فرانسیسی حکومت اب کس طرح کی حکومت ہے؟ یہ کیا پالیسی ہے؟ یہ وہ پالیسی ہے جس نے دنیا کے سب سے زیادہ متشدد اور وحشی دہشت گردوں کو پناہ دی ہے؛ یعنی وہ دہشت گرد جنہوں نے ہمارے ملک میں صدر، وزیر اعظم اور عدلیہ کے سربراہ کو شہید کیا اور اس کے ساتھ ساتھ 17 ہزار عوامی لوگ کو بھی گلی کوچوں میں شہید کر دیا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ میرا یقین ہے کہ یہ سب ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں یعنی کسی کارٹونسٹ کے مجرمانہ فعل کا دفاع، صدام اور منافقین کے دفاع کے برابر ہے اور ان جیسے واقعات حالیہ سالوں میں امریکہ اور یورپ میں دہرائے گئے ہیں۔

آپ نے مزید فرمایا کہ مغرب کے ان جیسے اقدامات سے اسلام اور پیغمبر اکرم (ص) کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا؛ لیکن آپ اور میرے لئے اس تہذیب کو بہتر سے جاننے کا ایک ذریعہ ہے؛ یہ تہذیب واقعی معنی میں ایک وحشی تہذیب ہے۔

آپ نے علاقے قرہ باغ میں حالیہ تنازعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہماری دو پڑوسیوں کے درمیان حالیہ جنگ ایک تلخ واقعہ ہے جس کو جلد از جلد خاتمہ دینا چاہیے۔

آپ نے فرمایا کہ آذربائیجان کے اراضی پر قبضے کا خاتمہ دینا ہوگا اور ارمنی برادری کی سلامتی کا تحفظ کرنا ہوگا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی سرحدوں پر جارحیت نہیں کرنی چاہیے اور اگر کوئی دہشتگرد ہماری سرحدوں کے قریب ہوجائے تو ہم اس کیخلاف سخت کاروائی کریں گے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکی حکومت شدید سیاسی اخلاقی انحطاط کا شکار ہے اور یہ میرا تجزیہ نہیں بلکہ خود امریکہ کے مصنفین اور مفکرین ہی کے الفاظ ہیں۔

آپ نے فرمایا کہ امریکی حکومت کوئی زیادہ دیر تک نہیں چل پائے گی اور وائٹ ہاوس میں کوئی بھی اگر بر سرکار آئے پھر بھی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

فغانستان کی حکومت نے کابل یونیورسٹی میں خودکش حملے اور فائرنگ میں جاں بحق ہونے والوں کے اہلخانہ سےاظہار ہمدردی کرتے ہوئے آج عام سوگ کا اعلان کیا ہے۔ عام سوگ کے موقع پر افغانستان کا پرچم سرنگوں رہے گا۔

افغان وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان کا کہنا تھا کہ ‘کابل یونیورسٹی حملے میں تین افراد ملوث تھے، ان میں سے ایک نے شروع میں ہی خود کو اڑا دیا جبکہ دیگر دو حملہ آوروں کو سیکیورٹی فورسز نے نشانہ بنایا۔

افغان نیوز ایجنسی طلوع کی رپورٹ کے مطابق ‘حملہ آوروں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان 6 گھنٹوں تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا تاہم فورسز نے تینوں حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سمیت سیاسی اور مذھبی رہنماوں نے پیر کو ہونے والے اس دہشتگردانہ حملے کی مذمت کی۔

واضح رہے کہ کابل میں 10 روز کے اندر تعلیمی ادارے میں یہ دوسرا حملہ ہے، ایک ہفتہ قبل ایک تربیتی سینٹر میں خود کش دھماکہ ہوا تھا جہاں 30 سے زائد عام شہری جاں بحق ہوئے تھے۔

ادھر طالبان کا کہنا تھا کہ اس حملے سے اس کا کوئی تعلق نہیں لیکن حالیہ عرصے کے دوران شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے تعلیمی اداروں کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا جا چکا ہے۔