نومنتخب امریکی صدر واضح طور پر مخبوط الحواس ہونیکا ثبوت دے رہے ہیں۔ لیکن فلسطین، غزہ اور حماس کے بارے میں خائن عرب حکمرانوں کا رویہ صیہونی اور امریکی حکمرانوں کے لئے جسارت کا سبب بن رہا ہے۔ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے صدارتی طیارے سے غزہ کے باشندوں کو مصر اور اردن منتقل کرنے کے خیال پر بات شروع کی تھی اور پھر اس نے اس بات کو دو ملاقاتوں میں صحافیوں سے دہرایا اور اب نتن یاہو سے ملاقات اور پریس کانفرنس میں غزہ پر ہمیشہ کیلئے امریکی قبضے کے منصوبے کا کھل کر اظہار کیا۔ اگرچہ اس تجویز کو اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی اور مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی کی طرف سے فوری طور پر سختی سے مسترد کیا گیا۔ اسی طرح 6 عرب ممالک فلسطین، مصر، اردن، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے اس تجویز کو مشترکہ طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی سرزمین کو اس کے اصل مالکان سے خالی کرانا یا فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکالنا، کسی صورت میں اور کسی بھی جواز کے تحت قبول نہیں کیا جائے گا اور بعد میں سعودی عرب کا موقف بھی سامنے آگیا۔
لیکن اس کے باوجود ٹرمپ اپنے اس مذموم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر سو فیصد یقین رکھتا ہے۔ اس کی وجہ عرب حکام کا زبانی کلامی جمع خرچ ہے۔ اس کے علاوہ ٹرمپ کے اس یقین کے پیچھے چند اور وجوہات و اسباب بھی ہیں۔ بعض تجزیہ کار امریکی انتظامیہ کی جانب سے امداد کا لالچ اور فنڈز بند کرنیکی دھمکیاں، نتن یاہو سے دباو کے ذریعے معاہدہ کروانے، کولمبیا پر دباو ڈال کر تارکین وطن کو واپس بھیجنے، نتن یاہو سے دباو کے ذریعے معاہدہ کروانے، مصر کی اقوام متحدہ میں اسرائیل کیخلاف قرارداد پر پسپائی اختیار کرنے اور ٹرمپ کے گزشتہ دور صدارت میں امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی جیسی مثالوں کو مدنظر رکھ کر موجودہ امریکی صدر کے عزم کے مضبوط ہونے اور اہل غزہ کو اپنی زمین سے بے دخل کر کے امریکی افواج کی وہاں منتقلی اور اسرائیل کیساتھ مل کر امریکہ کے قبضے کے عملی ہونیکی پشین گوئی کر رہے ہیں۔ ذیل میں انہی مثالوں کو سامنے رکھ چند نکات پیش کیے جا رہے ہیں۔
نتن یاہو سے دباو کے ذریعے معاہدہ کروانا:
لیکن اس کے باوجود ٹرمپ اپنے اس مذموم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر سو فیصد یقین رکھتا ہے۔ اس کی وجہ عرب حکام کا زبانی کلامی جمع خرچ ہے۔ اس کے علاوہ ٹرمپ کے اس یقین کے پیچھے چند اور وجوہات و اسباب بھی ہیں۔ بعض تجزیہ کار امریکی انتظامیہ کی جانب سے امداد کا لالچ اور فنڈز بند کرنیکی دھمکیاں، نتن یاہو سے دباو کے ذریعے معاہدہ کروانے، کولمبیا پر دباو ڈال کر تارکین وطن کو واپس بھیجنے، نتن یاہو سے دباو کے ذریعے معاہدہ کروانے، مصر کی اقوام متحدہ میں اسرائیل کیخلاف قرارداد پر پسپائی اختیار کرنے اور ٹرمپ کے گزشتہ دور صدارت میں امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی جیسی مثالوں کو مدنظر رکھ کر موجودہ امریکی صدر کے عزم کے مضبوط ہونے اور اہل غزہ کو اپنی زمین سے بے دخل کر کے امریکی افواج کی وہاں منتقلی اور اسرائیل کیساتھ مل کر امریکہ کے قبضے کے عملی ہونیکی پشین گوئی کر رہے ہیں۔ ذیل میں انہی مثالوں کو سامنے رکھ چند نکات پیش کیے جا رہے ہیں۔
نتن یاہو سے دباو کے ذریعے معاہدہ کروانا:
جوبائیڈن انتظامیہ نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے لیے اپنی تجویز پیش کی تھی، جس میں حراست میں لیے گئے افراد کی رہائی، امداد کی فراہمی اور اسرائیل کے غزہ سے انخلاء پر مذاکرات کی بات کی گئی تھی۔ یہ تجویز مئی کے مہینے میں سامنے آئی اور حماس نے اعلانیہ طور پر اس معاہدے کو قبول کرلیا، لیکن نیتن یاہو کی حکومت نے اسے کو مسترد کردیا۔ مگر جوبائیڈن نتن یاہو پر دباؤ ڈال کر اسے قبول نہیں کرا سکا۔ دوسری طرف ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اور اس کے بعد، فریقین کو خبردار کیا کہ اگر جنگ بندی نہیں ہوتی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے، خاص طور پر 20 جنوری کو وائٹ ہاؤس میں میرا اپنے عہدہ سنبھالنے سے پہلے۔ اسی دوران، اس کا نمائندہ اسٹیفن وٹکوف مذاکرات میں خود شامل ہوا اور نیتن یاہو پر دباؤ ڈالا تاکہ معاہدے کو ٹرمپ کی حلف برداری سے پہلے قبول کروایا جائے۔ اس کے نتیجے میں نئی امریکی انتظامیہ کو زیادہ اعتماد حاصل ہوا۔ اب ٹرمپ غزہ پر قبضے کے لیے بھی اپنے عرب اتحادیوں پر دباؤ کا کارگر نسخہ آزمانے کی کوشش کر رہا اور وہ اس زعم میں مبتلا ہے کہ دباؤ ہمیشہ نسخۂ کیمیا ثابت ہوتا رہا ہے۔ لیکن غزہ خالی کرنیکا معاملہ صیہونی غاصب ریاست کیساتھ قیدیوں کے تبادلے کی شرط پر ہونیوالے جنگ بندی کے معاہدے سے بالکل ایشو ہے، جو غیور اہل غزہ کو قبول نہیں، نہ ہی حماس کی اسرائیل کیخلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادی عرب ممالک نے غزہ کا ساتھ دیا تھا، امریکی عرب اتحادی اگر مان بھی لیں تو غزہ مزاحمت کریگا، امریکہ، اسرائیل اور امریکی عرب اتحادیوں کو شکست کا سامنا ہوگا۔
کولمبیا پر دباو ڈال کر تارکین وطن کو واپس بھیجنا:
واشنگٹن میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ کولمبیا نے ٹرمپ کے مطالبات کے سامنے کیسے سرنڈر کرلیا اور امریکا سے بے دخل کیے جانے والے اپنے غیر قانونی تارکین وطن کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دینے پر رضامند ہوگیا۔ حالانکہ کولمبیا نے ابتدا میں سختی سے انکار کیا تھا۔ جس کے جواب میں ٹرمپ نے کولمبیا پر محصولات اور انتقامی پابندیاں عائد کیں، جن میں اس کے حکومتی اہلکاروں کے امریکا میں سفر پر پابندی بھی شامل تھی۔ اس کے نتیجے میں کولمبیا کو اپنا مؤقف تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑا اور اس نے اپنے شہریوں کو واپس لینے پر رضامندی ظاہر کی۔ کونسل آف فارن ریلیشنز کے پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر اسٹیفن کک نے غزہ کے باشندوں کو منتقل کرنے کی ٹرمپ کی تجویز پر بات کی اور کہا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ مصر اور اردن کی مخالفت پر قابو پا لے گا، بالکل ویسے ہی جیسے اس نے کولمبیا کے صدر کے ساتھ کیا تھا، جو پہلے کولمبیا کے شہریوں کی واپسی پر راضی نہیں تھا، پھر اس نے اپنے مؤقف کو بدل کر قبول کر لیا۔ یہ اشارہ مصر اور اردن کے لئے تو مانا جا سکتا ہے، لیکن غزہ کولمبیا نہیں ہے۔
امداد کا لالچ اور فنڈز بند کرنیکی دھمکیاں:
امریکا کے پاس اقوام کو رام کرنے کے جو ذرائع ہیں، ان میں امداد بھی شامل ہے۔ مصر ہر سال 1.3 ارب ڈالر کی امریکی فوجی امداد سے فائدہ اٹھاتا ہے اور امریکا کے پاس بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) میں ایک طاقتور نشست ہے، جس پر مصر نے پچھلے دہائی بھر انحصار کیا ہے اور یہی بات اردن پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ غزہ کے باشندوں کو منتقل کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکی حکومت مصر اور اردن کی بہت مدد کرتی ہے اور شاید ٹرمپ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے ملک کو اردن اور مصر کو امداد (خاص طور پر فوجی امداد) دینے کے بدلے کیا حاصل ہو رہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ گزشتہ دہائی میں اردن کے لیے امریکی امداد تین گنا بڑھ چکی ہے، جب کہ امریکا پچاس کی دہائی سے اردن کو اقتصادی اور فوجی امداد فراہم کر رہا ہے۔ امریکا کی اردن کے لیے دو طرفہ امداد وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کی نگرانی میں ہوتی ہے، یہ امداد مالی سال 2020 تک تقریباً 26.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی، یہ بات ایک کانگریسی تحقیقاتی سروس کے مطالعے میں سامنے آئی ہے۔
اسی طرح 2025 مالی سال کے لیے مختص امریکی بجٹ میں اردن کے لیے 1.45 ارب ڈالر کی رقم شامل ہے۔ مصر کو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے بعد سے اب تک جو امداد ملی ہے، وہ 75 ارب ڈالر سے زائد ہے اور 2025ء کے لیے مختص بجٹ مصر کے لیے 1.4 ارب ڈالر کی رقم شامل ہے۔ ٹرمپ اپنے بیک گراونڈ کے لحاظ سے ایک کاروباری شخصیت ہے، جو سودوں پر یقین رکھتا ہے، اس کی حکومتی پالیسیوں میں بھی یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ وہ جس ملک کو امداد دیتا ہے اس کے بدلے میں اسے کیا مل رہا ہے۔ خاص طور پر ان دو ممالک کے حوالے سے جو دنیا کے سب سے زیادہ تناؤ والے علاقوں میں واقع ہیں۔ جہاں تک غزہ کی بات ہے، اہل غزہ عزت و وقار کے لئے قربانیاں دینا جانتے ہیں، پندرہ مہیوں کی جنگ میں انہوں استقامت اور تدبیر کیساتھ اسرائیل کو ملنے والی اربوں ڈالر کی امریکی امداد کے باوجود جس جرات کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ انہیں امریکہ جیسے کسی ملک کی امداد کی سرے سے ضرورت ہی نہیں بلکہ امریکی سرپرستی میں ان پر جنگ کے ذریعے تسلط قائم کرنیکی کوشش والی اسرائیل جیسی طاقت کو اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ممکن نہیں رہا۔
اسی طرح 2025 مالی سال کے لیے مختص امریکی بجٹ میں اردن کے لیے 1.45 ارب ڈالر کی رقم شامل ہے۔ مصر کو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے بعد سے اب تک جو امداد ملی ہے، وہ 75 ارب ڈالر سے زائد ہے اور 2025ء کے لیے مختص بجٹ مصر کے لیے 1.4 ارب ڈالر کی رقم شامل ہے۔ ٹرمپ اپنے بیک گراونڈ کے لحاظ سے ایک کاروباری شخصیت ہے، جو سودوں پر یقین رکھتا ہے، اس کی حکومتی پالیسیوں میں بھی یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ وہ جس ملک کو امداد دیتا ہے اس کے بدلے میں اسے کیا مل رہا ہے۔ خاص طور پر ان دو ممالک کے حوالے سے جو دنیا کے سب سے زیادہ تناؤ والے علاقوں میں واقع ہیں۔ جہاں تک غزہ کی بات ہے، اہل غزہ عزت و وقار کے لئے قربانیاں دینا جانتے ہیں، پندرہ مہیوں کی جنگ میں انہوں استقامت اور تدبیر کیساتھ اسرائیل کو ملنے والی اربوں ڈالر کی امریکی امداد کے باوجود جس جرات کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ انہیں امریکہ جیسے کسی ملک کی امداد کی سرے سے ضرورت ہی نہیں بلکہ امریکی سرپرستی میں ان پر جنگ کے ذریعے تسلط قائم کرنیکی کوشش والی اسرائیل جیسی طاقت کو اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ممکن نہیں رہا۔
مصر کی اقوام متحدہ میں اسرائیل کیخلاف قرارداد پر پسپائی:
مبصرین کے مطابق ٹرمپ 2016ء کے دسمبر میں مصر پر اپنے کامیاب دباؤ کے تجربے کو بھولا نہیں ہے۔ جب ٹرمپ انتخابات جیت کر نیا صدر بنا تھا تو اس وقت مصر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے میں آبادکاری کے جاری عمل کی مذمت کی جاتی۔ اسی دوران، سابق امریکی صدر بارک اوباما کی انتظامیہ نے اس قرارداد کو ویٹو کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ نیتن یاہو نے اس وقت ٹرمپ انتظامیہ سے بات کی اور مصر پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا۔ ٹرمپ نے مصر کے صدر السیسی سے بات کی اور اسے قرارداد واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد فوراً مصر نے اپنا موقف تبدیل کیا اور سلامتی کونسل میں امریکی وفد سے معذرت کی، جس کا سبب یہی ٹرمپ کا دباؤ تھا۔ اسی طرح اس حربے کو دوبارہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مصر دوبارہ اس پسماندگی اور پسپائی کا مظاہرہ کرتا ہے کہ وہ اہل غزہ کے مدمقابل بن کر اسرائیل کا جنگی اتحادی شمار ہوگا، اور ذلت ان کا مقدر بنے گی۔
امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی:
دسمبر 2017 میں اپنی پہلی مدت کے دوران، ٹرمپ نے یروشلم (القدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کیا اور اس کے بعد امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کیا، جس کا مئی 2018ء میں افتتاح کیا گیا۔ اس وقت ٹرمپ نے کہا تھا کہ اسے اس عمل سے منع کیا گیا تھا اور دھمکیاں دی گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھ سے قبل 5 امریکی صدور نے یہ قدم نہیں اٹھا سکے تھے، رونالڈ ریگن، جارج بش سینئر، بل کلنٹن، جارج بش جونیئر اور باراک اوباما، کیونکہ انہیں عرب ممالک کے ردعمل کا خوف تھا۔ حالانکہ ٹرمپ کا یہ اقدام بین الاقوامی قانون اور سلامتی کونسل کے فیصلوں کے خلاف تھا، لیکن عرب ممالک نے اس فیصلے کے ردعمل میں کوئی ردعمل یا سفارتی اقدام نہیں اٹھایا، جس سے ان کے اعتراض یا فیصلے کی سنگینی ظاہر ہو۔ اگرچہ زبانی کلامی ڈھینگیں بہت ماری گئیں۔ مگر نتیجہ صفر رہا۔
ان سابقہ تجربات کے پیش نظر ٹرمپ اب بھی عرب حکام کی ڈھینگوں کے باوجود غزہ کے حوالے سے اپنے مذموم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر یقین کامل رکھتا ہے۔ کسی بھی فیصلے اسباب، عوامل اور محرکات میں سے ماضی کی کامیابیوں کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ لیکن غزہ کے باسی ان مذکورہ عوامل سے کہیں زیادہ مضبوط، مستحکم اور گہری جڑیں رکھتے ہیں، جو انہیں بدر سے طوفان الاقصیٰ تک میدان جنگ میں اپنے سے کئی گنا بڑے، طاقتور اور جدید ٹیکنالوجی سے مسلح حریف کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے جیسی مثالوں سے مملو ہیں۔ آج شہید یحییٰ سنوار کی اگلی نسل کربلا کو اپنے لئے مثال سمجھتی ہے، یمن، عراق، ایران اور لبنان سے
ان سابقہ تجربات کے پیش نظر ٹرمپ اب بھی عرب حکام کی ڈھینگوں کے باوجود غزہ کے حوالے سے اپنے مذموم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر یقین کامل رکھتا ہے۔ کسی بھی فیصلے اسباب، عوامل اور محرکات میں سے ماضی کی کامیابیوں کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ لیکن غزہ کے باسی ان مذکورہ عوامل سے کہیں زیادہ مضبوط، مستحکم اور گہری جڑیں رکھتے ہیں، جو انہیں بدر سے طوفان الاقصیٰ تک میدان جنگ میں اپنے سے کئی گنا بڑے، طاقتور اور جدید ٹیکنالوجی سے مسلح حریف کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے جیسی مثالوں سے مملو ہیں۔ آج شہید یحییٰ سنوار کی اگلی نسل کربلا کو اپنے لئے مثال سمجھتی ہے، یمن، عراق، ایران اور لبنان سے
آنیوالی مسلمان بھائیوں کی امداد کو خدائی نصرت قرار دیتے ہیں، اور خدائی خزانے اور طاقت کے ذخیرے کبھی ختم نہیں ہوتے، یہ امر نہ امریکی صدر سمجھتا ہے، نہ صیہونی ظالم اور نہ عرب خائن حکمران۔ لیکن اہل غزہ اسی یقین کے جیتے، مرتے اور کٹتے ہیں، انہیں یہ شیطانی طاقتیں نہیں جھکا سکتیں۔