امریکی منصوبہ، عراق کے تین ٹکڑے ہونگے

Rate this item
(0 votes)
امریکی منصوبہ، عراق کے تین ٹکڑے ہونگے

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

عراق عظیم ملک ہے، اسے انبیاء کی سرزمین کہتے ہیں، یہاں ائمہ اہلبیتؑ کے مزارات ہیں اور کروڑوں لوگوں کی عقیدتوں کے مرکز کربلا و نجف عراق میں ہیں۔ تہذیب و تاریخ سے متعلق لوگوں کے لیے بابل اور دجلہ و فرات میں تشکیل پانے والی تہذیبیں رومانوی سی لگتی ہیں۔ یہاں کے شہر بھی تاریخی ہیں بصرہ، کوفہ، بغداد، کربلا اور نجف، ان کے نام سنتے ہی  ان شہروں سے منسلک تاریخی واقعات سامنے آنے لگتے ہیں۔ عراق کی بدقسمتی ہے کہ صدام کے جبر سے نکلتے ہی براہ راست بین الاقوامی استعمار کے قبضے میں چلا گیا۔ یہ تو یہاں کی مرجعیت کی حکمت عملی تھی کہ جو کام طالبان ہزاروں شہریوں کے مروانے اور  اتنا بڑا انفراسٹکچر برباد کروانے کے باوجود نہ کرسکے، مرجعیت نے چند سال میں ہی کر دیا۔ امریکہ نے عراق میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری وہاں سے جلدی نکلنے کے لیے نہیں کی تھی اور نہ ہی امریکہ اتنا اچھا ہے کہ عراقی عوام کو ایک ڈکٹیٹر سے نجات دلانے کے لیے اس نے  اتنا بڑا جنگی اقدام کیا ہو۔

امریکہ واپسی پر مجبور ہوا، مگر ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ  واپس آیا۔ اس کا پروگرام یہ تھا کہ داعش کو اگلے بیس سال تک خطے میں فعال رکھا جائے گا اور ہر دو چار ماہ بعد ان سے کوئی ایسا کام کرایا جائے گا، جس سے اسلام بدنام ہو، اہل مغرب مطمئن رہیں کہ امریکہ انسانیت دوستی کا کام کر رہا ہے اور اس گروہ کی سرکوبی بہت ضروری ہے۔ امریکہ کی یہ چال بری طرح ناکام رہی اور اللہ نے اپنی تدبیر کے ذریعے انہیں ناکام کر دیا۔ داعش جس پر اتنی سرمایہ کاری کی گئی تھی،  مرجعیت کے ایک فتویٰ سے ہوا کا ڈھیر ثابت ہوئی اور جنرل قاسم سلیمانی شہید کی کامیاب حکمت عملی سے نہ صرف اس کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے بلکہ وہ  انتہائی مختصر عرصے میں شہروں سے تتر بتر کر دیئے گئے۔ ان کے آمدن کے ذرائع ختم کر دیئے گئے اور وہ صحراوں میں چھپنے پر مجبور ہوگئے، جہاں پر ان کا پیچھا جاری ہے۔

جب امریکہ نے دیکھا کہ اس کی اور اس کے اتحادیوں کی ساری محنت ضائع ہو رہی ہے اور ان کا بہت نقصان ہو رہا ہے تو انہوں نے براہ راست مداخلت کا فیصلہ کیا اور امریکی افواج داعش سے لڑنے کے نام پر عراق میں داخل ہوگئیں۔ یہ داعش سے لڑیں یا داعش کی سپورٹ کرتی رہیں، یہ سب بھی راز نہیں ہے۔ امریکی عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہیں کہ ہم داعش سے لڑ رہے ہیں اور ہماری وجہ سے داعش محدود ہوتی جا رہی ہے۔ اگر امریکی صدر ٹرمپ کی تقاریر سنیں تو وہ اپنی کامیابیوں میں سے ایک کامیابی داعش کے خلاف موثر کارروائی کو قرار دیتے ہیں۔ امریکہ نہ تو  داعش سے لڑنے آیا تھا اور نہ ہی ان کا مقصد اہل عراق کو اس انسانیت دشمن گروہ سے نجات دلانا تھا، یہ تو افغانستان میں بیس سال سے طالبان کے خلاف لڑ رہے ہیں اور انہیں نہ صرف شکست نہیں دے سکے، الٹا ابھی ان سے امن معاہدے کے لیے پاکستان سے بھیک مانگ رہے ہیں اور کہہ رہیں کہ ہمیں پرامن انخلا کی گارنٹی لے کر دو۔

جنرل قاسم سلیمانی، ابو مہدی مہندس اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد امریکی پلان یہ تھا کہ ڈرا دھمکا کر ہم عراق میں اپنے پاوں مزید مستحکم کریں گے۔ عراق کی غیور عوام اور وہاں کی پرعزم قیادت نے بھرپور انداز میں امریکی حملے کو عراق پر حملہ قرار دیا اور عراقی پارلیمنٹ نے قرارداد منطور کرتے ہوئے فوری طور پر امریکی افواج کے عراق سے نکل جانے کا مطالبہ کیا۔ اس پر امریکی صدر کا ردعمل  غیر سفارتی اور غیر اخلاقی تھا کہ ہم عراق پر ایسی پابندیاں لگائیں گے، جیسی پابندیاں پہلے کسی پر نہیں لگی ہوں گی اور یہ ایران پر پابندیوں کو بھول جائیں گے۔ اقوام کے تعلقات باہمی احترام اور ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے پر مبنی ہوتے ہیں، یہ وار لارڈز کے تعلقات کی طرح نہیں ہوتے، جن کی بنیاد ہی طاقت کا استعمال ہوتا ہے۔

کل عراقی تاریخ کے عظیم الشان مظاہرے ہوئے ہیں اور ان کا فقط اور فقط ایجنڈا امریکی افواج کو عراق سے بے دخل کرنا تھا۔ عراقی عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور اب امریکی افواج کو تہذیب یافتہ طریقے سے نکل جانا چاہیئے، اگر وہ ایسا نہیں کرتیں تو بین الاقوامی قانون کے مطابق انہیں قابض فورسز شمار کیا جائے گا، جن کے خلاف  نہ صرف مزاحمت درست ہوتی بلکہ پوری دنیا میں انہیں غیر مہذب سمجھا جائے گا۔
ویسے عجیب بات یہ ہے کہ امریکی حکومت اب داعش کی طرح ایک اور حماقت کرنے جا رہی ہے، جس سے امریکی انتظامیہ کو سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ امریکی حکومت اس منصوبے پر کام کر رہی ہے کہ عراق کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے، پہلا حصہ شیعہ عراق ہو، دوسرا کردستان کی شکل میں ہو اور تیسرا حصہ سنی عراق ہو۔ اس پر کافی عرصہ پہلے بھی غور کیا گیا تھا، مگر ردعمل کے خوف سے اسے ختم کر دیا گیا تھا، اب دوبارہ اس پر غور و فکر جاری ہے۔

اربیل میں امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ نے عراق کے سنی ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات کی ہے، اسی طرح عراق کے مضبوط سنی اراکین پارلیمنٹ کو عرب امارات لے جایا گیا ہے، جہاں ان کی ملاقاتیں عرب اور امریکی آفیشلز سے کرائی گئی ہیں اور انہیں اس پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔ عرب امارات اور سعودی عرب نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ اس سب سے امریکہ کا مقصد یہ ہے کہ شام کے بارڈر پر اپنا قبضہ برقرار رکھا جائے اور لبنان، شام، عراق اور ایران کے درمیان جو براہ راست زمینی رابطہ قائم ہوا ہے، اسے ختم کر دیا جائے۔ عراق کی خود مختاری کا جنازہ تو پہلے نکالا جا چکا ہے، اب عراقی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ یہ لوگ جیسے پہلے اس منصوبے میں ناکام ہوئے تھے، اب بھی اس منصوبے میں ناکام ہوں گے اور عراق اپنے وحدت پر باقی رہے گا۔ ویسے ان تمام حالات سے یہ بات کھل کر سامنے آرہی ہے کہ بین الاقوامی قانون محض غریب ممالک کو دبانے کا ہتھیار ہے، یہ طاقتور کو تجاوز کرنے سے بالکل نہیں روکتا۔

Read 951 times