پاکستان کی جماعت اسلامی کے رہنما اسداللہ بھٹو نےکہا ہے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی(رہ) کامقصد امریکہ، اسرائیل اور دیگر استعماری و استکباری طاقتوں سے مقابلہ اوراسلام کا غلبہ و سرفرازی تھا۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت مسلسل جدوجہد کا نام ہے، تبدیلی کیلئے مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے، بعض اوقات کئی کئی دہائیاں بیت جاتی ہیں منزل تک پہنچنے کیلئےاور اس دوران کئی نسلیں گزر جاتی ہیں۔ ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ انقلاب کے اوائل میں محمد علی رجائی وزیراعظم تھے، پارلیمنٹ میں بم دھماکہ کیا جاتا ہے، وزیراعظم، اسپیکر سمیت درجنوں اراکین پارلیمنٹ شہید ہو جاتے ہیں، لیکن وہاں کسی قسم کی کوئی ایمرجنسی نافذ نہیں کی گئی۔ اس بات کا کریڈیٹ امام خمینی ﴿رہ﴾ کو جاتا ہے، ان کی وہاں اسلامی جمہوریت کیلئے کوششوں کو جاتا ہے۔ امام خمینی ﴿رہ﴾ نے وہاں کوئی عبوری حکومت قائم نہیں کی بلکہ فوری طور پر انتخابات کا اعلان کیا۔
جماعت اسلامی سندھ کے صدراسد اللہ بھٹوکا کہنا تھا کہ اس وقت واقعاً صورتحال انتہائی افسوسناک ہے مگر اس کے ساتھ ہی جو بات سب سے زیادہ خوش آئند ہے وہ ہے امت کے درمیان اتحاد۔ عوام چاہے مصر کی ہو یا تیونس کی، پاکستان کی ہو یا ایران کی، ترکی کی ہو یا انڈونیشیا کی، بلکہ یورپ، ایشیاء، افریقہ سمیت دنیا بھر کے مسلمان اس حوالے سے ایک طرح کی سوچ رکھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانان عالم کے اندر فکری وحدت، فکری ہم آہنگی موجود ہے، وہ فرقہ واریت کے خلاف ہیں لیکن سوائے ایک آدھ اسلامی ملک کے، ہمارے تقریبا تمام مسلمان ممالک کے حکمران امریکا کے ایجنٹ اور پٹھو ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمیں یہ اختلاف نظر آتا ہے۔ ہمارے حکمران کے کچھ نہ کرنے کی اصل وجہ ان کا ہر معاملے میں امریکا سے ڈکٹیشن لینا ہے لیکن امت کے اندر اختلاف نہیں بلکہ اتحاد و وحدت موجود ہے۔ گزشتہ کئی برسوں میں درجنوں غیر ملکی سروے کئے جا چکے ہیں اور سب میں پاکستانی عوام کی اکثریت نے امریکا سے نفرت کا اظہار کیا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ امت جاگ رہی ہے۔ استعمار پاکستان میں شیعہ سنی جھگڑا کرانا چاہتا ہے۔ فرقہ واریت کو جنم دے کر وہ چاہتا ہے کہ جب ایران کے خلاف کوئی پابندیی لگائے، یا اسرائیل کی جانب سے ایرانی ایٹمی پروگرام پر جارحیت کی جائے تو سنی یہ کہے کہ ہمارا کیا واسطہ یہ تو شیعوں پر ہوا ہے۔ اسی طرح جب پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر امریکہ پابندیاں لگائے یا حملہ کرے تو وہاں کے عوام یہ سوچے کہ ہم تو شیعہ ہیں، اگر پڑوس میں ہوا ہے تو ہم کیا کریں۔ مگر ہم ان تمام سازشوں سے مقابلہ کرتے ہوئے وحدتِ امت کے ذریعے امریکا، اسرائیل سمیت تمام سامراجی، طاغوتی قوتوں کو ناکامی سے دوچار کرینگے۔
مجھے یاد ہے کہ جب ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہو رہا تھا تو پاکستان میں امام خمینی رحمة اللہ علیہ نے دو نمائندے بھیجے تھے، جن میں سے ایک بعد میں ایران کے وزیر خارجہ بھی بنے۔ دونوں نمائندوں نے آ کر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کیلئے امام خمینی (رہ)شریف لا رہے ہیں۔ اس وقت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے نہ صرف ان کا استقبال کیا تھا بلکہ ان کی اسلامی حکومت کو پاکستان نے سب سے پہلے تسلیم بھی کیا تھا۔
ہم ایران کے اسلامی انقلاب کو شیعہ کے بجائے اسلامی انقلاب سمجھتے ہیں۔ یہ اسلامی انقلاب الحمد اللہ آج تک برقرار ہے، ہمیں خوشی ہے، اللہ اسے مزید قائم و دائم رکھے۔
اسلامی نظام حکومت اور سیاست و حکومت کو اسلام کے مطابق بنانے کیلئے امام حسین عالی مقام (ع) نے سب سے بڑی قربانی دی ہے کہ یہاں پر اسلامی نظام ہونا چاہئیے۔ امام حسین (ع) کے قیام کے وقت لوگ نمازیں بھی پڑھ رہے تھے، روزے بھی رکھ رہے تھے، حج بھی کر رہے تھے۔ لیکن اسلامی نظام نہیں تھا، اسلامی احکامات کو تبدیل کیا جا رہا تھا، اس لئے امام حسین (ع) نانا (ص) کے دین کی بقاء اور اسلامی نظام حکومت کیلئے کھڑے ہو گئے اور سب سے بڑی قربانی دی۔ اصل میں یہ استعمار، استکبار، طاغوت کا فلسفہ ہے کہ دین و سیاست جدا ہیں۔ اسی لئے ہم امام خمینی (رہ) کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے عملی طور پر ایک کامیاب اسلامی نظام حکومت، اسلامی ریاست کا قائم کر کے دکھائی ہے۔
ہم اتحاد امت اور وحدت اسلامی کے ذریعے عالم اسلام اور مسلمین کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں ان سب کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی (رہ) نے فرمایاتھا کہ فقہ جعفری سے تعلق رکھنے والے شیعہ، حنفی، حنبلی، مالکی اور شافعی یہ پانچوں ایک مکے کی طرح ہیں، پانچ انگلیاں جب مل جائیں گی تو ایک مکا بنے گا اور انشاءاللہ یہ اتحاد امت کا مکا ہے جو سامراج اور طاغوت کے جبڑے کو توڑ دے گا۔