امام خمینی (رہ) برسوں کی جلاوطنی کے بعد یکم فروری 1979ء کی صبح ساڑھے نو بجے یا اس سے بھی زیادہ ٹھیک 9:27:30 پر 14 سال اور تین ماہ کی جلاوطنی کے بعد ایران پہنچے۔ عصری تاریخ میں ایک منفرد انقلاب کے بانی۔ ایک ایسا انقلاب جو بہت سے گواہوں، مبصرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق روحانیت، آزادی اور حقیقی اسلامی اقدار کا پیامبر ہے۔ اس انقلاب نے ایران میں اسلامی جمہوریہ کے قیام کے ساتھ ہی خالص محمدی اسلام کی شمع روشن کی۔ بلاشبہ اصل اسلام کی خالص تعلیمات کے دوبارہ ظہور کے اہم عوامل میں سے ایک، انقلاب اسلامی ایران کے عظیم معمار، سید روح اللہ موسوی خمینی، جو امام خمینی کے نام سے مشہور ہیں، کی الہیٰ قیادت تھی، یہ انقلاب اپنی زندگی کے 43 سال گزارنے کے بعد آج بھی دنیا کے مظلوموں، حریت پسندوں اور آزادی کے متلاشیوں کی پناہ گاہ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی تعداد چالیس کے قریب پہنچ گئی تو خدا نے آپ کو حکم دیا کہ اب اپنی دعوت کو ظاہر کریں۔ اس دن جو لوگ کوہ صفا کے قریب تھے، انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چٹانوں اور پتھروں کو روندتے ہوئے ثابت قدم اور مستحکم قدموں کے ساتھ کوہ صفا پر چڑھے۔ پھر بلند آواز سے پکارا: "یا صباحا" آپ خطرے اور اہم کام کے وقت اس طرح کا شعار بلند کرتے۔ تھوڑی ہی دیر میں وہاں ایک بڑا ہجوم اکٹھا ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کی طرف بے پناہ شفقت اور محبت سے دیکھا اور فرمانے لگے: کیا تم نے کبھی مجھ سے جھوٹ سنا ہے؟ کیا آپ نے کچھ غلط سنا ہے۔؟
سب نے کہا: نہیں! ’’ہم نے آپ سے سچائی اور پاکیزگی کے سوا کچھ نہیں دیکھا اور نہ سنا۔‘‘ لوگوں کی توجہ مبذول کروانے کے لئے آپ نے فرمایا: "اب اگر میں تم سے کہوں کہ دشمن کے سوار اس پہاڑ کے پیچھے سے آکر تم پر حملہ آور ہوں گے تو کیا تم میری بات پر یقین کرتے ہو۔؟" جان لو اور آگاہ ہو جاؤ! اس زندگی کے بعد تمہیں ایک ہنگامہ خیز دنیا کا سامنا ہے، ایک ایسی دنیا جس میں بہت سے درد، مصائب، عذاب، اذیتیں، بدبختیاں اور محرومیاں ہیں! "لہذا میں آپ کو اس سخت عذاب سے خبردار کرتا ہوں، جس کا آپ کو سامنا ہے اور آپ کو اس کے خطرے سے خبردار کرتا ہوں۔"
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی تحریک کا آغاز رسول اللہ (ص) کے دین کو زندہ کرنے کے مقصد سے کیا اور 1343 ھجری شسی (1964ء) میں اپنی تقریر میں کیپچولیشن capitulation یعنی امریکہ کی ایماء پر ایرانی عوام کے خلاف انتہائی ذلت آمیز بل کی منظوری کے خلاف دعوت دی۔ یہ بل امریکہ کو مکمل رعایت اور قومی خود مختاری کی خلاف ورزی تھا۔ آپ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنی تقریر میں خبردار کیا اور کہا: "لوگو، میں خطرے کا اعلان کرتا ہوں! اے ایرانی فوج، میں خطرے کا اعلان کرتا ہوں! اے ایران کے سیاستدانو، میں خطرے کا اعلان کرتا ہوں! اے ایران کے تاجرو میں خطرے کا اعلان کرتا ہوں! اے ایران کے علماء، اے مراجع اسلام، میں خطرے کا اعلان کرتا ہوں! اے فضلا، اے علماء، اے حضرات، اے اہل نجف، اے اہلیان قم، اے اہل مشہد، اے اہل تہران، اے شیراز، میں خطرے کا اعلان کرتا ہوں!
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اخلاص اور بندگی کے جذبے سے مزین تھے اور ہمیشہ اپنے قول و فعل میں خدا کی اطاعت اور اس کی رضا کے طلبگار تھے۔ امام خمینی کے جانشین اور انقلاب اسلامی ایران کے موجودہ رہبر آیت اللہ خامنہ ای امام خمینی کی اس خصوصیت کے بارے میں فرماتے ہیں: "امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، ایک بابصیر زاہد و عبادت گزار تھے، انہوں نے اپنے آپ کو غیر خدائی بندھنوں سے آزاد کیا اور خدا کے سچے بندے بن گئے۔ آپ قلب سلیم اور باطنی نور کے مالک تھے اور آپ نے اپنی ذات کو خدا کی ذات مین گم کر دیا تھا۔ بانی انقلاب نے خدا پر توکل کرتے ہوئے، ائمہ معصومین (ع) کی سیرت کو اپناتے ہوئے اور قوم کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے ایک ایسے انقلاب کی بنیاد رکھی، جو تاریخ اسلام کے حیرت انگیز واقعات میں شمار ہوتا ہے۔ اس انقلاب نے ایک ایسی حکومت کا تختہ الٹ دیا، جس کی جڑیں دو ہزار پانچ سو سال قدیمی تھیں۔ امام خمینی اپنی تمام کامیابیوں کو خدا کی طرف سے جانتے تھے۔
آیت اللہ خامنہ ای، جن کی ہمت اور اعتماد سب کو معلوم ہے، انہوں نے گواہی دی ہے کہ جب خوفناک اور سخت ترین حالات و واقعات میں، جب تمام ایرانی حکام اپنے آپ کو بے بس سمجھنے لگتے تھے، وہ امام کی خدمت میں حاضر ہوتے اور امام خمینی نے انہیں ہمیشہ اطمینان اور امید دلائی۔ آیت اللہ خامنہ ای اس سلسلے میں فرماتے ہیں: "امام خمینی اپنے روحانی روابط اور خدا پر توکل کے ساتھ ہمیشہ ایک مضبوط پہاڑ کی طرح کھڑے رہے اور انہیں کسی چیز نے متزلزل نہیں کیا۔ ملک کے اکثر حالات اور انقلاب کے واقعات میں تمام بوجھ ہمیشہ امام پر ہی تھا۔ وہ ایک جملے سے حکام کو سخت ترین حالات و واقعات میں ایسے رہنمائی کرتے کہ سب پریشانیان اور خدشات ختم ہو جاتے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شخصیت اور اعلیٰ مقام کے باوجود اپنے آپ کو نہایت عاجز و خاکسار کہتے تھے۔ آپ نے کبھی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا نہیں سمجھا بلکہ اپنے آپ کو عوام کا خادم سمجھا اور اپنے لیے کوئی اعزاز اور عہدہ و لقب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آپ ہمیشہ اصرار کرتے کہ ان کی تعریف نہ کی جائے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے امام کی عظمت اور بزرگی کا ذکر کرتے ہوئے لوگوں کے ساتھ آپ کی تواضع کو اس طرح بیان کیا: "امام وہ تھے، جو اپنی طاقت سے دنیا کی تمام سیاست کو بدلنے پر قادر تھے۔ آپ کے پختہ ارادہ کے سامنے بڑے بڑے پہاڑ چھوٹے تھے،۔ آپ کے الفاظ اور آپ کا موقف دنیا میں بم کی طرح اثر رکھتے تھے۔ اس اثر اور عظمت کے باوجود عوام کے سامنے اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتے اور لوگوں کی ہمت، اور قربانی کے سامنے سر جھکا کر عاجزی سے کہتے ’’لوگ ہم سے بہتر ہیں۔۔۔۔‘‘ سورہ انفال کی آیت نمبر 24 میں قرآن کریم نے دین اسلام کے احیاء کی طرف اشارہ کیا ہے اور ان لوگوں کو مخاطب کیا ہے، جو ایمان لے آئے ہیں اور اپنے دلوں کو ایمان کے نور سے منور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ "اے ایمان والو، اللہ و رسول کی آواز پر لبیک کہو، جب وہ تمہیں اس امر کی طرف دعوت دیں، جس میں تمہاری زندگی ہے اور یاد رکھو کہ خدا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور تم سب اسی کی طرف حاضر کئے جاؤ گے۔"
درحقیقت ایک مکتب اس وقت حیات بخش ہوسکتا ہے، اگر وہ خود زندہ ہو۔ اسلام، جو ہمیشہ متحرک اور زندہ رہا ہے، زندگی دے سکتا ہے اور اپنے پیروکاروں کے دل کی موت کو روک سکتا ہے۔ امام خمینی کے نزدیک خالص محمدی اسلام ایک ایسا اسلام ہے، جس کا اصل ماخذ قرآن، اہل بیت (ع) کی ولایت اور امام عصر (ع) کی عدم موجودگی میں علمائے دین کی سیاسی اتھارٹی ہے۔ دوسرے لفظوں میں خالص اسلام ایک ایسا مکتب ہے، جو قرآن، اہل بیت (ع) کی ولایت اور علمائے کرام کی سیاسی مرجعیت سے نکلتا ہے اور صحیح استدلال اور منطق اور رائے کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے۔ امام خمینی (رہ) کا عقیدہ تھا کہ کا خالص محمدی (ص) اسلام کفار کے لیے مسلمانوں پر غلبہ پانے کی کوئی گنجاش نہیں چھوڑتا اور مسلمان ہمیشہ احکام الہیٰ کی پابندی اور قرآن کریم کی نورانی آیات پر عمل کرتے ہوئے مرکزی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔
امام خمینی کی نظر میں انصاف اور سامراج دشمنی خالص محمدی اسلام کی نمایاں خصوصیات رہی ہیں، ایک ایسا اسلام جس نے ظلم اور استحصال کا مقابلہ کیا اور سماجی انصاف کے قیام کی کوشش کی۔ خداوند عالم نے پیغمبروں کے بھیجنے کے آغاز سے ہی عدل و انصاف کے نفاذ کا تعارف کرایا ہے، دین کا ہدف سورہ حدید کی 25 نمبر آیت کے ایک حصے میں بیان ہوا ہے۔ "بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے، تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں اور ہم نے لوہے کو بھی نازل کیا ہے، جس میں شدید جنگ کا سامان اور بہت سے دوسرے منافع بھی ہیں اور اس لئے کہ خدا یہ دیکھے کہ کون ہے جو بغیر دیکھے اس کی اور اس کے رسول کی مدد کرتا ہے اور یقیناً اللہ بڑا صاحبِ قوت اور صاحبِ عزت ہے۔" امام خمینی (رہ) اسلامی جمہوریہ میں عدل کے بارے میں فرماتے ہیں: "اسلامی جمہوریہ میں اسلامی عدل جاری ہوگا، خدائی عدل پوری قوم پر سایہ فگن ہوگا اور جو طاغوت کے دور میں تھا، وہ اسلامی جمہوریہ میں نہیں ہوگا۔"
بہت سے تجزیہ کاروں کا یہ خیال صحیح ہے کہ امام خمینی ائمہ معصومین علیہم السلام کے بعد مذہبی فکر کے سب سے بڑے احیاء کنندہ ہیں؛ جن کا آخری ہدف اسلامی انقلاب اور ایک فکری اور سماجی تحریک کی تشکیل کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق استوار کرنا تھا۔ امام خمینی نے مذہب کو انفرادی اعمال تک محدود نہیں رکھا، وہ مذہب کی جامعیت اور سماجی میدانوں میں اس کی موجودگی پر یقین رکھتے تھے۔ بانی انقلاب اسلامی نے نہ صرف ایرانی انقلاب کو فتح سے ہمکنار کیا، جس نے تمام مسلم معاشروں میں اتحاد اور اسلامی بھائی چارے کا جذبہ پیدا کیا، بلکہ امام خمینی کا اسلامی انقلاب روشنی کا ایک دھماکہ تھا اور اس روشنی کی کرنیں تمام اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں چمکیں اور تمام مظلوموں کے لیے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے عزت و افتخار کا باعث بنیں۔ اسلام دشمنوں کے زہریلے پروپیگنڈے یہ تھے کہ مذہب قوموں کے لئے افیون ہے، لیکن اسلامی انقلاب کے قیام نے دنیا کو دکھایا کہ دین اسلام معاشرے کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دنیا و آخرت کی سعادت کا بھی ضامن ہے۔
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی