سلیمانی

سلیمانی

یوم عرفہ کی تقریب کے مقرر نے غریبوں اور مسکینوں کی مدد پر تاکید کرتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے سے خبردار کیا اور کہا: اس سال کے حج کا سب سے اہم یادگار تحفہ، اسلامی ملک میں اتحاد اور فتنہ پروری کی خاموشی ہونی چاہیے۔

 

ایکنا نے المیادین کے حوالے سے بتایا ہے کہ یوم عرفہ کی تقریب کے خطیب اور سعودی عرب کے سینئر علماء کی کونسل کے رکن یوسف بن محمد بن سعید نے عرفہ کے دن مسجد نمرہ میں اپنے خطبہ میں کہا: اسلامی شریعت مسلمانوں کی صفوں میں اختلاف پیدا کرنے والے مسائل کی پیروی کرنے سے منع کرتا ہے، یہ مسلمانوں کو خدا تعالیٰ سے ڈرنے، اس کی اطاعت کرنے، اس کی شریعت پر عمل کرنے اور اس کی حدود کو برقرار رکھنے کی ترغیب دیتا ہے اور اس کی دعوت دیتا ہے۔

ابن سعید کے کلام کا نچوڑ امن پر انحصار، اتحاد کو فروغ دینا، تفرقہ بازی سے گریز اور عالم اسلام میں فتنہ کو خاموش کرنا تھا۔

انفرادی اخلاقی طریقوں کی اصلاح کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے کا اظہار کرتے ہوئے، آپ نے اسلامی فرقوں کے ساتھ سماجی بقائے باہمی کو فروغ دینے کو آج کی دنیا میں حج کا سب سے اہم مشن قرار دیا۔

بن سعید نے عرفہ کے دن مسجد نمرہ سے اپنے خطبہ میں قرآن کریم کی آیات اور احادیث نبوی کا حوالہ دیتے ہوئے غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنے اور خدا کی رسی کو تھامے رکھنے پر زور دیا۔

منارہ الحرمین کی ویب سائٹ پر ان خطبات کا بیک وقت 30 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

جدہ : سوئیڈن میں قرآن سوزی پر مسلم دنیا سراپا احتجاج بن گئی اور سوئڈش حکومت سے ایسے اقدامات روکنے کا مطالبہ کیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ نفرت انگیز اور بار بار کی گئی کارروائیوں کو کسی بھی جواز کے ساتھ قبول نہیں کیا جا سکتا۔ یہ واضح طور پر نفرت اور نسل پرستی کو ہوا دیتے ہیں۔ ترک وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہاکہ آزادیِ اظہار کے بہانے اسلام مخالف اقدامات کی اجازت ناقابلِ قبول ہے۔ایسے ظالمانہ کاموں سے آنکھیں موندنے کا مطلب ان میں شریک جرم ہونے کے مترادف ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے مقدس موقع پر مقدسات کی توہین ایک کھلی اشتعال انگیزی کے مترادف، غیر منصفانہ، اور ناقابل قبول عمل ہے۔ ادھر مراکش نے سویڈن سے اپنے سفیر کو غیر معینہ مدت کےلیے واپس بلا لیا جبکہ رباط میں سویڈن کے ناظم الامور کو طلب کرکے واقعہ کی شدید مذمت کی۔
سویڈن کے وزیراعظم الف کرسٹرسن نے قرآن سوزی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج قانونی لیکن مناسب نہیں تھا، پولیس پر منحصر تھا کہ وہ اس کی اجازت دیتی ہے یا نہیں۔ واضح رہے کہ عدالت کی اجازت کے بعد انتہا پسندوں نے عید الاضحیٰ کے پہلے روز سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر قرآن کو نذرآتش کیا۔

عرفات کے صحرا میں حج و زیارات کے امور میں ولی فقیہ کے نمائندے اور ایرانی حجاج کی موجودگی میں مشرکین سے بیزاری کے مراسم منعقد ہوئے۔

عرفات کے میدان میں ہونے والے اس پروگرام کا سب سے اہم حصہ رہبر معظم انقلاب اسلامی کی جانب سے حج کے موقع پر جاری ہونے والا پیغام تھا۔ ولی فقیہ کے نمائندے سید عبدالفتاح نواب نے نے مشرکین سے بیزاری کے مراسم میں اس پیغام کو پڑھ کر سنایا۔

 رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حج بیت اللہ کی مناسبت سے پیغام میں کہا ہے کہ فریضہ حج انسانی رشد اور بشریت کی معنوی و اخلاقی پیشرفت کی عالمی دعوت ہے۔ حج کے عالمی سطح پر موثر واقع ہونے کے لئے امت مسلمہ کو چاہئے کہ اس عظیم فریضے کے دو اراکان یعنی وحدت اور معنویت پر مبنی حیات بخش پیغام کی صحیح شناخت حاصل کرے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حجاج کرام کے نام پیغام جاری کیا جو حسب ذیل ہے:

    بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ ربّ العالمین و صلّی اللہ علی الرسول الاعظم محمد المصطفی و آلہ الطیبین و صحبہ المنتجبین.

حج ابراہیمی کی صلائے عام اور اس کی عالمی دعوت نے ایک بار پھر تاریخ کی گہرائيوں سے پوری دنیا کو مخاطب کیا اور ذکر خدا کرنے والے مشتاق دلوں میں ہلچل مچا دی۔

داعی کی آواز بنی نوع انسان کی فرد فرد کے لیے ہے: "و اَذِّن فی الناس بالحجّ" (اور لوگوں میں حج کی عام منادی کر دیجیے) اور کعبہ، تمام انسانوں کا مبارک میزبان اور رہنما ہے: "انّ اوّلَ بیتٍ وُضع للنّاس للّذی ببکّۃ مبارکاً و ھدیً للعالمین" (بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا، وہی ہے جو مکے میں ہے، بڑی برکت والا اور عالمین کے لیے مرکز ہدایت ہے۔)

تمام مسلمانوں کی توجہ کے مرکز پرکار اور اصلی محور کی حیثیت کے حامل کعبہ اور عالم اسلام کے گوناگوں جغرافیا کے ایک چھوٹے سے مرقعے کی حیثیت سے حج کا پروگرام، انسانی معاشرے کے عروج اور تمام انسانوں کے امن و سلامتی کا ضامن بن سکتا ہے۔ حج، پوری انسانیت کو معنوی عروج اور روحانی و اخلاقی ارتقاء کی اعلی ترین منزل پر پہنچا سکتا ہے اور یہ، آج کے انسان کی حیاتی ضرورت ہے۔

حج، آج اور آئندہ کل کے انسان کے اخلاقی زوال کی موجب سامراج اور صیہونیت کی تمام سازشوں کو ناکام اور بے اثر بنا سکتا ہے۔

اس عالمی تاثیر کی ضروری شرط یہ ہے کہ مسلمان قدم اول کے طور پر، حج کے حیات بخش خطاب کو پہلے خود صحیح طریقے سے سنیں اور اسے عملی جامہ پہنانے میں کوئي دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔

اس خطاب کے دو بنیادی ستون، اتحاد اور معنویت ہیں۔ وحدت و روحانیت، عالم اسلام کی مادی و معنوی پیشرفت کی ضامن ہے اور یہ پوری دنیا پر ضو فشانی کر سکتی ہے۔ اتحاد کا مطلب، فکری اور عملی رابطہ ہے، یہ دلوں، افکار اور مواقف کے قریب ہونے سے عبارت ہے، اس کا مطلب علمی و تجرباتی تعاون ہے، یہ اسلامی ملکوں کے معاشی رشتے کے معنی میں ہے، مسلم حکومتوں کے باہمی اعتماد و تعاون کے معنی میں ہے، یہ مسلّمہ اور مشترکہ دشمنوں کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کے معنی میں ہے، وحدت کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کی تیار کردہ سازش، اسلامی فرقوں یا عالم اسلام کی مختلف قوموں، نسلوں، زبانوں اور ثقافتوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل نہ لا سکے۔

اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ مسلم اقوام ایک دوسرے کو، دشمن کے فتنہ انگیز تعارف سے نہیں بلکہ آپسی رشتوں، بات چیت اور آمد و رفت سے پہچانیں، ایک دوسرے کے وسائل اور صلاحیتوں سے واقف ہوں اور ان سے استفادے کے لیے پروگرام تیار کریں۔

اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ عالم اسلام کے سائنسداں اور یونیورسٹیاں ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملائيں، اسلامی مذاہب کے علماء ایک دوسرے کو حسن ظن، رواداری اور انصاف پسندی کی نظر سے دیکھیں اور ایک دوسرے کی باتیں سنیں، ہر ملک اور ہر مذہب کے دانشور عوام کو ایک دوسرے کے مشترکات سے آشنا کریں اور انھیں باہمی زندگي اور اخوت کی ترغیب دلائيں۔

اسی طرح وحدت اس معنی میں ہے کہ اسلامی ملکوں میں سیاسی و ثقافتی رہنما پوری ہماہنگي کے ساتھ خود کو درپیش عالمی نظام کے حالات کے لیے تیار کریں، دنیا کے نئے تجربے میں، جو موقعوں اور خطروں سے بھرا ہوا ہے، امت اسلامی کے شایان شان مقام کو اپنے ہاتھوں سے اور اپنے ارادے سے یقینی بنائيں اور پہلی عالمی جنگ کے بعد مغربی حکومتوں کے ہاتھوں انجام پانے والے مغربی ایشیا کے سیاسی و علاقائي تغیرات کے تلخ تجربے کو دوہرائے جانے کی اجازت نہ دیں۔

معنویت، دینی اخلاق کے ارتقاء کے معنی میں ہے۔ دین کی نفی کے ساتھ اخلاق کی فسوں کاری کا انجام، جس کی عرصے تک مغرب کے فکری ذرائع کی جانب سے ترویج کی جاتی رہی، مغرب میں اخلاقیات کا تیز رفتار زوال ہے جس کا دنیا میں سبھی مشاہدہ کر رہے ہیں۔ معنویت اور اخلاق کو، حج کے مناسک سے، احرام میں سادگي سے، خیالی امتیازات کی نفی سے، "و اطعموا البائس الفقیر" (اور تنگ دست محتاج کو کھانا کھلاؤ) (کی تعلیم) سے، "لارَفَث و لافسوق و لاجدال" (حج کے دوران کوئی شہوانی فعل، کوئی بد عملی اور کوئی لڑائی جھگڑا نہ ہو) (کی ہدایت) سے، توحید کے محور کے گرد پر امید طواف سے، شیطان کو کنکریاں مارنے سے اور مشرکین سے اعلان برائت سے سیکھنا چاہیے۔

حج کا فریضہ انجام دینے والے بھائيو اور بہنو! حج کے موقع کو اس بے نظیر فریضے کے رموز کے بارے میں گہرائي سے غور و فکر کرنے کے لیے استعمال کیجئے اور اپنی پوری عمر کے لیے توشہ تیار کر لیجیے۔ اتحاد اور معنویت کو ماضی سے کہیں زیادہ اس وقت سامراج اور صیہونیت کی دشمنی اور خلاف ورزیوں کا سامنا ہے اور سامراجی تسلط کی دوسری طاقتیں، مسلمانوں کے اتحاد اور مسلم اقوام، ممالک اور حکومتوں کے آپسی افہام و تفہیم اور ان اقوام کی نوجوان نسل کے جذبہ دینداری کی سخت مخالف ہیں اور ہر ممکن طریقے سے ان چیزوں پر حملے کر رہی ہیں۔ اس خباثت آمیز امریکی و صیہونی سازش کے مقابلے میں ڈٹ جانا ہم سب کی اور تمام اقوام اور حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔

خداوند علیم و قدیر سے مدد طلب کیجیے، اپنے اندر مشرکین سے اظہار برائت کے جذبے کو مضبوط بنائیے اور خود کو اپنی زندگي کے ماحول میں اسے پھیلانے اور مزید گہرائي عطا کرنے کا ذمہ دار سمجھیے۔

سبھی کے لیے خداوند عالم سے توفیق اور آپ ایرانی اور غیر ایرانی حجاج کے لیے 'مقبول و مشکور حج' کی دعا کرتا ہوں اور سبھی کے لیے حضرت بقیۃ اللہ الاعظم ارواحنا فداہ کی مستجاب دعا طلب کرتا ہوں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ

6 ذی الحجہ 1444 ہجری قمری

4 تیر 1402 مطابق 25 جون 2023

مہر نیوز ایجنسی، گروہ عقیدہ و دین؛  سات ذی الحجہ کو آسمان امامت کے پانچویں ستارے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا یوم شہادت ہے۔ آپ کا لقب باقر ہے جس کے معنی ہیں علوم کا پردہ چاک کرنے والا۔ آپ بنی ہاشم میں سب سے زیادہ علم وزھد اور تقوی کے مالک تھے جس کی دوست و دشمن سب گواہی دیتے تھے۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے زمانے کے تقاضے کو سمجھتے ہوئے حکمرانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور علوم وحیانی کی ترویج میں سرگرم رہے۔ آپ نے علم کو بند گلی سے نکال کر شکوفائی عطا کی اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے لئے بنیاد فراہم کی۔ اس دور کے جید علماء جن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعض اصحاب اور اہل سنت علماء بھی شام تھے، نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔

امام محمد باقر علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے مہر نیوز نے آپ کی سیاسی اور علمی سیرت پر روشنی ڈالنے کے لئے حوزہ اور یونیورسٹی کے نامور استاد حجت الاسلام عبدالکریم پاک نیا سے گفتگو کی جو کہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔

حوزہ علمیہ کے استاد حجت الاسلام پاک نیا نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے دور امامت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت کا دور ان ادوار میں شمار ہوتا ہے جب اسلامی تمدن اور فرھنگ کو شدید انحرافی خطرات لاحق تھے۔ بنی امیہ نے دینی تعلیمات میں تحریف اور انحراف ایجاد کرنے خطرناک منصوبے شروع کئے تھے۔ ان منصوبوں کی تکمیل کی خاطر خاندان نبوت کو وحشیانہ طریقے سے کربلا میں قتل کیا گیا۔ مدینہ والوں نے احتجاج کیا تو بے رحمی کے ساتھ کچل دیا گیا۔ عدالت خواہی کے لئے قیام کرنے والے علوی سادات کو تہہ تیغ کیا گیا۔ سخت ترین اقتصادی ناکہ بندی کی گئی۔ بنی امیہ اسلام کے فکری اور علمی آثار کو نابود کرنے کے درپے تھے۔ مال و دولت کے ذریعے بعض لوگوں کو حدیث گھڑنے کے لئے تیار کیا گیا۔ 

امام محمد باقر علیہ السلام نے اسلامی تہذیب و تمدن کو انحراف سے بچایا

بنی امیہ کی یہ حرکات وقت کے امام سے پوشیدہ نہ تھیں۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے تعلیمی درسگاہ کی تاسیس کی اور نظریہ پردازی کے ذریعے اسلامی فرقوں کو ایک دوسرے کے نزدیک لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے اسلامی تہذیب و تمدن کو انحرافی راستے پر چلنے سے نجات دی۔ آپ نے جب دیکھا کہ الہی اور قرآنی علوم کی تعلیم کے لئے میدان کھلا ہے تو تمام علوم میں نئے باب کھولے۔ یہ وہی بشارت تھی جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اصحاب کے سامنے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے آپ کے علمی مقام و منزلت کے بارے میں بتایا تھا۔ آپ کو لقب اسی وجہ سے باقر رکھا گیا۔

حجت الاسلام پاک نیا نے کہا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا دور انتہائی حساس تھا۔ بنی امیہ کی سیاسی اور فکری سوچ کے حامل لوگ معاشرے میں رونما ہوئے۔ ان کے تفسیری، حدیثی اور تاریخی رجحانات عالم اسلام کے لئے بہت خطرناک تھے۔ داعش اور القاعدہ جیسے شدت پسند گروہ اسی فکر کا نتیجہ ہے۔ کسی خاص ہدف کے تحت اور کینہ کی بنیاد پر تاریخ نویسی کے باعث انحراف کا ماحول بن گیا تھا۔ بنی امیہ شیعوں کو خاک و خون میں نہلانے کے ساتھ ساتھ سنت نبوی کو مکمل ختم کرنا چاہتے تھے اسی لیے فکری اور مذہبی طور پر منحرف فرقے ایجاد کررہے تھے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اس دور میں بڑا جہاد کیا اور تمام منحرف فرقوں کے ساتھ خوب مقابلہ کیا۔ آپ کی علمی تحریک کی بنیاد منحرف فرقوں سے مقابلے پر استوار تھی۔ آپ نے گمراہ فرقوں سے متاثر افکار اور انحرافات کو معاشرے میں عیاں اور غلط ثابت کردیا۔ اس دور میں انبیاء کا معصوم نہ ہونا، اللہ کے لئے جسم ہونا، بیت المقدس کا کعبہ سے افضل ہونا وغیرہ ایسے اعتقادی انحرافات میں سے تھے جو عالم اسلام میں پیدا ہوئے اور امام محمد باقر علیہ السلام نے ان کا مقابلہ کیا۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے بعد آنے والے ائمہ نے بھی یہودیوں کے شبیہ نہ بنو جیسی تعبیروں کے ذریعے مسلمانوں میں پیدا ہونے والے فکری اور ثقافتی ناپسندیدہ اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں نے بھی ان انحرافات کے مقابلے میں استقامت دکھائی اور خود کو گزند پہنچانے سے دور رکھا۔ آج استعماری طاقتوں کی جانب سے اسلام پر وارد ہونے والے اعتراضات کی جڑیں ان اسرائیلیات کے اندر پائی جاتی ہیں۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی برکت سے شیعہ کتابیں ان سے پاک ہیں۔

حجت الاسلام پاک نیا نے کہا کہ معاشرے میں مذاکرے کا ماحول پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ معاشرے کے رہنما جدید طریقے پیش کرکے معاشرے کے رسم و رواج کو آگے بڑھاتے  ہیں۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے زمانے جدید علوم متعارف کرائے اور غاصب حکمرانوں کے ایجاد کردہ انحرافی افکار سے اسلامی تمدن اور فرھنگ کو بچایا۔ آپ دین کا اصلی راستہ لوگوں کو دکھایا اور شبہات اور منحرف عقاید کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ دین میں حصول علم ایک اصل اور بنیادی امر ہے کیونکہ قرآن اور دین کو سمجھنا علم پر منحصر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کو علم حاصل کرنے کی تشویق کرتے ہوئے واجب قرار دیا۔ قرآنی تعلیمات میں علم حاصل کرنے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور علماء کو معاشرے میں فضیلت دی گئی ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک علمی تحریک شروع کی جس کی بنیادیں وحیانی اور نبوی علوم کے اندر پیوست ہیں۔ اگر آپ کی علمی محنتوں کو جدا کیا جائے تو اسلامی تمدن خطرات سے روبرو ہوجائے گا۔ اسلامی تمدن کو رونق اور شکوفائی عطا کرنے کے لئے اہل بیت کے علمی اثرات بہت ہی اہم اور قابل توجہ ہیں۔ شاگردوں اور ان علوم کے حافظوں اور وارثوں کی تربیت اسلامی تمدن کے تحفظ کے پہلووں میں سے ایک ہے۔

امام نے عملی طور پر مدارس کی تعمیر اور علمی محافل سجا کر علمی رجحان پر مبنی مذاکرے کی بنیاد رکھی اور اسے فروغ دیا۔ امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام کے علمی اقدامات نے ایک ثقافت سے مالامال ایک مکتب کو وجود میں لایا جو بعد میں جعفری مکتب کے نام سے مشہور ہوا، یہ مکتبہ فکر جو باقاعدگی سے تمام شعبوں میں اہل بیت کے علوم کو پیش کرتا ہے، نصف صدی سے زیادہ ان دونوں شیعہ اماموں کی مسلسل محنت اور کوشش کا نتیجہ ہے۔

حوزہ علمیہ کے استاد نے مزید کہا کہ اس زمانے کے سیاسی معاشرے میں اس طرح کی پالیسی اختیار کرنا جب اموی اور بعد میں عباسی خلفاء اپنی حکومت کی بقا کے لیے کسی بھی قسم کی مخالفت برداشت کرنے کے لئے تیار نہ تھے، سیاسی اقدامات کے ساتھ ناممکن تھیں۔ امام نے اس دور میں اسلامی معارف کو بیان کیا اور دینی ثقافت کی ترویج کی۔ آپ خلافت کو اپنا اور اپنے آباء و اجداد کا حق سمجھتے تھے جس کو طاقت کے بل بوتے غصب کیا گیا تھا۔ آپ نے کھل کر حکمرانوں کی مخالفت کی اور ان کے خلاف موقف اپنایا۔ 

امام محمد باقر علیہ السلام نے شیعوں اور اسلامی تمدن و تہذیب کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا۔ آپ اپنے زمانے کے معتبر ترین فرد شمار ہوتے تھے جس کا سب اعتراف کرتے تھے۔ اسی لئے ایران اور دوسرے علاقوں سے سینکڑوں لوگ مدینہ آکر آپ کی علمی محفلوں میں شرکت کرتے تھے۔ اہل بیت کی اس درسگاہ میں 4000 سے زائد طلباء نے استفادہ کیا۔

حجت الاسلام پاک نیا نے کہا کہ اگر علمی بنیادیں کمزور ہوں تو سب کچھ انحرافات اور شہات کے سیلاب میں بہہ جائیں گے۔ اس زمانے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اس نکتے پر خصوصی توجہ کی اور دین اور مذہب کی علمی بنیادوں کو مستحکم کیا۔ شاگردوں کی تربیت اور علمی محافل سجا کر آپ نے بے نظیر اقدام کیا جو آج تک جاری ہے۔ آپ نے اپنے والد گرامی کے دور میں ہی معاشرے کو قریب سے مشاہدہ کیا تھا اور انحرافی افکار سے بخوبی واقف تھے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ نے امامت کا فریضہ سنبھالا اور علمی خدمات انجام دیں۔

انہوں نے کہا کہ امام علی مقام نے اگلے مرحلے میں بنی امیہ کے انحرافات کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلامی علوم کی بنیاد رکھی۔ اگر یہ اقدام نہ کرتے تو بنی امیہ فکری اور ثقافتی انحرافات کے ذریعے دین کی جڑوں کو ہلاکر رکھ دیتے اور اس امت مسلمہ کو حقیقی راستے سے ہٹادیتے۔ آپ نے دانشوروں کے ساتھ علمی مذاکروں کے ذریعے دین کی بنیادوں کو سقوط سے نجات دی۔ آپ نے علم کو حقیقی پہچان اور شناخت عطا کی۔ آپ حقیقی معنوں میں علوم کے پردوں کو چاک کرنے والے تھے۔

ایکنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ روز لاکھوں عازمین حج نے پیر کو پیدل یا بسوں میں سوار ہو کر مکہ مکرمہ کے قریب منیٰ میں بڑی خیمہ بستی کے شہر میں سالانہ حج کی ادائیگی کے لیے جمع ہوئے ہیں جہاں سعودی حکام کا کہنا ہے کہ یہ حج حاضری کے ریکارڈ توڑ سکتا ہے۔

زائرین کرام احرام اور سینڈل و چپل پہنے حجاج میں سے اکثر چھتری لیے ہوئے تھے جنہوں نے پیدل یا سعودی حکام کی جانب سے فراہم کردہ سیکڑوں ایئر کنڈیشنڈ بسوں کے قافلے میں سفر کیا۔

پاکستانی پیروان اہل بیت کے لیے الگ سے خیموں کا میدان لگایا گیا ہے جہاں حجاج نے گذشتہ رات آرام کے بعد آج صبح فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کیا اور پھر دعائے ندبہ کی تلاوت کی گیی۔

 

مختلف ممالک کے حجاج  نے منگل یعنی 8ذوالحج کو پورا دن منیٰ میں سفید خیموں میں گزارا جو ہر سال دنیا کے سب سے بڑی خیمہ بستی کی میزبانی کرتا ہے، وہاں رات نماز کی ادائیگی کے بعد حجاج نے میدان عرفات کی راہ لی اور جبل رحمت پر قیام کیا جہاں سے نبی اکرمﷺ نے اپنا آخری خطبہ دیا تھا

مقامی میڈٰیا کے مطابق یہ کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے بعد تین سال میں پہلا موقع ہے کہ حج میں لوگ بلا روک ٹوک بھرپور شرکت کررہے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ ڈھائی ملین سے زائد افراد نے اسلام کے اس پانچویں رکن کی ادائیگی کے لیے حجاز مقدس کا سفر کیا ہے اور آج میدان عرفات میں خطبہ حج کی ادائیگی حجاج وقوف عرفات ادا کریں گے۔

 

لاکھوں فرزندان حجاج کرام وقوف عرفہ کی ادائیگی کیلئے میدان عرفات میں جمع

 

حجاج نے پیر کو حضرت محمدﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے پورا دن اور رات منیٰ میں گزاری جسے یوم ترویہ کہا جاتا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ آج منگل کو میدان عرفات میں حج کے رکن اعظم کی ادائیگی کے بعد سورج غروب ہوتے ہی زائرین عرفات اور منیٰ کے درمیان واقع مزدلفہ کا رخ کریں گے اور رات کھلے آسمان تلے گزاریں گے اور حجاج اس کے بعد مزدلفہ سے کنکریاں جمع کرنے کے بعد وہ جمرات میں شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں اور حج کے آخری رکن کی ادائیگی کے لیے واپس خانہ کعبہ آ کر طواف کرتے ہیں۔

پیر کو عصر سے قبل ہی تمام خیمے حجاج سے بھر گئے تھے جن میں دو سے تین بستر ہوتے ہیں اور ان میں پانی اور خوراک بھی دستیاب ہوتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس فرض کی ادائیگی کے خواب دیکھنے والے بہت سے لوگ منیٰ میں اس خوبصورت لمحے کے دوران جذبات قابو میں نہ رکھ سکے اور اس حجاز مقدس پر آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتے نظر آئے جہاں سے اسلام کے سفر کا آغاز ہوا تھا۔

 

لاکھوں فرزندان حجاج کرام وقوف عرفہ کی ادائیگی کیلئے میدان عرفات میں جمع

بعض سعودی زرایع کے مطابق اس سال کا حج تاریخ کا سب سے بڑا حج ہو سکتا ہے، 2019 میں 25 لاکھ افراد کی شرکت کے بعد 2020، 2021 اور 2022 میں کووڈ کے وبائی مرض کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد اس فریضے کی ادائیگی سے محروم رہ گئے تھے۔

ایک بات ماضی میں اس مقدس فریضے کی ادائیگی کے دوران کئی حادثات بھی پیش آئے جن میں عسکریت پسندوں کے حملے، خطرناک آگ کے واقعے کے ساتھ ساتھ 2015 میں مچنے والی بھگدڑ بھی شامل ہے جس میں 2300 افراد ہلاک ہو گئے تھے تاہم خوش قسمتی سے اس کے بعد سے کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا۔

ایکنا کے مطابق ہیلی کاپٹر اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے لیس ڈرونز کو منیٰ کی طرف ٹریفک کے بہاؤ کی نگرانی کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ  سال حج میں سب سے بڑا خطرہ گرمی ہے بالخصوص زیادہ سے زیادہ عمر کی پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد زائد العمر افراد کے گرمی سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے تاہم اسی چیز کے لیے منا کے خیموں میں بہترین ائیرکنڈیشنوں کا خاص اہتمام کیا گیا ہے اور گذشتہ رات وافر مقدار میں زائرین کو آئس کریم کے ساتھ تواضع کی گیی۔

 ایک اوربات کہ اس سال منیٰ میں بیمار حاجیوں سے نمٹنے کے لیے چار ہسپتال اور 26 کلینک تیار ہیں اور 190 سے زیادہ ایمبولینسیں تعینات کی گئی ہیں۔

واضح رہے کہ آج نماز مغرب سے پہلے میدان عرفات کو چھوڑنے کا حکم ہے، حاجی میدان عرفات سے مزدلفہ روانہ ہوں گے وہاں پہنچ کر کر مغرب اور عشا کی نمازیں ایک ساتھ ادا کریں گے اور شیطان کو مارنے کے لیے کنکریاں چنیں گے۔

تمام حجاج آج رات مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے قیام کرنے کے بعد نماز فجرکی ادائیگی کے بعد منی میں اپنے خیموں میں واپس آئیں گے جہاں سے شیطان کو پہلے دن کنکریاں مارنے کے لیے جمرات کمپلیکس روانہ ہوں گے۔ آج عصر کو تمام حجاج بالخصوص پیران اہل بیت عصر کے وقت دعا عرفہ جو سید الشہدا امام حسین علیہ السلام سے منسوب ہے اسکی تلاوت کریں گے۔/

 
 

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آج علی الصبح ایرانی شہداء کے والدین، ورثاء اور بیواؤں نے رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔

اس موقع پر آپ نے شہداء کو قومی اور تاریخی ہیرو قرار دیتے ہوئے ہنرمندوں پر شہداء کے لواحقین کے قرآنی، جہادی، انسانی اور اجتماعی مقام کو مختلف زاویوں سے بیان کرنے پر زور دیا۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے شہداء کے والدین اور بیواؤں کی قرآنی خدمات کو قابلِ قدر قرار دیتے ہوئے انہیں دیگر مؤمنین سے افضل اور صابر قرار دیا اور فرمایا کہ شہداء کے لواحقین پر خداوند عالم درود بھیجتا ہے۔

رہبرِ انقلابِ اسلامی نے شہیدوں کو خدا کی راہ میں قربان کرنے والے والدین اور بیواؤں کے اس عمل کو خدا کی راہ میں نیکی اور انقاق قرار دیا اور مزید فرمایا کہ شہداء کے لواحقین جہاد بالنفس کے واضح نمونہ ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنے نفس، محبت اور عشق کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے اپنے عزیزوں کو میدان جہاد میں بھیجا۔

رہبرِ انقلابِ اسلامی نے دفاع مقدس کے دوران مجاہدین کی ہر ممکن مدد کرنے والوں کو شہداء کے شریک قرار دیا اور فرمایا کہ دفاع مقدس کے دوران تمام مشکلوں کو برداشت کر کے اپنے عزیزوں کو جہادِ فی سبیل اللہ کیلئے روانہ کرنے والے دفاع مقدس کی فتح میں برابر کے شریک ہیں۔

رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے شہداء کے فقدان کے حوالے سے لواحقین کے دکھ درد کو عظیم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ البتہ عزیزوں کی جدائی کا یہ دکھ درد بہت ہی سخت ہے لیکن عظمت اور عزت کا نیز ذریعہ ہے اور اس حوالے سے خداوند عالم ان صابر اور شاکر انسانوں کو عظیم درجہ عطاء فرمائے گا۔

آخر میں، رہبرِ انقلابِ اسلامی نے صحافیوں اور ہنرمندوں سے شہداء کی یاد کو مزید تازہ کرنے کیلئے کردار ادا کرنے کی تاکید کی اور فرمایا حالیہ برسوں شہداء سے متعلق کتابیں اور فلمیں بنائیں گئیں ہیں تاہم ان عظیم شہداء کی یاد کو مزید تازہ کرنے اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کیلئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ازبکستان کے صدر شوکت میرضیایف اور ان کے ہمراہ وفد نے اتوار کے روز قائد اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی۔

 
 

اسلام آباد، ارنا – نائب پاکستانی نائب وزیر دفاع کے تہران کے سرکاری دورے کے دوران ایرانی بارڈر پولیس اور پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کے درمیان تعاون کی ایک یادداشت پر دستخط کردیا گیا۔

پاکستانی وزارت دفاع نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا کہ حمود الزمان خان نے ایران کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی اہمیت پر تاکید کی اور باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کے اصولوں کی بنیاد پر ان تعلقات کی مسلسل توسیع پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔

نائب پاکستانی نائب وزیر دفاع اور ان کے ہمراہ آنے والے وفد نے پیر کے روز ایران میں سرحدی پولیس کے کمانڈر میجر جنرل احمد علی گودرزی سمیت اپنے ہم منصبوں کے ساتھ ملاقات کی۔

پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی اور ایرانی بارڈر پولیس کے درمیان بحری تعاون کی ایک یادداشت پر دستخط کیے گئے جس کا مقصد باہمی دلچسپی کے مختلف شعبوں بشمول سیکیورٹی، مشترکہ انسداد دہشت گردی کے اقدامات اور علاقائی اقتصادی باہمی انحصار کو یقینی بنانا دونوں کے درمیان تعلقات اور تعاون کو مضبوط بنانا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق، پاکستانی وفد کا دورہ تہران، ایرانی بحریہ کے کمانڈر ایڈمرل شہرام ایرانی کے کل رات اسلام آباد کے سرکاری دورے کے ساتھ مل کر ہوگا، جس کے تین روزہ دورے کے دوران وہ  اپنے پاکستانی ہم منصب اور دیگر سے ملاقاتیں کریں گے۔

حوزہ علمیہ تہران کے استاد حجت الاسلام علم الھدی کی مہر نیوز کے نمائندے سے گفتگو
تیس ذی القعدہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے۔ تین اماموں کو بچپن میں امامت کا عظیم منصب ملا؛ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو سات سال کی عمر میں امامت ملی، حضرت امام علی نقی علیہ السلام نو سال اور حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ پانچ سال کی عمر میں امامت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔

امامت کے عہدے کے عظمت کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ نوعمری میں کس طرح اس عظیم منصب سے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں؟ معمولا انسان پندرہ سال کی عمر میں بلوغت کو پہنچتا ہے اور چالیس کے بعد اس کی عقل کامل ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی امامت کے حوالے سے کئی لوگوں سے سوالات کئے کہ ایک سات سالہ بچہ کس طرح معاشرے کی ہدایت کی عظیم ذمہ داری لے سکتا ہے؟ کیا سات سال کا بچہ بڑی عمر کے انسان کی طرح دواندیشی اور فہم و فراست سے یہ فریضہ انجام دے سکے گا؟
اس دور میں خاص و عام میں یہ سوال گردش کرتا تھا خصوصا عباسی حکومت کے طرفداروں اور اہل بیت کے دشمنوں نے اس سوال کو ہر جگہ دہرایا۔ مامون عباسی نے اس نکتے کو لے کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی کوشش کی۔

انہوں نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور اس زمانے کے جید علماء کے درمیان علمی مناظرے کی محفلیں سجائیں لیکن امام عالی مقام نے دندان شکن جواب دے کر ہر قسم کے شک و تردید کو ختم کیا اور دشمنوں کی سازشوں کا ناکام بنایا۔

اس حوالے سے مہر نیوز کے نمائندے نے حوزہ علمیہ تہران کے استاد حجت الاسلام سید محمد باقر علم الھدی سے گفتگو کی اور اسی موضوع کے حوالے سے کئی سوالات کئے۔

ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو قارئیں کے لئے پیش کی جاتی ہے؛

حجت الاسلام سید محمد باقر علم الھدی نے کہا کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ علیہم السلام نے غیر مسلم دانشوروں کے ساتھ بھی علمی گفتگو اور مناظرے کئے۔ اس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ اہل بیت علیہم السلام علمی مرکز ہیں۔ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے مختلف علمی محافل میں شرکت کرکے حاضرین کو اپنے برجستہ جوابات سے حیرت زدہ کردیا۔ امام عالی مقام کو چھوٹی عمر میں امامت نصیب ہوئی اس کے باوجود آپ نے علمی مناظروں میں حصہ لیا اور دوسرے کو حیرت میں ڈال دیا۔ شیعہ عقیدے کے مطابق ائمہ علم الہی کے حامل ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امام جود علیہ السلام کم عمری میں ہی علمی محافل میں شریک ہوتے تھے اور لوگوں کو حق اور حقیقت سے آگاہ کرتے تھے۔ ایک سال حج کے ایام میں تقریبا 80 علماء اور دانشور حج کے لئے بغداد سے روانہ ہوئے۔ مدینہ میں انہوں نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے ملاقات کی۔ اس وقت آپ کے چچا عبداللہ بن موسی بھی آپ کے گھر میں داخل ہوئے۔ محفل میں موجود کسی شخص نے عبداللہ بن موسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فرزند رسول ہیں۔ جو پوچھنا چاہیں پوچھیں۔ 

بغداد سے آنے والے علماء نے کچھ سوالات کئے لیکن عبداللہ ان کا جواب نہ دے سکے۔ محفل میں موجود شیعہ غمگین ہوئے اور کہنے لگے کہ کاش کوئی ان کے سوالوں کا جواب دینے والا ہوتا! اتنے میں گھر کا دروازہ کھلا اور حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا غلام داخل ہوا اور کہا کہ امام عالی مقام تشریف لارہے ہیں۔ لوگ اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے۔ امام جواد علیہ السلام جو اس وقت نوجوان تھے، نے سب کے سوالوں کا الگ الگ اور اطمینان بخش جواب دیا۔ 
حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد مامون عباسی نے خود اہل بیت کا دوست اور محب ثابت کرنے کے لئے اپنی بیٹی کا حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے عقد کرایا۔ مامون امام کی علمی منزلت اور فہم و فراست سے آگاہ تھا اس لئے سے امام کو ابتدا میں سرکوب کرنے کے لئے شادی سے پہلے مناظرے کی ایک محفل سجادی جس میں بزرگ علماء اور دانشوروں کو دعوت دی تاکہ ان کے مشکل سوالات کا امام جواب نہ دے سکیں اور ان کے علمی مقام میں کمی آئے۔

مامون نے اپنے دور کے مشہور عالم اور قاضی یحیی ابن اکثم کو کہا کہ ہر ممکن طریقے سے امام کو لاجواب کردے۔ یحیی نے بھی مامون سے وعدہ کیا اور کامیابی کی صورت میں مالی فوائد کا اقرار لیا۔
جب محفل سجائی گئی تو یحیی نے مامون سے اجازت لی تاکہ امام سے کچھ سوالات کرے۔ اس نے سوال کیا کہ کوئی احرام کی حالت میں شکار کرے تو کیا حکم ہے؟

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ شخص شکار کرتے وقت حرم کے احاطے میں تھا یا باہر؟ شکار حرام ہونے کا علم رکھتا تھا یا نہیں؟

عمدا شکار کیا تھا یا غلطی سے؟ آزاد تھا یا غلام؟ بچہ تھا یا بالغ؟ پہلی مرتبہ شکار کیا تھا یا کئی مرتبہ؟ پرندے کا شکار کیا تھا یا کسی اور جانور کا؟ جانور چھوٹا تھا یا بڑا؟ دوبارہ شکار کا ارادہ رکھتا ہے یا پشیمان ہوا ہے؟ دن کو شکار کیا تھا یا رات کو؟ حج کے احرام میں تھا یا عمرہ کے؟ 

ان سوالوں کے سننے کے بعد یحیی پریشان ہوگیا اور اس کی زبان جواب دے گئی۔ محفل میں حاضر شرکاء نے امام کو داد تحسین دی۔ اس وقت مامون نے کہا کہ جیسا میں نے سوچا وہی ہوا۔

حجت الاسلام علم الھدی نے حضرت امام جود علیہ السلام کے ایک علمی مناظرے کی روداد سناتے ہوئے کہا کہ معتصم عباسی کے دور میں چور کا ہاتھ کاٹنے کا واقعہ پیش آیا۔ ایک شخص نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا تقاضا کیا تو معتصم نے علماء سے سوال کیا کہ ہاتھ کو کہاں سے کاٹا جائے۔ بعض نے کہا کہ کلائی سے کاٹیں؛ بعض نے کہنی سے کاٹنے کا مشورہ دیا۔ 

معتصم نے امام جواد علیہ السلام سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ چور کی انگلیاں کاٹی جائیں۔ کیونک اللہ نے فرمایا ہے کہ سجدہ کے اعضاء خدا کے لئے ہیں۔ جو اعضاء خدا کے لئے ہوں ان کو کاٹا نہیں جاسکتا۔

انہوں نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے مناظروں اور دوسرے طریقوں سے درباری علماء اور قاضیوں کی کم علمی اور بے بضاعتی کو ثابت کیا اور علمی صلاحیتوں کا مظاہرہ ہوئے خود کو امامت کے عظیم عہدے کا لائق ثابت کیا۔ امام عالی مقام نے اس طرح عمومی اذہان میں عقیدہ امامت کو مزید مضبوط اور مستحکم کیا۔