فرانسیسی صدر کے اسلام مخالف اقدامات

Rate this item
(0 votes)
فرانسیسی صدر کے اسلام مخالف اقدامات

تحریر: عبدالحمید بیاتی
 
جدید سیاسی لٹریچر میں فرانس کو مغرب میں جمہوریت کا گہوارہ کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد درحقیقت دنیا والوں کے ذہن سے دیگر قوموں کے استعمار پر مبنی فرانس کے ماضی پر پردہ ڈالنا ہے۔ لیکن جمہوریت کے اسی گہوارے میں بعض ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن پر غور کرنے سے انسان اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ دیگر قوموں پر ناجائز تسلط اور استعمار کا جذبہ نہ صرف فرانس پر حکمفرما سیاسی نظام سے ختم نہیں ہوا بلکہ حالیہ حکمران بھی اپنے ماضی کی ڈگر پر ہی گامزن ہیں۔ یہ دعوی ثابت کرنے کیلئے بہت سے ثبوت موجود ہیں۔ لیکن ان دنوں جو چیز فرانسیسی حکمرانوں کی اس خصلت کے ظاہر ہونے کا بنیادی سبب بنی ہے وہ اسلاموفوبیا پر مبنی اقدامات ہیں۔ فرانس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے۔
 
الیزہ میں مقیم فرانسیسی حکام کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف اقدامات ایک طویل ماضی کے حامل ہیں۔ انہی اقدامات کے تسلسل کے طور پر اکتوبر کے آخر میں فرانسیسی صدر ایمونوئل میکرون نے بعض شدت پسند عناصر کے اقدامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف ایک نیا قانون بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ اس کے بعد فرانسیسی صدر نے میڈیا کے سامنے اعلان کیا کہ فرانس کی حکومت نے "مذہبی علیحدگی پسندی" کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک نیا قانون تشکیل دیا ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک سے باہر جا کر امام مسجد اور مبلغ کی تعلیم حاصل کرنے پر مبنی تعلیمی نظام کو ختم کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ فرانسیسی صدر نے دعوی کیا کہ ان کے اس فیصلے کا مقصد اپنے ملک میں اسلام کو بیرونی عناصر کے قبضے سے آزاد کروانا ہے۔
 
فرانس میں اس نئے قانون کی تشکیل کا آغاز اس سال کے آخر میں ایک بل کی صورت میں ہو گا جو مرکزی کابینہ میں شامل وزیروں کو پیش کیا جائے گا۔ اسی طرح اگلے سال کے شروع میں یہ بل فرانس کی پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اس نئے قانون میں فرانس میں موجود اسلامک سنٹرز اور اسلامک آرگنائزیشنز کی تعلیمی سرگرمیوں کو بہت زیادہ محدود کر دیا جائے گا۔ مزید برآں، اس نئے قانون کی روشنی میں امام جماعت اور مبلغین کی تعلیم حاصل کرنے والے افراد کے تعلیمی عمل پر حکومت کی نگرانی کی جائے گی۔ اسی طرح اسلامی مراکز اور تنظیموں کو ملنے والی مالی امداد کی بھی مکمل تحقیق کی جائے گی۔ فرانس میں نئے اسلام مخالف قانون کی تشکیل پر مبنی غل غپاڑے کے دوران ایک اور اہم واقعہ رونما ہوا ہے۔
 
اس دوران چارلی ایبدو میگزین کے دفتر پر حملہ کرنے والے افراد کے خلاف عدالتی کاروائی کا بھی آغاز ہو چکا ہے۔ یاد رہے گذشتہ برس چند مسلح افراد نے چارلی ایبدو نامی فرانسیسی مجلے کے دفتر پر ہلہ بول دیا تھا جس میں دفتر کے کئی کارکن ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ حملہ درحقیقت اس مجلے کی جانب سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مبنی کارٹون شائع کرنے کا ردعمل تھا۔ چارلی ایبدو میگزین نے اتنی بار رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخانہ خاکے شائع کئے ہیں کہ اب وہ اس بارے میں بدنام ہو چکا ہے۔ پانچ سال پہلے جب اس مجلے نے پہلی بار یہ گستاخانہ عمل انجام دیا تو دنیا بھر میں اس کے خلاف شدید ردعمل ظاہر ہوا تھا۔ لیکن آزادی اظہار کی آر میں یہ مجلہ مسلسل اسلامی مقدسات کی توہین کرتا آیا ہے۔
 
حال ہی میں فرانس میں ایک ٹیچر نے کلاس میں چارلی ایبدو کے گستاخانہ خاکے کلاس میں تمام طلبہ کو دکھائے۔ اس کا یہ عمل مسلمان شہریوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ جانے کا باعث بنا۔ فرانس کے مسلمان شہریوں نے اسکول انتظامیہ سے اس گستاخ ٹیچر کو نکال باہر کرنے اور اس کے خلاف عدالتی کاروائی کا مطالبہ کیا لیکن اس جائز مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے بعد اچانک ایک مسلمان جوان نے چھریوں کے وار کر کے اس گستاخ شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس واقعے کے فرانسیسی حکمرانوں سمیت تمام مغربی میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید پروپیگنڈے اور نفسیاتی جنگ کا آغاز کر دیا۔ فرانسیسی صدر ایمونوئل میکرون نے بھی ہلاک شدہ گستاخ رسول ص کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے نئے قانون کی تشکیل کا اعلان کیا۔
 
یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر شدید مخالفت اور مذمت کے باوجود فرانسیسی حکمران نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کے اس سلسلے کا سدباب کیوں نہیں کرتے؟ اس کا ممکنہ جواب یہ ہے کہ فرانسیسی حکمران جان بوجھ کر ایسی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے ملک میں عوام کی جانب سے دین مبین اسلام کی جانب تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحانات اور معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے پھیلاو سے شدید خوفزدہ ہیں۔ لہذا مغربی حکام خاص طور پر فرانسیسی حکمرانوں کی جانب سے اسلامی مقدسات کی توہین کی حوصلہ افزائی کا ایک مقصد مسلمانوں کو شدت پسندانہ اقدامات پر اکسا کر ایسے اقدامات کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کا چہرہ بدنام کرنا ہے۔ دوسرا مقصد معاشرے میں اسلام کے تیزی سے جاری پھیلاو کو روکنا ہے۔                                                             

Read 658 times