سلیمانی
اسلام میں اقتصاد کی اہمیت
تحریر: رضوان حیدر نقوی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
اسلام ایک جامع و کامل دین ہے، جس نے زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق بشریت کی راہنمائی فرمائی ہے۔ اگر اسلامی احکامات کی طرف توجہ کی جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے اقتصاد اور معاش کو عبادی احکامات سے اگر زیادہ نہ کہیں تو کم اہمیت بھی نہیں دی۔ بے شک اقتصاد انسانی زندگی کا بنیادی ترین رکن ہے۔ انسان، معاش اور اقتصاد کو نظر انداز کرکے اچھی زندگی نہیں گزار سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح اسلام عبادات و معنویات کو اہمیت دیتا ہے، اسی طرح اپنے خاندان اور بچوں کے لئے حلال رزق کمانے کو بھی جہاد فی سبیل اللہ قرار دیتا ہے۔ دین انسان سازی اور انسانی معاشرے کی فلاح و بہبود کی خاطر آیا ہے۔ جب انسان کو اس مقصد کے لئے سب کچھ میسر ہو، جو اس کی نشو و نما اور زندگی کے لئے ضروری ہے اور اپنے آپ کو فقر و ناداری سے محفوظ رکھے تو وہ مادیات سے بالاتر ہو کر اعلیٰ مقاصد کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ ایسا انسان ہی معاشرے کے لئے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ بہت سے انسان فقر و ناداری کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کو کھو دیتے ہیں اور بری خصلتیں ان کے دل و دماغ میں بس جاتی ہیں۔ بسا اوقات قوت فکر مفلوج اور سوچنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔
اسلام مال و دولت کو انسانی معاشرے کے لئے ضروری سمجھتا اور اسے بہت اہمیت دیتا ہے۔ اسلام ثروت اور مادی امکانات کو معاشرے کا ستون اور بنیادی جز سمجھتا ہے۔ اقتصادیات انسانی معاشرے کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہے۔ قرآن مجید میں پروردگار فرماتا ہے: آپ کے اموال جس پر اللہ تعالیٰ نے تمہارا نظام زندگی قائم رکھا ہے۔(سورہ نسا آیت ۵) یہ آیت معاشرے میں اقتصاد کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ درحقیقت معیشت کی نابودی سے معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں دولت و ثروت معاشرے اور سماج کے جسم میں خون کی مانند ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں دولت و ثروت کو بشریت کے لئے اپنی نعمت اور شکر گزاری کا وسیلہ قرار دیتا ہے۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام مال و دولت کو تقویٰ الہیٰ کا سبب قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: مال اور ثروت، تقویٰ الہیٰ کے لئے بہترین مددگار ہے۔ (الکافی،ج۵، ۷۱۔) امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے: دنیا، سعادت آخروی کے لئے بہترین مددگار ہے۔(الکافی،ج۵، ۷۲۔) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: تین چیزیں مسلمان کے لئے سعادت ہیں، گھر کا گشادہ اور وسیع ہونا، نیک اور صالح ہمسایہ اور بہترین مرکب کا ہونا۔(الخصال، ج1، ص:184)
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص بھی رزق و روزی کی تلاش میں ہوتا ہے، تاکہ اس ذریعے سے خود کو لوگوں سے بے نیاز کرے، اپنے خاندان کے لئے رفاہ و آسائش کا انتظام کرے اور ہمسایوں کے ساتھ محبت سے پیش آئے، ایسا شخص قیامت کے دن پروردگار کا دیدار اس حالت میں کرے گا کہ اس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہا ہوگا۔(الکافی، ج۵، ۷۸) ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کی: یا ابن رسول اللہ میں دنیا کے پیچھے ہوں اور چاہتا ہوں کہ اسے حاصل کروں۔ امام نے فرمایا: حاصل کرکے کیا کرو گے؟ اس نے جواب دیا: میں چاہتا ہوں کہ اس سے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی بہتر بناوں، صلہ رحم کروں، صدقہ دوں، حج اور عمرہ ادا کروں۔ امام نے فرمایا: یہ دنیا طلبی نہیں بلکہ آخرت طلبی ہے۔(الکافی ج ۵، ۷۸۔) رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے کہ جب بھی آپ کی کسی جوان پر نظر پڑتی تو فرماتے: کیا اس کے پاس کوئی ہنر (کام اور کاروبار) ہے، اگر جواب نفی میں ہوتا تو آپ فرماتے: میری نظروں سے یہ جوان گر گیا ہے۔(یعنی میری نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں) جب آپ سے اس کی وجہ پوچھی جاتی تو آپ فرماتے، جب مومن کے پاس کوئی ہنر نہ ہو تو وہ دین کو معاش کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔(جامع الاخبار، ج۱، ص۱۳۹) رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: آخرالزمان میں لوگوں کے لئے مال و دولت اور ثروت ضروری ہوگی، کیونکہ ان کی دنیا اور آخرت اسی سے قائم ہوگی۔(کنزالعمال ج۳، ص۲۳۸)
اسلام نے محنت و کوشش کو بہت اہمیت دی ہے اور اسے معاشرے کے لئے لازمی جز قرار دیا ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب سورہ طلاق کی آیت 2 اور 3 نازل ہوئیں، جس میں فرمایا گیا: جو تقویٰ الہیٰ اختیار کرتا ہے تو خدا اس کے لئے راستے کھول دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرتا ہے، جس کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تو صحابہ کرام میں سے بعض صحابہ بدفہمی کے باعث عبادت و دعا میں مشغول ہوگئے۔ جب رسول اللہ تک یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا: وہ شخص میرا دشمن ہے، جو اللہ سے اپنے رزق میں اضافہ کی دعا کرے، لیکن اس کے لئے محنت اور کوشش نہ کرے۔(الفقیہ، ج۵، ص۶۷) امام صادق علیہ السلام نے عمر ابن مسلم کے بارے میں پوچھا؛ تو بتایا گیا کہ وہ تجارت چھوڑ کر دعا اور عبادت میں مشغول ہوگیا ہے۔ امام نے فرمایا: افسوس ہے اس پر، کیا اس کو معلوم نہیں کہ فقط دعا (عملی جدوجہد کے بغیر) قبول نہیں ہوتی۔(الکافی ج۵، ۸۴۔) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص خدا کی رحمت سے دور ہے، جو اپنا بوجھ دوسروں کے کندہوں پر ڈال دیتا ہے۔(الکافی، ج 5، ص 72) امام صادق فرماتے ہیں: بے شک اللہ تعالیٰ بہت سونے والے اور بے کار بندے پر غضبناک ہوتا ہے۔(من لا یحضر الفقیہ، ج 3، ص169)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لئے کوشش کرنے والا خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مانند ہے۔(الکافی ج۲، ص۷۶) امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: جو شخص اپنے خاندان کے لئے رزق و روزی کی تلاش میں رہتا ہے، اس کا اجر خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے سے زیادہ ہے۔(الکافی ج۵، ص۸۸) رسول اکرم نے فرمایا: عبادت کے دس حصے ہیں، جس میں سے ۹ حصے حلال روزی کمانا ہے۔(جامع الاخبار، ص۱۳۹) امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا اور ان کا اظہار کرنا دینداری ہے۔(کافی، ج6، ص496۔) پس بنیادی ضروریات کا حصول دینی تعلیمات میں سے ہے۔ معاشرے کے ارباب حل و عقد اور صاحب کرسی و منصب افراد پر ضروری قرار دیا گیا ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے ان سہولتوں تک رسائی کو آسان بنائیں، کیونکہ جس معاشرے میں فقر و ناداری کی حکمرانی ہو، وہ معاشرہ مختلف قسم کی بیماریوں اور برائیوں کی جنم گاہ بن جاتا ہے۔
انسان کے لئے سہولیات کا حاصل کرنا ایک بنیادی ضرورت ہے۔ انسان کو چاہیئے کہ سہولیات کے حصول کے لئے نیک اور پسندیدہ راستوں کو اپنائے اور جدوجہد کرے، ان سے فائدہ اٹھائے، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ دیکھے کس زمانہ میں جی رہا ہے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت میں ہمیں یہ بات بھی ملتی ہے کہ یہ ہستیاں اپنے زمانے کے مطابق زندگی گزارتی تھیں، جیسا کہ امام علی علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام کی طرز زندگی میں فرق ہے۔ روز عاشورا امام حسین علیہ السلام کے کاندھے پر بعض اثرات دیکھے گئے، جب امام سجاد علیہ السلام سے ان کے بارے میں پوچھا گیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ ان کھانے سے بھری گھٹریوں کی وجہ سے ہے، جو میرے بابا ہر روز اپنے کاندھے پر اٹھا کر عورتوں، یتیموں اور مسکینوں کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔(بحار ج44، ص190) جب رات کا کچھ حصہ گزر جاتا تو امام صادق علیہ السلام اس گھٹری کو جس میں روٹیاں، گوشت اور درہم ہوتے تھے، اپنے دوش اطہر پر اٹھا کر مدینہ کے فقیروں کے پاس جاتے اور ان میں تقسیم کرتے تھے۔(وسایل الشیعه، ج6، ص278) امام موسی کاظم علیہ السلام رات کو مدینہ کے تنگدست لوگوں کے پاس جاتے تھے اور ایک تھیلہ بھی ساتھ لے جاتے، جس میں پیسے اور کھجوریں ہوتی تھیں اور اسے فقیروں میں تقسیم کرتے تھے۔(وسایل الشیعه، ج6، ص278)
اسلام کسی طور پر بھی فقر و فاقہ کو پسند نہیں کرتا بلکہ صراحت کے ساتھ اعلان کرتا ہے کہ معاد اور معاش کے درمیان ظاہری اور باطنی رابطہ ہے۔ اسلام انسان کی مادی زندگی کے لئے کسب معاش اور لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ جان اور نان کے درمیان موجود رابطے کو بیان کرتا ہے۔ جس سے اسلام میں اقتصادی نظام کی اہمیت سمجھ آتی ہے۔ اسلام ان تمام ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، جو حیات انسانی کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ میانہ روی اور معتدل راستے سے ہٹنے کا نتیجہ غربت و افلاس کے کنویں میں گرنا ہے۔ غربت اور فقر کے لغوی معنی احتیاج کے ہیں۔ عام طور پر اس سے تنگ دستی، مفلسی اور ناداری مراد لی جاتی ہے۔ غربت یہ ہے کہ انسان زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہو یا ان سہولتوں سے محروم ہو، جن سے انسان ترقی اور تکامل کی منزلوں کو طے کر سکتا ہے۔ احادیث میں غربت اور فقر کی بہت مذمت ہوئی ہے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: فقر اور غربت سب سے بڑی موت ہے۔(نہج البلاغہ،حکمت154۔) اور پھر فرمایا: قبر، تنگدستی اور ناداری سے بہتر ہے۔(الکافی، ج ۸، ۲۱۔) معروف جملہ ہے کہ جب فقر ایک دروازے سے داخل ہوتا ہے تو ایمان دوسرے دروازے سے چلا جاتا ہے۔
پس فقر ایک ایسا مرض ہے، جو دھیرے دھیرے پورے مسلم معاشرے کے بدن میں سرایت کر رہا ہے اور اگر جلد اس کا علاج نہیں کیا گیا تو اس کے نتائج بہت سنگین ہوں گے۔ علم اقتصاد کے ماہرین کا خیال ہے کہ جس معاشرے کی اکثریت غریب ہو، وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ غربت اور تنگدستی تمام آفتوں اور اخلاقی برائیوں کی ماں ہے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو کی گئی نصیحتوں میں سے ایک یہ ہے اے میرے بیٹے! میں نے تمام تلخیوں کا مزہ چکھا، لیکن غربت جیسی کوئی تلخی نہیں ہے۔(جامع أحاديث الشيعة ج22، ص238) امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: غربت اور افلاس قرض کے ساتھ سب سے بڑی شقاوت اور بدبختی ہے۔(غررالحکم، ص28۔) امام صادق علیہ السلام، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت بیان فرماتے ہیں: فقر اور تنگدستی انسان کو کفر تک لے جاتی ہے۔(الکافی، ج ۲، ۳۰۷۔) علماء کے کلام میں ایک جملہ ملتا ہے کہ جس کی معاش نہیں، اس کی آخرت بھی نہیں۔
غربت و افلاس بہت سے امراض کا سبب بنتی ہے۔ بہت سی نفسیاتی بیماریاں ناداری اور تنگدستی کے سبب وجود میں آتی ہیں۔ جسم کا کمزور ہونا، توہین اور تحقیر کا شکار ہونا، گھریلو زندگی میں ناکام ہونا، اخلاقی اور جنسی برائیوں کا جنم لینا، معاشرے میں سر نیچا ہونا، اداسی کا احساس کرنا، صلاحیتوں کا ضائع ہونا، سیاسی میدانوں سے انہیں دور رکھنا، سیاسی میدانوں کو مالداروں کے لئے کھلا چھوڑنے جیسی بیماریاں غربت اور افلاس سے جنم لیتی ہیں۔ کسی بھی دین کی کامیابی کا راز اس میں مضمر ہے کہ وہ کس حد تک لوگوں کی جسمانی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے۔ اس کی زندگی کی کسی بھی ضرورت کو نظر انداز کئے بغیر تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتا ہے۔ غربت و تنگدستی انسان کے تکامل میں بڑی رکاوٹ ہے۔ غربت و افلاس انسان کی شخصیت کو برباد کر دیتی ہے۔ غربت و ناداری کے معاشرے پر بھی بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے کینہ اور بغض جیسی لاعلاج بیماریاں پروان چڑھتی ہیں۔ بسا اوقات ناامید غریب شخص پورے معاشرے پر اپنا بوجھ ڈال دیتا ہے۔
یہاں پر اہل علم، دانشوروں، اور صاحب حیثیت افراد کو اپنا کردار پیش کرنا چاہیئے کہ وہ معاشرے کو غربت کے منفی اثرات سے پاک اور غربت کے خاتمے کے لئے خلوص دل کے ساتھ کام کریں؛ غریب لوگوں کیلئے ملازمتیں پیدا کریں، انہیں اپنی کمپنیوں، کارخانوں میں کام کا موقع دیں، ان کی صلاحتیوں اور ہنرمندی میں مزید اضافہ کریں اور ان کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو ختم کریں۔ امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں غربت کے بہت سے منفی اثرات ہیں۔ جن میں سے ایک حقارت ہے! امام علیہ السلام فرماتے ہیں: لوگ فقیر کو فقر کی بنا پر حقیر سمجھتے ہیں۔(الحیات، ج4، ص32) پھر فرمایا: فقیری ایک انسان کو استدلال کے وقت گنگ بنا دیتی ہے۔(الحیات، ج4، ص319) جہاں مولا علی علیہ السلام کی پوری زندگی فقر و ناداری کے خلاف جہاد میں گزری، وہیں آج مسلم معاشرے کی اکثریت فقر و ناداری کا شکار ہے۔ جس کی ایک وجہ خود ہماری سستی اور کام سے فرار ہے۔
جبکہ حضرت علی علیہ السلام معیشت کو سدھارنے کے لئے طاقت فرسا کام انجام دینے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے اور آپ لوگوں کی معیشت سنوارنے کو خود پر لوگوں کا حق سمجھتے تھے۔(علامہ تقی جعفری، شرح نہج البلاغہ، ج9، ص25) کتب تاریخ میں مذکور ہے کہ امام علی علیہ السلام کی خلافت کے دور میں کوئی شخص بھی کوفہ میں ایسا نہیں تھا، جس کا اپنا گھر نہ ہو۔ اب یہ ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے کا کام ہے کہ معاشرے میں غربت کی وجوہات تلاش کرے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ فقر و ناداری، ضعف ایمان کا سبب بھی ہے۔(الحیات، ج4، ص309) جب تک یہ مشکل حل نہیں ہوگی، معاشرہ دلدل میں پھنستا چلا جائے گا۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق فقر، فقر پیدا کرتا ہے۔(نگاھی بہ فقر زدائی از دیدگاہ اسلام، ص34) امام علی علیہ السلام فقراء کی دستگیری اور ان کی دیکھ بھال کے بارے میں فرماتے ہیں: خدا را خدا را نچلے طبقے کا خیال رکھیں کہ جن کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے۔(نھج البلاغہ مکتوب53۔) لہذا اس کے لئے کوئی راہ حل تلاش کرنا چاہیئے، تاکہ معاشرے کو غربت و افلاس سے نجات دلائی جاسکے۔ اس کے لئے ہم سب کو جدوجہد کرنی ہوگی۔ پوری قوم کو مل کر کوشش کرنی ہوگی۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی اسی میں ہے۔
امریکی بدمعاش ڈکیتی پر اترا!
کورونا سے بوکھلا چکے امریکی صدر نے ظاہراً ہر قیمت پر کورونا وائرس کی روک تھام کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ اپنے ملک کے جنگی دور کے قوانین کو استعمال کرتے ہوئے، اب تک کینیڈا فرانس اور جرمنی کے ذریعے چین سے خریدے جا چکے طبی ساز و سامان کو زیادہ پیسہ دے کر لے اڑ چکے ہیں اور دوسروں کا حق مار کر اپنے عوام کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ماڈرن ڈکیتی کا شکار ہونے والے کینیڈا، فرانس اور جرمنی نے ٹرمپ کے اس غیر اخلاقی اور غیر ذمہ دارانہ اقدام پر اپنی سخت برہمی ظاہر کی ہے۔
ایران کو مغربی ممالک کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں
ایرانی پارلیمنٹ کے نمائندے جبار کوچکی نژاد نے ایرانی حکام کو اندرونی توانائیوں سے استفادہ کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو مغربی ممالک کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ اور مغربی ممالک آج خود کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکام ہوگئے ہیں ۔ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں ہمیں مغربی ممالک کی امداد کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ وہ خود اس وبا سے نمٹنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں ملک کی اندرونی ظرفیتوں اور صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں حکومت اور عوام ایک پیج پر ہیں۔ کوچکی نژاد نے کہا کہ ہم عوام کے تعاون سے کورونا وائرس کو شکست دے سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صوبہ گیلان میں کورونا وائرس کے کیسز زيادہ تھے جہاں اب ان کیسز میں کمی آگئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایران کو مغربی ممالک کی مدد کی کوئي ضرورت نہیں ، ایران اپنی اندرونی صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے کورونا وائرس کو شکست دے سکتا ہے
ایران تیرا شکریہ: ہندوستان
اسلامی جمہوریہ ایران میں ہندوستان کے سفیر گدام درمندرا Gaddam Dharmendra نے کل قم کے گورنر بہرام سرمست سے ہونے والی ملاقات میں کہا کہ ہندوستان کے پاس کورونا کا مقابلہ کرنے کیلئے طبی وسائل اور ماہر ڈاکٹروں کی کمی ہے۔
ہندوستان کے سفیر نے قم میں ہندوستانی شہریوں کے علاج معالجے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت کی پہلی ترجیح ہندوستانی باشندوں کی واپسی ہے تا کہ اس طرح ہم ایران سے ہندوستانی شہریوں کے علاج معالجے کے بوجھ کو کم کر سکیں۔
قم کے گورنر نے اس ملاقات میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے ساتھ ہی ایران میں مقیم غیر ملکی باشندوں کی صحت و سلامتی اور علاج معالجے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر حکومت پہلے اپنے باشندوں کا علاج معالجہ کرتی ہے تاہم ایران میں اس قسم کا رویہ نہیں پایا جاتا اور یہاں سب برابر ہیں۔
بهرام سرمست نے اسی طرح 802 ہندوستانی باشندوں کی 5 مرحلوں میں ہندوستان روانگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں ہندوستانی با شندوں کا علاج ہو رہا ہے اور انھیں ہوٹلوں اور دوسری جگہوں میں قرنطینہ کیا گیا ہے۔
امریکہ میں کورونا کا قہر جاری، ہلاکتیں 10 ہزار سے زائد
امریکہ میں کورونا وائرس کے معاملے ہر روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران مزید ہزاروں افراد کورونا میں مبتلا ہوگئے۔ اس طرح اس ملک میں کورونا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 3 لاکھ 56 ہزار 7 ہو گئی جبکہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر10467 ہو گئی۔
امریکی حکومت نے دیگر ممالک کی بہ نسبت بہت دیر سے کورونا ٹیسٹنگ کا آغاز کیا ہے اور اس وقت کورونا بیماروں میں اچانک اضافے کے بعد امریکہ کے طبی مراکز کورونا ٹیسٹ کیٹس کی قلت سے روبرو ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ ہفتے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ امریکہ دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے اصل مرکز میں تبدیکل ہو سکتا ہے۔ اس وقت امریکہ کی تمام پچاس ریاستوں میں کورونا وائرس سرایت کر چکا ہے اور اس وبا کا شکار ہونے والوں کی تعداد کے لحاظ سے امریکہ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس دسمبر کے آخر میں چین کے ہوبئی صوبے سے کورونا وائرس کے معاملے شروع ہوئے تھے اور اب یہ وبا دنیا کے بیشتر ممالک میں پھیل چکی ہے۔
کورونا نے ثابت کردیا کہ امریکہ حتی اپنے اندرونی معاملات میں ناتواں ہے: ایران
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کےعالمی امور کے نمائندے حسین امیرعبداللهیان نے اپنی ٹویٹ میں اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ کورونا بحران نے ثابت کردیا کہ امریکہ نہ فقط دنیا کو چلانے کی طاقت و توانائی نہیں رکھتا بلکہ وہ تو اپنے ملک کو بھی چلانے میں ناکام رہا ہے کہا کہ اس بحران نے ون مین شو اور عالمی نظام کو ایک ملک کی جانب سے چلانے کے انسانی دعوے کو بے نقاب کردیا ہے۔
امریکی حکومت نے دیگر ممالک کی بہ نسبت بہت دیر سے کورونا ٹیسٹنگ کا آغاز کیا ہے اور اس وقت کورونا بیماروں میں اچانک اضافے کے بعد امریکہ کے طبی مراکز کورونا ٹیسٹ کیٹس کی قلت سے روبرو ہیں۔
امریکہ میں کورونا وائرس کے معاملے ہر روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران مزید ہزاروں افراد کورونا میں مبتلا ہوگئے۔ اس طرح اس ملک میں کورونا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 3 لاکھ 56 ہزار 7 ہو گئی جبکہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر10467 ہو گئی ہے۔
کرونا وائرس اور امریکہ کے سپر پاور ہونے کے تاثر کا خاتمہ
جب 1965ء میں یورپی یونین کی بنیاد رکھی گئی تھی تو وہ ایک اقتصادی اور سیاسی اکائی اور متحدہ مارکیٹ دکھائی دے رہا تھا اور بعد میں ایک مشترکہ کرنسی بھی جاری کر دی گئی تھی۔ سب یہ توقع کر رہے تھے کہ یونین تشکیل پانے کے بعد یورپی ممالک کے اندر انتہائی مضبوط تعلق پیدا ہو جائے گا جس کے باعث وہ مستقبل میں پیش آنے والے ناگوار حوادث اور چیلنجز سے مل کر مقابلہ کریں گے۔ لیکن حال ہی میں دنیا بھر میں کرونا وائرس کی خطرناک وبا پھیلی ہے جو اب یورپی ممالک تک بھی پہنچ چکی ہے۔ اٹلی اور اسپین دو ایسے یورپی ممالک ہیں جہاں کرونا وائرس کے باعث اموات کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے۔ کرونا وائرس کی جانب سے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لینے کے بعد یورپی یونین سے متعلق پرانا تصور اور توقعات بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ یورپی ممالک کے درمیان مشترکہ سرحدیں مکمل طور پر بند کر دی گئی ہیں، اور یورپی یونین کے رکن ممالک ایک دوسرے سے دور ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ رکن ممالک نے ایکدوسرے کی مدد کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے جس کی واضح مثال اٹلی اور سربیا ہیں۔
اٹلی کے صدر نے ایک طرف یورپی یونین کو اپنی مدد نہ کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جبکہ دوسری طرف چین سے مدد کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے وہ چین کی جانب سے ہر قسم کے امدادی اقدام کا خیرمقدم کریں گے۔ کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کیلئے اب تک یورپی ممالک کے سربراہان مملکت کئی ہنگامی اجلاس بھی منعقد کر چکے ہیں لیکن کسی مشترکہ راہ حل تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔ شمالی یورپ کے ممالک جیسے ہالینڈ کا خیال ہے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر ہر یورپی ملک کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی اندرونی صلاحیتوں پر بھروسہ کرے۔ دوسری طرف جنوبی یورپ کے ممالک جیسے اٹلی، اسپین اور یونان کا نقطہ نظر ہے کہ کرونا وائرس کا پھیلاو کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے اور موجودہ صورتحال کا مقابلہ صرف آپس میں مل کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ فرانس بھی ان کے موقف کی حمایت کر رہا ہے۔ ان ممالک کا مدعی ہے کہ اگر اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو عنقریب بہت بڑا انسانی المیہ رونما ہو گا۔
اگر ہم کرونا وائرس سے درپیش حالات کا مقابلہ کرنے میں یورپی یونین کے حریف ممالک جیسے چین، روس اور کیوبا کے اقدامات کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ انہوں نے آپس میں بہت گہرا تعاون کیا ہے۔ تینوں ممالک سے میڈیکل ٹیمیں اور ضروری سازوسامان ایکدوسرے کو فراہم کیا گیا ہے۔ ان ممالک کی یہ حکمت عملی کامیاب بھی ثابت ہوئی ہے۔ یورپی یونین کا مستقبل روشن نہیں ہے۔ اسی طرح امریکہ کی دنیا میں سپر پاور ہونے کی حیثیت بھی شدید خطرے میں پڑ گئی ہے۔ کرونا وائرس سے درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بعض ریاستوں خاص طور پر نیویارک کے گورنرز کے درمیان شدید اختلافات سامنے آئے ہیں۔ ان اختلافات کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے امریکہ اندر سے ٹوٹ رہا ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ میں کرونا وائرس سے درپیش حالات دھیرے دھیرے سیاسی رنگ اختیار کرتے جا رہے ہیں اور مختلف صدارتی امیدوار انہیں اپنے اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی وبائی مرض کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار امریکہ اور یورپی یونین آمنے سامنے کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔
مذکورہ بالا حالات کے تناظر میں دوسری عالمی جنگ کے بعد تشکیل پانے والا عالمی نظام متزلزل دکھائی دے رہا ہے۔ یورپی ممالک اور امریکہ کی جانب سے واحد مشترکہ حکمت عملی تک پہنچنے میں ناکامی کے باعث ان کا انتشار اور عجز و ناتوانی عیاں ہو چکی ہے۔ دوسری طرف چین، روس اور کیوبا جیسے ممالک موجودہ بحرانی حالات میں سپر پاور کا کردار ادا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے کرونا وائرس کا شکار ممالک کو مدد کی پیشکش کر رکھی ہے اور اب تک اس بارے میں اہم اور مفید اقدامات بھی انجام دے چکے ہیں۔ اسپین کے وزیراعظم پیدرو سینچیز نے حال ہی میں گارجین اخبار میں ایک مقالہ شائع کیا ہے جس میں انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کرونا وائرس نے یورپی یونین کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف موجودہ جنگ ان تمام جنگوں سے مختلف ہے جو ماضی میں یورپی ممالک کو درپیش رہی تھیں۔ اگر ہم موجودہ جنگ میں باہمی اتحاد اور ہم آہنگی کا مظاہرہ نہیں کرتے تو یورپی یونین کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہم نے ماضی سے یہی سبق سیکھا ہے کہ اگر ہم سب فاتح نہ ہوں تو گویا سب شکست کا شکار ہو چکے ہیں۔
ایران نے مصنوعی ذہانت کے ذریعے چند سیکنڈز میں کرونا وائرس کی تشخیص کا نیا سسٹم تیار کر لیا
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدارتی مشیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ڈاکٹر سورنا ستاری نے ملک کے اندر تیار کردہ کرونا وائرس کی تشخیص کے نئے سسٹم کا افتتاح کرتے ہوئے خبرنگاروں کو بتایا کہ ایران میں کرونا وائرس کی تشخیصی کٹس کی تیاری کے بعد اب ایرانی ماہرین نے سی ٹی اسکین کے ذریعے مریضوں کے اندر کرونا وائرس کی تشخیص کرنے والا نیا بھی سسٹم تیار کر لیا ہے جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے چند سیکنڈز کے اندر 97 فیصد درستگی کے ساتھ نتیجہ فراہم کر دیتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایران میں تیار کیا جانے والا کرونا وائرس کی تشخیص کا نیا سافٹ ویئر سسٹم سی ٹی اسکین ٹیکنالوجی پر مبنی ہے جس میں کرونا وائرس میں مبتلا مریض کے پھیپھڑوں کی سی ٹی اسکین کے ذریعے حاصل کی جانے والی ڈیجیٹل تصاویر کو اس سافٹ ویئر سسٹم کے حوالے کر دیا جاتا ہے جبکہ ایرانی ماہرین کی طرف سے تیار کردہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر مبنی یہ سسٹم کسی ریڈیالوجسٹ ماہر کی طرح ان تصاویر کا معائنہ کرتا ہے اور کرونا وائرس کے باعث متاثر ہو جانے والے حصوں کی پہچان کر کے ان پر نشان کھینچ دیتا ہے۔(20).jpg)
ایرانی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سسٹم کی تیاری سے قبل سی ٹی اسکین کے ذریعے مریض کے پھیپھڑوں میں کرونا وائرس کی تشخیص صرف ماہر ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر ہی کر پاتا تھا جبکہ اب ملک کے کسی بھی مقام پر لی گئی سی ٹی اسکین تصاویر کو اس سافٹ ویئر کے ذریعے جانچا جا سکتا ہے کیونکہ یہ اپنی مصنوعی ذہانت کی بناء پر سی ٹی اسکین تصاویر میں موجود کرونا وائرس سے متاثرہ حصوں کو چند سکینڈز کے اندر تشخیص دینے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ کسی ماہر ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر کو ایسی ہی تشخیص دینے کے لئے کم از کم 15 منٹ کا وقت درکار ہوتا ہے۔
هود 86
اللہ کی طرف کا ذخیرہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے اگر تم صاحبِ ایمان ہو اور میں تمہارے معاملات کا نگراں اور ذمہ دار نہیں ہوں
صفات مومن
| حدیث : روی ان رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم قال:یکمل الموٴمن ایمانہ حتی یحتوی علیہ مائة وثلاث خصالٍ:فعل وعمل و نیة وباطن وظاہر فقال امیر المؤمنین علیہ السلام:یا رسول اللهصلی الله علیہ وآلہ وسلم ما المائة وثلاث خصال؟فقال صلی الله علیہ وآلہ وسلم:یا علی من صفات المؤمن ان یکون جوال الفکر،جوہری الذکر،کثیراً علمہ عظیماً حلمہ،جمیل المنازعة ۔۔۔۔۔۔ [1] ترجمہ : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ مومن کامل میں ایک سو تین صفتیں ہوتی ہیں اور یہ تمام صفات پانچ حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں صفات فعلی،صفات عملی،صفات نیتی اور صفات ظاہری و باطنی۔ اس کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے الله کے رسول وہ ایک سو تین صفات کیا ہیں؟حضرت نے فرمایا:”اے علی ﷼ مومن کے صفات یہ ہیں کہ وہ ہمیشہ فکر کرتا ہے اور علی الاعلان الله کا ذکر کرتا ہے،اس کا علم ،حوصلہ وتحمل زیادہ ہوتا ہے اور دشمن کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتا ہے “ حدیث کی شرح : یہ حدیث حقیقت میں اسلامی اخلاق کا ایک مکمل دورہ ہے ،جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے بیان فرمارہے ہیں ۔اس کا خلاصہ پانچ حصوں میں ہوتا ہے جو اس طرح ہیں:فعل،عمل،نیت،ظاہر اور باطن۔ فعل و عمل میں کیا فرق ہے؟ فعل ایک گزرنے والی چیز ہے،جس کو انسان کبھی کبھی انجام دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں عمل ہے جس میں استمرار پایا جاتاہے یعنی جو کام کبھی کبھی انجام دیا جائے وہ فعل کہلاتا ہے اور جو کام مسلسل انجام دیا جائے وہ عمل کہلاتاہے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : مومن کی پہلی صفت ” جوال الفکر“ ہے یعنی مومن کی فکر کبھی جامد وراکد نہیں ہوتی وہ ہمیشہ فکر کرتا رہتا ہے اور نئے مقامات پر پہونچتا رہتا ہے۔ وہ تھوڑے سے علم سے قانع نہیں ہوتا ۔یہاں پر حضرت نے مومن کی پہلی صفت فکر کو قراردیا ہے جس سے فکر کی اہمیت واضع ہو جاتی ہے ۔مومن کا سب سے بہترین عمل تفکر ہے۔ اور یہاں پر ایک بات قابل غور ہے اور وہ یہ کہ ابوذرۻ کی بیشتر عبادت تفکر ہی تھی۔اگر ہم کاموں کے نتیجہ کے بارے میں فکر کریں تو ان مشکلات میں مبتلا نہ ہوں جن میں آج گھرے ہوئے ہیں۔ مومن کی دوسری صفت”جوہری الذکر“ہے: بعض نسخوں میں” جہوری الذکر “بھی آیاہے ۔ہماری نظر میں دونوں ذکر کو ظاہر کرنے کے معنی میں ہے۔ذکر کو ظاہری طور پر انجام دنیا قصد قربت کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ اسلامی احکام میں ذکر جلی اور ذکر خفی دونوں موجودہیں۔صدقہ اور زکوٰة مخفی بھی ہے اور ظاہری بھی،ان میں سے ہرایک کااپنا خاص فائدہ ہے جہاں پر ظاہری ہے وہاں تبلیغ ہے اور جہاں پر مخفی ہے وہ اپنا مخصوص اثر رکھتی ہے ۔ مومن کی تیسری صفت” کثیراً علمہ“ ہے ۔ یعنی مومن کے پاس علم زیاد ہوتا ہے۔حدیث میں ہے کہ ثواب،عقل اور علم کے مطابق ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ ایک انسان دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے مقابل دوسرا انسان سو رکعت نماز پڑھے مگر ان دو رکعت کا ثواب اس سے زیاد ہو ۔واقعیت بھی یہی ہے کہ عباد ت کے لئے ضریب ہے اور عبادت کی اس ضریب کا نام علم وعقل ہے۔ مومن کی چوتھی صفت”عظیماً حلمہ“ ہے یعنی مومن کا علم جتنا زیادہ ہوتا ہے اس کا حلم بھی اتنا ہی زیاد ہوتا ہے ۔ایک عالم انسان کو سماج میں مختلف لوگوں سے روبرو ہونا پڑتا ہے اگر اس کے پاس حلم نہیں ہوگا تو مشکلات میں گھر جائے گا ۔مثال کے طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حلم کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔گذشتہ اقوام میں قوم لوط سے زیادہ خراب کوئی قوم نہیں ملتی اور ان کا عذاب بھی سب سے دردناک تھا فلما جاء امرنا جعلنا عٰلیہاسافلہا وامطرنا علیہا حجارة من سجیل منضود [2] اس طرح کہ ان کے شہر اوپر نیچے ہوگئے اور بعد میں ان کے او پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ان سب کے باوجود جب فرشتے اس قوم پر عذاب نازل کرنے کے لئے آئے تو پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں پہونچے، اور ان کو بیٹے کی پیدائش کی بشارت دی جس سے وہ خوش ہوگئے،بعدمیں قوم لوط کی شفاعت کی ۔فلما ذہب عن ابراہیم الروع و جاتہ البشریٰ یجادلنا فی قوم لوط ان ابراہیم لحلیم اواة منیب [3] ایسی قوم کی شفاعت کے لئے انسان کو بہت زیادہ حلم کی ضرورت ہے یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بزرگی ،حلم اور ان کے وسیع القلب ہونے کی نشانی ہے۔بس عالم کو چاہئے کہ اپنے حلم کو بڑھائے اور جہاں تک ہو سکے اصلاح کرے نہ یہ کہ اس کو چھوڑ دے۔ مومن کی پانچوین صفت”جمیل المنازعة“ہے یعنی اگرمومن کو کسی کے کوئی بحث یا بات چیت کرنی ہوتی ہے تو اس کو نرم لب و لہجہ میں انجام دیتا ہے اورجنگ و جدال نہیں کرتا ۔آج ہمارے سماج کی حالت بہت حسا س ہے ،خطرہ ہم سے صرف دو قدم کے فاصلے پر ہے۔ان حالات میں عقل کیا کہتی ہے؟کیا عقل یہ کہتی ہے ہم کسی بھی موضوع کو بہانہ بنا کرجنگ کے ایک جدید محاذ کی بنیاد ڈال دیں،یا یہ کہ یہ وقت آپس میں متحد ہونے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا وقت ہے؟ جب ہم خبروں پر غور کرتے ہیںتو سنتے ہیں کہ ایک طرف تو تحقیقی وفد عراق میں تحقیق میں مشغول ہے دوسر طرف امریکہ نے اپنے آپ کو حملہ کے لئے تیارکرلیا ہے اور عراق کے چاروں طرف اپنے جال کو پھیلا کر حملہ کی تاریخ معین کردی ہے۔دوسری خبر یہ ہے کہ جنایت کار اسرائیلی حکومت کا ایک ذمہ دار آدمی کہہ رہا ہے کہ ہمیں تین مرکزوں (مکہ ،مدینہ،قم)کو ایٹم بم کے ذریعہ تہس نہس کردینا چاہئے۔کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ بات واقعیت رکھتی ہو؟ایک دیگر خبر یہ ہے کہ امریکیوں کا ارادہ یہ ہے کہ عراق میں داخل ہونے کے بعد وہاں پر، اپنے ایک فوجی افسر کو تعین کریں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ہم پر مسلط ہو گئے تو کسی بھی گروہ پر رحم نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی گروہ کو کوئی حصہ دیںگے۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ جب ہمارے یہاںمجلس میں کوئی ٹکراوپیدا ہو جاتا ہے یا اسٹوڈنٹس کا کوئی گروہ جلسہ کرتا ہے تو دشمن کامیڈیا ایسے معاملات کی تشویق کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے۔کیا یہ سب کچھ ہمارے بیدار ہو نے کے لئے کافی نہیں ہے؟کیا آج کا دن اعتصموا بحبل الله جمیعاً ولا تفرقوا وروز وحد ت ملی نہیں ہے؟عقل کیا کہتی ہے؟اے مصنفوں،مئلفوں،عہدہ داروں،مجلس کے نمائندوں،اور دانشمندوں ! خداکے لئے بیدار ہو جاؤ کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہم کسی بھی موضوع کو بہانہ بنا کر جلسہ کریں اور ان کو یونیورسٹی سے لے کر مجلس تک اور دیگر مقامات پر اس طرح پھیلائیں کہ دشمن اس سے غلط فائدہ اٹھائے؟میں چاہتا ہوں کہ اگر کوئی اعتراض بھی ہے تو ا س کو ”جمیل المنازعة“ کی صورت میں بیان کرنا چاہئے کیونکہ یہ مومن کی صفت ہے۔ہمیں چاہئے ک قانون کو اپنا معیار بنائیں او روحدت کے معیاروںکو باقی رکھیں۔ اکثر لوگ متدین ہیں ،جب ماہ رمضان یا محرم آتا ہے تو پورے ملک کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دین سے محبت ہے۔آگے بڑھو اور دین کے نام پر جمع ہو جاؤ اور اس سے فائدہ اٹھاؤ وحدت ایک زبردست طاقت اور سرمایہ ہے ۔ -------------------------------------------------------------------------------- [1] بحار الانوار ،ج/ ۶۴ باب علامات المومن،حدیث/ ۴۵ ،ص/ ۳۱۰ [2] سورہٴ ہود:آیہ/ ۸۲ [3] سورہٴ ہود:آیہ/ ۷۴ و ۷۵ |




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
