اسلامی طرز زندگی

Rate this item
(1 Vote)

اسلامی طرز زندگی

آج ہم ان مفاہیم اور اصولوں کا جائزہ لیں گے جو الہی تصور کائنات میں انسانی طرز زندگي پر اثر انداز ہیں .

جیسا کہ ہم نے اس قبل کہا تھا کہ انسانی طرز زندگي اور روش پر نظر ڈالنے سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اسلامی اور مغربی تمدن کے درمیان واضح فرق موجود ہے ۔ یہ فرق اور اختلاف ان دونوں تہذیبوں پر حاکم ، تصور کائنات کا نتیجہ ہیں ۔ بلا شبہ یہ نظریاتی اختلافات ، طرز زندگي کے حالات اور ان کے اچھے اور برے ہونےنیز زندگي کی روش کی اصلاح کے لئے موثر واقع ہوں گے ۔

اسلامی طرز زندگي اس لحاظ سے کہ ایک روش اور طرز ہے اس لئے اس میں طریقۂ زندگي کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اس اعتبار سے کہ اسلامی ہے اس لئے فرد اور معاشرے کے رویوں سے لا تعلق بھی نہیں ہے ۔ اس بناء پر ہر وہ طرز عمل جو اسلامی بنیاد پر ہو اسے اسلامی شناخت اور اعتقاد کا حامل ہونا ضروری ہے ۔ الہی تصور کائنات ، کہ جس کی بنیاد پر اسلامی طرز زندگي وجود میں آئے ، خدائے واحد پر اعتقاد ، قیامت اور دنیا و آخرت کی سعادت کی جانب ہدایت بشر کے لئے پیغمبران الہی کی بعثت کے عقیدے جیسے اصولوں پر استوار ہے ۔ یہ اصول درحقیقت ایسے بنیادی سوالوں کا جواب ہیں جو ہر آگاہ انسان کے ذہن میں ابھرتے ہیں ۔ اور وہ سوال اس طرح سے ہیں کہ کائنات کا خالق کون ہے ؟ زندگي کا اختتام کیسے ہوگا ؟ اور کس طریقے سے زندگي کے بہترین اصولوں کی شناخت اور پہچان کی جاسکتی ہے ۔ دنیا میں زندگي سے متعلق الہی تصور کائنات کے مطابق جو تعریف کی جاتی ہے وہ ایک جامع اور متعدد اصولوں کی بنیاد پر ہے کہ جن میں سے اہم ترين اصولوں کا ہم یہاں پر ذکر کريں گے ان میں سے ایک غیب پر ایمان ہے ۔

غیب کا تعلق خدا ، فرشتوں ، جن ، شیطان ، روح ، برزخ ، قیامت ، بہشت اور دوزخ سے ہے ۔ کائنات کا ایک حصہ ہمارے وجودکے ارد گرد ہے جو مادی خلقت کا مظہر ہے مثلا زمین ، آسمان ، ستارے اور دریا وغیرہ / لیکن کائنات کا عظیم حصہ غیب سے متعلق ہے جس کا مقدار کے لحاظ سے، ظاہر کائنات سے موازنہ نہیں ہوسکتا اور اس کے اثرات بھی انتہائي عظیم ہیں ۔ اگرچہ عام انسان ممکن ہے کہ مادی اور ظاہری اشیاء سے زیادہ وابستگي کے سبب کائنات کے اس دوسرے حصے سے انس نہ رکھتے ہوں تاہم اس حصے کے موجود ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور انسانوں کے طرز زندگي میں پیش آنے والے بہت سے مسائل ، غیب کے امور پر عدم اعتقاد اور اس بارے میں فکر نہ کرنے کا نتیجہ ہیں۔ اگر کوئی غیب کے مسئلے کو اپنے لئے حل نہ کرسکے اور اس پراعتقاد پیدا نہ کرسکے تو وہ اسلام کے بارے میں حقیقی اعتقاد حاصل نہيں کرسکتا اور اس کے اصولوں پر عمل بھی نہیں کرسکتا ۔ مثال کے طور پر خدا ، قیامت ، بہشت و جہنم ، فرشتوں ، شیطان اور روح اور مجموعی طورپر غیبی امور کا تعلق ، ماوارائے زمان و مکان سے ہے اور وہ مادی محدودیت کے بھی حامل نہیں ہیں۔ یہ سب کے سب غیب کے مصادیق میں سے ہيں ۔ انسان اپنی دنیاوی زندگي میں خدا کے اذن سے غیب کے بعض مصادیق کو حاصل کرسکتا ہے اور اس کے بعض مصادیق عالم برزخ میں موت کے بعد یا عالم آخرت میں اس کے لئےظاہر اور آشکار ہوں گے ۔

خداوندعالم غیب کے مصادیق میں سے ہے وہ قابل رؤیت نہیں ہے ۔ انسانوں کو چاہیئے کہ خدا کی نشانیوں اور اس کی مخلوقات کو دیکھ کر اس کے وجود پر ایمان لائیں اور وہ نشانیاں ہمارے اطراف میں بہت زیادہ ہیں اور قرآن میں بھی ان کا ذکر ہوا ہے ۔ دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی مخلوق اور جو کچھ بھی دنیا میں ہے سب پروردگار کے وجود کی نشانی ہے ۔الہی تصور کائنات میں توحید پر عقیدے کا لازمہ یہ ہے کہ اسے اپنے وجود میں رچا بسا لیا جائے ۔ اسی بناء پر ہر زندگي ، زندگي نہيں ہوتی ، کیوں کہ اگر زندگي کے تمام امور میں خدا محور و مرکز نہ قرار پائے تو اس سے معصیت اور ذلت کے سوا کوئی نیکی سرزد نہیں ہوگي ۔ فرزند رسول خدا (ص) حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں ، اطاعت خدا کی راہ میں موت کا ذائقہ ، معصیت خدا میں آلودہ زندگي کے ساتھ آنے والی موت سے کہیں زيادہ بہتر اور شیریں ہے اور خدا کی اطاعت کی راہ میں فقر و تنگدستی ، خدا کی نافرمانی کے ساتھ حاصل ہونے والی دولت و ثروت سے کہیں زيادہ عزیز ہے اور اطاعت الہی میں بلا اور سختی ہمارے لئے خدا کی معصیت ميں حاصل ہونے والے سکون اور سلامتی سے زیادہ محبوب ہے ۔( بحار الانوار ج 81 ص 173 )

سید الشہداء حضرت امام حسین (ع) فرماتے ہيں ، ذلت کی زندگي سے عزت کی موت بہتر ہے ۔ زندگي کی روش کے توحیدی ہونے کے یہ معنی ہیں کہ طرز زندگي ، عبودیت الہی اور بندگي پروردگار کی آئینہ دار ہو ۔ اس طرح سے اسلامی آداب عام طور پر بندگي کے آداب ہیں ۔ چنانچہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای اس سلسلے میں فرماتے ہيں ۔ توحید محض ایک فلسفی اور فکری نظریہ نہيں ہے بلکہ انسانوں کے لئے ایک طرز زندگي ہے ۔ خدا کواپنی زندگي پر حاکم بنانا اور بڑی طاقتوں کو ہیچ اور ناچیز سمجھنا ہے ۔ لا الہ الا اللہ ، کہ جو ہمارے پیغمبر (ص) اور تمام انبیاء الہی کا اہم پیغام تھا ، اس معنی میں ہے کہ انسانوں کی زندگي اور ان کے زندگي کے انتخاب کی روش میں کوئی طاغوتی اور شیطانی طاقت کا عمل دخل نہ ہو ۔اگر توحید ، انسانی معاشرے ميں عملی صورت اختیار کرلے تو انسانوں کی دنیا آباد بھی ہوجائے گي اور اگرہم توحید اور خدا کی وحدانیت پر یقین رکھتے ہوں اور اس پر عمل کو اپنی زندگي ميں لازمی نہ قرار دیں اور رسم بندگي انجام نہ دیں تو ہمارا عمل توحیدی اور غیب پر عقیدے کا حامل نہیں ہوگااور پھر ہمارے عقیدے اور عمل میں بھی بہت فاصلہ ہوگا ۔

الہی تصور کائنات کے دیگر اہم اصولوں میں سے ایک ، کہ جو انسانی زندگي پر اثر انداز ہونے والے ہیں ، دنیا اور آخرت دونوں سے وابستہ ہونا ضروری ہے کہ جس کا ہم نے اس قبل کے پروگرام ميں ذکر کیا تھا اس سلسلے میں ہم یہ مزید یہ کہنا چاہيں گے کہ دنیوی زندگي کی مثال ایک کھیت کی مانند ہے کہ جس میں جتنا ممکن ہوسکے کاشت کرنی چاہئے تاکہ آخرت میں اسے کاٹ سکیں اور اپنے اصلی ہدف کو حاصل کر سکيں ۔ وصی رسول خدا حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہيں اے خدا کے بندوں ، اس دنیاسے اپنی آخرت کے لئے کہ جہاں تمہیں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہوگا نیک اعمال ساتھ لے جاؤ اس لئے کہ یہ دنیا ، عمل کی جگہ ہے اور آخرت میں تمہیں اسی عمل کی جزا ملے گي ۔ ( الکافی ج 8 ص 174 ) مولائے کائنات اسی طرح نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 133 میں زندگي دنیا سے بہرہ مند ہونے کے بارے میں فرماتے ہيں ۔ آگاہ ہوجاؤ کہ بے بصیرت انسان کی نگاہیں اسی دنیا کی حد میں محدود ہوتی ہیں اور وہ اس سے آگے نہيں دیکھتا لیکن بابصیرت انسان کی نگاہیں دنیا سے بالاتر ہوکر دیکھتی ہیں اور وہ جانتا ہےکہ اس کا حقیقی ٹھکانہ اس دنیاسے ماوراء ہے اور وہ آخرت ہے ۔پس جو بینا اور بابصیرت انسان ہیں ان کے دل دنیا سے اچاٹ ہوتے ہیں اور بے بصیرت انسان دنیاسے لو لگاتا ہے ، با بصیرت انسان دنیا سے آخرت کے لئے توشہ اکٹھا کرتا ہے جبکہ بے بصیرت انسان اسی دنیا کے لئے سب کچھ حاصل کرتا ہے ۔ حضرت امام علی علیہ السلام اپنے اس گرانبہا قول میں ان دو نظریوں سے حاصل ہونے والی زندگي کی روش میں موجود فرق کی جانب بخوبی اشارہ فرمارہے ہيں ۔ وہ نظریہ جو صرف دنیا کواپنا ہدف اور مقصد قرار دیتا ہے وہ اس چند روزہ زندگي کے لئے ہی صرف تگ ودو کرتا ہے اور جو افراد آخرت کو اپنی ابدی اور دائمی جگہ اور منزل قراردیتے ہيں وہ اپنی زندگي ميں اعمال خیر کے ذریعے آخرت کے لئے ایک پل تعمیر کرتےہیں ۔ اور یہیں ہم اس فرق کو بھی سمجھ سکتے ہیں کہ انسانی عقائد ، اس کے طرز زندگي پر کس حد تک اثر انداز ہوتے ہيں ۔ اسلامی تصور کائنات میں مادی نعمتوں سے تا حد ضرورت استفادہ کرنے ميں کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ مادی حیات کے دوام کے لئے ایک ضرورت بھی ہے لیکن دنیا سے کسی قسم کی دل لگي اور اس سلسلے میں انتہا پسندی قابل مذمت ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہيں : میں تمہیں دنیا سے اجتناب کی تلقین کرتا ہوں کیوں کہ دنیا بہت زیادہ فریب دینے والی شیء ہے ۔ اور جب اہل دنیا اپنی آرزؤں کو پا بھی لیں پھر بھی دنیا خداوند عالم کی اس توصیف سے بالا تر نہیں ہے جیسا کہ وہ سورۂ کہف میں ارشاد فرماتا ہے اے پیغمبر انہیں زندگانی دنیاکی مثال اس پانی کی بتائیے کہ جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا توزمین کی روئیدگي اس سے مل جل گئي پھر آخر میں وہ ریزہ ریزہ ہوگئ جسے ہوائيں اڑا دیتی ہیں اور اللہ ہر شی پر قدرت رکھنے والا ہے ۔ البتہ یہ ذکر کر دینا بھی لازمی ہے کہ اسلامی طرز زندگي ، انسان کی آسائش اور فلاح و بہبود میں مانع نہیں ہے بلکہ انسان کو بہتر اور سالم زندگي گذارنے کی دعوت دیتی ہے اور ایسی سہولیات کہ جس میں صرف شدت اور تن پروری ہو اس سے روکتی ہے ۔ اسلام ، عیش و عشرت اور پر تعیش زندگي گذارنے سے اجتناب کی تلقین کرتا ہے ۔

اسلامی طرز زندگي میں ایک اور اہم اور کلیدی نکتہ ، زندگي سے پرامید اور خوش گمان ہونا ہے ۔ زندگي ایک ایسی نعمت ہے جسے خداوند عالم نے ہمیں عطا کیا ہے اس لئے اس کی قدر و منزلت کو سمجھنا چاہئے اور اس سے کما حقہ استفادہ کرتے ہوئے امیدوار ہونا چاہئے ۔ دنیا کے بارے میں اسلامی طرز فکر پر توجہ کے پیش نظر ، مشکلات اور مسائل ، ایک مسلمان فرد کے لئے دنیاسے بدگمانی کا سبب نہيں بننے چاہیئں ۔ اسلامی طرز زندگی میں مومن کو مشکلات پر نالہ و شکوہ کرنے سے منع کیا گيا ہے ۔ مومن کو چاہئے کہ ہمیشہ مشکلات کو برداشت کرنے کے عوض خدا کی جانب سے ملنے والی پاداش اور جزا کو مد نظر رکھے اور ہمیشہ لطف و رحمت الہی سے امید وابستہ رکھے ۔

ہمیں امید ہے کہ اسلامی نقطۂ نگاہ سے اگرچہ اجمالی طور پر صحیح الہی تصور کائنات کے دائرے ميں زندگي کے ہدف اور مقصد سے کسی حد تک آپ آشنا ہوئے ہوں گے ۔ اگلے پروگرام میں ہم آداب و فرائض زندگي سے متعلق عرائض پیش کریں گے اس وقت تک کے لئے آپ سب کو خدا کی پناہ میں سونپتے ہیں ۔

Read 4189 times