امام علی نقی الہادی (ع) اور مستقبل کی منصوبہ بندی Featured

Rate this item
(0 votes)
امام علی نقی الہادی (ع) اور مستقبل کی منصوبہ بندی

حضرت امام نقی ہادی (ع) کی زندگی کے تاریخی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امام نے اسلامی تاریخ کے ایک مشکل ترین دور میں پوشیدہ انتظام، نظریاتی نیٹ ورکنگ اور مخصوص نظام کی تشکیل کے ذریعے امامت اور شیعہ معاشرے کو مشکلات اور تباہی کے خطرے سے بچایا۔ امام نقی (ع) کا دور اسلامی تاریخ کا ایک مشکل ترین دور تھا۔ یہ وہ دور  تھا، جب امامت عباسیوں کے شدید ترین سیاسی اور سکیورٹی دباؤ کے سایہ میں تھی، ان تمام مشکلات کے باوجود امام نقی ہادی علیہ السلام نے شیعہ رہنمائی کے راستے کو محفوظ اور مستحکم کیا۔ امام علی النقی ہادی علیہ السلام نے ایسی حالت میں امت اسلامیہ کی امامت سنبھالی، جب خلافت عباسیہ کا ڈھانچہ سیاسی اور سلامتی کی پختگی کے عروج کو پہنچ چکا تھا۔ اس دور کو عباسی طاقت کے استحکام کا دور سمجھا جاتا تھا اور امامت کے مقام و منزلت کو کنٹرول کرنے، اس پر قابو پانے اور اسے ختم کرنے کے لیے ٹارگٹڈ پالیسیوں کا آغاز تھا۔ ایک ایسی پالیسی، جس میں نہ صرف خود امام، بلکہ اہل بیت (ع) کے تمام مریدین، رفقاء اور پیروکاروں پر سخت پابندیاں عائد تھیں۔

بچپن سے شہادت تک سیاسی دباؤ کا تسلسل
امام ہادی علیہ السلام نے اپنی امامت کے دوران نہ صرف عباسی خلفاء کا سامنا کیا بلکہ آپ اپنے بچپن، اپنی جوانی سے اپنے عظیم والد امام جواد علیہ السلام کی امامت کے دوران بھی سخت دباؤ اور حکومتی نگرانی کے ماحول میں بڑے ہوئے تھے۔کل آٹھ عباسی خلفاء آپ کے ہم عصر رہے اور سب کے سب ظلم و تشدد میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے۔

معاشرے میں امام کی عوامی موجودگی میں بتدریج کمی
امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد کے دور سے عالم تشیع میں ایک نیا تاریخی رجحان شروع ہوا، جس کے دوران معاشرے اور معصوم امام کے درمیان براہ راست اور کھلے رابطے کا امکان بتدریج کم ہوتا گیا۔ یہ رجحان امام جواد علیہ السلام کے زمانے میں ظاہر ہوا اور امام ہادی علیہ السلام کے دور میں اس مرحلے پر پہنچ گیا کہ امام نقی (ع) کے ساتھ عوام کا رابطہ بہت محدود اور کنٹرول شدہ ہوگیا۔ اس وقت امام ہادی علیہ السلام عملی طور پر خلافت کے اہلکاروں کی مسلسل نگرانی میں تھے۔ نقل و حرکت پر پابندیاں، مواصلات کا کنٹرول، بار بار طلبی اور خوف کی فضا پیدا کرنا عباسی خلفاء کی پالیسی کا اہم حصہ تھا۔ عباسی خلیفہ امام اور امامت کے مقام کو عوام سے الگ تھلگ کرنا چاہتے تھے۔ ایک ایسی پالیسی جس کا حتمی مقصد امام معصوم کو شیعہ سماج سے جدا کرنا تھا۔

متوکل عباسی اور پابندیوں میں شدت
متوکل کی حکومت کے دور کو اہل بیت (ع) کے خلاف دشمنی کی شدت کے حوالے سے ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔ اس دور میں مذہبی علامتوں کی تباہی، سادات کا قتل، شیعوں پر جبر اور عقیدہ امامت پر سخت پابندیاں لگانا خلافت کی سرکاری پالیسی بن گئی تھی۔ اس صورتحال نے شیعہ معاشرے کو اپنی تاریخ کے تاریک ترین دور میں ڈال دیا۔

اہم حکمت عملی کے طور پر رابطہ کے ایک نئے نظام کی تشکیل
ایسے حالات میں شیعہ مذہب کا تسلسل محض کبھی کبھار ردعمل یا عوامی موجودگی سے ممکن نہیں تھا۔ نئی شرائط کے ساتھ رابطے کو برقرار رکھنے، تعلیمات اسلام کی ترسیل اور دینی کمیونٹی کے انتظام کے لیے ایک طویل مدتی نئے ماڈل کے ڈیزائنگ کی ضرورت تھی۔ ایک ایسا نمونہ جو امام کی ظاہری اور جسمانی موجودگی پر انحصار کیے بغیر شیعہ مذہب کی بقاء کی ضمانت دے سکے۔ اس تاریخی ضرورت کے جواب میں امام ہادی علیہ السلام نے نیابت کا نظام قائم کیا اور اسے وسعت دی۔ اس نظام کی بنیاد پر عالم اسلام کے مختلف خطوں میں قابل اعتماد افراد کو امام کے نمائندے کے طور پر مقرر کیا گیا، تاکہ وہ امام اور ملت شیعہ کے درمیان رابط کا کردار ادا کریں۔ نیابتی یا نمائندگی کا نظام محض ایک انتظامی طریقہ کار نہیں تھا، بلکہ دینی تعلیمات کی ترسیل، نظریاتی مسائل کا جواب، مالیاتی امور کو منظم کرنے، فکری ہم آہنگی کو برقرار رکھنے اور نظریاتی انحرافات کو روکنے کے لیے ایک کثیر الجہتی نیٹ ورک تھا۔ ایک ایسا نیٹ ورک جس نے سخت گھٹن اور شدید دباؤ کے حالات میں شیعہ کمیونٹی کے انتظام کو فعال کیا۔

براہ راست رسائی کے بغیر آئندہ دور کیلئے ایک تاریخی مشق
عملی طور پر اس ماڈل نے شیعہ مسلمانوں کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کیا، جس میں معصوم امام تک براہ راست اور کھلی رسائی ممکن نہ ہو۔ اس نقطہ نظر سے نیابتی یا نمائندگی کے نظام کو اس دور میں داخل ہونے کے لیے ایک عملی اور بتدریج تجربے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جسے بعد میں غیبت کا دور کہا گیا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد معصوم امام علیہ السلام سے بالواسطہ رابطے کا ڈھانچہ غیبت کے دور میں جاری رہا۔ اس تاریخی تسلسل سے معلوم ہوتا ہے کہ غیبت کوئی اچانک واقعہ نہیں تھا، بلکہ ایک تدریجی اور منظم عمل کا نتیجہ تھا، جس کی بنیاد امام ہادی علیہ السلام کے دور میں رکھی گئی تھی۔

اس ڈھانچے میں، اگرچہ معاشرے میں امام کی جسمانی موجودگی محدود تھی، لیکن مذہبی، فکری اور نظریاتی رہنمائی میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ امام نقی (ع) کے دور میں شیعہ مسلمانوں نے قابل اعتماد نیٹ ورکس پر انحصار کرتے ہوئے اہل بیت (ع) کی تعلیمات کو محفوظ اور منتقل کرنے کا طریقہ سیکھا۔ عام عقیدہ کے برخلاف، امام ہادی علیہ السلام کی امامت کا دور محض بقا کا دور نہیں تھا بلکہ ترقی کا دور بھی تھا۔ اس دور میں شیعان اہلبیت کے علم، اخلاق اور اعتقاد کی سطح میں بہتری آئی اور ایک زیادہ باخبر اور مربوط ادارہ تشکیل پایا۔

شیعہ دنیا کی بااثر شخصیات کی تربیت
اس طرزِ فکر کا ثمر طلبہ اور شخصیات کی تربیت تھی، جن میں سے ہر ایک بعد میں اسلامی دنیا کے مختلف خطوں میں اثر و رسوخ کا ذریعہ بنا۔ ان شاگردوں میں تہران کے علاقے شہر رے میں مدفون حسنی سادات کے حضرت عبدالعظیم حسنی ان شخصیات میں سے ایک ممتاز ترین شخصیت ہیں، جنہوں نے امام ہادی (ع) کی رہنمائی میں اہل بیت (ع) کی تعلیمات کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ری کے علاقے میں ان کی موجودگی نے دیرپا تاریخی اور نظریاتی آثار چھوڑے۔

امام ہادی علیہ السلام، شیعہ مذہب کی تاریخی تبدیلی کے معمار
ان تاریخی شواہد کے مجموعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ہادی علیہ السلام نہ صرف ایک مخصوص دور کے امام تھے بلکہ شیعیت کی ایک اہم ترین تاریخی تبدیلی کے معمار بھی تھے۔ آپ نے عوامی موجودگی کے دور سے پوشیدہ، لیکن مسلسل اور گہری رہنمائی کے ذریعے امامت کی تعلیمات و امامت کی منتقلی کے نظام کو متعارف کرایا۔

تحریر: محمد ویسمرادی

Read 4 times