سلیمانی

سلیمانی

رہبر انقلاب اسلامی نے سنہ 1404 ہجری شمسی کے پہلے دن مختلف عوامی طقبات سے ملاقات میں، متبرک مقامات پر دعا و توسل کے ساتھ نیا سال شروع کرنے کی ایرانیوں کی روایت کو نوروز کے سلسلے میں ایرانی قوم کے معنوی رجحان کے پہلو کی ایک نشانی بتایا اور پوری تاریخ میں حق کے محاذ کی عظیم فتوحات میں دعا اور استقامت کے اثرات کی تشریح کرتے ہوئے پچھلے سال کو ایرانی عوام کے صبر، استقامت اور معنوی طاقت کے ظہور کا سال قرار دیا۔

آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ان ایام کو امیر المومنین علیہ السلام سے متعلق بتایا اور کہا کہ ایرانی قوم اور تمام مسلم اقوام، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد سب سے برتر انسان کی حیثیت سے امیر المومنین کے دروس سے استفادے کے لیے نہج البلاغہ کا رخ کرتی ہیں اور ثقافتی و علمی میدان میں کام کرنے والوں کو اس عظیم کتاب کے مطالعے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

انھوں نے شبہائے قدر کو بارگاہ الہی میں دعا و مناجات کا بہترین موقع بتایا اور کہا کہ ان شبوں کا ہر گھنٹہ، ایک عمر جتنی قدر و قیمت رکھتا ہے اور ائمہ علیہم السلام سے توسل اور عوام الناس خاص طور پر جوانوں کی دعائیں ان کے مستقبل اور ایک قوم کے مستقبل کو بدل سکتی ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ایران کے سلسلے میں امریکی سیاستدانوں کے بیانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکیوں کو جان لینا چاہیے کہ ایران کے ساتھ معاملات میں دھمکیوں سے انھیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ امریکیوں اور دوسروں کو جان لینا چاہیے کہ اگر انھوں نے ایران کے خلاف کوئی بھی حماقت کی تو وہ زودار تھپڑ کھائیں گے۔

انھوں نے امریکی اور یورپی سیاستدانوں کی جانب سے مزاحمتی مراکز کو ایران کی پراکسی فورسز بتائے جانے کو ایک بڑی غلطی اور ان تنظیموں کی توہین بتایا اور کہا کہ اس میں پراکسی کی کوئي بات ہی نہیں ہے اور یمنی قوم اور خطے میں مزاحمت کے دیگر مراکز میں صیہونیوں کے مقابلے میں کھڑے ہونے کا اندرونی محرّک پایا جاتا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کو کسی پراکسی کی کوئي ضرورت نہیں ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے صیہونی حکومت کی خباثتوں اور مظالم کے مقابلے میں استقامت و مزاحمت کو خطے کی ایک دیرینہ روش بتایا اور کہا کہ فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے وقت سے ہی اس ظلم کے خلاف پہلی صف میں کھڑے ہونے والے ممالک میں سے ایک یمن تھا اور اس ملک کے اس وقت کے حکمراں نے ایک بین الاقوامی نشست میں شرکت کر کے فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی مخالفت کی تھی۔

انھوں نے غیر مسلم اقوام میں بے رحم صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف احتجاج بڑھنے اور امریکا اور یورپی ملکوں میں اس کے خلاف عوام اور اسٹوڈنٹس کے مظاہروں میں شدت آنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مغربی حکام اس یونیورسٹی کا بجٹ کاٹنے جیسے کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں کے اسٹوڈنٹس نے فلسطین کے حق میں مظاہرے کیے ہیں اور یہ اقدام ان کے آزادئ اطلاعات (فریڈم آف انفارمیشن) لبرلزم اور انسانی حقوق کے دعووں کی پول کھول دیتا ہے۔

رہبر انقلاب نے اقوام کی جانب سے صیہونی حکومت کی خباثتوں کی مخالفت اور اس کے خلاف ہر طرح کی مزاحمت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران بھی ان خباثتوں کے خلاف مضبوطی سے ڈٹا ہوا ہے اور اس نے اپنے دائمی موقف اور روش کا کھل کر اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے ملک کا دفاع کرنے والے فلسطینی اور لبنانی مجاہدین کی حمایت کرتا ہے۔

انھوں نے ایک بار پھر ایران کے دشمنوں کی دھمکیوں کے جواب میں کہا کہ ہم کبھی بھی دوسروں سے ٹکراؤ اور جھڑپ شروع کرنے والے نہیں رہے ہیں لیکن اگر کسی نے خباثت کے ساتھ ٹکراؤ شروع کیا تو وہ جان لے کہ اسے سخت تھپڑ کھانا پڑے گا۔

انھوں نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں باطل کے محاذ کے سامنے حق کے محاذ کی جانب سے ہمیشہ ادا کی جانے والی قیمت ک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پچھلے ہجری شمسی سال کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ حق و باطل کے درمیان جنگ میں یقینی طور پر فتح حق کے محاذ کی ہوتی ہے لیکن اس راہ میں کچھ قیمتیں ادا کرنی پڑتی ہیں جس طرح سے کہ یہ الہی سنت، مقدس دفاع کے دوران بھی جاری رہی تھی۔

آيت اللہ خامنہ ای نے پچھلے ہجری شمسی سال کے واقعات میں بڑی بڑی شخصیات کو کھو دینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ان تلخ واقعات کو برداشت کرنے، استقامت کرنے اور پروردگار عالم سے مدد طلب کرنے کا حتمی نتیجہ، دشمنوں خاص طور پر فاسد، فاسق اور خبیث صیہونی حکومت کی شکست بتایا اور کہا کہ پچھلے سخت سال میں ایرانی قوم کی معنوی طاقت، بہادری اور شجاعت بہت نمایاں ہو کر سامنے آئي۔

انھوں نے مرحوم صدر شہید رئیسی کے عظیم الشان جلوس جنازہ، دشمن کی دھمکیوں کے باوجود فاتحانہ نماز جمعہ میں عوام کی بے نظیر شرکت، صدارتی انتخابات میں لوگوں کی بھرپور شرکت اور شہید ہنیہ اور صیہونی حکومت کے حملوں میں شہید ہونے والے دیگر کمانڈروں کے زبردست جلوس جنازہ کو ایرانی قوم کی معنوی طاقت اور جذبے کی جھلک قرار دیا۔

رہبر انقلاب نے اسی طرح کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کے موقع پر نکالی جانے والی ریلیاں، اس عمل کا نقطۂ عروج تھیں جن میں اسلامی انقلاب سے ایرانی قوم کی وفاداری اور اسلامی جمہوریہ سے ان کا عشق پوری دنیا کے بدمعاشوں اور منافقوں کو دکھا دیا گيا اور اس نے پوری دنیا کو بتا دیا کہ ایرانی قوم کیا ہے۔

انھوں نے ایرانی قوم کی خصوصیات اور تشخص کو صحیح طریقے سے ملک کے اندر بھی سمجھے جانے کو ضروری بتایا اور کہا کہ بڑھتے ہوئے معاشی اور اقتصادی مسائل ہر جگہ کے لوگوں کو افسردہ اور مایوس کر سکتے ہیں لیکن ایران کی مضبوط اور شجاع قوم، پچھلے سال کی تمام تر مشکلات کے باوجود میدان میں آئي اور اس نے اسلامی نظام کا دفاع کیا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے حالیہ برسوں کے نعروں میں پروڈکشن کے مسئلے کو دوہرانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ملک کے اقتصادی حالات اور عوام کی معاشی حالت کو بہتر بنانے میں پروڈکشن کا بنیادی کردار ہے۔ انھوں نے پروڈکشن کے میدان میں ہر طرح کی چھوٹی بڑی سرمایہ کاری کو مفید اور ضروری بتایا اور کہا کہ سبھی کو پروڈکشن کے میدان میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے چاہے وہ محدود اثاثے والے لوگ ہوں یا بڑی سطح پر معاشی سرگرمیاں انجام دینے والے افراد ہوں۔

انھوں نے عوامی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنے اور اس کام میں سہولت پیدا کرنے کو، اس سال کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے عمل میں حکومت کی اہم ترین ذمہ داری بتایا۔

رہبر انقلاب نے کہا کہ حکومتی عہدیداران، عوام کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں لیکن صرف عوام کی امداد جیسے کاموں سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے بنیادی کاموں کی ضرورت ہے، جن میں سے ایک سرمایہ کاری ہے۔

 تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے منہاج القرآن کے شہر اعتکاف سے عشق الٰہی اور لذت توحید کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی نافرمانیاں بڑھ جائیں تو رحمتیں اور برکتیں اُٹھ جاتی ہیں۔ اُمت آج ایسے ہی المیہ سے دو چار ہے۔ رمضان المبارک بالخصوص آخری عشرہ خود شناسی، خوداحتسابی اور قرب الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اُمت غفلت کی زندگی ترک کر دے، یہ تباہی کا راستہ ہے، توبہ سے اللہ کو راضی کیا جائے۔ انہوں نے نوجوانوں کو بطور خاص نصیحت کی قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے اخلاق و کردار سنواریں۔ دین کے عشق اور سیرت مصطفیؐ کی محبت میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ مشکلات میں عشق الٰہی کا پتہ چلتا ہے، راہ حق میں تکلیفیں برداشت کرنیوالے منزل پا لیتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے مولائے کائنات حضرت علی ؑکے یوم شہادت کی نسبت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت علی ؑکی شہادت اسلامی تاریخ اور امت مسلمہ کا ایک المیہ ہے، امت آج بھی اس زخم کا دکھ سہہ رہی ہے، حضرت علی ؑاصولوں، عدل و انصاف اور شجاعت کا پیکر تھے۔ آپ ؑکی شہادت نے امت مسلمہ کو یہ پیغام دیا کہ دنیا کی فانی خواہشات کے بجائے آخرت کی کامیابی کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں۔ حضرت علی ؑکی زندگی میں ہمیں بے شمار ایسے اصول ملتے ہیں جو آج بھی ہماری اجتماعی زندگی کیلئے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ان کی تعلیمات میں صبر، تحمل، عدل، انصاف، اور انسانیت کی خدمت کا درس ملتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت کے بعد بھی آپ کی تعلیمات امت مسلمہ کی رہنمائی کیلئے زندہ ہیں۔ منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں 50 فیصد سے زائد نوجوان شریک ہوئے۔ 5ہزار کے لگ بھگ خواتین شریک ہیں، 15ہزار افراد کے سحر و افطار کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ 
 
 
 

وہ اہم کام جس کے ہم محتاج ہیں!

بندہ حقیر کی نگاہ میں جو(کام)زیادہ اہمیت کا حامل ہے وہ یہ کہ ہم(عمومی طور پہ تمام)معاشروں کو، (اس کے علاوہ)ہمارے اپنے معاشرے کو اولین ترجیح(کے طور)پہ، قرآن مجید کے نہ ختم ہونے والے سرچشمے سے سیراب کریں۔ ہمیں اس چیز(قرآن پہ عمل)کی ضرورت ہے، اور شدت کے ساتھ اس(قرآن پہ عمل)کے محتاج ہیں۔

 

اجتماعی زندگی کے دو پہلو!

ہماری انفرادی زندگی میں، ذاتی زندگی میں، اخلاقیات میں، رویّوں میں، آپسی سلوک میں، ایسے مسائل(درپیش) ہیں جو قرآن(کی برکت)سے حل کئے جاسکتے ہیں۔ (اس کے علاوہ)ہماری اجتماعی زندگی میں بھی، کہ اجتماعی زندگی کا ایک حصہ جو ہمارے اپنے معاشرے کے تعلقات پہ مبنی ہے۔

 

بیرونی معاشرے سے متعلق مسئلہ !

(مسلمان معاشرے کے)باہمی تعلقات، کہ جس میں ہمارا باہمی تعاون، ہمارا(آپسی)تعامل، ہماری(آپسی)محبت ہیں۔ (لیکن)ہماری(اجتماعی)زندگی کا ایک اور حصہ بھی ہے کہ جو دوسرے(غیر مسلم یا غیر ملکی)معاشروں سے(تعلقات)پہ مبنی ہے۔ یہ(مذکورہ بالا)ہمارے(اجتماعی)مسائل ہیں۔ ان تمام(مسائل)میں انفرادی مسائل میں بھی، اپنے معاشرے کے مسئل میں، دیگر معاشروں کے مسائل میں، ان سب میں ہمارے لئے آزمائشیں ہیں کہ یہ آزمائشیں قرآن سے حل ہوسکتی ہیں۔ قرآن اس سلسلے میں ہماری راہنمائی کرسکتا ہے اور ہمارا ہاتھ تھام سکتا ہے۔

 

 

Tuesday, 18 March 2025 22:52

اب وہ دور گزر گیا


16 مارچ بروز اتوار، اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید محمد عباس عراقچی نے ایران کے خلاف امریکی حکام کے مداخلت پسندانہ بیانات کے جواب میں کہا ہے کہ امریکی حکومت کو ایران کی خارجہ پالیسی کے بارے میں کسی قسم کا حکم دینے کا کوئی حق نہیں، انہوں نے امریکی حکام کو یاد دلایا کہ ایران کے خلاف مداخلت کا وہ دور 1979ء میں ختم ہوا، جب امریکی یہاں حکم چلایا کرتے تھے۔ وزیر خارجہ نے امریکی حکام سے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی نسل کشی اور دہشت گردی کی حمایت ختم اور یمن کے لوگوں کا قتل عام بند کریں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 15 مارچ بروز ہفتہ یمن پر نئے حملوں کا حکم دیا تھا، یمن پر امریکہ اور برطانیہ کے حملوں کا ایک نیا دور شروع ہونے کے بعد ان حملوں میں  یمن کے دو شہروں صنعاء اور صعدہ میں درجنوں افراد شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ سکیورٹی اور فوجی حکام نے یمن کے شہریوں پر وحشیانہ حملوں کے بعد ایران اور یمن کو دھمکی دی ہے۔ اس حوالے سے امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے کہا ہے کہ جو میراث ہمیں پچھلی انتظامیہ سے ملی ہے، وہ بہت خوفناک تھی، انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران کے خلاف تمام آپشنز میز پر ہیں اور ایران کو حوثیوں (یمن انصار اللہ) کی حمایت بند کرنی چاہیئے۔ امریکی وزیر جنگ پیٹ ہیگسیٹ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ حملے اس وقت تک جاری رہیں گے، جب تک حوثی اپنی فوجی کارروائیاں بند نہیں کر دیتے۔ ایران ایک طویل عرصے سے حوثیوں کی مدد کر رہا ہے اور اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ ایسا کرنا بند کر دے۔"

ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکاروں کی جانب سے یمن کے انصاراللہ کے لیے ایران کی حمایت کے بارے میں نئے الزامات اور ساتھ ہی یہ دھمکی کہ ایران کے خلاف تمام آپشنز میز پر ہیں، درحقیقت اس پالیسی کا تسلسل ہے، جس پر امریکہ کئی دہائیوں سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف عمل پیرا ہے۔ خاص طور پر، "ایران کے خلاف تمام آپشنز میز پر ہیں، ایسا کلیدی جملہ ہے، جسے جارج بش اور براک اوباما سے لے کر جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ تک تمام امریکی صدور نے بار بار استعمال کیا ہے۔ ان کا مقصد ہمیشہ ایک ہی رہا ہے اور وہ ایران کو دھونس، جبر اور آمرانہ موقف کے ذریعے ڈرانا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کے نام ٹرمپ کے حالیہ خط کے بعد بھی امریکہ نے اس غیر منطقی انداز کو ترک نہیں کیا۔

تاہم ایران نے کبھی بھی امریکی دھمکیوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور اس سلسلے میں ایران کے ردعمل کا اظہار رہبر معظم انقلاب اسلامی نے چند بار کیا ہے۔ ٹرمپ کے خط کے اعلان کے ایک دن بعد، رہبر معظم انقلاب اسلامی نے واضح کیا ہے  کہ حقیقت یہ ہے کہ کچھ بدمعاش حکومتیں مذاکرات پر اصرار کرتی ہیں۔ ان کا مقصد مسائل کو حل کرنا نہیں، بلکہ غلبہ حاصل کرنا ہے "مذاکرات ہونے چاہئیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا ہے کہ "امریکہ کی طرف سے جو مذاکرات کی کوشش کی گئی ہے، وہ ایران کے جوہری پروگرام تک محدود نہیں رہے گی۔ یہ حکومتیں مسائل کے حل کے لیے بات چیت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں، وہ اپنے فیصلے مسلط کرنا چاہتی ہیں۔

امریکی صدور بالخصوص ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران پر سخت ترین اور وسیع ترین پابندیاں عائد کرنے کی کوششوں کا مقصد تسلط قائم کرنا اور ایران کو امریکہ کے غیر قانونی اور غیر معقول مطالبات کو تسلیم کرنے پر مجبور کرنا ہے، جن میں جوہری ٹیکنالوجی، علاقائی پالیسیوں اور اس کی میزائل صلاحیتوں کے شعبے شامل ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کا نقطہ نظر بھی ایک طرح سے ایران کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کا تسلسل تھا، جو یقیناً اب تک بے نتیجہ ثابت ہوا ہے، ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں دوبارہ داخل ہونے کے بعد، وہی پرانی پالیسی، یعنی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی، کو ایران کے خلاف وسیع پیمانے پر لاگو کیا گیا ہے اور اس میں ایک نیا عنصر شامل کیا گیا ہے، جس کا نام فوجی دھمکی ہے۔ ایک ایسی پالیسی جس کی ناکامی صدر ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران ثابت ہوچکی ہے۔

اب ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ سکیورٹی اور فوجی اہلکار وہی پرانی زبان استعمال کر رہے ہیں۔ وہ مزاحمت کے محور کے طور پر ایران اور یمن کے انصاراللہ کے خلاف دھمکیاں دے رہے ہیں۔ تاہم، ایرانی وزیر خارجہ نے  سینیئر امریکی حکام کی جانب سے حالیہ دھمکیوں کے جواب میں کہا ہے کہ امریکی حکومت کو ایران کی خارجہ پالیسی کے بارے میں کسی قسم کا کوئی حکم دینے کا کوئی حق نہیں ہے، وہ دور 1979ء میں ختم ہوچکا ہے۔ ایران امریکی دھمکیوں کے سامنے نہیں جھکے گا اور جس طرح اس نے گزشتہ سالوں میں امریکہ کی طرف سے وسیع پیمانے پر عائد کی گئی پابندیوں کی مزاحمت کی ہے، اسی طرح مستقبل میں بھی کرتا رہے گا۔
 
 
تحریر: سید رضا میر طاہر
کیا خوارج کا ظہور خواہ مخواہ ہوگیا تھا؟ کیا وہ قوتیں جو خوارج کی تشکیل میں ملوث تھیں اور جنہوں نے ان سے مسلسل سیاسی اور نظریاتی فائدہ اٹھایا، وہ امام علیؑ کے قتل سے لا عِلم تھیں۔؟ کیا قتلِ امام علیؑ کا الزام خوارج پر عائد کرنا اور اس کے سیاسی محرک کو بھول جانا دانشمندی ہے۔؟ کیا یہ جاننا ضروری نہیں کہ خوارج کا نظریہ اور ان کا ظہور کس سیاسی و تاریخی پس منظر میں ہوا؟ یہ سوالات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہمیں صرف سطحی تجزیے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیئے بلکہ گہرائی سے اس تمام معاملے کی تحلیل کرنی چاہیئے۔ یہ کہنا کہ خوارج کو صرف طالبان یا داعش کی طرح بدنام کیا گیا، یہ ایک معقول تجزیے کا نتیجہ نہیں۔ ہمیں اس بات کا بھی بغور جائزہ لینا ہوگا کہ ماضی میں ان گروپوں کے ظہور کے اسباب کیا تھے اور ان کے سیاسی و مذہبی بیانیے کو کس طرح مختلف حالات میں "بیانیہ سازی" (narrative building) کے لئے عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔

خوارج کے سیاسی تناظر میں جب ہم نبی اکرمﷺ کے غزوات کا جائزہ لیتے ہیں، تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عہدِ نبویؐ میں کفر کے نمائندہ قائدین میں سب سے نمایاں شخصیت ابو سفیان کی تھی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ فتح مکہ کے روز ابو سفیان کے لیے سوائے بیعتِ رسولﷺ کے کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔ اس بات کو "سیاسی ضروریات" (political necessities) کے دائرے میں سمجھا جا سکتا ہے، جہاں قریش کے ایک طاقتور مگر مغلوب سردار نے اسلام کے خلاف اپنی جدوجہد کی  بقا کے لیے بانی اسلامؐ کے ساتھ ایک "تاریخی مفاہمت" (historical compromise) کی۔ آگے چل کر تاریخ اسلام میں یہ مفاہمت مسلمانوں کے درمیان ایک سیاسی تبدیلی کا تسلسل ثابت ہوئی۔ معتبر منابع کے مطابق خلیفہ اوّل کے دور میں ابو سفیان نے امام علیؑ کو بغاوت پر اُکسانے کی کوشش کی۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قریش کے مغلوب شُدہ سردار کی طرف سے  اقتدارکے حصول کے لیے سازش اسی دور میں شروع ہوچکی تھی، جسے "سیاسی سازش" (political conspiracy)  کہا جاتا ہے۔

اسی طرح، خلیفہ دوم کے قتل کی واردات میں ابو لولو فیروز کا کردار بھی اہم ہے۔ ابو لولو نامی شخص تو مغیرہ بن شعبہ کا غلام تھا اور مغیرہ بن شعبہ خود آلِ ابوسفیان کا ہم نوالہ و ہم پیالہ تھا۔ یہ شخص دراصل ایک "پراکسی" (proxy) تھا، جس کا استعمال خلیفہ دوّم کے خلاف سیاسی مفادات کے حصول کیلئے کیا گیا۔ اس کی کہانی میں ہمیں واضح طور پر "پولٹیکل گیمز" (political games) کی جھلک ملتی ہے۔ بظاہر وہ اپنے ذاتی مفادات کے تحت خلیفہ دوم پر حملہ کرتا ہے، لیکن اس کے پیچھے دراصل مغیرہ بن شعبہ اور بنو امیہ کے مفادات کارفرما تھے۔ صاحبانِ دانش بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت تو خلیفہ دوّم نے عجمی حضرات کے مدینے میں داخلے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ پابندی کے اس دور میں ابو لولو کو مدینے میں رہنے کی خصوصی اجازت مغیرہ بن شعبہ کی سفارش پر ہی ملی تھی۔ اس قتل کو "پریکٹیکل اسٹرٹیجی" (practical strategy) کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس کے ذریعے اس وقت کی رائج خلافت میں تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی۔

اسی طرح، خلیفہ سوم کے خلاف ہونے والی عوامی بغاوت کو ہم "سوشل ڈسکانٹینٹ" (social discontent) کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، جو کہ ایک وسیع تر سیاسی عمل کا حصہ تھی۔ اس بغاوت میں مروان بن حکم اور بنو امیہ کے سیاسی مفادات نظر آتے ہیں، جو اسلامی خلافت کو اپنے قابو میں لانے کے خواہاں تھے۔ اس سلسلے میں امام علیؑ کے اقتدار کے آغاز کو اُس وقت کے "سیاسی جغرافیہ" (political geography) کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے، جہاں مختلف سیاسی طاقتوں کے مفادات آپس میں متصادم تھے۔ یہ تصادم واضح کرتا ہے کہ خلافت کا ملوکیت میں تبدیل ہونا ایک "باہدف حکمت عملی" (strategic agenda) تھا اور اس تبدیلی کے پیچھے کئی سالوں کی "منظم سیاسی تدابیر" (organized political maneuvering) کارفرما تھیں۔

جب امام علیؑ کو شہید کیا گیا تو ان کے قتل میں جو لوگ شامل تھے، وہ صرف خوارج یا ابن ملجم جیسے افراد تک محدود نہیں تھے۔ یہ ایک "سیاسی سازش" (political conspiracy) تھی، جس میں ماضی کی متصادم سیاسی طاقتوں کے مشترکہ  مفادات کا حصول شامل تھا۔ ان سب کا مشترکہ مقصد علی ابن ابیطالبؑ کو راستے سے ہٹانا تھا۔ منصوبہ ساز اپنے نقشے کے مطابق جانتے تھے کہ اس قتل کے بعد اسلامی حکومت درخت پر کسی پکے ہوئے پھل کی مانند کس کی گود میں گرے گی۔ اس کے بعد ہم اس بات کو "سیاسی تجزیہ" (political analysis) کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں کہ خوارج یا ابن ملجم نے اسلامی حکومت کے درخت پر فقط کلہاڑا چلایا، لیکن اس کا پھل نہ انہوں نے چکھا اور نہ ہی نقشے کے مطابق اُنہیں اس پھل میں سے کچھ چکھایا جانا تھا۔ پس خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرنا کی ایک گہری حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امام علیؑ کے قتل کا نقشہ ابن ملجم اور خوارج کا تیار کردہ نہیں تھا بلکہ خوارج تو خود کسی اور کے نقشے کے مطابق وجود میں آئے تھے۔ خوارج نے تو اپنے وجود میں لائے جانے کے ہدف کو پورا کیا اور یوں شہادتِ امام علی ؑ کے بعد اصلی قاتل، اسلامی اقتدار پر قابض ہوگئے۔ اس بات کو "سیاسی تجزیہ" (political analysis) اور "تاریخی حقیقت" (historical truth) کے تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ ان اصل قاتلوں کو بے نقاب کرنے کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس کے ذریعے ہم نہ صرف امام علیؑ کے قتل کے محرکات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں بلکہ اس سے جڑے وسیع تر سیاسی  مفادات اور اثرات کا آج بھی مشاہدہ  کرسکتے ہیں۔ امام علیؑ کے قتل کے بعد جو قوتیں اقتدار میں آئیں، ان کی سیاست اور حکمت عملی یہ بتاتی ہے کہ ان کی تدابیر نے عام افراد کیلئے اس قتل کو سمجھنا مزید سنگین اور مشکل بنا دیا۔ اس سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ ماضی کے خوارج ہوں یا آج کے خوارج جو کہ ہمیشہ  ایسی کاروائیوں کا الزام اپنے سر لیتے ہیں اور یہ دراصل طاقتور گروہوں کے آلہ کار ہوتے ہیں۔

کربلا کے میدان میں امام حسینؑ کے خطاب کو ہم "فلسفہ آزادی" (philosophy of freedom) کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، جہاں امام حسینؑ نے ابو سفیان کے پیروکاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "اگر تم دین سے بے بہرہ ہو اور قیامت سے نہیں ڈرتے تو کم از کم اپنی دنیا میں آزاد رہو۔" اس جملے میں امام حسینؑ نے نہ صرف مذہبی آزادی کی بات کی، بلکہ انسانیت کے اس بنیادی اصول کو بھی اجاگر کیا، جو سیاسی اقتدار کے غلط استعمال کو چیلنج کرتا ہے۔ امام حسینؑ نے ایک "سیاسی تجزیہ" (political critique) پیش کیا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح کچھ سیاسی حکام نے اسلامی تعلیمات کو اپنی طاقت کے لیے مسخ کر دیا ہے۔ حضرت زینبؑ کا خطاب بھی کربلا کے "سیاسی بیانیے" (political discourse) کا حصہ تھا، جس میں انہوں نے یزید کے دربار میں ابو سفیان اور اس کے خاندان کے منفی سیاسی کردار کو بے نقاب کیا۔

حضرت زینبؑ نے یزید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "اے ہمارے آزاد کردہ غلاموں کی اولاد! تم نے اپنی مستورات کو پردے میں بٹھا رکھا ہے، جبکہ رسول اللہ کی بیٹیوں کو بے پردہ در بدر پھرا رہے ہو۔" یہ جملے ایک "سیاسی تفصیل" (political exposition) کے متقاضی ہیں، جو نہ صرف فتح مکّہ کے روز ابو سفیان کی بیعت کی حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں، بلکہ اس امر کو بھی ثابت کرتے ہیں کہ اس دور میں مذہب اور سیاست کو کس طرح گمراہ کن مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ ان تمام حقائق کو غیر جانبدار ہو کر جاننا ضروری ہے، تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ان حقائق کو کسی اور نے نہیں بلکہ ماضی کی مقتدر نام نہاد اسلامی قوّتوں نے ہی نسل در نسل اقتدار کے مرکز پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ رعایا سے چھپایا ہے۔

یہ اسی صدیوں پر محیط منظّم حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ آج پورے جہانِ اسلام میں مسلمانوں کے پاس کوئی ایک ایسی جامع  الشرائط شخصیت نہیں ہے کہ جس پر ساری دنیا کے مسلمان بطورِ ملت جمع ہونے کیلئے سوچیں۔ گویا 14 سو سال پہلے ہی حضرت امام علی ؑ کو شہید کرکے قیامت تک کے مسلمانوں کو منتشر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ خلیفہ سوّم کے قتل کے وقت بھی ایسا ہی انتشار وجود میں آیا تھا۔ اُس زمانے میں لوگوں نے اس خلا کو حضرت امام علی ؑ کی بیعت  کرکے پُر کیا تھا۔ عقلِ سلیم کا یہ فیصلہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے کی طرح آج بھی اس خلا کو صرف اِس موجودہ زمانے کا علیؑ ہی پُر کرسکتا ہے۔ چودہ سو سال کے بعد بھی ۱۹ رمضان المبارک کی شب مسلمانوں کی عقل پر دستک دیتی ہے کہ مسلمانو! اس زمانے کا خلا پُر کرنے کیلئے اس دور کا علیؑ کون ہے۔؟

کیا خاتم النبیین ؐ یہ بتا کر نہیں گئے کہ تھے کہ میرے بعد میرا خلیفہ کون ہے۔؟ میرے بعد کتنے علی ہونگے اور آخری علیؑ کی نشانیاں کیا ہونگی۔؟ مطمئن رہیں کہ جب بھی ہم ماضی کی سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر اس سوال کا جواب ڈھونڈیں گے تو ہمیں اپنے زمانے کے علیؑ کا سُراغ مل جائے گا۔ اپنے زمانے کے علی ؑ کو تلاش کیجئے، لیکن یہ جان لیجئے کہ علی کے سر کے زخم اور علی کے دل کے دُکھ دونوں کا درد برابر ہے۔ ابنِ ملجم کے خنجر کے لگائے ہوئے زخم پر رونا اور علی کے دل کے زخموں کا احساس نہ کرنا یہ علی ؑ کو نہ پہچاننے کی نشانی ہے۔ اس لئے کہ ظاہری زخم تو غیروں کو بھی نظر آتے ہیں، لیکن دل کے زخموں کو فقط جاننے والے ہی جانتے ہیں۔ کیا ہم میں سے ہے کوئی جو علی ؑ کے دل کے دکھوں کو جانتا ہے۔؟ علی ؑ کے دِل کا ایک گہرا دکھ "علی ؑ کے چاہنے والوں کا علیؑ کے دشمنوں کی سیاست کو نہ سمجھنا ہے۔"
 
 
تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

تہران (ارنا) جرنل آف فزیکل کیمسٹری لیٹر، فزیکل کیمسٹری کے میدان میں سب سے زیادہ معتبر اشاعتوں میں سے ایک اور منتخب کردہ نیچر-انڈیکس جرنلز میں سے ایک کا سرورق، شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے شعبہ کیمسٹری کی پروفیسر زہرہ جمشیدی کے ایک تحقیقی مقالے کے لیے وقف کیا گیا ہے۔

پروفیسر زہرہ جمشیدی کا تحقیقی مقالہ، بعنوان "کوانٹم ڈائنامکس آف پلاسمون کپلنگ فار سلور نینو پارٹیکل ڈائمر: پاپولیشن اینڈ انرجی اینھانسمینٹ اینڈ انٹرایکشن ود دا ایمیٹر" کا عنوان جرنل آف فزیکل کیمسٹری لیٹر، فزیکل کیمسٹری کے سرورق پر چھپا ہے۔

یہ ریسرچ، تجرباتی نتائج پر مبنی ہے۔

The Journal of Physical Chemistry Letters  کا H-index  252 ہے۔ یہ جنرل فزیکل کیمسٹری کے میدان میں سب سے زیادہ با اعتماد جریدے میں سے ایک ہے اور اسے Nature-Index کا ایک منتخب جریدہ سمجھا جاتا ہے۔

Saturday, 15 March 2025 22:14

خالق کی تلاش

ہر انسان کے ذہن میں فطری طور پر تین سوال پیدا ہوتے ہیں

کہاں سے آیا؟

کس لئے آیا ؟

کہاں جانا ہے ؟

ان سوالات کا جب تک انسان کو کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملے تو اس کے تجسس اور بے چینی میں اضافہ  ہی ہوتا چلاجاتا ہے اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ جب انسان کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہوتا ہے تو جب  تک اس کا صحیح جواب نہ ملے سوال اپنی جگہ پر گردش کرتا رہتا ہے مگر یہ کہ وہ سوال ذہین سے محو ہوجائے۔ لیکن اعتقاد خالق ایک ایسا سوال ہے کہ جوکبھی ذہین سے محو نہیں ہوسکتا کیونکہ جب تک انسان زندہ ہے اسوقت تک اپنی ہستی و خالق کی کھوج میں لگا رہے گا۔

اور یہ بھی معلوم ہے کہ انسان کی ہر مشکل کا واحد حل غور و فکر  اور اس  کے بارے میں بحث و مباحثہ کرنے میں پنہان ہے، اور جب ایک انسان غور و فکر سے ایک صحیح عقیدے کو اختیار کرلیتاہے تو وہ عقیدہ اس کے لئے تسکین قلب مہیا کرتا ہے ۔ انسان ان سوالوں کے جواب سے اپنے معبود کو پا لے گا جیساکہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں "رحم الله امرء ...علم  من أين وفى أين وإلى أين"  خدا  رحم کرے اس بندے پر جس نے یہ جان لیا کہ وہ کہاں سے آیا ہے، کہاں  آیاہے اور کہاں جارہا ہے۔

 

 

Saturday, 15 March 2025 22:10

دیر سے اعتراف

اقوام متحدہ کی جانب سے تشکیل پانے والے آزاد تحقیقاتی کمیشن نے پہلی بار اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے تمام مقبوضہ سرزمینوں پر اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے جس بربریت کا ثبوت دیا ہے وہ نسل کشی کے زمرے میں آتی ہے۔ اس تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی سیکورٹی فورسز اور یہودی آبادکاروں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت منظم انداز میں ٹارچر اور جنسی ہراسانی کو فلسطینیوں کو کچلنے اور انہیں اجتماعی سزا دینے کے لیے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کے ہاتھوں گرفتار ہونے اور ٹارچر کا شکار ہونے والے متعدد فلسطینی باشندوں نے اقوام متحدہ کے سامنے شہادتیں پیش کی ہیں۔
 
سعید عبدالفتاح جن کی عمر 28 سال ہے اور وہ غزہ کے الشفاء اسپتال میں نرس کی ڈیوٹی انجام دیتے تھے صیہونی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار کیے گئے تھے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے گرفتاری کے دوران صیہونی اہلکاروں کی جانب سے وحشت ناک اقدامات سے پردہ ہٹایا اور اپنے ساتھ پیش آنے والے ناگوار واقعات کی وضاحت کی۔ سعید عبدالفتاح نے اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی کو بتایا کہ انہیں کس طرح شدید سردی میں برہنہ حالت میں رکھا جاتا تھا اور مسلسل مار پیٹ کی جاتی تھی جبکہ کئی بار انہیں جنسی زیادتی کی دھمکی بھی دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ میری تفتیش کرنے والا صیہونی اہلکار مسلسل میرے نازک حصوں پر چوٹ لگاتا تھا اور میرے بدن کے مختلف حصوں سے خون بہنا شروع ہو جاتا تھا جبکہ میں یوں محسوس کرتا کہ گویا میری جان نکلنے والی ہے۔
 
اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کو نہ صرف جیلوں بلکہ دیگر چیک پوسٹوں پر بھی جنسی ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ فلسطینی وکیل سحر فرانسس نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ تمام فلسطینی قیدیوں کو غزہ سے گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں جبری تفتیش کا حصہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بعض مواقع پر صیہونی فوجی قیدیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے اور ان کی تحقیر کرتے تھے۔ اس رپورٹ میں ایک اور فلسطینی گواہ محمد مطر کے بیانات بھی شائع کیے گئے ہیں۔ محمد مطر مغربی کنارے کے رہائشی ہیں اور انہوں نے تحقیقاتی کمیٹی کو بتایا کہ کس طرح صیہونی سیکورٹی فورسز نے انہیں شدید ٹارچر کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ گرفتار کرنے کے بعد ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی، ان کا لباس اتار دیا گیا اور ہاتھ باندھ دیے گئے۔
 
اس کے بعد انہیں بھیڑ بکریوں کا فضلہ کھانے پر مجبور کیا گیا اور ان پر پیشاب بھی کیا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایک صیہونی جلاد نے لکڑی کے ٹکڑے سے انہیں جنسی طور پر ہراساں بھی کیا۔ اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل نے منظم انداز میں غزہ کے صحت کے مراکز اور اسپتال تباہ کیے ہیں اور ادویہ جات اور میڈیکل کا سامان غزہ میں داخل ہونے سے روکا ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے: "وہ بچے جو آج غزہ میں پیدا ہو رہے ہیں شیرخوارگی کے دوران اور بڑے ہو کر بھی گندے پانی، سردی اور بھوک کے باعث موت کے خطرے سے روبرو رہیں گے۔" اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے جنسی تشدد کو فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔
 
غاصب صیہونی رژیم نے صحت کی سہولیات ختم کر کے فلسطینی خواتین اور بچوں کی صحت کو نقصان پہنچایا ہے۔ اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے تاکید کی ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف جنسی تشدد اعلی سطحی فوجی اور سیاسی رہنماوں کے واضح حکم کے تحت انجام پایا ہے اور انہوں نے اس کی باقاعدہ ترغیب دلائی ہے۔ اسی طرح صیہونی فوجیوں نے اپنے مجرمانہ اقدامات کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر شائع کی ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ ناوی پیلای نے اس رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف جنسی تشدد اسرائیل کی حکومتی پالیسیوں کا حصہ ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو کچلنا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "اس نتیجہ گیری سے گریز نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں میں خوف و ہراس پھیلانے اور اپنی آمرانہ پالیسیاں مسلط کرنے کے لیے جنسی تشدد کا سہارا لیا ہے۔"
 
اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی اس رپورٹ میں شائع ہونے والے شواہد اور دستاویزات کی روشنی میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ منظم انداز میں ٹارچر کرنا، جنسی زیادتی، جنسی توہین اور فلسطینیوں کے خلاف جنسی تشدد کے دیگر اقدامات اسرائیل کی حکومتی پالیسی کا حصہ ہیں جن کا مقصد فلسطینیوں کی حق خود ارادیت ختم کرنا اور ان کی نسل کشی ہے۔ اقوام متحدہ اب تک اس بات کی تصدیق کر چکی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف انجام پانے والے اقدامات جیسے میڈیکل نظام اور زچہ بچہ کے مراکز کو منظم انداز میں تباہ کرنا نسل کشی کے دائرے میں آتے ہیں۔ اس رپورٹ میں شائع ہونے والے نتائج نے بین الاقوامی قانونی اداروں اور انصاف کے مراکز میں صیہونی رژیم کے خلاف عدالتی کاروائی انجام پانے اور صیہونی حکمرانوں کو قرار واقعی سزا ملنے کا زمینہ فراہم کر دیا ہے۔
 
 

 حسن بن علی بن ابی طالب (3-50ھ) امام حسن مجتبیؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے دوسرے امام ہیں۔ آپ کی امامت کی مدت دس سال (40-50ھ) پر محیط ہے۔ آپ تقریبا 7 مہینے تک خلافت کے عہدے پر فائز رہے۔ اہل سنت آپ کو خلفائے راشدین میں آخری خلیفہ مانتے ہیں۔

21 رمضان 40ھ میں امام علیؑ کی شہادت کے بعد آپ امامت و خلافت کے منصب پر فائز ہوئے اور اسی دن 40 ہزار سے زیادہ لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔ معاویہ نے آپ کی خلافت کو قبول نہیں کیا اور شام سے لشکر لے کر عراق کی طرف روانہ ہوا۔ امام حسنؑ نے عبید اللہ بن عباس کی سربراہی میں ایک لشکر معاویہ کی طرف بھیجا اور آپؑ خود ایک گروہ کے ساتھ ساباط کی طرف روانہ ہوئے۔ معاویہ نے امام حسن کے سپاہیوں کے درمیان مختلف شایعات پھیلا کر صلح کیلئے زمینہ ہموار کرنے کی کوشش کی.. ان فتنوں کے پیش نظر امام حسنؑ نے وقت اور حالات کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے معاویہ کے ساتھ صلح کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ معاویہ قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوگا، اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے کا اور تمام لوگوں خاص کر شیعیان علیؑ کو امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرے گا۔ لیکن بعد میں معاویہ نے مذکورہ شرائط میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا...

صلح کے بعد آپ سنہ 41ھ میں مدینہ واپس آ گئے اور زندگی کے آخری ایام تک یہیں پر مقیم رہے۔ مدینہ میں آپؑ علمی مرجعیت کے ساتھ ساتھ سماجی و اجتماعی طور پر بلند مقام و منزلت کے حامل تھے۔

معاویہ نے جب اپنے بیٹے یزید کی بعنوان ولی عہد بیعت لینے کا ارادہ کیا تو امام حسنؑ کی زوجہ جعدہ کیلئے سو دینار بھیجے تاکہ وہ امام کو زہر دے کر شہید کرے۔ کہتے ہیں کہ آپؑ زہر سے مسموم ہونے کے 40 دن بعد شہید ہوئے۔
یہاں ایک ایسے سوال کا جواب حاضر ہے جسے اپنوں کے ساتھ ساتھ غیر بھی کرتے ہیں کہ اگر امام حسن علیہ السلام صلح نہ کرتے تو کیا ہوتا؟!

اگر امام حسن علیہ السلام صلح نہ کرتے تو معاویہ ابن ابی سفیان اسے بہانہ بنا کر یہی وہ لوگ ہیں جو عثمان کے قاتل ہیں اپنے مسلح لشکر کے ساتھ کوفہ میں وارد ہوتا اور وہاں کے حکومتی، سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی نظام کو درھم برھم کرتا،عوام الناس خاص کر شیعیان علی کا قتل‌عام کرتا...

اگر صلح و امنیت کی تدبیر نہ کرتے تو شیعوں کو قتلِ عثمان کے بہانے سب سے زیادہ نقصان پہنچتااور وہ روایات جو امیر (ع) اور اہل بیت (ع) کے فضائل میں آج تک صحاح اور مسانید اہل سنت میں موجود ہیں،ان کا کوئی اتا پتہ نہیں ہوتا... امام حسن (ع) کا یہ طرزِ عمل اور اقدامات امن پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہیں جنہیں ہم امام حسن علیہ السلام کی حد درجہ دور اندیشی، زیرکی، باطنی بصیرت، انتہاء درجے کی عقلمندی، معاملہ فہمی اور صبر و برداشت جیسے اوصاف حمیدہ یا نورِ ولایت و امامت کا نتیجہ قرار دے سکتے ہیں... خود امام حسن مجتبی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے اپنے کے اسباب و وجوہات کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :اگر میں صلح نہ کرتا تو معاویہ ابن ابی سفیان کو یہ موقع فراہم ہوتا کہ وہ ، اس کے نام پر کہ یہ عثمان کے قاتل ہیں، وہ سب کو قتل کر دیتا،اگر اس صلح کا طوق خاردار اس شخص کے گلے میں نہ ڈالا جاتا تو آج ہمارے پاس نہج البلاغہ کا ایک خطبہ بھی نہیں ہوتا ۔

اگر یہ صلح نہ ہوتی تو آج صحاح، سنن اور مسند میں سے ایک روایت بھی ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتی ،اگر یہ صلح نہیں ہوتی تو اسلام اور شیعیت کے لطیف اصول و اقدار ہمارے ہاتھ میں نہ ہوتے ،ہمارے پاس اگر علی (ع) کی سیرت ، پیغمبر اکرم کی صحیح سیرت و تعلیمات، قرآن کی صحیح تفسیر ہمارے وغیرہ موجود ہے تو یہ صلح کا ہی نتیجہ ہے...

یہ کہنا حق بجانب ہے کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام نے معاویہ جیسے مجہول النسل سے صلح کرکے اسلامی اقدار و روایات کو تحفظ فراہم کیا اور شیعیت کو حیات نو بخشی ہے آج جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے وہ امام حسن علیہ السلام کے صبر و استقامت اور آپ کی صلح کا نتیجہ ہے ۔

یہ ساری باتیں امام حسن علیہ السلام کی صلح کے رازوں میں سے ایک راز ہے نیز اس بات سے بھی غض بصر نہیں کرنی چاہیئے کہ چودہ سو سال سے آج تک جو تحریک حسینی دنیائے مظلومیت کیلئے سبق آموز ہے وہ سبط رسول الثقلین حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی دانشمندی کا ہی نتیجہ ہے اگر آپ کی زیرکی و دانشمندی نہ ہوتی تو شاید امام حسین علیہ السلام ؐکا عظیم انقلاب عالم انسانیت کے لئے کبھی مینارہ نور نہیں بن پاتا... افسوس ان رازوں اور مصلحت اندیشی کو دشمن تو دشمن دوست بھی سمجھنے سے قاصر رہے اور صلح کے بعد شہزادہ ءصلح و امن، سردار جوانان ِ جنت، سبط رسول ۔جانِ علی و بتول سے ناراض ہوئے یہاں تک کہ بعض نے آپ کو "مذلّ المؤمنین" (مؤمنین کو ذلیل کرنے والے) سے خطاب بھی کیا جو تاریخ کے اوراق پر آج بھی ثبت ہے

موجودہ جنگ و جدل سے جھلسے دور میں شہزادہ صلح امن حضرت امام حسن کؑی تعلیمات ساری دنیا کے لئے امن و چین کی ضمانت ہیں۔

تحریر: مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی

اس آيت کے ضمن میں ایک نکتہ یہ ہے کہ اس بندگی کا سرچشمہ انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ انسان اپنی فطرت کے تقاضے کے مطابق طاقت کے ایک ایسے سرچشمے، قدرت و اقتدار کے ایک ایسے مرکز کی طرف مجذوب ہوتا ہے جسے وہ خود سے برتر سمجھتا ہے اور اس کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔ یہ چیز انسان کی روح میں، اس کی ذات میں اور اس کے خمیر میں پائی جاتی ہے، چاہے دانستہ ہو یا نادانستہ۔ دنیا میں کی جانے والی ساری عبادتیں، خدا کی پرستش ہے، یہاں تک کہ بت پرست بھی بباطن اپنی فطرت کے تقاضے کے مطابق جو اسے خدا پرستی کی طرف لے جاتی ہے اور خدا پرستی کی دعوت دیتی ہے، اپنی فطرت کی پیروی کرتا ہے۔ بت پرست بھی اپنے دل کے باطن میں خدا پرست ہے، جو چیز اس کے کام میں مشکل پیدا کرتی ہے وہ اس برتر طاقت اور الہی قدرت کے مصداق کی شناخت میں غلطی ہے۔ ادیان کا کردار یہ ہے کہ وہ انسان کے اس سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کریں، اس کی آنکھیں کھولیں اور اسے بتائيں کہ وہ برتر طاقت کون ہے۔

امام خامنہ ای

24 اپریل 1991