آج دنیا میں کئی پیچیدہ چیلنجز اور عالمی بحران موجود ہیں۔ اس صورت حال میں اسٹریٹجک خصوصیات کے حامل کمانڈروں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جاتی ہے۔ ایسے کمانڈر جن میں ایمان، خلوص اور انسانیت کی رہنمائی کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔ ایسے ہی ایک کمانڈر قاسم سلیمانی تھے۔ آج حکومتوں کی اہم پریشانیوں میں سے ایک موثر اور قابل مینیجروں اور کمانڈروں کی کمی ہے۔ وہ کمانڈر جو ملک میں ترقی اور نمو کی طاقت بڑھا سکتے ہوں۔ حضرت امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "سب سے زیادہ رہنمائی کے حقدار وہ ہیں، جو کاموں کو انجام دینے میں سب سے زیادہ قابل اور خدا کے حکم سے مسائل کو سمجھنے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہوں۔" ایران کے اسلامی معاشرے میں انقلاب اسلامی کی فتح سے لے کر آج تک بالخصوص دفاع مقدس کے آٹھ سالہ دور میں قابل قدر کمانڈر اور منیجر و منتظم پیدا ہوئے، جنہوں نے ہمیشہ اسلامی اصولوں کو معاشرے میں نافذ کرنے کی کوشش کی۔ یہ کمانڈر سب کے لیے ایک نمونہ اور آئیڈیل بن کر سامنے آئے۔ ایسے کمانڈروں کا مکتب واضح کرنا بہت ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے انقلاب اسلامی کے ایک کمانڈر کی خصوصیات کے بارے میں فرمایا ہے "ایک کمانڈر کے اندر قیادت کا جوہر ہونا ضروری ہے۔ کمانڈ صرف حکم دینا نہیں ہے۔ قیادت ایک روحانی معاملہ ہے۔ قیادت اور نظم و نسق کی ایک جامع قسم جو دماغ، جذبات، عمل اور روح سے جڑی ہوئی ہے۔ وہی چیز جو مسلح افواج میں مکمل کارکردگی کا باعث بنتی ہے۔" ایک مشہور فوجی تھیوریسٹ سانتزو کا یہ بھی ماننا ہے کہ ایک اچھے کمانڈر میں "حکمت"، "انصاف پسندی"، "انسانیت"، "حوصلے" اور "فوجی طاقت اور استقامت" جیسی خصوصیات ہونی چاہئیں۔ اس کی حکمت اسے حالات و واقعات کی تبدیلیوں اور پیشرفت کو آسانی سے سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کی انصاف پسندی اس کے ماتحتوں کو بروقت اور مناسب حوصلہ افزائی اور اعتماد دیتی ہے۔ اس کی انسانیت پرہیزگاری اور دوسروں کے ساتھ مشترکہ جذبات کا باعث بنتی ہے۔ اپنی بہادری اور جرأت سے وہ شکوک و شبہات کے سائے میں فتح حاصل کرتا ہے اور صحیح وقت سے صحیح فائدہ اٹھا کر اپنے ماتحت لوگوں کو سخت نظم و ضبط کا پابند بناتا ہے۔
شہید حاج قاسم سلیمانی، آج کے سب سے نمایاں فوجی اور اسٹریٹجک کمانڈروں میں سے ایک ہیں اور وہ مزاحمتی محاذ کے کمانڈروں میں ایک منفرد نمونہ تصور کئے جاتے ہیں۔ وہ نہ صرف میدان جنگ میں بلکہ سفارت کاری کے میدان میں بھی ایک بہترین رہنماء کی کامیاب مثال پیش کرنے میں کامیاب رہے۔ بہادری اور قربانی کے جذبے، ہوشیار منصوبہ بندی اور حکمت عملی، اتحاد و یکجہتی اور عوام سے قربت بالخصوص شہید سلیمانی کے خلوص نے انہیں ایک منفرد اور مثالی کمانڈر بنا دیا تھا۔ شہید سلیمانی ہمیشہ فرنٹ لائن میں رہے اور انہوں نے انتہائی مشکل حالات میں مثالی حوصلے کے ساتھ اپنی فوج کی قیادت کی۔ میدان جنگ میں ان کی موجودگی مجاہدین کے حوصلے بلند کرنے کا باعث بنتی تھی۔ ان کی کمانڈ کی ایک اور نمایاں خصوصیت مختلف قومیتوں اور مذاہب کی مزاحمتی قوتوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی صلاحیت تھی۔ قاسم سلیمانی، ایک کمانڈر کے طور پر، ہمیشہ گروپوں کے درمیان اندرونی اختلافات کو کم کرنے اور انہیں مشترکہ مقاصد کے مطابق متحد کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
وہ نہ صرف فوجی کمانڈر تھے بلکہ ایک عاجز اور حلیم انسان بھی تھے۔ انہوں نے نمود و نمائش اور عیش و عشرت سے ہمیشہ گریز کیا اور جنگجوؤں اور عام لوگوں سے گہرا تعلق رکھا۔ اس خصوصیت کی وجہ سے لوگوں میں ان کی مقبولیت ہمیشہ قائم و دائم رہی۔ عظیم ایرانی جنرل فوجی آپریشنز کی پلاننگ اور دشمنوں سے نمٹنے میں درست اور جدید حکمت عملی استعمال کرتے تھے۔ اس حکمت عملی کی سب سے اہم مثال عراق اور شام میں دہشت گرد گروہ داعش کی شکست تھی، جو شہید قاسم سلیمانی کے انتظام، مزاحمتی قوتوں اور مقامی فوجوں کے درمیان ہم آہنگی سے حاصل ہوئی۔ ISIS یا داعش القاعدہ سے الگ ہوا ایک تکفیری گروپ ہے، جس نے عراق میں خلافت کا اعلان کیا تھا اور کچھ عرصہ قبل عراق اور شام کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنے اور اس خطے میں عدم تحفظ اور خوف پیدا کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ ایران نے اس گروپ سے جنگ شروع کر دی، تاکہ سلامتی کو برقرار رکھا جائے اور خطے کو کنٹرول کیا جا سکے۔
شہید سلیمانی کی کمان میں فاطمیون ڈویژن اور زینبیون بریگیڈ سمیت مختلف فورسز داعش اور باغی افواج سے لڑنے کے لیے شام گئے اور اس دہشت گرد گروہ کو مہلک ضربیں پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ پھر 2014ء میں جب موصل شہر پر داعش نے قبضہ کر لیا اور عراق کا دارالحکومت بغداد تباہی کے دہانے پر چلا گیا۔ ایک بار پھر، قاسم سلیمانی نے حشد الشعبی فورسز کے ایک حصے کو منظم کرکے داعش کو عراق سے نکالنے میں موثر کردار ادا کیا۔ اس وقت عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی نے قاسم سلیمانی کو داعش کے خلاف جنگ میں عراق کے اہم اتحادیوں میں سے ایک قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای کے نام ایک خط، جو 30 نومبر 2017ء کو ایرانی میڈیا میں شائع ہوا، شہید حاج قاسم سلیمانی نے عراقی سرحد کے قریب واقع شامی شہروں میں سے ایک البوکمال میں داعش کے خاتمے اور شامی پرچم کو بلند کرنے کا اعلان کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے داعش کی حکومت کے خاتمے کے بارے میں قاسم سلیمانی کے خط کے جواب میں فرمایا۔
"آپ نے داعش کے ناسور اور مہلک گروہ کو ختم کرکے نہ صرف خطے کے ممالک اور عالم اسلام بلکہ تمام اقوام اور انسانیت کے لیے ایک عظیم خدمت انجام دی ہے۔ رہبر معظم حاج قاسم کی شہادت کے بعد ان کے گھر تعزیت و تسلیت کے لئے تشریف لے گئے تو سوگواران سے انتہائی خوبصورت انداز میں حاج قاسم کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ فرمایا: ”حاج قاسم متعدد بار شہادت کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے، لیکن راہ ِخدا میں پیش قدمی، فرائض کی انجام دہی اور جہاد کی بات ہو تو وہ کسی اور چیز کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔ دنیا کے خبیث ترین افراد یعنی امریکیوں کے ہاتھوں جنرل سلیمانی کی شہادت اور اس جرم پر امریکیوں کا فخر کرنا اس شجاع مجاہد کے لئے ایک بڑی خصوصیت ہے۔ ان کا جہاد بہت عظیم تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی شہادت کو بھی عظیم شہادت قرار دیا، یہ عظیم نعمت الحاج قاسم کو مبارک ہو، جو اس کے سزاوار تھے۔“
جب شہید حاج قاسم کو فوجی اعزاز ”نشانِ ذوالفقار“ سے نوازا گیا تو اس وقت بھی رہبر انقلابِ اسلامی نے ان کی توصیف کے لئے نہایت خوبصورت الفاظ کا چناؤ کیا۔ آپ نے فرمایا: ”راہِ خدا میں مجاہدت کا صلہ جو ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جان و مال ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھنے کے عوض جوصلہ رکھا ہے، وہ بہشت ہے، رضائے پروردگار ہے۔ ہمارے اختیار میں جو چیز ہے، خواہ وہ زبانی شکریہ ہو، یا عملی اظہار تشکر ہو، یا یہ نشان عطا کرنا ہو یا جو رینک ہم دے سکتے ہیں، یہ ساری چیزیں مادی اور دنیاوی حساب کتاب کے اعتبار سے قابلِ ذکر ہیں، روحانی و الوہی حساب کتاب میں ان کی کوئی بساط نہیں ہے۔ الحمد للہ آپ سب نے یہ جدوجہد انجام دی ہے، محنت کی ہے۔ الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ان برادر عزیز جناب سلیمانی کو بھی توفیقات سے نوازا۔
بارہا، بارہا، بارہا ایسا ہوا کہ آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈالی اور وہاں پہنچے، جو جگہ دشمن کے حملوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ راہ خدا میں، برائے خدا اور خالصتاً لوجہ اللہ آپ نے جہاد کیا۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کو اجر عطا فرمائے، آپ پر کرم کرے اور آپ کی زندگی کو باسعادت فرمائے اور آپ کو شہادت نصیب کرے۔ البتہ ابھی نہیں۔ ابھی تو اسلامی جمہوریہ کو برسوں آپ کی ضرورت ہے۔ لیکن بالآخر ان شاء اللہ زندگی کا سفر شہادت کی منزل پر ہو۔ آپ کو (یہ نشان) بہت بہت مبارک ہو۔“ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج میں اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز سربراہان کو دیا جاتا ہے، جن کے جنگی کارروائیوں کی منصوبہ بندی، حکمت عملی اور دیگر اقدامات مطلوبہ نتائج کے حامل ہوں۔ لیکن جس چیز نے شہید سلیمانی کو مقبول اور ہردلعزیز بنا دیا تھا، وہ صرف ان کی کمانڈنگ پاور نہ تھی بلکہ وہ ایک متقی شخص تھے، جنہوں نے اپنے آپ کو خدا کے لئے وقف کر رکھا تھا۔
وہ خدا کو یاد کرنے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے۔ اول وقت کی نماز کو اہمیت دی، قرآن پاک سے محبت کرتے اور اس کے احکام پر عمل کرتے۔ وہ اسلامی نظام کے قوانین کی پاسداری کرتے تھے اور نظام ولایت فقیہ کے وفادار تھے اور اپنے تمام فرائض کی ادائیگی میں پوری سنجیدگی سے کام کرتے تھے۔ صدر اسلام کے مجاہدین کی طرح فرنٹ لائن پر حاضر رہتے اور ہر وقت شہادت کے متمنی رہتے تھے۔ شہید قاسم سلیمانی جرآت،قربانی اور خلوص کی علامت ہیں۔ وہ اپنے نظم و نسق، پختہ ایمان اور بے مثال ایثار و قربانی سے دنیا کے فوجی کمانڈروں اور سیاسی رہنماؤں کے لیے نمونہ بن گئے ہیں۔ ان کی یاد اور راستہ نہ صرف ایران بلکہ آزادی اور انصاف کی خواہاں تمام اقوام کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہے گا۔
شہید حاج قاسم سلیمانی کو علامہ اقبال کا مرد مومن نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔
ہر لحظہ ہے مومن کي نئی شان، نئی آن
گفتار ميں، کردار ميں، اللہ کي برہان!
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
يہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسايہء جبريل اميں بندئہ خاکی
ہے اس کا نشيمن نہ بخارا نہ بدخشان
يہ راز کسي کو نہيں معلوم کہ مومن
قاري نظر آتا ہے، حقيقت ميں ہے قرآن!
قدرت کے مقاصد کا عيار اس کے ارادے
دنيا ميں بھي ميزان، قيامت ميں بھي ميزان
جس سے جگر لالہ ميں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم
درياؤں کے دل جس سے دہل جائيں، وہ طوفان
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی