مختصر سيره سبط اكبر امام حسن مجتبي عليہ السلام

Rate this item
(3 votes)

سرکار دو عالم (ص) :

من أحب الحسن والحسين عليهما السلام فقد أحبني

(جس نے حسنین علیہما السلام سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی)

 

آپ کی ولادت

آپ ۱۵/ رمضان ۳ ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں پیداہوئے ۔ ولادت سے قبل ام الفضل نے خواب میں دیکھا کہ رسول اکرم(ص) کے جسم مبارک کا ایک ٹکڑا میرے گھر میں آ پہنچا ہے ۔ خواب رسول کریم سے بیان کیا آپ نے فرمایا اس کی تعبیر یہ ہے کہ میری لخت جگر فاطمہ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیداہوگا جس کی پرورش تم کرو گی۔ مورخین کا کہنا ہے کہ رسول کے گھر میں آپ کی پیدائش اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی۔ آپ کی ولادت نے رسول کے دامن سے مقطوع النسل ہونے کا دھبہ صاف کردیا اور دنیا کے سامنے سورئہ کوثرکی ایک عملی اور بنیادی تفسیر پیش کردی۔

 

آپ کانام نامی

ولادت کے بعداسم گرامی حمزہ تجویز ہو رہاتھا لیکن سرورکائنات نے بحکم خدا، موسی کے وزیرہارون کے فرزندوں کے شبر و شبیر نام پرآپ کانام حسن اور بعد میں آپ کے بھائی کانام حسین رکھا-

 

آپ کا عقیقہ

آپ کی ولادت کے ساتویں دن سرکارکائنات نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی ( اسدالغابة جلد ۳ ص ۱۳) ۔

علامہ کمال الدین کابیان ہے کہ عقیقہ کے سلسلے میں دنبہ ذبح کیا گیاتھا (مطالب السؤل ص ۲۲۰) کافی کلینی میں ہے کہ سرورکائنات نے عقیقہ کے وقت جو دعا پڑھی تھی اس میں یہ عبارت بھی تھی ” اللہم عظمہا بعظمہ، لحمہا بلحمہ دمہابدمہ وشعرہابشعرہ اللہم اجعلہا وقاء لمحمد والہ“ خدایا اس کی ہڈی مولود کی ہڈی کے عوض، اس کا گوشت اس کے گوشت کے عوض، اس کاخون اس کے خون کے عوض، اس کابال اس کے بال کے عوض قرار دے اور اسے محمد و آل محمد کے لیے ہر بلا سے نجات کا ذریعہ بنا دے ۔

امام شافعی کا کہنا ہے کہ آنحضرت نے امام حسن کاعقیقہ کرکے اس کے سنت ہونے کی دائمی بنیاد ڈل دی (مطالب السؤل ص ۲۲۰) ۔

 

کنیت و القاب

آپ کی کنیت صرف ابو محمد تھی اور آپ کے القاب بہت کثیر ہیں : جن میں طیب ،تقی ، سبط اور سید زیادہ مشہور ہیں-

 

امام حسن پیغمبر اسلام کی نظر میں

سرورکائنات نے بے شمار احادیث آپ کے متعلق ارشادفرمائی ہیں:

ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ میں حسنین کو دوست رکھتا ہوں اور جو انہیں دوست رکھے اسے بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔

ایک صحابی کابیان ہے کہ میں نے رسول کریم کو اس حال میں دیکھاہے کہ وہ ایک کندھے پرامام حسن کو اور ایک کندھے پر امام حسین کو بٹھائے ہوئے لیے جارہے ہیں اور باری باری دونوں کا منہ چومتے جاتے ہیں ایک صحابی کابیان ہے کہ ایک دن آنحضرت نماز پڑھ رہے تھے اور حسنین آپ کی پشت پرسوار ہو گئے کسی نے روکناچاہا تو حضرت نے اشارہ سے منع کردیا(اصابہ جلد ۲ ص ۱۲) ۔

ایک صحابی کابیان ہے کہ میں اس دن سے امام حسن کو بہت زیادہ دوست رکھنے لگا ہوں جس دن میں نے رسول کی آغوش میں بیٹھ کر انہیں داڈھی سے کھیلتے دیکھا (نورالابصارص ۱۱۹) ۔

امام نسائی عبداللہ ابن شداد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نمازعشاء پڑھانے کے لیے آنحضرت تشریف لائے آپ کی آغوش میں امام حسن تھے آنحضرت نماز میں مشغول ہوگئے ، جب سجدہ میں گئے تو اتنا طول دیا کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہونے لگی ہے اختتام نماز پر آپ سے اس کا ذکر کیا گیا تو فرمایا کہ میرا فرزند میری پشت پر آ گیا تھا میں نے یہ نہ چاہا کہ اسے اس وقت تک پشت سے اتاروں ،جب تک کہ وہ خود نہ اترجائے ، اس لیے سجدہ کو طول دیناپڑا ۔

 

امام حسن کی سرداری جنت

آل محمدکی سرداری مسلمات سے ہے علماء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ سرورکائنات نے ارشاد فرمایا ہے ”الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة و ابوہما خیر منہما“ حسن اورحسین جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے والد ان دونوں سے بہترہیں۔

جناب حذیفہ یمانی کابیان ہے کہ میں نے آنحضرت کو ایک دن بہت زیادہ مسرور پاکرعرض کی مولا آج افراط شادمانی کی کیا وجہ ہے ارشادفرمایا کہ مجھے آج جبرئیل نے یہ بشارت دی ہے کہ میرے دونوں فرزندحسن و حسین جوانان بہشت کے سردارہیں اور ان کے والد علی ابن ابی طالب ان سے بھی بہتر ہیں (کنزالعمال ج ۷ ص ۱۰۷ ،صواعق محرقہ ص ۱۱۷)

 

امام حسن کابچپن اور مسائل علمیہ

1 ۔ ایک روز امیرالمومنین مقام رحبہ میں تشریف فرماتے تھے اور حسنین بھی وہاں موجود تھے ناگاہ ایک شخص آ کر کہنے لگا کہ میں آپ کی رعایا اور اہل بلد(شہری) ہوں حضرت نے فرمایا کہ تو جھوٹ کہتا ہے تونہ میری رعایا میں سے ہے اورنہ میرے شہرکاشہری ہے بلکہ تو بادشاہ روم کافرستادہ ہے تجھے اس نے معاویہ کے پاس چند مسائل دریافت کرنے کے لیے بھیجاتھا اوراس نے میرے پاس بھیج دیاہے اس نے کہایا حضرت آپ کاارشاد بالکل درست ہے مجھے معاویہ نے پوشیدہ طورپرآپ کے پاس بھیجاہے اوراس کاحال خداوند عالم کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہے مگرآپ بہ علم امامت سمجھ گئے، آپ نے فرمایاکہ اچھا اب ان مسائل کے جوابات ان دوبچوں میں سے کسی ایک سے پوچھ لے وہ امام حسن کی طرف متوجہ ہواچاہتاتھا کہ سوال کرے امام حسن نے فرمایا:

یے شخص تویہ دریافت کرنے آیاہے کہ ۱ ۔ حق و باطل کتنا فاصلہ ہے ۲ ۔ زمین و آسمان تک کتنی مسافت ہے

۳ ۔ مشرق و مغرب میں کتنی دوری ہے ۔ ۴ ۔ قوس قزح کیاچزہے ۵ ۔ مخنث کسے کہتے ہیں ۶ ۔ وہ دس چیزیں کیاہیں جن میں سے ہرایک کوخداوندعالم نے دوسرے سے سخت اورفائق پیدا کیاہے۔

سن، حق و باطل میں چار انگشت کا فرق و فاصلہ ہے اکثر و بیشتر جوکچھ آنکھ سے دیکھاحق ہے اورجوکان سے سنا باطل ہے(آنکھ سے دیکھاہوایقینی ۔ کان سے سناہوامحتاج تحقیق )۔

زمین اور آسمان کے درمیان اتنی مسافت ہے کہ مظلوم کی آہ اورآنکھ کی روشنی پہنچ جاتی ہے ۔

مشرق و مغرب میں اتنافاصلہ ہے کہ سورج ایک دن میں طے کرلیتاہے ۔

اور قوس و قزح اصل میں قوس خداہے اس لئے کہ قزح شیطان کانام ہے ۔ یہ فراوانی رزق اوراہل زمین کے لیے غرق سے امان کی علامت ہے اس لئے اگریہ خشکی میں نمودارہوتی ہے توبارش کے حالات میں سے سمجھی جاتی ہے اوربارش میں نکلتی ہے تو ختم باران کی علامت میں سے شمارکی جاتی ہے ۔

مخنث وہ ہے جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہوکہ مردہے یا عورت اور اس کے جسم میں دونوں کے اعضاء ہوں اس کا حکم یہ ہے کہ تا حد بلوغ انتظارکریں اگرمحتلم ہو تو مرد اورحائض ہو اور پستان ابھرائیں تو عورت ۔

اگراس سے مسئلہ حل نہ ہوتو دیکھناچاہئے کہ اس کے پیشاب کی دھاریں سیدھی جاتی ہیں یا نہیں اگرسیدھی جاتی ہیں تو مرد، ورنہ عورت ۔

اوروہ دس چیزیں جن میں سے ایک دوسرے پرغالب و قوی ہے وہ یہ ہیں کہ خدانے سب سے زائدسخت قوی پتھرکوپیداکیاہے مگراس سے زیادہ سخت لوہا ہے جوپتھرکوبھی کاٹ دیتاہے اوراس سے زائدسخت قوی آگ ہے جولوہے کوپگھلادیتی ہے اورآگ سے زیادہ سخت قوی پانی ہے جوآگ کوبجھادیتاہے اوراس سے زائد سخت وقوی ابرہے جوپانی کواپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتاہے اوراس سے زائد وقوی ہواہے جوابرکواڑائے پھرتی ہے اورہواسے زائد سخت وقوی فرشتہ ہے جس کی ہوامحکوم ہے اوراس سے زائدسخت وقوی ملک الموت ہے جوفرشتہ بادکی بھی روح قبض کرلیں گے اورموت سے زائد سخت وقوی حکم خداہے جوموت کوبھی ٹال دیتاہے۔یہ جوابات سن کرسائل پھڑک اٹھا۔

2۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے دیکھاکہ ایک شخص کے ہاتھ میں خون آلودچھری ہے اوراسی جگہ ایک شخص ذبح کیاہوا پڑاہے جب اس سے پوچھاگیاکہ تونے اسے قتل کیاہے،تواس نے کہا ہاں ،لوگ اسے جسدمقتول سمیت جناب امیرالمومنین کی خدمت میں لے چلے اتنے میں ایک اور شخص دوڑتاہواآیا،اورکہنے لگا کہ اسے چھوڑدو اس مقتول کاقاتل میں ہوں ۔ ان لوگوں نے اسے بھی ساتھ لے لیااورحضرت کے پاس لے گئے ساراقصہ بیان کیا آپ نے پہلے شخص سے پوچھاکہ جب تواس کاقاتل نہیں تھاتوکیاوجہ ہے کہ اپنے کواس کاقاتل بیان کیا،اس نے کہایامولا میں قصاب ہوں گوسفندذبح کررہاتھا کہ مجھے پیشاب کی حاجت ہوئی ،اس طرح خون آلود چھری میں لیے ہوئے اس خرابہ میں چلاگیا وہاں دیکھاکہ یہ مقتول تازہ ذبح کیاہواپڑاہے اتنے میں لوگ آگئے اورمجھے پکڑلیا میں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ اس وقت جبکہ قتل کے سارے قرائن موجودہیں میرے انکارکوکون باور کرے گا میں نے اقرارکرلیا ۔

پھرآپ نے دوسرے سے پوچھاکہ تواس کاقاتل ہے اس نے کہا جی ہاں، میں ہی اسے قتل کرکے چلاگیاتھا جب دیکھاکہ ایک قصاب کی ناحق جان چلی جائے گی توحاضرہوگیا آپ نے فرمایامیرے فرزندحسن کوبلاؤ وہی اس مقدمہ کافیصلہ سنائیں گے امام حسن آئے اور سارا قصہ سنا، فرمایا دونوں کوچھوڑدو یہ قصاب بے قصورہے اور یہ شخص اگرچہ قاتل ہے مگراس نے ایک نفس کو قتل کیاتودوسرے نفس (قصاب) کو بچاکر اسے حیات دی اور اسکی جان بچالی اور حکم قرآن ہے کہ ”من احیاہافکانما احیاالناس جمیعا“ یعنی جس نے ایک نفس کی جان بچائی اس نے گویا تمام لوگوں کی جان بچائی لہذا اس مقتول کاخون بہا بیت المال سے دیاجائے۔

 

امام حسن اور تفسیر قرآن

علامہ ابن طلحہ شافعی بحوالہ تفیر و سیط واحدی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن عباس اور ابن عمرسے ایک آیت سے متعلق ”شاہد و مشہود“ کے معنی دریافت کئے ابن عباس نے شاہد سے یوم جمعہ اور مشہود سے یوم عرفہ بتایا اور ابن عمرنے یوم جمعہ اور یوم النحر کہا اس کے بعدوہ شخص امام حسن کے پاس پہنچا، آپ نے شاہدسے رسول خدا اور مشہود سے یوم قیامت فرمایا اور دلیل میں آیت پڑھی :

۱ ۔ یاایہاالنبی اناارسلناک شاہدا ومبشرا ونذیرا ۔ائے نبی ہم نے تم کو شاہد و مبشر اور نذیر بناکر بھیجاہے ۔

۲ ۔ ذالک یوم مجموع لہ الناس وذالک یوم مشہود۔ قیامت کا وہ دن ہوگا جس میں تمام لوگ ایک مقام پرجمع ہوں کردیے جائیں کے، اور یہی یوم مشہود ہے ۔ سائل نے سب کاجواب سننے کے بعد کہا ”فکان قول الحسن احسن“ امام حسن کا جواب دونوں سے کہیں بہترہے (مطالب السؤل ص ۲۲۵) ۔

 

امام حسن کی عبادت

امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام زبردست عابد، بے مثل زاہد، افضل ترین عالم تھے آپ نے جب بھی حج فرمایا پیدل فرمایا، کبھی کبھی پابرہنہ حج کے لیے جاتے تھے آپ اکثرموت، عذاب، قبر، صراط اور بعثت و نشور کو یاد کرکے رویاکرتے تھے جب آپ وضو کرتے تھے تو آپ کے چہرہ کا رنگ زرد ہوجا یاکرتاتھا اورجب نمازکے لیے کھڑ ے ہوتے تھے توبیدکی مثل کانپنے لگتے تھے آپ کامعمول تھاکہ جب دروازہ مسجد پر پہنچتے تو خدا کو مخاطب کرکے کہتے میرے پالنے والے تیراگنہگاربندہ تیری بارگاہ میں آیاہے اسے رحمن و رحیم اپنے اچھائیوں کے صدقہ میں مجھ جیسے برائی کرنے والے بندہ کومعاف کردے آپ جب نماز صبح سے فارغ ہوتے تھے تواس وقت تک خاموش بیٹھے رہتے تھے جب تک سورج طالع نہ ہوجائے (روضة الواعظین بحارالانوار)۔

 

آپ کا زہد

امام شافعی لکھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے اکثر اپنا سارا مال راہ خدا میں تقسیم کردیاہے اور بعض مرتبہ نصف مال تقسیم فرمایاہے وہ عظیم و پرہیزگارتھے۔

 

آپ کی سخاوت

مورخین لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت امام حسن علیہ السلام سے کچھ مانگا دست سوال دراز ہوناتھا کہ آپ نے پچاس ہزار درہم اور پانچ سو اشرفیاں دے دیں اور فرمایا کہ مزدور لاکر اسے اٹھوالے جا اس کے بعد آپ نے مزدور کی مزدوری میں اپنا چغابخش دیا (مراة الجنان ص ۱۲۳) ۔

ایک مرتبہ آپ نے ایک سائل کو خدا سے دعا کرتے دیکھا خدایا مجھ دس ہزار درہم عطا فرما آپ نے گھرپہنچ کر مطلوبہ رقم بھجوادی (نورالابصار ص ۱۲۲) ۔

آپ سے کسی نے پوچھاکہ آپ توفاقہ کرتے ہیں لیکن سائل کو محروم واپس نہیں فرماتے ارشاد فرمایاکہ میں خدا سے مانگنے والاہوں اس نے مجھے دینے کی عادت ڈال رکھی ہے اور میں نے لوگوں کو دینے کی عادت ڈالی رکھی ہے میں ڈرتاہوں کہ اگر اپنی عادت بدل دوں ، تو کہیں خدا بھی نہ اپنی عادت بدل دے اور مجھے بھی محروم کردے (ص ۱۲۳) ۔

 

توکل کے متعلق آپ کا ارشاد

امام شافعی کا بیان ہے کہ کسی نے امام حسن سے عرض کی کہ ابوذرغفاری فرمایاکرتے تھے کہ مجھے توانگری سے زیادہ ناداری اورصحت سے زیادہ بیماری پسندہے آپ نے فرمایا کہ خدا ابوذر پر رحم کرے ان کا کہنا درست ہے لیکن میں تو یہ کہتاہوں کہ جو شخص خدا کے قضا و قدر پر توکل کرے وہ ہمیشہ اسی چیزکوپسند کرے گا جسے خدا اس کے لیے پسندکرے (مراة الجنان جلد ۱ ص ۱۲۵) ۔

 

امام حسن حلم اور اخلاق کے میدان میں

علامہ ابن شہرآشوب تحریرفرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت امام حسن علیہ السلام گھوڑے پرسوارکہیں تشریف لیے جارہے تھے راستہ میں معاویہ کے طرف داروں کاایک شامی سامنے آپڑا اس نے حضرت کو گالیاں دینی شروع کردیں آپ نے اس کا مطلقا کوئی جواب نہ دیا جب وہ اپنی جیسی کرچکا توآپ اس کے قریب گئے اوراس کو سلام کرکے فرمایا کہ بھائی شاید تو مسافر ہے، سن اگرتجھے سواری کی ضرورت ہو تو میں تجھے سواری دیدوں، اگرتو بھوکاہے توکھاناکھلادوں، اگرتجھے کپڑے درکارہوں تو کپڑے دیدوں، اگرتجھے رہنے کو جگہ چاہئے تو مکان کاانتظام کردوں، اگر دولت کی ضرورت ہے تو تجھے اتنا دیدوں کہ تو خوش حال ہوجائے یہ سن کرشامی بے انتہا شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ زمین خدا پر اس کے خلیفہ ہیں مولا میں تو آپ کو اور آپ کے باپ دادا کو سخت نفرت اور حقارت کی نظرسے دیکھتاتھا لیکن آج آپ کے اخلاق نے مجھے آپ کاگردیدہ بنادیا اب میں آپ کے قدموں سے دور نہ جاؤں گا اورتا حیات آپ کی خدمت میں رہوں گا (مناقب جلد ۴ ص ۵۳ ،وکامل مبروج جلد ۲ ص ۸۶) ۔

 

بعض اقوال حضرت امام حسن علیہ السلام

 

حدیث-۱

قال الامام الحسن علیہ السلام:” عجبت لمن یتفکر فی ماکولہ کیف لا یتفکر فی معقولہ فیجنب بطنہ ، ما یوء ذیہ و یودع صدرہ ما یردیہ“

ترجمہ:

حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ھیں :” مجھے تعجب ھے اس شخص پر کہ جو جسمانی غذا کے متعلق توغور و فکر کرتا ھے لیکن روحانی غذا کے لئے نھیں ۔ نقصان دہ غذاؤں کو اپنے شکم سے دور رکھتا ھے لیکن ھلاک کرنے والے مطالب کو اپنے قلب میں جگہ دیتا ھے “۔

حدیث -۲

قال الامام الحسن علیہ السلام :”القریب من قربتہ المودة و ان بعد نسبہ و البعید من باعدتہ المودة و ان قرب نسبہ “

ترجمہ:

حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ھیں :” رشتہ داروں میں قریب ترین افراد وہ ھیں جن کے اندر محبت زیادہ ھے اگر چہ نسب کے لحاظ سے دور ھوں ۔ اور رشتہ داروں میں دورترین افراد وہ ھیں جن کے اندر محبت کم ھے اگر چہ وہ نسب کے لحاظ سے قریب ھوں “۔

حدیث -۳

قال الامام الحسن علیہ السلام” ما تشاور قوم الا ھدوا الی رشدھم “

ترجمہ:

حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ھیں : ” کوئی بھی گروہ اپنے امور میں ایک دوسرے سے مشورہ نھیں کرتا مگر یہ کہ اس میں انکے لئے خیر و صلاح ھو “۔

حدیث -4

قال الامام الحسن علیہ السلام:” اللوٴم ان لا تشکر النعمة “

ترجمہ ۔

حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ھیں : ” انسان کی پستی و ذلت یہ ھے کہ نعمت کا شکر ادا نہ کرے “ ۔

حدیث -5

قال الامام الحسن علیہ السلام:” العار اھون من النار “

ترجمہ:

حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ھیں :” ذلت دوزخ کی آگ سے بھتر ھے “۔

حدیث -۶

قال الامام الحسن علیہ السلام:” الخیر الذی لا شر فیہ : الشکر مع النعمة و الصبر علی النازلة “

ترجمہ:

حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ھیں : ” ایک خیر ایسا ھے جس میں کسی طرح کا کوئی شر نھیں ھے : وہ یہ ھے کہ نعمت ملنے پر شکر ،اور مصیبت کے وقت صبر کیا جائے“۔

حدیث -۷

قال الامام الحسن علیہ السلام:”اذا لقی احدکم اخاہ فلیقبل موضع النور من جبھتہ “

ترجمہ:

حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ھیں :” جب تم میں سے کوئی اپنے دینی بھائی سے ملاقات کرے تو اسکی نورانی پیشانی کا بوسہ لے

صحیفہ امام حسن علیہ السلام میں آنحضرت کی دعائیں

1۔ آنحضرت کی دعا خدا کی تسبیح اور پاکیزگی کے متعلق

پاک و پاکیزہ ہے وہ جس نے اپنی مخلوقات کو اپنی قدرت کے ذریعے پیدا کیا اور اُن کو اپنی حکمت کے تحت محکم اور مضبوط خلق فرمایا۔ اپنے علم کی بنیاد پر ہرچیز کو اپنے مقام پر قرار دیا۔ پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جو آنکھوں کی خیانت اور جو کچھ دلوں میں ہے، جانتا ہے۔ اُس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

2۔ مہینے کی دس اور گیارہ تاریخ کو خدا کی تسبیح اور تقدیس میں آنحضرت کی دعا

پاک و پاکیزہ ہے نورکو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے تاریکی کو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے پانیوں کو خلق کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے آسمانوں کو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے زمینوں کو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے ہواؤں کو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے سبزے کو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے زندگی اور موت کو پید اکرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے مٹی اور بیابانوں کو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے خدا اور تعریف و ثناء اُسی کیلئے ہے۔

3۔ آنحضرت کی دعا خدا کے ساتھ مناجات کرنے کے متعلق

اے اللہ! تیری بارگاہ میں کھڑا ہوں اور اپنے ہاتھ تیری طرف بلند کئے ہیں، باوجود اس کے کہ میں جانتا ہوں کہ میں نے تیری عبادت میں سستی کی ہے اورتیری اطاعت میں کوتاہی کی ہے۔ اگر میں حیاء کے راستے پر چلا ہوتا تو طلب کرنے اور دعا کرنے سے ڈرتا۔

لیکن اے پروردگار! جب سے میں نے سنا ہے کہ تو نے گناہگاروں کو اپنے دربار میں بلایا ہے اور اُن کو اچھی طرح بخشنے اور ثواب کا وعدہ دیا ہے، تیری ندا پر لبیک کہنے کیلئے آیا ہوں اور مہربانی کرنے والوں کے مہربان کی محبت کی طرف پناہ لئے ہوئے ہوں۔

اور تیری رسول کے وسیلہ سے جس کو تو نے اہلِ اطاعت پر فضیلت عطا کی ہے، اپنی طرف سے قبولیت اور شفاعت اُس کو عطا کی ہے، اس کے چنے ہوئے وصی کے وسیلہ سے کہ جو تیرے نزدیک جنت اور جہنم کے تقسیم کرنے والامشہور ہے، عورتوں کی سردار فاطمہ کے صدقہ کے ساتھ اور ان کی اولاد جو رہنما اور اُن کے جانشین ہیں، کے وسیلہ سے، اُن تمام فرشتوں کے وسیلہ سے کہ جن کے وسیلہ سے تیری طرف جب متوجہ ہوتے ہیں اور تیرے نزدیک شفاعت کیلئے وسیلہ قرار دیتے ہیں، وہ تیرے دربار کے خاص الخاص ہیں، میں تیری طرف متوجہ ہوا ہوں۔

پس ان پر درود بھیج اور مجھے اپنی ملاقات کے خطرات سے محفوظ فرما۔ مجھے اپنے خاص اور دوست بندوں میں سے قرار دے۔ اپنے سوال اور گفتگو میں سے میں نے اُس کو مقدم کیا ہے۔

جو تیری ملاقات اور دیدار کا سبب بنے اور اگر ان تمام چیزوں کے باوجود میری دعاؤں کو رد کردے گا تو میری اُمیدیں نااُمیدی میں تبدیل ہوجائیں گی۔ اس طرح جیسے ایک مالک اپنے نوکر کے گناہوں کو دیکھے اور اُسے اپنے دربار سے دور کردے۔ ایک مولا اپنے غلام کے عیوب کا ملاحظہ کرے اور اُس کے جواب سے اپنے آپ کو روک لے۔افسوس ہے مجھ پر۔

Read 3808 times