مولا علی (ع) کا وجود مبارک، سراپا فضیلت و فداکاری اور سراپا مظلومیت

Rate this item
(0 votes)
مولا علی (ع) کا وجود مبارک، سراپا فضیلت و فداکاری اور سراپا مظلومیت

تاریخ انسانیت نے شاید مولاعلی علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑا کوئی مظلوم نہ دیکھا ہو!!
اگرسرکار امیرالمومنین امام علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام کی بے پناہ فضائل و مصائب اور فداکاریوں سے بھری زندگی کا غائرانہ مطالعہ کیاجائےتو یہ حقیقت بآسانی مجسم ہوکر سامنے آسکتی ہےکہ واقعاً آپ تاریخ آدم و عالم کے سب سے بڑے مظلوم ہیں !!!!چونکہ :
آپ ہی تنہا وہ ذات ہیں جسے الہی انتظام و اہتمام کےتحت بیت اللہ الحرام " خانہ کعبہ" میں پیدا کیا گیا ہے ۔
آپ ہی تنہاوہ مرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے سرکارسید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی الہی و آسمانی آواز پر لبیک کہی ہے۔
آپ ہی تنہاوہ مرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے خداوند احد کی وحدانیت اور سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی کھل کر گواھی دی اور اس پر اپنے مکمل ایمان و ایقان کا اظہار فرمایا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلےحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتداء میں خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت و بندگی انجام دی ہے۔
آپ ہی وہ پہلے مرد اور جناب خدیجہ علیھا السلام ہی وہ پہلی عورت ہیں، جنھوں نے کئی سال تک سرکار ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتدا میں نماز اداکی اور کلمہ " لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ " زبان پر جاری وساری رکھا ہے۔
آپ ہی وہ پہلے مرد ہیں جو ہرجگہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ سائے کی طرح رہتے اور ہر مقام پرآپ کا دفاع کرتے نیز کفار قریش کے آزار و استہزاء سے آپ کوبچاتے تھے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے دعوت ذوالعشیرہ کے انعقاد کا انتظام و اہتمام بھی کیا، سرکار سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سرسخت مخالفین کے مقابلے میں کھل کر آپ کی نصرت و حمایت کا وعدہ بھی کیا اور اسی دعوت میں ابولہب جیسے غلیظ و شدید دشمنوں کے طعن و تشنیع کو خندہ پیشانی سے برداشت بھی کیا۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جو شعب ابی طالب میں ہزار سختیوں کے باوجود شمع رسالت کا ہروقت پروانہ وار طواف کرتے رہے اور ایک دو دن نہیں ، تین سال تک وجود پیغمبر کی پاسداری میں آپ نے دن رات ایک کردیئے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے طائف کی طرف سرکار خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی اور آنحضرت کے ہمراہ وہاں کے ناگوارحالات کا مشاہدہ و مقابلہ کیا۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں ، جوشب ہجرت بستر رسالت پر چالیس قبیلوں کی کھنچی ہوئی خونخوار تلواروں کے سائے میں خوشی سے اس لئےسوگئے تاکہ اللہ عزوجل کے رسول کی جان محفوظ رہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں، جنھوں نے شب ہجرت کی قربانگاہ میں ایثارو فداکاری کے لازوال نقوش ثبت کر کے صبح ہجرت رسول اللہ کے قرضوں کو ادا ، آپ کےکئے ہوئےعہد و پیمان کو وفا اور اہل مکہ کی آنحضرت کے پاس رکھی ہوئی امانتوں کو واپس کیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے مکہ سے قافلہ فواطم اور ناموس رسول کو بعزت و حفاظت مدینہ پہنچایا ہے اور اس سفر ہجرت کے دوران اپنی شجاعت ، دلیری ، صلابت ، جوانمردی ، عفت ، غیرت ، حمیت اور ذمہ دارانہ شخصیت کی مثال قائم کی ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے دین اسلام اور آنحضرت پرکفار و مشرکین کی طرف سے مسلط کی گئی تمام جنگوں میں پورے جوش و خروش اور اخلاص و شجاعت کے ساتھ شرکت کی ہے اور بڑے بڑے فیل پیکر دشمنوں کو ہلاکت کے گھاٹ اتارا ہے ، البتہ بعض جنگوں میں آپ نےخود بھی دسیوں زخم کھائے ہیں۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے خداوند سبحان و قدوس اور اس کے رسول کی ایک لمحہ کے لئے بھی نافرمانی نہیں کی اور حکم خداو رسول کو کسی کی ملامت ، طعن و تشنیع ، تہدید و عداوت کی پروراہ کئے بغیر ہمیشہ جامہ عمل پہنایا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے حکم خداو رسول کی اطاعت کرتے ہوئے مکہ پہنچ کر اسلام اور مسلمانوں کے کٹر اور خونخوار دشمنوں ( کفار و مشرکین مکہ) کے درمیان سورہ برائت کی تبلیغ و تبیین کا خطیر فریضہ انجام دیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جو میدان جنگ میں پہنچ جاتے تو دشمن درخت بید کی طرح کانپنے لگتے اور دوستوں کے چہرے امید فتح و ظفر کی وجہ سے کھل اٹھتے تھے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھیں آیہ مباھلہ نے"نفس و جان رسول " قرار دیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھیں " کل ایمان " کا لقب دیا گیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں کہ جوخداوندسبحان کی نہایت محترم و مقدس کنیز اور سیدالمرسلین کی اکلوتی اور چہیتی بیٹی حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کے کفو و شوہر ہیں۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں کہ ادیب عرب خلیل ابن احمد فراھیدی کے بقول " جن کے فضائل دوستوں نے خوف اور دشمنوں نے بغض و عداوت کی وجہ سے چھپائے ہیں ، اس کے باوجود کائنات کے شرق و غرب آپ کی عظمتوں اور فضیلتوں سے بھرے نظر آتے ہیں ( روضۃ المتقین ، ج ۱۳ ، ص ۲۶۵)

آپ ہی تنہا وہ مرد پیں جن کے سلسلہ میں اہل سنت کے امام احمد ابن حنبل نے یہ اظہار کیا ہے:

جتنی روایات صحیح سندوں کے ساتھ علی ابن ابی طالب کے فصائل کے بارے میں نقل ہوئی ہیں ، اتنی رسول اللہ کے کسی ایک صحابی کےبارے میں بھی نقل نہیں ہوئی ہیں۔(طبقات الحنابله، ابن ابی یعلی، چاپ دارالمعرفہ بیروت ، ج۲،ص۱۲۰)

لیکن !!!!
اسی طرح کی ان گنت عظمتوں ، ناقابل شمارفضیلتوں ، عظیم ترین قربانیوں اور بے انتہا مسلسل فداکاریوں کے باوجود سرکار سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قیامت خیز وفات کے بعد آپ اسقدر مظلوم ہوگئے کہ :
آپ ہی وہ ہیں جنھوں نےفرط رنج و الم سے موسلادھار بارش کی طرح بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ تنہا رسول اللہ کو غسل دیا ، کفن پہنایا ، نماز میت پڑھی اور دل پر پتھر رکھ کر سپرد لحدکیا۔
آپ ہی وہ ہیں کہ وفات رسول جیسی حشر انگیز مصیبت پر تسلی دینے کے بجائےجن سے ان کا مسلم حق خلافت و حکومت انتہائی بے غیرتی کے ساتھ چھین لیا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جن کی نگاہوں کے سامنے اس مقدس دروازہ کو آگ لگائی گئی ، جس پر کھڑے ہوکر اللہ کے رسول اپنے " اھل بیت " پر سلام بھیجا کرتے تھے۔
آپ ھی وہ مظلوم ہیں جن کے ہوتے ہوئے ان کی شریک حیات شہزادئ کونین حضرت فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا کی ہتک حرمت کی گئی اور عین عالم شباب میں اس پاک و بے گناہ بی بی کو درو دیوار کے درمیان پیس ڈالا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جن کے بیٹے " محسن " کو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی شکم مادر میں نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جن سے حق خلافت کے بعد "فدک" بھی چھین لیا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں، اللہ و رسول کے حکم سے جن کے ہاتھوں پر میدان غدیر میں سوالاکھ مسلمانوں نے بیعت کی تھی ، اس کے باوجود جعلی و غاصب خلیفہ نے آپ سے زبردستی اپنی بیعت کا مطالبہ کیا اور آپ اور آپ کے معصوم اھل بیت پرظلم وستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں کہ رسول خدا کے بعد " اعلم و افضل امت" ہونے کے باوجود جنھیں غصب خلافت و حکومت کے ہمراہ پچیس سال تک محراب و منبر سے دوررکھا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جنھوں نے پچیس سال کی طویل مدت اس کربناک حالت میں گزاری" فی العین قذیٰ و فی الحلق شجا" کہ آنکھ میں کانٹا کھٹک رہا تھا اور خلق میں ہڈی پھنسی ھوئی تھی۔( نہج البلاغہ ، خطبہ شقشقیہ)
آپ ہی وہ مظلوم ہیں کہ قتل عثمان کے بعد جن کے ہاتھوں پر تمام امت نے شدید اصرار کے ساتھ بیعت کی اور آپ کو اپنا حاکم و خلیفہ تسلیم کیا ، لیکن اس ظاہری خلافت کی تقریباً پانچ سالہ مدت میں آپ پر نہایت خطرناک تین جنگیں مسلط کردی گئیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی سکون کی سانس نہیں لینے دی گئی۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جو ذوالعشیرہ سے لے کر آخر عمر تک اسلام و مسلمین اور انسانیت کے لئے شب و روز فداکاری میں مصروف رھے ، اور جب پروردگار سے دائمی ملاقات کی دی ہوئی سچی خبر کے ہنگام وقوع کو محسوس کرکے مسجد کوفہ کی محراب میں دنیا و مافیھا کو چھوڑ کر فقط اورفقط اپنےعزیز و محبوب خالق و مالک کی یاد و عبادت اور اس سے راز و نیاز میں غرق ہوئے تو عین اسی عالم میں آپ پر قاتلانہ حملہ کردیا گیا اور آپ نے اپنےخون میں نہانے کے باوجود شکر و فخر کے ملے جلے احساس کے ساتھ یہ نعرہ بلندکیا:
فزت و رب الکعبہ( رب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہوگیا)۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں کہ ۱۹ماہ رمضان کو بوقت فجر عالم نماز اور حالت روزہ میں جن کے سر مبارک پر زہر ہلاہل میں بجھی ہوئی تلوار سےضربت لگائی گئی ، تو آپ اس کے کرب سے دو دن تک تڑپتے رہے اور سن ۴۰ ہجری کے ماہ رمضان کی اکیسویں شب کے ابتدائی حصہ میں اس سرائے فانی کوچھوڑ کر ھمیشہ کے لئےاپنے رؤف ومہربان اور سبحان و قدوس پروردگار کی بارگاہ اقدس میں جاپہنچے اور اس وقت آپ کی اندوھناک شہادت پر حضرت جبریل علیہ السلام نے یہ مرثیہ پڑھا:
لتھدمت و اللہ ارکان الھدیٰ ، و انطمست اعلام التقیٰ،وانفصمت العروة الوثقى ، قتل ابن عم المصطفى ، قتل على المرتضى، قتله اشقى الاشقیاء.
قسم بخدا ہدایت کے ستون منہدم ہوگئے، تقوی کے نشانات مٹ گئے ، اللہ اور بندوں کے درمیان کی مضبوط رسی ٹوٹ گئی، مصطفے کے ابن عم علئ مرتضیٰ کو شہید کردیا گیا اور انھیں شقی ترین ( ابن ملجم ) نے قتل کرڈالا۔

مولائے کائنات علیہ الصلوۃ والسلام کی مظلومیت کی بنیادی وجہ :

نہایت اختصارکے ساتھ بطور خلاصہ یہ کہا جاسکتا ھے کہ مولا کی مظلومیت کی اصل وجہ آپ کی بہر صورت عدل و داد کی حمایت ، مظلوموں کی مدد و نصرت اور بہرحال و بہرقیمت ظلم و ستم اور ظالموں کی مخالفت کرنا تھی۔
تاریخ گواہ ھے کہ آپ جب تک زندہ رہے ھمیشہ عدل و داد کے حامی اور اس کے نفوذ و قیام کے لئےکوشاں ، مظلوموں کے مدگار و مدافع اور زندگی کی آخری سانس تک ظلم و ستم کے مخالف اور ظالموں سے بر سر پیکار رہے۔
یہ سچ ہے کہ مولا مظلوم رہے ، مگر کبھی بھی ظالموں اور ستمگروں کے محکوم نہیں رہے بلکہ آپ نے ان کے خلاف بلا وقفہ اپناجہاد و قیام جاری و ساری رکھا ہے ، یہانتک کہ بستر شہادت سے " کونا للظالم خصما و للمظلوم عونا" کے ذریعہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کو بھی آپ "مظلوموں کی نصرت و حمایت اور ظالموں کی عداوت و مخالفت" میں یہ جہاد و قیام جاری و ساری رکھنے کی وصیت فرما کر گئے ہیں۔

مولا کے جہادو قیام کا اثر :

آپ کے اس مسلسل قیام و جہاد کا ایک عظیم اثر تو حسن ، حسین، زینب ، ام کلثوم ، ابوالفضل العباس ، عمار ، ابوذر ، مالک اشتر ، محمد ابن ابی بکر اور میثم تمار جیسے ان گنت ظلم ستیز چہروں کا نہ ٹوٹنے والا نہایت مبارک سلسلہ ھے۔
اور دوسرا اثر یہ ہے کہ ظالم و ستمگر اپنی ہزارہا مکاریوں اور عیاریوں کے باوجود بھی ظاہری دینداری کےچغےکی آڑ میں اپنے مکروہ چہروں کو نہ چھپا سکے اور وہ اتنے بےنقاب ہوگئےکہ تاریخ کا ہرمنصف و حقیقی طالب علم کسی بھی دور میں انھیں بآسانی پہچان سکتا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے مکروہ چہروں کی پہچان کے ذریعہ اپنے دور کے ستمگروں کی بھی شناخت کرسکتا ہےاور ان سے نپٹنے کی جرائت و ھمت کو بھی اپنے وجود میں جنم دے سکتا ہے۔

ہماراافتخار اور ہماری ذمہ داری :

الحمدللہ ھمیں فخر ہے کہ ہم سب علی والے ہیں، لہذا بہت توجہ دیں کہ آج تک جس طرح ہم نے" حیدری نعروں" کے ذریعہ اپنی پہچان بنائی ہے ، اب بہت ضرورت ہے کہ اس سے کہیں بڑھ چڑھ کر ایرانی و لبنانی حزب اللہیوں اور مدافع حرم شہیدوں کی طرح " حیدری کاموں" سے اپنی شناخت قائم کریں اور یاد رکھیں کہ " حیدری کاموں" میں دین و ایمان کی پختگی کے بعد سر فہرست جو کام اور عمل ہے:
وہ مظلوموں کی نصرت و حمایت اور ظالموں سے عداوت و بیزاری نیز ان کے خلاف قیام کرنا ھے۔

تاریخ انسانیت نے شاید مولاعلی علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑا کوئی مظلوم نہ دیکھا ہو!!
اگرسرکار امیرالمومنین امام علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام کی بے پناہ فضائل و مصائب اور فداکاریوں سے بھری زندگی کا غائرانہ مطالعہ کیاجائےتو یہ حقیقت بآسانی مجسم ہوکر سامنے آسکتی ہےکہ واقعاً آپ تاریخ آدم و عالم کے سب سے بڑے مظلوم ہیں !!!!چونکہ :
آپ ہی تنہا وہ ذات ہیں جسے الہی انتظام و اہتمام کےتحت بیت اللہ الحرام " خانہ کعبہ" میں پیدا کیا گیا ہے ۔
آپ ہی تنہاوہ مرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے سرکارسید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی الہی و آسمانی آواز پر لبیک کہی ہے۔
آپ ہی تنہاوہ مرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے خداوند احد کی وحدانیت اور سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی کھل کر گواھی دی اور اس پر اپنے مکمل ایمان و ایقان کا اظہار فرمایا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلےحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتداء میں خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت و بندگی انجام دی ہے۔
آپ ہی وہ پہلے مرد اور جناب خدیجہ علیھا السلام ہی وہ پہلی عورت ہیں، جنھوں نے کئی سال تک سرکار ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتدا میں نماز اداکی اور کلمہ " لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ " زبان پر جاری وساری رکھا ہے۔
آپ ہی وہ پہلے مرد ہیں جو ہرجگہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ سائے کی طرح رہتے اور ہر مقام پرآپ کا دفاع کرتے نیز کفار قریش کے آزار و استہزاء سے آپ کوبچاتے تھے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے دعوت ذوالعشیرہ کے انعقاد کا انتظام و اہتمام بھی کیا، سرکار سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سرسخت مخالفین کے مقابلے میں کھل کر آپ کی نصرت و حمایت کا وعدہ بھی کیا اور اسی دعوت میں ابولہب جیسے غلیظ و شدید دشمنوں کے طعن و تشنیع کو خندہ پیشانی سے برداشت بھی کیا۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جو شعب ابی طالب میں ہزار سختیوں کے باوجود شمع رسالت کا ہروقت پروانہ وار طواف کرتے رہے اور ایک دو دن نہیں ، تین سال تک وجود پیغمبر کی پاسداری میں آپ نے دن رات ایک کردیئے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے طائف کی طرف سرکار خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی اور آنحضرت کے ہمراہ وہاں کے ناگوارحالات کا مشاہدہ و مقابلہ کیا۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں ، جوشب ہجرت بستر رسالت پر چالیس قبیلوں کی کھنچی ہوئی خونخوار تلواروں کے سائے میں خوشی سے اس لئےسوگئے تاکہ اللہ عزوجل کے رسول کی جان محفوظ رہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں، جنھوں نے شب ہجرت کی قربانگاہ میں ایثارو فداکاری کے لازوال نقوش ثبت کر کے صبح ہجرت رسول اللہ کے قرضوں کو ادا ، آپ کےکئے ہوئےعہد و پیمان کو وفا اور اہل مکہ کی آنحضرت کے پاس رکھی ہوئی امانتوں کو واپس کیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے مکہ سے قافلہ فواطم اور ناموس رسول کو بعزت و حفاظت مدینہ پہنچایا ہے اور اس سفر ہجرت کے دوران اپنی شجاعت ، دلیری ، صلابت ، جوانمردی ، عفت ، غیرت ، حمیت اور ذمہ دارانہ شخصیت کی مثال قائم کی ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے دین اسلام اور آنحضرت پرکفار و مشرکین کی طرف سے مسلط کی گئی تمام جنگوں میں پورے جوش و خروش اور اخلاص و شجاعت کے ساتھ شرکت کی ہے اور بڑے بڑے فیل پیکر دشمنوں کو ہلاکت کے گھاٹ اتارا ہے ، البتہ بعض جنگوں میں آپ نےخود بھی دسیوں زخم کھائے ہیں۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے خداوند سبحان و قدوس اور اس کے رسول کی ایک لمحہ کے لئے بھی نافرمانی نہیں کی اور حکم خداو رسول کو کسی کی ملامت ، طعن و تشنیع ، تہدید و عداوت کی پروراہ کئے بغیر ہمیشہ جامہ عمل پہنایا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے حکم خداو رسول کی اطاعت کرتے ہوئے مکہ پہنچ کر اسلام اور مسلمانوں کے کٹر اور خونخوار دشمنوں ( کفار و مشرکین مکہ) کے درمیان سورہ برائت کی تبلیغ و تبیین کا خطیر فریضہ انجام دیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جو میدان جنگ میں پہنچ جاتے تو دشمن درخت بید کی طرح کانپنے لگتے اور دوستوں کے چہرے امید فتح و ظفر کی وجہ سے کھل اٹھتے تھے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھیں آیہ مباھلہ نے"نفس و جان رسول " قرار دیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھیں " کل ایمان " کا لقب دیا گیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں کہ جوخداوندسبحان کی نہایت محترم و مقدس کنیز اور سیدالمرسلین کی اکلوتی اور چہیتی بیٹی حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کے کفو و شوہر ہیں۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں کہ ادیب عرب خلیل ابن احمد فراھیدی کے بقول " جن کے فضائل دوستوں نے خوف اور دشمنوں نے بغض و عداوت کی وجہ سے چھپائے ہیں ، اس کے باوجود کائنات کے شرق و غرب آپ کی عظمتوں اور فضیلتوں سے بھرے نظر آتے ہیں ( روضۃ المتقین ، ج ۱۳ ، ص ۲۶۵)

آپ ہی تنہا وہ مرد پیں جن کے سلسلہ میں اہل سنت کے امام احمد ابن حنبل نے یہ اظہار کیا ہے:

جتنی روایات صحیح سندوں کے ساتھ علی ابن ابی طالب کے فصائل کے بارے میں نقل ہوئی ہیں ، اتنی رسول اللہ کے کسی ایک صحابی کےبارے میں بھی نقل نہیں ہوئی ہیں۔(طبقات الحنابله، ابن ابی یعلی، چاپ دارالمعرفہ بیروت ، ج۲،ص۱۲۰)

لیکن !!!!
اسی طرح کی ان گنت عظمتوں ، ناقابل شمارفضیلتوں ، عظیم ترین قربانیوں اور بے انتہا مسلسل فداکاریوں کے باوجود سرکار سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قیامت خیز وفات کے بعد آپ اسقدر مظلوم ہوگئے کہ :
آپ ہی وہ ہیں جنھوں نےفرط رنج و الم سے موسلادھار بارش کی طرح بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ تنہا رسول اللہ کو غسل دیا ، کفن پہنایا ، نماز میت پڑھی اور دل پر پتھر رکھ کر سپرد لحدکیا۔
آپ ہی وہ ہیں کہ وفات رسول جیسی حشر انگیز مصیبت پر تسلی دینے کے بجائےجن سے ان کا مسلم حق خلافت و حکومت انتہائی بے غیرتی کے ساتھ چھین لیا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جن کی نگاہوں کے سامنے اس مقدس دروازہ کو آگ لگائی گئی ، جس پر کھڑے ہوکر اللہ کے رسول اپنے " اھل بیت " پر سلام بھیجا کرتے تھے۔
آپ ھی وہ مظلوم ہیں جن کے ہوتے ہوئے ان کی شریک حیات شہزادئ کونین حضرت فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا کی ہتک حرمت کی گئی اور عین عالم شباب میں اس پاک و بے گناہ بی بی کو درو دیوار کے درمیان پیس ڈالا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جن کے بیٹے " محسن " کو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی شکم مادر میں نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جن سے حق خلافت کے بعد "فدک" بھی چھین لیا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں، اللہ و رسول کے حکم سے جن کے ہاتھوں پر میدان غدیر میں سوالاکھ مسلمانوں نے بیعت کی تھی ، اس کے باوجود جعلی و غاصب خلیفہ نے آپ سے زبردستی اپنی بیعت کا مطالبہ کیا اور آپ اور آپ کے معصوم اھل بیت پرظلم وستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں کہ رسول خدا کے بعد " اعلم و افضل امت" ہونے کے باوجود جنھیں غصب خلافت و حکومت کے ہمراہ پچیس سال تک محراب و منبر سے دوررکھا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جنھوں نے پچیس سال کی طویل مدت اس کربناک حالت میں گزاری" فی العین قذیٰ و فی الحلق شجا" کہ آنکھ میں کانٹا کھٹک رہا تھا اور خلق میں ہڈی پھنسی ھوئی تھی۔( نہج البلاغہ ، خطبہ شقشقیہ)
آپ ہی وہ مظلوم ہیں کہ قتل عثمان کے بعد جن کے ہاتھوں پر تمام امت نے شدید اصرار کے ساتھ بیعت کی اور آپ کو اپنا حاکم و خلیفہ تسلیم کیا ، لیکن اس ظاہری خلافت کی تقریباً پانچ سالہ مدت میں آپ پر نہایت خطرناک تین جنگیں مسلط کردی گئیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی سکون کی سانس نہیں لینے دی گئی۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جو ذوالعشیرہ سے لے کر آخر عمر تک اسلام و مسلمین اور انسانیت کے لئے شب و روز فداکاری میں مصروف رھے ، اور جب پروردگار سے دائمی ملاقات کی دی ہوئی سچی خبر کے ہنگام وقوع کو محسوس کرکے مسجد کوفہ کی محراب میں دنیا و مافیھا کو چھوڑ کر فقط اورفقط اپنےعزیز و محبوب خالق و مالک کی یاد و عبادت اور اس سے راز و نیاز میں غرق ہوئے تو عین اسی عالم میں آپ پر قاتلانہ حملہ کردیا گیا اور آپ نے اپنےخون میں نہانے کے باوجود شکر و فخر کے ملے جلے احساس کے ساتھ یہ نعرہ بلندکیا:
فزت و رب الکعبہ( رب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہوگیا)۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں کہ ۱۹ماہ رمضان کو بوقت فجر عالم نماز اور حالت روزہ میں جن کے سر مبارک پر زہر ہلاہل میں بجھی ہوئی تلوار سےضربت لگائی گئی ، تو آپ اس کے کرب سے دو دن تک تڑپتے رہے اور سن ۴۰ ہجری کے ماہ رمضان کی اکیسویں شب کے ابتدائی حصہ میں اس سرائے فانی کوچھوڑ کر ھمیشہ کے لئےاپنے رؤف ومہربان اور سبحان و قدوس پروردگار کی بارگاہ اقدس میں جاپہنچے اور اس وقت آپ کی اندوھناک شہادت پر حضرت جبریل علیہ السلام نے یہ مرثیہ پڑھا:
لتھدمت و اللہ ارکان الھدیٰ ، و انطمست اعلام التقیٰ،وانفصمت العروة الوثقى ، قتل ابن عم المصطفى ، قتل على المرتضى، قتله اشقى الاشقیاء.
قسم بخدا ہدایت کے ستون منہدم ہوگئے، تقوی کے نشانات مٹ گئے ، اللہ اور بندوں کے درمیان کی مضبوط رسی ٹوٹ گئی، مصطفے کے ابن عم علئ مرتضیٰ کو شہید کردیا گیا اور انھیں شقی ترین ( ابن ملجم ) نے قتل کرڈالا۔

مولائے کائنات علیہ الصلوۃ والسلام کی مظلومیت کی بنیادی وجہ :

نہایت اختصارکے ساتھ بطور خلاصہ یہ کہا جاسکتا ھے کہ مولا کی مظلومیت کی اصل وجہ آپ کی بہر صورت عدل و داد کی حمایت ، مظلوموں کی مدد و نصرت اور بہرحال و بہرقیمت ظلم و ستم اور ظالموں کی مخالفت کرنا تھی۔
تاریخ گواہ ھے کہ آپ جب تک زندہ رہے ھمیشہ عدل و داد کے حامی اور اس کے نفوذ و قیام کے لئےکوشاں ، مظلوموں کے مدگار و مدافع اور زندگی کی آخری سانس تک ظلم و ستم کے مخالف اور ظالموں سے بر سر پیکار رہے۔
یہ سچ ہے کہ مولا مظلوم رہے ، مگر کبھی بھی ظالموں اور ستمگروں کے محکوم نہیں رہے بلکہ آپ نے ان کے خلاف بلا وقفہ اپناجہاد و قیام جاری و ساری رکھا ہے ، یہانتک کہ بستر شہادت سے " کونا للظالم خصما و للمظلوم عونا" کے ذریعہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کو بھی آپ "مظلوموں کی نصرت و حمایت اور ظالموں کی عداوت و مخالفت" میں یہ جہاد و قیام جاری و ساری رکھنے کی وصیت فرما کر گئے ہیں۔

مولا کے جہادو قیام کا اثر :

آپ کے اس مسلسل قیام و جہاد کا ایک عظیم اثر تو حسن ، حسین، زینب ، ام کلثوم ، ابوالفضل العباس ، عمار ، ابوذر ، مالک اشتر ، محمد ابن ابی بکر اور میثم تمار جیسے ان گنت ظلم ستیز چہروں کا نہ ٹوٹنے والا نہایت مبارک سلسلہ ھے۔
اور دوسرا اثر یہ ہے کہ ظالم و ستمگر اپنی ہزارہا مکاریوں اور عیاریوں کے باوجود بھی ظاہری دینداری کےچغےکی آڑ میں اپنے مکروہ چہروں کو نہ چھپا سکے اور وہ اتنے بےنقاب ہوگئےکہ تاریخ کا ہرمنصف و حقیقی طالب علم کسی بھی دور میں انھیں بآسانی پہچان سکتا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے مکروہ چہروں کی پہچان کے ذریعہ اپنے دور کے ستمگروں کی بھی شناخت کرسکتا ہےاور ان سے نپٹنے کی جرائت و ھمت کو بھی اپنے وجود میں جنم دے سکتا ہے۔

ہماراافتخار اور ہماری ذمہ داری :

الحمدللہ ھمیں فخر ہے کہ ہم سب علی والے ہیں، لہذا بہت توجہ دیں کہ آج تک جس طرح ہم نے" حیدری نعروں" کے ذریعہ اپنی پہچان بنائی ہے ، اب بہت ضرورت ہے کہ اس سے کہیں بڑھ چڑھ کر ایرانی و لبنانی حزب اللہیوں اور مدافع حرم شہیدوں کی طرح " حیدری کاموں" سے اپنی شناخت قائم کریں اور یاد رکھیں کہ " حیدری کاموں" میں دین و ایمان کی پختگی کے بعد سر فہرست جو کام اور عمل ہے:
وہ مظلوموں کی نصرت و حمایت اور ظالموں سے عداوت و بیزاری نیز ان کے خلاف قیام کرنا ھے۔

تحریر : مولانا ظہور مہدی مولائی

 
Read 579 times