حقوق النبی

Rate this item
(2 votes)

حقوق النبی

محسن انسانیت ، رسول مقبول ، حضرت محمد ۖانسانیت کے لیے واحد سہارا ہیں جن کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کو مشعل راہ بنا کر عصر حاضر میں انسان انفرادی اور سماجی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں اس مقصد کے لیے آپۖکی عظمت و رفعت ،برتری و بزرگی کو دل وجان سے تسلیم کر نے کے ساتھ ساتھ آپۖ کی حقوقی شخصیت کی معرفت حاصل کرنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی ضرور ت ہے ۔ مقامہ بعنوان ''حقوق النبی ۖ ''میں قرآن و سنت اور عقل کی روشنی میں ان حقوق نبی ۖکا جائزہ لیا گیا ہے جن کی ادائیگی تمام انسانوں پر با لعموم اور امت مسلمہ پر بالخصوص لازم ہے ان میں سے بعض اہم حقوق زیر بحث لا ئے گئے ہیں :

١۔معرفت نبی ۖ، ٢۔حّب نبی ۖ، ٣۔اطاعت و اتباع نبی ۖ ،

٤۔توقیر واکرم نبی ۖ ٥۔ آپۖ پر جھوٹ نہ بولنا، ٦۔آپ ۖ پر درود بھیجنا ،

قرآن و سنت کی رو سے انسانوں پر بالعموم اور امت مسلمہ پر بالخصوص محسنِ انسانیت ،رسول مقبول ،خاتم النبین ، رحمة للعالمین حضرت محمد ۖ کے کچھ حقوق ثابت ہیں جن کی ادائیگی ان پر لازم ہے اور یہ عقیدہ تو حید اور عقیدۂ رسالت کا بنیادی تقاضا بھی ہے ، یہ آپ ۖ کی خصوصیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میںجہاں آپۖ کی عظمت اور آپۖ کے خلق عظیم کو بیان کیا ہے وہاں حقوق نبی کا بھی تذکر ہ کیا ہے ،ان میں سے بعض اہم حقوق درج ذیل ہیں ۔

١۔معرفت نبی ۖ ٢۔حّب نبی ۖ ٣۔اطاعت و اتباع نبی ۖ

٤۔تعظیم واکرم نبی ۖ ٥۔آپۖ پر جھوٹ نہ بولنا ٦۔آپ ۖ پر درود بھیجنا

پہلا حق :

معرفتِ نبی ۖ :

سب سے پہلے ضروری ہے کہ پیغمبر ِاسلام کی معرفت حاصل کی جائے کیونکہ باقی حقوق کی ادائیگی اسی پر موقوف ہے جیسے کسی کے بارے میں معرفت ہوتی ہے اس طرح اس کے بارے میںعقیدہ اور عمل ہو تا ہے ،البتہ اس مقام پر اس بات کا اعتراف کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ ا گر رسول گرامی ۖکی معرفت کا ملہ کا حصول نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔

ا س کی وجہ یہ ہے کہ آپۖ کی معرفت کا ملہ اس وقت حاصل ہو گی جب آپ ۖ کے تما م شؤون (حیثیتوں ) سے پوری آگاہی حاصل ہو جو کہ اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ،بعض شؤون نبی درج ذیل ہیں ۔

دنیوی ۔اخروی ظاہری ۔باطنی

جسمانی ۔عقلانی ۔روحانی قرآن مجید اور باقی آسمانی کتب میں

یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی انسان آپۖ کی معرفت کا ملہ کا دعوایدار نہیں ہے۔معرفت نبی ۖکے (Sources)درج ذیل ہیں :

١۔قرآن مجید ٢۔دیگر آسمانی کتب ٣۔سنت رسول ۖ ٤۔اقوال اہل بیت

٥۔اقوال امھات المومنین ٦۔اقوال صحابہ کرام رضی اللہ عنہ٧۔مسلمان مفکرین کی آراء ٨۔غیر مسلم مفکرین کی آرائ

قرآن وحدیث کی روشنی میں آپۖ کی اجمالی معرفت کے درج ذیل پہلو ہیں ۔

(الف )ختم نبوت :

آپۖ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ورسول ہیں۔ ختم نبوت پر امت مسلمہ کا اجماع ہے ،ارشاد الٰہی ہے :

''مَا کَانَ مُحَمَّد اَبَآ اَ حَدٍمِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ '' ١

''(محمد ۖ)تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کے رسول ۖ اور خاتم النبین ہیں ''

خاتم یعنی مہر جیسے خط کے آخر میں اس کے اختتام کی نشاہدہی کر تی ہے اسی طرح آپۖ وجودِ مبارک تمام انبیاء عظام کے صحیفہ نبوت کے ختم ہو جانے کی گواہی دیتا ہے ،اب اور قیامت تک نہ کو ئی نبی آئے گا اور نہ کو ئی رسول ۖ ، آپۖ کے بعدنزولِ وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا ،البتہ نازل شدہ وحی کی تشریح و تفسیر اور تبیین کی ضرورت کا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ۔

ختم نبوت کا عقیدہ امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری بھی عائد کر تا ہے کہ وہ اب انسانی معاشرہ میں نبوت کا پیغام دوسروں تک پہنچائے اور اپنے قول وفعل سے دوسروں کو ہدایت کر ے ۔علامہ محمد اقبال نے کتنے خوبصورت انداز میں اس ذمہ داری کی تشریح کی ہے ۔

پس خدا برما شریعت ختم کرد بر رسول ما رسالت ختم کرد

رونق از مامحفل ایام را او رسل راختم وما اقوام را

خدمت ساقی گری با ما گذاشت داد ما آخریں جامے کہ داشت

ترجمہ :

خدا نے ہم پر شریعت ختم کر دی ہے (جیسے )رسول اللہ ۖپر رسالت ختم کر دی ہے ، محفلِ ایام (دنیا )کی زینت و رونق ہماری وجہ سے ہے (آپۖ تما م نبیوں اور رسولوں میں سے اکرم و افضل ہیں اور ہم امت مسلمہ تمام امتوں میں سے افضل ہیں)اب اللہ تعالیٰ نے ساقی گری کی خدمت ہم پر چھوڑ دی ہے (اب ہمارا فریضہ دوسری امتوں تک پیغام ہدا یت پہنچانا ہے)اللہ تعالیٰ (ہدایت )کا جو آخری جام بنی نوع انسان کو عطا کرنا چاہتا تھا وہ اس نے ہمیں(قرآن مجید کی شکل میں ) عطافرما دیا ۔

(ب)انسان کامل :

آپ صورت وسیرت ،خلق وخُلق کے لحاظ سے تمام بنی نوع انسان میںبے مثل ہیں ،اللہ تعالیٰ نے آپۖ کو ہر قسم کے عیوب سے پاک و پا کیزہ پیدا کیا ہے ۔

اس واقعیت کا اظہار شاعر ِرسول ۖ ،ثنا خوان نبی حضرت حسان بن ثابت نے یہ کہہ کر کیا ہے :

خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِنْ کُلِّ عَيبٍ کَأَنَّکَٔ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآئُ

آپۖ ہر عیب سے خالی پیدا کیے گئے ہیں گویا آپ ۖکی تخلیق آپ کے منشاء کے مطابق کی گئی ہے

وَاَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَينِیْ وَاَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَائُ

اور آپۖ سے زیادہ حسین میری آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا اور آپۖ سے زیادہ جمیل، عورتوں نے کبھی جنا

شیخ سعدی نے آپ کی اعلیٰ وبرتر شخصیت اور خوبصورت شمائل کے بارے میں فرمایا ہے :

بَلَغَ الْعُلٰی بِکَمَالِہ کَشَفَ الدُّجٰی بِجَماَلِہ

آپۖ اپنے کمال کی طاقت سے بلندیوں پر پہنچے آپۖ کے حسن و جمال سے تاریکیاں چھٹ گئیں

حَسُنَتْ جَمِيعُ خِصَالِہ صَلُّوْ عَلَیہْ وَآلِہ

آپ ۖکے شمائل بہت خوبصورت تھے آپ ۖپر اور آپ ۖکی آل پر درود بھیجو

اس ذیل میں عظیم شاعر حافظ شیرازی نے فرمایا ہے

یاَ صَاحِبَ الْجَمَالِ وَيا سَيدَ البَشَرِ مِنْ وَجْھِکَ الْمُنْیرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرُ

اے صاحب جمال ،اے سیدالبشر! آپ کے چہرہ پر نور سے ہی چاند منورہوا

لاَ ےُمْکَنُ الثَنآ ئُ کَمَا کَانَ حَقُّہ بعد از خدا بزرگ، توئی قصہ مختصر

آپۖ کی ثنا اور نعت کا حق ادا کرنا ممکن نہیں مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے بعد بزرگتر آپۖ ہی کی ذات ہے

(ج)افضل الا نبیا ء والمرسلین :

آپۖ تمام انبیا ء و المرسلین میں سے افضل ہیں اور ا س فضلیت کے کئی اسباب ہیں :

(١)حضرت عیسیٰ ـ نے آپۖ کی آمد کی بشارت دی ہے ،ارشاد ربانی ہے

''وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ ياتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہ اَحْمَدُ ''٢

''جناب عیسیٰ نے بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہو ں تصدیق کرنے والا ہوں اس تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کانام احمد ہے''

اگر پیغمبر اسلام اور دیگر انبیا ء عظام یا حضرت عیسیٰ ـ آپۖکے ہم رتبہ ہو تے تو اس بشارت کی کیا اہمیت رہتی ہے ؟ اسی طرح قرآن مجید میں کئی مقامات پر اور زبور میں بھی آپۖ کی آمد کی بشارت دی گئی ہے ۔

(٢)مخلوق اوَّل :

روایات کی روشنی میں آپ خلقت نوری کے اعتبار سے اولین مخلوق ہیں ،فرمان نبویۖ ہے :

''اول ماخلق اللہ نوری ''

''سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نو ر کو خلق کیا ہے ''

یہ مضمون متعدد، روایات میں آیا ہے ۔٣

(٣)صاحبِ لولاک:

مشہور حدیث قدسی میں ارشاد ربانی ہے :

''لولاک لما خلقت الا فلاک''٤

''اے حبیب اگر آپ نہ ہو تے تو ہم افلا ک یعنی کائنات کو خلق نہ کرتے ''

اس حدیث قدسی کے مطابق آپ وجہِ تخلیق کا ئنات ، مقصودِ کائنات اور اصلِ وجان کائنات ہیں ۔کائنات کی رونق اور عظمت آپۖ کی تشریف آوری کی بدولت ہے ۔علامہ محمد اقبال بھی اسرار و رموز میں فرماتے ہیں

اے ظہور تو شباب زندگی جلوہ ات تعبیر ِخواب زندگی

آپۖ کی تشریف آوری سے زندگی کوشباب نصیب ہوا اورآپۖ کا ظہور خوابِ زندگی کی تعبیر ہے۔

اگر آپۖ کا ظہور نہ ہو تا تو حیات ِکا ئنات کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو تا۔

(٤)مقام نور ی میں پہلے نبی ۖ :

آپۖ مقام نوری میںاس وقت بھی نبی تھے جب حضرت آدم ـ تخلیق کے عمل سے گزر رہے تھے

ارشاد نبوی ہے:

''کُنْتُ نَبِياً وَآدَمُ بَينَ الْمآ ئِ وَالطِّينِ ''

''میں اس وقت نبی تھا جب آدم ـ پانی اور مٹی کے درمیان تھے ''

علامہ اقبال نے بھی کہا ہے :

جلوہ او قدسیاں راسینہ سوز بود اندر آب و گل آدم ہنوز

آپۖ کا جلوہ اس وقت بھی فرشتوں کے سینو ںکو گرما رہا تھا جب حضرت آدم ـپانی اور مٹی کے درمیان تھے

(٥)گزشتہ شرائع منسوخ:

آپۖ کی شریعت کے بعد تمام گزشتہ شرائع منسوخ کی گئیں اور نزول قرآن کریم کے بعد تمام گزشتہ آسمانی کتابیں منسوخ ہو ئیں ،قیامت تک شریعت محمدیہ اور قرآن کی تعلیمات حاکم ہیں۔

دوسرا حق ۔

حبّ نبی ۖ:

امت مسلمہ پر آنحضرت ۖ کا ایک حق آپ ۖ سے حّب اور عشق کا جذبہ ہے ،حّب خدا کے ساتھ حّب نبیۖ ایمان کا تقاضا ہے ، اس کے بغیر ایمان کا مل ہے نہ اتباع ممکن ہے ،حّب نبیۖ دنیا اور آخرت میںکا میابی کا راز ہے،حّب نبی ۖملت مسلمہ کی اجتماعیت کا ایک اہم عامل ہے ،علامہ اقبال نے اس ضمن میںکہا ہے :

دل بہ محبوب حجازی بستد ایم زیں جہت بایک دگر پیوستہ ایم

رشتہ مایک تولایش بس است چشم ما راکیف صہبا یش بس است

عشق او سرمایہ جمعیت است ہمچوں اندر عروق ملت است

عشق درجاں و نسب در پیکر است رشتہ عشق از نسب محکم تر است

ہم نے حجازی محبوب (سرکار دو جہاں حضرت محمد مصطفی ۖ)سے دل لگایا ہے

اسی سبب سے ایک دوسرے کے ساتھ ہمارا (ایمانی ،روحانی) رشتہ جڑگیا ہے

صرف آپۖ کی محبت ہی سے ہمارا باہمی رشتہ ہے

ہماری آنکھ صرف آپۖ کی (محبت )کی شراب سے مست ہے

آپۖ کا عشق ملت کی جمعیت کا سرما یہ ہے

وہ ملت کی رگوں میں خون کی مانند دوڑ رہا ہے

عشق کا تعلق جان سے ہے اور نسب کا بدن سے

اس لیے عشق کا رشتہ نسب سے زیادہ پختہ ہے

حّب نبیۖ سنت الہیہ اور حکم ِ خدا ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔

''قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآ ؤُ کُمْ ۔۔۔۔۔۔وَاللّٰہُ لاَ ےَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِےْنَ ''٥

''اے نبی کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں ،تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظا ر کرو یہاں تک کہ اللہ(تعالیٰ) اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کرتا ''

اس آیت کریمہ میں زیادہ حبّ کو اللہ تعالیٰ اس کے رسول ۖاور جہاد فی سبیل اللہ سے متعلق قرار یا گیا ہے کہ ان تینوں سے مومنین کے دلوں میں محبت زیادہ ہونی چاہیے ،نیز حّب خدا کے ساتھ حّب نبی کا تذکرہ کیا گیا ہے ،اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ یہ بھی ایک بہت بڑا حق ہے۔

اسی طرح ارشاد نبوی ہے :

''عن انس قَال رَسُوْلُۖ اللِٰہ لَا يومِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَيہِ مِنْ وَالِدِہ وَوَلَدِہ وَالنَّاسِ اَجْمَعِينَ ''٦

''حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضور ۖ نے فرمایا : تم میں سے کو ئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اُس کو اس کے باپ اور اولاد اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوں ''

اس مضمون کی حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے ۔

حّب رسول کا حق تب ادا ہو گا جب وہ دنیا کی تمام محبتوں پر غالب آجائے اور آپۖ کو اپنی جان ،اپنی اولاد ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں سے مقدم جانے ۔

ارشاد خداوندی ہے :

''اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ''٧

''نبی اہل ایمان کے لیے ان کی جانوں پر مقدم ہیں ''

اہمیت :

حبّ رسول ۖ کی اہمیت میں یہی کافی ہے کہ یہ حکم خدا،حکم رسول ۖہو نے کے ساتھ ساتھ سیرت اہل بیت ، سیرت صحابہ رضی اللہ عنہم اور سیرت مسلمین بھی ہے ،یہ وہ نسخہ کیمیا ہے جو مسلمان کو سلمان میں بدل دیتا ہے ۔اسی جذبہ محب نبیۖ کی بدولت صدر اسلام کے عرب کس قدر تیزی سے ''اولئک کا لا نعام '' کے مرحلے سے '''کنتم خیر امة'کی منزل پر فائز ہو ئے ،علامہ اقبال نے اسرار و رموزمیں کیا خوب فرمایا ہے :

دل زعشق او توانا میشود خاک ھمدوش ثریا مشود

خاکِ نجد از فیض او چالا ک شدآمد اندر وجد، وبرافلاک شد

در دل مسلم مقام مصطفی است آبروئے مازِ نام مصطفی است

دل آپ ۖ کے عشق وحّب سے قوی ہو تا ہے (یہی وجہ ہے کہ صدر اسلام کے مسلمانوں نے کس قدر حیران کن کا ر نامے سر انجام دئیے) حّب نبی کی بدولت خاک بھی ثریا کے ہمدوش وہم پلہ ہو جاتی ہے ۔نجد کی خاک آپ ۖ کے فیض و برکت سے بلند ہو گئی ۔اس خاک پر وجد کی کیفیت طاری ہو ئی اور وہ آسمان پر جا پہنچی (حقیقی )مسلمان کے دل میں حضرت مصطفی ۖ ہی بستے ہیں ۔ہماری عزت و آبرو آپ ۖ کے نام گرامی کی بدولت ہے (کہ اہم امت محمد یہ کہلا تے ہیں اور امت محمد ۖ کی قرآن کریم میں کس قدر عظمت بیان کی گئی ہے )

قرآن وحدیث کے مطابق کسی بھی شخصیت سے حب رکھنے کے جتنے اسباب ہو سکتے ہیںوہ تمام آپ ۖ کی شخصیت میں موجود ہیں :

صدر ِ اسلام میں حّب نبی ۖ کے بے مثال نمونے :

صدرِ اسلام سے حبّ نبی بے مثال نمونے تاریخ اسلام میں ثبت ہیں کفیل نبی اکرم ۖ حضرت ابو طالب نے حّب نبی ۖ کے سلسلہ میں اپنی،اپنے بیٹوں ،بھائیوں،اور بھتیجوں کی جان پر بھی نبی ۖ کو مقدم رکھا ،آپ ۖ کو اپنی اولاد سے بھی زیادہ عزیر رکھا ۔حّب نبی ۖ کا یہ جذبہ منفرد و بے مثال ہے اسی طرح صحابہ کرام نے بھی حبّ نبی ۖ کی بمثال تاریخ رقم کی ہے۔صلح حدیبہ کے موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی جو قریش کی جانب سے آپ ۖ کے پاس سفیر بن کر آئے تھے اور ابھی وہ مسلمان نہیں ہو ئے تھے انہوں نے حضور ۖسے صحابہ کرام کی محبت وعقیدت کے جو مظاہر دیکھے وہ انہوں نے یوں بیان کیے ہیں ،اے میری قوم ،بخدا میں قیصر وکسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے پاس جا چکا ہوں ،بخدا میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اُس کے ساتھی اتنی تعظیم کر تے ،جتنی محمد ۖ کے ساتھی محمد ۖ کی

کر تے ہیں ،خدا کی قسم ان کے ساتھی محمد ۖ کا لعابِ دہن نیچے نہیں گرنے دیتے بلکہ وہ کسی نہ کسی کی ہتھیلی پر گرتا تھا اور وہ شخص اسے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا تھا اور جب وہ انہیں کوئی حکم دیتے تھے تواس کو بجالا نے کے لیے سب دوڑ پڑتے تھے توسب اپنی آوازیں پست کر لیتے تھے اور زیادہ تعظیم کے سبب وہ آپ کی جا نب نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے ۔٨

اے کاش ! حبّ مصطفی ۖکا یہ جذبہ اگر آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں متحرک ہو جائے توشاید امت مسلمہ کی تقدیر بدل جائے ۔

(١)حسن وجمال:

آپ کے حسن و جمال کی کیا تفسیر کی جا ئے کہ آپۖ ہر قسم کے ظاہری اور باطنی عیب سے پاک ہیں ،جب آپۖ نور ہیں تو نور میں عیب کا تصور ہی کیونکر ہو سکتا ہے ۔

(٢)اخلاق حسنہ :

آپۖ کا اخلاق حسنہ کے مالک تھے آپ ۖ نے اپنی بعثت کامقصد ہی مکارم اخلاق کی تکمیل بتایا ہے ۔

ارشاد نبوی ۖ ہے :

''انما بعثت لا تمم مکارم الاخلاق''

''مجھے اخلاق کر یمہ وحسنہ کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے ''

یقینا آپ ۖ سے پہلے کے انبیا ء عظام نے بھی انسانی اخلاق کے عمدہ نمونے پیش کیے ہیں لیکن اخلاق محمد یہ سے اُن کی تکمیل ہو ئی ہے ،اب آپ ۖ کے اخلاق سے بڑھ کرخلق کی کو ئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی ہے ۔

غور طلب یہ کہ خلق محمدی ۖکی مثالیں بعثت کے بعد کی نہیں ہیں بلکہ بعثت سے پہلے بھی اس وقت کے انسانی معاشرے میں اخلاق حسنہ میں آپ سے بڑھ کر کو ئی نہ تھا ،آپ ۖ کے حسن اخلاق کی شہرت تھی چنانچہ اہل مکہ آپۖ کے اخلاق اور بلند کردار سے متاثر ہو کر آپۖ کو الصادق اور الا مین کے القابات سے پکارتے تھے ۔

آپۖ کے خُلق کی گواہی قرآن مجید نے دی ہے ۔ارشاد الٰہی ہے :

''وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِےْم '' ٩

''اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو ''

(٣)احسان اور حسن سلوک :

آپ ۖ صرف محسن انسانیت نہیں بلکہ رحمة للعالمین ہیں ۔ارشاد ربانی ہے

''وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِےْنَ ''١٠

''ہم نے آپ کو دنیا والوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے ''

رحمة للعالمین ۖ آپ کی خاص صفت ہے ۔آپۖ یقینا عالمین کے لیے سر چشمہ رحمت ہیں ،آپۖ کی رحمت انسانوں میںسے ہر طبقہ کو شامل تھی اورآپ ۖ کا مشہور خطبہ ''حجة الوداع ''آپۖ کے رحمة للعالمین ہو نے کا بین ثبوت ہے یہ انسانی حقوق (Human Rights )کا ایک عالمگیر ،جامع اور اکمل منشور ہے ،مرد،عورتیں ،بچے ،بوڑھے ،یتیم ، مسکین ، آزاد ، غلام ،مسلم یہاں تک کہ غیر مسلم بھی آپ کی رحمت سے محروم نہ رہے ۔غیر ذوی العقول حیوانات ،درخت پرندے ، بھی رحمت محمد ۖیہ سے محروم نہ رہے۔ آپۖ نے انسانوں کے علاوہ جنوں اور ملائکہ کی طرف بھی نظر کرم فرمائی،قرآن مجیدنے (القرآنُ يفَسَّرُ بَعْضُہْ بَعْضًا )کے اصول کے مطابق رحمة للعالمین کی اس طرح تفسیر کی ہے

ارشاد ربانی ہے :

''لَقَدْ جَآ ئَ کُمْ رَسُوْل مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيز عَلَيہِ ۔۔۔۔بِالْمُؤْمِنِينَ رَئُ وْف رَّحِيم '' ١١

''دیکھو تمہارے پاس ایک رسول آیا ے جو خود تم ہی میں سے ہے ۔تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے ،ایمان لا نے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے ''

حضو ر ۖ کس قدر امت کے لیے شفیق و مہربان تھے کہ ہمیشہ امت کی فلاح اور راہ ہدایت پر باقی رہنے کی آپۖ کو فکر رہتی ،اس مقصد کے لیے آپ ۖ نے کتنی تکالیف اٹھائیں ،غار حرا میں خلوت نشینی ،اللہ تعالیٰ کے ''قول ثقیل '' (بھاری کلام ) یعنی قرآن کا بار اٹھانا ،ہجرت ،غزوات و سرایا ،یہ سب کچھ آپ نے ہدایت ِامت کے لیے انجام دیا پھر آپۖ نے اپنے عمل اور وحی خداوندی کے ذریعے ایک ایسی ملت کی تربیت کی جو ''خیر الامم ''کا مصداق بنی ۔

علامہ محمد اقبال نے

مصطفٰی اندر حرا خلوت گزید مدتی جز خویشتن کسی را ندید

نقش مادر دل او ربخشند ملتے از خلو نتش انگیختند

حضرت محمد مصطفٰی ۖنے غار حرا میں خلوت اختیار کی اور ایک مدت تک اپنے سوا کسی کو نہ دیکھا

ہمارا نقش قدرت کی طرف سے حضور اکرم ۖ کے دل میں ڈالا گیا آپ کی خلوت کے اندر سے ایک نئی ملت ابھر ی آپ ۖ کو حیات کے آخری لمحات تک اگر فکر رہی تو امت کی رہی ،اس کے معنی یہ ہیں کہ روحانی ودینی قیادت کو اپنی نہیں بلکہ امت کی فکر رہتی ہے ،صرف موجودہ نہیں بلکہ بعد میں آنے والی نسلوں کی فکر اُسے تڑپاتی ہے آپ ۖ نے وفات سے چار دن پہلے جب کہ آپ سخت تکلیف میں تھے ،اس وقت بھی ہدا یت امت کے سلسلہ میں صحابہ کرام کو حکم دیا ۔

''ھَلُمَّ أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَاباً لَا تَضِلُّوْا بَعْدَہُ ''١٢

'لائو میں تمھیں ایک تحریر لکھ دو ں جس کے بعد تم لو گ گمراہ نہ ہو گے ''

رحمت محمدیہ ۖ سے آپ کے دشمن بھی محروم نہ رہے چنانچہ جنہوں نے آپۖ کے مشن کو قبول نہ کیا ان کے لیے بھی آپ شفیق ورحیم تھے ،یہی وجہ ہے کہ آپۖ نے دشمنوں تک کو بد دعا نہ دی بلکہ اُنہیں ہدایت کی دعا دی ہے ،جنگ اُحد کے موقع پر آپۖنے آپۖ کوزخمی کرنے والوں ،آپۖ کے ایک دانت کو شہید کر نے والوں کے بارے میں بھی بارگاہ خداوندی سے درخواست کی ۔

''اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا يعْلَمُوْنَ '' ١٣

''اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے وہ نہیں جانتی ''

علامہ اقبال نے اسرار و رموز میں رحمت محمدیہ ۖ کی وضاحت میں کہاہے :

لطف و قہر او سراپا رحمتے آں بیاراں ایں باعِدا رحمتے

آں کہ بر عِدا دررحمت گشاد مکہ را پیغام لا تثریب داد

''آپ کی مہربانی اور سختی اور دونوں سراپا رحمت ہیں اور ان کا سر چشمہ رحمت ہے (جیسا کہ اولاد پر والدین کی مہربانی اورسختی ان پر شفقت کی وجہ سے ہو تی ہے) (وہ لطف ومہربانی )دوستوں (صاحبان ایمان )کے لیے اور یہ (سختی و قہر)دوشمنوں کے لیے وہ ذات گرامی کہ جس نے دشمنوں کے لیے بھی رحمت کا دروازہ کھول دیا (فتح مکہ کے موقع پر دشمنوں سے انتقام لینے کی بجائے )مکہ والوں کو لاتثریب علیکم (تمہارے لیے کو ئی سزا نہیں )کا پیغام دیا ''۔

آپۖ کا وجودمقدس صرف مسلمان نہیں بلکہ کفار کے لیے بھی رحمت کا سر چشمہ تھا۔ کفار آپ کی بدولت اجتماعی عذاب سے محفوظ رہے ،ارشاد الٰہی ہے :

''وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِيعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِيھِمْ '' ١٤

''جب تک آپ ان میں موجود ہیں اللہ (تعالی)ان پر عذاب نہیں بھیجے گا ''

اتنے رحیم ،شفیق ومہربان لیڈر کی محبت و عشق کے جذبہ کا تمام انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہو نا فطری ہے ۔مسلمان تو آپۖ کے نام پر جان چھڑکتے ہیں ۔

تیسرا حق۔

اطاعت و اتباع نبی ۖ:

حق معرفت کا تعلق ذہنیت(Mentality) سے ہے۔ حق حّب کا تعلق احساس (Feeling)سے ہے اورحق اطاعت و اتباع کا تعلق عمل (Practice) سے ہے ،پہلے د و حقوق اس لیے ضروری ہیں کہ مومن کے دل میں اطاعت واتباع نبی کامحرّک پیدا ہو ،اگر ایسا محرّک پیدا ہو تا ہے تو معرفت اور حب نبی Activeہیں ورنہ Passiveہیں ۔

اہمیت :

اطاعت اور اتباع نبی ۖ کے بغیر دین خداوندی پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے اور انسان ممکن الوجود ،ممکن الوجود کس طرح بلا واسطہ واجب الو جود سے ہدا یت لے سکتا ہے ،لہذا درمیان میں ایسی ہستیوں کا ہونا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ سے پیغام ہدایت لے کر انسان تک پہنائیں یہ انبیاء ورسل کہلاتے ہیں ،یہ معصوم ہو تے ہیں اور اپنے قول وفعل سے مرضی خدا کی خبر دیتے ہیں اور انسانوں کو اللہ کی طرف سے مقرر کر دہ راستے پر چلنے کی ہدایت و رہنمائی کر تے ہیں۔ نبوت کا سلسلہ حضرت آدم ـ سے شروع ہوا،حضور ۖ پر ختم کر دیا گیا۔ آپۖ کی ذات و گرامی صفات میں آدمیت اور رسالت دونوں اپنے کمال کو پہنچ گئیں ،کیا عظمت ہے ذات ِ مصطفی کی جن کا قول اور فعل اس قدر مرضی خدا کا عکاس اور وحی خداوندی سے متصل ہے کہ خود آپۖ کے قول اور فعل سے دین کی حدود متعین ہو تی ہیں

بہ مصطفی بر ساں خویش را کہ دیں ھمہ است

تو حضرت مصطفیٰ تک خود کو پہنچا (ان کی اطاعت و اتباع کر) کہ حضور ہی مکمل دین ہیں

اگر بہ اومزیدی تمام ابو لبھی است ١٥

اگر تو آنحضرت تک نہیں پہنچتا تو تیرا سارا دین ابو لہب کا دین ہے

طاعتے سر مایہ جمعیتے زحدود مصطفیٰ بیرون مرو١٦

اطاعت شعاری جمعیت (Society)کا سرمایہ ہے آپۖ کے مقرر

کر دہ آئیں کی حدود سے با ہر نہ نکل

اطاعت اور اتباع میں فرق :

اطاعت کا تعلق اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ۖ دونوں سے ہو سکتا ہے جب کہ اتباع کا تعلق صرف رسول اللہ ۖسے ہے۔قرآن مجید میں اتباع نبی کا حکم تو ہے مگر اتباع خدا کا حکم نہیں ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اتباع نقش قدم پر چلنے کا نام ہے جب اللہ تعالیٰ جو جسم و جسمانیات سے منزہ ہے اس کا قدم ہی نہیں تو نقش قدم اس کے لیے ناقابل تصور ہے ۔ اطاعت نبی ۖکے باب میں ارشاد ربانی ہے ۔

''ياٰ اَيھَاالَّذِينَ اٰمَنُوْااَطِيعوُاللّٰہَ وَاَطِيعُواالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِمِنْکُمْ ''٧ ١

''اے صاحبان ایمان ،اطاعت کر و اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور تم میں سے صاحبان امر کی ''

دوسرے مقام پر ارشادفرمایا کہ اطاعت نبی در حقیقت اطاعت خدا ہے ۔

''مَنْ يطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللَّہَ ''١٨

''جس نے رسول کی اطاعت کی بے شک اس نے اللہ کی اطاعت کی ''

اتباع نبی کی اہمیت یہ ہے کہ یہ محبت خدا کی دلیل ہے ۔ارشاد خداوندی ہے

''قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہِ فَاتَّبِعُوْ نِیْ '' ١٩

''اے نبی کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کر ے گا ''

دوسرا فرق اطاعت اور اتباع میں یہ ہے کہ اطاعت اقوال میں ہو تی ہے اور اتباع افعال میں ، اطاعت و اتباع نبی ۖ کے معنی یہ ہیں کہ نبی ۖ کے اقوال (حدیث )اور افعال دونوں حجت ہیں ،اس لیے سنت رسول ۖ میں قول نبی ، فعل نبی اور تقریر نبی ۖ تینوں شامل ہیں ۔آپ ۖ کا قول اور فعل دونوں با ب ہدا یت میںحجت ہیں،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی صحت کی ضمانت دی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

''وَمَا ينْطِقُ عَنِ الْھَوٰیO اِنْ ہُوْ اِلَّا وَحْی يوْحٰی''٢٠

''اور رسول اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتا سوائے وحی کے جو اس پر کی جاتی ہے''

اس آیت کریمہ میں نطق نبیۖ کو وحی خداوندی میں محدودکیا گیا ہے اور یہ اللہ کی طرف سے کلام ِنبی ۖ کی صحت کی سند ہے اسی طرح فعل نبی کی صحت کے بارے میں فرمایا

''وَمَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا''١ ٢

''اورجو کچھ رسول تمہیں د ے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو ''

نیز ارشاد فرمایا :

''لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَة '' ٢٢

''بے شک آپ ۖ کی ذات میں تمہارے لیے بہترین نمونہ موجود ہے ''

اس آیت کریمہ کا تعلق اگرچہ جنگ احزاب سے ہے مگر اس کے الفاظ میں اطلاق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسوہ نبی کو مطلقا نمونہ قرار دیا ہے ،لہذآپ ۖ کی حیات طیبہ (جس میں آپ ۖ کا فعل بھی شامل ہے )زندگی کے ہر شعبہ میںنمونہ عمل ہے۔ ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ ہر شعبہ حیا ت میں آپ کی زندگی کو نمونہ قرار دیں ۔

اطاعت و اتباع نبی کے تقاضے:

١۔ زندگی کے تمام انفرادی ،اجتماعی ،اقتصادی ،سیاسی ،عسکری ،ملکی اور بین الاقوامی مسائل میں آپ ۖ کی تعلیمات پرخلوص دل سے عمل کیا جائے ۔

٢۔ حیات نبی ۖ اور اس کے بعد پیش آنے والے تمام نزاعات اور اختلافات میں تعلیماتِ نبی ۖ کی طرف رجوع کیاجائے اورآپۖ کے حکم کو بلا چوں وچرا مانا جائے ۔

ارشاد ربانی ہے ۔

''فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْ ئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ '' ٣ ٢

''پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میںنزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول ۖ کی طرف پھیر دو ''

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد الٰہی ہے :

''فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ ےُؤْ مِنُوْنَ حَتّٰی يحَکِّمُوْکَ فِےْمَا شَجَرَ بَےْنَھُمْ ثُمَّ لَا يجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيتَ وَيسَلِّمُوْا تَسْلِيمًا ''٢٤

''(اے محمد ۖ )تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک باہمی اختلافات ہیں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ،پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریںبلکہ سر بسر تسلیم کر لیں ''

ایک اور مقام پر ارشاد الٰہی ہے :

''وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہ اَمْرًا اَنْ يّکُوْنَ لَھُمُ الْخِيرَةُ مِنْ اَمْرِ ہِمْ وَمَنْ يعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِينًا''٢٥

''کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اپنے اُس معاملے میں خود فیصلہ کر نے کااختیار باقی رہے ،جو کو ئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہی میں پڑگیا ''

٣۔ آپ ۖ کو (Role Model)اور اسوہ قرار دیا جائے ،اسوہ نبی ہی وہ نسخہ کیمیا ہے جس پر عمل کر کے مسلمان خیر الامم اور دنیا کی سب سے بڑی قوت بن گئے اور اسی کو چھوڑ کر آج مسلمان و افر وسائل ہونے کے باوجود ذلت وخواری میں گرئے ہو ئے ہیں ،آپ ۖ کے اسوہ حسنہ کی پیروی ہی امت مسلمہ کی عظمت رفتہ لو ٹا سکتی ہے۔

تاشعارمصطفی از دست رفت قوم را رمز بقا از دست رفت

حضرت مصطفی ۖکاشعار (شریعت )ہاتھ سے نگل گیا تو قوم حقیقت بقا سے بھی محروم ہو گئی ۔٢٦

٤۔ فہم دین میںحدیث نبوی کو قرآن مجید کے بعد دوسرا مصدر شریعت تسلیم کیا جا ئے جیسا کہ متفق علیہ بین المسلمین ہے کہ قرآن مجید کے بعد دوسرا ماخذ شریعت سنت رسول ۖہے ۔

٥۔ اہل بیت ،امہات المومنین رضی اللہ عنھن اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بارے میں آپۖ کی تعلیمات اور ارشادات پر عمل کیا جائے ۔

نبی کریم ۖ کا احترم دراصل اللہ تعالیٰ کا احترام ہے ،توہین رسالت دراصل توہین توحید و توہین خدا ہے جو کہ یقینا حرام ہے ۔

چوتھا حق ۔

تعظیم و اکرم نبیۖ :

مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ پیار ے نبی ۖکی عزت ،توقیر اور اکرام کو ہرحال میںمدنظر رکھیں اور ہر ایسے قول وفعل سے اجتناب کریں جس سے تصریحا یا اشارة ً و کناےة آپ ۖ کی توہین کاکوئی پہلو نکلتا ہو ،نبی ۖ کا احترام در اصل اللہ تعالیٰ کا احترام ہے۔ تو ہین رسالت در اصل توہین خدا ہے جو کہ یقینا حرام ہے ۔

ناموس رسالت کے سلسلے میں قرآن مجید میں کئی مقامات پر راہنمائی کی گئی ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔

''يا اَيھَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَينَ يدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ سَمِيع عَلِيم ''٢٧

''اے لوگو جو ایمان لا ئے ہو ،اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو ،اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ''

اس آیت کریمہ میں امت مسلمہ کونہی کی صورت میںحکم دیا جا رہا ہے کہ ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ۖ کے حکم اور فیصلہ کو مقدم رکھے، کبھی اپنی رائے اور خیال کو اس پر مقدم نہ رکھے اور نہ ہی حکم خداوحکم رسول کو چھوڑ کر از خود فیصلہ کرے ۔

''یہ حکم مسلمانوں کے محض انفرادی معاملات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کے جملہ اجتماعی معاملات پر بھی اس کا اطلاق ہو تا ہے۔ درحقیقت یہ اسلامی آئین کی بنیادی دفعہ ہے جس کی پابندی سے نہ مسلمانوں کی حکومت آزاد ہو سکتی ہے ،نہ ان کی عدالت اور پا رلیمنٹ ''٢٨

اللہ تعالیٰ نے بار گا ہ رسالت میں حاضر ہونے کا ادب بھی سکھایا ہے ،ارشاد خداوندی ہے :

''يا اَيھَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْھَرُوْ ا لَہ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ''

''اے صاحبان ایمان اپنی آواز نبی کی آواز پر بلند نہ کرو اور نہ نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو ،کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جا ئے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو''٢٩

مولانا مودوی اپنی تفسیر میں بیان کر تے ہیں :

'' دین میں ذات مصطفی کی عظمت کا کیا مقام ہے ،رسول پاک ۖکے سوا کو ئی شخص ، خواہ بجائے خود کتنا ہی قابل احترام ہو ،بہر حال یہ حیثیت نہیں رکھتا کہ اس کے ساتھ بے ادبی خدا کے ہاں اُس سزا کی مستحق ہو جو حقیقت میں کفر کی سزا ہے،وہ زیادہ سے زیادہ ایک بد تمیزی ہے ،خلاف تہذیب حرکت ہے مگر رسول اللہ ۖ کے احترام میں ذرا سی کمی بھی اتنا بڑا گناہ ہے ،کہ اس سے آدمی کی عمر بھر کی کمائی غارت ہو سکتی ہے '' ٣٠

اس کے بر عکس جو صاحبان ایمان مجلس رسول ۖمیں اپنی آواز پست رکھتے ہیں اُن کی قرآن کریم نے مدح کی ہے اور اُن سے اللہ تعالیٰ نے مغفرت واجر کا وعدہ کیا ہے ،ارشاد الٰہی ہے :

''اِنَّ الَّذِينَ يغُضُّوْنَ اَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُولٰئِکَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّہُ قُلُوْبَھُمْ للِتَّقْوٰی لَھُمْ مَّغْفِرَة وَّاَجْر عَظِيم ''٣١

''جو لو گ رسول خدا ۖکے حضور بات کرتے ہو ئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں و ہ در حقیقت وہی لو گ ہیں جن کے دلوں کو اللہ (تعالی )نے تقوی کے لیے جانچ لیا ہے ،اُن کے لیے مغفرت ہے اور اجر عظیم ''

اس ارشاد ربانی کامفہوم یہ ہے کہ جو شخص رسول اللہ ۖ کے حضور میں اونچی آواز سے بولتا ہے ،اپنی آواز پست نہیں رکھتا یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اس کے دل میں رسول اللہ ۖ کا احترام نہیں ہے اور جو دل آپ ۖ کے احترام سے خالی ہے وہ در حقیقت تقویٰ سے خالی ہے ،درحالیکہ تقویٰ ہی قبولیت اعمال کا معیار ہے ۔ارشاد ربانی ہے :

''اِنَّمَا يتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِينَ '' ٣٢

اللہ تعالیٰ نے توقیرِ نبی ۖ کے باب میں لوگوں کو آپۖ سے ملاقات کے طریقہ کی بھی تعلیم دی ہے کہ جب وہ آپ ۖ سے ملنے کے لیے آئیں اور آپ کو موجود نہ پائیں تو پکار پکارآپ ۖ کو بلانے کے بجائے صبر کے ساتھ بیٹھ کر اس وقت کا انتظار کریں جب آپ خود ان سے ملاقات کے لیے باہر تشریف لائیں اور اگر کو ئی اس طریقہ کی خلاف ورزی کر تا ہے تو وہ بے عقل ہے ،ارشاد خداوندی ہے :

''اِنَّ الَّذِينَ يَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرٰاتِ اَکْثَرُ ہُمْ لاَ يعْقِلُوْنَO وَلَوْاَنَّھُمْ صَبَرُوْاحَتّٰی تَخْرُجَ اِلَےْھِمْ لَکَانَ خَيرً الَّھُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْر رَّحِيم '' ٣٣

''اے نبی جو لوگ تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں ، اگر وہ تمہارے برآمد ہونے تک صبر کر تے تو انہی کے لیے بہترتھا اللہ در گزر والا رحیم ہے ''

اکرام نبیۖ کے باب میں اللہ تعالیٰ نے نبی کے گھر میں داخل ہو نے کا ادب بھی بیان کیا ہے،ارشاد خداوندی ہے :

''يا اَ يھَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيوْتَ النَّبِیِّ اِلاَّ اَنْ يؤْذَنَ لَکُمْ اِلٰی طَعَامٍ غَيرَ نٰظِرِينَ اِنٰہُ وَلٰکِنْ اِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْ نِسِينَ لِحَدِيثٍ اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ يؤْ ذِی النَّبِیَّ فَےَستَحْی مِنْکُمْ وَاللّٰہُ لَا يسْتَحْیی مِنَ الْحَقِّ ''٣٤

''اے صاحبان ایمان! نبی کے گھروں میںبلا اجازت نہ چلے آیا کرو ،نہ کھانے تاکتے رہو ،ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلا یا جائے تو ضرور آئو مگر جب کھانا کھا لو تو منتشر ہوجائو ، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو، تمہاری یہ حرکتیں نبی کو تکلیف دیتی ہیں مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اللہ حق بات کے کہنے میں نہیں شرماتا ''

اس آیت سے بیوت نبی ۖ کی بابت چند آداب ثابت ہو تے ہیں ، ان آداب کا تعلق اگر چہ آپکی حیات مبارکہ سے ہے مگر اس سے آپ ۖ اورآپ ۖ کے متعلقات کی ہر دور میں عزت وتکریم ثابت ہو تی ہے وہ آداب درج ذیل ہیں :

(١) مومنین بلا اجازت نبی ۖ کے گھروں میں داخل نہ ہوں ،اذن لینا ضروری ہے چاہے انفرادی غرض کے لیے کو ئی

آنا چاہے یا دینی مسئلہ پو چھنے کے لیے

(٢) اگر نبی خدا ۖ کھانے پر بلائیں تو ضرور آئیں مگر جلدی نہ آئیں کہ بیٹھ کرکھانا پکنے تک انتظار میں بیٹھے

رہیں ۔

(٣) پیارے نبی ۖ کی دعوت پر آئیں تو کھانے سے فارغ ہونے کے بعد دھرنا مارکر نہ بٹھیں بلکہ منتشر ہو

جائیں تاکہ خانوادہ رسول ۖکو زحمت نہ ہو ۔

(٤) جب تک بیت نبی ۖ میں آنحضرت ۖ کے ہاں حاضر ہیں تو ایسی گفتگو نہ کریں (گپ شپ نہ لگائیں)

جس سے وہ لوگ مانوس ہو ں جس کا دنیوی فائدہ ہے نہ اُخروی بلکہ معلّم انسانیت کے حضور میں مفید گفتگو کریں

گفتگو میں حضور ۖکے ادب و احترام کا لحاظ رکھنے کے ذیل میںیہ بھی ارشاد خداوندی ہے کہ :

''لَا تَجْعَلُوْا دُعَآ ئَ الرَّ سُوْلِ بَينَکُمْ کَدُ عَآئِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا ''٣٥

''رسول اللہ ۖ کو اس طرح نہ پکارو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو ''

''یعنی تم عام آدمیو ں کو جس طرح اُن کے نام لے کر باآواز بلند پکارتے ہو اُس طرح رسول اللہ ۖ کو نہ پکارو،اس معاملے میں اُن کا انتہائی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے کیونکہ ذرا سی بے ادبی بھی اللہ کے ہاں مواخذے سے نہ بچ سکے گی ''٣٦

سوال: اگر کو ئی ناموس رسالت کی پرواہ نہیں کرتا اور (معاذ اللہ )قولا یا فعلا اھانت رسول ۖ کا مرتکب ہو تا ہے تو

اس کی سزا کیا ہے؟

جواب: (اولا )ایسا شخص عقل اور عقلا ئِ عالم کے نزدیک یقینا قابل مذمت ہے کیونکہ آپۖ محسن انسانیت ہیں ،

قیامت تک آنے والی ہر انسانی نسل اور بنی نوع انسان کے ہر فرد کے محسن ہیں اور احسان کا بدلہ تو عقل وشرع دونوں کی روسے احسان ہی ہے ۔

''ھَلْ جَزَآ ئُ الْاِحْسَانِ اِلَّاالْاِحْسَانُ ''٣٧ ''احسان کا بدلہ احسان ہی ہے ''

محسن کی توہین کرنا یقینا قابل مذمت ہے ۔

(ثانیا )اھانت رسول ۖ کرنے والا اللہ تعالیٰ اور رسول ۖ کو اذیت پہنچاتا ہے اور ایسا شخص ملعون ہے ۔

ارشاد خداوندی ہے

''اِنَّ الَّذِينَ يؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنيا وَالْاٰ خِرَةِ وَاَعَدَّلَھُمْ عَذَابًا مُّھِےْنًاً''٣٨

''بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کر تا ہے اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار رکھاہے ''

(ثالثا )فقہی اعتبار سے بھی اس کی سزا مقرر ہے

پانچواں حق ۔

نبی کریم ۖ پر عمداً جھوٹ نہ بولنا :

یہ حق (Nagtive)ہے مقصد یہ کہ کو ئی مسلمان آنحضرت ۖ پر عمداً جھوٹ نہ بولے اور جو کچھ آپ ۖ نے نہیں فرمایا ہے اسے آپ ۖ کی طرف نسبت نہ دے اور آپ پر بہتان نہ باندھے۔ نبی خدا ۖپر جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے ، جھوٹ بولنا ویسے بھی گناہ ہے مگر آپ پر جھوٹ بولنا اس لیے سنگین جرم ہے کہ جب کو ئی شخص کہتا ہے کہ حضور ۖ نے فرمایا ہے ،یہ کام جائز ہے درحالیکہ وہ شرعاً ایسا نہ ہو تو اس سے احکام خداوندی کی مخالفت لازم آتی ہے ،نیز اس سے تشریع لازم آتی ہے کہ جو حکم ،حکم ِشارع نہیں ہے وہ شریعت کا حکم ما نا جائے اور یہ عمل حرام ہے ، اس لیے اس کا حکم فقہی بھی عام کذب سے مختلف ہے کہ عام کذب مبطل صوم نہیں ہے جب کہ کذب علی الرسول مبطل صوم ہے ،اس ضمن میں متعدد روایات منقول ہیں ۔٣٩

کذب علی النبی کی حرمت پر ارشاد نبوی ۖ ہے :

''لاَ تَکْذِبُوْا عَلَیّ فَاِنَّہ مَنْ کَذِبَ عَلیّ فَلْيلِجِ النَّارَ '' ٤٠

''مجھ پر جھوٹ نہ بولو،بے شک جو مجھ پر جھوٹ بولے گا وہ آتش جہنم میں داخل ہو گا''

چھٹا حق۔

نبی کریم ۖپر درود بھیجنا:

حضرت محمد ۖ پر درود بھیجناحکمِ خدا ہے جس پر مسلمان عمل کر تے آرہے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے :

''اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰکَتَہ يصَلُّوْنَ عَلَی الَّنِبیِّ ياَ ايھَا الَّذِينَ اٰمَنُوْ اصَلُّوْا عَلَيہِ وَسَلِّمُوْ تَسْلِيًا '' ٤١

''بے شک اللہ اور اس کے ملائکہ نبی ۖپر درود بھیجتے ہیںاے صاحبان ایمان تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو ''

(صلوة کا لفظ جب علی کے صلہ کے ساتھ آتا ہے تو اس کے تین معنی ہو تے ہیں ایک کسی پر مائل ہونا ،اس کی طرف محبت کے ساتھ متوجہ ہو نا اور اُس پر جھکنا ، دوسرے کسی کی تعریف کرنا، تیسرے کسی کے حق میں دعا کرنا ،یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لیے بولا ہوجائے یعنی اس کا فاعل اللہ ہو تو تیسرے معنی میں نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ کا کسی اور سے دعا کرنا قطعاً ناقابل تصور ہے اس لیے وہ پہلے دو مفعول میں ہو گا ۔ لیکن جب یہ لفظ بندوں کے لیے بولا جائے گا ،خواہ وہ فرشتے ہو ں یا انسا ن تو وہ تینوں معنوں میں ہو گا اس میں محبت کامفہوم بھی ہو گا ،مدح وثنا کا مفہوم بھی اور دعائے رحمت کامفہوم بھی، لہذا صلو علیہ کا مطلب یہ ہے کہ اے صاحبان ایمان تم حضور ۖ کے گرویدہ ہوجائو ،ان کی مدح وثنا کرو اور ان کے لیے دعا کرو سلام کالفظ بھی دو معنی رکھتا ہے ایک ہر طرح کی آفات اور نقائص سے محفوظ رہنا ،سلامتی ،دوسرے صلح اور عدم مخالفت پس نبی ۖ کے حق میں سلمو ، تسلیما کہنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ تم ان کے حق میں کامل سلامتی کی دعا کرو اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم پور ی طرح دل وجان سے ان کا ساتھ دو ،اُن کی مخالفت سے پرہیز کرو اور ان کے سچے فرمانبردار بن کر رہو ) ٤٢

اس آیت کریمہ میں '' صلو ا ''اور ''سلموا ''امر کے صیغے لا ئے گئے ہیں بغیر قرینہ کے جو فرض اور وجوب کو بتاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ '' اس امر پر اجماع ہے کہ عمر میں ایک مرتبہ حضور پر درود بھیجنا فرض ہے''۔٤٣

اس کے علاوہ جب آپ ۖ کا مبارک نام آئے تو درود پڑھنا مستحب ہے ،بعض کے نزدیک واجب ہے ،نماز میں صلوة علی النبی کے بارے میں فقہی اختلافات ہیں ۔

امامیہ کے نزدیک محمد و آل محمد پر تشہد میں درود پڑھنا واجب ہے جتنی مرتبہ تشہد پڑھا جا تا ہے اتنی مرتبہ درود پڑھا جائے ۔ تشھد میں درود پڑھنے کے وجوب پر علماء امامیہ کے اجماع کا دعوی کیا گیا ہے ۔٤٤

''امام شافعی کے نزدیک نماز کے آخری تشہد میں درود پڑھنا فرض ہے اگر کو ئی شخص نہ پڑھے تو نماز نہ ہو گی ،امام احمد بن حنبل نے بھی آخرمیں اسی قول کو اختیار کر لیا تھا ۔امام ابو حنیفہ امام مالک اور جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ درود عمر میں ایک مرتبہ پڑھنا فرض ہے جیسے کہ کلمہ شہادتین پڑھنا ایک مرتبہ فرض ہے '' ٤٥

صلوة النبی کا طریقہ :

قرآن مجید میںجب حضور ۖپر درود بھیجے کا حکم نازل ہوا تو صحابہ کرام نے رسول اللہ ۖسے عرض کیا کہ یا رسول اللہۖ آپ پر سلام کا طریقہ تو آپ ہمیں بتا چکے ہیں یعنی نماز میں السلام علیک ایھا النبی ورحمة اللہ وبرکاتہ اور ملا قات کے وقت السلام علیک یا رسول اللہ کہنا مگر آپ پر درود بھیجنے کا طریقہ کیا ہے ؟ آپۖ نے فرمایا کہو :

''اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کافضل ما صلیت ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید ،اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید ''٤٦

تقریبا ً آٹھ احادیث میں صلوة علی النبی کا طریقہ بیان کیاگیا ہے ،ان تمام احادیث میں پیارے نبی ۖپر درود بھیجنے کا جو طریقہ آپ ۖ سے منقول ہے اس میں آپ ۖ کے ساتھ آپ ۖ کی آل اور ذریت کابھی ذکر آیا ہے ،اسی لیے درود پڑھنے کا جو مشہور طریقہ ہے اسمیں آپ ۖ کے ساتھ آل محمد ۖ کو بھی شامل کیا جا تا ہے ۔

 

٭٭٭٭٭٭

 

حوالہ جات

١۔ القرآن ،الاحزاب،٤٠

٢۔ القرآن، الصف،٦

٣۔ علامہ مجلسی ،بحار الا نوار ،ح١،ص٩٧،حدیث،٧،الشیخ محمد بن یعقوب الکلینی،الاصول من الکافی ،

کتاب الحجة باب مولد النبی ۖ ووفاتہ

٤۔ علامہ یوسف نبھانی :جواہر البحار٢/١٩٠،علامہ شعرانی،کشف الغمة:٢/٤٣،علامہ جلا ل الدین سیوطی ،

خصائص کبری:١/٧،الزرقائی : شرح مواھب اللدنية :١/٦٣،٢٤٢،عبد الحق محدث دھلوی:مدارج النبوة ،١/١١٦

٥۔ القرآن ،التوبہ ،٢٤

٦۔ صحیح بخاری ،کتاب الا یمان ،حدیث،١٥

٧۔ القرآن ،الاحزاب،٦

٨۔ صحیح بخاری ،باب الشروط فی الجھاد والمصالحة مع اہل الحرب وکتابة الشروط،حدیث :٢٧٣١،٢٧٣٢)

٩۔ القرآن ، القلم، ٤

١٠۔ القرآن ،الانبیا ء ،١٠٧

١١۔ القرآن ،التوبہ:١٢٨

١٢۔ صحیح بخاری ،کتاب المرض،حدیث ،٩ ٦ ٦ ٥

١٣۔ القاضی عیاض ،الشفابتعریف حقوق المصطفیٰ ص:٨١،ج١،چاپ عثمانیہ ،استنبول

١٤۔ القرآن الانفال،٣٣

١٥۔ علامہ محمد اقبال ،ارمغان حجاز

١٦۔ علامہ محمد اقبال ،اسرارور موز

١٧۔ القرآن ،النساء ،٥٩

١٨۔ القرآن ،النساء ،٨٠

١٩۔ القرآن، آل عمران، ٣١

٢٠۔ القرآن ،النجم ،٣۔٤

٢١۔ القرآن ،الحشر ،٧

٢٢۔ القرآن ، الاحزاب ،٢١

٢٣۔ القرآن ،النسا ئ، ٥٩

٢٤۔ القرآن ،النساء ،٦٥

٢٥۔ القرآن، الاحزاب، ٣٦

٢٦۔ علامہ محمد اقبال ،اسرار و رموز

٢٧۔ القرآن،الحجرات،١

٢٨۔ مولانا مودودی ،تفیہم القرآن ،جلد ٥،ص٧٠

٢٩۔ القرآن ،الحجرات،٢

٣٠۔ تفہیم القرآن ،ج،٥،ص٧٢

٣١۔ القرآن، الحجرات ،٣

٣٢۔ القرآن،المائدہ، ٢٧

٣٣۔ القرآن، الحجرت ،٥۔٤

٣٤۔ القرآن ،الا حزاب ،٥٣

٣٥۔ القرآن ،النورہ ،٦٣

٣٦۔ تفہیم القرآن ،ج ٣،ص٤٢٧

٣٧۔ القرآن ،الرحمن ،٦٠

٣٨۔ القرآن ،الاحزاب، ٥٧

٣٩۔ شیخ محمد بن الحسن الحر العاملی:وسائل الشیعہ ،کتاب الصوم ،چاپ پنجم ،١٩٨٣،مطبع احیاء التراث العربی،بیروت ، لبنا ن

٤٠۔ صحیح بخاری ،کتاب العلم ،باب اثم من کذب علی النبی،حدیث١٠٦

٤١۔ القرآن ۔ الاحزاب ،٥٦

٤٢۔ تفہیم القرآن ج ٤،١٢٤

٤٣۔ تفہیم القرآن ج ٤،ص١٢٧

٤٤۔ الشیخ محمد حسن نجفی ،جواہر الکلام فی شرح شرائع الا سلام ،ج ١٠ ،ص ٢٥٣ ،

چاپ داراحیا ء التراث ،العربی ،بیروت ، لبنان

٤٥۔ تفہیم القرآن ج ٤،١٢٧

٤٦۔ صحیح بخاری ،کتاب احادیث الانبیاء ، ح:٣٣٧٠

 

ڈاکٹر سبحانی - مجلہ نور معرفت

Read 6538 times