فضائلِ علی علیہ السلام علمائے اہلِ سنت کی نظر میں

Rate this item
(0 votes)
فضائلِ علی علیہ السلام علمائے اہلِ سنت کی نظر میں

مقامِ حضرت علی علیہ السلام کو سمجھنے کا ایک بہترین اور اہم ترین ذریعہ علمائے اہلِ سنت کے نظریات اور اُن کا کلام ہے۔ یہ انتہائی دلچسپ بات ہوگی کہ علی علیہ السلام کے بلند وبالا مقام کو اُن افراد کی زبانی سنیں جو مسند ِ خلافت کیلئے تو دوسروں کو مقدم سمجھتے ہیں لیکن علی علیہ السلام کی عظمت کے قائل بھی ہیں اور احادیث ِ نبوی کی روشنی میں علی علیہ السلام کی خلافت ِ بلافصل کو مانتے بھی ہیں لیکن چند صحابہ کے قول و فعل کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت و نصیحت پر ترجیح دیتے ہیں۔اس سے خود اُن کو بہت بڑا نقصان ہوا کیونکہ وہ علومِ اہلِ بیت سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہے اور حکمت و دانائی کے وسیع خزانوں اور قرآن کی برحق تفسیر سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے سے قاصر رہے۔
علمائے اہلِ سنت کے نظریات کو لکھنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ ان بزرگوں کے اقوال اور نظریات پر غور و فکر کیا جائے جو علی علیہ السلام کی شان میں کہے گئے ہیں اور جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ حضرت علی کی شخصیت، پیغمبر اسلام کے مقدس وجود کے بعد سب سے بلند ہے جیسے کہ قرآن کی آیات، احادیث ِ نبوی اور کلامِ خلفاء کو جمع کرنے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت واضح ہوئی ہے۔ اب ہم علمائے اہلِ سنت کے کلام اور نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ وہ مولیٰ علی علیہ السلام کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔اُمید ہے کہ حق طلب حق کو پالیں گے، انشاء اللہ۔شروع میں ابن عباس کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ابن عباس کو اُمت ِمسلمہ کے تمام فرقے قبول کرتے ہیں۔

ابن عباس

ابن عباس نے اپنی عمر کے آخری لمحوں میں سربلند کرکے یہ کہا:
”اَلَّلھُمَّ اِنِّی اَ تَقَرَّبُ اِلَیْکَ بِحُبِّ الشَّیْخِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طٰالِب“۔
”پروردگارا! میں علی کی دوستی اورمحبتکا واسطہ دے کر تیری قربت چاہتا ہوں“۔

ابن ابی الحدید معتزلی

”میں اُس شخص کے بارے میں کیا کہوں کہ جس پر تمام فضائلِ انسانی کی انتہاہوجاتی ہے۔ تمام اسلامی فرقے اُسے اپنا سمجھتے ہیں۔ وہ تمام خوبیوں کا مالک ہے اور تمام فضیلتوں کا سرچشمہ ہے۔ وہ پہلوں میں کامیاب ترین شخص تھا اور بعد میں آنے والوں میں اگر کوئی فضیلت دیکھی گئی تو تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ خوبی بھی وہاں سے ہی شروع ہوئی۔ پس چاہئے کہ خوبیاں اُسی پر اکتفا کریں اور اُس جیسے کی اقتداء کریں“۔
حوالہ
ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ، جلد1،صفحہ16۔
ابن ابی الحدید اپنے قصیدہ عینیہ جو کہ اُس کے سات قصیدوں میں بہترین قصیدہ ہے اور وہ اس کو سونے کے پانی کے ساتھ مولیٰ علی علیہ السلام کے روضے پر لکھنے میں سالہا سال مصروف رہا، اُس میں کہتے ہیں:
”میں نے اُس برق سے جس نے رات کی تاریکی کو پھاڑ دیا، مخاطب ہوکرکہا:
اے برق! اگر تو سرزمین نجف میں نہیں تو بتا کہاں ہے؟ کیا تجھے پتہ ہے کہ تجھ میں کون کونسی ہستیاں پوشیدہ ہیں؟
موسیٰ بن عمران، عیسیٰ مسیح اور پیغمبر اسلام اس میں ہیں اورنورِ خدائے ذوالجلال تجھ میں ہے بلکہ جو بھی چشمِ بینا رکھتا ہے، آئے اور دیکھ لے۔
خدا کی قسم! اگر علی نہ ہوتے تو نہ تو زمین ہوتی اور نہ ہی اُس پر کوئی مرد ہوتا۔
قیامت کے روز ہمارا حساب کتاب اُسی کے وسیلہ سے خدا کے حضور پیش کیا جائے گا۔قیامت کے ہولناک دن وہی ہمارا ایک مددگار ہوگا۔
یا علی !میں آپ ہی کی خاطر مکتب اعتزال کو بڑا سمجھتا ہوں اور آپ ہی کی خاطر سب شیعوں کو دوست رکھتا ہوں۔
حوالہ
ابن ابی الحدید، کتاب”علی علیہ السلام،چہرئہ درخشانِ اسلام“،حصہ پیش لفظ، صفحہ9۔
وہ مزید کہتے ہیں:
”یا علی ! اگر آپ میں آثارِ حدث موجود نہ ہوتے تو میں کہتا کہ آپ ہی بخشنے والے اور جانداروں کی روح کو قبض کرنے والے ہیں۔ اگر طبعی موت آپ پر اثر انداز نہ ہوتی تو میں کہتا کہ آپ ہی سب کے روزی رساں ہیں اور آپ ہی جس کو کم یا زیادہ چاہیں، بخشیں۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ دین اسلام کے پرچم کو پوری دنیا میں لہرانے اور اس جہاں میں عدل و انصاف بھرنے کیلئے آپ کے بیٹے مہدی علیہ السلام جلد تشریف لائیں گے“۔
حوالہ
داستانِ غدیر، صفحہ285،بہ نقل از ”المراجعات السبع العلویات“، صفحہ43۔
ابن ابی الحدید نہج البلاغہ کی شرح میں لکھتے ہیں:
اِنَّہُ علیہ السلام کَانَ اَولٰی بِالْاَمْرِوَاَحَقَّ لَاعَلٰی وَجْہِ النَّصِّ، بَلْ عَلٰی وَجْہِ الْاَفْضَلِیَّةِ،فَاِنَّہُ اَفْضَلُ الْبَشَرْبَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہ وَاَحَقُّ بِالْخِلاٰ فَةِ مِنْ جَمِیْعِ الْمُسْلِمِیْنَ۔
”حضرت علی علیہ السلام منصب ِ ولایت کیلئے سب سے بہتر اور سب سے زیادہ حقدار تھے۔ وہ اس کیلئے از طریقِ نص نہیں بلکہ اپنے افضل ہونے کی وجہ سے اہل تھے کیونکہ رسول اللہ کے بعد وہ سب سے افضل بشر تھے اور تمام مسلمانوں سے زیادہ خلافت پر حق اُن کا تھا“۔

ابوحامدغزالی (شافعی مذہب کے سکالر)

ابوحامد محمد ابن محمد غزالی کتاب”سِرّالعالمین“میں لکھتے ہیں:
”اَسْفَرَتِ الْحُجَّۃُ وَجْھَھٰاوَاَجْمَعَ الْجَمٰاھِیْرُعَلٰی مَتْنِ الْحَدِیْثِ عَنْ خُطْبَۃِ یَوْمِ غَدِیْرِ خُمٍّ بِاتِّفَاقِ الْجَمِیْعِ وَھُوَ یَقُوْلُ:مَنْ کُنْتُ مَوْلاٰہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاٰہُ فَقٰالَ عُمَرُ بَخٍ بَخٍ لَکَ یٰااَبَالْحَسَنِ لَقَدْ اَصْبَحْتَ مَوْلاٰیٰ وَمَوْلٰی کُلِّ مُوٴْمِنٍ وَمُوٴْمِنَۃٍ۔ھٰذَا تَسْلِیْمٌ وَرَضِیٍّ وَتَحْکِیْمٌ۔ثُمَّ بَعْدَ ھَذٰاغَلِبَ الْھَوٰی لِحُبِّ الْرِّیٰاسَۃِ وَحَمْلِ عَمُودِ الْخِلاٰفَۃِ۔۔۔۔۔الخ۔
”رخِ حقیقت سے پردہ اٹھ گیا اور تمام مسلمانانِ عالم حدیث ِ غدیرِ خم اور خطبہٴ یومِ غدیر کے متن پر متفق ہیں۔ جب پیغمبر اسلام نے فرمایا تھا کہ جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اُس وقت عمر نے کہا:اے ابا الحسن ! مبارک مبارک ۔ آج آپ نے اس حال میں صبح کی کہ میرے بھی مولیٰ ہیں اور تمام موٴمن مردوں اور موٴمن عورتوں کے بھی مولیٰ ہیں۔ اس طرح مبارک باد دینا پیغمبر کے فرمان کو تسلیم کرنا ہے اور علی علیہ السلام کی خلافت پر راضی ہونا ہے(لیکن افسوس) اس کے بعد نفس امارہ نے ریاست طلبی اور خلافت طلبی کی خاطر اُن پر غلبہ پالیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“۔
حوالہ
شبہائے پشاور،صفحہ608،نقل از ”سِرّ العالمین“، غزالی۔


عبدالفتاح عبدالمقصود (مصنف معروف مصری)

”حضرتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو آپ کی جانشینی کے قابل ہو، سوائے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاک فرزندوں کے والد یعنی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے۔ میں یہ بات اہلِ تشیع کی طرفداری کیلئے نہیں کہہ رہا بلکہ یہ ایسی بات ہے کہ تاریخی حقائق اس کے گواہ ہیں۔ امام (علی علیہ السلام) سب سے بلند مرتبہ مرد ہے جسے کوئی بھی ماں آخری عمر تک پیدا نہ کرسکے گی اور وہ ایسی شخصیت ہے کہ جب بھی ہدایت تلاش کرنے والے اُس کے کلام، ارشادات اور نصیحتوں کو پڑھیں گے تو ہر جملے سے اُن کو نئی روشنیاں ملیں گی۔ ہاں! وہ مجسم کمال ہے جو لباسِ بشریت میں اس دنیا میں بھیجا گیا“۔
حوالہ
داستانِ غدیر،صفحہ291،نقل از”الغدیر“، جلد6۔

ابوحنیفہ (مذہب ِحنفی کے امام)

”کسی ایک نے بھی علی سے جنگ و جدل نہیں کیا مگر یہ کہ علی علیہ السلام اُس سے اعلیٰ اور حق پر تھے۔ اگر علی علیہ السلام اُن کے مقابلہ میں نہ آتے تو مسلمانوں کو پتہ نہ چلتا کہ اس قسم کے افراد یا گروہ کیلئے اُن کی شرعی ذمہ داری کیا ہے“۔
حوالہ
مہدی فقیہ ایمانی،کتاب”حق با علی است“، نقل از مناقب ِ ابو حنیفہ، خوارزمی،83/2،اشاعت ِ حیدرآباد۔

فخر رازی (اہلِ سنت کے مشہور و معروف مفکر)

”جو کوئی دین میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو اپنا رہبر و پیشوا تسلیم کرے گا، وہی کامیاب ہے اور اس کی دلیل خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ پاک ہے۔ آپ نے فرمایا: ”پروردگار!حق کو اُدھر پھیر دے جدھر علی ہو“۔
حوالہ
داستانِ غدیر،مصنف: بہت سے استاد، صفحہ285، نقل از تفسیر فخر رازی، جلد1،صفحہ 111، اور الغدیر جلد3، صفحہ179۔

زمخشری (اہلِ سنت کے مشہور مفکر)

”میں اُس مرد کے فضائل کے بارے میں کیا کہوں کہ جس کے دشمنوں نے اپنے حسد اور کینہ کی وجہ سے اُس کے فضائل سے انکار کیا اور اُس کے دوستوں نے خوف و ترس کی وجہ سے اُس کے فضائل چھپائے۔ مگر اس کے باوجود اُس کے فضائل دنیا میں اتنے پھیلے کہ مشرق و مغرب کو گھیر لیا“۔
زمخشری اس حدیث ِ قدسی کے ضمن میں کہتے ہیں:
”مَنْ اَحَبَّ عَلِیّاً اَدْخَلَہُ الْجَنَّۃَ وَاِنْ عَصَانِیْ وَمَنْ اَبْغَضَ عَلِیّاً اَدْخَلَہُ النّٰارَ وَاِنْ اَطَاعَنِی“
جس نے علی علیہ السلام سے محبت کی، وہ جنت میں جائیگا ،گرچہ وہ میرا نافرمان ہی کیوں نہ ہو اور جس نے علی سے دشمنی و بغض رکھا، وہ جہنم میں جائیگا، بے شک وہ میرا فرمانبردار ہی کیوں نہ ہو“۔
اس کے بارے میں زمخشری کہتے ہیں کہ محبت و تسلیم ولایت ِعلی علیہ السلام انسان کے ایمان کے کمال کا سبب ہے اور اگر کمالِ ایمان ہو تو فروع میں چھوٹی غلطی زیادہ نقصان نہیں پہنچاتی، لیکن اگر محبت و ولایت ِعلی نہ ہو تو ایمان ناقص ہے اور وہ شخص جہنم کا مستحق ہے۔
حوالہ
1۔ داستانِ غدیر،صفحہ284بہ نقل از زندگانیِ امیر الموٴمنین علیہ السلام، صفحہ5۔
2۔ مباحثی در معارفِ اسلامی،مصنف:علامہ فقید آیت اللہ حاجی سید بہبہانی، صفحہ169۔

شافعی (رہبر مذہب ِشافعی)

”اگر مولیٰ علی مرتضیٰ اپنے ظاہر وباطن کو لوگوں پر ظاہر کردیں تو لوگ کافر ہوجائیں گے کیونکہ وہ انہیں اپناخدا سمجھ کر سجدہ میں گرجائیں گے ۔ اُن کے فضائل و عظمت کیلئے بس یہی کافی ہے کہ بہت سے لوگ یہ نہ سمجھ سکے کہ علی خدا ہیں یا خدا علی ہے یاپھر علی علیہ السلام مخلوقِ خدا ہیں“۔
حوالہ
سید یحییٰ برقعی، کتاب ”چکیدہ اندیشہ ہا“،صفحہ297۔

حافظ ابو نعیم (اہلِ سنت کے مشہور عالم)

”علی ابن ابی طالب علیہ السلام سردارِ قوم، محب ِ ذاتِ مشہود،محبوبِ ذاتِ کبریا،بابِ شہر علم، مخاطب ِآیاتِ ایمانی، عالمِ رمزِ قرآنی، تلاشِ راہِ حق کیلئے بڑی نشانی، ماننے والوں کیلئے شمعِ جاودانی، مولائے اہلِ تقویٰ و ایمان، رہبر عدالت و قاضیان، ایمان لانے والوں میں سب سے اوّل، یقین میں سب سے بڑھ کر، بردباری میں سب سے آگے، علم و دانش کا منبع، اہلِ عرفان کی زینت، حقائقِ توحید سے باخبر، خداپرستی کا عالم، حکمت و دانائی کا سرچشمہ، حق سننے اور حق بولنے والا، وفائے عہد کا بادشاہ، اہلِ فتنہ کی آنکھ پھوڑنے والا، امتحاناتِ الٰہی میں سرفراز و سربلند، ناکثین کو دورکرنے والا، قاسطین و مارقین کو ذلیل و رسوا کرنے والا، خدا کے دین میں سخت کاربند، ذاتِ الٰہی میں فانی حضرتِ علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ۔
حوالہ
حافظ ابونعیم، کتاب حلیة الاولیاء،جلد1،صفحہ61،بابِ ذکر ِعلی علیہ السلام۔

احمد بن حنبل (رہبر مذہب ِحنبلی)

محمد ابن منصور کہتے ہیں کہ ہم احمد بن حنبل کے پاس تھے کہ ایک شخص نے اُن سے کہا کہ اے اباعبداللہ! مجھے اس حدیث کے بارے میں بتائیں جو حضرتِ علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے:
”اَنَا قَسِیْمُ النّٰارِوَالْجَنَّۃ“
”میں جنت اور دوزخ کو تقسیم کرنے والا ہوں“
احمد بن حنبل نے جواب دیا:
”وَمٰا تُنْکِرُوْنَ مَنْ ذٰا؟“
”تم اُس سے انکار کیوں کررہے ہو؟“کیا تمہارے پاس یہ روایت نہیں پہنچی جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا ہے:
”یٰا عَلِیُ: لا یُحِبُّکَ اِلَّا مُوٴْمِنٌ وَلَا یُبْغِضُکَ اِلَّا مُنَافِقٌ“
”یا علی ! تم سے محبت نہیں رکھے گا مگر موٴمن اور تم سے بغض نہیں رکھے گا مگر منافق“۔
ہم نے کہا:ہاں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے ہی علی علیہ السلام سے فرمایا تھا۔ احمد بن حنبل نے کہا کہ اب بتاؤ کہ مرنے کے بعد موٴمن کی کونسی جگہ ہونی چاہئے؟ ہم نے کہا:بہشت۔ احمد بن حنبل نے پھر پوچھا کہ بتاؤ کہ مرنے کے بعد منافق کی کونسی جگہ ہونی چاہئے؟ ہم نے کہا:آتش جہنم۔ اس پر احمد بن حنبل نے کہا کہ بے شک
”فَعَلِیٌّ قَسِیْمُ النّٰارِ وَالْجَنَّۃ“
حوالہ
آثار الصادقین،جلد14،صفحہ440،نقل از امام الصادق،جلد4،صفحہ503۔
عبداللہ بن احمد حنبل کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے علی علیہ السلام اور امیر معاویہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ علی علیہ السلام کے بہت زیادہ دشمن تھے۔ انہوں نے علی علیہ السلام کے عیب ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن ایک بھی نہ ڈھونڈ سکے۔لہٰذا علی علیہ السلام کی شخصیت کو ختم کرنے کیلئے دشمنانِ علی علیہ السلام کی مدح سرائی کی۔
حوالہ
1۔ کتاب”شیعہ“ مذاکراتِ علامہ طباطبائی مرحوم اور پروفیسر ہنری کرین کے درمیان ،صفحہ429،بابِ توضیحات،نقل از صواعق،صفحہ76۔
2۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے کتاب ینابیع المودة،باب سوم،صفحہ344پر نقل کیا ہے۔
”جتنے فضائل حضرت علی علیہ السلام کی شان میں آئے ہیں، اتنے فضائل کسی اور صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی شان میں نہیں آئے“۔
حوالہ
1۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی،کتاب ینابیع المودة،باب59،صفحہ335۔
2۔ حاکم، المستدرک میں،جلد3،صفحہ107۔
3۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، بابِ شرح حالِ علی ،ج3ص63حدیث1108شرح محموی
”علی ہمیشہ حق کے ساتھ تھے اور حق بھی ہمیشہ علی کے ساتھ تھا، جہاں کہیں بھی علی ہوں“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،مصنف:سید ہاشم حسینی تہرانی، صفحہ680،نقل از ا بن عساکر، تاریخ حضرت علی علیہ السلام،جلد3،صفحہ84،روایت1117۔
”عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے والد کے پاس بیٹھا تھا کہ کچھ لوگ وہاں آئے اور حضرت ابوبکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان کی خلافتوں کے بارے میں تبادلہٴ خیال کرنے لگے، یہاں تک کہ خلافت ِ علی کا بھی ذکر آگیا تو میرے والد نے خلافت ِعلی کے بارے میں کہا:
”اِنَّ الْخِلَافَۃَ لَمْ تَزَیَّنْ عَلیّاً بَلْ عَلِیٌّ زَیَّنَھَا“
”خلافت از خود علی علیہ السلام کیلئے باعث ِ زینت نہیں تھی بلکہ علی علیہ السلام کا خلیفہ بننا خلافت کیلئے زینت تھا“۔
حوالہ
1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،باب شرح حالِ امام علی ،جلد3،صفحہ114،حدیث1154
2۔ خطیب،تاریخ بغدار میں،جلد1،صفحہ135،بابِ شرح حالِ علی علیہ السلام، شمارہ1۔
احمد بن حنبل کے بیٹے عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے صحابیوں کی افضلیت کے بارے میں سوال کیا تو میرے والد نے جواب دیا کہ ا بوبکر، عمر،عثمان(یعنی حضرت ابوبکرحضرت عمر سے افضل اور حضرت عمرحضرتِ عثمان سے افضل)۔ میں نے پھر سوال کیا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس مرتبہ پر فائز ہیں تو میرے والد نے جواب دیا:
”ھُوَمِنْ اَھْلِ الْبَیْتِ لَایُقَاسُ بِہ ھَوٴُلَاءِ“
”وہ(یعنی حضرت علی علیہ السلام) اہلِ بیت سے ہیں، اُن کا ان سے کوئی مقابلہ ہی نہیں“۔

ابن صباغ (مذہب ِ مالکی کے مشہور مفکر)

ابن صباغ علی علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں کہ:
”حکمت و دانائی اُن کے کلام سے جھلکتی تھی۔عقل و دانش ظاہری اور باطنی اُن کے دل میں بستی تھی۔ اُن کے سینے سے ہمیشہ علوم کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا اُبلتے تھے اور رسولِ خدا نے اُن کے بارے میں فرمایا:
”اَنَامَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا“
”میں علم کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہے“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ698، نقل از فصول المہمة،تالیف ابن صباغ ،فصل اوّل،ص18

شبلنجی (عالمِ مذہب ِشافعی، اہلِ مصر)

”سب تعریف اُس خدائے بزرگ کیلئے جس نے نعمتوں کا مکمل لباس ہمیں پہنا دیا اور ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام عرب و عجم پر چن لیا اور اُن کے خاندان کو سارے جہان پر برتری بخشی اور فضل و کرم سے اُن کو سب سے اعلیٰ مقام پر فائز کیا۔ وہ دنیا و آخرت کی سرداری میں گویا سب سے آگے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ظاہر و باطن کے کمالات اُن کو عطاکردئیے اور وہ قابلِ فخر افتخارات و امتیازات کے مالک بنے۔۔۔۔۔۔۔“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ699،نقل از نورالابصار،تالیف شبلنجی۔

ابوعَلَم شافعی (عالمِ مذہب ِشافعی)

”اُس خاندانِ پاک کے بارے میں تم کیا سوچتے ہو کہ جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
”اِنَّمَایُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْراً“
”پس یہ اللہ کا ارادہ ہے کہ اے اہلِ بیت تم سے ہر قسم کے رجس (کمزوری، برائی، گناہ اور ناپاکی) کو دور رکھے اور تمہیں ایسا پاک رکھے جیسا پاک رکھنے کا حق ہے“۔
پس یہ خاندان عنایت ِ پروردگار سے معصوم ہیں اور قوتِ پروردگار سے اُس کی بندگی و اطاعت کیلئے آمادہ ہیں۔ ان کی دوستی اللہ نے موٴمنوں پر واجب کردی ہے۔ اس کو ایمان کا ستون قرار دیا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
”قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی“
”آپ کہہ دیجئے کہ میں اس پر کوئی اجر ِرسالت تم سے نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے قریبیوں (اہلِ بیت) سے محبت کرو“۔
پیغمبر اسلام نے بڑے واضح طریقہ سے بیان کیا ہے کہ میرے اہلِ بیت کشتیِ نجات ہیں اور اُمت کو اختلافات اور انحراف کی ہلاکتوں سے پناہ دینے والے ہیں۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ702،نقل از کتاب اہلِ بیت ،مصنف ابوعلم شافعی،آغازِکتاب۔

خطیب ِخوارزمی (مفکر مذہب ِحنفی)

” امیر الموٴمنین علی علیہ السلام،شجاعت و بہادری کا مرکز،علمِ نبوت کا وارث، قضاوت میں سب صحابہ سے بڑھ کر دانا، دین کا مضبوط قلعہ، امین خلیفہ، ہر اُس انسان سے زیادہ دانا اور عقلمند جو اس روئے زمین پر ہے اور آسمان کے نیچے ہے۔
رسولِ خدا کے بھائی اور چچا کے بیٹے کے غم و تکلیف کو مٹانے والا، اُس کا بیٹا پیغمبر خدا کا بیٹا، اُس کا خون پیغمبر خدا کا خون، اُس کا گوشت پیغمبر خدا کا گوشت، اُس کی ہڈیاں پیغمبر خدا کی ہڈیاں، اُس کی عقل و دانش پیغمبر خدا کی عقل و دانش، اُس کی اُس سے صلح جس سے پیغمبر خدا کی صلح اور اُس سے لڑائی جس کی پیغمبر خدا سے لڑائی ہے۔
دنیا میں فضیلتیں ڈھونڈنے والوں کو انہی کے درسے فضائل ملتے ہیں۔ توحید و عدل کے باغ انہی کے شگفتہ کلام سے سرسبز ہیں۔
وہی ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔ وہی اندھیروں میں چراغ ہیں۔ اصل دانائی وہی ہیں۔ سر سے پاؤں تک انہی کی غیبی طاقت (حضرتِ جبرائیل ) تعریف کرتی ہے اور ان کے فضائل کی گواہ ہے“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،مصنف: سید ہاشم حسینی تہرانی، صفحہ 698، نقل از مناقب ِخوارزمی۔
”کیا ابوتراب کی طرح کوئی جوان ہے؟ کیا اُس کی طرح پاکیزہ نسل کوئی رہبر و پیشوا ہے۔ جب بھی میری آنکھ میں درد پیدا ہوتا ہے، اُسی کے قدموں کی خاک میری آنکھ کا سرمہ بنتی ہے۔ علی وہی ہے جو رات کو بارگاہِ ایزدی میں گرکر روتا ہے اور دن کو ہنستے ہوئے میدانِ جنگ کی طرف جاتا ہے۔ اُس کا دامن بیت المال کے سرخ اور زرد ہیروں اور جواہرات سے پاک ہے۔ وہ وہی ہے جو بت توڑنے والا ہے۔ جس وقت اُس نے دوشِ پیغمبر پر اپناپاؤں رکھا، ایسے لگتا تھا جیسے تمام لوگ جسم کی کھال کی مانند ہیں اور مولیٰ اُس جسم کا مغز ہیں“۔
حوالہ
”داستانِ غدیر“،صفحہ286،نقل از ”الغدیر“، جلد4، صفحہ 385 (جو مطالب بیان کئے گئے ہیں، یہ قصیدہ خوارزمی کے چند اشعار کا ترجمہ ہے)۔

ابن حجر عسقلانی (مفکرمعروف شافعی)

”امام علی جنگ ہائے جمل و صفین میں، جہاں بہت کشت و خون ہوا تھا،حق پر تھے“۔
حوالہ
”حق با علی است“،مصنف:مہدی فقیہ ایمانی، صفحہ215،نقل از فتح الباری،شرح صحیح بخاری،244/12۔

حمّوئی (عالمِ مذہب ِحنفی)

”سب تعریف اُس خدائے بزرگ کیلئے ہے جس نے اپنی نبوت و رسالت کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر منتہا کیا اور ان کے چچا زاد بھائی سے ولایت کا آغازکیا جو حضرت محمدکیلئے وہی نسبت رکھتے ہیں جو ہارون حضرت موسیٰ سے رکھتے تھے، سوائے اس کے کہ نبی نہ تھے۔ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرمکے پسندیدہ وصی تھے۔ علی علیہ السلام شہر علم کا دروازہ تھے۔ احسان و بخشش کی مشعل ، دانائی و حکمت کے مرکز، اسرارِ قرآن کے عالم، اُن کے معنی سے مطلع،قرآن کی ظاہری و باطنی حکمتوں سے آگاہ، جو لوگوں سے پوشیدہ ہے ،وہ اُن سے واقف اور اللہ تعالیٰ نے انہی کے خاندان پر ولایت کو ختم کیایعنی اُن کے بیٹے حضرتِ حجت ابن الحسن علیہ السلام پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ696،نقل از فرائد السمطین،مصنف:حموینی،اوّلِ کتاب۔

فواد فاروقی (اہلِ سنت کے مشہور مفکرو مصنف)

”میری جان علی علیہ السلام پر فدا ہو جن کے دل میں شجاعت اوردرد،بازؤوں میں طاقت،آنکھوں میں چمک۔۔۔۔۔۔وہ اُس کسی(پیغمبر اسلام)کے سوگ میں آنسو بہاتا ہے جو اس دنیا میں سب سے زیادہ صرف دو انسانوں سے محبت کرتے تھے، پہلی اُن کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا اور دوسرے آپ کے شوہر ۔“
حوالہ
25 سالہ سکوتِ علی علیہ السلام،مصنف: فواد فاروقی،صفحہ16۔
”حضرت علی علیہ السلام کو دوسرے تمام مسلمانوں پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ علی علیہ السلام خانہٴ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ اس لحاظ سے موٴرخین و مصنفین اُن کو فرزند کعبہ بھی کہتے ہیں کیونکہ اُن کی والدہ نے انہیں کعبہ میں جنا جو تمام مسلمانوں کیلئے مقدس ہے۔ علی علیہ السلام سب سے پہلے مرد ہیں جنہوں نے اسلام کو قبول کیا“۔
حوالہ
25سال سکوتِ علی علیہ السلام،مصنف:فواد فاروقی،صفحہ38۔
”دوسری بڑی فضیلت جو اللہ تعالیٰ نے علی علیہ السلام کو عنایت فرمائی ،وہ یہ ہے کہ اُنہوں نے بچپن ہی سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں پرورش دلائی اور براہِ راست وہ حضرتِ خدیجہ اور پیغمبر خدا کے زیر سایہ اور زیر عنایات رہے“۔
حوالہ
25سال سکوتِ علی علیہ السلام، مصنف: فواد فاروقی،صفحہ137۔
”اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ علی علیہ السلام بعدپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود کو مسلمانوں کی رہنمائی و خلافت کیلئے سب سے زیادہ حقدار سمجھتے تھے لیکن اس کے باوجود جب تاریخ میں خلافت کا مسئلہ علی علیہ السلام کی خواہش قلبی کے برعکس طے ہوا تو انہوں نے مخالفت کی پالیسی اختیار نہ کی کیونکہ علی علیہ السلام کے نزدیک اسلام سب سے زیادہ اہم تھا“۔
حوالہ
25سال سکوتِ علی علیہ السلام،مصنف: فواد فاروقی،صفحہ39۔
”جب بھی بزرگانِ دین اور مفکرین کسی مسئلے کے حل کیلئے بے بس ہوجاتے تھے ،جانتے تھے کہ اب علی علیہ السلام کے پاس جانا چاہئے۔ ایسے دوست کے پاس جانا چاہئے جہاں سے وہ مدد مانگ سکیں اور جس کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُن کی قضاوت کی تائید فرمائی ہو“۔
حوالہ
25سال سکوتِ علی علیہ السلام،مصنف: فواد فاروقی، صفحہ54۔
”حضرت علی علیہ السلام نے تمام زندگی اسلام اور مسلمین کی خدمت کرتے ہوئے تکالیف برداشت کیں۔چاہے وہ زمانہ پیغمبر اسلام کے ساتھ جنگوں میں شامل ہوکر شمشیر زنی کی ہو یا زمانِ خلافت ِصحابہ ہو یا اپنی خلافت کا زمانہ۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ علی علیہ السلام نے سب سے زیادہ تکالیف اپنی خلافت و امامت کے زمانہ میں اٹھائیں کیونکہ وہ عدل و انصاف کے نمونہ تھے اور جتنی سختیاں مسلمانوں کو راہِ راست پر لانے کیلئے برداشت کرنا پڑیں، اُن سے کئی سو گنا سختیاں علی علیہ السلام نے اپنی ذات پر برداشت کیں اور اُن کے گھر والوں نے برداشت کیں تاکہ اُن کے تقدس میں کوئی خلل نہ آنے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کئی صدیاں گزرجانے کے باوجود حضرت علی علیہ السلام کی حکمرانی دلوں پر قائم ہے ، زندہ باد نامِ علی علیہ السلام“۔
حوالہ
25سال سکوتِ علی علیہ السلام،مصنف:فواد فاروقی،صفحہ281۔

شیخ عبداللہ شبراوی (عالم مذہب ِشافعی)

”یہ سلسلہٴ ہاشمی کہ جس میں خاندانِ مطہر نبوی،جماعت ِعلوی اوربارہ امام شامل ہیں، ایک ہی نور سے پیوستہ ہیں جس نے سارے جہان کو روشن کیا ہوا ہے۔ یہ بہت فضیلتوں والے ہیں۔ اعلیٰ صفات کے مالک ہیں۔ شرف و عزتِ نفس والے ہیں اور باطن میں بزرگیِ محمدی رکھتے ہیں“۔
حوالہ
”آئمہ اثنا عشری“،مصنف:شیخ احمد بن عبداللہ بن عباس جوہری،مقدمہ :آیت اللہ صافی گلپائیگانی،صفحہ45،نقل از ”الاتحاف بحب الاشراف“،مصنف:شیخ عبداللہ شبراوی شافعی۔

ابوھذیل (اہلِ سنت کے مفکر اور دانشمند و استاد ابن ابی الحدید)

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں: ”میں نے اپنے اُستاد ابوھذیل سے سنا ہے: جب کسی شخص نے اُن سے پوچھا کہ خدا کے نزدیک علی علیہ السلام افضل ہیں یا حضرتِ ابوبکر؟ تو جواب میں ابوھذیل نے کہا:
وَاللّٰہِ لَمُبٰارِزَةِ عَلِیٍّ عَمْرویَوْمَ الْخَنْدَقِ تَعْدِلُ اَعْمٰال الْمُھٰاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِوَطٰاعٰاتِھِمْ کُلَّھَا تُرْبٰی عَلَیْھَا فَضْلاً عَنْ اَبِیْ بَکْرٍ وَحْدَہُ۔
”خدا کی قسم! علی علیہ السلام کا جنگ ِخندق میں عمروبن عبدودسے مقابلہ بھاری ہے تمام مہاجرین و انصار کی عبادتوں اور اطاعتوں پر، حضرتِ ابوبکر کا تنہا کیا مقابلہ!“
حوالہ
محمد رازی، کتاب’چراشیعہ شدم‘نقل از شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید،ج4ص334

ابن مغازلی (عالم معروف مذہب ِشافعی)

خدا کی حمدوثناء اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے بعد لکھتے ہیں:
”درودوسلام ہو علی علیہ السلام پر ،مومنوں کے امیر ، مسلمانوں کے آقا،سفید اور چمکدار پیشانی والوں کے رہبر، نیکوکاروں کے باپ، روشن چراغ۔
درود ہو سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا پر، بتول عذرا پر،نساء العالمین کی سردا رپر،دختر رسول پر اور اُن کے دوفرزندوں پر،رسول کے نواسوں پر،جوانانِ جنت کے سرداروں پر“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،ص694،نقل از مناقب،مصنف:ابن مغازلی،کتاب کے آغاز میں

عبدالرؤوف مناوی(عالم مذہب ِشافعی)

”اوّل و آخر کا خالق جانتا ہے کہ کتابِ خدا کو سمجھنے کا انحصار علمِ علی علیہ السلام پر ہے“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت، صفحہ680،نقل از” مناوی در فیض القدیر“جلد3،صفحہ47پر عبدالرؤوف مناوی نے حدیث2705(انا مدینة العلم و علی بابھا) میں لکھا ہے۔

جاحظ (مفکر مذہب ِمعتزلی)

”۔۔حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے برسرِ منبر کہا:’ہمارے خاندان کا کسی سے مقابلہ نہیں ہوسکتا‘۔ بالکل صحیح فرمایا۔ کس طرح مقابلہ ہو اُس خاندان سے کسی کا!اسی خاندان سے تو پیغمبر خداہیں اور اسی سے دو پاک فرزند (حسن اور حسین ) ہیں اور سب سے پاک یعنی علی و فاطمہ اور پیغمبر اسلام اور راہِ خدا کے دو شہید :شیر خدا حمزہ اور صاحب ِ عظمت حضرتِ جعفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ688،نقل از شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب52۔
”حقیقت میں ذاتی دشمنیاں عقلِ سلیم کو نقصان پہنچاتی ہیں اورانسان کے اخلاقِ حسنہ کوخراب کرتی ہیں اور خصوصاً اہلِ بیت علیہم السلام سے دشمنی ،یعنی اُن کے فضائل اور اُن کی مسلّمہ افضلیت کو دوسروں کے مقابلہ میں جھگڑے کاباعث بنانا۔ لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم حق طلب کریں۔ اُسی کی پیروی کریں اور قرآن سے وہی مراد چاہیں جو حقیقتاً منظورِ خدا ہے۔ یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم تعصب و خواہشاتِ نفس اور متقدمین(باپ دادا اور اساتذہ) کی غلط تقلیدکو دور پھینک دیں اور اہلِ بیت ِ اطہار علیہم السلام اور عترتِ پیغمبرکی دوسروں پر افضلیت کو تسلیم کریں“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ999،نقل از شیخ سلیمان قندوزی حنفی، باب52،ینابیع المودة۔
”امیر الموٴمنین علی علیہ السلام کے کئی سو اقوالِ حکمت ہیں اور آپ کے ہر قول سے ہزار ہزار حکیمانہ اقوال تفسیر ہو سکتے ہیں“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ690،نقل از مناقب ِ خوارزمی،باب24،صفحہ271۔

Read 3106 times