غزہ جنگ میں اسرائیل کو ہونے والا معاشی نقصان

Rate this item
(0 votes)
غزہ جنگ میں اسرائیل کو ہونے والا معاشی نقصان
سات اکتوبر آپریشن طوفان الاقصیٰ کے بعد سے مسلسل جاری غزہ جنگ میں جہاں فلسطینی عوام کو جانی نقصان اور گھروں کی تباہی کا سامنا ہے، وہاں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو بھی درجن بھر سے زائد مشکلات اور مصائب کا سامنا ہے۔ اس مقالہ میں فقط غاصب صیہونی حکومت کو ہونے والے معاشی نقصان کے بارے میں تفصیلات پیش کی جا رہی ہیں۔ غاصب صیہونی حکومت کی اپنی انویسٹ منٹ ایجنسی جسے اسرائیلی انویسٹ منٹ ایجنسی کہا جاتا ہے، اس بات کا اعتراف کرچکی ہے کہ جنگ کے پہلے بارہ دنوں میں یعنی 09 اکتوبر سے 20 اکتوبر تک اسرائیل کی اسٹاک ایکسچینج سے بیس ارب ڈالر کا سرمایہ نکال لیا گیا تھا۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل سے نکل جانے والے سرمایہ کی کل رقم پچاس ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔

غزہ پر امریکی سرپرستی میں مسلط کردہ صیہونی جنگ کے معاشی اثرات غاصب صیہونی حکومت کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ اس جنگ میں غاصب حکومت کو بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ حال ہی میں غاصب حکومت اسرائیل کے مرکزی بینک نے ایک رپورٹ میں تمام بینکوں کو محتاط انداز میں کام کرنے کی ایڈوائزری جاری کی ہے اور ایک اندازہ کے مطابق کہا ہے کہ جنگ کے سبب اسرائیلی معیشت کو یومیہ 26 سے 30 کروڑ ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے۔ مرکزی بینک کی اسی رپورٹ میں اسرائیلی انویسٹ منٹ ایجنسی کی رپورٹ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ غزہ کے ساتھ غاصب حکومت کی مسلسل جنگ کی وجہ سے معیشت کو 50 ارب ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔

اس موقع پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا غاصب صیہونی حکومت روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے اتنے بڑے معاشی نقصان کو اکیلے ہی برداشت کر لے گی؟ یا اس معاشی نقصان کا بوجھ بھی امریکی شہریوں کے ٹیکس سے ادا کردہ رقم کی صورت میں اسرائیل کو دیا جائے گا؟ دوسری طرف غزہ میں معصوم بچوں اور انسانیت کے قاتل غاصب صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور وزیر خزانہ بیزا لیل سماٹریش پر عوامی دباو بڑھ رہا ہے کہ وہ غاصب اسرائیلی حکومت کے بجٹ پر نظرثانی کریں۔ اسرائیلی انوسٹ منٹ ایجنسی نے جہاں اسٹاک ایکسچینج سے سرمایہ نکالنے کی رپورٹ جاری کی ہے، وہاں ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ جنگ کے باعث غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی کرنسی شیکل 2012ء کے بعد کم ترین سطح پر آچکی ہے۔ غاصب حکومت کے مرکزی بینک کے مطابق جنگ کے باعث اسرائیل کی کرنسی شیکل مسلسل اپنی قدر کھو رہی ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے بلوم برگ کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد امریکی ڈالر کے مقابلے میں اسرائیلی کرنسی شیکل کی قدر میں 0.7 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اسرائیل کے بانڈز اور سٹاکس میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ غزہ پر جاری جنگ علاقائی تنازعے کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ اسرائیل کی وزارت افرادی قوت کا کہنا ہے کہ غزہ پر جنگ کی وجہ سے ورک فورس میں 20 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جنگ کے باعث اسرائیل کی درآمدات اور برآمدات متاثر ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح یہ بھی تصدیق کی گئی ہے کہ ایک ماہ میں غاصب حکومت کے تیس ہزار افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔

غزہ سے مسلسل فلسطینی اسلامی مزاحمت دفاع کر رہی ہے اور غاصب حکومت کے فوجی ٹھکانوں میں غزہ سمیت جنوبی لبنان سے روزانہ کی بنیادوں پر درجنوں اور سینکڑوں راکٹ اور میزائل داغے جا رہے ہیں۔ ان میزائلوں کو روکنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے غاصب صیہونی حکومت کو بے پناہ جنگی نقصان کا سامنا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق غاصب حکومت کو شدید مالی اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسری طرف یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ غزہ جنگ سے پیدا ہونے والی اس ابتر معاشی صورتحال میں بجٹ میں ترامیم کی جائیں اور جنگی بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ بائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے فنڈز میں کٹوتی کے فیصلے پر وزیراعظم نیتن یاہو پر تنقید کی جا رہی ہے۔

ماہرین اقتصادی امور کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کو دفاعی بجٹ میں بہت بڑی رقم کی ضرورت ہے، لیکن اس رقم کی دستیابی کیسے ہوگی، یہ ایک سوال ہے۔ کیونکہ ایک بڑی تعداد سرمایہ داروں کی مقبوضہ فلسطین سے نقل مکانی کر رہی ہے اور اپنا سرمایہ بھی نکال چکی ہے۔ دوسری جانب 300 معاشی ماہرین نے رواں ہفتے نیتن یاہو کو کہا کہ وہ تمام غیر ضروری اخراجات میں کمی کریں، اخراجات پر نظرثانی کریں، کیونکہ جنگ کے بعد امداد اور بحالی کے لیے اربوں ڈالرز کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اسرائیل کی معیشت کا حجم 530 ارب ڈالرز سے زائد ہے اور فی کس آمدن 58 ہزار 273 ڈالرز ہے۔ مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 200 ارب ڈالرز ہیں، جو ایک سال کے درآمدی بل کے برابر ہے۔ غاصب اسرائیل کی معیشت میں خدمات کے شعبے کا حصہ 80 فیصد اور صنعتی شعبے کا شیئر 17 فیصد سے زائد ہے۔ غزہ پر جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے زرمبادلہ کے ذخائر میں سات ارب ڈالرز کی کمی ہوئی ہے اور اب یہ 191.2 ارب ڈالرز تک پہنچ چکے ہیں۔

ماہرین معاشی امور کہتے ہیں کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی معیشت کو امریکہ اور یورپ کے ساتھ ملا کر دیکھیں۔ ہاں اگر اسرائیل اکیلے یہ جنگ لڑ رہا ہوتا تو شاید اب تک اس کی معیشت تباہ ہوچکی ہوتی۔ عالمی ریٹنگ ایجنسی سٹینڈرڈ اینڈ پوور (ایس اینڈ پی) نے حالیہ جنگ کی وجہ سے اسرائیلی معیشت میں پانچ فیصد کمی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ریٹنگ ایجنسی نے آئندہ مہینوں میں اسرائیلی معیشت میں سست روی کا بھی امکان ظاہر کیا ہے۔کاروباری سرگرمیوں میں کمی ہو رہی ہے، صارفین اشیاء کی خریداری کم کر رہے ہیں، جس سے ڈیمانڈ میں کمی ہو رہی ہے اور سرمایہ کاری کے ماحول پر غیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کا بجٹ خسارہ اکتوبر میں ملک کی مجموعی پیدوار "جی ڈی پی" کا 2.6 فیصد تک پہنچ چکا ہے، جو کہ ستمبر میں 1.5 فیصد تھا۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے 2022ء میں 35 سال بعد جی ڈی پی کا 0.6 فیصد بجٹ سرپلس دیا تھا۔ جنگی اخراجات کے باعث اسرائیل کا بجٹ خسارہ 2024ء میں 3.5 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔ گذشتہ سال 2022ء میں اسرائیل کی معاشی شرح نمو "جی ڈی پی" کا 6.5 فیصد تھی۔

ایس اینڈ پی کے مطابق رواں سال اسرائیل کی جی ڈی پی 1.5 فیصد تک رہے گی، جبکہ اگلے سال 2024ء میں جی ڈی پی 5 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ غاصب اسرائیل کے مرکزی بینک کے مطابق 2023ء میں اسرائیل کی معاشی شرح نمو 2.3 فیصد تک رہ سکتی ہے جبکہ اگلے سال 2024ء میں معاشی شرح نمو 2.8 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے اسلحے کی برآمدات بری طرح متاثر ہوسکتی ہیں۔ اسرائیلی اسلحے کی برآمدات مجموعی برآمدات کا پانچ فیصد ہیں، جبکہ طویل جنگ کی وجہ سے اسرائیل کی سیاحت بھی متاثر ہو سکتی ہے، کیونکہ جنگ کے بعد بڑی فضائی کمپنیوں کی اسرائیل کے لیے پروازیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ جنگ کی وجہ سے اسرائیل کا قرض بلحاظ جی ڈی پی 60 فیصد تک پہنچ چکا ہے، جو اگلے سال تک 55 فیصد تک رہنے کا اندازہ تھا۔ مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک پر گہری نظر رکھنے والے ماہر شفقت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ امریکی اور یورپی یہودیوں کا بینکنگ، معیشت اور میڈیا پر پورا کنٹرول ہے، امریکی کانگریس میں بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی سینیٹر اسرائیل کی مخالفت کرے۔

ماہر معیشت شاہد محمود نے کہا کہ جنگ کے باعث اسرائیل کے اسلحے کی فروخت، دفاعی برآمدات اور ہائی ٹیک شعبوں میں سرمایہ کاری متاثر ہوسکتی ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق غاصب صیہونی حکومت کے مرکزی بینک نے اسرائیل کو جنگ کے لیے 45 ارب ڈالرز فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ امریکی کانگریس نے اسرائیل کو 14 ارب ڈالرز سے زائد کے امدادی پیکیج کی منظوری دی ہے۔ امریکی کانگریس ریسرچ سروس کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے لیے اسرائیل کو فوج کے لیے 3.3 ارب ڈالرز مختص کیے ہیں۔ ماہر معاشی امورکا کہنا ہے کہ اسرائیل کو جنگ میں جتنا مالی نقصان ہوتا ہے، امریکہ اور یورپ اس کی مدد کرتے ہیں۔ "1948 سے آج تک لڑی جانیوالی تمام جنگیں اسرائیل نے امریکہ اور یورپ کے ساتھ مل کر لڑی ہیں، اسرائیل نے آج تک کوئی جنگ اکیلے نہیں لڑی، اسرائیل کی وار مشینری میں بھی اتنی طاقت نہیں کہ وہ اکیلے یہ جنگ لڑ سکے۔"

انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک سٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج میں ایک لاکھ 69 ہزار 500 اہلکار موجود ہیں جبکہ چار لاکھ 65 ہزار افراد ریزرو فوج کا حصہ ہیں۔ اسرائیل کی بری فوج کے پاس 2200 ٹینکس اور 530 آرٹلریز ہیں۔ اسرائیل کے پاس جدید ترین موبائل ایئر ڈیفنس موجود ہے، جو چھوٹی رینج کے راکٹس کو پکڑنے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسرائیلی کی فضائیہ کے پاس 339 جنگی لڑاکا طیارے ہیں جن، میں 196 ایف 16، 83 ایف 15 اور 30 ایف 35 لڑاکا طیارے بھی موجود ہیں۔ اسرائیل کے پاس پانچ جدید ترین سب میرینز بھی ہیں۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے دفاع کی مد میں 2023ء میں 23.4 ارب ڈالرز خرچ کیے۔ انڈیا اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ گذشتہ چار برسوں میں انڈیا نے اسرائیل سے ایک ارب 19 کروڑ ڈالرز کا اسلحہ خریدا۔ انڈیا کے بعد آذربائیجان، فلپائن اور امریکہ اسرائیلی اسلحے کے بڑے خریدار ہیں۔ اسرائیل امریکہ اور جرمنی سے اسلحے کی بڑی خریداری کرتا ہے۔
 
 
 تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
Read 191 times