افسانوی شہرت کا حامل، دیوہیکل سورما ”عمر بن عبدود“ جب رجز خوانی کرتے ہوئے اپنے راستے میں کھودی گئی خندق کو پھلانگ کر اور اپنے مقابل کے سر چڑھ کر للکارنے لگا اور بدکلامی کرنے لگا تو اس موقعے پر اس کے مدمقابل لشکر میں قبرستان کی سی خموشی چھا گئی۔ یوں لگا جیسے لشکریوں کے سروں پر پرندے بیٹھ گئے ہیں۔ اس خموشی کو کاٹتے ہوئے آخر ”سردارِ لشکر“ کی گرجدار آواز بلند ہوئی کہ ”کوئی ہے جو اس نجس کی زبان بند کرے؟“۔
تین بار یہ جملے دھرائے گئے لیکن ہر بار بھرے لشکر میں سے محض ایک جانفروش، اپنی ہتھیلی پر اپنی جاں لیے، اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے، اس للکارنے والے سے جنگ آزمائی کے لیے کھڑا ہوا، لیکن سردار لشکر نے ہر بار اسے اپنے اشارے سے بٹھا دیا۔ شاید وہ اس مرحلے پر ہر کسی کو یہ موقع فراہم کرنا چاہتا تھا کہ وہ میدان میں اپنی طاقت کا لوہا منوا لے اور اپنی تلوار کے جوہر آزمالے، تاکہ کل کلاں کوئی کسی سے یہ نہ پوچھے کہ:
کون ہم سب پہ لے گیا بازی
ہم سے پہلے یہ کس کا نام آیا
آخر کار وہ جس کی ماں نے اس کا نام ”حیدر“ رکھا تھا اور جس کے نامہء اعمال میں ایک ایسی ”ضربِ یداللہٰی“ لکھی گئی تھی جسے ثقلین کی تمام عبادت سے افضل ہونا تھا، آگے بڑھا اور للکارنے والے کی آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔
لمحہء موجود میں بھی ایسا ہی ایک منظر ہمارے سامنے ہے جب ایک طرف سرخ بالوں والا آج کا عمر بن عبدود اپنی طاقت کے نشے میں اسی کے وارثوں کو للکار رہا ہے جس نے خندق کے بعد خیبر میں بھی دشمنان خدا کی ناک رگڑی تھی۔ آج کا میڈیا بھی اسی طرح آج کے سب سے بڑے طاغوت کی طاقت کا اشتہار بنا ہوا ہے جس طرح جنگ خندق میں بعض کم ہمت لوگ عمر بن عبدود کی طاقت و جبروت کے قصیدے پڑھ رہے تھے۔
آج بھی ایران کے سوا باقی اکثر اسلامی ممالک کے سروں پر اسی طرح پرندے بیٹھے ہوئے ہیں جس طرح عمر بن عبدود کے للکار کے مقابلے میں، بجز حیدر کرارؑ، تمام لشکریوں کے سروں پر پرندے اپنا ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے۔ آج تمام عالمِ اسلام ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ اس کے سامنے ایک طرف زمانے کے تمام مرحب و انتر اور عمر بن عبدود ہیں اور دوسری جانب وارثانِ خیبر شکن۔ ملت اسلامیہ کے ہر فرد کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اِس طرف ہے یا اُس طرف، درمیانی راستہ کوئی نہیں۔
تین بار یہ جملے دھرائے گئے لیکن ہر بار بھرے لشکر میں سے محض ایک جانفروش، اپنی ہتھیلی پر اپنی جاں لیے، اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے، اس للکارنے والے سے جنگ آزمائی کے لیے کھڑا ہوا، لیکن سردار لشکر نے ہر بار اسے اپنے اشارے سے بٹھا دیا۔ شاید وہ اس مرحلے پر ہر کسی کو یہ موقع فراہم کرنا چاہتا تھا کہ وہ میدان میں اپنی طاقت کا لوہا منوا لے اور اپنی تلوار کے جوہر آزمالے، تاکہ کل کلاں کوئی کسی سے یہ نہ پوچھے کہ:
کون ہم سب پہ لے گیا بازی
ہم سے پہلے یہ کس کا نام آیا
آخر کار وہ جس کی ماں نے اس کا نام ”حیدر“ رکھا تھا اور جس کے نامہء اعمال میں ایک ایسی ”ضربِ یداللہٰی“ لکھی گئی تھی جسے ثقلین کی تمام عبادت سے افضل ہونا تھا، آگے بڑھا اور للکارنے والے کی آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔
لمحہء موجود میں بھی ایسا ہی ایک منظر ہمارے سامنے ہے جب ایک طرف سرخ بالوں والا آج کا عمر بن عبدود اپنی طاقت کے نشے میں اسی کے وارثوں کو للکار رہا ہے جس نے خندق کے بعد خیبر میں بھی دشمنان خدا کی ناک رگڑی تھی۔ آج کا میڈیا بھی اسی طرح آج کے سب سے بڑے طاغوت کی طاقت کا اشتہار بنا ہوا ہے جس طرح جنگ خندق میں بعض کم ہمت لوگ عمر بن عبدود کی طاقت و جبروت کے قصیدے پڑھ رہے تھے۔
آج بھی ایران کے سوا باقی اکثر اسلامی ممالک کے سروں پر اسی طرح پرندے بیٹھے ہوئے ہیں جس طرح عمر بن عبدود کے للکار کے مقابلے میں، بجز حیدر کرارؑ، تمام لشکریوں کے سروں پر پرندے اپنا ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے۔ آج تمام عالمِ اسلام ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ اس کے سامنے ایک طرف زمانے کے تمام مرحب و انتر اور عمر بن عبدود ہیں اور دوسری جانب وارثانِ خیبر شکن۔ ملت اسلامیہ کے ہر فرد کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اِس طرف ہے یا اُس طرف، درمیانی راستہ کوئی نہیں۔
تحریر: سید تنویر حیدر