امام موسی صدر کا ایک خطاب حضرت زہرا (س) اور نماز

Rate this item
(1 Vote)
امام موسی صدر کا ایک خطاب حضرت زہرا (س) اور نماز

بسم الله الرحمن الرحیم والحمد لله رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید خلقه وسید رسله محمد وآله الطاهرین.حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبہ کے سلسلے میں گفتگو کا سلسلہ جاری تھا بات اس جملے پر پہنچی جس میں حضرت زہرا (س) نے دین اسلام کا فلسفہ بیان کیا ہے اور واجبات اور دینی احکام کے دلائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔آپ (س) کے اس جملے کے بارے میں گفتگو جاری تھی «فَجَعَلَ اللهُ الإیمانَ تَطهیراً لَکُم مِن الشِّرکِ» ( خداوندعالم نے ایمان کو اس لیے قرار دیا تاکہ تم شرک سے پاک ہو جاو) اور کہا کہ یہ جملہ بظاہر تو بہت مختصر ہے لیکن اس میں معانی کا ایک دریا سمایا ہوا ہے۔ پچھلی تقریر میں اس بارے میں مختصر گفتگو ہوئی اور کہا گیا کہ اگر انسان اپنی زندگی میں کامیابی کی منزل تک پہنچنا چاہتا ہے تو اسے ایک سمت و سو حرکت کرنا پڑے گی یعنی انسان کا کسی عمل کو انجام دلانے والا محرک صرف ایک ہی ہونا چاہیے تب وہ کمال تک پہنچ سکتا ہے۔ اگر انسان مومن ہے تو اپنی تمام تر توانائیوں کے ذریعے اللہ کی خشنودی حاصل کرنے کی راہ میں لوگوں کی خدمت کرتا ہے۔ ایسا انسان اپنی زندگی میں بے انتہا مثبت اثرات کا حامل ہو سکتا ہے اور اس کی زندگی بابرکت ہو سکتی ہے۔ لیکن مشرک انسان چونکہ اس کے اندر محرک ایک نہیں ہوتا اس کی سمت و سو ایک نہیں ہوتی تو اس کا باطن کھوکھلا ہوتا ہے وہ اندر سے بٹا ہوا ہوتا ہے اس کی زندگی کامیاب زندگی نہیں ہوتی۔ ہم نے چند مثالوں سے یہ ثابت کیا تھا کہ انسان یا حیوان حتی ایک مرغا اگر ایک سمت و سو حرکت کرتا ہے تو کس طرح اس کے اندر حیرتک انگیز توانائیاں وجود پا جاتی ہیں۔ لہذا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اس جملے کا خلاصہ یوں ہو گا کہ شرک ایک طرح کی روانی بیماری ہے  کہ جس سے بدتر اور مہلک کوئی اور بیماری نہیں ہے اس لیے کہ شرک انسان کے وجود کو تقسیم کر دیتا ہے انسان کے باطن کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اور اسے کمال کی طرف بڑھنے سے روک دیتا ہے۔بنابرایں، شرک ایک قسم کی بیماری ہے اور ایمان اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ایمان انسان کو اس بیماری سے پاک کرتا ہے اسی وجہ سے حضرت فاطمہ زہرا (س) نے ایمان کو انسان کے لیے شرک سے پاک ہونے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ یہاں تک گزشتہ مجلس میں گفتگو ہوئی تھی۔ اس کے بعد آپ (س) عبادتوں کے فلسفے اور ان کے نتائج کے بارے میں گفتگو کا آغاز کرتی ہیں۔ نماز واجب ہوئی ہے تاکہ مومنین اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کرنے کی مشق دیں اور خدا کی عبادت اور بندگی کو درک کریں۔ روزہ اور حج کے واجب ہونے کے بھی اپنے آثار ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا یہ گفتگو کہاں کر رہی ہیں؟ مسجد میں نمازیوں کے درمیان۔ آپ نمازیوں سے یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اے مسلمانو! یہ نمازیں اور یہ عبادتیں جو تم پر واجب ہوئی ہیں اس لیے نہیں ہیں کہ تم نماز پڑھنے کو عادت بنا لو اور نماز کی ادائیگی کا حقیقی مقصد بھول جاو اور اسے صرف ایک ظاہری رسم و رواج میں تبدیل کر دو۔خداوند عالم نے اس وجہ سے نماز کو تم پر واجب قرار دیا ہے کہ نماز تمہیں برائیوں سے روکے، برے کاموں سے باز رکھے اور یہ نص قرآن کریم ہے «إِنَّ الصَّلوۃ تَنهی عَنِ الفَحشاءِ وَ المُنکَرِ»(۱) لہذا اے مسلمانوں تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم نمازیں بھی پڑھ رہے ہو اور دوسرے کے حق بھی غصب کر رہے ہو؟ نمازیں بھی پڑھ رہے ہو اور دوسروں پر ظلم بھی کر رہے ہو؟ نماز بھی پڑھ رہے ہو اور اہل حق کو اس کا حق نہیں دے رہے ہو؟حضرت فاطمہ زہرا(ع) مسجد میں بیٹھے ہوئے نمازیوں کو یہ فرما رہی ہیں کہ تم لوگ کیا سمجھتے ہو نماز کیوں واجب کی گئی؟ کیا اس لیے کہ ہر دن ایک بار دو بار یا پانچ بار مسجد میں آکر جانماز پر کھڑے ہو کر کچھ حرکتیں انجام دے دیں اور اس کے بعد چلیں جائیں؟ بس نماز صرف یہی ہے؟ کیا حقیقت نماز صرف یہی ہے؟ کیا خدا کو اس طرح کی نمازوں کی ضرورت ہے؟ ایسی نماز تو ہمارے دین میں نہیں پائی جاتی۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خدا ہماری عبادت، ہمارے نماز، روزے، حج و زکات سے بے نیاز ہے۔ پس کیوں نماز واجب ہوئی ہے؟خداوند عالم نے نماز کو واجب کیا ہے تاکہ لوگوں کے اندر اطاعت اور بندگی کا سلیقہ پیدا ہو ان کے اندر بندگی کی روح پیدا ہو۔ نماز کا فلسفہ یہ ہے جو قرآن نے بیان کیا  ہے نماز انسان کو ہر طرح کی برائی سے روکتی ہے یعنی اس کے اندر خدا کی اطاعت اور بندگی کی روح پیدا کرتی ہے۔ یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے اور خدا سے تقرب کا ذریعہ ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس سے انسان اللہ کا واقعی بندہ بن جاتا ہے۔ اب ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ کیا ہماری نمازیں ہمیں گناہوں سے روکتی ہیں؟ کیا جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو ہمارے اندر گناہوں سے دور ہونے کا محرک پیدا ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری نمازیں بھی چند حرکتیں ہیں ورزش ہے نماز نہیں ہے۔حضرت زہرا اس امت کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ یہ نمازیں پڑھ رہی ہے لیکن کیا

یہ پیغمبر اسلام (ص) کے دیگر فرامین پر بھی عمل پیرا ہو رہی ہے؟ رسول خدا (ص) نے جو علی علیہ السلام کے بارے میں وصیت کی تھی کیا اس کو انہوں نے نہیں سنا ہے؟ کیا یہ لوگ کل تک رسول خدا (ص) کے ساتھ ساتھ نہیں چل رہے تھے؟ کیا انہوں نے نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا: «الساکِتُ عَنِ الحَقِّ شَیطانٌ أخرَسٌ"  ( جو شخص حق بات کہنے پر خاموش ہو جائے وہ گونگا شیطان ہے) کیا انہوں نے ان باتوں کو رسول اسلام سے نہیں سنا تھا؟ کیسے انہوں نے اجازت سے دی ان کی آنکھوں کے سامنے حق اہل حق سے چھن جائے؟ ابھی تو حجۃ الواع اور اعلان ولایت امیر المومنین (ع) کو  چار ہی مہینے گزرے تھے۔ کیا یہ لوگ بھول گئے؟ یا خود کو فراموشی میں ڈال دیا ہے؟ یا چپ ساد لی ہے؟ مگر ایسا نہیں ہے جو حق بات کہنے کے بجائے چپ ساد لے وہ گونگا شیطان ہے؟ کیوں ان کی نمازوں، عبادتوں، حج و دیگر اعمال نے انہیں حق کی حمایت کرنے سے روک دیا؟ اس لیے کہ عبادت ان کے لیے عادت بن چکی تھی ان کی عبادتیں اپنی اصلیت کو کھو چکی تھیں وہ صرف نماز کی شکل  میں حرکات انجام دے کر چلے جاتے تھے۔حضرت زہرا(س) فرماتی ہیں: اے لوگو! ان نمازوں، روزوں ، حج و زکات اور امر و نہی کا کچھ معنی اور مفہوم بھی ہےْ کیسے تم نماز پڑھتے ہو اور غرور و تکبر بھی کرتے ہو؟ کیسے ایسی چیز ممکن ہے؟ نماز خدا کی اطاعت اور بندگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ نماز خدا کے سامنے انکساری کے اظہار کی ایک مشق ہے۔ وہ نماز جس سے غرور پیدا ہو وہ نماز نہیں ہو سکتی جس کا حکم اللہ نے دیا ہے بلکہ یہ وہ نماز ہے جس کا حکم نفس امارہ دے رہا ہے۔ جس نماز کا حکم اللہ نے دیا ہے وہ نماز دل کو روشن کرتی ہے، نفس کو منکسر کرتی ہے، انسان کو متواضع کرتی ہے۔ ہم نماز میں کیا کرتے ہیں؟  کتنی مرتبہ خدا کا تذکرہ کرتے ہیں اس کا نام لیتے ہیں؟ شروع سے آخر نماز تک کتنی مرتبہ اس کے سامنے جھکتے ہیں؟ کتنی مرتبہ اپنی پیشانی زمین پر رکھتے ہیں اور اس کا سجدہ کرتے ہیں؟ سجدہ کا کیا مطلب ہے؟ انسان خدا کے سامنے سجدہ کرنے سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ میرا پورا وجود اور میری روح و جان خدا کے سامنے تسلیم ہے۔ اپنا سر اور پیشانی جو میری سربلندی اور میری عزت کی علامت ہے اسے اپنے معبود کے سامنے خاک پر رکھ دیتا ہوں۔ کیا نماز اس کے علاوہ کچھ اور ہے؟ کیوں سجدہ کرتے ہو؟ کیا کسی بادشاہ یا حاکم کے سامنے سجدہ کرنا جائز ہے؟ انسان کا سجدہ صرف خدا کے لیے ہونا چاہیے۔ ہم خدا کے علاوہ کسی کے سامنے اپنا سر نہیں جھکا سکتے۔ اس سجدہ کا کیا مطلب ہے؟سجدہ یعنی تواضع اور فروتنی کی آخری حد۔ سجدہ کی علامت پیشانی کو زمین پر رکھنا ہے۔ یعنی خدایا میں صرف تیرے آگے تسلیم ہوں لہذا اپنے سر اور پیشانی کو زمین پر رکھ دیتا ہوں۔ہم نماز کے وقت خدا کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں۔ کیسے خدا کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں؟ کیا ہم نماز میں خدا کے ساتھ ہم کلام نہیں ہوتے؟ کیا ہم نماز میں نہیں کہتے؟ «اِیّاکَ نَعبُدُ وَاِیّاکَ نَستَعینُ.»(۲) ہم کہتے ہیں صرف تو، تو کون ہے؟ کیا خدا نہیں ہے؟ خدا کو کہتے ہیں کہ صرف تیری عبادت کرتے ہیں۔ صرف تجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ تیرے علاوہ کسی سے مدد کا مطالبہ نہیں کرتے۔ لہذا آپ نماز میں اپنے پروردگار سے مناجات کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں اس کے سامنے سجدے اور رکوع کر رہے ہوتے ہیں۔ان تمام اعمال کو نتیجہ کیا ہے؟ غرور؟ تکبر؟ حدیث میں آیا ہے: «الغُرورُ شِرکٌ خَفیٌّ» غرور مخفی شرک ہے۔ انسان کو تکبر کرنےکا حق نہیں ہے۔ انسان کس چیز پر اپنے آپ کو بڑا سمجھے؟ قرآن کہتا ہے: «وَلاَ تَمْشِ فِی الأرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَن تَخْرِقَ الأرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً.»(۳) کس چیز پر فخر کریں اور اپنے آپ کو بڑا کہیں میں ایسا موجود ہوں جس کے پاس نہ اپنے نفع کا اختیار ہے نہ نقصان کا نہ زندگی کا نہ موت کا کچھ بھی تو میرا نہیں ہے۔ نہ دولت میری، نہ علم میرا، نہ اولاد میری، ہمارے پاس کچھ بھی اپنا نہیں ہے۔ ہم برہنہ دنیا میں آئے اور برہنہ دنیا سے جائیں گے۔ نہ کچھ لائے تھے اور نہ کچھ لے کر جائیںگے۔لہذا، یہ ثروت، یہ دولت، علم، طاقت زندگی ہمارے پاس امانت ہے۔ یہ چیزیں ہماری اپنی نہیں ہیں۔ ہم ان کے امین ہیں۔ پس غرور کس بات کا؟ وہ نماز جو انسان کے اندر غرور پیدا کرے نماز نہیں ہے۔ نماز وہ ہے جو انسان کے اندر سے غرور کو ختم کرے۔لہذا ہماری نمازوں کو ہمارے اندر تواضع پیدا کرنا چاہیے جب میں خدا کے سامنے سر سجدے میں رکھوں تو یہ احساس کروں کہ میں اپنے پروردگار کے سامنے تسلیم ہو گیا ہوں میرا سب کچھ اس کا ہے  «إِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ.»(۴) اس وقت مجھے یہ محسوس کرنا چاہیے کہ میرے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔ میں کون ہوں جو تکبر کروں؟ میں کون ہوں جو کسی سے انتقام لوں؟ میں تو ایک ناتوان، ضعیف اور بے کس موجود ہوں۔یہ نماز کے معنی کا خلاصہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ میں شیطان، دشمنوں اور ظالموں کے مقابلہ

میں بھی ضعیف اور ناتوان بنا رہوں۔ اس لیے کہ ہماری قدرت اور طاقت اللہ کے لیے ہے نہ ہماری ذات کے لیے۔یہاں پر میں آپ کی توجہ کو اس اصطلاح ’’اعتماد بالنفس‘‘ کی طرف مبذول کرنا چاہوں ہوں گا۔ اعتماد بالنفس کا کیا مطلب ہے؟ کہتے ہیں فلاں کے اندر اعتماد بالنفس پایا جاتا ہے۔ یعنی وہ نڈر اور شجاع ہے۔ اعتماد بالنفس غرور اور تکبر سے الگ ہے۔ توکل اور اعتماد بالنفس ایک قسم کا کمال ہے یعنی جب میں کسی مشکل میں گرفتار ہوتا ہوں، جب میں میدان جنگ میں جاتا ہوں، جب میں زندگی کے کسی کام میں مشغول ہوتا ہوں تو اگر خدا پر بھروسہ کرتا ہوں تو قوی ہوں خدا پر بھروسے کے ذریعے قوی ہوں لیکن خود متواضع ہوں۔لیکن انسان اگر خود اپنے آپ پر بھروسہ کرے تو مغرور ہو جائے گا حق اور باطل کے درمیان تمیز پیدا نہیں کر پائے گا۔ کبھی حق کی راہ پر چلے گا اور کبھی باطل کی راہ پر۔ لیکن اگر خدا پر بھروسہ ہے تو نہ مغرور ہو گا اور نہ متکبر، اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ خدا اس کی صحیح راہ میں ہدایت کرے گا۔لہذا نماز بندوں کی صحیح تربیت کے لیے تمرین اور مشق ہے۔ نماز ایسا کارخانہ ہے جس میں انسان کی اصلاح ہوتی ہے۔

Read 1874 times