حیات طیبہ کا ایک پہلو، عبادی اوروحی پرمبنی حیات ہے۔ انسان فطری طورپر یہ رجحان رکھتا ہےکہ وہ ولی نعمت اورمنجی عالم بشریت کے سامنے خضوع وخشوع کرے۔ اللہ کی عبودیت اور بندگی وہی ایک اہم معیار ہےکہ تمام الہی انبیاء اور اولیاء اس کے وسیلے سے قرب الہی کی منزل پر فائز ہوتے ہیں۔ قرآن کریم فرماتا ہے: «لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَ لَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذابِي لَشَدِيدٌ»۔
حیات طیبہ کا دوسرا پہلو،عقلانی حیات ہے۔ ایک صحیح تعبیر کےمطابق انسان کا دیگرمخلوقات سے فرق بھی اسی چیزمیں پوشیدہ ہے۔ یہ عقل اور ادراک کی قوت ہےکہ جو انسان کو خلیفہ الہی کے مقام ومنزلت کی جانب لے کرجاتی ہے۔ روایات میں آیا ہےکہ آدمی کی حیات کا بلند ترین مرتبہ، عقلانی حیات ہے اوراگر انسان اس مفہوم کو سمجھ لے تو یقینا وہ اپنے آپ اورانسانی معاشرے کو بھی ہرقسم کی برائی سے نجات دےگا۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نےعقل کے بارے میں فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کوعقل عطا کی ہے لیکن شہوت اورغضب عطا نہیں کیا ہے،حیوانات کو شہوت اور غضب عطا کیا ہے لیکن قوہ عقل عطا نہیں کی ہےاورمخلوقات میں ٖفقط انسان ہی ہےکہ جوعقل اور شہوت اورغضب رکھتا ہے۔ بنابریں اگرانسان عقل سے استفادہ کرلے تو وہ غضب اورشہوت کی طاقتوں پرغلبہ پالے گا تو وہ بے شک خلافت الہی کے مقام پرفائز ہوجائے گا۔
امیرالمومنین علیہ السلام کی تعبیرکے مطابق عالم ناسوت میں آدمی کی ایک اہم ترین مشکل، جہالت اورنادانی ہے اوراسی جہالت اورنادانی کی وجہ سے ہی وہ شیاطین کے وسوسوں کا اسیرہوجاتا ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے:(الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَياةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا) موت کو حیات پرمقدم کرنا اس بات کی علامت ہے کہ موت اوردوبارہ اٹھایا جانا،اس کی ابتدائی خلقت سے بھی عظیم ترہوگا۔ بے شک انسان اس وقت اپنی جاوید حیات اورخلقت کو سمجھ لے گا کہ جب اسے معلوم ہوجائے کہ وہ اس راہ میں بہترین عمل انجام دینے کے لیےخلق ہوا ہے اورموت وحیات فقط نیک اعمال کے حصول کے لیے ہے۔
حجۃ الاسلام ڈاکٹرمحمد اکبری