اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے غزہ میں 2 لاکھ خیمے اور 60 ہزار تعمیر شدہ گھروں کا داخلہ روک دیا اور اس کے بعد مظلوم فلسطینی شہریوں کو فائرنگ کا نشانہ بنا کر جنگ بندی کے دوسرے اور تیسرے مرحلے پر عملدرآمد کی راہ میں شدید رکاوٹیں پیدا کر دیں۔ غاصب صیہونی فوج پندرہ ماہ تک غزہ کی پٹی پر لاحاصل فوجی جارحیت کے بعد جنگ بندی معاہدہ قبول کرنے پر مجبور ہو گئی تھی۔ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے ترجمان ابو عبیدہ نے پیر 10 فروری کے دن اعلان کیا ہے کہ صیہونی رژیم کی جانب سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں کے باعث جنگ بندی کے تیسرے مرحلے پر عملدرآمد کو نامعلوم مدت تک روک دیا گیا ہے۔ یاد رہے جنگ بندی کے تیسرے مرحلے کے تحت ہفتہ 15 فروری کے دن حماس اور صیہونی رژیم کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ انجام پانا تھا۔
غزہ کی پٹی میں بحران شدید ہو جانے کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کی پٹی سے فلسطینی شہریوں کو جبری طور پر جلاوطن کر کے اس پر غاصبانہ قبضے کے منحوس عزائم کا اظہار کیا ہے اور یوں جنگ بندی کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ اگرچہ مغربی ایشیا خطے کے عرب ممالک نے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے لیکن حماس اور تل ابیب کے درمیان جاری جنگ بندی معاہدہ شدید تزلزل کا شکار ہو گیا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے سن حماس کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی گروہوں نے طوفان الاقصی نامی عظیم فوجی آپریشن انجام دیا جس کے نتیجے میں "مسئلہ فلسطین" ایک بار پھر اسلامی دنیا کی پہلی ترجیح بن گیا۔ عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب نے 2019ء میں اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے بقول ریاض اور تل ابیب کے تعلقات معمول پر آنے میں صرف 6 ماہ کا وقت درکار تھا لیکن ٹرمپ کو 2020ء کے صدارتی الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑ گیا جس کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا اور اس کے بعد حماس کے طوفان الاقصی آپریشن نے ابراہیم معاہدے کو آگے بڑھانے میں مزید رکاوٹیں پیدا کر دیں۔ مغربی ایشیا کے کچھ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر ناجائز قبضے کا ارادہ ظاہر کر کے خلیج عرب ریاستوں کے حکمرانوں پر دباو ڈالنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ تل ابیب سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے فوری اقدامات انجام دیں۔ دوسری طرف عرب حکمران غزہ جنگ میں اسرائیل کی جانب سے وسیع مجرمانہ اقدامات انجام دینے کے ناطے تل ابیب سے غیر مشروط طور پر تعلقات بحال کرنے سے کترا رہے ہیں۔
اخبار اکونومسٹ اپنی رپورٹ میں ابراہیم معاہدے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: "سعودی ولی عہد محمد بن سلمان تل ابیب سے تعلقات معمول پر لانے کی صورت میں اپنی حکومت کے مستقبل سے پریشان ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مصر کے سابق صدر انور سادات کا انجام عرب حکمرانوں کے لیے وحشت کا باعث بن چکا ہے۔ لہذا اسرائیل واشنگٹن کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کے بعد مغربی کنارے میں فوجی جارحیت انجام دے رہا ہے تاکہ عرب ممالک کو خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی بجائے فلسطین اتھارٹی کی بقا پر راضی کیا جا سکے جو فلسطینیوں کو فراہم کیے جانے والی کم ترین مراعات ہو گی۔ تل ابیب حکام مغربی ایشیا میں اپنی متزلزل پوزیشن مضبوط بنانے کے درپے ہیں اور عرب ممالک کی حمایت سے مقبوضہ علاقوں میں صیہونی فوج کی پوزیشن مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔" متحدہ عرب امارات اور بحرین کے برخلاف سعودی حکمران عوامی رائے عامہ کی جانب سے شدید دباو کا شکار ہیں۔
اندرونی سطح پر صیہونی حکام شدید بحرانی حالات سے روبرو ہیں۔ صیہونی کابینہ میں شامل انتہاپسند وزیروں نے نیتن یاہو کو خبردار کیا ہے کہ اگر جنگ بندی کے تیسرے اور چوتھے مرحلے پر عملدرآمد ہوتا ہے تو وہ استعفی دے دیں گے جس کے نتیجے میں نیتن یاہو کی اتحادی حکومت ٹوٹ جائے گی۔ اگر موجودہ حکومت ٹوت جاتی ہے تو یہ بنجمن نیتن یاہو کی سیاسی موت ثابت ہو گی۔ شدت پسند صیہونی مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کو مقبوضہ سرزمینوں سے ملحق کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ العربی الجدید کے مطابق صیہونی رژیم کے انتہاپسند وزیر بیزلل اسموتریچ نے اسرائیلی حریدیوں کی پالیسیوں اور اسٹریٹجی کے ادارے کی دسویں سالانہ کانفرنس کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حماس کے خلاف دھمکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بجلی، پانی اور انسانی امداد روک کر غزہ والوں پر جہنم کے دروازے کھول دینا چاہئیں۔
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنے ویڈیو بیان میں فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا: "اگر حماس ہفتے کے دن دوپہر تک اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد نہیں کرتا تو جنگ بندی ختم ہو جائے گی اور اسرائیلی فوج شدید جنگ کا آغاز کر دے گی جو حماس کی مکمل شکست تک جاری رہے گی۔" بنجمن نیتن یاہو نے مزید کہا کہ حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی موخر کر دینے کے اعلان کے بعد اس نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ کے اردگرد فوج کو ریڈ الرٹ جاری کر دے اور حملے کے لیے تیار ہو جائے۔ اس نے کہا کہ یہ اقدام انجام پا رہا ہے اور بہت جلد مکمل ہو جائے گا۔ دوسری طرف انصاراللہ یمن نے بھی امریکہ اور اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی صورت میں وہ بھی ماضی کی طرح اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کاروائیاں دوبارہ سے شروع کر دیں گے۔
غزہ کی پٹی میں بحران شدید ہو جانے کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کی پٹی سے فلسطینی شہریوں کو جبری طور پر جلاوطن کر کے اس پر غاصبانہ قبضے کے منحوس عزائم کا اظہار کیا ہے اور یوں جنگ بندی کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ اگرچہ مغربی ایشیا خطے کے عرب ممالک نے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے لیکن حماس اور تل ابیب کے درمیان جاری جنگ بندی معاہدہ شدید تزلزل کا شکار ہو گیا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے سن حماس کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی گروہوں نے طوفان الاقصی نامی عظیم فوجی آپریشن انجام دیا جس کے نتیجے میں "مسئلہ فلسطین" ایک بار پھر اسلامی دنیا کی پہلی ترجیح بن گیا۔ عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب نے 2019ء میں اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے بقول ریاض اور تل ابیب کے تعلقات معمول پر آنے میں صرف 6 ماہ کا وقت درکار تھا لیکن ٹرمپ کو 2020ء کے صدارتی الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑ گیا جس کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا اور اس کے بعد حماس کے طوفان الاقصی آپریشن نے ابراہیم معاہدے کو آگے بڑھانے میں مزید رکاوٹیں پیدا کر دیں۔ مغربی ایشیا کے کچھ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر ناجائز قبضے کا ارادہ ظاہر کر کے خلیج عرب ریاستوں کے حکمرانوں پر دباو ڈالنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ تل ابیب سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے فوری اقدامات انجام دیں۔ دوسری طرف عرب حکمران غزہ جنگ میں اسرائیل کی جانب سے وسیع مجرمانہ اقدامات انجام دینے کے ناطے تل ابیب سے غیر مشروط طور پر تعلقات بحال کرنے سے کترا رہے ہیں۔
اخبار اکونومسٹ اپنی رپورٹ میں ابراہیم معاہدے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: "سعودی ولی عہد محمد بن سلمان تل ابیب سے تعلقات معمول پر لانے کی صورت میں اپنی حکومت کے مستقبل سے پریشان ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مصر کے سابق صدر انور سادات کا انجام عرب حکمرانوں کے لیے وحشت کا باعث بن چکا ہے۔ لہذا اسرائیل واشنگٹن کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کے بعد مغربی کنارے میں فوجی جارحیت انجام دے رہا ہے تاکہ عرب ممالک کو خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی بجائے فلسطین اتھارٹی کی بقا پر راضی کیا جا سکے جو فلسطینیوں کو فراہم کیے جانے والی کم ترین مراعات ہو گی۔ تل ابیب حکام مغربی ایشیا میں اپنی متزلزل پوزیشن مضبوط بنانے کے درپے ہیں اور عرب ممالک کی حمایت سے مقبوضہ علاقوں میں صیہونی فوج کی پوزیشن مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔" متحدہ عرب امارات اور بحرین کے برخلاف سعودی حکمران عوامی رائے عامہ کی جانب سے شدید دباو کا شکار ہیں۔
اندرونی سطح پر صیہونی حکام شدید بحرانی حالات سے روبرو ہیں۔ صیہونی کابینہ میں شامل انتہاپسند وزیروں نے نیتن یاہو کو خبردار کیا ہے کہ اگر جنگ بندی کے تیسرے اور چوتھے مرحلے پر عملدرآمد ہوتا ہے تو وہ استعفی دے دیں گے جس کے نتیجے میں نیتن یاہو کی اتحادی حکومت ٹوٹ جائے گی۔ اگر موجودہ حکومت ٹوت جاتی ہے تو یہ بنجمن نیتن یاہو کی سیاسی موت ثابت ہو گی۔ شدت پسند صیہونی مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کو مقبوضہ سرزمینوں سے ملحق کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ العربی الجدید کے مطابق صیہونی رژیم کے انتہاپسند وزیر بیزلل اسموتریچ نے اسرائیلی حریدیوں کی پالیسیوں اور اسٹریٹجی کے ادارے کی دسویں سالانہ کانفرنس کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حماس کے خلاف دھمکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بجلی، پانی اور انسانی امداد روک کر غزہ والوں پر جہنم کے دروازے کھول دینا چاہئیں۔
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنے ویڈیو بیان میں فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا: "اگر حماس ہفتے کے دن دوپہر تک اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد نہیں کرتا تو جنگ بندی ختم ہو جائے گی اور اسرائیلی فوج شدید جنگ کا آغاز کر دے گی جو حماس کی مکمل شکست تک جاری رہے گی۔" بنجمن نیتن یاہو نے مزید کہا کہ حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی موخر کر دینے کے اعلان کے بعد اس نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ کے اردگرد فوج کو ریڈ الرٹ جاری کر دے اور حملے کے لیے تیار ہو جائے۔ اس نے کہا کہ یہ اقدام انجام پا رہا ہے اور بہت جلد مکمل ہو جائے گا۔ دوسری طرف انصاراللہ یمن نے بھی امریکہ اور اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی صورت میں وہ بھی ماضی کی طرح اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کاروائیاں دوبارہ سے شروع کر دیں گے۔
تحریر: علی احمدی