وحدت کے امام

Rate this item
(0 votes)
وحدت کے امام

متفقہ علیہ حدیث ہے, جو حدیث ثقلین کے نام سے مشہور ہے, رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمھارے درمیان اللہ کی کتاب (یعنی قرآن) اور عترت اہل بیت چھوڑے جا رہا ہوں، تم ان کا دامن تھامے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ اہل بیت عظام نے جہاں دین کے تمام پہلوئوں پر واضح اور نجات بخش راہنمائی فرمائی ہے، وہیں وحدت امت کے حوالے سے اپنے کردار اور اقوال سے سرمایہ گراں بہا چھوڑا ہے، لیکن جہاں ہم نے راہنماء کتاب قرآن مجید کو مہجور چھوڑ دیا ہے، وہیں ہم نے اہل بیت سے صرف عقیدت و محبت کا تعلق رکھا ہے، راہنمائی کے لیے اپنے دل پسند مسائل میں متوجہ ہوتے ہیں، اب جبکہ امت تفرقے کا شکار ہے، ہمیں اہل بیت کی طرف متوجہ ہونا ہوگا۔ اس مختصر سے مضمون میں تعلیمات آل محمدؐ سے چند موتی پیش خدمت ہیں، جن سے وحدت امت کے لیے راہنمائی ملتی ہے۔

یہ بات تو واضح ہے کہ حضرت علی علیہ السلام خلافت کے عنوان سے اپنا موقف رکھتے تھے اور پوری زندگی جب موقع ملا، آپ نے اس پر دلائل بھی دیئے۔ آج امت مسلمہ کا ایک طبقہ حضرت علی علیہ السلام کے اسی موقف کا حامی ہے، کیونکہ اس موقف کے داعی حضرت علی علیہ السلام خود تھے۔ انھوں نے اختلاف کے باوجود موقع کی نزاکت کے پیش نظر جو حکمت عملی اپنائی ہے، وہ آج بھی مشعل راہ ہے۔کسی کو بھی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ امام علی علیہ السلام سے ہٹ کر کوئی اور راستہ اپنائے۔ حضرت علی علیہ السلام ایک خط میں ابو موسیٰ اشعریؓ کو لکھتے ہیں: ’’تم کو معلوم ہونا چاہیئے کہ کوئی بھی شخص مجھ سے زیادہ امت محمدؐ کی شیرازہ بندی اور باہمی اتحاد کا خواہش مند نہیں ہے اور اس سے میرا مقصد صرف حسن ثواب اور آخرت میں کامیابی ہے۔‘‘ (نہج البلاغہ مکتوب،۷۸)

جب حضرت علیؑ خود فرما رہے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ اس امت کے اتحاد کے خواہاں ہیں تو وہ اس نسبت سے امام اتحاد امت قرار پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتحاد کے لیے آپ کا دور مثالی دور تھا، جب امت مختلف نکتہ نظر رکھنے کے باوجود متحد تھی۔ آپ نے مزید فرمایا: ’’خدا کی قسم! اگر مسلمانوں کے انتشار اور کفر کی طرف ان کی بازگشت اور دین کی تباہی کا خوف نہ ہوتا تو پھر ہم ان کے ساتھ دوسرے طریقے سے پیش آتے۔‘‘ (امام شیخ مفید، ص ۱۵۵، بحارالانوار، ج۲۹، ص ۶۳۴) انتشار و افتراق کے جو مضمرات پیش آسکتے ہیں، حضرت امام علی ؑ نے ان سے بچانے کے لیے تحمل، برداشت کی راہ کو اپنایا ہے۔ آج بھی امت کو یہی خدشات درپیش ہیں کہ وہ اپنے افتراق کی وجہ سے اپنے ہدف و منزل کی طرف نہیں بڑھ رہی ہے بلکہ الحادی گروہ اسے ہی عنوان بنا کر اسلام پر حملہ آور ہو رہے ہیں، نئی نسل پریشان ہے کہ بے چارہ مسلمان کدھر جائے، کیونکہ حق ایک دوسرے سے دست و گریبان ہے۔

آپ نے بصرہ روانہ ہونے سے پہلے ایک خطبہ میں امت کو انتشار سے بچانے کے لیے اپنی حکمت عملی کا ہدف بیان کیا ہے، فرماتے ہیں: ’’میں نے غور کیا تو یہ محسوس کیا کہ (اپنے حق خلافت سے محرومی پر) مسلمانوں کی تفریق و خون ریزی سے صبر ہی بہتر ہے، کیونکہ لوگ تازہ مسلمان ہوئے ہیں اور دین دودھ کی مشک کی مانند ہے کہ جو معمولی سستی پر بھی برباد ہو جاتا ہے اور کمزور آدمی بھی اسے پلٹ دیتا ہے۔‘‘ (بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج۳۲، ص۶۲) یہ کہنا کہ شاید آپ کو مواقع میسر آتے تو آپ کا رویہ مختلف ہوتا جبکہ تاریخی حقائق کے مطابق رحلت ختمی المرتبتؐ کے بعد جب آپ کا نکتہ نظر سامنے آیا تو ایسے لوگوں نے رابطہ کیا کہ وہ اس کے لیے آپ کو لشکر مہیا کرسکتے ہیں، مگر آپ نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور امت میں اتحاد کو برقرار رکھا۔ آپ نے حضرت عمرؓ کی قائم کردہ شوریٰ میں شریک ہو کر اپنا موقف پیش کیا جبکہ بعض نے اس میں شریک نہ ہونے کا بھی مشورہ دیا تھا، مگر آپ نے اپنے اختلاف کے باوجود عملی اتحاد کی روش کو اپنایا اور شوریٰ کے اجلاس میں شریک ہوئے۔

آج جب اختلاف ہوتا ہے تو سلام دعا سے بھی جاتے ہیں جبکہ اس میں آپ کا راستہ واضح موجود ہے کہ اپنا موقف رکھنے کے باوجود تعاون کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جس طرح اسلام اپنے وجود و بقاء میں جتنا حضرت علیؑ کی تلوار کا مرہون منت ہے، اس سے زیادہ آپ کی خاموشی اور تحمل و بردباری کا مرہون منت ہے۔ آپ کی تلوار اسلام کی طاقت منوانے اور دشمنان اسلام کو تباہ کرنے کا سبب تھی تو آپؑ کی خاموشی اسلام کی بقاء و اتحاد امت کا سبب بنی۔ آپ نے اس بات کا اظہار نہج البلاغہ میں یوں کیا: ’’یہ تو تم سبھی جانتے ہو کہ میں خلافت کا سب سے زیادہ حق دار ہوں۔ خدا کی قسم! میں اس وقت تک خاموش رہوں گا، جب تک مسلمانوں کے امور منظم رہیں گے اور میرے علاوہ کسی پر ظلم نہیں ہوگا اور میں اس عمل کی جزاء خدا سے طلب کروں گا اور زیب و زین اور آرائش سے الگ رہوں گا، جس کے لیے تم مقابلہ آرائی کرتے ہو۔‘‘ (نہج البلاغہ، خطبہ ۱۷۴)

ان چند شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے اتحاد و وحدت کو اہمیت دی اور امت محمدی کو یکجا رکھا۔ جو اختلافات مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور رکھتے ہیں، ان میں عبادات سرفہرست ہیں، کیونکہ تمام مسلمان اللہ کو ایک مانتے ہیں، حضور ختمی المرتبت کو آخری کتاب مانتے ہیں، قرآن مجید کو اللہ کی آخری کتاب اور قیامت پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی طرح نماز قائم کرنے میں بھی اتفاق ہے۔ نمازوں کی تعداد، رکعات، اوقات اور قیام رکوع سجود اور تشہد و سلام سب پر اتفاق ہے، مگر ہاتھ کھولنے اور باندھنے پر اختلاف کے علاوہ چند جزوی مسائل نماز میں فرق نظر آتا ہے۔ افتراق و انتشار اور فرقہ واریت کا ایک سبب نمازوں کی ادائیگی میں مسلمانوں کا ایک پیش امام کی اقتداء نہ کرنا ہے۔ چند صدی قبل تک مسلمانوں کی ایک ہی مسجد ہوتی تھی، سب مسلمان اپنے جزوی مسائل کے باوجود ایک پیش امام کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے، فرقہ واریت کے سبب اب مساجد فرقوں کی عبادت گاہیں بن چکی ہیں۔

اہل بیت اطہارؑ اپنے پیروکاروں کو تاکید فرماتے رہتے تھے کہ وہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کریں اور اہل سنت کے پیش امام کی اقتداء کرسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں روایات اتنی ہیں کہ صاحب ’’وسائل الشیعہ‘‘ نے ایک علیحدہ باب بعنوان ’’باب استحباب حضور الجماعۃ خلف من لا یقتدی بہ لتقیہ و القیام فی الصف الاول‘‘ قائم کیا۔ یعنی باب ایسے لوگوں کو اقتداء میں نماز پڑھنا، جن کے پیچھے تقیہ کی وجہ سے نماز نہیں پڑھی جاتی اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا۔‘‘ مذہبی اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ نماز پڑھنے کی اہمیت کے سلسلہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی دو روایات بطور نمونہ پیش کی جاتی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں: ’’جس شخص نے ان کے ساتھ پہلی صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی، گویا اس نے پہلی صف میں رسول اکرمؐ کے ساتھ نماز پڑھی۔‘‘ (وسائل الشیعہ، شیخ حرعاملی، ج۸، ص ۲۹۹)

اس میں جہاں امامؑ اپنے پیروکاروں کو دوسرے مسالک کی نماز جماعت میں شرکت کی ترغیب دے رہے ہیں بلکہ اس کے اجر و ثواب کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ یہ عمل کس قدر اعلیٰ ہے۔ اسی سے ہی اتحاد کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ روزانہ کے اس عمل سے جہاں عام مسلمانوں سے رابطہ ہوتا ہے، وہاں اختلاف رکھنے کے باوجود دوسرے مسلک کے فرد کو مسلمان مانا گیا ہے، یہ تکفیریت کے خلاف زبردست حکمت عملی ہے۔ اسحاق بن عمار سے روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: ’’اے اسحق! کیا تم مسجد میں ان کے ساتھ نماز پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کی: جی ہاں! امام نے فرمایا: ان کے ساتھ نماز پڑھا کرو، کیونکہ ان کے ساتھ صف اول میں نماز پڑھنے والا ایسا ہی ہے، جیسے راہ خدا میں تلوار کھینچنے والا۔‘‘ (وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی، ج۸، ص ۳۰۱) آیت اللہ ابو القاسم الخوئی نے لکھا ہے کہ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کے ساتھ ان کی نماز وغیرہ میں شریک ہونے کی حکمت، مصلحت نوعیہ اور مسلمانوں کا اتحاد تھا اور ان کے ساتھ نماز جماعت نہ کرنے میں کسی ضرر کا خوف نہیں تھا۔ (کتاب الطہارۃ سید ابو القاسم الخوئی، ج ۴،ص۳۱۶)

ایسی روایات سے ہمیں ترغیب دی گئی ہے کہ ہم اہل سنت کے ساتھ روابط رکھیں، ان کی نماز جماعت میں شریک ہوں، یقیناً اس عمل سے اتحاد کی فضاء ہموار ہوگی۔امت محمدی کا ایک بڑا اجتماع حج ہے، جو اپنے اندر عبادی و اجتماعی پہلو رکھے ہوئے ہے۔ اس دور میں بھی اسے امت کے اتحاد کا مرکزی مظہر قرار دیا جاتا ہے۔ جہاں تمام مسالک کے لوگ ایک امام کی اقتداء میں اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ حج کے تمام اعمال پر جزوی اختلاف کے ساتھ  امت کا اتفاق و اتحاد ہے۔ اس عظیم اجتماعی عبادت گاہ کی انجام دہی کے لیے آل محمدؐ نے راہنمائی فرمائی ہے۔ آئمہ اطہارؑ نے بھی اپنی زندگی میں بارہا حج کی سعادت حاصل کی ہے اور ان کے ہمراہ آپ کے رفقاء اور پیروکار بھی ہوتے تھے۔ حج کے تمام اعمال دیگر مسلمانوں کے ہمراہ ادا فرماتے تھے۔ عیدین یا ماہ رمضان، حج کے تعین میں بھی عام مسلمانوں کے ساتھ اتفاق کرتے تھے۔ اس ضمن میں ایک روایت پیش خدمت ہے۔

’’ایک سال عید قربان کے بارے میں ہمیں شک ہوگیا۔ جب امام محمد باقرؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو امامؑ کے بعض اصحاب کو دیکھا کہ وہ عید منا رہے ہیں، پس امام محمد باقرؑ نے فرمایا: ’’عید اس روز ہے، جس روز لوگ عید منائیں اور عید قربان اس روز ہے، جس روز لوگ عید قربان منائیں اور روزہ اس روز ہے، جس دن لوگ روزہ رکھیں۔‘‘ (وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی، ج۱۰، ص۱۳۳) انہی تعلیمات کی روشنی میں جب ۱۴۲۸ھ میں رویت ہلال کا اعلان ہوا تو ایران عراق و سعودی عرب کی روئیت میں دو روز کا فرق تھا، اس سے پریشانی ہوئی کہ حاجیوں کے اعمال خصوصاً شیعوں کے اعمال شرعی کا حکم کیا ہے۔ اس موقع پر سارے مراجعین نے اعلان کیا کہ حاجیوں کو روئیت کے مطابق عمل کرنا چاہیئے اور ان کے اعمال صحیح ہیں۔ ایک اور راہنمائی جو اہل بیت عظامؑ نے فرمائی، وہ عام مسلمانوں سے حسن معاشرت اور رواداری کی تاکید کی ہے۔ روایت میں بھی ہے کہ:

’’میں نے امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں عرض کیا، ہم اپنی قوم والوں اور ان معاشرے والوں کے ساتھ کہ جو شیعہ نہیں ہیں، کیسا سلوک روا رکھیں؟  امامؑ نے فرمایا: اپنے آئمہؑ کو دیکھو، جن کی تم پیروی کرتے ہو، پس جو ان کی روش ہے، اسی روش کو اختیار کرو۔ خدا کی قسم! وہ (ائمہ) غیر شیعہ لوگوں کے بیماروں کی عیادت کے لیے جاتے ہیں، ان کے جنازوں کی تشیع میں شرکت کرتے ہیں، وہ ان کے حق میں اور ان کے خلاف (حق کے مطابق) گواہی دیتے ہیں اور ان کی امانت کو انھیں واپس کرتے ہیں۔‘‘ (وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی، ج۱۲، ص۶) اس روایت سے جہاں اس دور کے حالات پر روشنی پڑتی ہے کہ مسالک کے بارے میں لوگ تذبذب کا شکار تھے، ویسے ہی امام کا جواب اس دور کے ساتھ ساتھ آج کے دور کے لیے بھی نمونہ عمل ہے۔ اسی فرمان پر عمل کرنے سے اتحاد امت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ نفرت و بیزاری کی فضاء جو بین المسالک دیکھنے کو ملتی ہے، اس کا بھی خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ائمہ اطہارؑ نے اپنے پیروکاروں کو ان امور میں منع فرمایا ہے، جو وحدت امت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ مخالفین کو لعن طعن اور گالی گلوچ ہے، جس سے سوائے نفرت، تعصب اور دشمنی کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آپ اپنے پیغام کا ابلاغ نہیں کرسکتے۔

جیسا کہ جنگ صفین کے موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے دیکھا کہ بعض لوگ شام والوں پر لعنت و نفرین کر رہے ہیں تو آپؑ نے انھیں اس کام سے روکتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے تمھارے لیے یہ بات پسند نہیں ہے کہ لعن طعن کرنے والے بن جائو (کیونکہ نتیجہ میں) وہ بھی تم پر لعن طعن کریں گے اور تم سے بیزار ہو جائیں گے، لیکن کتنا اچھا ہو کہ تم ان کے ناشائستہ اعمال کو بیان کرو۔ یہ اچھا استدلال ہے اور اگر ان پر لعن کرنے اور ان سے بیزاری کرنے کی بجائے یہ کہو (اور خدا سے دعا کرو) اے اللہ! ہماری اور ان کی جان کی حفاظت فرما، ہماری اور ان کی اصلاح فرما، انھیں گمراہی سے نجات عطا فرما کہ وہ حق نہیں پہچانتے ہیں، وہ حق کو پہچان لیں اور جو حق سے روگرداں ہیں، جو حق کی طرف آجائیں۔ یہ چیز مجھے یہ زیادہ پسند اور تمھارے لیے بہتر ہے۔‘‘ (بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج۳۲، ص،۳۹۹)

گالی و لعنت سے معاشرے کی فضاء میں عداوت ہی پنپتی ہے اور فتنہ فساد پھیلتا ہے، جس کے نتیجہ میں وہ حق بات سننے سے بھی دور ہو جاتے ہیں۔ اس کے بجائے ان کے برے اعمال کی نشاندہی کریں اور ان کی اصلاح کے لیے اللہ کی بارگاہ میں دعا بھی کریں۔ اصل مقصد تو ان کی اصلاح ہے۔ اس ضمن میں ایک حدیث بھی روایت ہوئی ہے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’میں لعنت و نفرین کرنے کے لیے مبعوث نہیں ہوا ہوں بلکہ (دین حق کی طرف) دعوت دینے والا اور رحمت بن کر مبعوث ہوا ہوں۔ اے اللہ! میری قوم کی ہدایت فرما کہ وہ مجھے نہیں جانتی۔‘‘ (سنن النبیؐ، علامہ طباطبائی، ص ۱۴۱۳، صحیح مسلم، مسلم نیشاپوری،ج۸، ص ۲۴) حضور ختمی المرتبتؐ کی امت کو بھی اسی مشن پر چلنا چاہیئے۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ لعن، طعن، گالی گلوچ کا وہ سہارا لیتا ہے، جو اپنے موقف پر دلیل و برہان نہیں رکھتا۔ اس لیے جاہل لوگ ہی اس عمل کا سہارا لیتے ہیں، وہ وقتی طور پر اپنا غبار نکال لیتے ہیں۔ مگر مستقل طور پر تبلیغ کا راستہ مسدود کر دیتے ہیں، جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے مخالف کو اپنے قریب کرکے ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ مزید برآں اہانت و گالی کے ذریعے نہ صرف یہ کہ کسی غلط راستے سے نہیں روکا جاسکتا بلکہ اس کے برعکس ایسے لوگوں میں مزید جہالت آمیز تعصب بڑھ جاتا ہے اور وہ ضد پر اتر آتے ہیں اور اپنی باطل روش پر اڑ جاتے ہیں۔ اگرچہ اس وحدت امت اور اس کے تقاضوں کے بارے میں آئمہ اطہار کی بہت زیادہ روایات موجود ہیں، مگر یہاں نمونے کے طور پر چند حوالے پیش کیے گئے۔

تحریر: سید نثار علی ترمذی

Read 93 times