نرم دلی و رواداری

Rate this item
(0 votes)

نرم دلی و رواداری

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بے نظیر اخلاقی صفات میں ایک نرم دلی اور رواداری ہے۔ آپ بدو عربوں یہاں تک کہ کینہ پرور دشمنوں کی درشت خوئی، بے ادبی اور جایلت پر نرمی اور رواداری سے پیش آتے تھے۔ آپ کی اس صفت نے بے شمار لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کا گرویدہ بھی بنا دیا۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں بلین الجانب تانس القلوب"نرمی اور (مریبانی) سے ہی لوگ مانوس ہوتے ہیں۔ (غررالحکم ج 2 ص 411 )

( رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے کہ وعلیکم بالاناءۃ واللین والتسرع من سلاح الشیطان وما من شئی احب الی اللہ من الاناءۃ واللین۔

تمہیں نرمی اور رواداری اختیار کرنی چاہیے ،اور ایک دوسرے کے ساتھ پیش آنے میں جلد بازی شیطان کا کام ہے اور خدا کے نزدیک نرمی اور رواداری سے پسندیدہ اخلاق اور کوئی نہیں ہے۔ (علل الشرایع ج 2 ص210)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ ان العلم خلیل المومن ، والحلم وزیرہ

بے شک علم مومن کاسچا دوست ہے حلم اس کا وزیر ہے صبر اسکی فوج کا امیر ہے دوستی اس کا بھائی ہے نرمی اس کا باپ ہے۔ (مجلسی ج 78 ص 244)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نرم خوئی اور رواداری خدا کی خاص عنایت و لطف میں ہے اسی صفت کی وجہ سے لوگ آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ سورہ مبارکہ آل عمران میں آپ کی ان ہی صفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہو رہا ہے "فبمارحمۃ من اللہ لنت لھم ولوکنت فظا غلیظا القلب لانفضوامن حولک فا‏عف عنھم واستغفرلھم۔ پیغمبر اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے لہذا اب انہیں معاف کر دو اور ان کے لئے استعفار کرو۔(آل عمران 150)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نرم مزاجی اور رواداری کے بارے میں دو واقعات ملاحظہ فرمائیں۔

محدث قمی نے سفینہ البحار میں انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس تھا آپ ایک عبا اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے تھے ایک عرب آتا ہے اور آپ کی عبا کو پکڑ کر زور سے کھینچتا ہے جس سے آپ کی گردن پر خراش پڑ جاتے ہیں اور آپ سے کہتا ہے کہ اے محمد میرے ان دونوں اونٹوں پر خدا کے اس مال میں سے جو تمہارے پاس ہے لاد دو کیونکہ وہ نہ تو تمہارا مال ہے اور نہ تمہارے باپ کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مرد عرب کی یہ بات سنکرخاموش رہے اور فرمایا المال مال اللہ وانا عبدہ۔ سارا مال خدا کا ہے اور میں خدا کا بندہ ہوں۔ اس کے بعد فرمایا اے مرد عرب تو نے جو میرے ساتھ کیا ہے کیا اسکی تلافی چاہتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں کیونکہ تم ان میں سے نہیں ہو جو برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں۔ آنحضرت یہ سنکر ہنس پڑے اور فرمایا مرد عرب کے ایک اونٹ پر جو اور دوسرے پر خرما لاد دیا جائے۔ اسکے بعد اسے روانہ کر دیا۔ (سفینہ البحار باب خلق)

1۔ شیخ صدوق نے اپنی کتاب امالی میں ساتویں امام علیہ السلام کے واسطے سے حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایک مرد یہودی کی چند اشرفیاں قرض تھیں ، یہودی نے آنحضرت سے قرضہ طلب کر لیا۔ آپ نے فرمایا میرے پاس تمھیں دینے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ یہودی نے کہا میں اپنا پیسہ لیئے بغیر آپ کو جانے نہیں دونگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اگرایسا ہے تو میں تیرے پاس ہی بیٹھا رہوں گا، آپ اس مرد یہودی کے پاس بیٹھ گئے اور اس دن کی نمازیں وہیں ادا کیں۔ جب آپ کے صحابہ کو واقعے کا علم ہوا تو یہودی کے پاس آئے اور اسے ڈرانے دھمکانے لگے۔ آپ نے صحابہ کو منع فرمایا اصحاب نے کہا اس یہودی نے آپ کو قیدی بنا لیا ہے اس کے جواب میں آپ نے فرمایا لم پبعثنی ربی بان اظلم معاھدا ولاغیرہ۔ خدا نے مجھے نبی بنا کر نہیں بھیجا تاکہ میں ہم پیمان کافر یا کسی اور پر ظلم کروں۔ دوسرے دن مرد یہودی اسلام لے آیا اس نے شہادتین جاری کیں اور کہا کہ میں نے اپنا نصف مال راہ خدا میں دیدیا خدا کی قسم میں نے یہ کام نہیں کیا مگر یہ کہ میں نے توریت میں آپ کی صفات اور تعریف پڑھی ہے توریت میں آپ کے بارے میں اس طرح ملتا ہے کہ محمد بن عبداللہ مولدہ بمکہ و مہجرہ بطیبہ ولیس بفظ ولاغلیظ و بسخاب و لا متزین بفحش ولاقول الخناء وانا اشھدان لا الہ الا ا للہ وانک رسول اللہ وھذا مالی فاحکم فیہ بما ا نزل اللہ۔ محمد ابن عبداللہ جس کی جائے پیدائش مکہ ہے اور جو ہجرت کر کے مدینے آئے گا نہ سخت دل ہے نہ تند خو ،کسی سے چیخ کر بات نہیں کرتے اور نہ ان کی زبان فحش اور بیہودہ گوئی سے آلودہ ہے ،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور آپ اس کے رسول ہیں اور یہ میرا مال ہے جو میں نے آپ کے اختیار میں دیدیا اب آپ اس کے بارے میں خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں۔

سورہ توبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعریف میں ارشاد ہوتا ہے لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیزعلیہ ماعنتم حریص علیکم بالمومنین رؤف رحیم۔ فان تولوا فقل حسبی اللہ لا الہ الا ا للہ ہو علیہ توکلت و ہورب العرش العظیم۔

یقیناً تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے ، وہ تمایری ہدایت کے لئے حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق و مہربان ہے اب اس کے بعد بھی یہ لوگ منہ پھیر لیں تو کہ دیجئے کہ میرے لئے خدا کافی ہے اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے میرا اعتقاد اسی پر ہے اور وہی عرش اعظم کا پروردگار ہے۔

ماخوذ از کتاب رسول اللہ کے اخلاق حسنہ

مختلف مصنفین، فارسی سے ترجمہ

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

Read 3516 times