شام میں حکومت کیخلاف لڑنے والوں نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ گذشتہ ہفتے مسلح دھڑوں نے اچانک حملہ کرکے حلب، پھر حماہ اور اس کے بعد حمص کے شمالی دیہی علاقوں اور جنوب کے حصوں پر قبضہ کر لیا۔ ایران اپنی سلامتی یقینی بنانے کے حوالے سے شام کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ شام میں ایران نے اسد حکومت کو سہارا دینے کیلئے اچھا خاصا کام کیا تھا۔ شام کی فوج کا ڈھانچہ کھڑا کرنے میں ایران کی مالی اور تکنیکی دونوں طرح کی معاونت شامل تھی۔ اگر شام کی فوج ختم ہوئی تو یہ مشرق وسطیٰ کیلئے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ شامی فوج کا یہ سقوط افراتفری، کمزوری اور سکیورٹی کی خلاف ورزیوں کے بغیر واقع نہیں ہوسکتا تھا۔ ایران نے شام سے اپنے بیشتر مشیر اور رہنماء اسرائیلی فوج کے ہاتھوں قتل کے خدشے کے پیشِ نظر واپس بلا لیے تھے۔ شام کی حشد ملیشیا کو فاطمیون، زینبیون اور حزب اللہ سے الگ کرنے کے بعد جنوبی لبنان کے محاذ پر تعینات کر دیا گیا تھا۔
پتا چلا ہے کہ یوکرین میں جنگ چھیڑنے کے بعد روس نے بھی شام سے اپنے فوجی اور ساز و سامان نکالنا شروع کر دیا تھا۔ ویگنر گروپ کو بھی واپس بلا لیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں شامی فوج کی پوزیشن بہت کمزور ہوگئی تھی۔ اب پہلا منظرنامہ یہ ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن کے دھڑے دمشق پر قبضہ کرکے فوج کو شکست دے کر شدت پسند اسلامی حکومت قائم کر لیں۔ ایک ممکنہ منظرنامہ یہ بھی ہے کہ شام کی حکومت اپوزیشن کے دھڑوں کو شکست دے کر وہی صورتحال پیدا کر دے، جو 2016ء میں تھی۔ تیسری ممکن صورت یہ ہوسکتی ہے کہ شام کو تین چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ مرکزی حکومت دمشق میں ہو۔ حلب میں اسلامی حکومت قائم ہو اور باقی علاقوں پر ایک کرد حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کی رپورٹ کے مطابق چند روزہ لڑائی میں 800 سے زائد افراد ہلاک اور 3 لاکھ سے زائد شہری بے گھر ہوچکے ہیں۔
اب بھی گذشتہ شب کی اطلاعات ہیں کہ اسرائیلی طیاروں نے دمشق میں فوجی ہیڈکوارٹرز پر حملے کئے ہیں۔ دمشق کے ہوٹلز میں مقیم پاکستانی زائرین نے اس حوالے سے اطلاع دی کہ رات طیاروں کی گھن گرج اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں، جبکہ گلیوں میں بھی شہری جشن مناتے ہوئے ہوائی فائرنگ کرتے رہے۔ معزول شامی صدر بشار الاسد بھی منظر عام پر آچکے ہیں اور انہوں نے روس میں سیاسی پناہ لی ہوئی ہے۔ پہلے کہا جا رہا تھا کہ ان کا طیارہ ریڈار سے غائب ہوگیا ہے۔ کچھ اطلاعات تھیں کہ انہیں اسرائیل نے نشانہ بنا دیا ہے۔ لیکن اب ساری گرد بیٹھنے کے بعد بشار الاسد کے روس میں سیاسی پناہ لینے کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ بشار الاسد کو ناکامی کیوں ہوئی؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر زبان پر ہے۔ اس کی وجہ یہ پتہ چلی ہے کہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بشارالاسد کو کچھ خطرناک منصوبوں سے آگاہ کیا تھا۔ لیکن بشارالاسد نے اس پر توجہ نہ دی اور یوں اسی جال میں پھنس گئے، جس کا اشارہ آیت اللہ خامنہ ای نے دیا تھا۔
شنید ہے کہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بشارالاسد کو 21 مئی 2024ء کو ہی متنبہ کر دیا تھا کہ مغرب نے شام کیلئے خفیہ نقشہ بنایا ہوا ہے، مغربی ممالک اور اس خطے میں ان کے جانشینوں نے اس ملک کے سیاسی نظام کو اکھاڑ پھینکنے اور شام کیخلاف جنگ کے ذریعے شام کو علاقائی مساوات سے دور کرنے کا منصوبہ بنایا، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے اور اب وہ دوسرے طریقے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جن میں ایسے وعدے بھی شامل ہیں، جو کبھی پورے نہیں ہوںگے۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ وہ شام کو علاقائی معاملات سے ہٹانے کیلئے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بشار الاسد کو جب جنگ کے ذریعے تسلیم نہیں کروا سکے، تو اسے عرب لیگ کا دھوکہ دے کر تنہائی سے نکالنے کا دھوکہ دیا گیا۔ بشار الاسد اس دھوکے میں آکر محور مقاومت کیساتھ ہمکاری کرنے میں لیت و لعل کرچکا تھا۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اسے سمجھایا تھا کہ یہ جو عرب لیگ کا وعدہ دیا گیا ہے، یہ درحقیقت محورِ مقاومت سے دور کرنے کیلئے جھانسہ دیا جا رہا ہے۔
لیکن لگتا ہے کہ بشار الاسد نے اس پیغام کو سنجیدہ نہیں لیا تھا۔ عربوں پر اعتماد کرکے اپنی ہی قبر کھود لی اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بشار الاسد نے اپوزیشن گروہ کیساتھ باقاعدہ ڈیل کی ہے اور ڈیل کرکے ہی اسے راستہ دیا گیا کہ وہ محفوظ طریقے سے شام چھوڑ دیں، باقی معاملات وزیراعظم کے سپرد کر دیئے گئے اور وزیراعظم کو ہدایت کی گئی کہ وہ انتقال اقتدار کے معاملات نمٹائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بشار الاسد کی دمشق سے روانگی سے قبل وزیراعظم نے فوری اپنا ویڈیو پیغام جاری کر دیا اور کہا کہ وہ شام کے شہری ہیں اور شام نہیں چھوڑیں گے، البتہ اپوزیشن گروہ کو اقتدار کی منتقلی کے بعد بھی وہ شام میں ہی رہیں گے۔ ادھر روس کے وزیر خارجہ نے بیان دیا کہ ہم شام میں ہونیوالے ڈرامائی واقعات کو انتہائی تشویش کیساتھ دیکھ رہے ہیں۔ بشارالاسد اور شامی عرب جمہوریہ میں مسلح تصادم کے متعدد شرکاء کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں انہوں نے صدارتی عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور پُرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کی ہدایات دیتے ہوئے ملک چھوڑ دیا۔
روس نے ان مذاکرات میں حصہ نہیں لیا۔ اس کیساتھ ہی، ہم تمام فریقین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تشدد کے استعمال کو ترک کریں اور حکمرانی کے تمام مسائل کو سیاسی طریقوں سے حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں روسی فیڈریشن شامی اپوزیشن کے تمام گروپوں سے رابطے میں ہے۔ ہم شامی معاشرے کی تمام قوتوں کی رائے کا احترام کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متفقہ طور پر منظور کردہ قرارداد 2254 کی بنیاد پر ایک جامع سیاسی عمل کے قیام کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ اور تمام دلچسپی رکھنے والے ان طریقوں کو مدنظر رکھیں گے، بشمول شام کیلئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے، جارج پیڈرسن کے اقدام کے نفاذ کے تناظر میں، فوری طور پر بین شامی جامع مذاکرات کو منظم کرنے کیلئے، ساتھ ہی شام میں اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے تمام ضروری اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
شام میں روسی فوجی اڈے ہائی الرٹ ہیں۔ فی الحال ان کی سلامتی کو کوئی سنگین خطرہ نہیں۔ ادھر امریکہ نے بھی شام میں اپنی مداخلت کا کھلا اعتراف کر لیا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے روزویلٹ روم میں خطاب میں اعتراف کیا کہ انہوں نے شام کیلئے تین جہتی پالیسی کا احاطہ کیا، جس میں اتحادیوں کیلئے امداد، سفارت کاری اور فوجی قوت کا استعمال شامل ہے۔ دوسری جانب ایران نے بھی شام کی صورتحال پر اپنے ردعمل میں واضح کیا ہے کہ شامی صدر نے ایران سے کوئی مدد طلب نہیں کی تھی۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ معزول شامی صدر بشار الاسد نے ایران کو مداخلت کیلئے نہیں تھا، کیونکہ اپوزیشن گروہ دمشق کی جانب تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ذمہ داری بنیادی طور پر شامی فوج کی تھی، یہ ہماری ذمہ داری نہیں تھی اور نہ ہم نے کبھی اسے اپنا فرض سمجھا۔ عباس عراقچی نے کہا کہ حیرت انگیز طور پر شامی فوج دمشق کی جانب اپوزیشن گروہوں کی پیش قدمی روکنے میں ناکام رہی۔
مبصرین کے مطابق بشارالاسد دل چھوڑ چکے تھے اور اپوزیشن گروہ کیساتھ مذاکرات میں اپنے اقتدار کی بازی ہار بیٹھے تھے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایران، چین اور روس سمیت کسی بھی اتحادی سے مدد طلب نہیں کی۔ اس کے علاوہ بشار الاسد کو یہ بھی یقین ہوگیا تھا کہ وہ ’’عربوں کی چال‘‘ میں پھنس گئے ہیں اور انہیں اب آگے کوئی راستہ دکھائی نہیں دیا تو انہوں نے اقتدار کے ایوانوں سے نکلنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اب شام میں کیا ہوگا؟ اس سوال پر ہر صاحبِ فکر پریشان ہے۔ اس حوالے سے جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں، ان کے مطابق شام کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ کردوں کو الگ سے ایک علاقہ دیدیا جائے گا۔ ایک حصہ مرکز ہوگا، جس میں حکومت قائم کی جائے گی، جبکہ تیسرا حصہ اپوزیشن مسلح گروہ جو اکثریت میں ہیں، ان کیلئے ایک الگ اسلامی ریاست بنا دی جائے گی۔ یوں لڑائیوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ تاہم ہمسایہ ممالک اور ایران ’’تیل دیکھو، اور تیل کی دھار دیکھو‘‘ کے مصداق صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور ممکن ہے کہ نئی عبوری حکومت کیساتھ بھی ایران اپنے تعلقات بنانے میں کامیاب ہو جائے۔
پتا چلا ہے کہ یوکرین میں جنگ چھیڑنے کے بعد روس نے بھی شام سے اپنے فوجی اور ساز و سامان نکالنا شروع کر دیا تھا۔ ویگنر گروپ کو بھی واپس بلا لیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں شامی فوج کی پوزیشن بہت کمزور ہوگئی تھی۔ اب پہلا منظرنامہ یہ ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن کے دھڑے دمشق پر قبضہ کرکے فوج کو شکست دے کر شدت پسند اسلامی حکومت قائم کر لیں۔ ایک ممکنہ منظرنامہ یہ بھی ہے کہ شام کی حکومت اپوزیشن کے دھڑوں کو شکست دے کر وہی صورتحال پیدا کر دے، جو 2016ء میں تھی۔ تیسری ممکن صورت یہ ہوسکتی ہے کہ شام کو تین چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ مرکزی حکومت دمشق میں ہو۔ حلب میں اسلامی حکومت قائم ہو اور باقی علاقوں پر ایک کرد حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کی رپورٹ کے مطابق چند روزہ لڑائی میں 800 سے زائد افراد ہلاک اور 3 لاکھ سے زائد شہری بے گھر ہوچکے ہیں۔
اب بھی گذشتہ شب کی اطلاعات ہیں کہ اسرائیلی طیاروں نے دمشق میں فوجی ہیڈکوارٹرز پر حملے کئے ہیں۔ دمشق کے ہوٹلز میں مقیم پاکستانی زائرین نے اس حوالے سے اطلاع دی کہ رات طیاروں کی گھن گرج اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں، جبکہ گلیوں میں بھی شہری جشن مناتے ہوئے ہوائی فائرنگ کرتے رہے۔ معزول شامی صدر بشار الاسد بھی منظر عام پر آچکے ہیں اور انہوں نے روس میں سیاسی پناہ لی ہوئی ہے۔ پہلے کہا جا رہا تھا کہ ان کا طیارہ ریڈار سے غائب ہوگیا ہے۔ کچھ اطلاعات تھیں کہ انہیں اسرائیل نے نشانہ بنا دیا ہے۔ لیکن اب ساری گرد بیٹھنے کے بعد بشار الاسد کے روس میں سیاسی پناہ لینے کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ بشار الاسد کو ناکامی کیوں ہوئی؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر زبان پر ہے۔ اس کی وجہ یہ پتہ چلی ہے کہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بشارالاسد کو کچھ خطرناک منصوبوں سے آگاہ کیا تھا۔ لیکن بشارالاسد نے اس پر توجہ نہ دی اور یوں اسی جال میں پھنس گئے، جس کا اشارہ آیت اللہ خامنہ ای نے دیا تھا۔
شنید ہے کہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بشارالاسد کو 21 مئی 2024ء کو ہی متنبہ کر دیا تھا کہ مغرب نے شام کیلئے خفیہ نقشہ بنایا ہوا ہے، مغربی ممالک اور اس خطے میں ان کے جانشینوں نے اس ملک کے سیاسی نظام کو اکھاڑ پھینکنے اور شام کیخلاف جنگ کے ذریعے شام کو علاقائی مساوات سے دور کرنے کا منصوبہ بنایا، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے اور اب وہ دوسرے طریقے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جن میں ایسے وعدے بھی شامل ہیں، جو کبھی پورے نہیں ہوںگے۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ وہ شام کو علاقائی معاملات سے ہٹانے کیلئے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بشار الاسد کو جب جنگ کے ذریعے تسلیم نہیں کروا سکے، تو اسے عرب لیگ کا دھوکہ دے کر تنہائی سے نکالنے کا دھوکہ دیا گیا۔ بشار الاسد اس دھوکے میں آکر محور مقاومت کیساتھ ہمکاری کرنے میں لیت و لعل کرچکا تھا۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اسے سمجھایا تھا کہ یہ جو عرب لیگ کا وعدہ دیا گیا ہے، یہ درحقیقت محورِ مقاومت سے دور کرنے کیلئے جھانسہ دیا جا رہا ہے۔
لیکن لگتا ہے کہ بشار الاسد نے اس پیغام کو سنجیدہ نہیں لیا تھا۔ عربوں پر اعتماد کرکے اپنی ہی قبر کھود لی اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بشار الاسد نے اپوزیشن گروہ کیساتھ باقاعدہ ڈیل کی ہے اور ڈیل کرکے ہی اسے راستہ دیا گیا کہ وہ محفوظ طریقے سے شام چھوڑ دیں، باقی معاملات وزیراعظم کے سپرد کر دیئے گئے اور وزیراعظم کو ہدایت کی گئی کہ وہ انتقال اقتدار کے معاملات نمٹائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بشار الاسد کی دمشق سے روانگی سے قبل وزیراعظم نے فوری اپنا ویڈیو پیغام جاری کر دیا اور کہا کہ وہ شام کے شہری ہیں اور شام نہیں چھوڑیں گے، البتہ اپوزیشن گروہ کو اقتدار کی منتقلی کے بعد بھی وہ شام میں ہی رہیں گے۔ ادھر روس کے وزیر خارجہ نے بیان دیا کہ ہم شام میں ہونیوالے ڈرامائی واقعات کو انتہائی تشویش کیساتھ دیکھ رہے ہیں۔ بشارالاسد اور شامی عرب جمہوریہ میں مسلح تصادم کے متعدد شرکاء کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں انہوں نے صدارتی عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور پُرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کی ہدایات دیتے ہوئے ملک چھوڑ دیا۔
روس نے ان مذاکرات میں حصہ نہیں لیا۔ اس کیساتھ ہی، ہم تمام فریقین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تشدد کے استعمال کو ترک کریں اور حکمرانی کے تمام مسائل کو سیاسی طریقوں سے حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں روسی فیڈریشن شامی اپوزیشن کے تمام گروپوں سے رابطے میں ہے۔ ہم شامی معاشرے کی تمام قوتوں کی رائے کا احترام کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متفقہ طور پر منظور کردہ قرارداد 2254 کی بنیاد پر ایک جامع سیاسی عمل کے قیام کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ اور تمام دلچسپی رکھنے والے ان طریقوں کو مدنظر رکھیں گے، بشمول شام کیلئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے، جارج پیڈرسن کے اقدام کے نفاذ کے تناظر میں، فوری طور پر بین شامی جامع مذاکرات کو منظم کرنے کیلئے، ساتھ ہی شام میں اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے تمام ضروری اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
شام میں روسی فوجی اڈے ہائی الرٹ ہیں۔ فی الحال ان کی سلامتی کو کوئی سنگین خطرہ نہیں۔ ادھر امریکہ نے بھی شام میں اپنی مداخلت کا کھلا اعتراف کر لیا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے روزویلٹ روم میں خطاب میں اعتراف کیا کہ انہوں نے شام کیلئے تین جہتی پالیسی کا احاطہ کیا، جس میں اتحادیوں کیلئے امداد، سفارت کاری اور فوجی قوت کا استعمال شامل ہے۔ دوسری جانب ایران نے بھی شام کی صورتحال پر اپنے ردعمل میں واضح کیا ہے کہ شامی صدر نے ایران سے کوئی مدد طلب نہیں کی تھی۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ معزول شامی صدر بشار الاسد نے ایران کو مداخلت کیلئے نہیں تھا، کیونکہ اپوزیشن گروہ دمشق کی جانب تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ذمہ داری بنیادی طور پر شامی فوج کی تھی، یہ ہماری ذمہ داری نہیں تھی اور نہ ہم نے کبھی اسے اپنا فرض سمجھا۔ عباس عراقچی نے کہا کہ حیرت انگیز طور پر شامی فوج دمشق کی جانب اپوزیشن گروہوں کی پیش قدمی روکنے میں ناکام رہی۔
مبصرین کے مطابق بشارالاسد دل چھوڑ چکے تھے اور اپوزیشن گروہ کیساتھ مذاکرات میں اپنے اقتدار کی بازی ہار بیٹھے تھے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایران، چین اور روس سمیت کسی بھی اتحادی سے مدد طلب نہیں کی۔ اس کے علاوہ بشار الاسد کو یہ بھی یقین ہوگیا تھا کہ وہ ’’عربوں کی چال‘‘ میں پھنس گئے ہیں اور انہیں اب آگے کوئی راستہ دکھائی نہیں دیا تو انہوں نے اقتدار کے ایوانوں سے نکلنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اب شام میں کیا ہوگا؟ اس سوال پر ہر صاحبِ فکر پریشان ہے۔ اس حوالے سے جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں، ان کے مطابق شام کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ کردوں کو الگ سے ایک علاقہ دیدیا جائے گا۔ ایک حصہ مرکز ہوگا، جس میں حکومت قائم کی جائے گی، جبکہ تیسرا حصہ اپوزیشن مسلح گروہ جو اکثریت میں ہیں، ان کیلئے ایک الگ اسلامی ریاست بنا دی جائے گی۔ یوں لڑائیوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ تاہم ہمسایہ ممالک اور ایران ’’تیل دیکھو، اور تیل کی دھار دیکھو‘‘ کے مصداق صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور ممکن ہے کہ نئی عبوری حکومت کیساتھ بھی ایران اپنے تعلقات بنانے میں کامیاب ہو جائے۔