آپ(ع) كي زندگي كو ديكها جائے تو انہيں باتوں كا خلاصہ ہے جو آپ نے يہاں فرمائي ہيں’’ولا تاسفا علي شي منها ذوي عنكما‘‘ اس وصيت كا ايك ٹكڑا يہ ہے كہ اگر اس مذموم دنيا كا تهوڑا سا حصہ بهي تمہيں نہ ملے تو اس پر كف افسوس نہ ملو فلاں دولت، فلاں ثروت، فلاں لذت، فلاں مقام ومنصب، فلاں آسائش كي چيز آپ كے پاس نہيں ہے اس پر كبهي افسردہ نہ ہوں۔ يہ ہے اس وصيت كا تيسرا جملہ اس كے بعد فرماتے ہيں’’و قولا قول الحق‘‘ حق بات كہيں ،حق كو برملا كريں اسے چهپائيں نہيں۔ اگر كوئي بات آپ كي نظر ميں حق ہے تو اسے اس كي جگہ كہنا چاہئے چهپانا نہيں چاہيئے۔
امام علي(ع) كے كلام ميں اول تا آخر تقوٰي موضوع گفتگو رہا ہے فرماتے ہيں!’’ميرے بيٹو!اپني حفاظت كرو خدا كي راہ ميں اور خدائي معيار كے مطابق زندگي بسر كرو‘‘تقوٰي الٰہي يہي ہے۔ تقوٰي خدا سے خوف وہراس ركهنے كا نام نہيں ہے جيسا كہ بعض لوگ تقوٰي كے يہي معني بيان كرتے ہيں۔
’’خشيت الٰہي‘‘اور ’’خوف خدا‘‘ ايك دوسري چيز ہے۔ تقوا يعني يہ كہ آپ جو كام بهي كريں وہ اس مصلحت كے مطابق ہو جو خدا كي نظر ميں ہے۔تقوٰي كوئي ايسي چيز نہيں ہے كہ ايك لمحہ كے لئے بهي اسے ترك كيا جا سكتا ہو۔ اگر چهوڑ ديا تو پهر انسان كا لڑكهڑانا اور ايك گہرے گڑهے ميں گرنا حتمي ہے يہاں تك كوئي پتهر،كوئي درخت يا كوئي چيز دوبارہ ہاتهوں آئے اور اس كا سہارا لے كر ہم خود كو كهڑا كر سكيں۔’’ان الذين اتقوا اذا مسهم طائف من الشيطان تذكر وا فاذا هم مبصرون‘‘(اعراف ۲۰۱) ۔
تقوٰي كي ايك شرط:دنيا كے پيچهے نہ بهاگنا
’’وان لا تبغيا الدّنيا وان بغتكما‘‘
(دنيا كے پيچهے نہ دوڑواگرچہ وہ تمہارے پيچهے آئے)
يہ بهي تقوٰي كے شرائط اور لوازمات ميں سے ہے،البتہ تمام نيك كام تقوٰي كا جز ہيں جن ميں سے ايك يہي ہے۔ يہ نہيں كہا كہ’’دنيا كو چهوڑ دو، بلكہ يہ فرمايا كہ دنيا كے طالب نہ بن جاؤ اس كے پيچهے نہ بهاگو۔ يہ دنيا كيا ہے؟ اس كا مطلب كيا ہے؟كيا دنيا زمين كو آباد كا نام ہے؟ كيا دنيا الٰہي خزانوں كے زندہ كرنے كو كہتے ہيں؟كيا دنيا يہي ہے جس كا طالب بننے سے روكا جا رہا ہے؟ جي نہيں! يہ دنيا نہيں ہے۔ دنيا وہ ہے جو آپ اپنے لئے،اپني لذتوں كے لئے اور اپني خواہشات كے لئے كرتے ہيں۔ ورنہ زمين كو لوگوں كي خدمت اور خير وصلاح كے لئے آباد كيا جائے تو يہ عين آخرت ہے، يہي ہے ايك اچهي دنيا۔ وہ دنيا جسكي مذمت كي گئي اور جس كے پيچهے دوڑنے سے روكا گيا ہے وہ ہے جو ہم كو ’ہماري توانائي كو‘ ہماري محنت وہمت كو اپني طرف متوجہ كرتي ہے اور ہميں صحيح راستے سے روكتي ہے۔ خود غرضي،نفس پرستي، اپنے لئے مال ودولت كا حصول آرام وآسائش كي لالچ يہ ہے وہ دنيا جو قابل مذمت ہے۔
البتہ اس دنيا ميں حلال بهي اور حرام بهي ہے ۔ ايسا نہيں ہے كہ دنياوي اشيا كا طالب ہونا صرف حرام ہے نہ حلال بهي ہے اور اسي حلال كے بارے ميں كہا گيا ہے اس كے پيچهے بهي مت پڑو،اگر دنيا اس طرح كي ہو گئي تو اس كا حلال بهي اچها نہيں ہے، مادي زندگي كو جتنا زيادہ خدا كي طرف موڑا جائے اتنا زيادہ فائدہ مند ہے ہمارے لئے اور يہي آخرت ہے۔ تجارت بهي اگر مخلوق خدا كي خدمت كے لئے ہو ، نہ كہ دولت اكٹها كرنے كے لئے تو يہ بهي عين آخرت ہے، دنيا كے دوسرے كام بهي اسي طرح ہيں۔ پس دوسرا اہم نكتہ اس وصيت كا يہ ہے كہ دنيا كے طالب نہ بنو اور اس كے پيچهے نہ بهاگو۔
امام علي(ع) نے اس وصيت ميں جو كچه فرمايا ہے ، خود ان باتوں كا مجسم نمونہ تهے۔
آپ(ع) كي زندگي كو ديكها جائے تو انہيں باتوں كا خلاصہ ہے جو آپ نے يہاں فرمائي ہيں’’ولا تاسفا علي شي منها ذوي عنكما‘‘ اس وصيت كا ايك ٹكڑا يہ ہے كہ اگر اس مذموم دنيا كا تهوڑا سا حصہ بهي تمہيں نہ ملے تو اس پر كف افسوس نہ ملو فلاں دولت، فلاں ثروت، فلاں لذت، فلاں مقام ومنصب، فلاں آسائش كي چيز آپ كے پاس نہيں ہے اس پر كبهي افسردہ نہ ہوں۔ يہ ہے اس وصيت كا تيسرا جملہ اس كے بعد فرماتے ہيں’’و قولا قول الحق‘‘ حق بات كہيں ،حق كو برملا كريں اسے چهپائيں نہيں۔ اگر كوئي بات آپ كي نظر ميں حق ہے تو اسے اس كي جگہ كہنا چاہئے چهپانا نہيں چاہيئے۔
جس وقت منہ ميں زبان ميں ركهنے والے حق كو چهپا رہے اور باطل كو جان بوجه كر بيان كر رہے يا حق كي جگہ باطل كو لا رہے ہوں،اگر اس وقت حق آشنا اور حق گوزبانيں اظہار حق كريں تو حق مظلوم نہيں ہوگا، حق اجنبي نہيں بنے گا اور اہل باطل حق كو مٹانے كي كوشش نہيں كريں گے۔
پهر فرماتے ہيں’’واعملا للاجر‘‘الٰہي اجروثواب كے لئے كام كرو، عبث كام نہ كرو اے انسان، تيرا يہ كام ،يہ عمر، يہ خون پسينہ ايك كرنا يہي تيرا اصل سرمايہ ہے اسے يوں ہي صرف نہ كر۔ اگر زندگي بسر كر رہے ہو،اگر كوئي كام كر رہے ہو، اگر محنت و مشقت كر رہے ہو تو يوں نہ كرو بلكہ ايك اجرت كے لئے كرو۔ ليكن اس كي اجرت كيا ہے؟ كيا چند روپے انساني وجود كي قيمت ہے؟ كيا اس عمر كي يہي قيمت ہے؟جي نہيں! انسانجيسي مخلوق اور اس قيمتي عمر كي يہ اجرت نہيں ہے؟
’’فليس لانفسكم ثم الا الجنۃ فلا تبيعوها غيرها‘‘حكمت۴۵۶
يہ امام كا وہ جملہ ہے جس ميں انسان كي قيمت بتائي گئي ہے كہ تمہاري قيمت صرف جنت ہے لہذا اسے جنت كے علاوہ كسي دوسري چيز سے مت بيچو۔
وصيت كا ايك جملہ يہ بهي ہے’’كونا لظالم خصيما وللمظلوم عونا‘‘ظالم كے حريف اور مظلوم كے مددگار بن جاؤ۔ يہاں ’’خصم‘‘ كے معني دشمن كے نہيں ہيں۔ كبهي ايسا ہوتا ہے انسان ظالم كا دشمن ہوتا يعني اس سے متنفر ہوتا ہے۔ يہ كافي نہيں ہے بلكہ فرماتے ہيں اس كے حريف بن جاؤ۔
’’خصم‘‘يعني وہ دشمن جو ظالم كے مد مقابل آجائے’’وہ دشمن جو ظالم كا گريبان پكڑ ليتا ہے اور پهر چهوڑتا نہيں ہے۔
اميرالمؤمنين(ع)كے بعد بشريت اسي وجہ سے بدبختي كا شكار ہوگئي كہ ظالم كا گريبان پكڑ نے والا كوئي نہ رہا۔ اگر با ايمان ہاته ظالموں اور ستمگروں كے گريبان پكڑتے تو ظلم آگے نہ بڑهتا بلكہ ختم ہو جاتا۔ علي(ع)كے كہنے كا مقصد يہ ہے۔ ظلم كے حريف بن جاؤ يعني:مٹا دو ظلم جہاں سے جہاں جہاں بهي ملے
كہنے كا مطلب يہ نہيں ہے ابهي اور اسي وقت دنيا كے اس كونے سے اٹه كر اس كونے ميں جائيں اور ظالم كا گريبان پكڑيں بلكہ مقصد يہ ہے كہ سب كے سامنے ظاہر كريں كہ آپ ظلم و ظالم كے حريف ہيں اور جب موقع ملے ظالم كو پكڑنے كا اسے دبوچ ليں۔ كبهي ايسا ہوتا ہے انسان ظالم كے پاس جا كے اس كے سامنے اظہار نہيں كر سكتا لہذا دور سے اسكي مخالفت كرتا ہے۔ آپ ملاحظہ فرمائيں امير المؤمنين(ع)كي اس ايك وصيت پر عمل نہ كرنے كي وجہ سے دنيا كس بدبختي كا شكار ہے اور كيا بهگت رہي ہے۔ اقوام عالم خاص كر مسلمان قوموں پر كيا گزر رہي ہے۔ اگر حضرت علي(ع) كي صرف اس حديث پر عمل ہوتا تو بہت سي بدبختياں اور ظلم وستم ختم ہو چكے ہوتے ان كا كوئي وجود ہي نہ ہوتا۔
’’وللمظلوم عونا‘‘ جہاں كہيں كسي مظلوم كو ديكهو اس كي مدد كرو، يہ نہيں فرمايا كہ اس كي حمايت كرو بلكہ فرمايا: اس كي مدد كرو، جسطرح سے بهي ہو اور جس قدر بهي ہو سكے۔
يہاں تك وصيت كے جملوں كے اصل مخاطب امام حسنؑ اور امام حسين (ع) كي ذات گرامي ہے البتہ يہ انہيں حضرات سے مخصوص نہيں بلكہ سب كے لئے ہے
اس كے بعد وصيت كا لہجہ بدل كر سب سے عمومي خطاب كرتے ہيں:
’’اوصيكما وجميع ولدي‘‘
تم دونوں اور اپنے تمام بيٹوں سے وصيت كرتا ہوں’’واهلي‘‘ اور اپنے اہل وعيال سے وصيت كرتا ہوں‘‘ ’’ومن بلغہ كتابي‘‘اور ہر اس شخص سے وصيت كرتا ہوں جس تك ميرا يہ خط پہونچے‘‘۔
اس طرح ميں اور آپ سب اس وصيت نامہ كے مخاطب ہيں جس ميں امام فرماتے ہيں تم سب كو ايك چيز كي وصيت كرتا ہوں اور وہ ہے تقوٰي الٰہي اور اس كے بعد ’’ونظم امركم‘‘اور اپنے امور كو نظم وضبط كے ساته انجام دينے كي۔ يہاں پر ’’نظم امركم‘‘ كا كيا مطلب ہے؟ كيا نظم كا مطلب يہ ہے زندگي كے تمام كاموں كو منظم طور پر انجام دو؟ ممكن ہے اس كا ايك مطلب يہ بهي ہے۔ ليكن امام نے يہاں ’’نظم امر‘‘ فرمايا ہے نہ كہ ’’نظم امور‘‘ يعني جس چيز كے نظم وضبط كي تاكيد كي جا رہي ہے وہ ايك ہے نہ كہ زيادہ۔
عام طور سے انسان يہ سوچتا ہے كہ’’نظم امر‘‘ تمام امور دنيوي كے لئے استعمال ہوا۔ ليكن ميري نظر ميں’’نظم امر‘‘ كا مطلب اسلامي نظام، اسلامي حكومت اور اسلامي ولايت كا نفاذ ہے۔
يعني حكومت اور اسلامي نظام كے سلسلے ميں نظم وضبط سے كام ليا جائے
۔
آپسي صلح و صفا
وصيت كے دوسرے حصے كي تيسري اصل يہي آپسي صلح و صفا اور بهائي چارہ ہے يعني ايك دوسرے كے ساته حسن سلوك كرو دل ايك دوسرے كي نسبت صاف رہيں۔
وحدت كلمہ پر قائم اور اختلاف سے دور رہو۔يہ جملہ فرماتے وقت رسول خدا(ص) كے اقوال سے دليل كے طور پر ان كا ايك قول نقل كرتے ہيں۔جس سے معلوم ہوتا ہے اس اصل كو بہت زيادہ اہميت ديتے ہيں۔
اس كا مطلب يہ نہيں كہ آپسي ميل و محبت كي اہميت نظم امور سے بهي زيادہ ہے بلكہ اس كا ترك كرنا زيادہ خطر ناك ہے اسي لئے پيغمبر(ص)كے قول كو دليل كے طور پر پيش كرتے ہيں ’’فاني سمعت جدّكما يقول:صلاح ذات البين افضل من عامۃ الصلاۃ و الصوم‘‘ آپس ميں صلح و صفا ركهنا اور لوگوں كے درميان صلح پيدا كرنا نماز اور روزے سے بہتر ہے يہ نہيں كہا كہ نمازوں اور روزوں سے افضل ہے بلكہ فرمايا كہ ہر نماز اور روزے سے بہتر ہے يعني نماز و روزہ بجا لائيں ليكن جس چيز كي اہميت اور فضيلت ان دونوں سے زيادہ ہے وہ كيا ہے؟ يہي صلح و آشتي ہے ۔
اگر آپ نے مشاہدہ كيا كہ امت مسلمہ كے درميان كوئي اختلاف اور رخنہ پيدا ہو گيا ہے تو اسے فوراً پر كرنے كي كوشش كيجئے۔اس كي اہميت نماز اور روزے سے زيادہ ہے۔
يتيموں كي ديكه بهال
چند جملوں كے بعد ايك چهوٹا سا فقرہ كہتے ہوئے فرماتے ہيں’’واللہ اللہ في الايتام‘‘ يتيموں كے سلسلے ميں خدا سے ڈرو۔ جتنا ممكن ہو سكے ان كي ديكه بهال كرو ان كا خيال ركهو كہيں ايسا نہ ہو كہ انہيں بهول جاؤ۔
بہت اہم نكتہ ہے۔ آپ ملاحظہ فرمائيں كہ يہ انسان شناس، خدا شناس نفسيات كا ماہر اور دلسوز شخص كس طرح سے چهوٹي چهوٹي باتوں كا خيال ركهتا ہے۔ جي ہاں يتيم پروري، يتيم بچوں كا خيال ركهنا يہ فقط رحم و عطوفت نہيں ہے۔ جس بچے كے سر سے باپ كا سايہ اٹه چكا ہو وہ اپني زندگي كي بہت بڑي اور بنيادي ضرورت كو كهو چكا ہے،كسي طرح بهي اس كا جبران ضروري ہے، اگرچہ اس كا جبران نہيں كيا جا سكتا ليكن ہميں خيال ركهنا ہوگا كہ يہ بچہ، يہ نوجوان يا جوانجو اپنے باپ كے سايہ شفقت سے محروم ہو گيا، احساس كمتري ميں مبتلا ہو كر ضائع نہ ہو جائے’’واللہ اللہ في الايتام‘‘ فلا تغبوا افواههم‘‘ كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ بهوكيں رہيں، ايسا نہ ہو كہ كبهي انہيں كچه ملے اور كبهي كچه نہ ملے’’الا تغبوا‘‘يہ ہے اس كا مطلب۔ ان كي زندگي كي شان اور اسٹنڈرڈ كے اعتبار سے ان كي ضروريات پوري كرو۔
’’ولا يضيعوا بحضرتكم‘‘ كہيں ايسا نہ ہو كہ تمہارے ہوتے ہوئے ان كي زندگي كے پهول مرجها جائيں،كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ تمہاري بے توجہي كا شكار ہو جائيں۔ اگر تمہيں پتہ نہ ہو، تم بے خبر ہو تو الگ بات ہے۔ كہيں ايسا نہ ہو كہ معاشرے كا ہر شخص اپنے كام سے مطلب ركهے اور يہ يتيم بچہ تنہا اور بے سروسامان ہوجائے۔
پڑوسيوں كے حقوق كي رعايت
’’اللہ اللہ في جيرانكم‘‘ اپنے بڑوسيوں سے باخبر رہو۔
ہمسائيگي اور پڑوس اسلام كي نظر ميں بہت اہم ہے، اسے يوں ہي نہ سمجهيئے۔ يہ ايك عظيم اجتماعي ضرورت ہے جسكي طرف اسلام نے توجہ دلائي ہے اور يہ فطرت انساني كے مطابق ہے، البتہ انساني فطرت سے دور تہذيبوں كے پيچ وخم ميں اس طرح كي انساني اقدار كي اہميت اور قيمت كم ہوتي جا رہي ہے۔ اپنے پڑوسيوں كے حقوق كا خيال ركهيں۔نہ صرف اقتصآدي اور مالي اعتبار سے بلكہ انسانيت كے عنوان سے اگرچہ مالي اور اقتصادي حقوق كي بهي بہت اہميت ہے۔اگر ان انساني اقدار كو زندہ كيا جائے تو ديكهئے معاشرے ميں كس طرح سے الفت ومحبت پيدا ہوتي ہے اور كس طرح سے انسانيت كے لا علاج امراض كا مداوا ہوتا ہے۔
’’فانهم وصيۃ نبيكم‘‘ يہ پيغمبر خدا(ص)كي وصيت ہے’’مازال يوصي بهم حتي ظننا انہ سيورتهم‘‘آپ پڑوسيوں كے بارے ميں اتني زيادہ وصيت اور نصيحت فرمايا كرتے تهے كہ ہم سوچنے لگے كہ پڑوسيوں كو بهي ميراث كا حق ديا جائے گا۔
’’واللہ اللہ في القرآن‘‘ قرآن كے سلسلے ميں خبر دار اور ہوشيار رہو۔’’لا يسبقكم بالعمل بہ غير كم‘‘ كہيں ايسا نہ ہو كہ قرآن پر ايمان واعتقاد نہ ركهنے والے اس پر عمل كركے تم پر سبقت لے جائيں اور تم قرآن پر ايمان واعتقاد ركهتے ہوئے اس پر عمل نہ كرو اور پيچهے رہ جاؤ۔
يعني وہي جو ہوا اور ہو رہا ہے!اس دنيا ميں جو لوگ آج آگے ہيں وہ اپني مسلسل كوشش،محنت،بہتركام اور ان صفات كو اپنا كر جو خدا كے پسنديدہ صفات ہيں آگے نكلے اور كامياب ہوتے ہيں نہ كہ ظلم وفساد كے ذريعہ اور دوسري برائيوں كے وجہ سے۔
’’واللہ اللہ في بيت ربكم لا تخلوہ ما بقيتم‘‘خدا كے گهر كو آباد كرو جب تك تم زندہ ہو يہ خالي نہ رہنے پائے ويران نہ ہونے پائے۔
’’فانہ ان ترك لم تناظروا‘‘ اسلئے كہ اگر تم نے خانہ خدا كو تنہا اور ويران چهوڑ ديا تو تمہيں مہلت نہيں دي جائيگي اور زندگي كے وسائل تمہيں فراہم نہ ہو سكيں گے(اس عبارت كے مختلف معاني كئے گئے ہيں)
’’واللہ اللہ في الجهاد باموالكم وانفسكم والسنتكم في سبيل اللہ‘‘ اپنے مال، جان، زبان كے ذريعہ خدا كي راہ ميں جہاد كو جاري ركهو يہ ترك نہ ہونے پائے۔ يہي جہاد ہے جس پر عمل پيرا ہو كر امت مسلمہ دنيا كي ايك آئيڈيل قوم بني رہي اور جب اسے پس پشت ڈال ديا تو ذليل و خوار ہو گئي۔ جہاد اپني اسلامي حدود اور اسلامي ڈهانچے كے ساته ہو تو ظلم نہيں ہے۔
جہاد ميں انساني حقوق كو پامال كرنے كي اجازت نہيں ہے۔ جہاد ميں بہانے بازي اور بلا وجہ كسي كو قتل كرنا صحيح نہيں ہے۔ جہاد يہ نہيں ہے كہ جو بهي غير مسلم ہو اس كي گردن اڑا دي جائے۔ جہاد ايك ايسا حكم خدا ہےجو بہت مقدس اور عظيم كام ہے جہاد ہي ہے جسكي وجہ سے قوميں سر بلند اور سرخرو ہوتي ہيں۔
’’عليكم بالتواصل والتباذل‘‘ پهر فرماتے ہيں كہ’’تمہيں چاہيئے كہ ايك دوسرے سے جڑے رہو،ايك دوسرے كي مدد كرو،ايك دوسرے پر اور ايك دوسرے كے لئے خرچ كرو‘‘(واياكم بالتدابر والتقاطع)’’ايك دوسرے سے قطع تعلق نہ كرو،آپس ميں جدائي نہ ڈالو،قطع رحم نہ كرو‘‘
(لا تتركوا الامر بالمعروف والنهي عن المنكر)’’امر بالمعروف اور نہي عن المنكر كو ہرگز ترك نہ كرو كيونكہ اگر اسے چهوڑ ديا(فيولي عليكم شراركم)’’تو تمہارے اوپر شر پسند افراد كا ايك گروہ مسلط ہو جائے گا‘‘
’’جس معاشرے ميں نيكي كي طرف بلانے والا اور برائي سے روكنے والا كوئي نہ ہو تو نا اہل اور شر پسند افراد ايسے معاشرے ميں برسر اقتدار آتے ہيں اور حاكم بن جاتے ہيں۔اگر لوگ برائيوں اور برے لوگوں كي مذمت نہ كريں تو پهر برے افراد حكومت كي باگ ڈور اپنے ہاتهوں ميں لے ليتےہيں
(ثم تدعون . . . .)جب ايسا ہو جاتا ہے تو پهر تم ميں سے نيك لوگ خدا كي بارگاہ ميں گڑگڑاتے ہيں كہ خدايا ہميں ان كے شر سے نجات دے
(فلا يستجاب لكم)اس وقت خدا تمہاري دعاؤں كو مستجاب نہيں كرتا۔
(تہران كے خطبہ نماز جمعہ ميں ولي امر مسلمين كے خطبے سے اقتباس)