
سلیمانی
جنگ نرم رہبر معظم انقلاب کی نگاہ میں
مفہوم جنگ نرم:
نرم جنگ یا سافٹ وار سے مراد ایسی کثیر الجہتی جنگ ھے جو مختلف پیچیدہ ثقافتی وساٰیل [جھوٹ‘ پروپیگنڈہ‘ میڈیاوار] کے ذریعے دینی انقلابی افراد اور سماج کے نظریات کو مشکوک بنا دے۔ ۱
سافٹ وار کی نوعیت:
آج یہ بات سب پر واضح ہوچکی ہے کہ عالمی استکبار کے نظام اسلامی جمہوری ایران سے مقابلے کی نوعیت انقلاب کی پہلی دہائی جیسی نہیں ہے۔ انقلاب کے آغاز میں استکبار نے آٹھ سالہ جنگ تحمیلی(مسلّط کردہ جنگ) کے ذریعے زورآزمائی کی۔ نظام انقلاب کو داخلی طور پر کمزور کرنے کے لیے بغاوت اور شورش کو ہوا دینے کی کوشش کی لیکن اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ آج دشمن ہارڈ وار یا عسکری جارحیت کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ آج نظام انقلاب کے بارے میں دشمن اپنی جنگی ترجیحات بدلنے پر مجبور ہوا ہے۔ آج عالمی استکبار کی اسٹرٹیجی نرم جنگ کی ہے جہاں جدید مواصلاتی اور ثقافتی وسائل (میڈیا وار،سائبروار )سے لیس پروپیگنڈے کے ذریعے دینی معاشرے میں حاکم انقلابی افکار کو تنقید کا نشانہ بنا کر نظام کی بیخ کنی کے در پے ہیں۔گویا جنگ نرم دشمن کے جدید جنگی تحرک کا حامل پلان ہے جیس کے بارے میں ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
استکبار کا مطلب:
استکبار سے مراد صرف امریکہ اور یورپی مماک نہیں ہے بلکہ ایک وسیع نیٹ ورک کا نام ہے جس میں یہ ممالک بھی آتے ہیں۔ عالمی صہیونی تاجروں اور مالی مراکز پر مشتمل نیٹ ورک جو عالمی وسائل پر قبضہ جما کر کثیر الجہتی پیچیدہ استبدادی ہتھکنڈوں کے ذریعے قوموں کا استحصال کرتا ہے اور عالمی سیاست کو اپنے کنٹرول میں رکھنیے کے لیے مذموم منصوبہ بندی کرتا ہے اور کٹھ پتلی حکومتیں تشکیل دیتا ہے۔
امریکہ اور یورپی ممالک پر مشتمل استکباری مجموعے کو بصیرت کے حامل آپ انقلابی جوان شکست دے سکتے ہیں جس کے لیے آپ کو علمی، معاشی اور سکیورٹی کے میدان میں ترقی حاصل کرنا ہوگی تا کہ ملک اور نظام کو ناقابل تسخیر سطح تک پہنچا سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان چند سالون میں یونیورسٹیز کو سائنسی تحقیقق، اختراع،سافٹ ویئر موومنٹ اور انڈسٹری کے موضوعات پر کام کرنے کی مسلسل تاکید کر رہا ہوں، خاص طور سے انڈسٹری اور جامعات (یونیورسٹیز) کا باہمی رابطہ مستحکم ہونا چاہیے۔ کیونکہ سائنسی پیشرفت، کسی بھی قوم اور ملک کی طویل المدت سکیورٹی کی ضامن ہوتی ہے۔ ۲
انقلاب کے خلاف ثقافتی یلغار کا سبب:
دشمن کی نگاہ میں انقلاب کے خلاف ثقافتی یلغار کی دلیل یہ ہے کہ مغربی ایشیا جیسے حساس اور سٹریٹیجک خطے میں عالمی استکبار کے تسلّط پسندانہ اور ظالمانہ نظام کے خلاف انقلاب ایک طاقتور حریف کے طور پر ابھرا ہے اور استکبار کے توسیع پسندانہ مفادات کو چیلینجز سے دوچار کر رہا ہے۔
مغربی ایشیا جغرافیائی اعتبار سے انتہائی حسّاس خطہ ہے جہاں خلیج فارس، بحیرہ احمر(red sea)، شمالی آفریقا، اور میڈیٹیرین سی کے علاوہ خلیجی ممالک کامجموعہ وجود رکھتا ہے۔ دنیا کی چھے بڑی آبیِ گزرگاہوں میں سے حیاتی اہمیت کی حامل تین گزرگاہیں مغربی ایشیا میں پائی جاتی ہیں۔ آبنائے ہرمز، نہر سوئز، اور بابالمندب. عالمی تجارت کا سارا دارومدار ان تینوں گزرگاہوں پر ہے. عالمی نقشے پر نگاہ کرنے سے معلوم ہوجائے گا کہ تمام بین الاقوامی تجارتی اور معاشی رابطوں کے لیے یہ گزرگاہیں کس قدر اہمیت کی حامل ہیں۔ اس حساس خطے میں ایک ایسی طاقت زور پکڑ رہی ہے جو عالمی استکبار کے مذموم مقاصد کے حامل معاشی نیٹ ورک کو چیلینج کر رہی ہے۔ خطے میں ایسی طاقت کا وجود عالمی استکبار اور اس کے مقامی چیلوں کو یقینا گوارا نہیں۔
دشمن کی جنگ نرم کے اہداف

انقلابی ارادوں کو کمزور کر دینا:
آج دشمن کا پلان یہ ہے کہ انقلابی ارادوں کے حامل افراد کے جنگی تخمینوں اور منصوبوں کو تبدیل کردیا جائے۔ مختلف معاشی پابندیوں اور پرپپیگنڈوں کے ذریعے دباو ڈال کر انقلاب اسلامی کے مسؤلین کو اس بات پر مجبور کر دیں کہ وہ اسکتبار کے مقابلے میں لچک دکھانے کو ہی صلاح سمجھیں۔ دشمن کی تمام تر کوشش یہی ہے کہ مقاومت کے راستے کو چھوڑ کر استکبار سے مسالمت کی راہ اپنا لیں۔ ایک عرصہ پہلے بعض افراد یہ کہنے لگے کہ آقا فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے کو چھوڑیں، عالمی ایشوز میں عدالت کی رعایت کے مطالبے سے دستبردار ہو جایئں۔ انصاف پسند اقوام عالم کا ساتھ نہ دیں۔(اس طرح کی باتیں کرنے والوں کا مقصد یہی ہے کہ ہم انقلاب اور نظام اسلامی کی ریڈ لائنز( بنیادی اصول اور اہداف) پر سمجھوتہ کریں۔ گویادشمن کے آگے تسلیم ہوجائیں۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ دشمن یہی چاہتا ہے کہ راہ مقاومت کو چھوڑیں۔ یہی تو استکبار کی جنگی چال ہے۔)۳
جنگ نرم کے ہتھیار
(1 اختلاف کے ذریعے عوام میں بدبینی پیدا کرنا:
جنگ نرم کے ہتھیاروں سے میں سے ایک نہایت خطرناک ہتھیار، کسی معاشرے کے افراد کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر نفرت اور بدبینی پیدا کرنا۔ مختلف بہانوں سے اختلافی ایشوز گھڑ لیتے ہیں جس کے نتیجے میں راٗی عامہ انتشار سے دوچار ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف منافرت پھیلا کر لاشعوری طور پر دشمن کے لیے استعمال ہوجاتے ہیں۔
(2 حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا (مایوسی پھیلانا):
جنگ نرم کا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ حالات و واقعات کو دگرگوں اور غیرمستحکم دکھا کر عوام کے اندر مایوسی اور ناامیدی پیداکرنا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے میڈیا وار لانچ کی جاتی ہے۔ پروپیگنڈے کے نت نئے ( انٹرنیٹ کے ذرائع سے لے کر صوتی اور تصویری) طریقے استعمال میں لا کر رای عامّہ کو نظام اسلامی کے خلاف ابھارنا چاہتے ہیں۔ ملکی معاشی مسائل کے بارے میں بے یقینی اور ناامیدی پھیلا کر عوام کو نظام سے مایوس کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ یہ میڈیاوار دشمن کی کمزوری کی دلیل ہے۔ کیونکہ دشمن حقائق کی دنیا میں مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ جب بھی دشمن اصلی میدان میں مقابلہ کرنے کی پوزیشن کھو بیٹھتا ہے تو وہ وسیع پروپیگنڈے کا سہارا لیتا ہے۔ یہ دشمن کی نفسیاتی(سافٹ وار) شکست کی واضح دلیل ہے۔ آج دشمن انقلاب کی عظیم حرکت اور عوام کی استقامت کے سامنے بے بس ہوچکا ہے۔۴
(3افواہ سازی :
آج دشمن کی سافٹ وار کا نہایت اہم ہتھیار افواہ سازی ہے۔ آج دشمن کی طاقت کاراز نیوکلئیر ٹیکنالوجی میں نہیں ہے بلکہ مضبوط معیشت اور میڈیا (پروپیگنڈا) وار میں پوشیدہ ہے۔ مؤثر ترین نشریاتی افواہ سازی کے ذریعے عالمی معاشرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ نشریاتی اداروں کے ذریعے اپنی اواز کو پوری دنیا میں پہنچاتے ہیں۔ جھوٹی خبروں کے انبار لگا کر معاشرتی فضا کو عدم استحکام سے دوچار کر دیتے ہیں۔ ہمیں دشمن کے اس ہتھیار کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔آج ہمارے جوانوں کی ذمّہ داریاں اس لحاظ سے بڑھ گئی ہیں۔ یہ نہایت سنگین ذمّہ داری ہے کہ افواہ سازی کے ماحول میں حقیقت کی درست تشخیص اور شناخت فراہم کی جائے۔ ملکی فضا اور ماحول کو بھی اپنے ساتھ با بصیرت بنایئں اور ان پر بھی حقائق کو واضح کرے تا کہ کسی قسم کا ابھام باقی نہ رہے۔۵
میدان جنگ نرم کے سپاہی:
آج نظام انقلاب اسلامی کو بہت بڑی جنگ کا سامنا ہے۔ الحمدللَّہ آپ جوانان جنگ نرم کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔ یہ میرے لیے خوشی کی بات ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کن لوگوں کو جنگ نرم کے میدان میں اترنا چاہیے؟
واضح سی بات ہے کہ فکری ماہرین(تھینک ٹینکس) ہی اس میدان کے اصل سپاہی ہیں۔ یعنی آپ جوان آفیسرز جنگ نرم کے محاذ کو سنبھالیں۔ اپنے فکری حلقوں میں اس حوالے سے منصوبہ بندی کریں، پالیسیز مرتب کریں۔ جنگ نرم کا ہدف معین ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلامی نظام اور جمہوری اسلامی کا دفاع کرنا ہے۔اور دشمن کی ہمہ جانبہ (طاقت، سازش اور جدید وسائل سے آراستہ ) شیطانی مہم کا مقابلہ کرنا ہے۔ دشمن کی طرف سے ہمیں چیلینجز کا سامنا ہے۔ لیکن خداوند متعال کی قدرت کا کرشمہ دیکھیں کہ وہ اپنے اہداف کی طرف ہماری ہدایت فرما رہا ہے۔ جب انسان ایک وسیع افق یا ویژن سے مسائل کا تجزیہ کرتا ہے تو قدرت الہی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ یہ خدا کی ذات ہی ہے جو میں اور آپ کو درست راستے پر گامزن کر رہی ہے.
دشمن کے خلاف جنگ نرم کا ہتھیار:
بصیرت:
دشمن کے اس مہلک ہتھیار کا توڑ صرف اور صرف بصیرت ہے۔ یعنی دشمن کی چالوں کو سمجھ کر بروقت درست اقدام کرنا۔ جو لوگ صاحب بصیرت ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دشمن کی چالوں کو درست تجزیہ و تحلیل کے ساتھ بیان کرے۔ یعنی تمام میدانوں میں پوری تیاری اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ دشمن کی کثیر الجہتی (نفسیاتی، اخلاقی، ثقافتی، سیاسی، مذہبی) سازشوں کا مقابلہ کرنا اہم دینیِ و قومی فریضہ ہے۔ جنگ نرم کا میدان، عمّار یاسر جیسی بصیرت اور مالكاشتر جیسی استقامت چاہتا ہے۔ پوری طاقت کے ساتھ اپنے آپ کو اس میدان کے لیے تیّار کریں۔۶
مجاہدانہ کلچر ترویج دینےکی ضرورت:
محاذ حق کی تقویت کے لیے یونیورسٹیز میں مجاہدت(کوشش و محنت) کے کلچر کو فروغ دینےکی ضرورت ہے۔ یعنی معنوی اور اخلاقی ثقافت کی ترویج کی جائے۔ معنوی فضا سازی کے لیے یونیورسٹیز کے اساتذہ اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ یہ وہی لیڈنگ رول ہے جو جنگ نرم میں انجام پانا چاہیے۔ اساتیذ جنگ نرم کے کمانڈرز ہیں۔۷
سافٹ وار میں جوانوں (یونیورسٹیز کے طلبا) کا کردار:
جنگ نرم میں آپ جوانوں کا کردار مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ اب یونیورسٹیز کے طلبا یہ سوال نہ کریں کہ آج کی مسجد ضرار (جدید منافقت)کو ڈھانے کے لیے ہم کس طرح کا کردار ادا کریں؟ جائیے غور و فکر کریں اور اپنا ممکنہ کردار ادا کریں۔ سافٹ وار کے میدان میں آپ کی فعالیت کا بنیادی ترین عنصر امیدواری ہے۔ یعنی مسقبل کے بارے میں خوش بین اور پرامید رہیں۔آئندہ پیش آنے والے حالات کو مثبت زاویے سے دیکھیں۔ مسقبل کے بارے میں بدبین اور مایوس کن زاویہ نگاہ مت رکھیں۔ پرامید ہونے کا مطلب خیالی امیدواری نہیں ہے بلکہ بصیرت پر مبنی حقیقی امیدواری ہے۔ مایوسی اور بدبینی، انسان کو بے عملی کی طرف لے جاتی ہے، جس کے نتیجے میں سستی اور گوشہ نشینی اس کا مقدر ٹھرتی ہے۔ یوں انسان تحرّک اور فعالیت سے محروم ہو کر اپنی بے عملی کے ذریعے دشمن کے اہداف کو پورا کرتا ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ انقلابی جوان مایوسی کا شکار ہوں تاکہ وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوجائے۔۸
آج ہمیں جنگ نرم کا سامنا ہے۔ اس جنگ کے اصلی سپاہی آپ جوان طلبا اور جوان آفیسرز ہیں۔
سربازان (رسمی فوجی جوان) اس محاذ کے اصلی سپاہی نہیں ہیں۔ کیونکہ سرباز فقط عسکری احکامات کا پابند ہوتا ہے۔ یعنی اپنی طرف سے کسی فیصلے یا ارادے کا اختیار نہیں رکھتا بلکہ کمانڈر(سینئر) کے حکم کا پابند ہوتا ہے۔ عسکری حکام بھی اس جنگ کے مرکزی سپاہی نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ بڑی سطح کی عسکری منصوبہ بندی اور پلاننگ کرتے ہیں۔ آپ جوان آفیسرز میدان میں ہیں اور میدان پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ حالات کا قریب سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس لیے پورے دل و جان کے ساتھ میدان کا عملی تجربہ کرتتے ہیں ۔ یعنی جوان آفیسرز پلاننگ اور عمل (پلاننگ کو عملی شکل دینے) کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔
سافٹ وار میں اساتذہ کا کردار:
جنگ نرم میں اساتذہ کا جو کردار بنتا ہے وہ کمانڈنگ رول(قائدانہ کردار) ہے۔اساتذہ کی ذمّہ داری یہ ہے کہ بڑی سطح کے مسائل کو دیکھیں اور دشمن کو درست انداز سے پہچنوائیں۔ دشمن کے پوشیدہ اہداف کو کشف کریں۔ دشمن کی تنصیبات کا گہرا مطالعہ کر کے وسیع اور دقیق پلاننگ ترتیب دیں اور اس پلاننگ کی بنیاد پر اپنے اہداف کی طرف حرکت کریں۔۹
طوفانی بارشوں اور سیلاب سے پاکستان کو 10 ارب ڈالر کا نقصان
پاکستان کی وفاقی حکومت نے ہفتوں کی طوفانی بارشوں اور سیلاب سے ملک کو کم از کم 10 ارب ڈالر کا نقصان پہنچنے کا تخمینہ لگایا ہے۔
خاص طور پر سندھ کو ایک ارب 60 کروڑ ڈالر (355 ارب روپے) سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے کیونکہ تمام بڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔
دریں اثنا وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر زراعت منظور وسان نے کہا کہ شدید بارشوں سے کپاس، چاول اور کھجور کی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں جس سے ایک کھرب 9 ارب 34 کروڑ 70 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ مرچ اور دیگر فصلیں بھی بارش سے تباہ ہو گئی ہیں۔
منظور وسان نے کہا کہ تقریباً 14 لاکھ ایکڑ پر کھڑی کپاس کی فصل، 6 لاکھ 2 ہزار 120 ایکڑ پر کھڑی چاول اور ایک لاکھ ایک ہزار 379 ایکڑ پر کھجور کے باغات تباہ ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 7 لاکھ 29 ہزار 582 ایکڑ پر گنے کی تقریباً 50 فیصد فصل کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والی موسلا دھار بارشوں اور سیلاب کے باعث مرنے والوں کی تعداد 1136 ہوگئی جب کہ متاثرین کی مجموعی تعداد 3 کروڑ 30 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔
این ڈی ایم اے کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق اب تک 10 لاکھ 51 ہزار گھر تباہ ہوئے جبکہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 75 افراد جاں بحق اور 57 زخمی ہوئے۔
ایران اور سعودی عرب کے تعلقات علاقے کے حق میں ہے: صدر رئیسی
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے عراق کے وزیر خارجہ فواد حسین سے ملاقات میں علاقے کے امور کے حوالے سے عراقی حکومت کی کوششوں کی قدردانی کی اور اغیار کی مداخلت کے بغیر علاقائی ممالک کے مابین باہمی تعاون کی فضا کی برقراری کو علاقائی ہم فکری کی تقویت کیلئے موثر قرار دیا۔
ایران کے صدر نے تہران اور ریاض کے مابین عراق کے توسط سے مذاکرات کے گزشتہ پانچ مرحلوں کو مفید قرار دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ہونے والے معاہدوں پر عمل در آمد سے آگے کی سمت جانے کا راستہ ہموار ہو گا۔
سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ قانون کے دائرے میں عراق کے اندرونی مسائل کا حل اور تمام سیاسی دھڑوں کے مابین گفتگو، ایک نئی حکومت کی تشکیل کیلئے ضروری ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں مرجعیت کے کردار کو نہایت اہم قرار دیا۔
اس ملاقات میں عراق کے وزیر خارجہ فواد حسین نے عراق کی صورتحال، امن امان کی بحالی اور ایک نئی حکومت کی تشکیل کی راہ میں ایران کے اہم کردار کی کوششوں کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ عراق کی حکومت تہران اور بغداد کے تعلقات کی مزید تقویت کیلئے اپنی کوشش جاری رکھے گی۔
پردہ
پردہ کا واجب ہونا اسلام کا ایک قطعی حکم ہے اور سارے فقہاء اس مسئلہ میں متفق ہیں ۔ عورتوں کا یہ فریضہ ہے کہ اپنے بدن کو نامحرم مردوں سے چھپائیں اور وہ اس کے لئے برقعہ ، چادر، لمبی قمیض ، عبا، کوٹ یا مقنعہ ، غرض کہ ہر وہ چیز استعمال کر سکتی ہیں جو بدن کو اچھی طرح چھپالے، پردہ کرنے کے لئے کسی مخصوص لباس کے استعمال کرنے کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔پردہ کے واجب ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔مسعدہ بن زیادہ کا بیان ہے میں نے امام جعفر صادق ؑ سے اس سوال کے جواب میں جو عورتوں کی ظاہری زینت کے بارے میں ہوا تھا آپؑ کی زبان مبارک سے یہ سنا ہے:’’ ظاہری زینت سے مراد چہرہ اور دونوں ہاتھ ہیں۔)علی بن جعفر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بھائی امام موسیٰ کاظم ؑ سے سوال کیا: مرد ، نامحرم عورت کے کن اعضاء کو دیکھ سکتا ہے؟ تو آپؑ نے فرمایا:چہرہ اور گٹے تک ہاتھ ۔‘‘امام رضا ؑ نے فرمایا:’’ جب تمہارے لڑکے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کے لئے کہو لیکن عورت اس وقت اس سے اپنے بالوں کو چھپائے جب وہ بالغ ہو جائیں ۔‘‘عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے امام موسیٰ کاظم ؑ سے اس لڑکی کے بارے میں سوال کیا جو ابھی بالغ نہ ہوئی ہو کہ وہ کس عمر میں نامحرم سے اپنا سر چھپائے اور کس عمر میں نماز کے لئے اپنے سر کو مقنعہ سے ڈھانپے؟ تو آپؑ نے فرمایا: بالوں اور سر کو چھپانے کے واجب ہونے کو بلوغ کے آثار میں سے بتایا ہے لیکن چہرہ چھپانے کے واجب ہونے کے بارے میں کچھ بیان نہیں کیا گیا درحالیکہ اگر یہ کام واجب ہوتا تو اس کو پہلے یہاں بیان کیا جاتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں پر چہرہ چھپانا واجب نہیں ہے۔
زائرین اربعین کی خدمت کیلئے ایران کمربستہ
اسلامی جمہوریہ ایران کے ادارۂ اوقاف اور امور خیریہ کے ڈائریکٹر حجت الاسلام محمد نوروزپور نے کہا ہے کہ اس سال اربعین حسینی کے موقع پر زائرین کی خدمت اور ان کے قیام و طعام کیلئے ایران اور عراق میں 370 کیمپ لگائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نجف اشرف، کربلائے معلیٰ، سامرا، کاظمین اور دوسرے مقامات مقدسہ کیلئے جانے والے زائرین کو ہر قسم کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ زائرین کو اربعین حسینی سے ایک ہفتے قبل ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنے کا سلسلہ شروع ہو جائیگا۔
20 صفر نواسۂ رسول، سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے با وفا اصحاب و انصار کا چہلم ہے۔ اس موقع پر دنیا بھر سے زائرین بڑی تعداد میں عراق کا سفر کرتے ہیں اور نجف و کربلا کے مابین انجام پانے والے میلین مارچ میں شریک ہوتے ہیں۔ اس سال بھی اربعین میلین مارچ میں دسیوں لاکھ عراقی اور غیر ملکی زائرین کی شرکت متوقع ہے۔
ایران کورونا پر قابو پانے میں دنیا کے 7 ٹاپ ممالک کی فہرست میں شامل ہے: ایرانی وزیر صحت
ایرانی وزیر صحت نے کہا ہے کہ ایران کورونا کے کنٹرول میں دنیا کے 7 ٹاپ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔
یہ بات بہرام عین اللہی نے گزشتہ رات ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایرانی موجودہ حکومت کی پہلی ترجیح کورونا کا کنٹرول تھی۔ ان دنوں لوگ گھروں میں محصور تھے، اسکول، یونیورسٹیاں، بازار اور کاروبار بند تھے،اور ایرانی صدر مملکت نے ذاتی طور پر کورونا ویکسین کی تیاری اور ویکسینیشن کا پہلا قدم اٹھایا جس کے بعد وزارت خارجہ، ہلال احمر اور عوام نے بھی اس کی پشت پناہی کی۔
عین اللہی نے کہا کہ ایران کورونا کے کنٹرول میں دنیا کے 7 ٹاپ ممالک میں شامل ہے اور جنیوا کےاجلاس میں میں کہا کہ ایران ویکسینیشن کے عمل میں کامیاب رہا اور ایران نے معاشی کےشعبے میں اچھی ترقی کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب کورونا کو ملک مین اچھی طرح سے کنٹرول کیا گیا ہے اور ہم متاثرین اور جاں بحق ہونے والوں کی لہر بھی بہت کم ہو رہی ہے۔
تمام مشکل لمحوں میں پاکستان کی حمایت پر ایران کا مشکور ہیں: شہباز شریف
تہران، ارنا – پاکستانی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ہم ہمیشہ تمام مشکل لمحوں میں پاکستانی کی حمایت پر ایران کا مشکور ہیں۔
یہ بات محمد شہباز شریف نے حالیہ تباہ کن سیلاب کے بارے میں ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے کے چند گھنٹے بعد اپنے ٹویٹر اکاونٹ میں کہی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ میں پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ حمایت اور یکجہتی کے پیغام پر اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ ہم اس مشکل وقت میں ایران کی جانب سے ہمدردی اور حمایت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
2000ء میں مزاحمت کی فتح نے "بڑا اسرائیل" کے منصوبے کو ناکام کردیا: نصر اللہ
المیادین ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق، سید حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کے قیام کے 40 ویں سالگرہ کی تقریبات؛ "اربعون ربیعا" کے فیسٹیول کے اختتام پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 1982 کی مزاحمتی فرنٹ کی سرگرمیوں اور اس کے بعد کی سرگرمیوں کے درمیان گہرا رشتہ ہے؛ ہم تحریکیں، دھاروں، علمائے کرام، دانشور، جہادی اور میدانی رہنماؤں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مزاحمتی فرنٹ اور شامی افواج نے 1982 میں قابض صہیونی افواج کیخلاف مقابلہ کیا۔
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے مزید کہا کہ 2000ء میں مزاحمت کی فتح نے بڑا سرائیل کے منصوبے کو ناکام کردیا اور ہار نہ ہونے والی افواج کو خاک میں ملا دیا۔
نصراللہ نے کہا کہ حزب اللہ کے اہلکار، بانی اسلامی انقلاب حضرت امام خمینی (رہ) کے عقائد کی پیروی کرتے ہیں اور آپ کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور آپ کو موجودہ دور میں حزب اللہ کا سب سے بڑا الہام سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2006 کی جنگ میں حزب اللہ کی بڑی کامیابی، لبنانی گیس اور آئل کے حقوق کی فراہمی تھی اور لبنان کے دیگر مقبوضہ علاقوں کی رہائی، ہماری قومی ذمہ داری ہے۔
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے مزید کہا کہ فوج، عوام اور مزاحمت کی مساوات ایک طے شدہ مساوات بن چکی ہے چاہے یہ وزیر کے بیان میں کہا گیا ہے یا نہیں۔ ویسے بھی 2006 کی فتح اس کے طویل سفر میں مزاحمت کی اہم ترین کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ اس جنگ نے صہیونی دشمن کے ساتھ تصادم کے اصول بدل دیے۔
سید حسن نصر اللہ نے مزید کہا کہ مستقبل میں ہماری ذمہ داریوں میں سے ایک لبنانی سرزمین، قوم اور دولت کے تحفظ کیلئے دفاعی معاملات بنانے کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سمندری سرحدوں کا تعین کرنے پر صہیونی ریاست کی دہمکی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہمارا فیصلہ اور موقف واضح ہے اور ہم آئندہ دنوں کا انتظار کر رہے ہیں تا کہ ان کے مطابق اپنے کام بڑھائیں گے۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ مسئلہ فلسطین اس قوم کے دین، ثقافت، ساکھ اور عزت کا حصہ ہے اور اس سے دست بردار ہونے، غیر جانبداری اور پسپائی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شام مزاحمتی فرنٹ کا محور، پائیداری کا محاذ اور ناجائز صہیونی ریاست کے شروط کے سامنے سر نہ جھکانے کی بنیاد ہے۔
نصر اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ حزب اللہ کی تنظیم بدستور علاقے کے مظلوم عوام بالخصوص یمن، عراق اور افغانستان کے ساتھ رہی ہے اور ان کی حمایت کا سلسلہ جاری رہے گی۔
انہوں نے لبنان کے اندورنی معاملات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اندرونی جنگ کے خواہاں نہیں اگر چہ بعض لبنان میں خانہ جنگی کے درپے ہیں۔
نصر اللہ نے کہا کہ ہم نے گزشتہ 40 سالوں سے اب تک ہماری ار فوج کے درمیان کسی بھی کوشش سے دوری کی ہے۔
نصر اللہ نے کہا کہ اگلے مرحلے میں حزب اللہ تحریک کا بنیادی منصوبہ ایک منصفانہ اور طاقتور حکومت کے قیام کے لیے سیاسی گروہوں کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایسی حکومت بنانے کے خواہاں ہیں جو امریکی سفارت خانے سے وابستہ نہ ہو۔ ہم ایک ایسے آزاد ملک کی تلاش میں ہیں جو پیروی اور انحصار سے دور ہو۔ اگلے مرحلے میں، سب کو لبنان کو بچانے کا حل فراہم کرنا ہوگا، اور گیس اور تیل نکالنا ہی لبنان کو بچانے کا واحد راستہ ہے۔
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہم علاقائی اور بین الاقوامی تبدیلیوں پر مثبت نقطہ نظر رکھتے ہیں اور ہم اپنے شامی اور ایرانی بھائیوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے 30، 40 سالوں کے دوران، ہماری حمایت کی ہے اور ہم بالخصوص پاسداران اسلامی انقلاب کے بھائیوں کے شکرگزار ہیں جو پہلے دن ہی سے کمیپوں میں ہمارے ساتھ رہیں۔
نصر اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ ہم اسلامی جمہوریہ ایران اور قائد اسلامی انقلاب کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے پہلے دن ہی اور حتی کہ بانی انقلاب حضرت امام خیمنی (رہ) کے جیتے جی میں ہماری حمایت کی۔
انہوں نے کہا کہ حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ہمیشہ حزب اللہ پر خصوصی توجہ دی ہے اور ہمیں ان 40 سالوں میں ایک مہربان، عقلمند اور بہادر باپ ہونے پر ان کا شکریہ ادا کرنا ہوگا۔
امام سجاد (ع) نے دعاؤں اور ثقافتی کاموں سے غفلت زدہ معاشرے کی ہدایت کی؛
حوزہ/ انہوں نے کہا: واقعہ عاشورہ کے بعد اسلامی معاشرے میں شدید گھٹن طاری ہو گئی اور اس ماحول میں امام زین العابدین علیہ السلام نے معاشرے کی رہنمائی کی، امام علیہ السلام نے لوگوں کی فکری اور سیاسی طور پر اور دعاؤں اور ثقافتی اور تعلیمی کاموں کے ذریعے رہنمائی فرمائی اور بصیرت میں اضافہ فرمایا۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حوزہ علمیہ خواہران کی برجستہ محقق، نرجس شکرزادہ نے حوزہ نیوز ایجنسی کے ساتھ انٹرویو میں امام زین العابدین علیہ السلام کے مظلومانہ یوم شہادت پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا: واقعہ عاشورہ کے بعد اسلامی معاشرے میں شدید گھٹن طاری ہو گئی اور اس ماحول میں امام زین العابدین علیہ السلام نے معاشرے کی رہنمائی کی، امام علیہ السلام نے لوگوں کی فکری اور سیاسی طور پر اور دعاؤں اور ثقافتی اور تعلیمی کاموں کے ذریعے رہنمائی فرمائی اور بصیرت میں اضافہ فرمایا۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ علماء اور ماہرین تاریخ کے مطابق امام سجاد علیہ السلام کا دور سیاسی اور ثقافتی زندگی کی خصوصیات اور اجزاء کے لحاظ سے سب سے تاریک اور انتہائی گھٹن کا دور تھا۔ سید الشہداء امام حسین(ع) اور ان کے با وفا اصحاب کی شہادت کے بعد امام سجاد (ع) نے کوفہ اور شام میں اپنے خطبات سے معاشرے اور غافل لوگوں کی رہنمائی فرمائی۔
انہوں نے مزید کہا: حضرت سجاد علیہ السلام کے سب سے زیادہ حساس اور موثر خطبات جنہوں نے بنی امیہ کے بارے میں لوگوں کےفہم و ادراک میں زبردست تبدیلی پیدا کی اور یزید کے تخت و تاج کو ہلا کر رکھ دیا وہ خطبہ ہے جو امامؑ نے شام میں عوامی اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان دیا تھا، یہ وہ خطبہ ہے جس نے عاشورہ کے مشن اور پیغام کو پہنچانے اور میدان کربلا کے شہداء کے سلسلے کو جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
نرجس شکرزادہ نےکہا: اس خطبہ میں امام سجاد (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کے اہل بیت (ع) کا تعارف ان لوگوں کے درمیان کرایا جنہوں نے صرف بنی امیہ سے اسلام کو دیکھا اور سنا تھا ۔ پیغمبر اور ان کے اصحاب اور اس کے بعد امامؑ نے اپنے مقام و کردار اور اہل بیت (ع) کے مقام و منزلت بیان کرنا شروع کیا۔ امام علیہ السلام کا یہ اقدام جہاد تبیین کی ایک واضح اور روشن مثال ہے، امام ؑ نےبنی امیہ کے رخ سے پردہ اٹھا دیا اور بے نقاب کر دیا۔