ہفتہ وحدت باعث رحمت

Rate this item
(0 votes)
ہفتہ وحدت باعث رحمت
تحریر: شبیر احمد شگری

تمام عالم اسلام کو ماہ مبارک ربیع الاول کی مبارک ساعتوں کی مبارکباد پیش خدمت ہے۔ ماہ مبارک ربیع الاول کی آمد کیساتھ ہی تمام  مسلمانوں میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے اور ایک نیا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔اور مسلمانوں کے درمیاں مبارک بادی اور  ذکر پاک رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اور ہر جگہ مسلمان اپنی زبانوں کو درود پاک سے معطر کرتے نظر آتے ہیں۔ سڑکوں اور گلیوں کو رنگ برنگی جھنڈیوں ،درود و سلام والے بینرز اور برقی قمقموں سے  آراستہ کیا جاتا ہے۔ کیوں نہ ہو اس ماہ مبارک میں ختمی مرتبت، سرکار دو جہاں، رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ہوئی۔ جو کہ ہماری امت کیلئے خدا کی بہترین عطا اور بخشش کا ذریعہ ہے۔ ہفتہ وحدت، 12 ربیع‌ الاول سے 17 ربیع‌ الاول کے درمیانی فاصلے کو کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں تاریخیں مسلمانوں کے یہاں پیغمبر اکرمؐ کی تاریخ ولادت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ اہلسنت برادران 12 ربیع الاول جبکہ اہل تشیع 17 ربیع الاول کو حضورؐ کا میلاد مناتے ہیں۔

بانی اانقلاب اسلامی حضرت امام خمینیؒ نے 27 نومبر 1981ء کو  عالم اسلام کا ایک تاریخی اور وحدت سے بھرپور قدم اٹھایا اور 12 سے 17 دونوں تاریخوں کو ملا کر پورے ہفتے کو  ہفتہ وحدت کا نام دے دیا تاکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت کی برکت اور  طفیل سے اہل تشیّع اور اہلسنت برادران آپس کے اختلافات حتٰی کی حضور اکرم کی تاریخ ولادت کے اختلاف کو بھی بھلا کر وحدت اور اتحاد کا مظاہرہ کر سکیں۔ وحدت اسلامی کے اس عملی اقدام نے مسلمانوں کے درمیان  پیار و محبت، بھائی چارے اور وحدت کی نئی روح پھونک دی۔ مسلمان نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک پر ثابت قدم رہنے کا عہد کرتے ہیں۔ یوں رحمت اللعالمین کی ذات مبارکہ جو ایثار و قربانی، صبرو رضا اور بھائی چارے کا پیکر ہیں، نئے جوش و جذبے کیساتھ  وحدت کا مثالی مرکز بن گئی ہے۔ اسی طرح ہفتہ وحدت کے بعد اسلامی دنیا میں اتحاد اور ہم بستگی کے لئے زمینہ ہموار کرنے اور علما اور دانشوروں کے مابین ہم فکری ایجاد کرنے کیلئے ہر سال ایران میں عظیم الشان بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں ساری دنیا سے مسلمانوں کے تمام مکتبہ فکر کے  علما اور دانشور شرکت کرتے ہیں اور فرقہ اور مسالک سے بے نیاز ہو کر اپنے دلوں میں محبت اور بھائی چارے کا جذبہ لے کر واپس لوٹتے ہیں۔

آج دنیا جوں جوں عالم اسلام سے دشمنی کیلئے انتہائی اقدامات کر رہی ہے۔ الٹا اسلام دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے مسلمانوں میں روز بروز دشمنوں کی سازشوں کے حوالے سے شعور پیدا ہو رہا ہے۔  بہرحال بارہ سے سترہ ربیع الاول تک جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے ایام ہیں، عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے۔ یہ مستحکم حصار اور مضبوط قلعہ اگر تعمیر کر لیا جائے تو کوئی بھی طاقت اسلامی ملکوں اور قوموں کی حدود میں قدم رکھنے کی جرأت نہیں کرسکے گی۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ دنیا کے اہلسنت حضرات آکر شیعہ ہو جائیں، یا دنیا کے شیعہ اپنے عقیدے سے دست بردار ہو جائیں۔ البتہ کوئی سنی یا کوئی دوسرا شخص تحقیق اور مطالعہ کرے اور پھر اس کے نتیجے میں وہ جو کوئی بھی عقیدہ اپنائے وہ اپنے عقیدے اور اپنی تحقیق کے مطابق عمل کر سکتا ہے۔ یہ اس کے اپنے اور اللہ تعالٰی کے بیچ کا معاملہ ہے۔ ہفتۂ وحدت میں اور اتحاد کے پیغام کے طور پر ہمارا یہ کہنا ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب آکر اتحاد قائم کرنا چاہئے، ایک دوسرے سے دشمنی نہیں برتنا چاہئے۔ اس کیلئے محور کتاب خدا، سنت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور شریعت اسلامیہ کو قرار دیا جائے۔ اس بات میں کوئی برائی نہیں۔ یہ تو ایسی بات ہے جسے ہر منصف مزاج اور عاقل انسان قبول کرے گا۔

قرآن پاک کہتا ہے کہ "و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا" یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہر مسلمان کا فرض ہے، لیکن قرآن نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا کہ ہر مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے بلکہ حکم دیتا ہے کہ تمام مسلمان اجتماعی شکل میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں۔ "جمیعا" یعنی سب کے سب ایک ساتھ مضبوطی سے پکڑیں۔ چنانچہ یہ اجتماعیت اور یہ معیت دوسرا اہم فرض ہے۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کا بھی خیال رکھنا ہے کہ یہ عمل دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اجتماعی طور پر انجام دیا جانا ہے۔ اس اعتصام کی صحیح شناخت حاصل کر کے اس عمل کو انجام دینا چاہئے۔ اتحاد کا معنی و مفہوم بہت آسان اور واضح ہے، اس سے مراد ہے مسلمان فرقوں کا باہمی تعاون اور آپس میں ٹکراؤ اور تنازعے سے گریز۔ اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کی نفی نہ کریں، ایک دوسرے کیخلاف دشمن کی مدد نہ کریں اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر ظالمانہ انداز میں تسلط قائم کریں۔ مسلمان قوموں کے درمیان اتحاد کا مفہوم یہ ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ایک ساتھ حرکت کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور ان قوموں کے درمیان پائے جانیوالے ایک دوسرے کے سرمائے اور دولت کو ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہ ہونے دیں۔

اس کا عملی مظاہرہ حال ہی میں دیکھنے میں آیا۔ جب  گذشتہ دنوں ملک دشمن عناصر نے ملک عزیز پاکستان میں فرقہ واریت جیسی آگ بھڑکا کر ایک ہی شجر پیوستہ سے وابستہ دین اسلام کے مختلف فرقوں میں فساد پھیلانے اور دین اسلام اور ملک عزیز پاکستان کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کی۔لیکن ہر مسلک کے  دور اندیش، معاملہ فہم اور دشمنوں کی سازش سمجھنے والے علما اور شخصیات نے چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی، اتحاد و یگانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو بتا دیا کہ ھم آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ہم صدیوں سے محلوں تک میں ساتھ رہتے آئے ہیں اس لئے ہمارے بیچ کوئی اختلاف نہیں۔ ہم محرم کا جلوس بھی نکالیں تو کوئی سینہ زنی کر رہا ہوتا ہے اور کوئی سبیل لگائے ہوتا ہے۔ اور ہمارے عقیدے کے مطابق حسینیت دین اسلام کی جان ہے جس نے خون دے کر نانا کے دین کو بچایا۔ اسے چھوڑ کر یزید پلید کی تعریف کرنیوالا دین خدا کا پیروکار نہیں ہو سکتا بلکہ شیطان کا پیروکار کہلائے گا۔ اور وہ اسلام کا خیرخواہ کیسے ہو سکتا ہے۔ سوائے اس کے کہ اسلام کیساتھ ساتھ اس طاقتور اسلامی ملک عزیز پاکستان کے حالات کو خراب کرنے اور اسے کمزور کرنے کی کوشش کرے۔

کربلا کے بعد دو ہی فرقے رہ گئے ہیں حسینیت اور یزیدیت اور پھر اس سال کے چہلم امام حسین علیہ السلام کے بعد تو ان دشمنان اسلام کے ہوش اُڑ چکے ہیں کہ جب حسین ؑکے غلاموں نے۔" کُلُّ یَوْمٍ عاشُورَا و کُلُّ اَرْضٍ کَرْبَلا "کے مصداق ہر سال کی طرح کربلا میں منعقد ہونیوالے چہلم حسینی اور چہلم واک میں اس سال شرکت نہ کر سکنے پر زمین کے ہر خطے کو کربلا بنا دیا اور روز اربعین ہر جگہ چہلم واک کرکے جلوس اور مجالس برپا کرکے کربلا سے حسینیت کے ذکر کو پوری دنیا تک پھیلا کر یہ ثابت کیا کہ اگر روضہ حسین ؑ پر اس سال نہ پہنچے تو کیا ہوا سر زمین کا ہر خطہ کربلا ہے۔  اور اس سال کے  ان جلوسوں میں برادران اہلسنت کے علما اور شخصیات نے وحدت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور دشمنوں کو بتا دیا کہ جس طرح امام حسین ؑ نے اپنے نانا کے دین کو بچانے کی خاطر اپنا گھر بار لٹا کر ہر قسم کی قربانیں دیں ہیں۔ ہم بھی مقصد حسینیت کیلئے ایک ہیں۔

شیعہ ہوں یا سنی ہم سب بھائی بھائی ہیں اور حسین علیہ السلام کسی ایک فرقے کے امام یا پیشوا نہیں ہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے آقا و جنت کے سردار ہیں۔ کیونکہ وہ اللہ کے نبی کے نواسے ہیں جن کا کلمہ پڑھے بغیر مسلمان نہیں ہو سکتے تو ان کی دشمنی کرنیوالا اور انھیں اذیت دینے والا کیسے مسلمان ہو سکتا ہے۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ علمائے اہلسنت اور نامور شخصیات نے دشمنوں کے ناپاک ارادوں کو ناکام بناتے ہوئے ارض پاکستان کی سالمیت اور دین اسلام کی خدمت کیلئے مختلف سیمینارز اور کانفرنسز برپا کرکے اور اپنی تقاریر، بیانات، انٹرویوز اور سوشل میڈیا کے ذریعے اہم کردار ادا کرتے ہوئے۔ سادہ لوح عوام کو بھٹکنے، انھیں متحد کرنے اور دشمن کی سازش کا شکار ہونے سے بچانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جس کی وجہ سے آج دشمن کو منہ کی کھانی پڑی اور دشمن کا خواب پورا ہونے کی بجائے امت میں مزید اتحاد و اتفاق پیدا ہوا۔ اور یہ سب کچھ میرے ملک عزیز پاکستان  کے محب وطن اور اسلام کے حقیقی پیروکار علما اور شخصیات کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ جس کیلئے ہم انھیں سلام پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آئندہ بھی اسی طرح دشمن کی سازشوں کو ناکام بناتے رہیں گے۔
 
 
 
Read 798 times