خطے کے بدلتے حالات میں اسلامی مزاحمت کا اقتدار

Rate this item
(0 votes)
خطے کے بدلتے حالات میں اسلامی مزاحمت کا اقتدار

کوئی سیاست دان ایسا نہیں ہو گا جسے 2006ء میں لبنان پر اسرائیل کی فوجی جارحیت کے موقع پر اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کینڈولیزا رائس کا یہ بیان یاد نہ ہو کہ: "یہ جدید مشرق وسطی کی پیدائش کا درد زہ ہے۔" اس وقت کے امریکی صدر جارج بش جونیئر اور مغربی ممالک نے بھرپور انداز میں غاصب صہیونی رژیم کی حمایت کی۔ لیکن اسلامی مزاحمت کے خاتمے پر مبنی ان کی آرزوئیں برباد ہونے میں زیادہ دیر نہ لگی۔ اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان نے غاصب صہیونی رژیم پر ایسی کاری ضرب لگائی جو وہ ہر گز بھلا نہیں پائے گی۔ اسلامی مزاحمت کے ہاتھوں غاصب صہیونی رژیم کی اس ذلت آمیز شکست کے بعد خطے کی مساواتیں یکسر تبدیل ہو گئیں اور خطے میں اسٹریٹجک تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔
 
اس فیصلہ کن معرکے کے بعد امریکہ نے اس شکست کا بدلہ لینے کیلئے ایک جامع منصوبہ تیار کیا۔ ان کیلئے اس حقیقت کو قبول کرنا بہت مشکل تھا کہ حزب اللہ لبنان جیسے ایک چھوٹے سے گوریلا جنگجووں پر مشتمل گروہ نے ایک ماہ کے اندر اندر دنیا کی سب سے بڑی فوجی مشینری کو شکست سے دوچار کر ڈالا ہے۔ جارج بش کے بعد براک اوباما امریکہ صدر کے طور پر برسراقتدار آئے۔ انہوں نے ماضی سے عبرت سیکھنے کی بجائے شام میں دوبارہ اسلامی مزاحمت سے پنجہ آزمائی شروع کر دی۔ افغانستان اور عراق میں جنگ کے شعلے لگانے کے بعد یہ ان کی تیسری جنگ تھی۔ شام میں انہوں نے بھرپور انداز میں تکفیری دہشت گرد عناصر کا استعمال کیا اور انہیں اپنی پراکسی کے طور پر میدان میں اتار دیا۔
 
شام میں یہ امریکی سعودی سازش بھی بری طرح ناکام ہوئی اور اب تکفیری دہشت گرد عناصر کو افغانستان اور یوکرین بھیجا جا رہا ہے۔ ماضی کی ان جنگوں میں امریکہ کے اخراجات اس قدر شدید تھے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے رہا نہیں گیا اور انہوں نے گذشتہ حکمرانوں کے کرتوت فاش کرتے ہوئے افغانستان اور عراق میں ہزاروں بیگناہ انسانوں کے قتل عام کا اعتراف کر لیا۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں کہا: "ہمیں ابتدا سے ہی افغانستان نہیں جانا چاہئے تھا۔" اسی طرح انہوں نے فاکس نیوز کے معروف اینکر شان ہائیٹی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: "جب ہم نے مشرق وسطی میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا تھا تو وہ ہماری ملکی تاریخ کا بدترین فیصلہ تھا۔ بعد میں معلوم ہوا وہاں دلدل ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں لاکھوں انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔"
 
گریٹر مڈل ایست اور نیو مڈل ایسٹ جیسے امریکی منصوبوں کی شدید ناکامی کے نتیجے میں علاقائی اور عالمی سطح پر امریکی اثرورسوخ زوال پذیر ہونے لگ گیا۔ لہذا ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد برسراقتدار آنے والے نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت کا اصل مقصد امریکہ کی اس تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ اور زوال پذیر ہوتی ہوئی طاقت کو سہارا دینا ہے اور اسے روکنا ہے۔ جو بائیڈن نے اپنی پالیسیوں کی بنیاد معروف امریکی تھنک ٹینک جوزف نائی کے نرم جنگ سے متعلق نظریات پر استوار کی۔ یوں جو بائیڈن کی سربراہی میں ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی حکمرانوں نے ماضی کی شان و شوکت لوٹانے کی کوشش شروع کر دی۔ نرم جنگ کا میدان اختیار کرنے کی بنیادی وجہ فوجی جارحیت میں ہونے والے بھاری اخراجات سے بچ کر مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرنا تھا۔
 
فوجی اور سکیورٹی نقطہ نظر سے اسرائیل کے غاصب صہیونی حکام شدید مشکل اور تاریک دن گزار رہے ہیں۔ وہ اس وقت مقبوضہ فلسطین میں نئے انتفاضہ کے ممکنہ آغاز سے شدید خوفزدہ ہیں۔ گذشتہ چند ہفتوں میں مقبوضہ فلسطین کے اندر انجام پانے والی متعدد شہادت پسند کاروائیوں کے نتیجے میں صہیونی رژیم شدید خوف و ہراس کا شکار ہے۔ صہیونی رژیم کو درپیش سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ان کے خلاف شہادت پسند کاروائیاں انجام دینے والے فلسطینی شہریوں کا تعلق کسی خاص گروہ سے نہیں ہے لہذا وہ ایک انجان دشمن سے روبرو ہیں۔ دوسری طرف مغربی کنارے میں بھی ان کے خلاف مسلح کاروائیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور غزہ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے میں بھی مسلح مزاحمت شروع ہو جانا ان کیلئے ایک ڈراونا خواب ہے۔ ایسے حالات میں صہیونی رژیم ایسے خطرات سے روبرو ہے جن کی نوعیت سے وہ بالکل بے اطلاع ہے۔
 
لبنان میں شدید ترین پابندیوں کے باوجود اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان بھرپور انداز میں ملک کے سیاسی اور دفاعی میدان میں حاضر ہے۔ حزب اللہ لبنان کی مرکزی کونسل کے رکن شیخ نبیل قاووق کے بقول: "جب تک حزب اللہ کے پاس اسلحہ موجود ہے اور جب تک اس کے پاس وفادار حامی ہیں، ایسا دن نہیں آئے گا جب لبنان کے قومی فیصلے امریکہ کی مرضی سے انجام پائیں۔ حزب اللہ لبنان ہمیشہ ملک کی قومی سلامتی، خودمختاری اور حق خود ارادیت کے دفاع کیلئے مضبوط قلعہ ثابت ہو گی۔" لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ آج خطے کی تقدیر اسلامی مزاحمتی بلاک کے ہاتھ میں ہے۔ خطے سے متعلق کوئی ایسا منصوبہ یا پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی جسے اسلامی مزاحمتی بلاک کی حمایت حاصل نہ ہو۔ اس مسئلے میں غاصب صہیونی رژیم، آل سعود رژیم اور تکفیری دہشت گردوں میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔

تحریر: سید جعفر قناد باشی

اسلام ٹائمز

Read 377 times