«یا مُقلّب القلوب و الأبصار...» کی بابرکت دعا انسان کو روحانی بلوغ کی منزل پر فائز کرنے کے لیے ہے

Rate this item
(3 votes)
«یا مُقلّب القلوب و الأبصار...» کی بابرکت دعا انسان کو روحانی بلوغ کی منزل پر فائز کرنے کے لیے ہے

حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے اپنے درس اخلاق کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا :

جمعرات کے درس کو دو حصّوں میں بطور خلاصہ پیش کیا جاتا ہے کہ جن میں سے پہلا حصہ اخلاقی مسائل سے مربوط ہے جبکہ دوسرے حصے میں وجود مبارک امیر مؤمنان (ع)  سے منسوب نہج البلاغہ کی مختصر تشریح کی جاتی ہے جو اخلاقی بحثوں کے عین مطابق ہوتی ہے ۔ اخلاقی بحثوں میں ہم اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اخلاق کا تعلق ہماری قوت ارادی سے ہے ؛ یعنی اس کی بازگشت انگیزے کی طرف ہوتی ہے ، اندیشے کی ضروریات ثقافت اور علم سے پوری ہوتی ہیں ۔ ہم بہت سی چیزوں کا علم رکھتے ہیں کہ بری ہیں اور بہت سی چیزوں کو سمجھتے ہیں کہ خوب نہیں ہے ؛ ہم بہت سے مسائل میں علمی مشکل نہیں رکھتے ؛ چونکہ ان پیچیدہ علمی مطالب کی ہم سب سے توقع نہیں کی گئی ؛ اگر ہم اپنے مقدور بھر علم پر عمل کریں تو ہماری مشکلات حل ہو جائیں گی ۔ عمل کی سرپرستی عقل عملی کے ذمّے ہے ؛ یہ جو ہماری روایات میں وارد ہوا ہے «ما عُبد به الرحمن و اکتُسِبَ به الجِنان»؛[1] ہماری تمام سعی و کوشش اس امر پر صرف ہو کہ اپنے عزم ، ارادے اور اخلاص کو مستحکم کریں ؛ اگر یہ مضبوط ہو جائیں یعنی ہمارے اندر عملی طور پر استحکام آ جائے تو جن چیزوں سے ہم واقف نہیں ہیں وہ ہمیں عنایت کر دی جائیں گی ۔ یہ فرمان اسی باب سے ہے : «مَن عَمِلَ بِما عَلِم کفِی ما لم یعلم»؛[2] یعنی اگر کوئی شخص اپنے علم پر عمل کرے تو اسے وہ چیزیں عطا کر دی جائیں گی کہ جو وہ نہیں جانتا ؛ یا عالم خواب میں اس پر یہ عنایت ہو گی یا دوسرے عوالم میں اسے یہ امور عطا ہوں گے ؛ یا اس کے لیے زیادہ توفیق کے اسباب اور عوامل فراہم ہوں گے پس وہ آخر کار منزل مقصود تک پہنچ جائے گا ۔

اس سے قبل بھی یہ اشارہ کیا جا چکا ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ عملی مشکلات سے دوچار ہیں نہ کہ علمی ؛ جیسا کہ بدنی اعتبار سے بعض قوتیں ادراک کا کام کرتی ہیں ، بعض قوتیں تحریک دلاتی ہیں یعنی ہم آنکھوں اور کانوں سے سمجھتے ہیں اور ہاتھ پاؤں کے ذریعے حرکت کرتے ہیں اگر ہم سانپ اور بچھوؤں کا خطرہ اپنی آنکھوں سے بھانپ لیں تو اپنے ہاتھ پاؤں سے دفاع کریں گے اور اس سے دور بھاگیں گے ۔ ہماری ذات کے اندر بھی بعض قوتیں ثقافتی اور علمی کاموں کی کفیل ہیں یعنی کون سی چیز حلال ہے اور کیا چیز حرام ہے اور بعض قوّتیں ان احکام کو نافذ کرتی ہیں کہ جنہیں عقل عملی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ یہ مطلب آئمہ علیھم السلام کا وہی بیان ہے کہ عقل یعنی «ما عُبِدَ به الرّحمٰن و اکتُسِبَ به الجِنان.»[3] ہم اس قوت سے کام کرتے ہیں اگر کوئی شخص ہاتھ پاؤں مفلوج ہو جانے کے باوجود چشم بینا اور سنتے کان رکھتا ہو تو وہ سانپ اور بچھو کا بطور کامل مشاہدہ کرتا ہے ، اسے کسی ادراکی یا علمی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا لیکن پھر بھی وہ  سانپ آ کر اس کے بدن میں زہر منتقل  کر دیتا ہے اور وہ دفاع نہیں کر پاتا ؛ چونکہ اس کے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوئے ہیں ۔ اگر کسی کا دشمن اس پر کامیاب ہو جائے تو وہ پہلا کام یہ کرتا ہے کہ اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیتا ہے ۔ پہلا کام جو شیطان کرتا ہے وہ بھی یہی ہے کہ عقل عملی جو ارادہ ، عزم اور اخلاص کا مقام ہے ، کو زنجیریں ڈال دیتا ہے ۔ یہ حضرت امیر سلام اللہ علیہ کا نورانی بیان ہے کہ فرمایا : «کم مِن عقلٍ أسیرٍ تحت هوی أمیر»؛[4] کتنی ہی عقلیں جہاد بالنّفس کے میدان میں ہوس کی اسیر ہو جاتی ہیں یعنی وہ شیطان اور وہ ہوس کا دیو ، اس عقل عملی کو زنجیریں ڈال دیتا ہے ۔ آپ کے سامنے کی بات ہے کہ کچھ لوگ منشیات کی لعنت میں گرفتار ہو جاتے ہیں ، وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ منشیات کا انجام فٹ پاتھوں پر گتّے کے ٹکڑوں پر سونا وغیرہ ہے  یہ مسائل پیچیدہ علمی مطالب نہیں ہیں کہ جنہیں کوئی شخص زحمت کے ساتھ سمجھے ۔ منشیات کا انجام یہی ہے وہ ان عواقب سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں لیکن پرہیز نہیں کرتے ؛ کیوں ؟ یہ افراد ثقافتی مشکل یعنی علمی اور فکری مشکل نہیں رکھتے بلکہ ان کی مشکل کا تعلق انگیزے سے ہے ؛ ان کی قوت فیصلہ مفلوج ہو چکی ہے حتی اگر اسے بارہا وعظ و نصیحت بھی کی جائے ، پے در پے اسے درس دیا جائے اور منشیات کے نقصانات سے ڈرایا جائے ، پھر بھی کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ اس کی مثال وہی ہے کہ کوئی شخص صرف چشمِ بینا اور سنتے کان رکھتا ہے تو وہ سانپ اور بچھو کو دیکھتا ہے لیکن اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتا ۔ اگر اسے ٹیلی سکوپ ، مائیکرو اسکوپ اور دوربین تھما دی جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اسے دیکھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے بلکہ اس کے ہاتھ پاؤں رسن بستہ ہیں ، وہ کس طرح فرار کرے ؟! آیا یہ ممکن ہے کہ کسی کو منشیات کے خطرے کا علم نہ ہو ؛ لیکن وہ کیوں اس کام کو ترک نہیں کرتا ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی قوت ارادی مفلوج ہو چکی ہے ، شیطان اس کی قوّت ارادی کے ساتھ نبرد آزما ہے اخلاق اس لیے ہے کہ اس قوت کو پابند سلاسل نہ ہونے دیا جائے ۔

بارہا آپ کے گوش گزار کیا جا چکا ہے کہ تمام ممالک اور ہمارے ملک کا بنیادی مسئلہ اخلاق کا فقدان ہے ؛ کم از کم یہ کئی ملین کیس جو عدالتوں میں دائر ہیں ، اخلاقی مشکلات کا نتیجہ ہیں ۔ ان مشکلات کا تعلّق علم سے نہیں ہے ۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے کس قدر بجٹ اور توانائی صرف ہوتی ہے ۔ بعض کیس پیچیدہ اور علمی ہیں ؛ لیکن بہت سے کیس اس قبیل سے نہیں ہیں ۔ مثلاً جو شخص احتکار ، گرانفروشی اور کم فروشی کرتا ہے ؛ جو شخص بلیک مارکیٹ کا سامان کرتا ہے ، جو پیکنگ بازار میں لاتا ہے اس کے اندر اور باہر فرق ہوتا ہے ؛ یہ در حقیقت وعدہ خلافی کرتا ہے اور بے موقع چیک پاس کرتا ہے ، یہ امور دین کے الفبا میں شمار ہوتے ہیں اور سب لوگوں کو ان کی حرمت کا علم ہے ۔ ان موارد میں علمی مشکل کا سامنا نہیں ہے لیکن قوت ارادی زنجیروں سے جکڑی جا چکی ہے ، اخلاق انسان کو ہوشیار کرنے کے لیے ہے تاکہ کوئی اس کی عقل عملی کے پرو بال نہ باندھ سکے ؛ اگر اس کی عقل عملی کے پر و بال باندھے جا چکے ہوں تو انہیں کھولنے کی سعی و کوشش کرے ۔ اگر کسی شخص کو علم ہو کہ فلاں کام اس کی قوت ارادی کو جکڑ دے گا تو اس کے مقابلے میں وہ مزاحمت کرے گا اور اپنی آزادی کا پروانہ حاصل کر لے گا ؛ اس وقت اس کا ملک مدینہ فاضلہ کہلائے گا ۔ امام صادق سلام اللہ علیہ کا ایک نورانی بیان یہی ہے کہ جس کا شمار ہماری روشن ترین اور برجستہ ترین روایات میں سے ہوتا ہے : «ما ضَعُفَ بدنٌ عمّا قَوِیتْ علیه النیة»؛[5] وجود مبارک امام صادق سلام اللہ علیہ نے فرمایا : اگر نیت قوی ہو تو بدن کی کمزوری نفوذ نہیں کر پاتی ؛ یعنی اس کا علم سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اصلی کام نیت انجام دیتی ہے ۔ کیا بھاگنا ، فرار کرنا اور رفو چکر ہو جانا ، آنکھ اور کان سے مربوط ہے ؟! کیا چشم و گوش فرار کرتے ہیں ؟! کیا حوزہ اور دانشگاہ عزم و ارادہ کرتے ہیں ؟ ! حوزہ و دانشگاہ کا کام علم و دانش کی روشنی پھیلانا ہے ؟! اور ارادے ، عزم ، نیت اور اخلاص کا مقام اخلاق ہے ۔ فرمایا : اگر عزم ،  ارادہ اور نیت کا منشا قوی ہو تو بدن بالکل صحیح و سالم رہتا ہے ۔ تمام دینی احکامات میں یہ حکم ہے کہ اگر فلاں کام کرنا چاہو تو قربت کی نیت کرو ۔ سب سے پہلے کہتے ہیں کہ مکروہ کا ارتکاب مت کرو ؛ پھر کہتے ہیں گناہ صغیرہ سے پرہیز کرو اور رفتہ رفتہ گناہ کبیرہ سے بھی اجتناب کرو ۔ یہ گناہ اس صاف و شفاف آئینے کو گدلا کر دیتے ہیں ، مکروہات ، چھوٹے گناہ اور دیگر گناہ قرآن کریم کے نزدیک "رِین" ہیں ، "رِین" اور کثافت آئینہ دل کا دروازہ بند کر دیتے ہیں اور پھر مسدود آئینہ کسی چیز کو منعکس نہیں کر پاتا ۔ یہ مطالب «کلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِهِم مَّا کانُوا یکسِبُونَ»[6] کا مصداق ہیں ۔ اس آیت میں کان فعل مضارع کے ساتھ استعمال ہوا ہے ، اور اس سے استمرار کا معنی نکلتا ہے یعنی اگر کوئی شخص لمبے عرصے تک ان امور میں مبتلا ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آئینہ دل پھر کسی جگہ کو منعکس نہیں کرے گا ۔ اچھا ! منشیات کا استعمال بہر صورت ناقابل توجیہ ہے حتی کہ متواتر نصیحت بھی بے فائدہ ہے چونکہ اس شخص کو علمی مشکل کا سامنا نہیں ہے ۔ وہ آپ اور ہم سے زیادہ آگاہ ہے چونکہ اس میں مبتلا ہے لیکن پھر بھی نشہ کرتا ہے ۔ اخلاق اس لیے ہے کہ ارادے اور نیت کا منشا شفاف اور سالم رہے ۔

 

[1] . الكافي, ج1, ص11.
[2] . التوحيد (شيخ صدوق), ص416.
[3] . الكافي, ج1, ص11.
[4] . نهج‌البلاغه, حكمت 212.
[5] . من لا يحضره الفقيه, ج4, ص400.
[6] . سورهٴ مطففين, آيهٴ 14.

 

Read 4123 times