مومن سے ملاقات کے وقت
ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دولت خانہ پر ایک شخص آیا اور آنحضرت سے ملاقات کی درخواست کی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس شخص سے ملاقات کے لیے تیار ہوئے تو آپ نے پانی کا ایک برتن سامنے رکھا اپنے بالوں کو مرتب کیا اس کے بعد اس سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔
جناب عائشہ نے آپ کے اس عمل سے تعجب کیا اور واپس آتے ہی آپ سے پوچھا: یا رسول اللہ ! ملاقات سے پہلے کیوں آپ پانی کے برتن کے سامنے کھڑے ہوئے اور بالوں اور چہرے کو مرتب کیا؟
فرمایا: اے عائشہ! خداوند عالم دوست رکھتا ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے ملنے جائے تو اپنے آپ کو مرتب اور مزین کرے۔[1]
کھانا کھاتے وقت
منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تواضع اور انکساری کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھتے تھے، اپنا وزن اپنے بائیں پہلو پر ڈالتے تھے اور کھانا کھاتے وقت کسی چیز سے ٹیک نہیں لگاتے تھے، اللہ کے نام سے شروع کرتے اور لقموں کے درمیان بھی اللہ کو یاد کرتے اور اس کا شکریہ ادا کرتے تھے۔
آپ کا یہ عمل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انسان کو ہمیشہ نعمتیں عطا کرنے والے کی یاد میں رہنا چاہیے۔
آپ کھانا کھانے میں زیادہ روی نہیں کرتے تھے، جب کسی کھانے کو ہاتھ لگاتے تھے تو فرماتے تھے: "بسم اللہ، پروردگارا! اس میں برکت عطا فرما"۔ آپ کسی بھی کھانے کو خراب نہیں کہتے تھے اگر دل چاہتا تھا تو کھاتے تھے ورنہ کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے تھے۔ آپ کبھی بھی اکیلے کھانا نہیں کھاتے تھے آپ چاہتے تھے کہ دوسروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ دسترخوان پر آپ سب سے پہلے شروع کرتے تھےاور سب سے آخر میں ہاتھ کھینچتے تھے تاکہ دوسروں کو کھانا کھانے سے شرم محسوس نہ ہو اور بھوکے دسترخوان سے نہ اٹھ جائیں۔ آپ ہمیشہ کھانا اپنے سامنے سے کھاتے تھے اور گرم کھانا نہیں کھاتے تھے، آپ کا کھانا نہایت سادہ ہوتا تھا جیسے جو کی روٹی اور نمک۔ آپ نے کبھی بھی گندم کی روٹی نہیں کھائی۔ آپ کھانے میں خرما زیادہ پسند کیا کرتے تھے۔[۲]
بیٹھتے وقت
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھنے کے لیے کسی مخصوص جگہ کا انتخاب نہیں کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ مجلس میں جہاں جگہ مل جاتی وہاں بیٹھ جاتے چاہے دروازے کے پاس ہی جگہ مل جائے۔ آپ نہیں چاہتے تھے کہ اٹھتے یا بیٹھتے وقت کوئی آپ کے احترام کے لیے اٹھے۔ آپ اس بارے میں فرماتے تھے: "جو شخص یہ چاہتا ہے کہ دوسرے اس کے احترام میں کھڑے ہوں اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔"[۳]
جنگ پر لشکر بھیجتے وقت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب جنگ کے لیے لشکر بھیجنے کا ارادہ کرتے تھے تو لشکر کو اپنے پاس بلاتے تھے اور ان سے فرماتے تھے: اللہ کے نام سے اس کی راہ میں اور اس کے پیغمبر کے بتائے ہوئے راستے سے جنگ پر جانا۔ اپنے دشمنوں کے ساتھ خیانت نہ کرنا، انہیں مثلہ(ناک،کان کاٹنا) نہ کرنا، ان کے ساتھ مکاری اور دغہ بازی نہ کرنا۔ بوڑھے مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ مت کرنا۔ درختوں کو مت کاٹنا مگر یہ کہ جہاں مجبوری ہو۔ مسلمانوں میں سے ہر کوئی چھوٹا بڑا مشرکین کو پناہ دینے کا حق رکھتا ہے اگر کوئی کسی کو پناہ دے تو وہ اس کی پناہ میں رہے گا تاکہ پیغام اسلام کو سن سکے اور اگر اس نے اسلام قبول کر لیا تو تم مسلمان بھائیوں میں سے ہو جائے گا اور اگر اس نے انکار کر دیا تو اس کو اس کے گھر تک پہنچا دینا اور خدا سے مدد چاہنا۔ [۴]
برے پڑوسی کے ساتھ سلوک
ایک آدمی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور آپ سے اپنے ہمسایہ کی طرف سے پہنچنے والی اذیت و آزار کی شکایت کی۔ رسول خدا [ص] نے فرمایا: (اگر وہ اذیت کرتا ہے تو) تم صبر کرو۔ دوسرے دن پھر آیا اور دوبارہ اس کی شکایت کی۔ آپ نے پھر صبر کرنے کی تلقین کی۔ تیسری بار پھر وہ شخص اپنے ہمسایہ کی شکایت لے کر آن پہنچا۔ آنحضرت نے اس سے فرمایا: جمعہ کے دن جب لوگ نماز جمعہ کے لیے مسجد کی طرف جا رہے ہوں تو اپنے گھر کا سامان نکال کر گلی میں رکھ دینا اور جب لوگ تم سے وجہ معلوم کریں تو سارا قصہ ان سے بتانا۔ اس آدمی نے ایسا ہی کیا۔ کچھ ہی دیر ہوئی کہ وہ اذیت دینے والا پڑوسی دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا: سامان کو واپس گھر میں رکھ دو میں خدا کے ساتھ عہد کرتا ہوں کہ اس کے بعد تمہیں اذیت نہیں کروں گا۔[۵]
علم و دانش کی اہمیت
انصار کا ایک آدمی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر ایک طرف جنازہ رکھا ہو اور دوسری طرف علماء کی مجلس ہو تو میں کس کو ترجیح دوں اور کس میں شرکت کروں؟ [ یعنی نماز جنازہ میں شرکت کروں یا علماء کی بزم میں بیٹھوں؟] رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اگر جنازے کو کفن و دفن کرنے والے اتنے لوگ ہوں کہ تمہاری گردن سے تکلیف ساقط ہو جائے تو علماء کی بزم میں شرکت کرنا ہزار جنازوں کی تشییع کرنے، ہزار مریضوں کی عیادت کرنے، ہزار شب و روز نمازیں پڑھنے اور روزے رکھنے، ہزار فقیروں کو صدقہ دینے، ہزار مستحبی حج بجا لانے اور راہ خدا میں اپنے جان و مال سے ہزار جہاد کرنے سے بہتر ہے۔ یہ سب چیزیں ایک عالم کے حضور میں شرفیاب ہونے کی فضیلت کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ کیا نہیں سنا ہے کہ اللہ کی اطاعت اور بندگی علم اور معرفت سے وابستہ ہے؟ دنیا اور آخرت کی خیر و خوبی علم کی مرہون منت ہے؟ اور دنیا اور آخرت کی بدبختی جہالت کی وجہ سے ہے؟[۶]
دوسروں کا احترام کرنا
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بھی کسی کے ساتھ مصافحہ کرتے تھے تو جب تک سامنے والا اپنا ہاتھ پیچھے نہ کرلے آپ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے پیچھے نہیں کھینچتے تھے۔ کوئی بھی اگرکوئی کام آپ کے سپرد کرتا تھا تو آپ اس کو فورا انجام دیتے تھے مگر یہ کہ وہ خود اس سے منصرف ہو جائے۔ جب آپ کسی سے گفتگو کرتے تھے تو جب تک سامنے والا خود خاموش نہ ہو جائے آپ سے محو گفتگو رہتے تھے اور کبھی بھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ آپ کسی دوسرے کے پاس پاوں پھیلا کر بیٹھے ہوں۔[۷]
بچوں کا احترام
ایک دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر میں تشریف فرما تھے کہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام وارد خانہ ہوئے۔ آنحضرت ان کے استقبال کے لیے اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے اور ان کا انتظار کرنے لگے چونکہ بچے دھیرے دھیرے چل رہے تھے کچھ لمحوں کے بعد پیغمبر اکرم خود ان کی طرف بڑھے اور دونوں کو اپنے کاندھے پر بٹھایا اور لے کر چل پڑے اور فرما رہے تھے: میرے عزیز بچو! تمہاری سواری کتنی اچھی ہے اور تم سوار بھی کتنے اچھے ہو۔ [۸]
والدین کا احترام
ایک آدمی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: یا رسول اللہ ! میں نے قسم کھائی ہے کہ جنت کے دروزے اور حور العین کی پیشانی کا بوسہ لوں۔ لہذا کیا کروں؟
آنحضرت نے فرمایا: اپنی ماں کے پیروں اور باپ کی پیشانی کا بوسہ لو۔[یعنی اگر ایسا کرو گے تو اپنی مراد کو پہنچ جاو گے]
اس نے کہا: اگر والدین مر چکے ہوں تو کیا کروں؟
آپ نے فرمایا: ان کی قبروں کا بوسہ لو۔ [۸]
مومن کا احترام
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خانہ کعبہ کی طرف نگاہ کر کے فرمایا:
خوش نصیب ہے تو اے گھر! جسے عظیم سمجھا جاتا ہے اور جس کا احترام کیا جاتا ہے۔ خدا کی قسم مومن اللہ کے نزدیک تجھ سے زیادہ محترم ہے اس لیے کہ خداوند عالم نے تیرے لیے ایک چیز کو حرام کیا ہے وہ یہ کہ تیرے پاس قتل و غارت حرام ہے۔ لیکن مومن کے لیے تین چیزوں کو حرام کیا ہے مومن کی جان، اس کا مال، اور اس کی نسبت برا گمان کرنا حرام قرار دیا ہے۔[۹]
کام کی اہمیت
ابن عباس کہتے ہیں: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی شخص سے ملاقات کرتے تھے تو سب سے پہلے اس سے اس کے مشغلے اور کام کے بارے میں سوال کرتے تھے، اگر وہ کہتا تھا کہ بیکار ہوں تو آپ فرماتے تھے: میری نظروں سے گر گئےہو۔ اور جب اس کی وجہ معلوم کی جاتی تھی تو فرماتے تھے: جب مومن بیکار ہو جاتا ہے تو مجبورا اپنے دین کا اپنے معاش سے سودا کرتا ہے۔[۱۰]
اصول کی پابندی
عبد اللہ بن ابی، منافقین کا سردار جس نے بظاہر کلمہ شہادت پڑھ کر امان حاصل کر رکھی تھی لیکن باطنی طور پر وہ رسول خدا کی مدینہ ہجرت اور اپنی حکومت کی بساط سمٹنے سے سخت رنجیدہ تھا اور اپنے دل میں رسول خدا اور اسلام کی نسبت عداوت پال رہا تھا۔ اور اسلام کے دشمن یہودیوں کے ساتھ مل کر، اسلام کے خلاف سازشوں اور پروپیگنڈوں میں بھرپور حصہ لیتا تھا۔ آنحضرت نہ صرف اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ آپ کے اصحاب اسے اس کے عمل کی سزا دیں بلکہ مکمل احترام کے ساتھ اس کے ساتھ برتاو رکھتے تھے اور بیماری کے وقت اس کی عیادت کرنے جاتے تھے۔
غزوہ تبوک سے پلٹتے وقت بعض منافقین نے آنحضرت کی جان لینے کی سازش کی اس طرح سے ایک گھاٹی سے گزرتے وقت آپ کی سواری کو گرایا جائے۔ اس کے باوجود کہ سب منافقین نے اپنے چہرے چھپا رکھے تھے پیغمبر اکرم(ص) نے سب کو پہچان لیا لیکن اپنے اصحاب کے درمیان ان کا راز فاش نہیں کیا اور انہیں کسی قسم کی سزا دینے سے صرف نظر کرلیا۔ [۱۱]
سماج کے لیے نمونہ عمل
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا لباس خود سیتے تھے، اپنے کپڑوں کو خود ٹانکتے تھے، اپنی گوسفند کو خود دوتے تھے غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، زمین پر بیٹھتے تھے اور گدھے پر سوار ہوتے تھے۔ اور بازار جانے سے شرم نہیں کرتے تھے خود گھر میں ضرورت بھر کی چیزوں کو خرید کر لاتے تھے۔ ہر کسی کے ساتھ ہاتھ ملاتے تھے اور جب تک سامنے والا اپنا ہاتھ پیچھے نہ کرے آپ اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے تھے۔ سب کو سلام کرتے تھے اور جب کوئی آپ کو دعوت کرتا تھا چاہے خرما پر ہی کیوں نہ ہوتو آپ اس کی دعوت کو کبھی ٹھکراتے نہیں تھے۔ آپ اسراف اور فضول خرچی سے شدید پرہیز کرتے تھے اور ہر کسی کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ آپ کا چہرہ خشاش بشاش ہوتا تھا اور آپ کا رنج و غم غصہ کے ساتھ آمیختہ نہیں تھا۔ تواضع و انکساری میں ذلت و رسوائی نہیں تھی، آپ بخشش کرنے والے اور مہربان دل انسان تھے، سب مسلمانوں کے ساتھ مہربانی کرتے تھے۔ کبھی بھی دسترخوان سے سیر ہو کر نہیں اٹھتے تھے اور کسی چیز کی طرف طمع کا ہاتھ نہیں بڑھاتے تھے۔ [۱۲]
امتیاز کا قائل نہ ہونا
نقل ہوا ہے کہ ایک دن رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے کچھ اصحاب کے ساتھ ایک سفر پر تھے کھانے کے لیے آپ نے ایک گوسفند کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! گوسفند کو ذبح کرنا میرے ذمہ ہے۔ دوسرے شخص نے کہا: اس کی کھال اتارنا میری ذمہ داری ہے۔ تیسرے نے کہا: اس کو پکانا میرا کام ہے۔ آنحضرت [ص] نے ان کے ساتھ حصہ لیتے ہوئے فرمایا: لکڑیاں جمع کر کے لانا میرا کام ہے۔ اصحاب نے کہا: رسول اللہ ! ہم ہیں نا، لکڑیاں خود اکھٹا کریں گے۔ آپ زحمت نہیں اٹھائیں۔ فرمایا: مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں اپنے آپ کو تمہارے درمیان ممتاز سمجھوں۔ یقینا خداوند عالم کو بھی اس بات سے نفرت آتی ہے کہ اس کا بندہ اپنے دوستوں کے درمیان خود کو ممتاز سمجھنے لگے۔[۱۳]
انصاف
جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک سات سال تھی تو ایک دن آپ نے اپنی دائی حلیمہ سعدیہ سے پوچھا : میرے بھائی کہاں ہیں [ چونکہ آپ جناب حلیمہ کے گھر میں رہتے تھے اور جناب حلیمہ کے بیٹوں کو اپنا بھائی سمجھتے تھے ] حلیمہ نے جواب دیا: بیٹا! وہ ان بھیڑ بکریوں کو لے کر چراگاہ گئے ہیں جنہیں خدا وند عالم نے آپ کے وجود کی برکت سے ہمیں عطا کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: مادر گرامی! آپ نے میرے سلسلے میں انصاف سے کام نہیں لیا ۔ ماں نے پوچھا : کیوں؟ فرمایا: کیا مناسب ہے کہ میں گھر کی چھت کے سائے میں رہوں اور دودھ پیوں جبکہ میرے بھائی جنگلوں اور صحراوں کی تپتی دھوپ میں جائیں؟[۱۴]۔
زندگی کے ابتدائی سال
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں جب مکہ کے اطراف میں سرزمین " اجیاد" میں چوپانی کرتے تھے تو خلوت اور تنہائی سے مانوس ہو جاتے تھے، صحراوں کے سناٹوں میں گھنٹوں محو تفکر رہتے تھے اور اپنے وجود اور زندگی کے بارے میں سوچتے تھے۔ آپ اپنے قوم و قبیلہ کی دنیا سے ہٹ کر ایک دوسری دنیا میں جیتے تھے، کبھی بھی ان کے لہو ولعب کی مجلسوں میں شریک نہیں ہوتے تھے اور ان پروگراموں میں جو بتوں کی مناسبتوں سے منعقد ہوتے تھے کبھی حصہ نہیں لیتے تھے۔ اور اس قربانی کے گوشت کو چکھتے تک نہیں تھے جسے بتوں کے لیے قربانی کیا جاتا تھا[۱۵]۔ آپ کے طائر تفکر کی سیر توحید حق کی فضا میں ہوتی اور اس کے ماسوا کی الوہیت کی نفی پر تمام ہوتی۔ آپ بتوں سے متنفر رہتے تھے اور فرماتے تھے:" کسی چیز سے میں اتنی دشمنی نہیں رکھتا جتنی ان بتوں سے رکھتا ہوں۔" [۱۶]۔
بچوں کو اہمیت دینا
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ مسلمانوں کے ساتھ نماز ظہر جماعت سے پڑھ رہے تھے، لیکن معمول کے برخلاف آنحضرت نے آخری دو رکعتوں کو بہت جلدی تمام کر دیا۔ نماز کے بعد لوگوں نے آپ سے پوچھا : یا رسول اللہ ! کیا ہوا ؟ کوئی حادثہ پیش آیا ہے کہ اتنا جلدی نماز تمام کر دی؟ آپ نے فرمایا: " ما سمعتم صراخ الصبی" تم نے بچے کے رونے کی آواز نہیں سنی تھی؟[۱۷]
کنجوسی کی مخالفت
ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کعبے کے طواف میں مشغول تھے کہ اتنے میں ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ کعبے کا پردہ پکڑ کر کہہ رہا ہے: خدایا! تجھے اس گھر کی حرمت کی قسم مجھے بخش دے۔
آپ نے اس سے پوچھا: کیا گناہ کیا ہے؟
کہا: میں ایک مالدار آدمی ہوں۔ جب کوئی فقیر میری طرف آتا ہے اور مجھ سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے تو میرے بدن میں آگ لگ جاتی ہے ۔
آپ نے اس سے فرمایا: مجھ سے دور ہو جا، مجھے اپنی آگ میں مت جلا۔
اس کے بعد فرمایا: اگر تم رکن اور مقام کے درمیان دو ہزار رکعتیں نماز پڑھو اور اتنا گریہ کرو کہ اشکوں سے نہریں جاری ہو جائیں لیکن کنجوسی کی خصلت کے ساتھ مر جاو تو اہل جہنم کے ساتھ محشورہو گے۔[۱۸]
قرض کی ادائیگی
ایک دن ایک شخص کا جنازہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے حضور میں لایا گیا تاکہ آپ اس پر نماز جنازہ ادا کریں ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: تم لوگ اس پر نماز پڑھو میں نہیں پڑھوں گا۔
اصحاب نے کہا: یا رسول اللہ ! آپ کیوں نماز جنازہ نہیں پڑھائیں گے؟
فرمایا: اس لیے کہ یہ آدمی لوگوں کا مقروض ہے۔
ابو قتادہ نے آگے بڑھ کر کہا: میں اس کے قرض کا ضامن ہوں ۔
فرمایا: تم اس کا سارا قرض ادا کرو گے؟
ابو قتادہ نے کہا: جی ہاں یا رسول اللہ! میں اس کا پورا قرض ادا کروں گا۔ اس کے بعد پیغمبر اسلام(ص) نے اس شخص کی میت پر نماز جنازہ ادا کی۔
ابو قتادہ کا کہنا ہے: اس شخص کا قرض سترہ یا اٹھارہ درہم تھا۔[۱۹]
اولاد کے ساتھ مساوی سلوک
ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے دیکھا کہ ایک آدمی نے اپنے ایک بیٹے کا بوسہ لیا اور دوسرے کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔
پیغمبر اکرم (ص)نے ناراضگی کی حالت میں اس سے فرمایا: کیوں تم نے دونوں بیٹوں کے درمیان امتیازی سلوک کیا اور دونوں کے ساتھ ایک جیسا برتاو نہیں کیا؟[۲۰]
گالیوں کے مقابلے میں خاموشی
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ایک گروہ کے پاس سے گزرے جن میں کا ایک شخص بہت بھاری پتھر اٹھا کر اپنی شجاعت اور بہادری کے جوہر دکھلا رہا تھا اور لوگ اس کے اطراف میں جمع ہو کراس کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ آنحضرت نے ان سے فرمایا: یہاں کیا ہو رہا ہے؟ عرض کیا: یہ آدمی بھاری پتھر اٹھا کر اپنی شجاعت دکھلا رہا ہے۔ فرمایا: کیا تم لوگ چاہتے ہو میں تمہیں ایک شخص کی خبر دوں جو اس سے زیادہ شجاع ہے۔ عرض کیا: جی ہاں یا رسول اللہ! فرمایا: وہ شخص جس کو سامنے والا گالیاں دے رہا ہو اور وہ خاموشی سے سنتا رہے، اسے برداشت کرے اور اپنے نفس اور شیطان پر قابو پا لے وہ اس سے زیادہ شجاع ہے [۲۱]
مومن کے احترام کے لیے کھڑا ہونا
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی وارد ہوا۔ آنحضرت اس کے احترام میں کھڑے ہو گئے ۔ اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ ! جگہ کافی ہے آپ کیوں کھڑے ہوئے ہیں؟ فرمایا: ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ جب وہ اس کے پاس بیٹھنے کے لیے آئے تووہ اپنی جگہ اس کو دے دے۔ [۲۲]
مزدورں کے ہاتھ کا بوسہ دینا
جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ جنگ تبوک سے واپس لوٹ رہے تھے تو سعد انصاری آپ کے استقبال کے لیے گئے، نبی اکرم(ص) نے انکے ساتھ مصافحہ کیا اور جب اپنا ہاتھ انکے ہاتھ میں دیا تو فرمایا: تمہارے ہاتھ اتنے کھردھرے کیوں ہیں؟ کہا : یا رسول اللہ ! میں کلہاڑی اور بیلچے سے کام کرتا ہوں اور اپنے گھر والوں کے لیے روزی مہیا کرتا ہوں۔ رسول خدا(ص) نے سعد کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور فرمایا: یہ وہ ہاتھ ہے جس تک آتش جہنم کی حرارت نہیں پہنچے گی۔ [۲۳]
دنیا کی نسبت بی رغبتی
سہل بن سعد ساعدی کا کہنا ہے: ایک آدمی نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں حاضر ہو کرعرض کیا: یا رسول اللہ ! مجھے ایسے عمل کی تعلیم دیجئے جب میں اسے انجام دوں تو خدا اور اس کی مخلوق کا محبوب قرار پاوں۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا: دنیا سے بے رغبت ہو جاو تاکہ خدا تمہیں دوست رکھے اور جو کچھ مال دنیا تمہارے پاس ہے اسے لوگوں کے درمیان تقسیم کر دو تاکہ لوگ تم سے راضی ہو جائیں۔[۲۴]
عورتوں کا جہاد
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ایک دن جہاد اور مجاہدین کے ثواب کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے ایک عورت نے کھڑے ہو کر پوچھا :یا رسول اللہ(ص)! کیا عورتوں کے لیے بھی یہ فضیلتیں ہیں ؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا: ہاں، اس دن سے لے کر جب عورتیں حاملہ ہوتی ہیں اس دن تک جب تک بچہ دودھ پیتا رہتا ہے عورتوں کو خداوند عالم مجاہدین کا ثواب عنایت کرتا ہے اور اگر اس درمیان ان کو موت آ جائے تو ان کا مقام شہید کے مقام جیسا ہے۔[۲۵]
مومن کی نماز کا ثواب
ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ مسکراتے ہوئے آسمان کی طرف نگاہ کر رہے تھے ایک آدمی نے اس کی وجہ پوچھی۔ آنحضرت نے جواب میں فرمایا: میں نے آسمان کی طرف نگاہ کی، دیکھا کہ دو فرشتے زمین کی طرف آ رہے ہیں، تاکہ ایک اللہ کے مومن بندے کی دن و رات کی نمازوں اور عبادتوں کو لکھیں۔ لیکن اس کو نماز کی جگہ نہیں پایا، بلکہ اسے بیماری کے بستر پر پایا، وہ آسمان کی طرف واپس چلے گئے اور بارگاہ خدا وندی میں عرض کیا: ہم معمول کے مطابق اس بندہ مومن کی عبادتگاہ میں اس کی عبادتوں کا ثواب لکھنے گئے لیکن اسے وہاں نہیں پایا بلکہ وہ بستر بیماری پر آرام کر رہا تھا۔ خداوند عالم نے ان فرشتوں سے فرمایا: جب تک وہ بیماری کے بستر پر ہے اس کے لیے وہی ثواب لکھو جواس کے لیے اس وقت لکھتے تھے جب وہ صحت کے عالم میں اپنی عبادتگاہ میں نمازیں پڑھتا تھا اور مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کے نیک اعمال کا ثواب اس وقت تک لکھتا رہوں جب تک وہ بیماری کے بستر پر ہے۔ [۲۶]
مشرک ماں کے ساتھ صلہ رحم
اسماء بنت ابو بکر کہتی ہیں: میری ماں میرے پاس آئی، میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ سے پوچھا : میری ماں مشرک عورت ہے اور میرے پاس آتی رہتی ہے کیا میں اس کے ساتھ رابطہ اور صلہ رحم باقی رکھوں۔ فرمایا: کیوں نہیں۔ [۲۷]
نماز کی تاثیر
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : ایک دن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نماز کی انتظار میں مسجد میں پیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! میں نے ایک گناہ کیا ہے اس کی مغفرت کے لیے کیا کروں؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی طرف سے رخ موڑ لیا۔ جب نماز تمام ہو گئی تو وہ آدمی دوبارہ اٹھا اور اس نے اپنا سوال تکرار کیا۔ رسول خدا (ص) نے اس کے جواب میں فرمایا: کیا تم نے ابھی نماز ادا نہیں کی، کیا اس کے لیے اچھے طریقے سے وضو نہیں کیا؟ عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہ! فرمایا: یہی نماز، تمہارے گناہوں کا کفارہ اور ان کی بخشش کا سبب ہے۔[۲۸]
تحفہ
ابن عباس ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور مہاجرین اور انصار کا ایک گروہ بھی مجلس میں حاضر تھا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: جو شخص بازار جائے اور اپنے اہل و عیال کے لیے تحفہ و تحائف خریدے وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے محتاجوں کو صدقہ دیا ہے۔ اور نیز فرمایا: کھانا، پھل، اور دیگر تحائف تقسیم کرتے وقت سب سے پہلے لڑکیوں کو دو اس کے بعد لڑکوں کو۔ یقینا جو شخص اپنی لڑکی کو خوش رکھے گا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے بنی اسماعیل میں سے ایک غلام کو آزاد کیا ہو اور جو شخص اپنے بیٹے کو رونے سے چپ کروائے اور اسے کچھ دے کر خوش کرے وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے خدا کے خوف سے گریہ کیا ہے اور جوشخص خوف خدا کی وجہ سے گریہ کرے خداوند عالم اس کو جنت میں داخل کر دیتا ہے۔ [۲۹]
تعلیم اور تعلم
ایک دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے۔ آپ کی نگاہ دو گرہوں پر پڑی جن میں سے ایک گروہ عبادت میں مشغول تھا اور دوسرا علمی مباحثہ کر رہا تھا آنحضرت دونوں گروہوں کو دیکھ کر مسرور ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا: یہ دونوں گروہ نیک کام کر رہے ہیں اور خیر اور سعادت پر ہیں۔ لیکن میں لوگوں کو علم سکھانے کے لیے مبعوث ہوا ہوں ۔ یہ بات کہہ کر آپ اس گروہ میں شامل ہو گئے جو علمی گفتگو میں مشغول تھا ۔[۳۰]
جسمانی تنبیہ
ابو مسعود انصاری کہتے ہیں: میرا ایک غلام تھا جس کی میں پٹائی کرتا تھا ایک دن میں نے پیٹھ کے پیچھے سے ایک آواز سنی کہ کوئی کہہ رہا تھا: ابو مسعود ! خدا نے تمہیں اس پر قدرت دی ہے ( اور اسے تمہار غلام بنایا ہے) ۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ ہیں۔ میں نے رسول خدا (ص) سے عرض کیا: میں نے اسے راہ خدا میں آزاد کر دیا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر تم اس کام کو انجام نہ دیتے تو آگ کا شعلہ تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔[۳۱]
دوسروں کی طرف توجہ
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی طرف رخ کرتے تھے تو پورے بدن کے ساتھ اس کی طرف مڑتے تھے، اور کسی پر ظلم و جفا نہیں کرتے تھے اور سامنے والے کی معذرت خواہی کو فورا قبول کرتے تھے۔[۳۲]
کام کا ثواب
ایک سفر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعض اصحاب روزہ سے تھے شدید گرمی کی وجہ سے بے حال ہو کر ایک جگہ کونے میں پڑے ہوئے تھے اور باقی والے خیمہ لگانے، جانوروں کوسیراب کرنے اور دیگر کاموں میں مشغول تھے ۔ آنحضرت نے فرمایا: تمام ثواب ان لوگوں کا ہے جو ان کاموں میں مشغول ہیں۔[۳۳]
سلام کا جواب
ایک شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کو ’’ السلام علیکم‘‘ کہا، آپ نے جواب میں ’’علیکم السلام و رحمۃ اللہ ‘‘کہا۔ دوسرا شخص آیا اس نے ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ ‘‘کہا آپ نے اس کے جواب میں ’’علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘ کہا۔ تیسرا شخص آیا اس نے سلام میں ’’ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘کہا آنحضرت نے جواب میں صرف’ علیک‘‘ کہا۔ اس شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ نے میرا جواب اتنا کم دیا ہے مگر اللہ کا فرمان نہیں ہے کہ جو تمہیں سلام کرے اسے بہتر طریقہ سے جواب دو؟۔آنحضرت نے فرمایا: تم نے میرے لیے اس سے بہتر جواب کے لیے کوئی چیز باقی نہیں چھوڑی۔ لہذا مجھے تمہارے ہی سلام کو واپس لوٹانا پڑا۔[۳۴]
جوانوں کی قدر کرنا
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ثقافتی، سماجی اور لشکری ذمہ داریوں میں سے سخت ترین ذمہ داریاں ہمیشہ جوانوں کو سونپا کرتے تھے۔ پیغمبر اسلام (ص) کے مدینہ ہجرت کرنے سے پہلے آپ نے مصعب بن عمیر کو جو ایک نوجوان تھا ثقافتی اور تبلیغی فعالیتوں کی انجام دہی کے لیے مدینہ بھیجا اور یہی نوجوان جنگ بدر میں لشکر اسلام کا علمبردار اور سپہ سالار بھی رہا کہ جنگ احد میں شجاعانہ جنگ کے بعد شہید ہو گیا۔[۳۵]
علی علیہ السلام کی محبت
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: شب معراج جب مجھے آسمان پر لے جارہے تھے تو جس مقام پر بھی پہنچتا تھا فرشتوں کا ایک ایک گروہ خوشی اور مسرت کے ساتھ مجھ سے ملاقات کے لیےآتا تھا، یہاں تک کہ جبرائیل بھی کچھ ملائکہ کے ساتھ میرا استقبال کرنے آئے اس دن جبرائیل نے نہایت اچھی بات کہی۔ کہا: اگر آپ کی امت علی کی محبت پر جمع ہو جاتی تو خدا وند عالم جہنم کو خلق ہی نہ کرتا۔[۳۶]
حسن معاشرت
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے لباس اور جوتوں کو خود سیتے تھے اپنی گوسفندوں کا دودھ خود نکالتے تھے غلاموں کے ساتھ کھانا کھاتے تھے زمین پر بیٹھتے تھے بغیر کسی شرم و حیا کے اپنے گھر کی چیزوں کو بازار سے خرید کر لاتے تھے اور مصافحہ کے وقت اپنا ہاتھ پہلے نہیں کھینچتے تھے ہر کسی کو سلام کرتے تھے چاہے چھوٹا ہو یا بڑا فقیر ہو یا امیر۔ اگر کوئی دعوت کرتا تھا تو اسکی دعوت کو قبول کرتے تھے اور اسے ہلکا شمار نہیں کرتے تھے چاہے چند خرما پر ہی دعوت کیوں نہ ہو۔
آپ کی زندگی کا خرچ بہت کم تھا آپ کے اندر سادہ زیستی اور میانہ روی پائی جاتی تھی، آپ خوش مزاج اور خشاش بشاش چہرے کے مالک تھے، کبھی ٹھاٹھیں مار کر نہیں ہنستے تھے لیکن ہمیشہ مسکراہٹ آپ کے چہرے پر رہتی تھی، کبھی غصہ نہیں ہوتے تھے البتہ معمولی سا غم ان کے چہرہ پر نظر آتا تھا۔ منکسر المزاجی آپ کی طبیعت میں تھی۔ اسراف سے پرہیز کرتے تھے لیکن سخی تھے تمام مسلمانوں کے ساتھ مہربان رہتے تھے۔[۳۷]
حضرت خدیجہ
جیسا کہ تاریخ میں منقول ہے حضرت خدیجہ(س) پندرہ سال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑی تھیں ان کی وفات کے بعد جب بھی کوئی ان کا تذکرہ ہوتا تھا تو پیغمبر اکرم ایک خاص تعظیم کے ساتھ انہیں یاد کرتے تھے اور کبھی کبھی ان کی یاد سے آپ کی آنکھوں سے اشک بھی جاری ہو جاتے تھے کہ جس کی وجہ سے عائشہ ناراض ہو جاتی تھی۔ ایک جگہ پیغمبر اکرم(ص) جناب خدیجہ(س) کے بارے میں فرماتے ہیں : بیشک میں خدیجہ کو اپنی امت کی خواتین پر برتری دیتا ہوں جس طریقے سے مریم کو خواتین عالم پر برتری دی گئی ہے۔ خدا کی قسم خدیجہ کے بعد کسی نے ان کی جگہ نہیں لی۔[۳۸]
پیدل چلنے والے کا حق
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب خود سوار ہوتے تھے تو اپنے ساتھ چلنےوالے کو پیدل چلنے کی اجازت نہیں دیتے تھے یا اسے اپنے ساتھ سوار کر لیتے تھے اور اگر وہ قبول نہیں کرتا تھا تو اسے آگے بھیج دیتے تھے تاکہ وہ آگے جا کر کچھ دیر آرام کر لے۔[۳۹]
بیٹے کا حق
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ سے پو چھا: بیٹے کا حق کیا ہے؟
آنحضرت نے فرمایا: اس کا اچھا نام انتخاب کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو اور اس کے بعد اس کے لیے اچھا اور مناسب کام تلاش کرو۔[۴۰]
حرام و حلال
ایک عرب رسول خدا(ص) کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور عرض کیا:
یا رسول اللہ ! خدا سے دعا کیجیے کہ ہماری دعا قبول کرے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری دعا قبول ہو تو حلال راستے سے روزی کماو، اپنےمال کو پاک کرو اور حرام کو پیٹ میں مت بھرو۔[۴۱]
بردباری
انس بن مالک کہتے ہیں: میں دس سال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں تھا۔ کبھی آپ نے یہ نہیں فرمایا:ایسا کیوں کیا ویسا کیوں نہیں کیا؟ نیز انس سے منقول ہے کہ: میں نے کئی سال رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی خدمت کی ہے کبھی انہوں نے مجھے برا بھلا نہیں کہا۔ کبھی مجھے مارا پیٹا نہیں۔ کبھی مجھے خود سے دور نہیں کیا۔ اور کبھی مجھے ڈانٹا جھپٹا نہیں اور کبھی مجھے کسی کام کی نسبت میری سستی اور کاہلی کی بنا پر اونچی آواز سے پکارا نہیں۔ اور اگر ان کے خاندان میں سے کوئی مجھ پر غصہ کرتا تھا تو آنحضرت فرماتے تھے: رہنے دو، جو مقدّر میں ہوگا ملے گا۔[۴۲]
حمد و ثنا
جب کبھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خوشی کی خبر دیتا تھا تو آپ فرماتے تھے: ’’ الحمد للہ علی کل نعمۃ‘‘۔ اور جب غم و اندوہ کی خبر ملتی تھی تو فرماتے تھے:’’ الحمد للہ علی کل حال‘‘ خلاصہ یہ کہ آپ ہر حال میں اپنے پروردگار کی حمد و ثنا کرتے تھے۔ [۴۳]
غصہ
ایک دن ایک شخص پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:کچھ مجھے تعلیم کریں تاکہ خدا مجھے بخش دے اور مختصر بتائیں تاکہ میں حفظ کر سکوں ۔ فرمایا: غصہ مت کرو۔ عرض کیا : یا رسول اللہ! وہ چیز مجھے تعلیم دیں جو میرے لیے فائدہ مند ہو اور جتنا وہ اپنی بات کی تکرار کرتا گیا آنحضرت اس کو جواب میں یہی کلمہ فرماتے رہے : غصہ مت کرو۔ [۴۴]
سونا
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نیند سے اٹھنے کے بعد سجدہ کرتے تھے اور اس دعا کو پڑھتے تھے : ’’الحمد للہ بعثنی من مرقدی ھذا و لو شاء لجعلہ الی یوم القیمۃ‘‘۔ شکر اس خدا کا جس نے مجھے میرے بستر سے اٹھایا، اگر وہ چاہتا تو قیامت تک مجھے میرے بستر پر لٹائے رکھتا‘‘۔ نیز آپ سونے سے پہلے اور اٹھنے کے بعد مسواک کرتے تھے۔[۴۵]
خود بینی
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے پاس ایک شخص کی بہت تعریف کی گئی، ایک دن وہ آدمی خود پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوا اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! یہ وہ شخص ہے جس کی اس دن تعریف کی گئی تھی۔ آنحضرت (ص) نے فرمایا: میں تو اس کے چہرے میں شیطان کی سیاہی دیکھ رہا ہوں ۔ وہ نزدیک آیا اوراس نے پیغمبر کو سلام کیا۔
پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: تجھے قسم ہے خدا کی کیا تو نے خود سے نہیں کہا کہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں ہے؟
اس نے جواب دیا: جی ہاں، ایسا ہی کہا تھا جیسا آپ نے فرمایا ہے۔ [۴۶]
کھانا کھانا
عمر بن ابی سلمہ، زوجہ رسول ام سلمہ کے بیٹے کا کہنا ہے: ایک دن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا میں تھالی کے اطراف سے لقمہ اٹھا رہا تھا رسول اکرم (ص) نے مجھ سے فرمایا: اپنے سامنے سے لقمہ اٹھاو ۔ [۴۷]
دار النصرۃ
عبد اللہ بن جزعان کہ جو ایک فقیر اور بوڑھا آدمی تھا گھر بنا رہا تھا، پیغمبر اسلام (ص) کا سن مبارک اس وقت سات سال تھا آپ نے بچوں کو اکٹھا کیا اور عبد اللہ کی مدد کی تاکہ اس کا گھر بن جائے۔ اس کے بعد اس گھر کا آپ نے دار النصرۃ نام رکھا اور کچھ لوگوں کو مظلوموں کی مدد کرنے کے لیے معین کیا۔[۴۸]
حوالہ جات :
[1] حمید رضا کفاش،۱۲۰ درس زندگی از سیرہ پیغمبر [ص]، ص۱۶۔
[۲] بحار الانوار، ج۱۶، ص۲۳۶ سے ۲۴۶ تک۔
[۳] بحار الانوار، ج۱۶،ص۱۵۲۔
[۴] وسائل الشیعہ، ج ۱۱، ص۴۲۴
[۵] سفینۃ البحار، مادہ جور، ص ۱۹۰ با نقل از امام محمد باقر علیہ السلام۔
[۶] بحار الانوار،ج۱،ص۲۰۴۔
[۷] ۱۲۰ درس زندگی، حمید رضا کفاش،ص۲۰
[۸] بحار الانوار، ۲۸۵/۴۳ح۵۱، مناقب اب شھر آشوب،۳۸۸/۳۔
[۸] بیست و پنج اصل از اصول اخلاقی امامان،ص۷۹۔
[۹] سفینۃ البحار، مادہ امن۔
[۱۰] بحار الانوار، ج۱۰۰، ص۹۔
[۱۱] صحیح بخاری، ج۵،ص۱۵۲۔
[۱۲] صحیح بخاری، ج۵، ص ۳۳۰۔
[۱۳] منتھی الامال، ج۱، ص۲۳۔
[۱۴] بحار الانوار، ۳۷۶/۱۵۔
[۱۵] سیرہ احمد زینی۔ص۹۵۔
[۱۶] سیرہ حلبی، ج۱،ص۲۷۰۔
[۱۷] فروغ کافی، ج ۶، ص۴۸۔
[۱۸] جامع السعادات، علامہ نراقی،ج ۲،ص۱۵۴۔
[۱۹] مستدرک الوسائل: ج۱۳، ص۴۰۴۔
[۲۰] بحار الانوار، ج۱۰۴،ص۹۷ ح۶۱
[۲۱] مجموعہ ورام،ص ۳۴۰۔
[۲۲] بحار الانوار،ج ۱۶،ص۲۴۰۔
[۲۳] اسد الغابہ؛ ج ۲،ص۲۶۹۔
[۲۴] سنن ابن ماجہ، ج۲، ص ۱۳۷۴۔
[۲۵] من لا یحضر الفقیہ، ج۳،ص۵۶۱۔
[۲۶] فروع کافی، ج۱، ص۳۱۔
[۲۷] محجۃ البیضاء، ج۳،ص۴۲۹
[۲۸] بحار الانوار، ج ۷۲، ص۳۱۹۔
[۲۹] تحفۃ الواعظین، ج ۶ص ۱۰۹، نقل از وسائل الشیعہ، ج۷، ص۲۲۷۔
[۳۱] بحار الانوار،۱۴۲ْ۷۴،ح۱۲۔
[۳۲] بحار الانوار،ج۱۶،ص۲۲۸۔
[۳۳] صحیح مسلم،ج۳،ص۱۴۴۔
[۳۴] تفسیر المیزان،ج۵،ص۲۳بہ نقل از تفسیر صافی۔
[۳۵] بحار الانوار،ج۶، ص ۴۰۵۔
[۳۶] بحار الانوار، ج۴۰، ص۳۵۔
[۳۷] سنن النبی، ص۴۱،ھ ۵۲،
[۳۸] الزوائد، ج۹،ص۲۱۳۔
[۳۹] سنن النبی، ص۵۰،ح ۶۸ از مکارم الاخلاق ، ج۱، ص۲۲۔
[۴۰] وسائل الشیعہ، ج۱۵ص۱۹۸،ح۱۔
[۴۱] سینۃ البحار، ج۱، ص۴۴۸۔
[۴۲] حمید رضا کفاش، ۱۲۰ درس زندگی پیامبر اکرم۔ص۴۶۔
[۴۳] اصول کافی، ج۱، ص ۴۹۰۔۵۰۳ ۔
[۴۴] سنن بیہقی، ج ۱۰، ص۱۰۵۔
[۴۵] بحار الانوار،ج ۷۳،ص ۲۰۲۔
[۴۶] محجۃ البیضاء، ج۶، ص۲۴۰۔
[۴۷] صحیح بخاری، ج۷،ص۸۸۔
[۴۸] حیاۃ القلوب،ج۲،ص۶۷۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: جعفری