بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطہرین المنتبجبین الھداۃ المعصومین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین۔
ہم خدا وند متعال کے شکر گذار ہیں کہ اس نے ایک بار پھر ہمیں موقع عطا فرمایا، عمر عطا کی تا کہ اس دن امام خمینی کو خراج عقیدت اور محبت و خلوص کا نذرانہ پیش کرسکیں۔ گرچہ امام خمینی ہمیشہ ہماری قوم کے دل میں زندہ ہیں لیکن چودہ خرداد ( مطابق چار جون) کا دن امام خمینی سے ملت ایرنا کی دلی محبت کی نشاندھی کرتا ہے۔ اس سال امام خمینی کی برسی ان کے جد بزرگوار حضرت امام موسی کاظم علیہ الصلاۃ و السلام کی شہادت کے دنوں میں پڑی ہے۔ اسی طرح اس سال پندرہ خرداد کے واقعے کو جو کہ تیرہ سوبیالیس(انیس سو ترسٹھ) میں پیش آیا تھا اور نہایت ہی اہم اور فیصلہ کن واقعہ ہے پچاس برس ہورہے ہیں۔ میں اس سلسلے میں اختصار سے کچھ عرائض پیش کرونگا اس کےبعد اپنے اہم اور ضروری مسائل تک پہنچیں گے۔
پندرہ خرداد کا واقعہ عوام اور علماء کی عظیم تحریک کا آغاز نہیں ہے۔ اس سے قبل تیرہ سو اکتالیس میں اور تیرہ سوبیالیس (انیس سو باسٹھ و ترسٹھ)کے آغاز میں اہم واقعات پیش آئے ہیں۔ دوسری فروردین تیرہ سو بیالیس( انیس سو ترسٹھ) کو مدرسہ فیضیہ کا واقعہ پیش آیا جس میں طلاب علوم دینیہ کو زد و کوب کیا گیا اور بزرگ مرجع تقلید مرحوم آیت اللہ گلپائيگانی کی شان میں گستاخی کی گئي۔ اس سےپہلے تیرہ سو اکتالیس کے اواخر میں تہران کےبازار میں عوام نے بڑے مظاہرے کئے تھے اس موقع پر بھی بزرگ مرجع تقلید آیت اللہ حاج سید احمد خوانساری کی توہین کی گئی تھی۔ یہ واقعات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ علماء کی تحریک تیرہ سو اکتالیس اور تیرہ سوبیالیس کے آغاز میں اس قدر عروج پر پہنچ چکی تھی کہ ظالم شاہ کی حکومت، پولیس اور سکیورٹی ایجنسیوں نے علماء، دینی طلبا یہانتک کہ مراجع کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیاتھا۔ لیکن اس کےباوجود پندرہ خرداد تیرہ سوبیالس کا واقعہ نہایت ہی اہم واقعہ ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ پندرہ خرداد تیرہ سوبیالیس کو جو واقعہ رونما ہوا اس نے علماء اور عوام کے رشتے کو نہایت مستحکم بنادیا جس پر حکومت حساس ہوگئی اور خطرے کا احساس کرنے لگي۔ اس سال عاشورا کے دن جو تیرہ خرداد کے مطابق تھا امام خمینی نے مدرسہ فیضیہ میں ایک تاریخی اور فیصلہ کن خطاب فرمایا ۔اس کےبعد جب امام خمینی کو گرفتار کرلیا گيا تو پندرہ خرداد کو خاص طور سے تہران اسی طرح قم اور دیگر شہروں میں عوامی احتجاج کی عظیم لہر اٹھ گئي۔ شاہ کی طاغوتی حکومت نے اپنی تمام تر طاقت، اپنی پولیس، اپنی فوج، اور اپنی سکیورٹی فورسس سے اس عوامی تحریک کوکچلنا شروع کردیا۔ پندرہ خرداد کو عوامی انقلاب وجود میں آگيا۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہےکہ ایرانی قوم، اسکی فرد فرد علماء و مراجع سے کہ جن کا مظہر امام خمینی تھے نہایت مضبوط رشتے میں بندھی ہے۔ یہاں اہم نکتہ یہ ہےکہ یہی مضبوط رشتہ ہی تھا جو تحریک کی ترقی اور کامیابی کا ضامن تھا۔ جہاں کہیں بھی کوئي تحریک یا کسی انقلاب کو عوام کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور عوام اسکے ساتھ ہوتے ہیں یہ تحریک جاری رہتی ہے لیکن اگر کسی احتجاجی تحریک کو عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوتی تو وہ ناکام رہتی ہے جیسا کہ ایران میں آئينی بادشاہت کی جدوجہد کے بعد ایران میں بہت سے واقعات رونما ہوئے، جدوجہد شروع کی گئي جن میں دائيں بازو کے گروہ اور قوم پرست دھڑے شامل تھے لیکن یہ سارے واقعات ایران میں سراٹھانے والی تحریکوں کی تاریخ میں ناکام تحریکیں قراردی جاتی ہیں۔ کیونکہ انہیں عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی۔
جب عوام میدان میں آجاتے ہیں تو وہ اپنے جذبات، موجودگي، اور فکر و نظر سے تحریک کی حمایت کرتے ہیں اور ایسی تحریک جاری رہتی ہے اور اسے کامیابی بھی نصیب ہوتی ہے۔ پندرہ خرداد کا واقعہ اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علماء کو عوام کی حمایت حاصل ہے۔ امام خمینی کو گرفتار کئےجانے کےبعد تہران اور دیگر شہروں میں ایسی قیامت برپا ہوگئي تھی کہ حکومت میدان میں اتر آئي اور اس نے عوام کو وحشیانہ طریقے سے کچلنا شروع کردیا۔ نامعلوم تعداد میں بہت زیادہ لوگ مارے گئے۔تہران کی سڑکیں خدا کے بندوں، مومنین اور اس ملت کے بہادر جوانوں کےخون سے رنگین ہوگئي تھیں۔ پندرہ خرداد کو ڈکٹیٹر کا کریھ اور طاغوتی حکومت کا بے رحم چہرہ کھل کر سامنے آگيا۔ پندرہ خرداد کےبارے میں دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جس پر ہمارے جوانوں اور عوام کو توجہ کرنی چاہیے کیونکہ یہ باتیں نہایت اہمیت رکھتی ہیں نکتہ یہ ہے کہ تہران اور دیگر شہروں میں ہونےوالے وحشیانہ قتل عام پر دنیا کے کسی ادارے، انسانی حقوق کے ان نام نہاد اداروں نے کسی طرح کا احتجاج نہیں کیا۔ کسی نے اعتراض نہیں کیا، علماء اور عوام میدان میں تنہا رہ گئے۔ مارکسیسٹ اور بائيں بازو کی حکومتوں اور گروہوں نے اعتراض کرنا تو دور کی بات پندرہ خرداد کے عوامی قیام کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ ایک فئوڈال تحریک تھی، قوم پرست گروہ جو جدوجہد کا نعرہ لگاتے تھے انہوں نے بھی عوامی تحریک کی مذمت کی اور کہا کہ یہ ایک اندھی اور بے ھدف اور انتہا پسندانہ تحریک ہے۔ جہاں کہیں بھی عافیت پسند اور تعیش پسند لوگ جدوجہد میں شریک نہیں ہوتے اور خطرہ مول نہیں لیتے مومن و مجاہد افراد کو انتہا پسند اور تشدد پسند قراردیتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ لوگ انتہا پسند ہیں ان کی تحریک انتہا پسندانہ تھی۔ امام خمینی ملت کے ساتھ میدان میں اکیلے رہ گئے تھے لیکن حقیقی معنی میں آپ نے ایک آسمانی، معنوی، ثابت قدم اور باعزم قائد کی حیثیت سے تاریخ اور انسانیت سے اپنا لوہا منوالیا۔
امام خمینی تین اصولوں پر یقین رکھتے تھے جنہوں نے آپ کو ثابت قدمی، شجاعت اور استقامت عطا کی تھی۔ یہ اصول خدا پر یقین، عوام پر یقین اور اپنی توانائيوں پر یقین سے عبارت ہیں۔ یہ تین اصول تھے جن پر آپ کو ٹھوس یقین تھا۔ یہ اصول آپ کی شخصیت، فیصلوں اور اقدامات میں حقیقی معنی میں متجلی ہیں۔ آپ دل کی گہرائيوں سے عوام سے مخاطب ہوتے اور عوام نے بھی دل وجان سے آپ کی آواز پر لبیک کہا تھا اور میدان میں اتر آئے تھے اور دلیری سے ثبات قدمی کا ثبوت دیاتھا اور وہ تحریک کہ دنیا کے کسی کونے سے اسکے لئے ہمدردی نہیں تھی اور کوئي اس کی مدد کرنے کو تیار نہیں تھا آہستہ آہستہ کامیابی کی منزل کی طرف بڑھتی گئي اور سرانجام کامیاب ہوگئی۔ میں ان تین اصولوں کے بارے میں جو امام خمینی کا خاصہ تھے اختصار سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ یہ نہایت اہم باتیں ہیں جو اگر ہمارے دلوں میں بس جائيں تو ہماری تحریک کاراستہ روشن کردیں گي۔
خدا پریقین و ایمان کے سلسلے میں امام خمینی اس آیت کا مصداق ہیں الذین قال لھم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشواھم فزادھم ایمانا و قالوا حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔ امام خمینی اپنے پورے وجود سے حسبنا اللہ و نعم الوکیل کا مظہر تھےاور اس آیت پر نہایت مستحکم عقیدہ رکھتے تھے، خداوند متعال پر بھروسہ کرتے تھے، وعدہ الھی پر یقین رکھتے تھے خدا کے لئے تحریک شروع کی تھی اور خدا کے لئے ہی کام کرتے تھے، خدا ہی کی مرضی کے لئے بات کرتے تھے اور اقدام کرتے تھے اور جانتے تھے کہ ان تنصرواللہ ینصر کم و یثبت اقدامکم وعدہ خداوندی ہے، ایسا وعدہ ہے جو حتمی اور یقینا پورا ہونے والا ہے۔
عوام پریقین کے بارے میں امام خمینی حقیقی معنی میں ملت ایران کی شناخت رکھتے تھے۔ امام خمینی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ملت ایران مستحکم ایمان کی حامل ہے۔ ذہین اور شجاع ہے۔ اگر اسے لائق رہبر مل جائيں تو یہ ملت مختلف میدانوں میں سورج کی طرح ضوفشانی کرسکتی ہے۔ امام خمینی ان باتوں پر یقین رکھتے تھے۔ اگر کسی زمانے میں شاہ سلطان حسین نامی نالائق عنصرنے ملت ایران کو پسماندگي کاشکار بنادیاتھا تو ایک دن وہ بھی آیا جب نادر قلی اپنے القاب و عناوین سے قطع نظر جب قوم کی باگ ڈور سنبھالتا ہے اور دلیری سے قوم کی قیادت کرتا ہے تو یہ ملت دھلی سے بحیرہ اسود تک اپنے کارناموں کے جھنڈے گاڑدیتی ہے۔ امام خمینی نے اس تاریخی حقیقت کو درک کیا تھا اسکی مثالوں کا مشاہدہ کیا تھا اور اس پر ایمان و اعتقاد رکھتے تھے۔ آپ ملت ایران کو پہچانتے تھے۔ اس پر اعتماد کرتے تھے۔ امام خمینی نے عوام کے اس ایمان کو جو دنیا پسندوں کی سازشوں کے بوجھ تلے پوشیدہ و پنہاں ہوچکا تھا، اس گہرے اور ناقابل تغیر ایمان کو نکھارا اور جلادی اور عوام کی دینی غیرت کو زندہ کیا جس کے نتیجے میں ملت ایران دنیا میں استقامت و بصیرت کا نمونہ بن گئی۔ امام خمینی کی نظر میں عوام کی سب سے زیادہ اہمیت تھی اور ان کے دشمن سب سے زیادہ قابل نفرت تھے۔ آپ جو یہ ملاحظہ کرتے ہیں کہ امام خمینی نے تسلط پسند طاقتوں کے مقابلے ایک لمحے کو بھی تھکن کا اظہار نہیں کیا اس کی بنیادی وجہ یہی ہےکہ تسلط پسند طاقتیں عوام کی دشمن اور عوام کی سعادت کی دشمن ہیں اور امام خمینی عوام کے دشمنوں سے دشمنی رکھتے تھے۔
امام خمینی کا اپنی توانائيوں پر یقین نیز خود اعتمادی کے بارے میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہےکہ آپ نے ملت ایران کو خود اعتمادی کی نعمت سے مالا مال کیا ہے۔ آپ نے ملت کو خود اعتمادی عطا کرنے سے قبل اپنے وجود میں اس نعمت کو مکمل اور زندہ کیاتھا اور اپنی توانائيوں پر یقین کو حقیقی معنی میں اپنے وجود میں ظاہر کیا تھا۔ تیرہ سوبیالیس مطابق انیس سو ترسٹھ میں روز عاشورا کو آپ نے عین غریب الوطنی کی حالت میں قم کے مدرسہ فیضیہ میں دینی طلباء اور عوام سے خطاب میں محمد رضا شاہ کو للکارا تھا جوکہ امریکہ اور بیرونی طاقتوں کی حمایت سے ایران پر مطلق العنانی سے حکومت کررہاتھا۔ آپ نے اسے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اسکی حرکتیں جاری رہیں اور وہ باز نہ آیا تو میں ایرانی عوام سے کھ دونگا کہ تجھے ایران سے نکال باہر کریں۔ یہ کون کھ رہا ہے؟ یہ ایک عالم دین کھ رہا ہے جو قم میں رہتا ہے۔ اسکے پاس کسی طرح کا ہتھیار نہیں ہے، کوئي ساز و سامان نہیں ہے پیسہ بھی نہیں ہے، عالمی حمایت بھی حاصل نہیں ہے۔ صرف اور صرف خدا پر ایمان کے سہارے اپنی خود اعتمادی کے سہارے استقامت کا مظاہرہ کررہا ہے۔ جس دن امام خمینی جلاوطنی سے لوٹ کر آئے اسی بہشت زہرا میں آپ نےبختیار کی حکومت کو للکار اور بآواز بلند فرمایا تھا میں بختیار کی حکومت کو ختم کردونگا، میں خود حکومت معین کرونگا، یہ خود اعتمادی کا مظاہرہ تھا۔ امام خمینی خود پر اپنی طاقت پر اور اپنی توانائيوں پر ایمان اور یقین رکھتے تھے۔ یہی خود اعتمادی امام خمینی کے عمل اور قول سے ملت ایران تک منتقل ہوئی۔ عزیزان محترم ایک صدی تک ہمیں یہ جتلا یا جاتا رہا کہ تم کچھ نہیں کرسکتے، تم اپنے ملک کا انتظام نہیں چلا سکتے، تم سربلند نہیں ہوسکتے، تم اپنے ملک کو آباد نہیں کرسکتے، تم علم و سائنس کے میدانوں میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔نہیں کرسکتے کچھ نہیں کرسکتے کی رٹ لگارکھی تھی اور ہم نے باور بھی کرلیا تھا۔
قوموں پر تسلط جمانے کا دشمنوں کا ایک موثر حربہ توانائيوں کی نفی کرنا ہے تا کہ قومیں مایوس ہوجائيں اور یہ باور کرلیں کہ وہ کچھ نہیں کرسکتیں۔ اس سازش کے تحت ملت ایران ایک صدی تک سیاست، اقتصاد، اور زندگي کے تمام شعبوں میں پسماندگي کا شکار رہی۔ امام خمینی نےاس کا خاتمہ کردیا اور سوپر طاقتوں سے یہ حربہ چھین لیا، آپ نے ملت ایران کو باور کرایا کہ وہ بھرپور توانائیوں کی حامل ہے۔ آپ نے ملت ایران کو دوبارہ شجاعت کی نعمت سے مالا مال کیا، فیصلہ کرنے کی طاقت اور ثبات قدمی عطا کی، خود اعتمادی کی نعمت بھی عطا کی۔ اس کےبعد ہم نے احساس کیا کہ ہم میں بھرپور توانائياں ہیں، ہم نے تحریک شروع کی، اقدام کیا لھذا ملت ایران اب تمام میدانوں میں جن کی طرف میں اشارہ کرونگا، گذشتہ چونتیس برسوں میں ملت ایران نے تمام میدانوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔
امام خمینی کے یہ تین اصول یعنی خدا پر ایمان، عوام پر ایمان اور خود اعتمادی، امام خمینی کے تمام فیصلوں، تمام اقدامات اور تمام پالیسیوں کی بنیاد ہیں۔ تحریک انقلاب کے آغاز میں بھی یہی تین اصول تھے جن سے آپ کو ہمت ملی، جلاوطنی کے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا اور جب آپ پیرس تشریف لے گئے اس وقت بھی ان ہی اصولوں پر گامزن تھے۔ جب آپ وطن واپس تشریف لائے تب بھی آپ کو ان ہی اصولوں نے طاقت عطا کی کہ آپ ان بحرانی حالات میں تہران آسکیں، بہمن تیرہ سو ستاون مطابق انیس سو اناسی کے بحرانی حالات، داخلی فتنوں، اسلامی جمہوریہ کا اعلان کرتے وقت، ظالمانہ عالمی نظام کے خلاف اعلانیہ قیام میں، مغربی اور مشرقی بلاکوں کی نفی کے اصول کے اعلان کے موقع پر، مسلط کردہ جنگ کے دوران، اور اپنی زندگي کے ان بحرانی دس برسوں میں آپ کے یہی تین اصول متجلی تھے۔ یہی تین اصول آپ کے فیصلوں اقدامات اور پالیسیوں کا سرچشمہ تھے۔ امام خمینی کی زندگي کے آخری دن تک کسی نے ان کے قول و فعل میں افسردگي، شک و شبہے، تھکاوٹ اور پسپائي کا مشاہدہ نہیں کیا۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اور دنیا کی بہت سی انقلابی شخصیتیں جو جوانی کی منزلین طے کرکے بڑھاپے کی طرف پہنچتی ہیں تو شک و شبہے کا شکار ہوجاتی ہیں یہانتک کہ اپنے اصولی مواقف سے بھی ہٹ جاتی ہیں لیکن امام خمینی کی زندگي کے آخری برسوں میں آپ کے بیانات تیرہ سو بیالیس مطابق انیس سو ترسٹھ کے بیانات سے بھی زیادہ انقلابی رنگ اور شدت کے حامل ہواکرتے تھے، مستحکم و مضبوط ہوا کرتے تھے۔ ان کی عمر گرچہ ڈھلتی جارہی تھی لیکن ان کا عزم جوان تھا ان کی روح زندہ تھی، یہ وہی استقامت ہے جسے قرآن کریم میں ان لفظوں میں یاد کیا گيا ہے و ان لو استقامو علی الطریقہ لاسقیناھم ماء غدقا
دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملائکۃ ۔
ان تین اصولوں نے امام خمینی کو زندہ رکھا، جوان رکھا ان کی فکر اور راہ کو اس ملت کے لئے بقائے دوام عطا کی۔ یہی تین اصول ہیں جو تدریجا عوام اور ہمارے جوانوں اور ہمارے معاشرے کے گوناگوں طبقوں میں پھیل گئے، امید جاگ اٹھی، خود اعتمادی پیدا ہوگئي، خدا پر توکل کاجذبہ بیدارہوگيا۔ انہوں نے مایوسی کی جگہ لے لی مایوسی کے ماحول کو ختم کردیا، بد گمانی کی جگہ لے لی، ایرانی عوام نئے جذبات کے حامل ہوگئے تو خدا نے بھی ان کی حالت بدل دی ان اللہ لایغیر مابقوم حتی یغیر مابانفسھم ۔ ملت ایران نے اپنی راہ اپنے محرکات اور اپنے اقدامات کی اصلاح کی اور خدا نے بھی اس کی مدد و نصرت کی اس کی حمایت کی۔ نتیجہ کیا ہوا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ (بڑی طاقتوں) سے وابستہ ایران خود مختار بن گيا۔ پہلوی طاغوتی حکومت کی پہلے برطانیہ اور بعد میں امریکہ کی وابستگي سے لے کر جو کہ رجعت پسند روسیاہ قاچاری حکومت سے بھی بری تھی بہت سی چیزیں ہیں جن سے ہمارے جوانوں کا آگاہ ہونا ضروری ہے۔ ان کی وابستگي شرمناک حدتک پہنچ چکی تھی۔ انقلاب کے بعد امریکہ کے ایک سینئر سفارتکار نے یہ لکھا بھی ہے اور کہا بھی ہے کہ ہم تھے جو شاہ سے کہتے تھے کہ تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے اور کس چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ امریکی تھے جو کہتے تھے کہ شاہ کو کس سے رابطہ قائم کرنا ہے اور کس سے رابطہ منقطع کرنا ہے، کتنا تیل پیدا کرنا ہے، کتنا فروخت کرنا ہے اورکس کو فروخت کرنا ہے اور کس کو نہیں فروخت کرنا ہے۔ ملک امریکہ کی پالیسیوں کے مطابق، امریکہ کے منصوبوں کے مطابق اور اس سے پہلے برطانیہ کی پالیسیوں اور منصوبوں کے مطابق چلا کرتا تھا۔ ایران اس طرح سے وابستہ تھا جو ایک خود مختار ملک کی صورت میں نمودار ہوا سرفراز و سربلند ملک کی صورت میں سامنے آیا۔ اس ملک پر بدعنوانیوں میں مبتلا، خیانت کار، پیسے کےلالچی، شہوات و لذات مادی و حیوانی میں غرق حکمران حکومت کیا کرتے تھے۔ ایسے ملک میں عوام کے نمائندے حکومت میں آگئے، حکومت ان کے ہاتھوں میں آئي جو عوام کے نمائندے ہیں۔ ان چونتیس برسوں میں جن لوگوں نے اس ملک پر حکومت کی ہے، جن کے ہاتھوں میں اقتدار رہا ہے سیاست اور اقتصاد کی باگ ڈور جن کے ہاتھوں میں رہی ہے وہ عوام کے نمائندے ہیں۔ تمام کمزوریوں اور تمام مثبت توانائيوں کے باوجود جو مختلف افراد میں رہی ہیں یہ قدر مشترک رہی ہے کہ یہ سب عوام کے نمائندے تھے۔ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جیبیں نہیں بھری ہیں۔ البتہ کسی میں کمیاں پائي جاتی ہیں تو کسی میں مثبت پہلو زیادہ پائے جاتےہیں۔ یہ نہایت اہم مسئلہ ہے۔ وہ خبیث سیاست دان جو دشمن سے وابستہع لالچی اوراسکے سامنے پست اوراسکے آلہ کار تھے اور عوام پر اپنا غصہ اتارتے تھے وہ عوام کے نمائندوں میں تبدیل ہوگئے۔ علمی اور سائنسی لحاظ سے پسماندہ ملک پیشرفتہ ملک میں تبدیل ہوگيا۔ انقلاب سے پہلے ہمارے پاس کوئي ایسی چیز نہیں تھی جس پر ہم علم و سائنس کے لحاظ سے فخر کرسکتے۔ آج ہمارے بارے میں دوسرے لوگ اور سائنسی مراکز یہ کہتے دکھائي دیتے ہیں کہ ایران کی علمی اور سانئسی ترقی دنیا کی اوسط ترقی کی نسبت گيارہ گنا زیادہ ہے۔ کیا یہ معمولی سی بات ہے؟ علمی مراکز پیشین گوئي کررہے ہیں کہ آئندہ چند برسوں میں دوہزار سترہ تک ایران دنیامیں سائنسی لحاظ سے چوتھے مقام پر ہوگا۔ کیا یہ معمولی کامیابی ہے؟ وہ ملک جو علمی اور سائنیسی لحاظ سے کچھ بھی نہیں تھا آج اس طرح کے ملک میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ہمارے ملک کی ایسی حالت تھی کہ اگر ہم کوئي شاہراہ، کوئي سڑک ، کوئي ڈیم، یا کارخانہ تعمیر کرنا چاہتے تو ہمیں دوسروں کی طرف ہاتھ پھیلانا پڑتا تھا تاکہ بیرونی انجینیر آئيں اور ہمارے لئے ڈیم تعمیر کریں، سڑک بنائيں، کارخانہ لگائيں ۔ آج ہماری قوم کے جوانوں نے بیرونی ملکوں سے ذرہ برابر مدد لئےبغیر ہزاروں کارخانے، سیکڑوں ڈیم، پل اور شاہراہیں بنادی ہیں۔ آج ہمارے ملک میں علمی، فنی اور ملک کو آباد کرنے کی توانائیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ کیا یہ اچھی بات ہےکہ ہم ان کامیابیوں کونظر انداز کریں؟
صحت عامہ و مڈیکل شعبے میں تھوڑے سے پیچیدہ آپریشن کے لئے ہمیں یورپ کے اسپتالوں میں سرگرداں ہونا پڑتا تھا وہ بھی پیسہ ہونے کی صورت میں اور اگرمریض غریب ہوتا تھا تو وہ مرجاتا تھا۔ آج ہمارے ملک میں بڑے بڑے پیچیدہ آپریشن ہورہے ہیں، جگراور پھیپھڑوں کی پیوندکاری ہورہی ہے، سرجری اور میڈیکل شعبے میں بڑے بڑے کام انجام پارہے ہیں صرف تہران میں ہی نہیں بلکہ دیگر دور افتادہ شہروں میں بھی یہ کام انجام دئے جارہے ہیں۔ ملت ایران کو ان میدانوں میں دیگر ملکوں کی ضرورت نہیں ہے ہمارا ملک اس نہایت ہی بنیادی اور ضروری شعبے میں خودکفالت اور خود مختاری تک پہنچ چکا ہے۔
ہمارے ملک کے بہت سے علاقوں کو فراموش کردیا گيا تھا۔ میں انقلاب سے پہلے مختلف شہروں اور گوناگوں مقامات کا سفر کیا کرتا تھا۔ ملک کے دور افتادہ علاقوں پر ذرا سی توجہ نہیں تھی لیکن آج سارے ملک میں مختلف خدمات و سہولتیں فراہم ہیں خواہ دورافتادہ شہر ہوں یا دیہی علاقے ہوں۔ آج یہ بات بے معنی ہے کہ کسی جگہ بجلی یا فرض کریں سڑک اور اس جیسا انفرا اسٹرکچر نہیں ہے۔ انقلاب سےپہلے اگر کوئي دور افتادہ علاقہ کسی سہولت کا حامل ہوتا تھا تو لوگ تعجب کیا کرتے تھےآج اگر یہ سہولتیں نہ ہوں تو تعجب کا باعث ہے۔ انقلاب سے پہلے پینتیس ملین آبادی میں دیڑھ لاکھ طلباء تھے اور آج آبادی دوگنی ہوگئی ہے لیکن طلباء کی تعداد کی شرح بیس گنا بڑھ چکی ہے بلکہ تیس گنا بڑھ چکی ہے، اس کےمعنی علم پر توجہ کے ہیں، طلباء کی تعداد میں اضافہ اساتذہ کی تعداد میں اضافہ نیز یونیورسٹیوں کی تعداد میں اضافہ قابل غور ہے۔ ہر دور افتادہ شہر میں ایک، دو، پانچ یہانتک کہ دس یونیورسٹیاں بھی ہیں۔ اس زمانے میں کچھ ایسے صوبے تھے جہاں اسکولوں کی تعداد انگلیوں کی تعداد سے کم تھی اور آج ان ہی صوبوں میں انکے ہر شہر میں کئي کئي یونیورسٹیاں ہیں۔ یہ ملت ایران کی عظیم تحریک ہے جس نے انقلاب کی برکت سے اور اپنے جوانوں اور حکام کی ہمت سے ان چونتیس برسوں میں یہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یہ بڑے اہم واقعات ہیں۔ انقلاب کی برکت سے ہمارے ملک میں وسیع انفراسٹرکچر قائم ہوا ہے۔ ملک میں ہزاروں کارخانے لگائےگئے ہیں۔ بنیادی صنعتیں وجود میں آچکی ہیں۔ وہ مصنوعات جو بیرونی ملکوں کا احسان لینے کے بعد بہت کم مقدار میں حاصل ہوتی تھیں آج ملک میں فراوانی سے تیار کی جارہی ہیں۔ ان چیزوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے یہ ساری کامیابیاں ان تینوں اصولوں کی برکت سے حاصل ہوئي ہیں جن سے امام خمینی نے اس قوم کو آشنا کیا تھا اور ان پر ایمان پیدا کیا تھا۔ خدا پر ایمان، عوام پر ایمان اور خود اعتمادی۔
میں یہ باتیں اس وجہ سے نہیں کررہا ہوں کہ جھوٹا غرور پیداہوجائے، ہم خوش ہوجائيں، خوش ہوجائيں کہ الحمدللہ ہم کامیاب ہوگئے، اب کام مکمل ہوچکا، جی نہیں ہمیں ابھی طویل راستہ طے کرنا ہے۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں ہم اگر اس وقت طاغوتی زمانے سے ایران کا موازنہ کریں تو ہمیں یہ کامیابیاں دکھائي دیں گي لیکن اگر ہم اسلامی ایران سے اپنا موازنہ کریں تو وہ ملک جو اسلام کی نظر میں ہے وہ معاشرے جس کا مطالبہ اسلام کرتا ہے، وہ ملک جس میں دنیوی عزت ہے، دنیوی رفاہ ہے، ایمان و اخلاق و معنویت بھی ہے اور بھرپور طرح سے ہے تو ہمارے سامنے ابھی بڑا لمبا راستہ ہے۔ میں یہ عرائض اس وجہ سے پیش کررہاہوں کہ ہمارے جوان اور ہماری دلیر قوم یہ سمجھ لے اس راہ کو ان ہی تین اصولوں کے سہارے طے کیا جاسکتا ہے۔ جان لیں کہ راستہ لمبا ہے لیکن آپ میں اسے طے کرنے کی توانائي ہے، آپ میں طاقت ہے آپ کےلئے ممکن ہے آپ اس طولانی راہ کو مکمل توانائي اور ضروری تیزی کے ساتھ کمال کی منزلوں تک پہچنے کے لئے طے کرسکتے ہیں۔ یہ باتیں اس وجہ سے کی جارہی ہیں کہ اگر دشمن ہمارے دلوں میں مایوسی پیدا کرنا چاہتا ہے تو آپ جان لیں کہ وہ محض دشمنی کررہا ہے۔ ( اس وقت) ہمارے لئے تمام چیزیں امید افزا ہیں۔
ہمارے سامنے نقشہ راہ بھی ہے، ہمارے پاس نقشہ راہ ہے۔ ہمارا نقشہ راہ کیا ہے؟ ہمارا نقشہ راہ وہی امام خمینی کے اصول ہیں، وہی اصول جن کے سہارے آپ نے اس پسماندہ و شرمسار قوم کو اس طرح ترقی یافتہ اور سربلند کردیا۔ یہ وہ اصول ہیں جو راہ کو جاری رکھنے میں ہمارے کام آئيں گے اور ہمارے لئے نقشہ راہ کا بھی کام کریں گے۔ امام خمینی کے اصول نہایت واضح و روشن ہیں۔ بڑي خوشی کی بات ہےکہ امام خمینی کے بیانات اور ان کی نگارشات بیس سے زیادہ جلدوں میں جمع کرلی گئي ہیں اور عوام کی دسترس میں ہیں۔ ان کا خلاصہ امام خمینی کے زندہ جاوید وصیت نامے میں آیا ہے، سب اس کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ ہم اس بات کو مفید نہیں سمجھتے کہ امام خمینی کا نام لیتے رہیں اور آپ کے اصولوں کو بھلادیں، یہ غلط ہے۔ امام خمینی کا نام اور ان کی یاد کافی نہیں ہے۔ امام خمینی اپنے اصولوں، اپنے نظریات اور اپنے نقشہ راہ کے ساتھ ملت ایران کے لئے زندہ جاوید ہستی ہیں۔ امام خمینی نے ہمیں اپنے نقشہ راہ سے آگاہ کیا ہے۔ امام خمینی کے اصول واضح ہیں۔
داخلی سیاست کے بارے میں امام خمینی کے اصول عوام کے فیصلے پر بھروسہ کرنا، ملت کا اتحاد و یکجہتی، عوام کا دلسوز ہونا، حکام کا تعیش پسندی اور اشرافیت سے دور رہنا، ملک کی ترقی کے لئے سب کا آپس میں مل کر کوشش کرنا۔ خارجہ پالیسی کے سلسلے میں امام خمینی کے اصول تسلط پسند اور مداخلت پسند پالیسیوں کےسامنے ڈٹ جانا، مسلمان قوموں کےساتھ دوستانہ تعلقات، تمام ملکوں کےساتھ برابری کے اصول پرمبنی تعلقات، البتہ ان ملکوں کے علاوہ جنہوں نے ملت ایران کے خلاف تلوار سونت لی ہے اور دشمنی کررہے ہیں۔صیہونیت کے خلاف جدوجہد، فلسطین کی آزاد کے لئے جدوجہد،دنیا میں ظالموں کی مخالفت اور مظلوموں کی حمایت سے عبارت ہیں۔ امام خمینی کا وصیت نامہ ہمارے سامنے ہے۔ امام خمینی کی نگارشات، ان کے بیانات کتابی شکل میں موجود ہیں۔
ثقافت کے تعلق سے امام خمینی کے اصول مغرب کی اباحیت پسندی پر مبنی ثقافت کی نفی، جمود، تحجر، اور دینی احکام پر عمل درامد میں ریاکاری کی نفی، اخلاق و احکام اسلام کا سوفیصدی دفاع، معاشرے میں فحشاو اخلاقی برائيوں کے پھیلاو کی مخالفت سے عبارت ہیں۔
معیشت کے بارے میں امام خمینی کے اصول قومی معیشت پر بھروسہ کرنے، خودکفالت، پیداوار اور تقسیم میں معیشتی عدل وانصاف اور محروم طبقوں کی حمایت، سرمایہ دارانہ ثقافت سے مقابلے نیز ملکیت کے احترام پرمبنی ہیں۔ اس کے علاوہ امام خمینی سرمایہ داری کی ظالمانہ ثقافت کو مسترد کرتے ہیں لیکن مالکیت، سرمائے، اور کام کی اہمیت پر تاکید کرتےہیں۔ اسی طرح عالمی اقتصاد میں ضم نہ ہونا اور قومی معیشت کا خود مختار ہونا بھی امام خمینی کے معیشتی اصولوں میں ہیں۔ یہ ساری چیزیں امام خمینی کے بیانات میں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔
امام خمینی ملک کے حکام سے ہمیشہ یہ توقع رکھتے تھے کہ بھرپور توانائیوں کےساتھ، عقل و تدبیر سے ان اصولوں پر عمل کریں گے اور آگے بڑھائيں گے۔ یہ امام خمینی کا نقشہ راہ ہے۔
ملت ایران اپنی ہمت اور اپنے جوانوں کےسہارے اس نقشہ راہ سے اور اس ایمان کے سہارے جو اس کے دل میں راسخ ہے اپنے محبوب قائد امام خمینی کی یاد کے سہارے اس منزل مقصود کا راستہ طے کرسکتی ہے۔ ملت ایران آگے بڑھ سکتی ہے۔ ملت ایران اپنی توانائيوں کے سہارے، صلاحیتوں کے سہارے اپنی ممتاز شخصیتوں کے سہارے جو بحمد اللہ ملک میں موجود ہیں طے شدہ راہ کو جو انقلاب کے چونتیس برسوں کے تجربے پر مشتمل ہے زیادہ طاقت و ہمت سے جاری رکھ سکتی ہے اور انشاء اللہ حقیقی اور واقعی نمونہ عمل کے طور پر مسلمانون قوموں کے لئے ظاہر ہوسکتی ہے۔
انتخابات کے بارے میں، یہ ان دنوں ہمارا نہایت اہم اور حساس مسئلہ ہے یہ کہنا چاہونگا کہ بھائيوں اور بہنو، ملت عزیر ایران انتخابات ان تین اصولوں کا مظہر ہیں جن پرامام خمینی قائم تھے اور ان اصولوں پر ہمیں بھی عمل کرنا چاہیے۔ انتخابات خدا پر ایمان کا مظہر ہیں کیونکہ فریضہ واجب ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے میں شرکت کریں۔ ملت کی فرد فرد پر یہ واجب ہے۔ انتخابات عوام پر یقین و ایمان کا مظہر ہیں چونکہ قوم کی فرد فرد کے ارادے کی نشاندھی کرتے ہیں۔ یہ عوام ہیں جو ملک کے حکام کو اس ذریعے سے منتخب کرتےہیں۔ انتخابات خود اعتمادی کامظہر ہیں کیونکہ ہر وہ شخص جو ووٹ ڈالتا ہے یہ احساس کرتا ہے کہ اس نے ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے میں اپنے حصہ کا کام انجام دیا ہے اور اپنا فیصلہ دیا ہے۔ یہ بہت ہی ا ہم چیز ہے لھذا انتخابات خدا باوری کا بھی مظہر ہیں عوام پر یقین کا بھی مظہر ہیں اور خود اعتمادی کا بھی مظہر ہیں۔
انتخابات کے بارے میں بنیادی مسئلہ یہ ہےکہ انتخابات کے موقع پر سیاسی کارنامہ انجام پائے عوام بھر پور طرح سے ووٹنگ میں شرکت کریں۔ عظیم کارنامے کے کیا معنی ہیں؟ اس کے یہ معنی ہیں کہ ملت جوش و جذبے اور ولولے سے فخریہ کارنامہ انجام دے۔ ہر ووٹ جو آپ ان آٹھ امید واروں میں سے ایک کو دیں گے، ان آٹھ محترم افراد کو جو میدان میں ہیں وہ اسلامی جمہوریہ کے حق میں ووٹ ہوگا۔ ہر امید وار کو دیا گيا ووٹ اسلامی جمہوریہ کے حق میں ووٹ ہے۔ ( اسلامی ) نظام اور انتخابات کے عمل کو دیا گيا ووٹ ہے۔ آپ جو انتخابات میں شرکت کرتے ہیں خواہ امیدوار کی حیثیت سے ہوں یا ووٹر کی حیثیت سے ہوں جیسے میں ہوں اور آپ ہیں ہمارا محض انتخابات میں شرکت کرنا ہی اسلامی جمہوری نظام اور انتخابات کے عمل کی حمایت کرنے کے معنی میں ہے، دوسرے درجے میں اس شخص کے لئے ووٹ ہے جسے ہم اور آپ ملک کے مستقبل کے لئے دوسروں سے زیادہ مفید سمجھتے ہیں۔
دیگر ملکوں میں ہمارے دشمن یہ بیچارے سوچتے ہیں کہ ان انتخابات کو اسلامی نظام کے لئے خطرے میں تبدیل کردیں جبکہ یہ انتخابات اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے ایک عظیم موقع ہے۔ دشمن یہ امید لگائے بیٹھا ہےکہ انتخابات میں جوش و جذبے کافقدان ہویا وہ یہ کھ سکيں کہ عوام اسلامی نظام کو پسند نہیں کرتے، یا انتخابات کے بعد فتنے پھیلاسکیں جس طرح سے انہوں نے دوہزار نو کے بے نظیر صدارتی انتخابات کے بعد فتنے پھیلائے تھے۔ اس قوم کے دشمن ان چیزوں کی فکر میں ہیں لیکن وہ غلطی کررہے ہیں انہیں ہماری قوم کی شناخت نہیں ہے۔ اس قوم کے دشمنوں نے نو دی ( تیس دسمبر دوہزار نو) کو فراموش کردیا ہے۔ وہ لوگ جو یہ سوچتے ہیں کہ ایران میں ایک اکثریت خاموش اور اسلامی نظام کی مخالف ہے وہ یہ فراموش کرچکے ہیں کہ چونتیس برسوں سے ملت ایران ہر سال ( انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر ) بائيس بہمن ( گيارہ فروری ) کو نہایت عظیم تعداد میں سڑکوں پرنکل کراسلامی جمہوری حکومت کا دفاع کرتی ہے اور امریکہ مردہ باد کے نعرے لگاتی ہے۔ دشمن نےانتخابات میں عوام کی شرکت کو کم کرنے کی غرض سے اپنے تھنک ٹینک کو ذرائع ابلاغ اور سیاسی ترجمانوں کی حمایت کے لئے بھیج دیا ہے تاکہ وہ نت نئي باتیں تیار کرکے ذرائع ابلاغ کو دیتے رہیں۔ ایک دن کہتے ہیں انتخابات میں حکومت ملوث ہے، دوسرے دن کہتے ہیں انتخابات آزاد نہیں ہیں ،کسی دن یہ کہتے ہیں کہ عوام انتخابات کو قانونی نہیں سمجھتے، یہ لوگ نہ عوام کو پہچانتے ہیں اور نہ ہی ہمارے انتخابی عمل کو اور نہ ہی اسلامی جمہوریہ کو، اور جوچیز جانتے ہیں وہاں بے انصافی کرتے ہیں اور انہیں اس بے انصافی پر شرم تک نہیں آتی۔
دنیامیں ایساکہاں ہوتا ہے؟ جسے معلوم ہو آکر بتائے کہ مختلف امیدواروں کو ان معروف اور غیر معروف امیدواروں کو اجازت دی جاتی ہوکہ وہ قومی اور سرکاری ذرائع ابلاغ سے مساوی استفادہ کریں؟ دنیا میں کہاں ایسی سہولت دی جاتی ہے؟ امریکہ میں دی جاتی ہے؟ سرمایہ دارانہ ملکوں میں دی جاتی ہے؟ سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ملکوں میں اگرامید وار ان دو یا تین پارٹیوں کا رکن ہوتا ہے اور اسے سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور پیسے والوں، اقتدار و سرمائے کی مافیاوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے تو وہ انتخابی سرگرمیاں انجام دے سکتے ہیں لیکن اگر انہیں ان حلقوں کی حمایت حاصل نہیں ہوتی تو سرے سے کسی طرح کی انتخابی سرگرمیاں انجام نہیں دےسکتے۔جو بھی امریکہ میں انتخابات کا جائزہ لیتا ہے ۔میں نے جائزہ لیا ہے۔ اس حقیقت کی تصدیق کرے گا۔ ایسے بھی لوگ تھے جنہيں صیہونیوں کی حمایت حاصل نہیں تھی، سرمایہ داروں کے بین الاقوامی خونخوار نیٹ ورک کی حمایت حاصل نہیں تھی انہوں نے سرتوڑ کوشش کرلی لیکن انتخابات میں امیدوار کی حیثیت سے شرکت نہ کرسکے، نہ انہیں میڈیا کی حمایت حاصل تھی نہ ٹی وی چینل ان کے اختیار میں تھے میڈیا پر ہر سکینڈ کے حساب سے بڑا خرچ آتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں انتخابات کے امیدوار ایک ریال خرچ کئے بغیر قومی میڈیا پر مساوی طورپر کئي گھنٹوں پرمشتمل مختلف پروگراموں میں عوام سے مخاطب ہوتے ہیں۔ دنیامیں کس ملک میں اس طرح کی سہولتیں دی جاتی ہیں؟
انتخابات میں امیدوار کی حیثیت سے حصہ لینے کےلئے صرف قانون کی پابندی کی ضرورت ہے۔ قانون کے مطابق کچھ لوگ امیدوار بن سکتے ہیں کچھ لوگ نہیں بن سکتے۔ قانون نے شرایط کا تعین کیا ہے، توانائیوں کا تعین کیا ہے۔ جہ لوگ اھلیت کی تشخیص دیتے ہیں وہ کون لوگ ہیں؟ یہ سارے کام قانون کے مطابق انجام دئے جارہے ہیں۔ دیگر ملکوں میں بیٹھا دشمن ان تمام حقائق کو نظرانداز کرکے پراپگینڈا کرتا ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ افسوس کی بات ہےکہ بے تقوا گلے اور بے تقوا زبانیں بھی ان ہی باتوں کو دوہراتی ہیں لیکن ملت ایران توفیق الھی سے اپنی موجودگي سے اپنی استقامت و عزم راسخ سے ان تمام سازشوں کاجواب دے گی اور اس کا جواب نہایت شدید اور ٹھوس ہوگا۔
ایک جملہ محترم امیدواروں سے کہنا چاہتاہوں۔ محترم امیدوار ان پبلک پروگراموں میں مختلف مسائل پر تنقید کرتےہیں یہ ان کاحق ہے وہ ہر اس چیز پر جو ان کی نظر میں قابل تنقید ہے تنقید کرسکتے ہیں لیکن انہیں یہ توجہ رکھنی چاہیے کہ تنقید مستبقل کی جدوجہد اور فخریہ راہ کو طے کرنے کی غرض سے عزم و نیت پر مبنی ہونی چاہیے شبیہ خراب کرنے منفی باتوں اور بے انصافی پر مشتمل نہیں ہونی چاہیے۔ میرے مد نظر کوئي امیداور نہیں ہے۔ اسی لمحے سے دشمن میڈیا غصے اور مذموم اھداف کے تحت یہ کہنے لگے گا کہ فلان کی نظر میں زید یا عمرو، یا بکر وخالد ہے یہ حقیقت کے برخلاف ہے۔ میرے مدنظر کوئي امید وار نہیں ہے میں حقائق پیش کررہاہوں۔ میں ان بھائيوں سے جو عوام کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ نصحیت کرتاہوں کہ انصاف سے بات کریں، تنقید کریں لیکن تنقید شبیہ بگاڑنے کےمعنی میں نہ ہو، ان عظیم کاموں کے انکار کے معنی میں نہ ہوجو اس حکومت یا پہلے کی حکومتوں میں انجام دئے گئے ہیں کیونکہ ان ہی کی طرح کے لوگ برسر اقتدار آئے تھے اور انہوں نے دن و رات محنت کرکے یہ کام انجام دئے ہیں۔ تنقید کے معنی مثبت پہلووں کے انکار کے نہیں ہیں۔ تنقید یہ ہےکہ انسان مثبت کاموں کا اعتراف کرے اور نقص و کمزوری کا بھی ذکر کرے۔ آج ہمارے ملک میں جو بھی برسراقتدار آئے گا اسے زیرو سے شروع کرنے کی ضرورت نہيں ہے۔ ہزاروں اہم کام انجام پاچکے ہیں، طولانی برسوں میں، مختلف حکومتوں میں، ملک میں بنیادی تنصیبات کا وسیع نیٹ ورک وجود میں آچکا ہے۔ علم و سائنس میں ترقی ہوئي ہے، صنعت میں ترقی ہوئي ہے، بنیادی کاموں میں ترقی ہوئي ہے۔ مختلف شعبوں میں نہایت اہم کام منصوبہ بندی سے انجام پاچکے ہیں، ہمیں یہ چيزیں ہاتھ سے جانے نہیں دینی چاہیں، جو بھی کام ہوگا یہاں سے شروع ہونا چاہیے، ان تمام کاموں کا صرف اس بہانےسے کہ آج ہم اقتصادی مسائل میں گرفتار ہیں، افراط زر اور مہنگائي ہے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ جی ہاں اقتصادی مسائل ہیں افراط زر ہے، مہنگائي ہے، انشاء اللہ جو منتخب ہوکر آئے گا ان مشکلات کو حل کرسکے، ان گرہوں کو کھول سکے۔ یہ تو ملت ایران کی آرزو ہے لیکن اس کے یہ معنی نہ لئے جائيں کہ اگر ہم اپنی مشکلات کا کوئي چارہ رکھتے ہیں تو آج تک جو کچھ ہوا ہے اور موجود ہے اس کا انکار کردیں اور ناقابل عمل وعدے کرنے لگیں۔ میں مختلف امیدواروں سے کہنا چاہتاہوں کہ اس طرح بات کریں کہ اگر آئندہ برس آپ کی ٹیپ شدہ باتیں آپ کے سامنے پیش کردی جائيں یا نشر کردی جائيں تو آپ شرمندہ نہ ہوں۔ ایسے وعدے کریں کہ اگر بعد میں آپ کے وعدوں کی یاد دہانی کرائی جائے تو آپ دوسروں کو قصور وار گرداننے پر مجبور نہ ہوں اور یہ کہیں کہ کچھ لوگوں نے آپ کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔ آپ جو کام کرسکتے ہيں اس کا وعدہ کریں۔
ہمارے ملک میں صدر مملکت آئين کے مطابق غیر معمولی اختیارات کا حامل ہوتا ہے۔ آئين میں صدر کو وسیع اختیارات دئے گئے ہیں۔ اس کےپاس ملک کا بجٹ ہوتا ہے۔ ملک کے تمام اجرائي ارکان اس کے اختیار میں ہوتے ہیں۔ قوانین کے نفاذ کے اختیارات اس کے پاس ہوتے ہیں۔ مختلف مسائل میں صدر کا ہاتھ کھلا ہوتا ہے۔ اس پر صرف قانون کی گرفت ہوتی ہے قانون ہی اسے محدود کرسکتا ہے اور یہ بھی کوئي محدودیت نہیں ہے بلکہ قانون ھدایت کرتا ہے محدود نہیں کرتا، قانون راہ دکھاتا ہے کہ کسطرح راستہ چلنا چاہیے۔
وہ لوگ جو آج عوام سے مخاطب ہیں جن امور کی انجام دہی کی توانائي رکھتے ہیں اور عوام کو ان چيزوں کی ضرورت ہے وہ عوام کے سامنے پیش کریں۔ وعدہ کریں عقل و درایت سے عمل کریں گے۔ اگروہ مسائل کے ہر پہلو کے بارے میں منصوبہ رکھتے ہیں تو عوام کو اپنے منصوبوں سے آگاہ کریں۔ وعدہ کریں تجربے اور ثابت قدمی سے اس میدان میں آگے بڑھیں گے ۔ وعدہ کریں کہ وہ آئين کی تمام تر توانائیوں سے اپنے عظیم اجرائي فرائض کو انجام دینے میں استفادہ کریں گے، وعدہ کریں کہ وہ ملک کے حالات سدھارنے کی کوشش کریں گے۔وعدہ کریں کہ ملک کے معیشتی حالات کہ جو آج دشمنوں کی جانب سے ملت پر مسلط کردہ چیلنجوں کا میدان بنے ہوئے ہیں بخوبی سدھارنے کی کوشش کریں گے۔ وعدہ کریں کہ حاشیے اور غیر اہم کاموں میں مشغول نہیں ہونگے۔ وعدہ کریں کہ اپنے رشتہ داروں اور قریبی لوگوں کو سرکاری سہولتیں نہیں دیں گے۔ وعدہ کریں کہ گوناگوں بہانوں سے دشمنوں کے مفادات کو ملت ایران کے مفادات پر ترجیح نہیں دینگے۔ بعض لوگ اس غلط تجزیے کے سہارے کہ دشمن کو مراعات دیدیں تا کہ ان کا غصہ ٹھنڈا پڑجائے عملا دشمن کے مفادات کو قوم کے مفادات پر ترجیح دے رہے ہیں یہ ایک غلطی ہے ۔ دشمن کا غصہ اس وجہ سے ہے کہ آپ موجود ہیں، اس وجہ سے ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران قائم ہے ، اس وجہ سے ہے کہ امام خمینی عوام کے ذہنوں اور ملک کے منصوبوں میں موجود ہیں، اس وجہ سے ہے کہ چودہ خرداد، امام خمینی کی رحلت کے دن پورے ملک میں عوام پورے جوش و خروش سے ان کی یاد مناتے ہیں، دشمن کے غصہ کی وجہ یہ سارے امور ہیں۔دشمن کے غصے کا علاج و تدارک قومی طاقت سے کرنا چاہیے۔
اگر ملت طاقتور ہو توانا ہو، اپنی ضرورتوں کوکم کرے، اپنی مشکلات خود برطرف کرلے، اور آج معیشت کے مسائل کو جو کہ بنیادی مسئلہ بنی ہوئي اسے خود حل کرلے تو دشمن ملت ایران کے مقابل بے دست و پا ہوجائے گا۔ بہرحال جس چیز کی اہمیت ہے وہ عزم و ارادہ، خدا پر یقین، عوام پر یقین اور خود پر یقین ہے یہ چیزیں امیداروں کے لئے بھی ضروری ہیں اور ملت کے لئے بھی۔ میرے بھائيوں اور بہنوں دس دنوں کے بعد ایک بڑی آزمائش ہوگی اور امید کہ انشاء اللہ اس بڑے امتحان میں خدا کی مدد سے پربرکت کارنامہ انجام پائے گا جس سے ملت کو درخشان نتائج حاصل ہونگے
ولاحول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔