سنت نبوی میں والدین کے حقوق

Rate this item
(0 votes)

سنت نبوی میں والدین کے حقوق

مسئلہ حقوق بالعموم اورحقوق والدین بالخصوص پیغمبر اکرم (ص) کی احادیث و نصائح کے ایک بڑے حصے پر محیط ہے اس کی وجہ قرآن کی متواتر تاکیدات و تنبیہات اور اجتماعی ضرورت ہے۔

بالخصوص اس تناظر میں کہ پیغمبر نے معاشرہ سازی اور تمدن جدید کی تشکیل کے لئے ایک بڑی مہم کا آغاز کیا تھا اور چونکہ خاندان کو معاشرتی عمارت میں خشت اول کی حیثیت حاصل ہے اور والدین کی مثال خانوادے میں ایک رہبر کی سی ہوتی ہے اس لئے ان کے حقوق کی رعایت کرنا بہت ضروری ہے ورنہ اجتماعی عمارت ریت کی دیوار کی طرح متزلزل اور بے ثبات ہو جائیگی۔

اسی لئے دعوت توحید کے بعد یہ مسئلہ سب سے زیادہ پیغمبر کی توجہ کا مرکز بنا اور مسئلہ کے عبادی پہلو کو اجاگر کرنے کے لئے آپ نے اللہ کی رضا اور والدین کی رضا کو ایک ساتھ ذکر فرمایا ہے اور تاکید کی ہے کہ والدین کی نافرمانی سب سے بڑا گناہ ہے اور اللہ تعالی کی محبت و مغفرت اور والدین کی محبت و اطاعت کے درمیان رابطہ کے بارے میں امام زین العابدین سے روایت ہے کہ ایک شخص پیغمبر کے پاس آکر کہنے لگا یا رسول اللہ میں نے ہرقسم کا بر عمل کیا ہے کیا میرے لئے بھی توبہ کا موقع ہے توآپ نے پوچھا: فھل منوالدیک احد حی۔

”کیا تیرے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے جواب دیا میرا باپ زندہ ہے تو آپ نے فرمایا:

فاذھب فبرہ ”جا اور اس کے ساتھ حسن سلوک کر“ جب وہ چلا گیا تو آپ نے فرمایا:

لوکانت امہ ”کاش کہ اس کی ماں زندہ ہوتی“ [1]۔

اور امام صادق سے روایت ہے : جاء رجل الی النبی ،فقال: یارسول اللہ من ابر؟ قال امک قال :ثم من؟ قال امک، قال: ثم من؟ قال امک، قال: ثم من؟ قال اباک۔

”ایک شخص پیغمبر کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ میں کس کے ساتھ حسن سلوم کروں تو آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ اس نے پوچھا

پھرکس کے ساتھ فرمایا ماں کے ساتھ، اس نے کہا پھرکس کے ساتھ فرمایا ماں کے ساتھ اس نے کہا پھرکس کے ساتھ فرمایا باپ کے ساتھ“ ۔[2]

پیغمبر نے اولاد کے لئے والد کے جن حقوق کی طرف توجہ دلائی ہے ان میں سے یہ ہے کہ والد کو غیظ و غضب میں دیکھ کر اس کی ہتک حرمت سے بچنے کے لئے پسر کو خاضع و متواضع ہو جانا چاہئے۔

مزیدبرآن کسی کے باپ کوگالی دے کراپنے باپ کوگالی دئیے جانے کاسبب بننابھی ایساگناہ ہے جوعقاب اخروی کاموجب ہے اوران کے ساتھ حسن سلوک فقط ان کی زندگی میں نہیں بلکہ ان کی موت کے بعدبھی ہے مثلا ان کاقرض اداکرنااوران کے لئے دعاخیرواستغفارکرناوغیرہ وغیرہ۔

پیغمبر نے اپنی زندگی ہی میں ان سب وصیتوں کوعملی جامہ پہنا دیا تھا چنانچہ جس وقت آپ لوگوں کو ہجرت کے لئے تیار کر رہے تھے تاکہ مدینہ میں ایک جدید توحید پرست معاشرہ تشکیل دیا جا سکے اور اس وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی کم تھی کہ انگلیوں پرگنے جا سکتے تھے سیرت کی کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ ایک شخص پیغمبر کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ میں ہجرت کے لئے آپ کی بیعت کرتا ہوں اور اپنے ماں باپ کو روتا ہوا چھوڑ آیا ہوں تو آپ نے فرمایا:

”ان کے پاس جلد واپس جا اور جس طرح انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنسا“ [3]۔

اس واقعہ سے بھی والدین کے حقوق کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے کہ ایک دن پیغمبر کی ایک رضاعی بہن آپ سے ملنے کے لئے آئی تو آپ نے نہایت گرمجوشی سے اس کا استقبال و احترام کیا پھر اس کا بھائی آیا تو آپ نے اس کا ویسا احترام نہ کیا جیسے اس کی بہن کا کیا تھا اس پر آپ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ آپ نے اس کی بہن کا جو احترام کیا وہ اس کے بھائی کا نہیں کیا حالانکہ وہ مرد ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا اس کی بہن اپنے باپ کے ساتھ اپنے بھائی کی بہ نسبت زیادہ حسن سلوک کرتی ہے۔

تو آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ پیغمبر کے نزدیک قربت و دوری اور ان کے نزدیک محترم ہونے کا معیار والدین کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے۔ آخرمیں ماں کے اس منصب کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو پیغمبر نے ماں کو عطا فرمایا ہے کہ: الجنة تحت اقدام الامھات۔

”جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے“ [4]۔

1:بحارالانوار۷۴:۸۲۔

[2] - اصول کافی باب البربالوالدین ۲:۱۶۷/۹۔

[3] - الترغیب والترھیب ۳:۳۱۵۔

[4] - بحارالانوار۷۴:۸۲۔

Read 4719 times