یمن پر جارحیت: امریکہ اہداف کے حصول میں مکمل ناکام، انصاراللہ کی جنگی طاقت بدستور برقرار

Rate this item
(0 votes)
یمن پر جارحیت: امریکہ اہداف کے حصول میں مکمل ناکام، انصاراللہ کی جنگی طاقت بدستور برقرار

 موسم سرما کے اختتام پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک غریب ترین ملک یمن پر نئے فضائی حملوں کے آغاز کا باقاعدہ حکم جاری کیا تاکہ یمنی عوام پر معاشی دباؤ بڑھایا جاسکے۔ یہ  حملے ایسے وقت میں شروع کیے گئے جب نئی امریکی حکومت کے ابتدائی دنوں میں انصاراللہ کو ایک بار پھر دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کردیا گیا۔ اسی دوران، یمن کے جنوبی حصے میں مشکوک سرگرمیوں کے ذریعے صنعاء پر نئے حملوں کی تیاری کی گئی، جس پر یمنی مزاحمتی قوتوں نے فوری ردعمل ظاہر کیا۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، جو آٹھ برسوں کی جنگ کے باوجود یمن میں اپنے تمام مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے، نے اقتصادی دباؤ کی پالیسی اپنانا شروع کیا۔ انصاراللہ کے رہنما نے خبردار کیا کہ اگر عرب ممالک یمن کے بینکاری نظام اور مالی ڈھانچے کو نشانہ بنائیں گے تو یمن بھی اسی شدت سے جواب دے گا۔

اس تجزیاتی رپورٹ میں آئندہ سطور میں امریکہ اور یمن کے درمیان براہ راست عسکری تصادم، اس کے محرکات اور اس کے ممکنہ نتائج کا جائزہ لیا جائے گا۔

یمن میں آگ کا کھیل

یمن پر امریکی حملے کا حکم جاری ہونے کے بعد امریکی فوج نے ان اہداف کی ایک فہرست جاری کی جنہیں وہ اپنے فضائی حملوں میں نشانہ بنانا چاہتی ہے۔ ان اہداف میں نہ صرف عسکری تنصیبات بلکہ انسانی اور  اسٹریٹجک مراکز بھی شامل تھے۔ یمن کے بڑے شہر جیسے الجوف، عمران، الحدیدہ، صعدہ اور دارالحکومت صنعاء امریکی جنگی مشین کے حملوں کی زد میں آئے۔

جوابی طور پر یمنی مزاحمتی فورسز نے مقبوضہ فلسطین میں صہیونی اہداف کو نشانہ بنایا اور صیہونی جہازوں کی نقل و حرکت کو روکنے کی کوشش کی۔ اس دوران ایک غیرمعمولی قدم اٹھاتے ہوئے انہوں نے امریکی طیارہ بردار بحری جہاز "یو ایس ایس ہیری ٹرومین" پر بارہا حملے کیے۔ ان کارروائیوں میں جدید ڈرونز کے ساتھ ساتھ "فلسطین-۲" اور "ذوالفقار" میزائلوں نے دشمن کے دفاعی نظام کو چکمہ دے کر امریکی مفادات کو نشانہ بنایا۔

واشنگٹن اور صنعاء کے درمیان اس تازہ کشیدگی میں امریکہ کوشش کر رہا ہے کہ بغیر کسی بڑے علاقائی یا عالمی اتحادی کی مدد کے انصاراللہ کا مقابلہ کرے۔

مشرق وسطی میں نئی امریکی حکمت عملی

2024 کے امریکی صدارتی انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر "پہلے امریکہ" اور "عظیم امریکہ" جیسے نعروں پر زور دیا تاکہ بالخصوص سفید فام متوسط طبقے کے ووٹرز کو اپنی جانب مائل کیا جا سکے۔ ان کی مہم میں غیر قانونی مہاجرین کی ملک بدری، میکسیکو سرحد پر سختی، جنگوں کا خاتمہ اور اقتصادی خودکفالت جیسے نکات نمایاں تھے۔ یہ پالیسی "پہلے اسرائیل" کے خفیہ ایجنڈے سے متصادم دکھائی دیتی ہے، جسے امریکی یہودی لابیاں جیسے AIPAC، J Street اور "مسیحی اتحاد برائے اسرائیل" نے آگے بڑھایا تھا۔ ان گروہوں نے کانگریس پر دباؤ، ٹرمپ کے قریبی افراد سے روابط اور قدامت پسند تھنک ٹینکس پر اثر کے ذریعے امریکی حکومت کو یہ باور کروایا کہ مشرق وسطی کی پالیسی کوئی عام معاملہ نہیں، بلکہ ایک "استثنائی" معاملہ ہے جس کا مقصد اسرائیل کے مفادات کا تحفظ ہے۔ یہی نظریہ کہ اگر امریکہ کو روس اور چین کا مقابلہ کرنا ہے تو اسے سب سے پہلے "محور مقاومت" کو شکست دینی ہوگی، آج امریکی پالیسی کی بنیاد بن چکا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، "ابراہیم معاہدے" کو وسعت دے کر "نیا مشرق وسطیٰ" تشکیل دینا لازم ہے۔ اس منصوبے کو "انڈیا-مشرق وسطیٰ-یورپ کوریڈور" کے ذریعے عملی جامہ پہنایا جارہا ہے، جو خطے کا جغرافیہ اور سیاست دونوں بدل دے گا۔ لہذا یمن میں جاری جنگ اور امریکہ کی فوجی مداخلت کو صرف وقتی تصادم کے طور پر نہیں بلکہ ایک وسیع تر اسٹریٹجک منصوبے کے تناظر میں سمجھا جانا چاہیے۔

یمن اور محور مقاومت کی طاقت

مغربی ایشیا ایک فیصلہ کن مرحلے سے گزر رہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کئی ماہ کی جنگ اور مسلسل حملوں کے بعد اب اس کوشش میں ہیں کہ علاقے کی سیاسی و اسٹریٹجک صورت حال کو اپنے مفادات اور ترجیحات کے مطابق ازسرنو ترتیب دیں۔

محور مقاومت اب بھی فلسطین، لبنان، یمن، عراق اور ایران میں مضبوط اور فعال ہے اور وہ بہت قلیل وقت میں اپنی سابقہ عسکری طاقت اور تنظیمی ڈھانچے کو بحال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

حاصل سخن

امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز کے اس دعوے کے باوجود کہ یمنی مزاحمت کے عسکری بنیادی ڈھانچے اور جنگی صلاحیتوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے، مگر انصار اللہ اب بھی مقبوضہ فلسطین اور بحیرہ احمر میں صہیونی امریکی تنصیبات پر حملے کی بھرپور طاقت رکھتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کا یہ یکطرفہ حملہ محض طاقت کا مظاہرہ ہے اور اس کے پیچھے درحقیقت انصار اللہ کے ساتھ کسی نہ کسی حد تک سیز فائر کا معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کار فرما ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر نے بھی اشارہ دیا تھا کہ اگر انصار اللہ غزہ کی حمایت میں بحر احمر میں اپنی کارروائیاں روک دے تو امریکہ یمن پر حملے بند کرسکتا ہے

Read 29 times