غلو اور غالیوں کیخلاف ائمہ طاہرین ؑ کی جدوجہد (مکمل)

Rate this item
(1 Vote)
غلو اور غالیوں کیخلاف ائمہ طاہرین ؑ کی جدوجہد (مکمل)

غلو کا لغوی معنی:
الغُلُوُّ کا معنی کسی چیز کے حد سے تجاوز کرنے کے ہیں، اگر یہ تجاوز کسی کی قدر و منزلت اور فضلیت کے متعلق ہو تو اسے غُلُوُّ کہا جاتا ہے اور اگر اشیاء کے نرخ اور قیمت کے بارے میں ہو تو اسے غلاء (مہنگائی) کا نام دیا جاتا ہے اور اگر تیر اپنی حدود سے تجاوز کر جائے تو غُلُوُّ کہتے ہیں۔ ابلنے اور جوش کھانے کو غلیان اور غیر معمولی سرکش حیوان کو غلواء کہتے ہیں، ان تمام معنوں کے لئے فعل کا ایک ہی مادہ استعمال ہوتا ہے۔(۱) بعض افراد کی رائے ہے کہ غلو، افراط و تفریط دونوں طرفوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ بعض دوسرے افراد غلو کو فقط افراط کے معنی میں منحصر سمجھتے ہیں اور اس کے مقابلے پر تقصیر استعمال کرتے ہیں۔(۲) علامہ طبرسی نے مجمع البیان میں غلو کی تفسیر بیان کرتے ہو ئے کہا ہے: ’’بانہ ما یقابل التقصیر وھو تجاوز الحدفقال ان معنی الا یۃلا تتجاوزوا الحد الذی حدہ اللہ لکم الی الا زدیاد وضدہ: التقصیر وھو الخروج عن الحد الی النقصا۔، والزیادہ فی الحد والنقصان عنہ کلا ھما فساد و دین اللہ الذی امر بہ ھو بین الغلو والتقصیر وھو الا قتصاد، ای الا عتدال۔‘‘(۳)

اصطلاحی معنی:
شرعی اعتبار سے انبیا ؑ، آئمہ ؑاور اولیاء کرام کے مقام و مرتبے میں مبالغہ کرنا، اس طرح کہ انہیں الوھیت اور ربوبیت کے مقام پر پہنچا دینا یا انہیں معبودیت، خلق اور رزق وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کا اس طرح شریک قرار دینا کہ ضروریات دین کا انکار لازم آئے۔(۴)
قرآن میں غلو کا معنی:
قرآن مجید کی دو آیات میں غلو استعمال ہوا ہے:
1۔ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ د ِیْنِکُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَی اللَّہِ اِلَّا الْحَقَّ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّّہِ وَکَلِمَتُہٗ اَلْقَھَآ اِلَیٰ مَرْیَمَ وَرُوْحؒمِِّّنْہُ فَاٰمِنُوْا بِاللَّہِ وَ رُسُلِہٖ وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلَثَۃُٗ ط اِنْتَھُوَْا خَیْرًالَّکُمْ ط اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰہُٗ وَّاحِِدُٗ ط سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ ْیَّکُوْنَ لَہٗ وَ لَدُٗ لَہُٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْْضِ وَ کَفَیٰ بِاللّٰہ ِ وَکِیْلاً۔(۵) "اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو سے کام نہ لو اور اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کہو، بے شک مسیح عیسیٰ بن مریم تو اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں، جو اللہ نے مریم تک پہنچا دیا اور اس کی طرف سے وہ ایک روح ہیں۔ لہذا اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ اور یہ نہ کہو کہ تین ہیں، اس سے باز آجاؤ، اس میں تمہاری بہتری ہے۔ یقیناً اللہ تو بس ایک ہی معبود ہے، اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو۔ آسمانوں اور زمین میں موجود ساری چیزیں اسی کی ہیں اور کار سازی کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔"

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے جو کچھ بیان کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے: اس آیت میں اہل کتاب کو غلو کرنے سے منع کیا ہے، اہل کتاب سے مراد عیسائی ہیں یا یہودی؟ تو اس بارے میں زیادہ تر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ عیسائی مراد ہیں، کیونکہ غلو کے موارد عیسائیوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔(۶) اور بعض کی رائے کے مطابق عیسائی اور یہودی دونوں مراد ہیں۔(۷) البتہ اس بارے میں اتفاق ہے کہ غلو کا موضوع حضرت عیسیٰ ہیں، اس غلو کے حوالے سے عیسائیوں کے تین گروہ ہیں۔ بعض کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ  ؑ خدا ہیں، بعض کا نظریہ یہ ہے کہ وہ تین خداؤں میں سے ایک ہیں، تیسرے گروہ کا کہنا ہے کہ وہ خدا کا بیٹا ہیں۔(۸) حضرت عیسی ؑ کے بارے میں یہودیوں نے یہ غلو کیا کہ انہیں فعل حرام کا نیتجہ قرار دیا اور حضرت مریم کی طرف ناروا نسبت دی ہے۔(۹) مفسرین نے اس نکتہ پر بھی بحث کی ہے کہ عیسائیوں سے مراد کون سے ہیں؟ بعض نے کہا کہ اہل نجران مقصود ہیں۔(۱۰) دوسروں کا قول ہے کہ تمام نصاریٰ مراد ہیں۔(۱۱)

قرآن مجید کی ایک دوسری آیت جس میں غلو کا تذکرہ ہے۔ ارشاد رب العزت ہے: ’’قُلْ یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْ ا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَھْوَآ ئَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْ امِنْ قَبْلُ وَ اَ ضَلُّوْا کَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْ ا عَنْ سَوَآ ئِ السَّبِیْلِ‘‘(۱۲) "اے رسولﷺ! کہہ دو کہ اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور اس قوم کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، جو پہلے گمراہ ہوچکی ہے اور بہت سے لوگوں کو بھی گمراہ کرچکی اور سیدھے راستہ سے بہک چکی ہے۔" اس آیت میں خطاب رسول اکرمﷺ سے ہے کہ وہ اہل کتاب سے کہیں وہ دین الہیٰ میں غلو نہ کریں اور جو حدود مقرر کی گئی ہیں، ان سے تجاوز نہ کریں، یہاں پر دین میں غلو سے مراد اکثر مفسرین نے حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں الوھیت اور خدا قرار دینے کا عقیدہ مراد لیا ہے، گویا وہی مطالب جو گذشتہ آیت میں بیان ہوئے ہیں، وہ یہاں پر ذکر ہوئے ہیں۔(۱۳) اس سے ثابت ہوا کہ قرآن مجید میں غلو سے مراد کسی کو خدا قرار دینا اور اسے الوھیت کا درجہ دینا ہے۔ ان آیات سے اور قرآن کی دیگر آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ غلو کی تاریخ پرانی ہے، اسلام سے قبل مختلف اقوام میں بالخصوص یہود و نصاریٰ کے درمیان یہ موجود تھا۔

یہودیوں نے حضرت عزیر کی الوھیت کا دعویٰ کیا۔ قرآن کریم نے ان کے باطل نظریئے کو یوں نقل کیا ہے: ’’وَقَالَتِ الْیَھُوْ دُ عُزَیْرُ ابْنُ اللّٰہِ۔‘‘(۱۴) یعنی "یہودیوں نے کہا کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں۔" روایات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ حضرت عزیر کے توسط سے کچھ ایسے معجزات رونما ہوئے، جس کے سبب یہودی یہ کہنے لگے کہ ان میں الوہیت پائی جاتی ہے یا اس کا کچھ جزء شامل ہے۔ یہودیوں کی طرح عیسائیوں کے ہاں بھی ایسے نظریات پائے جاتے ہیں، جن کا تذکرہ گذشتہ آیات میں ہوچکا ہے۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں غلو کیا اور ان کی الوہیت کا دعویٰ کیا۔ قرآن مجید نے یہودیوں کے عقیدے کو بیان کرنے کے فوراً بعد ان کے نظریات کا تذکرہ کیا ہے: ’’وَقَالَتِ النَّصارَیٰ الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ۔ ذٰلِک قَوْلُھُمْ بِاَفْوَاھِھِمْ یُضَاھِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ط  قٰتَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُئْوفَکُوْن‘‘(۱۵) "اور عیسائی کہتے ہیں کہ عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں، یہ سب زبانی باتیں ہیں، ان باتوں میں وہ بالکل اپنے سے پہلے کافروں کی طرح ہیں۔ اللہ انہیں قتل کرے، یہ کہاں بہکے چلے جا رہے ہیں۔" اس آیت میں یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ یہود و نصاریٰ سے پہلے بھی کفار اپنے بزرگوں کے بارے میں غلو کا شکار تھے۔

قرآن مجید ایک اور مقام پر عیسائیوں کے غلو کا پردہ چاک کرتا ہے: ’’لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ‘‘(۱۶) یعنی "حقیقت میں وہ لوگ کافر ہوگئے، جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم اللہ ہے۔" غلو جیسا باطل اور انحرافی عقیدہ مسلمانوں میں بھی سرایت کر گیا۔ جس کی طرف رسول اکرمﷺ نے توجہ دلائی ہے۔ صحیح بخاری میں ہے:
1۔’’حد سے زیادہ میری مدح و ستائش نہ کرو، جیسا کہ نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ ؑکی مدح و ستائش میں افراط سے کام لیا ہے، میرے بارے میں کہو کہ میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں۔‘‘(۱۷)
2۔ ابو رافع قرظی اور سید نجرانی نے کہا کہ: اے محمد ؐ! کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم تمہاری پرستش کریں اور تمہیں رب قرار دیں؟ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ اس کے علاوہ کسی کی پرستش کریں اور اس کے سوا کسی اور کا حکم دوں۔ اس نے مجھے اس لیے مبعوث نہیں فرمایا اور نہ ہی اس قسم کا حکم دیا ہے، اس پر یہ آیت (وما کان لبشر) سورہ آل عمران ۷۹ نازل ہوئی۔ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ایک شخص نے کہا: اے رسول اللہ! کیا ہم تمہیں سجدہ نہ کریں! رسول اکرمﷺ نے جواب دیا: خدا کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اپنے نبی کی عزت و احترام کرو اور حق کو اس کے اہل کے لیے پہچان کرو۔(۱۸)

3۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:۔ مجھے میری شان و منزلت سے آگے نہ بڑھاؤ۔ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نبی بنانے سے پہلے مجھے اپنا بندہ قرار دیا ہے۔(۱۹)
4۔ آپ ؐ کا ارشاد گرامی ہے: دو قسم کے گروہوں کو میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی: ایک ظالم اور ستم کار بادشاہ اور دوسرا دین میں غلو کرنے والا، جو دین سے خارج ہو جاتا ہے اور توبہ نہیں کرتا اور غلو سے اجتناب نہیں کرتا۔(۲۰) پس ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں غلو کے اشارے موجود تھے اور رسول اکرمﷺ اپنے بعد امت میں اس کے پھیلنے کے امکانات کو دیکھ رہے تھے، لہذا آپ ؐ نے غلو کے خطرے سے مسلمانوں کو آگاہ فرمایا اور اس سے بچنے کی تاکید فرمائی۔" مسلمانوں میں اس عقیدے کے داخل ہونے کے مختلف عوامل اور اسباب تھے:
1۔ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کے وہ افراد جنہوں نے ظاہر میں اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا، لیکن دل سے اسلام کی حقانیت کو تسلیم نہیں کیا، انہوں نے مسلمانوں کے عقائد کو بگاڑنے کے لیے مختلف اسلامی شخصیات کے متعلق غلو کو رواج دیا۔ انہوں نے ضعیف الایمان مسلمانوں کو دھوکہ میں رکھ کر ان کے درمیان غلو جیسے باطل عقائد کو ہوا دی۔
2۔ دوسری جانب وہ قومیں جو مجوسیت اور دیگر ادیان کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئیں، لیکن اسلام کی روح کو نہ سمجھ سکیں یا انہوں نے ظاہر میں اسلام کو قبول کیا اور اپنے باطل عقائد کو مسلمانوں کے اندر پھیلایا۔

غلو کی علامات:
وہ نظریات جو غالیوں کے عقائد شمار ہوتے ہیں اور غلو کی نشانیاں قرار پاتے ہیں، وہ یہ ہیں:
1۔ رسول اکرم ﷺ، امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ یا دوسرے اولیاء الٰہی کے متعلق الوہیت کا عقیدہ رکھنا۔
2۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ کائنات کا انتظام و انصرام یا تدبیر، رسول خداﷺ، امیر المومنین علی اور آئمہ اہل بیت علیہم السلام یا کسی اور فرد کے سپرد کی گئی ہے۔
3۔ امیر المومنین علی اور آئمہ علیہم السلام یا کسی اور شخص کی نبوت کا نظریہ رکھنا۔
4۔ کسی فرد کا علم غیب سے ذاتی طور پر آگاہ ہونا، بغیر اس کے کہ اسے وحی یا الہام ہو، اس بات کا عقیدہ رکھنا۔
5۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ اہل بیت ؑکی معرفت اور محبت عبادت الہیٰ اور فرائض الہیٰ کی انجام دہی سے بے نیاز کر دیتی ہے۔(۲۱) البتہ وہ عقائد جن پر دلیل قطعی (خواہ وہ عقلی ہو یا نقلی) قائم ہو تو اسے غلو یا حد سے تجاوز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر اہل بیت ؑکی عصمت امیر المومنین علی ؑ کی خلافت و وصایت بلا فصل اور ان کے بعد باقی اماموں کی امامت اور ولایت کا عقیدہ، امام کے علم لدنی کا نظریہ، رجعت کا عقیدہ اور دیگر شیعہ عقائد جن پر محکم اور متقن ادلہ قائم کی گئی ہیں، انہیں غلو اور حد سے تجاوز قرار دینا کسی لحاظ سے درست نہیں ہے۔

غلو اسلام کے تمام فرقوں میں پایا جاتا ہے، جن کی مثالیں تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں، لیکن متعصب افراد نے اسے صرف شیعہ فرقے سے منسوب کیا ہے، جو کہ سراسر غلط ہے۔ شیعوں کے عقائد مسلم طور پر ان کی کتب میں موجود ہیں۔ یہاں پر ہم چند شیعہ علماء کے نظریات بیان کریںگے، تاکہ غلو اور غلاۃ کے بارے میں شیعہ اثناء عشری فرقہ کا نظریہ واضح ہو جائے۔ شیخ صدوق ؒ فرماتے ہیں: غلاۃ اور مفوضہ کے سلسلے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ کافر باللہ ہیں، یہ لوگ اشرار ہیں، جو یہودی، نصاریٰ، مجوسی، قدریہ، حروریہ سے منسلک ہیں، یہ تمام بدعتوں اور گمراہ فکروں کے پیروکار ہیں۔(۲۲) شیخ مفید ؒ فرماتے ہیں: غلات اسلام کا دکھاوا کرنے والا گروہ ہے، یہ وہی افراد ہیں، جہنوں نے امیر لمومنین علی ؑ اور ان کی پاکیزہ اولاد کو الوہیت اور نبوت کی نسبت دی ہے، یہ افراد گمراہ اور کافر ہیں اور امیر المومنین ؑنے ایسے لوگوں کے قتل کا حکم صادر فرمایا ہے۔ دوسرے آئمہ ؑنے بھی ایسے افراد کو کافر اور خارج از اسلام قرار دیا ہے۔(۲۳)

علامہ حلیؒ بیان فرماتے ہیں: بعض غالی حضرات امیر المومنین علی ؑ کی الوہیت اور بعض ان کی نبوت کا عقیدہ رکھتے ہیں، یہ سب نظریات باطل ہیں، کیونکہ ہم نے ثابت کیا ہے کہ اللہ جسم نہیں ہے، اس میں حلول محال اور اس کے ساتھ ایک ہو جانا (اتحاد) باطل ہے۔ اسی طرح ہم نے ثابت کیا ہے کہ محمدﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔(۲۴) محقق حلی فرماتے ہیں: غلات اسلام سے خارج ہیں، اگرچہ وہ ظاہری طور پر اسلام کا اقرار کرتے ہیں۔(۲۵) علامہ نراقی کا قول ہے: غالیوں کی نجاست میں کسی قسم کا شک نہیں ہے، یہ وہ لوگ ہیں، جو حضرت علی ؑ یا دیگر افراد کی الوہیت کے قائل ہیں۔(۲۶) صاحب جواہر کا قول ہے: غلات، خوارج، ناصبی اور ان کے علاوہ دیگر افراد جو ضروریات دین کے منکر ہیں، یہ کبھی بھی مسلمانوں کے وارث نہیں ہوسکتے ۔(۲۷) آقا رضا ہمدانی لکھتے ہیں: وہ فرقہ جن کے کفر کا حکم دیا گیا ہے، وہ غلات ہیں اور ان کے کفر میں شک و شبہ نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ امیر المومنین ؑ اور دوسرے افراد کی الوھیت کے قائل ہیں۔(۲۸) امام خمینی ؒ تحریر الوسیلہ میں فتویٰ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر غالی کا غلو الوھیت، توحید اور نبوت کے انکار کا لازمہ قرار پائے تو یہ کافر ہیں۔(۲۹) ان اقوال سے ثابت ہوا کہ علماء شیعہ غالیوں کے کفر اور نجاست کا حکم دیتے ہیں اور ان کے حوالے سے انہوں نے فقہی احکام بھی بیان کر دیئے ہیں، مثلاً ان کی نجاست، ان کا ذبیحہ حرام ہے اور وہ مسلمانوں کی میراث نہیں پا سکتے۔ جرح والتعدیل کے ماہر شیعہ علماء کا غالیوں کے بارے میں موقف انتہائی واضح ہے۔(۳۰)

غلو اور غالیوں کے بارے میں آئمہ اہل بیت ؑکا موقف اور انکا طرز عمل:
رسول اکرم ﷺ نے اپنے اصحاب کو اپنی امت میں رونما ہونے والے فتنوں سے باخبر کر دیا تھا، انہی امور میں سے ایک وہ راز تھا، جس سے حضرت علیؑ کو آگاہ فرمایا کہ ایک قوم تمہاری محبت کا اظہار کرے گی اور اس میں غلو کی حد تک پہنچ جائے گی اور اس کی وجہ سے اسلام سے خارج ہو کر کفر و شرک کی حدوں میں داخل ہو جائے گی۔ احمد بن شاذان نے اپنی اسناد سے امام صادق  ؑسے روایت کی ہے کہ انہوں نے اپنے آباء و اجداد سے اور انہوں نے علی ؑسے بیان کیا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: "اے علی میری امت میں تیری مثال عیسیٰ بن مریمؑ کی ہے، ان کی قوم ان کے حوالے سے تین گروہوں میں بٹ گئی، ایک گروہ مومن تھا اور یہ ان کے حواری تھے، دوسرا گروہ ان کا دشمن تھا، جو کہ یہودی تھے۔ تیسرا گروہ وہ تھا، جنہوں نے ان کے بارے میں غلو کیا اور ایمان کی حدود سے خارج ہوگئے۔ میری امت تیرے بارے میں تین گروہوں میں تقسیم ہوگی۔ ایک گروہ تمہارا شیعہ ہوگا اور یہ مومنین ہوں گے، دوسرا گروہ تمہارا دشمن ہوگا اور یہ شک کرنے والے ہوں گے، تیسرا گروہ تمہارے بارے میں غلو کرنے والا ہوگا اور یہ منکرین کا گروہ ہوگا۔ اے علی! جنت میں آپ اور آپ کے شیعہ جائیں گے اور جہنم تمہارے دشمنوں اور غلو کرنے والوں کا ٹھکانہ ہوگی۔"(۳۱)

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے خود فرمایا ہے: "میرے بار ے میں دو قسم کے افراد ہلاک ہوں گے، ایک غالی محب اور دوسرا دشمن جفا کار۔"(۳۲) ابن نباتہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی ؑنے فرمایا: "خدایا! میں غلو کرنے والوں سے ایسے بیزار اور بری ہوں، جس طرح عیسیٰ بن مریم عیسائیوں سے بری اور بیزار تھے۔ اے اللہ ان (غالیوں کو) ہمیشہ ذلیل و رسوا فرما اور ان میں سے کسی کی بھی نصرت نہ فرما۔"(۳۳) آپ ؑ نے ایک اور مقام پر فرمایا: "ہمارے بارے میں غلو سے پرہیز کرو، کہو کہ ہم پروردگار کے بندے ہیں، اس کے بعد ہماری فضلیت میں جو چاہو کہو۔"(۳۴) امام صادق  ؑسے روایت ہے کہ یہودی علماء میں سے ایک شخص امیر المومنین ؑکے پاس آیا اور کہا اے امیر المومنین! آپ کا خدا کب سے ہے۔؟ آپ ؑ نے فرمایا: "تیری ماں تیرے غم میں روئے میرا خدا کب نہیں تھا؟ جو یہ کہا جائے کہ کب سے تھا، میرا خدا کب سے پہلے تھا، جب کب نہ تھا اور بعد کے بعد بھی رہے گا، جب بعد نہ ہوگا، اس کی کوئی غایت نہیں اور اس کی غایت و انتہاء کی حد نہیں، حد انتہا اس پر ختم ہے، وہ ہر انتہا کی انتہا ہے۔" اس نے کہا: اے امیر المومنین کیا آپ نبی ہیں۔؟ آپ ؐ نے فرمایا: "وائے ہو تم پر! میں تو محمد ؐ کے غلاموں میں ایک غلام ہوں۔"(۳۵)

غالیوں کیساتھ امیر المومنین ؑکا سلوک:
عبداللہ بن سبا اصل میں یمن کا رہنے والا اور صنعا کے یہودیوں میں سے تھا۔ حجاز، بصرہ اور کوفہ میں اس کا بہت آنا جانا تھا۔ حضرت عثمان کے زمانے میں دمشق کا سفر کیا تو اہل شہر نے اسے شہر سے نکال دیا، اس کے بعد یہ مصر چلا گیا۔ وہاں حضرت عثمان کے خلاف جو شورش برپا ہوئی، اس میں پیش پیش تھا اور ان کے زبردست مخالفوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔(۳۶) ابن سبا کے حالات میں ہے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور یہ خیال کیا کہ امیر المومنین علی ؑ خدا ہیں اور مقام الوھیت رکھتے ہیں، جب حضرت علی  ؑتک یہ خبر پہنچی تو آپ نے ابن سبا کو بلایا اور اس بارے میں پوچھا تو اس نے واضح طور پر اپنے عقیدے کا اعتراف کیا اور کہا کہ ہاں تو وہ (خدا) ہے، میرے دل میں یہی الہام ہوا ہے کہ تو خدا ہے اور میں تیرا رسول ہوں۔ امیر المومنین ؑنے اسے فرمایا "وائے ہو تم پر! شیطان نے تجھ سے مذاق کیا ہے، تیری ماں تیری میت پر روئے۔ اس سے روگردانی کر اور توبہ کر۔" اس نے قبول نہ کیا۔ حضرت امیر ؑنے اسے زندان میں ڈال دیا اور اسے تین دن کی مہلت دی، تاکہ وہ توبہ کر لے، لیکن اس نے توبہ نہ کی۔ حضرت علی ؑ نے اسے آگ میں جلا دیا اور فرمایا "اس پر شیطان مسلط ہوگیا تھا، وہ اس کے پاس آتا تھا اور یہ عقیدے اسے تلقین کرتا تھا۔"(۳۷)

اس حوالے سے ایک اور واقعہ بھی تاریخ میں نقل ہوا ہے: جنگ جمل کے بعد قوم زط (جٹ) کے بعض افراد جو کہ سبائیہ (عبد اللہ بن سبا کے پیروکار) تھے اور ان کی تعداد ستر تھی، حضرت علی ؑکے پاس آئے، سلام کیا اور اپنی زبان میں آپ سے گفتگو کی، آپ نے انھیں کی زبان میں جواب دیا۔ آپؑ نے انہیں کہا: "جیسا تم کہہ رہے ہو، وہ نہیں ہوں، میں اللہ کا بندہ اور مخلوق ہوں۔" ان لوگوں نے حضرت علیؑ کی بات کا انکار کیا اور ان سے کہا تو ہی خدا ہے۔ آپ نے انہیں کہا: "اگر ان باتوں سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ نہیں کرو گے، جو تم نے میرے بارے میں کہی ہیں تو تم سب کو قتل کر دوں گا۔" وہ اپنی باتوں پر ڈٹے رہے اور ہرگز توبہ نہ کی، حضرت علی ؑ نے ان کے لیے زمین میں گڑھے کھودنے کا حکم دیا۔ گھڑھے کھودے گئے اور ان کے درمیان سوراخ کرکے انہیں آپس میں ملا دیا گیا، پھر ان افراد کو ان گڑھوں میں ڈالا گیا اور ان گڑھوں کا منہ بند کر دیا گیا، ایک خالی گڑھے میں آگ جلائی گئی۔ دھوئیں اور گھٹن کی وجہ سے وہ سب ہلاک ہوگئے۔(۳۸) البتہ اس واقعے کو ایک اور طرح سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ حضرت علی ؑکے حکم کے مطابق گڑھوں میں آگ جلائی گئی اور پھر آپ نے اپنے غلام قنبر کو حکم دیا کہ انہیں پکڑ کر آگ میں ڈالے۔ اس طرح سے وہ سب ہلاک ہوگئے۔ اس بارے میں ایک شعر بھی حضرت علی ؑسے منسوب ہے کہ انہوں نے فرمایا :
انی اذا البصرت امراً منکراً   او قدرت ناری ودعوت قنبراً
ثم احفرت حضراً فحفراً       وقنبر یحطم حطما ً منکراً  (۳۹)

امام زین العابدین ؑ کا موقف:
امام علی بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا: ’’جو ہم پر جھوٹ باندھے، اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو، میں نے جب عبد اللہ بن سبا کے بارے میں سوچا تو میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے، اس نے بہت بڑا دعویٰ کیا تھا، اسے کیا ہوگیا تھا! اللہ کی اس پر لعنت ہو۔ خدا کی قسم علیؑ اللہ کے صالح بندے اور رسول اللہ کے بھائی تھے، درگاہ احدیت میں انہیں جو مقام و مرتبہ ملا، اس کی وجہ صرف اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تھی، جس طرح رسول اکرم ﷺ کو عظیم مقام و منزلت سے نہیں نوازا گیا، مگر خدا کی اطاعت کی وجہ سے۔ امام زین العابدین ؑنے ابو خالد کابلی کو امت میں غلو کے بارے میں آگاہ کیا، جس طرح یہود و نصاریٰ نے اپنے دین میں غلو کیا تھا۔ امام ؑنے فرمایا: "یہودی حضرت عزیر ؑسے محبت کرتے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے ان کے بارے میں وہ کچھ کہا، جو نہیں کہنا چاہیئے تھا۔ لہذا نہ حضرت عزیر ؑ ان سے تھے، نہ وہ حضرت عزیز سے تھے۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑکو دل و جان سے چاہا اور ان کے بارے وہ کچھ کہا، جو ان کے شایان شان نہ تھا۔ لہذا نہ حضرت عیسیٰ ؑ کا ان سے کوئی تعلق رہا اور نہ ہی ان کا حضرت عیسیٰ ؑسے کوئی تعلق رہا اور حقیقت میں ہم بھی اس بدعت کا شکار ہوں گے۔ بہت جلد ہمارے شیعیوں کا ایک گروہ ہم سے محبت کرے گا، یہاں تک کہ وہ ہمارے بارے میں وہی کچھ کہے گا، جو یہودیوں نے حضرت عزیر ؑ اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں کہا تھا۔ لہذا یہ لوگ ہم میں سے نہیں ہوں گے اور نہ ہی ہمارا ان سے کوئی تعلق ہوگا۔"(۴۰)

غالیوں کے بارے میں امام محمد باقر ؑکی رائے:
امام محمد باقر ؑ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ ابو الخطاب، اس کے اصحاب اور اس پر لعنت میں شک کرنے والوں اور اس بارے میں توقف کرنے والوں اور شک کرنے والوں پر لعنت کرے۔۔ اے علی! ان پر لعنت کرنے میں کوتاہی نہ کرو، بتحقیق اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی ہے۔" اس کے بعد انہوں نے کہا کہ رسول ؐخدا نے فرمایا ہے: "جو شخص اس فرد پر لعنت کرنے سے ناراض ہو، جس پر ذات باری تعالیٰ نے لعنت کی ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔"(۴۱) ابو الخطاب محمد بن مقلاص بن راشد منقری بزاربراداجدع اسدی تھا، کوفے کا رہنے والا ایک غالی انسان تھا، اس کے اصحاب اور پیروکاورں کو خطابیہ کہا جاتا ہے۔(۴۲) ابتداء میں وہ امام محمد باقر ؑ اور امام جعفر صادق ؑکے اصحاب میں سے تھا، شروع میں اس کا عقیدہ یہ تھا کہ آئمہ، پیغمبر ہیں، پھر انہیں خدا سمجھنے لگا اور جعفر بن محمد ؐ اور ان کے آباء کی الوھیت کا قائل ہوگیا۔ اس نے کہا کہ امام جعفر صادق ؑ اپنے زمانے کا خدا ہے اور یہ وہ نہیں جسے وہ محسوس کرتا ہے اور اس سے روایت کرتا ہے، چونکہ اس نے عالم بالا سے اس دنیا میں نزول کیا ہے، اس لیے اس نے آدمی کی شکل اختیار کی ہے۔(۴۳)

اس کا خیال تھا کہ جعفر صادق ؑنے اسے اپنے بعد اپنا قیم اور وصی مقرر کیا ہے، پھر اس سے آگے بڑھا اور نبوت کا دعویٰ کر دیا اور یہ کہا کہ وہ اسم اعظم جانتا ہے اور آخر میں کہنے لگا کہ وہ فرشتوں میں سے ہے۔(۴۴) رفتہ رفتہ اس کے گروہ میں اضافہ ہوا اور انہوں نے کوفے کے گورنر کی مخالفت شروع کر دی۔ ایک دن جب ان میں سے ستر افراد ہنگامہ برپا کرنے کے لیے مسجد کوفہ میں جمع تھے تو گورنر کوفہ نے ان پر حملہ کر دیا اور سخت مقابلے میں اس کے بہت سارے ساتھی مارے گئے، اس دوران ابوالخطاب کو گرفتار کیا گیا، حاکم کوفہ نے حکم دیا کہ فرات کے کنارے ’’دار الرزق‘‘ میں اس کے پیروکاروں کے ساتھ سولی پر لٹکایا جائے۔ اس کے بعد ان کے جسموں کو جلایا گیا اور ان کے سروں کو منصور دوانقی کے پاس بھیجا گیا، اس نے حکم دیا کہ تین دن تک ان سروں کو بغداد کے دروازے پر لٹکایا جائے اور پھر آگ میں جلایا جائے۔(۴۵)

زرارہ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ  بیان یا بنان پر لعنت کرے، بنان (اللہ کی لعنت ہو اس پر) نے میرے باپ پر جھوٹ اور افتراء باندھا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ میرے باپ علی ابن الحسینؑ عبد صالح تھے۔"(۴۶) بیان بن سمعان تمیمی نھدی غلات کا سرغنہ تھا، اس کے پیروکاروں کو بیانیہ کہا جاتا ہے، اس کا نام بنان بن سمعیان فھدی اور تمیمی بھی آیا ہے، یہ شخص امام زین العابدین ؑاور محمد باقر ؑکا معاصر تھا۔(۴۷) اس نے پہلے تو اپنے آپ کو ابو ہاشم عبد اللہ ابن محمد بن حنفیہ کا جانشین کہا، پھر غلو کیا اور علی ؑ کو خدا سمجھا اور تناسخ اور رجعت کا عقیدہ اپنایا۔(۴۸) پھر اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور امام محمد باقر  ؑکو خط لکھا کہ تو اسلام قبول کر اور امان میں رہ، بلند ہو جا اور نجات اور کامیابی پالے، کیونکہ تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نبوت کو کہاں رکھا ہے اور رسول کا فرض صرف پہنچا دینا ہے، جس نے کسی کو ڈرایا، اس نے عذر کو برطرف کر دیا۔ امام ؑنے اس کے خط لانے والے عمر و بن عفیف ازدی کو مجبور کیا کہ وہ خط نگل لے۔ پس اس نے خط کھایا اور مرگیا۔(۴۹) آخرکار انہوں نے مسجد کوفہ میں ہنگامہ برپا کیا۔ خالد بن عبداللہ قسری نے اسے اور اس کے پندرہ ساتھیوں کو گرفتار کر لیا، انہیں رسی سے باندھ کر ان پر تیل چھڑکا گیا اور انہیں آگ لگا دی گئی۔ یہ واقعہ ۱۱۹ ہجری کو رونما ہوا۔(۵۰)

غالیوں کیخلاف امام صادق ؑکی جدوجہد:
امام صادق ؑکے دور میں غلاۃ کا مسئلہ بہت بڑھ گیا تھا، اسی کے پیش نظر امام نے اپنے شاگردوں کے درمیان مختلف علوم کی تعلیم شروع کر دی، آپ کی علمی تحریک آفاقی ہوگئی اور آپ کے شاگردوں اور پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا، آپ ؑ لوگوں کو ان علوم سے آگاہ کرنے لگے، جن سے وہ بالکل جاہل تھے اور جو کچھ اپنے آباء اور رسول اکرمﷺ سے سینہ بہ سینہ آپ کو ملا تھا، اسے لوگوں کے دلوں میں منتقل کرنے لگے۔ اس کے سبب سطحی اور سادہ لوح افراد یہ سمجھے کہ امام غیب کا علم رکھتے ہیں اور غیب کا علم رکھنے والا الوہیت (خدائی) کے درجہ پر فائز ہوتا ہے۔ بعض فتنہ پرور افراد نے سادہ لوح افراد کو آلہ کار بنایا، تاکہ لوگوں کے عقائد کی تخریب کے سلسلہ میں اپنی غرض کو پورا کرسکیں، جو ان کا اصلی مقصد تھا۔ یہ کام خاص طور پر ان لوگوں سے لے رہے تھے، جو ابھی ابھی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور ان کا تعلق سوڈان، زط وغیرہ سے تھا، جو اپنے آبائی عقائد لے کر آئے تھے، اس طرح سے بعض نے مادی اور روحانی احتیاج کے پیش نظر غلو کو اپنایا اور راہ حق اور صراط مستقیم سے دور ہوگئے اور امام صادقؑ کے بارے میں طرح طرح کے خرافات پھیلانے لگے۔

مالک ابن عطیہ نے امام صادق ؑکے بعض اصحاب سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک دن امام صادق ؑ بہت غیظ و غضب کی کیفیت میں باہر آئے اور آپ نے فرمایا: "میں ابھی اپنی ایک حاجت کے لیے باہر نکلا، اس وقت مدینہ میں مقیم بعض سوڈانیوں نے مجھ کو دیکھا تو ’’لبیک یاجعفر بن محمد لبیک‘‘ کہہ کر پکارا، تو میں الٹے پاؤں اپنے گھر لوٹ آیا اور جو کچھ ان لوگوں نے میرے بارے میں بکا تھا، اس کے لیے بہت دہشت زدہ تھا، یہاں تک کہ میں نے مسجد جا کر اپنے رب کا سجدہ کیا اور خاک پر اپنے چہرے کو رگڑا اور اپنے نفس کو ہلکا کرکے پیش کیا اور جس آواز سے مجھے پکارا گیا تھا، اس سے اظہار برات کیا، اگر حضرت عیسیٰ ؑ اس حد تک بڑھ جاتے، جو خدا نے ان کے لیے معین کی تھی تو وہ ایسے بہرے ہوگئے ہوتے کہ کبھی نہ سنتے، ایسے نابینا بن جاتے کہ کبھی کچھ نہ دیکھتے، ایسے گونگے بن جاتے کہ کبھی کلام نہ کرتے۔" اس کے بعد آپ نے فرمایا: "خدا ابوالخطاب پر لعنت کرے اور اس کو تلوار کا مزہ چکھائے۔"(۵۱)

ابو عمرو کشی نے سعد سے روایت کی ہے، مجھ سے احمد بن محمد بن عیسیٰ، انہوں نے حسین ابن سعید بن ابی عمیر سے اور انہوں نے ہشام بن الحکم سے، انہوں نے امام صادق  ؑسے روایت کی کہ امام نے فرمایا: "خدا بنان اور سری بزیع پر لعنت کرے، وہ لوگ سر تا پا انسان کی حسین صورت میں درحقیقت شیطان تھے۔" روای کہتا ہے کہ میں نے آپ ؑ سے عرض کی کہ وہ اس آیت :’’ھوا لذی فی السماء الہ و فی الارض الہ‘‘ وہ، وہ زمین و آسمان کا خدا ہے۔"(۵۲) کی یوں تاویل کرتا ہے کہ آسمان کا خدا دوسرا ہے اور جو آسمان کا خدا ہے، زمین کا خدا نہیں ہے اور آسمان کا خدا، زمین کے خدا سے عظیم ہے اور اہل زمین آسمانی خدا کی فضلیت سے آگاہ ہیں اور اس کی عزت کرتے ہیں۔ امام صادقؑ نے فرمایا: "خدا کی قسم ان دونوں کا خدا صرف ایک اور یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ زمینوں اور آسمانوں کا رب ہے، بنان جھوٹ بول رہا ہے، خدا اس پر لعنت کرے، اس نے خدا کو چھوٹا کرکے پیش کیا اور اس کی عظمت کو حقیر سمجھا ہے۔"(۵۳)

کشی نے اپنی اسناد کے ساتھ امام صادق ؑسے روایت کی ہے کہ آپ نے اس قول پروردگار: ’’ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُ ٭ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍٍ۔‘‘(۵۴) "کیا ہم آپ کو بتائیں کہ شیاطین کس پر نازل ہوتے ہیں، وہ ہر جھوٹے اور بدکردار پر نازل ہوتے ہیں" کے بارے میں فرمایا: "وہ (جھوٹے و بدکردار) لوگ سات ہیں: مغیرہ بن سعید، بنان، صائد، حمزہ بن عمار زبیدی، حارث شامی، عبداللہ بن عمرو بن حارث، ابواالخطاب۔"(۵۵) کشی نے حمدویہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے یعقوب نے، انہوں نے ابن ابی عمیر سے، انہوں نے عبد الصمد بن بشیر سے، انہوں نے مصارف سے روایت کی ہے، جب کوفہ سے کچھ لوگ آئے تو میں نے جا کر امام صادق  ؑکو ان لوگوں کے آمد کی خبر دی، آپ فوراً سجدے میں چلے گئے اور زمین سے اپنے اعضاء چپکا کر رونے لگے اور انگلیوں سے اپنے چہرہ کو ڈھانپ کر فرما رہے تھے، نہیں بلکہ میں اللہ کا بندہ اس کا ذلیل و پست ترین بندہ ہوں اور اس کی تکرار کرتے جا رہے تھے، جب آپ نے سر اٹھایا تو آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا، جو آنکھوں سے چل کر ریش مبارک سے بہہ رہا تھا، میں اس خبر دینے پر نہایت شرمندہ تھا، میں نے عرض کی: یابن رسول اللہ ؐ ! میری جان آپ پر فدا ہو، آپ کو کیا ہوا اور وہ کون ہیں۔؟

آپ نے فرمایا: "مصادف! عیسیٰ کے بارے میں نصاریٰ جو کچھ کہہ رہے تھے، اگر اس کے سبب وہ خاموشی اختیار کر لیتے تو ان کا حق تھا کہ اپنی سماعت گنوا دیتے اور بصارت کھو دیتے، ابو الخطاب نے جو کچھ میرے بارے میں کہا، اگر اس کے سبب سکوت کر لوں اور اپنی سماعت و بصارت سے چشم پوشی کر لوں تو یہ میرا حق ہے۔"(۵۶) شیخ کلینی نے سدیر سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت امام صادق  ؑکی خدمت میں عرض کی کہ ایک گروہ ہے، جو اس بات کا عقیدہ رکھتا ہے کہ آپ ہی خدا ہیں اور اس کے ثبوت میں اس آیت :’’ھو الذی فی السماء الہ وفی الارض الہ۔‘‘(۵۷) کو ہمارے سامنے تلاوت کرتے ہیں۔ آپ ؑنے فرمایا: "سدیر! میری سماعت و بصارت، گوشت و پوست اور رواں رواں ان لوگوں سے بیزار ہے اور خدا بھی ان سے بیزار ہے، وہ لوگ میرے اور میرے آباء و اجداد کے دین پر نہیں ہیں، خدا کی قسم روز محشر خدا ان لوگوں کو ہمارے ساتھ محشور نہیں کرے گا، مگر یہ کہ وہ لوگ غضب و عذاب الہیٰ کا شکار ہوں گے۔"(۵۸)

روای کہتا ہے کہ میں نے عرض کی: اے فرزند رسول خدا ؐ ! ایک گروہ ایسا ہے، جو اس بات کا معتقد ہے کہ آپ رسولوں میں سے ہیں اور اس آیت کی تلاوت کرتے ہیں: ’’یٰٓاَ یُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْ اصَالِحًا ٭ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْم۔‘‘ ’’اے میرے رسولو! پاکیزہ غذائیں کھاؤ اور نیک اعمال انجام دو کہ میں تمہارے نیک اعمال سے خوب با خبر ہوں۔‘‘(۵۹) آپ نے فرمایا: "اے سدیر! میری سماعت و بصارت، گوشت و پوست اور خون ان لوگوں سے اظہار برات کرتے ہیں، یہ لوگ میرے اور میرے آباء و اجداد کے دین پر نہیں، خدا کی قسم روز محشر خدا ان لوگوں کو ہمارے ساتھ محشور نہیں کرے گا، مگر یہ کہ وہ لوگ عذاب و غضب الہیٰ کا شکار ہوں گے۔" روای کہتا ہے، میں نے عرض کی: فرزند رسول خدا پھر آپ کیا ہیں۔؟ آپ نے فرمایا: "علم الہیٰ کے خزانہ دار، احکام الہیٰ کے ترجمان اور معصوم قوم ہیں، اللہ نے ہماری اطاعت کا حکم دیا ہے اور ہماری نافرمانی سے منع کیا ہے، ہم زمین پر بسنے والے اور آسمان کے رہنے والوں کے لیے حجت کامل ہیں۔"(۶۰)

مغیرہ بن سعید غلو کرنے والے گروہ کا ایک فرد تھا، جو سحر و جادو کے ذریعے سادہ لوح اور عام فکر کے لوگوں کو اپنی طرف جذب کرتا تھا، پھر ان لوگوں کے لیے آئمہ اہل بیتؑ کے حوالے سے غلو کو آراستہ کر دیتا تھا۔ امام صادق ؑنے اس غالی شخص کی حقیقت اپنے اصحاب کے سامنے واضح کر دی۔ ایک دن اپنے اصحاب کو مخاطب کرکے فرمایا: "خدا مغیرہ بن سعید پر لعنت کرے اور اس یہودیہ پر لعنت کرے، جس سے وہ مختلف قسم کے جادو، ٹونے اور کرتب سیکھتا تھا۔ مغیرہ نے ہماری طرف جھوٹی باتوں کو منسوب کیا ہے، جس کے سبب خدا نے اس سے نعمت ایمان کو لے لیا۔ ایک گروہ نے ہم پر جھوٹا الزام لگایا تو خدا نے ان کو تلوار کا مزہ چکھایا۔ خدا کی قسم ہم کچھ نہیں، صرف اللہ کے بندے ہیں۔ اس نے ہم کو خلق کیا اور انتخاب کیا، ہم کسی کے فائدہ اور نقصان پر قادر نہیں ہیں، اگر کچھ ہے تو رحمت الہیٰ ہے، اگر کوئی مستحق عذاب ہے تو اپنی غلطیوں کے سبب ہوگا۔ خدا کی قسم! خدا پر ہماری کوئی حجت نہیں، ہم مرنے والے ہیں، قبروں میں رہنے والے، محشور کیے جانے والے، واپس بلائے جانے والے، روکے جانے والے اور سوال کیے جانے والے ہیں۔ ان کو کیا ہوگیا ہے، خدا ان پر لعنت کرے، انہوں نے خدا کو اذیت دی اور رسول اکرمﷺ کو قبر میں اذیت دی اور امیر المومنین و فاطمہ زہراء، حسن، حسین بن علی کو اذیت دی ہے۔

آج کل تمہارے درمیان میں ہوں، جو رسول اکرم کا گوشت پوست ہوں، لیکن راتوں کو جب کبھی بستر استراحت پر جاتا ہوں تو خوف و ہراس کے عالم میں سوتا ہوں، وہ لوگ چین و سکون کے ساتھ خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں اور میں خوف و ہراس کی زندگی بسر کر رہا ہوں۔ میں دہشت و جبل کے درمیان لرزہ بر اندام ہوں، میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، جو کچھ میرے بارے میں بنی اسد کے غلام اجرع براد اور ابوالخطاب نے کہا: خدا اس پر لعنت کر ے، خدا کی قسم اگر وہ لوگ ہمارا امتحان لیتے اور ہم کو اس کا حکم دیتے تو واجب ہے کہ اس کو قبول نہ کریں، آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ لوگ ہم کو خائف و ہراساں پا رہے ہیں۔؟ ہم ان کے خلاف اللہ کی مدد چاہتے ہیں اور ان سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ میں تم سب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں فرزند رسول ؐ خدا ہوں، اگر ہم نے آپﷺ کی اطاعت کی تو اللہ ہم پر رحمت نازل کرے اور اگر آپﷺ کی نافرمانی کی تو ہم پر شدید عذاب نازل کرے۔"(۶۱)

امام صادق ؑ نے غلاۃ کی جانب سے دی گئی ساری نسبتوں کی نفی کی ہے، مثلاً علم غیب، خلقت، تقسیم رزق وغیرہ۔ ابی بصیر سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق  ؑ سے عرض کی یا بن رسول اللہﷺ! وہ لوگ آپ کے بارے میں کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا کہتے ہیں؟ میں نے عرض کی کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ بارش کے قطرات، ستاروں کی تعداد، درختوں کے پتوں، سمندر کے وزن، ذرات زمین کا علم رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "سبحان اللہ! خدا کی قسم، خدا کے علاوہ کوئی بھی ان کا علم نہیں رکھتا۔" آپ سے کہا گیا کہ فلاں شخص آپ کے بارے میں کہتا ہے کہ آپ بندوں کے رزق تقسیم کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "ہم سب کا رزق صرف خدا کے ہاتھوں میں ہے، مجھ کو اپنے اہل و عیال کے لیے کھانے کی ضرورت پڑی تو میں کشمکش میں مبتلا ہوا، میں نے سوچ بچار کے ذریعے ان کی روزی فراہم کی، اس وقت میں مطمئن ہوا۔"

زرارہ سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق ؑسے عرض کی کہ عبد اللہ بن سبا کے فرزندوں میں سے ایک تفویض کا قائل ہے! آپ نے فرمایا: تفویض کا قائل ہے! آپ نے فرمایا: تفویض سے کیا مراد ہے۔؟ میں نے کہا: کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے محمد ؐو علی ؑ کو خلق کیا، اس کے بعد سارے امور ان کو تفویض (حوالے) کر دیئے، لہذا اب یہی لوگ رزق تقسیم کرتے ہیں اور موت و حیات کے مالک ہیں۔ آپ نے فرمایا: "وہ دشمن خدا جھوٹ بولتا ہے، جب تم اس کے پاس جانا تو اس آیت کی تلاوت کرنا:
’’ اَمْ جَعَلُوْ الِلّٰہِ شُرَکَآئَ خَلَقُوْا کَخَلْقِہٖ فَتَشَا بَہَ الخلْقُ عَلَیْھِمْ قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ وَّ ھُوَ الْوَاحِدُ الْقَھّار۔‘‘(۶۲) "یا ان لوگوں نے اللہ کے لیے ایسے شریک بنائے ہیں، جنہوں نے اس کی طرح کائنات خلق کی ہے اور ان پر خلقت مشتبہ ہوگئی ہے، کہہ دیجیے کہ اللہ ہی ہر شی کا خالق ہے، وہی یکتا اور سب پر غالب ہے۔‘‘ میں واپس گیا اور جو کچھ امام ؑنے فرمایا تھا، وہ پیغام سنا دیا تو گویا وہ پتھر کی طرح ساکت ہوگیا یا بالکل گونگا ہوگیا۔ مفضل روای ہیں کہ امام صادق ؑ نے ہم سے ابو خطاب کے اصحاب اور غلاۃ کے حوالے سے فرمایا: "اے مفضل! ان کے ساتھ نشست و برخاست نہ کرو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان سے میل جول نہ رکھو، نہ ان کے وراث بنو اور نہ ان کو اپنا وارث بناؤ۔"(۶۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ الصحاح: ج ۴، ص۲۴۴۸۔۲۴۴۹، تاج العروس، ج۱۰، ص۲۶۹۔۲۷۰مفردات القرآن: ج۲، ص۷۶۳
۲۔ التفسیر الکبیر، ج۱۲، ص۶۲، لسان العرب، ج۷، ص۳۶۸، فیروز آبادی، قاموس المحیط، ج۲
۳۔ طبرسی، مجمع البیان، ج۲، ص۲۳۰
۴۔ ابو الحسن اصفہانی، صراط النجاۃ، ج ۱، ص۷۷، خمینی، تحریر الوسیلہ، ج،۱، ص۱۱۸، جعفر سبحانی، کلیات فی علم الرجال، ص۴۰۹
۵۔ سورۂ النساء، آیت۱۷۱
۶۔ طبری، جامع البیان، ج ۶، ص۲۴۔۲۵ شیخ طوسی، التبیان ج۳، ص۳۹۹۔۴۰۳ ابن کیثر، تفسیر القرآن العظیم، ج،۱، ص۵۸۹۔۵۹۰، ابو حیان البحر المحیط، ج۳، ص، ۴۰۰،۴۰۲
۷۔ طبرسی، مجمع البیان، ج۲، ص۱۴۴
۸۔ ابو الفتوح رازی تفسیر شیخ ابو الفتواح رازی: ج۴، ص۷۷۔۷۹، طبرسی، مجمع البیان، ج۲، ص۱۴۴
۹۔ قرطبی، الجامع، ج۶، ص۲۱، طبرسی، مجمع البیان ج۲، ص۱۴۴
۱۰۔ ابو حیان، البحر المحیط، ج۳، ص۴۰۰،۴۰۲، تفسیر شیخ ابو الفتوح رازی۔ ج،۴ ص۷۷۔۷۹
۱۱۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ج،۱، ص۵۸۹۔۵۹۰
۱۲۔ سورہ ٔمائدہ؍۷۷
۱۳۔ ابن کثیر تفسیرالقرآن العظیم، ج۲، ص۸۲، طبری جامع البیان: ج ۶، ص۲۰۴، قرطبی الجامع: ج۶، ص۲۵۳، کاشانی، منہج الصادقین، ج۳، ص۲۸۸
۱۴۔ سورۂ توبہ،۳۰
۱۵۔ سورۂ توبہ،۳۰
۱۶۔ سورۂ مائدہ،۷۲
۱۷۔ صحیح البخاری، باب المناقب
۱۸۔ بحار: ج ۲۵، ص۲۶۲، الدرالمنثور: ج۲، ص۴۶،۴۷ مجمع البیان: ج ۱، ص۴۶۶
۱۹۔ بحار ج،۲۵، ص۲۶۵
۲۰۔ بحار ج ۲۵، ص۲۶۸۔۲۶۹، حمیری قرب الاسناد، ص۳۱، صدوق، خصال، ج،۱ ص۶۳
۲۱۔ بحار الانوار، ج۲۵، ص۳۴۶
۲۲۔ اعتقادات۔ ص۷۱
۲۳۔ تصحیح الاعتقاد، ص۱۰۹
۲۴۔ انوار الملکوت: ص۲۵۲
۲۵۔ المعتبر، ج،۱، ص۹۸
۲۶۔ مستند الشیعہ، ج،۱، ص۲۰۴
۲۷۔ مستند الشیعہ، ج،۱، ص۲۰۴
۲۸۔ مصباح الفقیہ: ج۹، ص۵۶۸
۲۹۔ تحریر الوسیلہ ج۱، ص۱۱۸
۳۰۔ رجال کشی، ج،۱، ص۲۲۳ شمارہ ۱۷۰۰؛ رجال طوسی، ص۵۱، رجال ابن داود، ص۲۵۴
۳۱۔ بحار، ج۲۵، ص۲۶۶۔۲۶۵ ابن شاذان، ایضاح دفائن النواصب، ص۳۳
۳۲۔ بحار، ج،۲۵، ص۲۸۵، مناقب ابن شہر آشوب، ج،ا، ص۲۶۴
۳۳۔ امالی شیخ طوسی، ص۶۵۴، بحار ج ۲۵، ص۲۶۶، مناقب ابن شہر آشوب، ج،۱، ص۲۶۳
۳۴۔ بحار، ج،۲۵، ص،۲۷۰، خصال، ج۲، ص۶۱۴
۳۵۔ اصول کافی، ج،۱، ص۸۹
۳۶۔ الکامل: ج ۳، ص۱۵۴، تہذیب تاریخ ابن عساکر، ج۷، ص۴۲۸۔ تاریخ طبری۔ ج۲، ص۶۴۸
۳۷۔ رجال کشی: ج۱، ص۳۲۳۔ بحار ج۲۵، ص۲۸۶، قاموس الرجال ج ۵، ص۴۶۱
۳۸۔ رجال کشی: ج۱، ص۳۲۵، شرح نہج البلاغہ (حدیدی) ج ۵، ص،۵ الوافی ج ۲، ابواب الحدود، ص۷۰
۳۹۔ بحار ج ۲۵، ص۲۸۵، مستدرک الوسائل: ج ۳، ص۳۴۳، مناقب شہر آشوب، ج۱، ص۲۶۵
۴۰۔ رجال کشی: ج۱، ص۳۳۶، بحار ج۲۵، ص۲۸۳، منھج المقال ص۳۵۵
۴۱۔ بحار، ج،۲۵، ص۳۱۸۔۳۱۹، رجال کشی ج ۲، ص۸۱۰۔۸۱۱، قاموس الرجال ج۸، ص۴۰۱
۴۲۔ الانساب ج۵، ص۱۶۱، الکنی والا لقاب ج۱، ص۶۴
۴۳۔ الملل ونحل: ج۱، ص،۱۳۶،۱۳۷، الفریق بین الفرق، ص۱۵۰۔ منہاج السنۃ، ج،۱، ص۲۳۹
۴۴۔ فرق الشیعہ ص۶۹،۱۰۵۔ مقالات الاسلامیین ج،۱، ص۷۷، الفرق المتفرقہ ص۴۲
۴۵۔ المقالات والفرق، ص۸۱۔۸۲ فرق الشیعہ، ص۱۰۳، ۱۰۵
۴۶۔ مقیاس الھدایۃ ص۸۹، رجال کشی ج۲، ص۵۹۰، بحار ج۲۵، ص۲۷۱،۲۷۰
۴۷۔ الانساب ج۲، ص۳۸۶،۳۸۱؛ قاموس الرجال ج۲، ص۴۶۔۲۴۷
۴۸۔ الفرق الاسلامیہ ص۳۵
۴۹۔ فرق الشیعہ ص۸۵، الملل والنحل ج۱، ص۱۱۴ قاموس الرجال، ج۲، ص۲۴۷
۵۰۔ الکامل: ج ۵، ص۲۰۸، المقالات والفرق، ص۳۳، فرق الشیعہ ص۵۰
۵۱۔ الکافی، ج۸، ص۲۲۶
۵۲۔ سورہ زخرف،۸۴ 
۵۳۔ رجال کشی، ج۴، ص،۵۹۲
۵۴۔ سورئہ شعراء آیت ۲۲۲،۲۲۳
۵۵۔ اصول کافی، ج،۱، ص۲۶۹
۵۶۔ رجال کشی، ج۴، ص۵۸۸
۵۷۔ سورئہ زخرف، آیت۸۲
۵۸۔ مقیاس الہدایۃ، ص۸۹، رجال کشی، ج۲، ص۵۹۴، بحار ج۲۵، ص۲۹۸
۵۹۔ سورہ مومنون، آیت ۵۱
۶۰۔ اصول کافی، ج۱، ص۲۶۹
۶۱۔ رجال کشی، ج۲، ص۴۹۱،۴۹۲، بحار الانوار، ج۲۵، ص۲۸۹۔۲۹۰
۶۲۔ سورئہ رعد، آیت۱۶
۶۳۔ رجال کشی، ج۲، ص۵۸۶، بحار، ج۲۵، ص۲۹۶، تنقیع المقال، ج۳، باب مقاتل، ص۲۴۴
                                      ٭٭٭٭٭٭                
مراجع و مصادر:
۱۔ ابن شاذان، محمد بن احمد(نویں صدی) ایضاح دفائن النواصب والمناقب المائۃ النجف مکتبۃ الحیدریہ
۲۔ ابن شہر آشوب، محمد بن علی (م،۵۸۸)المناقب، قم، موسسہ انتشارات علاقہ
۳۔ ابن عساکر، علی بن حسن (م،۵۷۱) تاریخ مدینہ دمشق، دار البشیر
۴۔ ابن کثیر، اسماعیل بن عمر (ما۔۷۷۴ھ) تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارلفکر،۱۹۷۰ء 
۵۔ ابن منظور، محمد بن مکرم (م۔۷۱۱ھ) لسان العرب، قم، نشر ادب الحوزہ، ۱۴۰۵ہجری
۶۔ ابوحیان، محمد بن یوسف (م۔۷۵۴) تفسیر البحر المحیط ، ۱۴۰۳ہجری ۔۱۹۸۳ء بیروت دارلفکر
۷۔ استر آبادی، محمد بن علی (م۱۰۳۸) نہج المقال فی تحقیق احوال الرجال، تعلیق 
۸۔ محمد باقر بن محمد اکمل، مطبعہ محمد حسین طہرانی، ۱۳۰۰ہجری
۹۔ اشعری سعد بن عبداللہ، (م،۳۰۱) المقالات والفرق، تصحیح و تعلیق محمد جواد مشکور مرکز انتشارات علمی و فرہنگی 1361 ہجری تیسری بار اشاعت)
۱۰۔ اصفہانی ابو الحسن (۱۳۲۵) صراط النجاۃ، حاشیہ ابراہیم حسینی اصطھباناتی تصحیح ابوا القاسم شرافت، تہران چاپ خانہ اسلامیہ ۱۳۷۷ء ہجری اشاعت دہم 
۱۱۔ بخاری، محمد بن اسماعیل (م۔۲۵۶) صحیح البخاری شرح و تحقیق شیخ قاسم اشمای الرفاعی، بیروت، دارالقلم لبقہ الاولی ۱۹۸۷ء
۱۲۔ تستری، محمد تقی، قاموس الرجال، تہران مرکز نشر الکتاب۱۳۸۲ ہجری
۱۳۔ جوہری، اسماعیل بن حماد (م۳۹۳) الصحاح تاج اللغۃ وصحاح العربیۃ انتشارات امیری، ۱۳۶۸ش، اشاعت اول
۱۴۔ حمیری عبداللہ بن جعفر (تیسری صدی) قرب الاسناد تہران مکتبۃ نینوی الحدیثہ 
۱۵۔ خمینی، روح اللہ (م۔۱۴۱۰ہجری) تحریر الوسیلہ، بیروت، دارالانوار، ۱۴۰۳ ہجری ۱۹۸۲ء رازی فخرالدین (م۔۶۰۶) التفسیر الکبیر
۱۶۔ زبیدی واسطی، محمد مرتضیٰ (م۱۲۰۵) تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت، دامکتبہ الحیاۃ، ۱۳۰۶ اشاعت اول
۱۷۔ سبحانی، جعفر کلیات فی علم الرجال، قم مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم ۱۴۰۸ ہجری اشاعت دوم
۱۸۔ سمعانی، عبدالکریم بن محمد (م۔۵۶۲) الانساب، حیدر آباد دکن، مجلس دائرۃ المعارف
۱۹۔ سیوطی، جلال الدین (م،۹۱۱) الدارالمنثور فی التفسیر بائما ثور قم، مکتبہ اللہ العظمیٰ النجفی ۱۴۰۴ ہجری
۲۰۔ شہرستانی، محمد بن عبد الکریم (م۵۴۸) الملل والنحل، لاییزیک، اتوھا راس وتیز۱۹۲۳ء
۲۱۔ صدوق، محمد بن علی (م۳۸۱) الخصال، تصحیح و تعلیق علی اکبر غفاری، قم جماعۃ المدرسین فی الحوزہ العلمیہ، ۱۴۰۳ہجری
۲۲۔ طباطبائی، محمد حسین (م۱۴۰۲) المیزان فی تفسیر القرآن، تہران دارالکتب الاسلامیہ ۱۳۸۹ہجری دوسری اشاعت
۲۴۔ طبرسی، فضل بن حسن (م ۵۴۸) مجمع البیان فی تفسیر القرآن، قم، مکتبہ آیۃ اللہ العظمیٰ المرعشی النجفی ۱۴۰۳ہجری 
۲۵۔ طبری، محمد بن جریر(م۳۱۰) جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارا المعرفہ ۱۳۹۸ھ
۲۶۔ طوسی، محمد بن حسن (م۴۶۰) التبیان، تحقیق و تصحیح احمد حبیب قیصر عاملی، بیروت ۱۹۷۸ء تیسری اشاعت
۲۷۔ فیروز آبادی، محمد بن یعقوب (م۸۱۷) القاموس المحیط، بیروت دارالجلیل 
۲۸۔ قرطبی، محمد بن احمد (م۶۷۱) الجامع لا حکام القرآن، دار الکتاب العربی ۱۳۸۷ھ ۔۱۹۶۷ء تیسری اشاعت
۲۹۔ قمی، عباس (م۱۳۱۹) الکنی والاتعاب، نجف منشورات مطبعہ حیدریہ، ۱۳۸۹، ہجری ۱۹۴۹ء
۳۰۔ کلینی، محمد بن یعقوب (م۳۲۹) الکافی، تصحیح، تعلیق علی اکبر غفاری، دارالکتب الاسلامیہ، تیسری اشاعت
۳۱۔ مبرد محمد بن یزید (م۲۸۵) الکامل تعلیق، محمد ابو الفضل ابراہیم فجالہ مکتبہ نہضۃ مصر ومطبعتھا
۳۲۔ مجلسی محمد باقر (م۔۱۱۱۱) بحار الانوار الجامعۃ لدرا الاخبار آئمۃ الاطہار، بیروت موسسہ الوفا ۱۴۰۳ ہجری ۱۹۸۳ء دوسری اشاعت
۳۳۔ کاشانی فتح اللہ (۹۸۸) منہج الصادقین فی الزام المخالفین متدم و حاشیہ ابوالحسن مرتضوی، تصحیح علی اکبر غفاری انتشارات علمیہ اسلامیہ 
                   تحریر: سید حسنین عباس گردیزی
جامعۃ الرضا، بہارکہو اسلام آباد                   ٭٭٭٭٭٭

Read 1997 times