امام خمینی(رہ) اور اسلامی بیداری

Rate this item
(0 votes)

امام خمینی(رہ) اور اسلامی بیداری

امام خمینی(رہ) اور اسلامی بیداری

امام خمینی(رہ) پوری دنیا کے انسانوں کی دلی تڑپ کو بھانپ چکے تھے وہ یہ محسوس کر چکے تھے کہ آج کے انسان کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ لہذا انہوں نے یہ فرمایا: '' ۔ آج دنیا حقیقی اسلامی ثقافت کی پیاسی ہے۔''

(صحیفہ نور،ج ٢٠،ص٣٣)

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تخلیق کائنات کا مقصد یہ ہے کہ پوری کائنات میں صرف خالق کائنات کانام و نمود ہو صرف اس کا تذکرہ ہو ، زمین پر آسمان کی طرح صرف اللہ کا سجدہ ہو غیر اللہ کی پرستش نہ کی جائے، صرف کلمة اللہ کا علَم بلند ہو کسی دوسرے نام کا علَم اللہ کی خلق کردہ فضا میں لہراتا ہوا نظر نہ آئے، اللہ کی پیدا کردہ مخلوق میں صرف قانون الہی نافذ ہو کوئی دوسرا قانون اس کے جایگزین ہونے کی کوشش نہ کرے اور روئے زمین پر صرف ایک ہی حکومت ہو اور وہ صرف اللہ کی حکومت ہو جس میں ذرہ برابر ظلم و ستم نام کی کوئی چیز نہ ہو جس میں نہ کسی کا حق مارا جائے اور نہ ہی ناحق کسی کو مارا جائے، جس میں انسان تو انسان جانور ایک دوسرے سے پیار و محبت کے ساتھ جیئیں، جس میں عدل و انصاف کی یہ حد ہو کہ فقیر و مسکین اور مظلوم و بے کس تلاش کرنے سے بھی نہ ملیں۔ ایسے نظام حکومت کے قیام کے لیے اللہ نے ارسال رسل اور نزول کتب کا سلسلہ قائم کیا ۔ اور آخری نبی حضرت محمد مصفطی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کا مقصد، خاص طور پر یہی بیان کیا :''ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ و لو کرہ المشرکون (توبہ،٣٣)کہ اس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اسی لیے بھیجا کہ وہ اسے دیگر تمام باطل ادیان پر غالب کرے ، دیگر ادیان کو صفحہ ہستی سے مٹا کر دین اسلام کو سر بلندی عطا کرے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی ٦٣ سالہ حیات مبارکہ میں انتھک کوششیں اور زحمتیں اٹھا کر اس دین کی بنیاد ڈالی اور اپنے بعد دوازدہ خلفا ء برحق کا سلسلہ قائم کر کے اس کی بنیادوں کو مستحکم اور مضبوط بنایا۔ اس لیے کہ یہ بات مسلم ہے کہ اتنے کم وقت میں اتنے بڑے مقصد کو حاصل کرنا عادی طور پر ناممکن ہے ۔ لہذا گزر ایام کے ساتھ ساتھ جب انسانوں کے شعور بیدار ہوتے رہیں گے تودنیا میں انقلابات رونما ہوتے رہیں گے اور خود بخود اس عالمی الہی حکومت کے لیے زمین ہموار ہوتی رہے گی تاکہ جب آخری فرزند و جانشین رسول ،پردہ غیب سے نکل کر آئے گا تو پوری دنیا ان کا استقبال کرے گی اور آپ مختصر وقت میں پوری دنیا میں الہی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

اگردنیا میں موجودہ حالات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو لامحالہ انسان اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ پوری دنیا ایک ہی سمت و سو حرکت کر رہی ہے۔ چاہے وہ مغرب سے اٹھنے والی آوازیں ہوں یا مشرق سے بلند ہونے والی صدائیں ،سب کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ انسان ، انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے ماتحت زندگی نہیں گزار سکتا ، انسان کو انسانی زندگی بسر کرنے کے لیے مافوق بشر طاقت کے بنائے ہوئے قانون کی ضرورت ہے ۔

تیس پینتیس سال پہلے ایرانی قوم کے اندر یہ شعور بیدار ہوا تو انہوں نے رہبر کبیر حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ کی انوکھی رہبریت میں اپنے شعور کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور اسلامی انقلاب قائم کر کے ایک نیا طرز زندگی اور جینے کا ڈھنگ دنیا والوں کو سکھایا، اسلام کو حیات مجدد عطا کی اور عالم اسلام کے لیے الہی حکومت کا ایک انمول اور بے نظیرعملی نمونہ پیش کیا۔

اسلامی بیداری میں اسلامی انقلاب کا کردار

اسلامی انقلاب کے وقوع پذیر ہونے کے ساتھ ایک بار پھر مستضعفین کو روئے زمین کی حکومت عطا کرنے والا اللہ کاسچا وعدہ عملی جامہ پہنتے ہوئے نظر آیا اور صاحبان ایمان کو ایک بار پھر زمین کے ایک خطہ میں الہی حکومت قائم کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ اوراسلام کا چمکتا ہوا سورج ایک بار پھر نئی روح و حیات لے کر سر زمین ایران کی افق سے نمودار ہوا اور دھیرے دھیرے پوری دنیا میں نور افشانی کرتا ہوا چلا جا رہا ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے اٹھنے والیں اسلامی تحریکیں اسی آقتاب عالمتاب کی روشنی میں اپنا راستہ ڈھونڈتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ جیسا کہ بین الاقوامی حوادث کے متعلق نظریہ پردازوں نے انقلاب اسلامی کے ذریعہ حیات مجدد حاصل کرنے والے اسلامی معاشروں کے سلسلے میں کہا:'' ایران میں امام خمینی کی حکومت کے آغاز کے ساتھ اسلام نے ایک نئی زندگی کا آغاز کر لیا جس نے بہت مختصر وقت میں عالمی سطح پر اپنے ایسے سیاسی اور ثقافتی آثار و برکات نچھاور کئے جن کی ہر گز پیشنگوئی نہیں کی جا سکتی تھی''۔(ماہنامہ اسلام و غرب، شمارہ بہمن و اسفند٧٨ )

'' اسلامی انقلاب اور اس کے رہبر( امام خمینی) بے شک اسلام کو نئی زندگی دینے والی تحریک کے موجد ہیں جنہوں نے دوسرے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی اپنی اسلامی ہویت اور شخصیت کو دوبارا حاصل کرنے کا سلیقہ سکھلا دیا۔ یہ تحریک قومیت سے بالاتر اثر و رسوخ کی حامل ہے''۔ ( پروفیسر کارسٹن کوپلر، شکل اسلام، ص٦٧)

'' امام خمینی نے اسلامی انقلاب کے ذریعہ نہ صرف ایرانیوں اور مشرقی وسطی کو بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کو اپنا عاشق بنا دیا''۔ ( گراہام فولر امریکی، قبلہ عالم، جیوپولیٹیک ایران، ترجمہ عباس مخبر، ص١١١)

''جس طریقہ سے امام خمینی نے ایرانیوں کی زندگی کو معنی اور مفہوم دیا ہے اسی طریقہ سے کروڑوں مستضعف انسانوں کو زندگی کی امید دی ہے '' (فتحی شاقی، تحریک فلسطین کا رہبر، انتفاضہ و طرح اسلامی معاصر، ص٨٧)

''آج اسلامی انقلاب کے آثار و برکات ایرانی باڈر سے باہر نکل گئے ہیں اور مشرق وسطی میں سب سے بڑا سیاسی اور اسلامی تحریکوں کا محرک اسلامی انقلاب ہے''۔ ( ڈاکٹر ماروین زونیس، امریکہ یونیورسٹی کا استاد، رسالت نیوز اینجسنی کو انٹرویو دیتے ہوئے، ٧٩،١١،١٧)

'' انقلاب امام خمینی، مسلمان قوموں کو متحد کرنے کی غرض سے ان کے اندر اسلامی بیداری کی لہر پیدا کرنے میں سب سے زیادہ موثر ثابت ہوا ہے '' (شیخ عبد العزیز عودہ، )

'' آج شمال افریقہ سے لے کر ایشیا کے جنوب مشرق تک تمام اسلامی ممالک میں اسی انقلاب کی وجہ سے اسلامی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے اور ہر آئے دن اس کے طرفداروں میں اضافہ ہوتا چلا جا ر ہا ہے''۔( پیتر۔ ال۔ برگر، معروف امریکی سوشیالیسٹ، افول سکولاریزم، ترجمہ افشار امیری، ص٢٣)

مسئلہ فلسطین پر انقلاب اسلامی کا اثر

خاص کر کے مسئلہ فلسطین جو فراموشیوں کے حوالہ ہو گیا تھا انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس نے مسلمان قوموں کے اندر ایک نیا رخ اختیار کر لیا اور تمام مسلمانوں کی توجہات کا مرکز بن گیا۔ اور خود فلسطینی لوگوں کو اپنا حق حاصل کرنے اور فلسطین کو غاصب صہیونیسٹ سے آزادی دلانے کا ایک بہترین راستہ مل گیا اگر چہ ان کے درمیان امام خمینی (رہ)جیسے عظیم الشان رہبر کے نہ ہونے کی وجہ سے انہیں صحیح راہنمائی حاصل نہیں ہو سکی اور وہ آزادی حاصل نہیں کر پائے۔لیکن ابھی تک ان کے اندر جو اسرائیل کے خلاف مقاومت اور مقابلہ کا جذبہ پایا جاتا ہے وہ صرف انقلاب اسلامی کی دین ہے جیسا کہ ایک اسکالر کا کہنا ہے:

'' ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے فلسطینی انقلاب اور عوام پر بہت گہرا اثر ڈالا'' ۔( شیخ عبد اللہ شامی، تحولات انقلابی در ایران، جمیلہ کدیور، پایان نامہ کارشناسی ارشد، ص١٤٢)

اور'' فلسطینی عوام نے یہ احساس کر لیا کہ اسرائیل کو شکست دینا ممکن ہے''۔( فتحی شقاقی، مذکورہ حوالہ)

اسلامی ثقافت کی تجدید حیات

تحریک امام خمینی (رہ) اور اسلامی انقلاب نے اسلامی معاشروں پر ایک اثر یہ بھی چھوڑا کہ اسلامی معاشروں میں شعائر اسلامی کی عظمت دوبارہ زندہ ہوئی، مسلمانوں کے اندر اپنے مقدسات کی حفاظت کا جذبہ بیدار ہوا اور ان کے تحفظ کی ہمت اور غیرت ان کے اندر پیدا ہوئی ، جوان نسل میں خاص کر اسلامی تفکر نے جگہ حاصل کی، ان کے نزدیک مذہب کا پاس و لحاظ رکھنے کا جذبہ اجاگر ہوا۔جوانوں نے جگہ جگہ اسلامی کانفرانسیں اور سمینار منعقد کروانے شروع کئے، مذہبی پروگراموں میں جوانوں کی شرکت میں اضافہ ہوا اور دینی امور میں نسل جوان پیش قدم نظر آنے لگی۔ اوراسلامی ممالک میں مخصوصا اسلامی ثقافت نے دوبارہ زندگی حاصل کی وہ اسلامی ثقافت جو ایک عرصہ سے استعماری طاقتوں کے ظلم و ستم اور انگریزوں کے کلچر کا نذرانہ بن چکی تھی، مسلمان اپنے تمدن کو چھوڑ کر انگریزی تمدن کو اپنانا اور ان کے جیسی زندگی بسر کرنا اپنا افتخار سمجھتے تھے لیکن انقلاب اسلامی ایران کے بعد وہی مسلمان اسلامی تمدن و ثقافت کو اپنانے میں نہ صرف کسی قسم کی شرم و عار محسوس نہیں کرتے بلکہ اسلامی نظام حکومت کو قائم کرنے کے لیے اپنی قربانیاں دیتے ہیں ۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای مد ظلہ العالی جوانوں کے لیے امام خمینی (رہ)کے مسیحا ہونے اور ان کے اندر اسلامی اور مذہبی روح پھونکنے کے بارے میں فرماتے ہیں:

'' اس انقلاب کے بانی امام بزرگوار نے مسلمانوں کو نشاط بخشا، اسلام کو زندہ کیا اور آج اسلام، نسل جوان اور روشن فکروں کی آرزو اور امید ہے'' (سخنرانی معظم لہ دومین سالگرد رحلت امام(رہ) ١٤،٣،٧٠ش)

دنیا اسلام ناب محمدی (ص)کی پیاسی

آج کا انسان معنویت سے دور اور سراب مانند دنیا کے زرق و برق سے تھک چکا ہے وہ ایک ایسے سر چشمہ حقیقت کی تلاش میں ہے جو اس کی زندگی کو معنی اور مقصد عطا کرے ،وہ ایسے پر امن سفینہ کی تلاش میں ہے جو اسے طوفان دنیا سے بچا کر ساحل نجات تک پہنچا دے ،وہ ایسی روشن شمع کو ڈھونڈ رہا ہے جو اسے مادیت کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکال کر معنویت کی سحر سے ہمکنار کر دے۔ لہذا ایسے میں سوائے اسلامی و الہی تعلیمات کے کوئی اور روشنی اسے ظلمتوں سے نہیں نکال سکتی۔ اللہ ولی الذین آمنو یخرجھم من الظلمات الی النور( بقرہ،٢٥٧)

امام خمینی(رہ) پوری دنیا کے انسانوں کی دلی تڑپ کو بھانپ چکے تھے وہ یہ محسوس کر چکے تھے کہ آج کے انسان کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ لہذا انہوں نے یہ فرمایا: ''امروز جھان تشنہ فرھنگ اسلام ناب محمدی است'' ۔ آج دنیا حقیقی اسلامی ثقافت کی پیاسی ہے۔(صحیفہ نور،ج ٢٠،ص٣٣)

انقلاب اسلامی ایران سے پہلے بہت سارے فلاسفر دین عیسائیت کی طرح اسلام کو بھی ایک پرانا اور فرسودہ دین سمجھتے تھے کہ جس کی مدت تمام ہو گئی ہو ، جس کا اعتبار ختم ہو گیا ہو، جیسا کہ جرمنی کے ایک فلاسفر ہیگل کا کہنا ہے: ''تاریخی اعتبار سے اسلام کا سماج میں اثرختم ہو چکا ہے''(نشریہ پرتو ٨،٢،٨٢ ش ص ١٧٦)۔ لیکن اس کا یہ فیصلہ محض ایک خطا تھی ۔ انقلاب اسلامی ایران نے اسلام کو ایک زندہ اور ماورائے تاریخ دین ثابت کر کے یہ بتا دیا کہ ہیگل اور اس کے جیسے دیگر فلاسفروں کے نظریات دین عیسائیت کے سلسلے میں تو سچے ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اسلام کے بارے میں تویہ صرف ایک وہم و خیال ہیں ۔اسلام ایسا زندہ و جاوید دین ہے جسے تاریخی اوراق فرسودہ نہیں کر سکتے۔ وہ ایک ایسی لایزال حقیقت ہے جو تاریخ کو وجود اور حیات دیتی ہے نہ کہ گزر تاریخ سے اس کے اعتبار پر کوئی فرق پڑتا ہے۔

ایران کا انقلاب قومی اور ملی انقلاب نہیں تھا جس نے صرف ایرانی قوم کو استعماری طاقتوں سے آزادی دلائی ہو بلکہ وہ ایک اسلامی انقلاب ہے۔ اس نے اسلام کواستعماری اذہان اور تفکرات کی زنجیروں سے آزادی دلائی، اسلام کو تاریخ کے بیابانوں میں پژمردہ اور فرسودہ ہونے سے بچا لیا اور اس تصور کو لوگوں کے ذہنوں سے پاک کر دیا کہ دین صرف نماز و روزہ کا نام ہے دین صرف مسجد و منبر تک محدود ہے سیاست اور حکومت سے اس کا کوئی رابط نہیں ہے ۔ بلکہ انقلاب اسلامی نے اس چیز کو ثابت کر دیا کہ دین در حقیقت اس لیے نازل ہوا ہے کہ لوگوں کے نظام زندگی کو منظم و مرتب کرے ، سماج میں عدل و انصاف کو قائم کرے اور انہیں دنیوی اور اخروی سعادت سے ہمکنار کرے۔ دین اور سیاست دو الگ مقولے نہیں ہیں بلکہ ایک سکہ کے دو رخ ہیں۔ دین عین سیاست ہے لیکن نہ وہ سیاست جس میں دھوکہ بازی اور جھوٹ و مکاری کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ۔ دینی سیاست وہ سیاست ہے جس کی مثال امیر المومنین علی علیہ السلام کے چار سالہ دور خلافت میں نظر آئی یا پھر اس کی ایک جھلک آج اسلامی جمہوریہ ایران کی صورت میں دکھائی دے رہی ہے۔

تحریک امام(رہ) کا دیگر ممالک میں پھیلنا

آج جو اسلامی ممالک میں اسلامی بیداری کے عنوان سے ایک عظیم الشان لہر پھیلی ہے اس کی پیشنگوئی خود امام خمینی (رہ) کر چکے تھے جیسا کہ انہوں نے اپنی متعدد تقریروں میں فرمایا:'' آج آپ کی تحریک اور آپ کے انقلاب کی موج پوری دنیا میں جا چکی ہے ( صحیفہ نور، ج ١٧، ص٦٣)۔'' آ پ کا انقلاب الحمد للہ دنیا میں پھیل چکا ہے نہ کہ پھیلے گا''۔ ( وہی حوالہ، ج١٨،ص١٦٩)۔'' اسلام نے الحمد اللہ پوری دنیا میں جلوہ نمائی کی ہے ''۔(وہی، ج ١٨ص١٤٠)۔ ''آپ لوگ جان لیں کہ مرکز ایران سے اسلام کا سایہ پوری دنیا میں پھیلا ہے '' (وہی، ج ١٩ص١٩٥)۔'' ہمارا انقلاب پھیل چکا ہے اور ہر جگہ اسلام کا نام ہے اور مستضعین نے اسلام سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں''۔ ( وہی، ج ١٥،ص٢٠٠)

''پوری دنیا میں انقلاب اسلامی کے چاہنے والے ترقی کی منزل کی طرف گامزن ہیں۔ ۔۔میں اپنی شجاع قوم کی خدمت میں عرض کروں کہ خداوند عالم نے آپ کی معنویت کے آثار و برکات کو پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے''۔( وہی حوالہ، ج٢٠،ص٣٣)

امام خمینی رضوان اللہ علیہ سالہا قبل یہ واضح طور پر فرما چکے تھے کہ ہمارا انقلاب ایرانی حدود سے نکل چکا ہے ہمیں اس کے اکسپورٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اگرچہ اس وقت بعض لوگوں کی عقلوں پر یہ بات گراں گزری تھی اور انہیں ہضم نہیں ہوئی تھی۔ لیکن آج ان کی باتوں کی صداقت ہر آنکھ مشاہدہ کررہی ہے کہ کس قدر دوسری قوموں نے انقلاب اسلامی کی پیروی میںاور اس سے اثر قبول کرتے ہوئے انقلابات برپا کرنے کی کوششیں کیںاور کر رہے ہیں انشا اللہ ان کی یہ کوششیں مثمر ثمر واقع ہوں۔

خداوند عالم سے دعاگو ہیں کہ دنیا کے تمام مسلمانوں بلکہ انسانوں کے ضمیر بیدار ہوں اور وہ دین الہی کی اہمیت کو سمجھیں اور اسے بلادستی اور سربلندی عطا کرنے کی کوشش کریں۔

 

بقلم: جعفری

Read 3748 times