امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر اسلام کی تاکید۔

Rate this item
(2 votes)

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر اسلام کی تاکید۔

دین اسلام کی واجب تعلیمات میں سے ایک نیکیوں کا حکم دینا ، یعنی نیکیاں بجالانے پر تاکید کرنا اور برائیوں سے روکنا ہے ۔ معروف ایسے کام کو کہا جاتاہے جس کا شرعی یا عقلی اعتبارسے اچھا ہونا ثابت ہو جبکہ منکر ایسا کام ہے جس کا شرعی اور عقلی لحاظ سے برا اور ناپسندیدہ ہونا معلوم ہو ۔ واضح سی بات ہے کہ انسان اپنی بصیرت سے نیک کام کی انجام دہی پر مائل ہوتا اور برائیوں سے نفرت کرنے لگتا ہے ۔ اور انسان کے اندر پائی جانے والی یہ حالت اس بات کا باعث بنتی ہے کہ وہ نیکی اوربھلائی کا نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کےلئے بھی خواہاں ہوتا ہے ۔ مغربی نظریات کے برخلاف ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دوسروں کے امور میں مداخلت نہیں ہے بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فلسفہ ، پسندیدہ اور نیک کاموں کا احیاء ، معاشرے پر کنٹرول ، برے افعال کی روک تھام اور دوسروں کے ساتھ بھلائی کا چاہنا ہے ۔

جس طرح سے کہ ایک بڑے باغ کو پھل دار بنانے کے لئے آبیاری ، کھاد دینے ، غیرضروری شاخ و برگ کو چھانٹنے ، موذی کیڑوں مکوڑوں ، اور اسی طرح کی متعدد آفات سے بچانے کی ضرورت ہے ، اسی طرح اسلام پسندانہ اصلاحی پروگرام کا جاری وساری رہنا اور اس کا کمال تک پہنچنا بھی اسی صورت میں ممکن ہوگا کہ جب مناسب حالات فراہم ہوں اور مختلف انفرادی و اجتماعی آفات کا خاتمہ ہو ۔ اسی بناء پر خداوند عالم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے قالب میں ہر مرد و عورت کو دوسروں کے رفتار و کردار پر نگرانی کا حق عطا کیا ہے ۔ اس لئےتمام مسلمانوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنے اعمال و کردار پر نگراں ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ہی جیسے افراد کو بھی معاشرے میں اخلاقی بیماریوں سے نجات دلائے ۔ خداوند عالم سورۂ توبہ کی آیت 71 میں ارشاد فرماتا ہے "مومن مرد اور مومن عورتيں آپس میں سب ایک دوسرے کے ولی و مددگار ہیں کہ یہ سب ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے ہيں اور برائیوں سے روکتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں ، زکات ادا کرتے ہیں اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں "

معروف اور منکر ، جزئی امور میں محدود نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔چنانچہ تمام اچھے اور نیک کاموں کا شمار معروف ميں اور تمام برے اور بد کاموں کا شمار منکر میں ہوتا ہے ۔ دینی ثقافت اور عقل کی نظر میں بہت سے کام معروف ہیں مثال کے طور پر سچ بولنا ، وعدے کی پابندی ، بے کسوں اورغریبوں کی دستگيری ، راہ خدا میں انفاق ، صلۂ رحم ، ماں باپ کا احترام ، علم کاحصول ، دوسروں کے حقوق کی رعایت ، اسلامی پردہ اور اسی طرح بہت سی دیگر مثالیں ، معروف میں شامل ہیں اس کے بر خلاف بہت سے برے اور ناپسندیدہ کاموں کو منکر کہا جاتا ہےجیسے حسد کرنا ، کنجوسی ، جھوٹ بولنا ، تکبر کرنا، نفاق ، تجسس ، چغلی ، برا بھلا کہنا ، اندھی تقلید ، یتیم کامال کھانا ، ظلم ، ناانصافی ، مہنگا بیچنا ، سود کھانا ، اور رشوت لینا وغیرہ ۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے دین حق کی دعوت ، عدل و انصاف کے نفاذ کے لئے حکومت حق کے قیام کی راہ ميں کوشش ، خدا کی راہ میں جان و مال نچھاور کرنا اور جارحین کے ساتھ مقابلہ کرنا ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کےاہم موارد میں شامل ہے ۔

قرآن کریم تمام انبیاء کی پہلی ذمہ داری ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو قرار دیتا ہے اور سورۂ نحل کی آیت 36 ميں ارشاد فرماتا ہے" اور یقینا ہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو پھر ان میں بعض کو خدا نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوگئی " ۔ انبیاء علیھم السلام کی بعثت کی اہم ترین وجہ ، انفرادی و اجتماعی فسادات کا مقابلہ اور عدل وانصاف کا قیام تھا تاکہ معاشرے میں اصلاحات انجام پائیں اور عدل وانصاف کا قیام عمل میں آئے اور عام انسان کامیاب و رستگار قرار پائیں کیوں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ انفرادی و اجتماعی فساد سے بھرے ہوئے معاشرے کا کسی اصلاحی اقدام کے بغیر تزکیہ ہو سکے ۔

پیغمبراسلام (ص) اور ان کے اہل بیت علیھم السلام کی عملی سیرت ، اعلی ترین اخلاقی تعلیمات سے سرشارہے ۔ مثال کے طورپر تاریخ میں ذکر ہوا ہے کہ ایک دن حضرت علی (ع) کوفے کی گلیوں میں گذر رہے تھے کہ اچانک متوجہ ہوئے کہ کوئی ان کے پیچھے آرہا ہے امام (ع) کھڑے ہوگئے اور ایک جوان کو دیکھا تو آپ نے فرمایا اے جوان کیا تجھے کوئی کام ہے ؟ اس نے جواب میں کہا ہاں اے امیرالمومنین میں یہ چاہتاہوں کہ آپ مجھے ایک ایسی نصیحت فرمائیں جس کے سبب خدا میرے گناہوں کو بخش دے ۔ امام (ع) نے اس جوان کے جواب میں فرمایا " جو کوئی تین خصوصیات کا حامل ہو وہ دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں محفوظ رہے گا اول یہ کہ امر بالمعروف کرے اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہو ۔ دوم یہ کہ نہی عن المنکر کرے اور خود بھی اس منکراور برائی سے دور رہے ۔ اور سوم یہ کہ کسی بھی حالت میں گناہ میں آلودہ نہ ہو اور الہی حدود کی پابندی کرے ۔

اہل بیت اطہار علیھم السلام کی عملی سیرت میں اچھائیوں اور نیکیوں کی دعوت دینا اور برائیوں سے روکنے کا اصل مقصد ظلم و فساد کا مقابلہ کرنا ہے ۔ سماجی تبدیلیوں ميں ان بزرگوں کی شمولیت اس حد تک نمایاں ہے کہ کہا جاسکتا ہے کہ بہت سےاصلاحی اقدامات اور تعمیری تغیرات ان کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے پرتو میں عملی صورت اختیار کرتی ہیں ۔ چنانچہ امام حسین (ع) کا انقلاب ، سماجی و سیاسی تبدیلیوں میں خاندان رسول اکرم (ص) کے موثرکردار کی ایک نمایاں مثال ہے ۔ صدر اسلام میں پیغمبراسلام (ص) کی رحلت کے بعد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر کماحقہ عمل نہیں کیا گيا اور لوگوں نے خوف یا لالچ میں اس سلسلے میں زبانی یا عملی اقدام نہيں کیا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں کوتاہی کی۔ نتیجے میں دین میں برائی کو رواج مل گيا اور یزید جیسا فاسق وفاجر تخت حکومت پر بیٹھ گيا ۔ امام حسین نے اپنے قیام اور تحریک کا مقصد اوراس کے محرکات کا ذکر کرتے ہوئے اس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جانب اشارہ فرمایا اور اسے اپنے قیام کے اہداف میں سے قراردیا ۔ آنحضرت ایک بیان میں حکومت بنی امیہ کو ایسا منکر متعارف کراتے ہیں کہ جس کے خلاف جدوجہد کرنی چاہئے ۔ امام (ع) یزید کو شرابخوار ، اور فاسق و فاجر ، اور اس کے پیروکاروں کو شیطان کا مرید ، اور حکومت اموی کو ، حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے والی متعارف کراتے ہیں اور کیوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا زبانی اثر حالات کو تبدیل کرنے میں بے اثر ہوچکا تھا اس لئے امام حسین (ع) نے ظالم وجابر اور فاسد حاکم یزید کو ، منکرات اور برائیوں سے روکنے کےلئے اٹھ کھڑے ہونے کو اپنا اہم ترین فریضہ جانا اور اسی دینی اصول کی بنیاد پر امام (ع) نے بیعت یزیدکو ٹھوکرماردی اور اسے باعث ننگ و عار قرار دیا اور کربلا جیسی جاوداں تاریخ رقم کردی ۔

اہل بیت اطہار علیھم السلام کی عملی سیرت کامزید جائزہ لینے سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے کچھ مخصوص آداب و شرائط ہيں ۔ اول تو یہ کہ جو شخص دوسروں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے وہ خود اس پر عمل بھی کرتا ہو ۔ پہلی صدی ہجری کے ایک دانشور حسن بصری ایک دن لوگوں کے ایک گروہ کے سامنے کھڑے ہوئے تھے اور لوگوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی تلقین اور نصیحت کررہے تھے ۔ فرزند رسولخدا حضرت امام زین العابدین (ع) نے ان کی باتیں سن لیں اور ان سے فرمایا تم جو اس طرح سے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کررہے ہو کیا اپنی موت کے وقت اپنی اس حالت سے ، جو تمہارے اور تمہارے خدا کے درمیان ہے ، راضی رہو گے ؟ حسن بصری نے جواب میں کہا نہیں میں راضی نہیں ہوں گا ۔ امام (ع) نے ان سے دوبارہ سوال کیا ، کیا تم اپنی حالت میں تبدیلی کے خواہاں ہو تاکہ ایک بہترین اور شائستہ حالت کو درک کرسکو ؟ تو حسن بصری نے نفی میں جواب دیا ، امام (‏‏ع) نے فرمایا تم جو کہ خود اپنی حالت میں اصلاح کی کوشش نہيں کرنا چاہتے تو پھر کیسے لوگوں کو اچھائی کا حکم دیتے ہو اور انہیں برائی سےروکتے ہو ؟ حسن بصری نے اپنا سر شرمندگي سے جھکا لیا اور پھر اس کے بعد کسی نے انہیں نہیں دیکھا کہ وہ لوگوں کو اس طرح سے نصیحت کرتے ہوں ۔

امربالمعروف کی دیگر اہم شرائط میں سے ایک ، کہ جو گناہکار اور خطا کار فرد میں اپنی غلطی تسلیم کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے ، یہ ہے کہ ایسے فرد کو انتہائی نرمی اور سلجھے ہوئے انداز ميں اچھائیوں کی دعوت دی جائے ۔ اہل بیت اطہارعلیھم السلام اچھائیوں کے بجالانے اور برائیوں سے رکنے کی تلقین انتہائی محبت آمیز لہجے میں کرتے تھے اس طرح سے کہ افراد میں اس کا بہت تیزی سے اثر ہوتا تھا ۔

اہل بیت اطہار علیھم السلام امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک اورشرط شجاعت کوقراردیتے ہيں ۔ کبھی ضروری ہوجاتا ہے کہ انسان صحیح تشخیص کے ساتھ حق کا کھل کر اور جراتمندانہ اعلا ن کرے اور انحراف کی راہ میں مانع ہو ۔ چنانچہ ایک دن عباسی حکمراں منصور دوانیقی نے امام صادق ( ع) کو ایک مراسلے میں لکھا کہ کیوں دوسروں کی طرح تم ہمارے پاس نہیں آتے اور ہمارے ساتھ نشست و برخاست نہيں کرتے ؟ امام (ع) نے اس کے جواب میں لکھا کہ ہمارے پاس مال دنیا سے کچھ نہیں ہے کہ جس کے سبب میں تجھ سے ڈروں اور تو بھی آخرت میں کسی برتری اور فضیلت کا حامل نہیں ہے کہ میں تجھ سے کوئی امید رکھوں " منصور نے اس مراسلے کو پڑھا اور پھر لکھا " آئیے اور ہمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تلقین کیجئے ۔ امام (ع) نے پھر تند لہجے میں منصور کو خط میں لکھا " جو بھی اہل دنیا ہوگا وہ تجھے نصیحت نہیں کرے گا کیوں تو جو کام بھی چاہتا ہے انجام دیتا ہے اور جو بھی اہل آخرت ہوگا وہ ہدایت کرنے تیرے پاس نہیں آئيگا کیوں کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا

فرزند رسولخدا حضرت امام محمد باقر ( ع) ارشاد فرماتے ہيں " امربالمعروف اور نہی عن المنکر ایک ایسا امر واجب ہے کہ جس پر دیگر واجبات قائم اور استوار ہوتے ہيں ۔ اب جب کہ اسلام اس طرح سے امر بالعروف اور نہی عن المنکر کی ٹھوس طریقے سے حمایت کررہا ہے ، تو تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ پورے عزم کے ساتھ حق کا اعلان کریں اور انحراف اور برائیوں کا معاشرے سے سد باب کریں تاکہ اسلامی معاشرہ ہر طرح کے اخلاقی زوال و انحطاط سے محفوظ رہے اور حیات طیبہ اور پاک و پاکیزہ زندگي کی ضمانت فراہم کرے ۔

Read 4469 times