صہیونی ریاست کی تشکیل میں امریکہ کا کردار

Rate this item
(0 votes)
صہیونی ریاست کی تشکیل میں امریکہ کا کردار

بہت سارے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسرائیل کی تشکیل میں اہم ترین کردار برطانیہ کا ہے اور حتیٰ تاریخ میں یہ ذکر ہوا ہے کہ عثمانی حکومت کے زوال کے بعد، فلسطین برطانیہ کے زیر قبضہ چلا گیا اور برطانیہ نے اس سرزمین کو صہیونیوں کے حوالے کر دیا۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ اس ریاست کی تشکیل میں برطانیہ سے کہیں زیادہ امریکہ کا کردار ہے جو پہلی عالمی جنگ میں نمایاں ہوتا ہے۔
پہلی عالمی جنگ میں امریکہ کی شرکت اس کے باوجود کہ امریکہ جنگ کے دو اصلی حریفوں میں سے کسی ایک کا طرفدار نہیں تھا، اس بات کا باعث بنی کہ بہت سارے امریکیوں کو اپنی جانوں سے منہ ہاتھ دھونا پڑا۔ اس زمانے کے امریکی عوام سخت مخالف تھے کہ امریکہ جنگ میں آگ میں کود پڑے اور انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے بلکہ یہاں تک کہ امریکہ کا اٹھائیسواں صدر ’ ووڈرو ولسن ‘ اس وقت اسی شعار کے ساتھ مسند صدارت پر براجمان ہوا کہ وہ امریکہ کو عالمی جنگ سے محفوظ رکھے گا۔ اس کے باوجود اس نے ۱۹۱۷ میں اپنا موقف بدلتے ہوئے عالمی جنگ کی آگ میں چھلانگ لگائی اور ۲۷۰ ہزار امریکیوں کے قتل یا زخمی ہونے کا باعث بنا۔ البتہ یہ تعداد ۱۲۰۰ ہزار کے علاوہ ہے جو جنگ کی مخالفت میں امریکی عقوبت خانوں میں بند کئے گئے۔
تجزیہ نگار پہلی عالمی جنگ میں امریکہ کی شرکت کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں جیسے جرمن آبدوز کے ذریعے امریکی بحری جہاز کا غرق کیا جانا یا امریکی ڈپلومیٹیک شکست، برطانیہ کی اشتعال انگیزی، وغیرہ لیکن بہت کم لوگ ہیں جو اس بات سے باخبر ہیں کہ امریکہ کو پہلی عالمی جنگ میں دھکیلنے والے امریکی صہیونی یہودی تھے۔
صہیونی ایک مستقل یہودی ریاست کی تشکیل کے لیے سب سے پہلے عثمانی سلطنت کے پاس گئے، لیکن عثمانی بادشاہ نے مخالفت کے ضمن میں، انہیں عثمانی حکومت کے قلمرو کے علاوہ کسی دوسری جگہ پر یہودی حکومت کی تشکیل کا مشورہ دیا کہ جو انہوں نے قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد وہ برطانوی حکومت کے پاس گئے لیکن  اس نے بھی کچھ زیادہ اس بارے میں رجحان نہیں دکھایا۔
لیکن ۱۹۱۶ء میں برطانیہ کے حالات میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ وہ جو پہلی عالمی جنگ میں پیش قدم تھے انہوں نے ایک دن میں ۶۰ ہزار جانوں کو موت کی بھینٹ چڑھایا۔ حالات انتہائی بحرانی کیفیت اختیار کر گئے تھے۔ ایسے سخت حالات میں صہیونیوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور برطانیہ کو جنگ سے نجات دلانے کا وعدہ دیا لیکن اس کے بدلے میں انہوں نے برطانیہ سے ایک خاص چیز کا وعدہ لیا۔
اس سے پہلے صہیونی، فلسطین میں یہودی ریاست کی تشکیل کے حوالے سے برطانیہ کو قانع کرنے کے لیے صرف مذہبی دلائل پیش کرتے تھے لیکن اس بار انہوں نے اعلان کیا کہ اگر برطانیہ فلسطین میں یہودی ریاست کی تشکیل کی حمایت کا وعدہ دے تو ہم جنگ میں امریکہ کو برطانیہ کی حمایت کے لیے میدان میں لائیں گے۔
لہذا برطانوی وزیر خارجہ “لورڈ بالفور (Lord Balfour) نے ۱۹۱۷ میں صہیونیوں کے رہنما “لورڈ روتھسچیلڈ (Lord rothschild) کے نام ایک مستقل یہودی ریاست کی تشکیل کی حمایت میں خط لکھ دیا۔ یہ خط جو بعد میں “بالفور” اعلانیہ کے نام سے معروف ہو گیا، اس میں یہودی ریاست کی تشکیل میں تعاون کے مشورے کو قبول کیا۔ البتہ اس خط میں یہ قید بھی لگائی گئی تھی کہ فلسطین میں ساکن غیر یہودیوں کے مذہبی اور شہری حقوق پامال نہیں ہونا چاہیے، لیکن بعد میں بالکل اس کے برخلاف عمل کیا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان دو ملکوں برطانیہ اور امریکہ کے درمیان کن لوگوں نے رابطہ پل قائم کیا؟
واضح ہے کہ یہ تمام منصوبے برطانیہ اور امریکہ میں ساکن صہیونی یہودیوں کے ذریعے انجام پا رہے تھے۔ دونوں ملکوں کے صہیونیوں کے درمیان اتنے گہرے تعلقات پائے جاتے تھے کہ نہوم سکولوو (nahum sokolow) اس بارے میں لکھتے ہیں: ’’جو بھی منصوبہ لندن میں تیار ہوتا تھا امریکہ میں صہیونی تنظیم کے ذریعے اس پر جائزہ لیا جاتا تھا اور امریکہ میں صہیونیوں کے جانب سے پیش کئے گئے ہر منصوبے کو لندن میں عملی جامہ پہنایا جاتا تھا‘‘۔
امریکہ میں ’لوئیس برانڈیس‘ نامی صہیونی یہودی جو سپریم کورٹ کا جج بھی تھا اور امریکی صدر کا بہت قریبی دوست بھی وہ اس کام کا پیچھا کر رہا تھا اور برطانیہ میں ’آمری (Leopold Amery) نامی شخص ان امور پر ناظر تھا۔ البتہ یہودی ریاست کی تشکیل کا نظریہ سب سے پہلی مرتبہ پروشیم(parushim) خفیہ تنظیم کے بانی “ہورس کالن” نے پیش کیا۔ اس کے بعد صہیونی سربراہان نے اس پر غور و خوض کے بعد برطانیہ کو اس پر عملی جامہ پہنانے کی پیشکش کی۔ بہت ساری اہم سیاسی شخصیات جیسے برطانوی وزیر خارجہ لوئڈ جورج ( Loyd george) ، برانڈیس یونیورسٹی کے استاد فرینک ای مینوئل (Frank E manuel) بیت المقدس میں امریکی قونصلٹ کے عہدیدار ایون ام ویلسن (Evan m wilson) صہیونی مورخ نوآمی کوہن اور دیگر بہت سارے افراد نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں امریکی صہیونیوں کی اس کام میں براہ راست مداخلت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اس زمانے میں جب صہیونی یہودی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مذاکرات کر رہے تھے تو ۱۹۱۷ میں امریکی وزیر خارجہ روبرٹ لینسینگ (Robert Lansing) کے پاس رپورٹ پہنچی جس سے یہ معلوم ہو رہا تھا کہ عثمانی حکومت جنگ سے تھک چکی ہے اور ممکن ہے وہ جرمن اتحاد سے باہر نکل جائے اور برطانیہ کے ساتھ کوئی الگ معاہدہ کر لے۔ یہ چیز اگر چہ برطانیہ کے فائدے میں تھی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صہیونی اپنے مقاصد تک نہ پہنچ سکیں یعنی فلسطین میں یہودی ریاست تشکیل نہ دے سکیں۔ اس لیے کہ ممکن تھا اس معاہدے کے تحت فلسطین عثمانیوں کے ہاتھوں میں باقی رہ جائے۔
امریکہ ایسے معاہدے کو امکان سے باہر سمجھ رہا تھا لیکن اس کے باوجود امریکہ نے محققین کا ایک وفد عثمانی سلطنت کی طرف بھیجا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس وفد کا ایک شخص جو اس ٹیم کے افراد کے انتخاب کے لیے پیش پیش تھا ایک صہیونی یہودی تھا جس کا نام فلیکس فرانکورٹر تھا اور وہ پروشیم خفیہ تنظیم کا رکن اور اس کے بانی لوئیس برانڈیس کا پرانا دوست تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس وفد کے منتخب تمام افراد صہیونی تھے اور یہی لوگ باعث بنے کہ عثمانی حکومت اور برطانیہ کے درمیان کوئی معاہدہ تشکیل نہ پائے۔
یہودیوں نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بہت سارے غیر یہودیوں کو قربانی کا بکرا بنایا جو خود امریکی تھے۔ اس یہودی وفد نے انہیں ڈھال کے طور پر استعمال کیا تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، اپنے مقصد کو حاصل کر لیں اور کسی کو خبر بھی نہ ہو۔



کتاب Against our better judgment: the hidden history of how the u.s was used to create Israel,2014.


مولف   Alison weir 

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ

 

Read 1142 times