دشمن سید حسن نصر اللہ کے جنازے سے خوفزدہ ہیں!

Rate this item
(0 votes)
دشمن سید حسن نصر اللہ کے جنازے سے خوفزدہ ہیں!
ابھی میتیں اٹھائی نہیں گئیں، سڑکیں ہجوم سے نہیں بھریں اور لوگوں نے نعرے بلند کر کے شہدا کیساتھ ایفائے عہد کے عزم اظہار نہیں کیا، کیمروں نے ابھی تک اس منظر کی عظمت کو ریکارڈ نہیں کیا، لیکن بند دروازوں کے پیچھے جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف ایک حماقت ہے۔ کیا؟ یہی کہ دشمن سید حسن نصر اللہ کے جنازے سے خوفزدہ ہیں! لوگوں کو بیروت کی طرف جانے سے روکنے کے لیے ایک بے مثال سیاسی، میڈیا اور امنیتی کوشش ہو رہی ہے، اس لیے نہیں کہ لبنانی دارالحکومت کی سلامتی خطرے میں ہے، بلکہ اس لیے کہ اتوار کے دن کا ایک منظر تل ابیب اور واشنگٹن میں فیصلہ ساز حلقوں کے ذہنوں کے ذریعے بنائے گئے تمام منصوبوں کو تباہ کر دے گا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ لوگ جو حزب اللہ کے سکریٹری جنرل شہید سید حسن نصر اللہ کے قتل کے بعد سے یہ استدلال کر رہے ہیں کہ مزاحمت ناکام ہو گئی ہے اور اس کی مقبولیت اور قانونی حیثیت ختم ہو گئی ہے، وہ اس واقعے کو رونما ہونے سے روکنے کے طریقے سوچنے کی شدت سے کوشش کر رہے ہیں، گویا یہ اجتماع ان کے وجود کے لیے ایک اسٹریٹجک خطرہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے سید حسن نصر اللہ کے جنازے کے متعلق ایک نئی جنگ شروع کی۔

سید مقاومت کے جنازے کے خلاف بین الاقوامی مہم:
پہلے ہی لمحے سے، ایک بین الاقوامی مہم شروع کی گئی تھی، جس کا مقصد بیروت کی طرف ناقابل بیان تعداد کی نقل و حرکت کو روکنا تھا۔ جب ہم بین الاقوامی کہتے ہیں تو ہمارا لفظی مطلب پوری دنیا ہے۔ ایئر لائنز نے ترکی اور یورپی ممالک کے سیکڑوں مسافروں کے لیے ریزرویشن منسوخ کر دیے ہیں، یورپ سے 120 سے زیادہ پروازیں منسوخ یا ملتوی کر دی گئی ہیں۔ ترکش ایئر لائنز نے کوئی واضح وضاحت فراہم کیے بغیر اپنی 20% پروازیں باضابطہ طور پر منسوخ کر دی ہیں، جن میں جرمنی جانے والی پروازیں بھی شامل ہیں۔ کچھ ہوائی اڈوں پر لبنانی مسافروں کو بھی بلایا گیا اور ان کے سفر کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا، ایسا منظر جو لبنان کی خانہ جنگی کے تاریک ترین دور میں بھی ظاہر نہیں ہوا تھا۔ دباؤ فضائی سرحدوں پر نہیں رکا، بلکہ اس میں وہ کمپنیاں، ادارے اور میڈیا آوٹ لیٹس بھی شامل ہیں جو شرکاء کو ڈرانے دھمکانے کے ذمہ دار ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کچھ ہوٹلز اور کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو برطرف کرنے کی دھمکی دی ہے۔ سوشل میڈیا پر اشتعال انگیزی کا لہجہ بڑھتا جا رہا ہے، گویا ہم کسی بڑے واقعے کے دہانے پر ہیں جس سے موجودہ عالمی نظام کو خطرہ ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل
آج کل مغربی حلقے جن اہم ترین لڑائیوں کو چھیڑنے کے خواہاں ہیں، ان میں سے صرف سیاسی میدان ہی شامل نہیں، بلکہ انہیں یادگار لمحات کے محفوظ کئے جانے کا خوف بھی ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ کس چیز کا انتخاب کریں تیزی سے ایک کے بعد دوسری تصاویر اور مناظر ہیں، ان کو ہٹائیں یا منظر پر رہنے دیں، جو بے حد و حساب عوامی شرکت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسی لئے بڑی ٹیک کمپنیوں نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، انسٹاگرام وغیرہ پر ایسے صارف اکاؤنٹس کو محدود کرنا شروع کر دیا ہے، جو جنازے کے دن کے لیے مرحلہ وار تیاری پر عمل پیرا ہیں اور جنازے سے متعلق کسی بھی پوسٹ کو شروع ہونے سے پہلے ہی ڈیلیٹ کر دیتے ہیں۔

سید حسن نصر اللہ کے جنازے پر اسرائیلی حملے کا احتمال:
آئیے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہیں اور ایک واضح سوال پوچھتے ہیں کہ اگر حزب اللہ ناکام ہو گئی ہے، جیسا کہ اس کے مخالفین کا دعویٰ ہے اور اگر اس کے حامی تھک ہار چکے ہیں، اداس اور مایوس ہیں، تو ایک جنازے کے اجتماع پر اسقدر گھبراہٹ کیوں؟ سید حسن نصراللہ کے جنازے میں شرکت کرنے والوں پر اسرائیلی دہشت گرد حکومت کی طرف سے براہ راست حملے کے احتمال کیساتھ عوام کی شرکت کو روکنے کے لیے انہیں اس حد تک جانے کی کیا ضرورت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جنگ ایک آدمی کے جنازے پر نہیں ہے، بلکہ اس آدمی کا ایک خاص علامت بن کر اجتماعی شعور میں سمو کر اس ہدف کی نمائندگی کرنا ہے، اس علامت بن جانے کی حیثیت کو مٹانے کی خواہش ہے۔ جب لاکھوں لوگ ان کے نام کا نعرہ لگانے کے لیے نکلتے ہیں تو وہ اس شخص کے لیے نعرے نہیں لگا رہے جو شہید ہو گیا ہو، بلکہ اس مقصد کے لیے، جس کو شکست نہیں ہوئی۔ جب ہجوم دیہی علاقوں سے بیروت میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنے ساتھ راکٹ سے زیادہ مضبوط اور زیادہ واضح پیغام لے کر جاتے ہیں، ہم یہاں ہیں، ہم مزاحمت جاری رکھیں گے اور یہ سرزمین ہماری ہے۔ یہ صرف ایک جنازہ نہیں ہے بلکہ اس عظیم جنگ کے بارے میں ایک مقبول ریفرنڈم ہے، جس کے لئے مزاحمت چار دہائیوں سے لڑ رہی ہے۔ یہ واضح اعلان کا لمحہ ہے کہ دہشت گردی سے کچھ نہیں بدلے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ دشمن جسم سے نہیں ڈرتے اش شخص سے خوفزدہ ہیں جس کی خاطر سب اکٹھے ہو رہے ہیں۔

باطل دشمن کے مقابلے میں مزاحمت کی عظیم مثال:
تشیع جنازے کے مراسم پر حملہ نہ صرف ایک سیاسی جدوجہد ہے، بلکہ یہ جنگ معنویت، اقدار اور تاریخی تجربے پر مبنی عمیق مبارزہ کی عکاس ہے۔ یقیناً ایسے معاشرے ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی تاریخ میں اس سے بڑا لمحہ کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی وہ کبھی نہیں جان پائیں گے کہ ایک ایسے لیڈر کا کیا مطلب ہے، جو دشمن کا آخری دم تک مقابلہ کرے۔ ان کے لیے قیادت ایک پیشہ ہے، عہدہ ایک ذاتی مقصد ہے اور ان کے اتحاد مادی مفادات پر استوار ہوتے ہیں، اصولوں پر نہیں۔ اس لیے ان لوگوں کے لئے سید حسن نصر اللہ کے جنازے کے دن جیسا منظر، جس میں لاکھوں لوگ ایک ایسے رہنما کو الوداع کرنے کی تیاری کرتے ہیں، جس نے انہیں کبھی مایوس نہیں کیا، ایک متحرک اور اشتعال انگیز منظر ہے، کیونکہ یہ انہیں ان کے سیاسی تجربات کی ناکامی کی یاد دلاتا ہے اور ان کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتا ہے۔
قوم کا لیڈر
یہ حملہ سیاسی اور میڈیا اشرافیہ کی طرف سے بھی ہے جو اپنے عوام کے اجتماعی جذبات سے رابطہ کھو چکے ہیں، ان لوگوں کے لیے سب سے خطرناک حصہ وہ ہے جس سے یہ خوف محسوس کرتے ہیں، وہ خطرہ انہیں اپنے اردگرد کے سماجی ماحول سے ہے، جنہوں نے کبھی ایسا لمحہ نہیں گزارا، انہوں نے اپنے قائدین کو میدان میں لڑنے کے بجائے سفارت خانوں کی طرف بھاگتے دیکھا ہے۔ یہ ماحول کسی بھی طرح کے تجربے سے خالی ہے۔ اس لیے یہ سید حسن نصر اللہ کے باعظمت طرز قیادت کو قبول کرنے سے انکاری ہیں، نہ صرف اس لیے کہ وہ مزاحمت اور مقاومت کو غلط سمجھتے ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ ایسے لوگوں نے کبھی بھی ایسی پروقار قیادت کے سائے میں اس جیسا قابل فخر تجربہ نہیں کیا۔ تجربے کی یہ محرومی کچھ لوگوں کی طرف سے نہ صرف سیاسی اثر و رسوخ کے خوف سے شیعان علی علیہ السلام  کیخلاف حملہ کرنے کا باعث بنتی ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایک تاریخی لمحے سے محروم ہو گئے ہیں جو کبھی نہیں دہرایا جائے گا۔ کچھ لڑائیاں صرف ہتھیاروں کی نہیں ہوتیں، بلکہ جذبات اور اقدار کے بارے میں بھی ہوتی ہیں، جو ان لوگوں کے درمیان ہوتی ہیں جن کی یادداشت اٹل موقف اور قربانی سے بھری ہو اور مقابلے میں وہ لوگ جو خاص وجودی خلا سے دوچار ہوتے ہیں جسے وہ اشتعال اور نفرت سے بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
 
 
Read 9 times