شہید قاسم سلیمانی استعارہ مزاحمت

Rate this item
(0 votes)
شہید قاسم سلیمانی استعارہ مزاحمت

موت فنا ہے اور شہادت بقاء، مگر یہ انسان پر ہے کہ وہ اپنی زندگی کا نتیجہ فنا کی صورت حاصل کرنے کا خواہاں ہے یا بقاء کی صورت۔ ان دو صورتوں کے علاوہ تیسری کوئی صورت نہیں، کلام سیدنا علی علیہ السلام میں یہ بات موجود ہے کہ ہر شخص اسی چیز کا سامنا کرنے والا ہے، جس سے وہ راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہے اور جہاں زندگی کا سفر کھینچ کر لے جاتا ہے، وہی حیات کی آخری منزل ہوتی ہے۔ اگر کوئی موت سے بھاگے بھی تو موت کے قریب ہوگا، کیونکہ موت اس کے سامنے ہے، بھاگا تو اس چیز سے جاتا ہے جو انسان کا تعاقب کر رہی ہو۔ مگر موت تو سامنے سے آنے والی ہے، یعنی موت سے بھاگنا اسے پا لینا ہے۔ انسان موت کے چھپے ہوئے رازوں کی جستجو میں کتنا ہی زمانہ گزار لے، مگر پھر بھی مشیت الٰہی یہی رہی ہے کہ اس کی تفصیلات بے نقاب نہ ہوئیں۔

قرآن کریم میں سورہ جمعہ میں خدا فرماتا ہے "فتمنوالموت ان کنتم صادقین" (اے حبیب ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اگر دعویٰ ایمان میں سچے ہیں تو موت کی تمنا کریں) معلوم ہوا جو دعویٰ ایمان کی صداقت منوانا چاہے اسے موت کی تمنا کرنی چاہیئے۔ موت کی تمنا یہ نہیں کہ بستر مرگ پر اس حال میں کہ جب جینے کو جی نا چاہے، بیٹھے آخری سسکیوں کا انتظار کیا جائے بلکہ موت کی تمنا یہ ہے کہ عین جوانی ہو، ہر چیز شباب پر ہو، شہوات و لذات جیسے درندے منہ کھولے انسان کی طرف لپکنے کیلئے تیار ہوں اور انسان اس عالم میں اپنے نفس کی خار دار تاروں کو عبور کرکے اپنے حقیقی پروردگار کی راہ پر چلتا ہوا یہ جملہ دہرا رہا ہو کہ خدایا میرے لئے بستر پہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا ننگ ہے، عار ہے، شرمندگی ہے اور بے نام و نشان موت ہے جبکہ میری زندگی کا ہدف خود کو قربان کرکے ہمیشہ کیلئے زندہ رہنا ہے۔

وہ اسی جذبہ ایثار و فداکاری کی خاطر دل سے ہوا ہوس کو پرے پھینک کر موت کی تمنا میں بیابانوں اور جنگلوں میں پھرتا رہا اور صدا دیتا رہا، آو مجھ سے نبرد آزما ہو جاؤ اور اس اس راہ پر مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میری جان چلی جائے، مگر میں کائنات کے کسی انسان پہ ظلم برداشت نہیں کروں گا، کیونکہ میں مظلوموں کا وارث ہوں۔ جو اپنی جان کو امانت خدا سمجھے اور اس جان کو مظلوموں اور محروموں کے حقوق کی بالادستی کیلئے وسیلہ سمجھے، اس کے لئے موت کو گلے لگانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بقول علامہ (رہ)
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن 
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

جس کی زندگی ایثار و فداکاری کا مجموعہ ہو اور اس کی ذات اس مقصدیت کے گرد گھومتی ہو، اس کے لئے سر کٹوانا افتخار ہے۔ جان بچانا باعث ننگ و عار ہے اور جس کی ذات کا محور و مرکز شہادت ہو، اس کو مال دنیا و جاہ طلبی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر "سردار دل ھا" قاسم سلیمانی کی مقصدیت کا ترجمان ہے:
تیرگی چاہے ستاروں کی سفارش لائے
رات سے ہم کو سروکار نہیں ہو سکتا

شوق شہادت میں اسلامی مقاومت کا علمبردار اپنے دشمن کو اس وقت شکست دے چکا تھا، جب اسے اس کے ناپاک عزائم میں ناکام کرکے اس کی ناک کو خاک پر رگڑ کر مشرق وسطیٰ کی فتح کا سہرا سر پہ سجایا اور دشمن کی گردن میں ذلت کا ایسا طوق ڈالا کہ وہ اس خطے سے دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوگیا۔ قدس فورس کی کمانڈ کرنے والے اس عظیم شہید نے بیت المقدس اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کی جنگ اس انداز میں لڑی کہ چشم فلک نے امریکہ اور صہیونی طاقتوں کی پسپائی کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

جنرل قاسم سلیمانی پورے علاقہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک معروف، مضبوط، قوی اور بہادر کمانڈر تھے، جن کی شہادت امریکی حکومت کے لئے دنیا بھر میں ذلت اور رسوائی کا موجب بن گئی۔ امریکہ جنگ کے میدان میں اس عظیم شہید کا مقابلہ نہیں کرسکا،

لہذا اس نے اس عظيم کمانڈر کو رات کی تاریکی میں چھپ کر بزدلانہ اور مجرمانہ حملے ميں شہید کیا اور امریکہ کے اس مجرمانہ اقدام سے اس کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے مزید نمایاں اور رسوا ہوگیا۔

تحریر: مرتجز حسین بلوچ

Read 677 times