اولاد کی تربیت میں محبت کا کردار

Rate this item
(0 votes)
اولاد کی تربیت میں محبت کا کردار
سید ناصر هاشمی

مقدمہ
انسان محبت اور توجہ کا بھوکا ہوتا ہے۔ محبت اور توجہ دلوں کو حیات بخشتی ہے۔ جو انسان خود کو پسند کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ لوگ بھی اسے پسند کریں۔ محبت و چاہت انسان کو شادمان اور خوشحال کرتی ہے۔ محبت ایک ایسا جزبہ ہے جو استاد و شاگرد دونوں کے دلوں پر مساوی طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر انسان کسی کو چاہتا نہیں ہوگا، پسند نہیں کرتا ہوگا تو اس کی تربیت کیسے کر سکتا ہے۔ تربیت اولاد میں محبت کا کردار بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔

محبت، استاد و شاگرد کے درمیان ارتباط برقرار کرنے میں نہایت اہم اور کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ بہترین رابطہ وہ ہے جس کی اساس اور بنیاد محبت پر ہو اس لیے کہ یہ ایک فطری اور طبیعی راستہ ہے اس کے علاوہ دوسرے تمام راستے، جن کی بنیاد زور زبردستی اور بناوٹ وغیرہ پر ہوتی ہے، وہ سب غیر طبیعی اور غیر مفید رابطے ہیں۔
بچوں کی مہمترین روانی و فطری ضرورت محبت، التفات اور توجہ حاصل کرنا ہے اور چونکہ والدین بچوں کے سب سے پہلے سر پرست اور مربی ہیں لہذا ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں کی اس فطری ضرورت ہر خاص توجہ مبذول کریں اور انہیں جاننا چاہیے کہ یہی وہ ضرورت ہے جو ان کی تربیت کی اساس اور بنیاد کو تشکیل دیتی ہے لہذا اس ضرورت کا پورا ہونا ان کے لیے روانی و فطری سلامتی، اعتماد بہ نفس اور والدین پر اعتبار کا سبب اور ذریعہ ہونے کی ساتھ ساتھ ان کی جسمانی سلامتی کا بھی باعث ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: اکثروا من قبلۃ اولادکم، فان لکم بکل قبلۃ درجۃ فی الجنۃ۔ اپنے بچوں کو بوسے دو اس لیے کہ تمہارا ہر بوسہ تمہارے لیے بہشت کے ایک درجہ کو بڑھا دے گا۔ لہذا والدین تربیت کی بنیاد مہر و محبت پر رکھیں۔ اس لیے کہ اگر ایسا نہیں ہوگا تو وہ ارتباط جو بچوں کے رشد و کمال کا سبب بن سکتا ہے، بر قرار نہیں ہو سکے گا اور صحیح طرح سے تربیت نہیں ہو سکی گی جب کہ اگر والدین کا سلوک تندی و سختی لیے ہوءے ہوگا تو وہ بچے کی روحی و روانی ریخت و شکست کا سبب ہو جاءے گا اور وہ بے راہ روی کا شکار ہو جاءے گا۔

محبت کی اہمیت و ضرورت
محبت لوگوں میں میل ملاپ اور یکجہتی کا سبب ہے۔ اگر محبت کا جزبہ نہ ہوتا تو لوگوں میں انس و محبت نہ ہوتی، کوءی بھی انسان کسی دوسرے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہ ہوتا اور ایثار و قربانی جیسے لفظوں کا وجود نہ ہوتا۔
محبت و الفت پیدا کرنے والے کام تمام انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ خاص طور پر تعلیمی و تربیتی اداروں کے لیے، اس لیے کہ محبت ہی ایسی شی ہے جو جسم و روح کی سلامتی کے ساتھ ساتھ انسان کی اخلاقی براءیوں اور کمزوریوں کی اصلاح اور بہبود روابط کا ذریعہ بنتی ہے۔
خداوند عالم نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اپنی محبت کا ذکر فرمایا ہے:
فان اللہ یحب المتقین (سورہ آل عمران آیہ ۷۶) اللہ متقین کو دوست رکھتا ہے۔
فان اللہ یحب المحسنین (سورہ آل عمران آیہ ۱۳۸) اللہ نیک عمل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
انسانوں سے رابطہ کی زبان، خاص طور پر بچوں سے رابطہ کی زبان محبت ہونی چاہیے۔ غصہ و تندی و سختی سے کسی کی تربیت نہیں کی جا سکتی۔
تربیت میں محبت کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ محبت، اطاعت سکھاتی ہے اور محبت والے ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: والمرء مع من احب۔ انسان اس کا ساتھ دیتا ہے جسے پسند کرتا ہے۔
محبت و اطاعت میں معیت (ساتھ رہنا) کا رابطہ پایا جاتا ہے، محبت کے ظہور کے ساتھ اطاعت و ہمراہی کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر بچے کے دل میں والدین کی محبت بیٹھ گءی تو بچہ ان کا مطیع و فرماں بردار بن جاءے گا اور اس کے اوپر جو ذمہ داریاں ڈالی جاءیں گی وہ ان سے نافرمانی نہیں کرے گا۔
محبت، بچوں کی ذہنی نشو و نما اور روحی تعادل کے مھم اسباب میں سے ہے۔ ان کی ذاتی خوبیاں اور سلوک کافی حد تک محبت کی مرہون منت ہیں جو انہیں اس تربیت کے دوران ملی ہے، گھر کی محبت بھری فضا اور محبت سے مملو ماحول بچوں میں نرم جذبات اور ٖفضاءل کے رشد کا سبب ہے جو بچے محبت بھرے ماحول میں تربیت پاتے ہیں وہ کمال تک پہچتے ہیں ، اچھتے ڈھنگ سے سیکھتے ہیں اور دوسروں سے محبت کرتے ہیں اور سماج و معاشرہ میں بہتر انسانی اقدار کے حامل ہوتے ہیں ۔ مہر و محبت ہی ہے کہ جو زندگی کو پر لطف اور با معنا بنتی ہے اور بچوں کی استعداد کی شگوفاءی اور ظہور کا سبب بنتی ہیں اور اس میں سعی و کوشش اور تخلیقی صلاحیتیں پیدا کرتی ہیں۔
محبت کی بنیاد، بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کرنا، بنیادی انسانی اور اسلامی طریقوں میں سے ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بچوں سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے اور ان سے اچھا سلوک کرتے تھے اور ہمیشہ فرماتے تھے:
احبوا الصبیان وارحموھم ۔
بچوں سے محبت کرو اور ان کے ساتھ الفت و محبت سے پیش آو ۔
والدین کو چاہیے کہ وہ قلبی طور پر اپنے عمل سے بچوں کو یہ یقین دلاءیں کہ وہ انہیں دوست رکھتے ہیں، ان کی یہ بات بچوں پر مثبت اثر ڈالے گی اور کچھ ہی عرصہ میں اس کا نتیجہ سامنے آ جاءے گا۔
والدین، بچوں میں ایسی تبدیلی لانا چاہتے ہیں جو ان کی ذات کو تعمیر کرے اور مخصوص اعتقادات ان کے اندر جنم لیں تو ظاہر ہے کہ یہ کام بغیر محبت اور دوستی کے کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ جس کا مقصد انہیں رشد و کمال کی طرف لے جانا ہے۔

بچوں میں محبت کی ضرورت
انسان طبیعی اور فطری طور پر محبت کا طلب گار ہوتا ہے اور محبت ایک ایسی منفرد چیز ہے جس سے اسے اسیر کیا جس سکتا ہے اور بلندی کی طرف کی جایا جا سکتا ہے۔ محبت، نفس کی تربیت اور سخت دلوں کی نرمی کا ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ محبت ہی ہے جس سے کسی دوسرے انسان کے دل و دماغ کو مسخر اور فتح کیا جا سکتا ہے اور اس کے دل کو اپنے قابو میں کیا جا سکتا ہے اور انہیں طغیان و بغاوت اور براءیوں سے روک کر بندگی و حق و صداقت کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔
بچوں، نوجوانوں یہاں تک کہ بوڑھوں کو محبت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کا سبب انس، فطرت و طبیعت اور کمزوری و ضعیفی ہے۔ محبت، بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے اس لیے کہ اگر وہ اپنے والدین سے محبت دیکھیں گے تو تھوڑی بہت کمیوں کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔
ماہرین علم النفس بہت سی براءیوں، کج رویوں اور انحرافات کا سبب، محبت اور توجہ کی کمی کو قرار دیتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ جب تک ان بے توجہی یا کم توجہی کا ازالہ نہ ہو جاءے ان کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔
بچوں اور نو جوانوں کو بوڑہوں سے زیادہ محبت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح سے کھانا پینا ان کے لیے ضروری ہے ٹھیک اسی طرح سے محبت اور توجہ بھی ضروری ہے۔ محبت کے ساتھ ان کے عواطف و احساسات کی بخوبی و با آسانی تربیت کی جا سکتی ہے اور انہیں اچھا انسان بنایا جا سکتا ہے۔ استاد و مربی ان کی اس ضرورت کو نظر انداز کر کے ان سے بہتر تعلقات استوار نہیں کر سکتا اور اپنا تربیتی پیغام اس تک نہیں پچا سکتا۔ پہلے اسے بچے کا دل فتح کرنا پڑے گا تب کہیں جا کر اس کے دل و دماغ تک رساءی ممکن ہوگی۔ جب تک اسے یہ احساس نہ ہو جاءے کہ آپ اس سے محبت کرتے ہیں وہ آپ کی بات پر کان نہیں دھرے گا۔
انسان اسیر محبت ہوتا ہے جیسا کہ کہا گیا ہے: الانسان عبید الاحسان،
احسان و اظہار، محبت و دوستی انسان کو بندگی کی سرحد تک لے جا سکتی ہے۔
خدا وند عالم بھی اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہے اور اس کی دوستی انسان کے رشد و کمال اور اس کی ترقی کا سبب بنتی ہے اور رذاءل اور براءیوں کو اس سے دور کرتی ہے۔ قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر اللہ تعالی نے اپنے بندوں سے اپنی محبت کا ذکر کیا ہے جیسا کہ مربی کے طور پر حضرت موسی علیہ السلام سے فرمایا:
و القیت علیک محبہ منی و لتصنع علی عینی (سورہ طہ آیہ ۳۹)
میں نے اپنی محبت تمہارے دل میں ڈال دی تا کہ تم میری آنکھوں کے سامنے تربیت پاءو ۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا وند عالم کی محبت اس طرح سے انسان کے دل پر اثر انداز ہوتی ہے:
اذا احب اللہ عبدا الھمہ الطاعۃ والقناعۃ و فقھہ فی الدین ۔
جب پروردگار عالم اپنے بندہ کو دوست رکھتا ہے:
۱۔ اپنی طاعت و فرمانبرداری اس کے دل مین ڈال دیتا ہے۔
۲۔ اسے قناعت کی توفیق عنایت کرتا ہے۔
۳۔ اسے دین کی عمیق فہم عطا کرتا ہے۔
ایسے والدین جو اپنے بچوں کے ساتھ دوستی اور بے تکلفی کا رشتہ بنا سکیں اور ان میں خوشی، امید اور جزبے جو زندہ رکھ سکیں تو وہ اپنی تربیت میں کامیاب ہیں اور تربیت کا یہ نسخہ نہایت موثر واقع ہو سکتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
قال موسی علیہ السلام یا رب ای الاعمال افضل عندک؟ قال: حب الاطفال فانی فطرتھم علی توحیدی ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے عرض کیا: خداہا کون سا عمل تیرے نزدیک افضل و برتر ہے؟ ارشاد ہوا: بچوں کو دوست رکھو اس لیے کہ میں نے انہیں اسلام اور توحید کی فطرت پر پیدا کیا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
لیس منا من لم صغیرنا و لم یوقر کبیرنا
جو شخص بچوں پر مہربانی اور بڑوں کا احترام نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے۔
تربیت کی سب سے اہم اور موثر روش محبت ہے۔ محبت، جاذبیت، کشش اور مقصد پیدا کرتی ہے اور طاغی و باغی انسانوں کو رام کر دیتی ہے اور گھر کے نالایق و نافرمان بچوں کو آرام اور سکون بخشتی ہے۔ بچے گھروں میں قانون اور رعایتوں سے زیادہ محبت و عطوفت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور ان کی روح کی سلامتی و سعادت مندی کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب گھر کی فضا اور ماحول میں الفت و عطوفت، مہر و محبت قاءم و استوار ہو لہذا اگر والدین بچوں کی اس ضرورت ہر قادر نہ ہوں تو ان کے یہاں احساس کمتری پیدا ہو جاءے گا جو انہیں آگے جا کر فردی و معاشرتی زندگی میں مشکلوں سے دچار کرے گا۔
گھر کے ماحول کو محبت سے پر ہونا چاہیے تا کہ بچوں کے لیے اس میں سعی و کوشش کی راہ ہموار ہو سکے۔ محبت، تعلیم و تربیت کے بہت سے موانع اور مشکلات کو بر طرف کرتی ہے۔ خاص طور پر فکری و ثقافتی امور مین محبت کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ بہت سے کام ایک تبسم سے حل ہو جاتے ہیں جو بڑی بڑی کوشش اور جانفشانی سے حل نہیں ہوتے۔

علامہ سید اسماعیل بلخی کے بقول:
دل کہ در وی عشق نبود حفرہ تنگ است و بس
بی محبت یک جہان ھم یک نفس است و بس

مولوی کے بقول:
از محبت تلخھا شیرین شود
از محبت مسھا زرین شود
از محبت خارھا گل می شود
از محبت سرکہ ھامل می شود
از محبت مردہ زندہ می شود
و ز محبت شاہ بندہ می شود
بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ استاد و شاگرد کے درمیان رعب و خوف کا رشتہ ہونا چاہیے تا کہ تربیت ہو سکے۔ حالانکہ وہ اس بات سے غافل ہوتے ہیں کہ اگر رعب و خوف وقتی طور پر بری عادتوں پر پردہ ڈال سکتے ہیں تو ظاہر ہے کہ جب تک اس کا اثر انسان پر باقی رہے گا تب تک رعب و خوف بھی باقی رہے گا اور ان کے زاءل نہ ہو نے سے تمام برے صفات اپنی تمام تر براءیوں کے ساتھ خود کو ظاہر کر رہے ہونگے۔

محبت کا اظہار
والدین کی اولاد سے محبت کے باب میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ اپنی دلی محبت پر قناعت اور اکتفا نہ کریں۔ اس لیے کہ محبت تربیت میں اس وقت موثر واقع ہو سکتی ہے جب اس کا اظہار کیا جاءے اور اولاد پر ظاہر کریں کہ وہ ان سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ اس لیے کہ صرف دل سے محبت کرنا، محبت کرنے والے کے لیے تو مفید ہو سکتی ہے مگر اس کے لیے نہیں جس سے محبت کی جا رہی ہے۔ اظہار محبت ایک ایسا نسخہ ہے جس کی تاکید اور سفارش معصومین علیہم السلام نے متعدد مقامات پر کی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
اذا احب احدکم اخاہ فلیعلمہ فانہ اصلح لذات البین۔
اگر تم اپنے بھاءی کو دوست رکھتے ہو اس سے محبت کرتے ہو تو اس کا اسے اظہار کرو۔ اس لیے کہ یہ اظہار تمہاری محبت اور دوستی کے لیے بہتر ہے۔ ایک روز ایک شخص نے امام محمد باقر علیہ السلام کے حضور میں عرض کیا:
انی لاحب ھذا الرجل فقال لہ ابو جعفر (ع) فاعلمہ فانہ ابقی للمودۃ و خیر فی الالفۃ۔
میں فلاں سے محبت کرتا ہوں، امام (ع) نے فرمایا: اپنی اس محبت کا اس سے اظہار کرو، اس لیے کہ ایسا کرنے سے تمہارے تعلقات میں مزید استحکام پیدا ہوگا۔ لہذا والدین کو چاہیے کہ وہ مختلف طریقوں سے اپنی اولاد سے محبت کا اظہار کریں، محبت کا صرف دل میں ہونا کافی نہیں ہے۔
آگاہ اور ماہر والدین وہ ہیں جو نہایت سلیقہ سے اپنی محبت اپنے بچوں تک پہچاءیں، انہیں اپنی محبت کا احساس دلاءیں۔ جب بچے یہ محسوس کریں کہ ان کے والدین ان محبت کرتے ہیں، ان کی بھلاءی چاہتے ہیں، ان کا بہتر مستقبل چاہتے ہیں اور ان کی ترقی و کامیابی کے لیے کوشان ہیں، ان کے خیر اور اچھی تربیت کے لیے ہر طرح سے تیار ہیں تو وہ بھی اپنے والدین سے محبت کرنے لگیں گے، ان کی تربیتی باتوں کا اثر لیں گے اور ان پر عمل کریں گے۔

محبت میں افراط و تفریط
تربیت کی راہ میں محبت کی روش اس وقت مفید و موثر ہو سکتی ہے جب حد اعتدال سے خارج نہ ہو اور افراط و تفریط تک نہ پہچے جبکہ عدم توجہ اور محبت کی کمی، بچوں کو غلط راہ پر ڈال دیتی ہے۔ ایسی محبت جو بچوں کے رشد و ارتقاء کا سبب بن سکتی ہے وہ وہ محبت ہے جس میں اعتدال و واقعیت ہو، جو تکلف و تصنع سے عاری اور ان کی عمروں، حالتوں سے مناسبت رکھتی ہو۔
بچوں کی ذہنی و روحی تربیت میں محبت کا کردار غذا کی طرح ہے جس طرح سے غذا کی کمی و زیادتی اس کء جسم کے اوپر مثبت و منفی اثر ڈال سکتی ہے اس طرح سے محبت و توجہ کی کمی و زیادتی اس کے دل و دماغ پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
جس طرح سے گزشتہ زمانوں میں بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کے بہت سے غلط اصول و ضوابط مثلا ان سے تحقیر آمیز سلوک کرنا، انہیں سخت کاموں کے لیے ہدایت دینا، برا بھلا کہنا، گالی دینا، خلاصہء کلام یہ کہ ان کی شخصیت کو درک نہ کرنا، وغیرہ پر عمل کیا جاتا تھا جس کا نتیجہ تند خویی و اضطراب، بدبینی، کینہ توزی اور براءیوں کے ارتکاب کی شکل میں سامنے آتا کرتا تھا۔ عصر حاضر میں علوم کی ترقی اور علم النفس وغیرہ کی تحقیقات کے منظر عام پر آنے سے، جس کے تحت بچوں اور نو جوانوں کی تربیت کی روش میں یہ سعی کی جاتی ہے کہ ان سے محبت آمیز سلوک ہو تا کہ ان سے گزشتہ زمانوں والی براءیوں کا ارتکاب سامنے نا آءے۔ مگر والدین کے افراط اور بیجا لاڈ پیار سے اس طرح کی دوسری نازیبا باتیں بچوں میں جنم لینے لگتی ہیں جو ان کی غلط تربیتی روش کا نتیجہ ہیں اور جس کے نتیجہ میں پر توقع، خود سے راضی، کمزور، جلدی ناراض ہو جانے والے بچے وجود میں آتے ہیں جو زندگی میں پیش آنے والی ہلکی سی سختی اور تنگی میں مایوسی، کینہ توزی، ذہنی و روانی امراض، ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور تعلیمی و تربیتی و معاشرتی زندگی میں شکست سے دچار ہو جاتے ہیں۔
لہذا والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو دل کی گہراءیوں سے چاہیں مگر کھلی آنکھوں کے ساتھ ان کی براءیوں پر بھی نظر رکھیں اور نہایت ہوشیاری سے ان کی اصلاح کریں۔ بے شک جنسی خواہشات اور شہوات فطری ہیں، محبت و عشق فطری ہے مگر اس کے مقابلہ میں ہمارا رد عمل اور ہوشیاری دکھنا بھی ضروری پے۔ بچوں کی جایز و نا جایز باتوں پر بغیر قید و شرط کے ہاں کہنا صحیح نہیں ہے، ڈانٹ بھٹکار کے بجای پیار کرنے سے نہ صرف یہ کہ نتیجہ ٹھیک نہیں نکلے گا بلکہ ان کی شخصیت پر ایسا منفی اثر ڈالے گا کہ جس کا ازالہ ممکن نہیں ہوگا۔

محبت میں برابری و مساوات
قابل ذکر نکتہ اس باب میں بچوں سے مہر و محبت میں عدالت و مساوات کا خیال رکھنا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں سے محبت میں کسی طرح کی تبعیض اور فرق کے قاءل نہ ہوں، اس لیے کہ یہ کام نہ چاہتے ہوءے بھی سبب بنے گا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے احترام کے قاءل نہیں نہیں رہیں گے اور بچے گھر کے ماحول سے دور ہو جاءیں گے۔
معصومین علیہم السلام کی سیرت اس سلسلہ میں بچوں میں عدالت اور مساوات کی رعایت کرنا رہی ہے، خاص طور پر وہ حضرات بچوں سے محبت میں فرق کے قاءل نہیں ہیں۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اصحاب سے محو گفتگو تھے کہ ایک بچہ بزم میں وارد ہوا اور اپنے باپ کی طرف بڑھا، جو ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا تھا، باپ نے بچہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اپنے داہنے زانو پر بیٹھا لیا، تھوڑی دیر کے بعد اس کی بیٹی وارد ہوءی اور باپ کے قریب گءی، باپ نے اس کے سر پر بھی دست شفقت پھیرا اور اپنے قریب بیٹھا لیا، آنحضرت (ص) نے جب اس کے دوسرے سلوک کو ملاحظہ کیا تو فرمایا: اسے تم اپنے دوسرے زانو پر کیوں نہیں بیٹھایا؟ تو اس شخص نے بچی کو اپنے دوسرے زانو پر بیٹھا لیا تو آپ (ص) نے فرمایا:
اعدلوا بین ابناءکم کما تحبون ان یعدلوا بینکم فی البر و الطف۔
اپنے بچوں کے درمیان عدالت سے پیش آءو، جس طرح سے تم پسند کرتے ہو کہ تمہارے ساتھ نیکی اور محبت میں مساوات کے ساتھ سلوک کی اجاءے۔ لہذا بچوں کے درمیان عدالت و مساوات کے ساتھ پیش آنا، تربیت کے مہم نکات میں سے ایک ہے، جس کی رعایت نہ کرنے سے برے آثار و نتایج بر آمد ہو سکتے ہیں۔

محبت کے فواید و آثار
بچوں سے محبت کے بہت سے آثار و فواید ہیں، جن میں بعض کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے:
۱۔ محبت، شادابی و نشاط کا سبب ہے لہذا جو والدین اپنے بچوں سے زیادہ محبت کریں گے وہ انہیں زیادہ خوش اور مطمءن رہنے میں مدد کریں گے۔
۲۔ بچے اس روش سے یہ سیکھتے ہیں کہ دوسروں سے کیسے محبت کی جاءے، جو بچے محبت سے محروم رہتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ جسمی و روحی و روانی اعتبار سے مشکلوں کا شکار ہو جاتے ہیں بلکہ دوسروں سے محبت آمیز سلوک میں بھی الجھنوں سے دچار ہو جاتے ہیں اور آءندہ وہ بہتر اور مناسب سلوک سے معذور ہو جاتے ہیں۔
۳۔ محبت سے بچوں میں اعتماد بنفس پیدا ہوتا ہے، جن بچوں میں کانفیڈینس اور اعتماد بنفس پایا جاتا ہے وہ اپنی مشکلات کے حل کے لیے دوسروں کا انتظار نہیں کرتے بلکہ اپنی بلند ہمتی اور مضبوط ارادے کے ساتھ وارد عمل ہو جاتے ہیں اور جب تک ھدف اور مقصد تک نہیں پہچ جاتے، سعی و کوشش کرتے رہتے ہیں۔
۴۔ بچوں میں کچھ کرنے کا جزبہ پیدا کرنے والے اسباب میں سے ایک اصول کلی یہ ہے کہ جو بچے محبت پاتے ہیں وہ زیادہ محنت کرتے ہیں اور محبت، تعلیم اور رشد کی خوبیوں کو درک کرتے ہیں۔
۵۔ محبت سے اولاد کی توجہ حاصل کی جا سکتی ہے جس کے نتیجہ میں اولاد والدین پر اعتماد اور اطمینان کرنے لگتی ہے اور ان کی مطیع بن جاتی ہے، اس روش سے بچوں کی تربیت کا زمینہ فراہم ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ انسان خاص طور پر بچے اور نو جوان محبت میں کشش محسوس کرتے ہیں اور خود سے محبت کرنے والوں کو دوست رکھتے ہیں انہیں پسند کرتے ہیں اور ان کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:
قلوب الرجال وحشیۃ فمن تالفھا اقبلت علیہ ۔
انسان کا قلب وحشی ہوتا ہے جو اس سے محبت کرتا ہے وہ اس کی طرف جھک جاتا ہے۔

نتیجہ:
والدین بچوں سے محبت کا اظہار کریں، بچے ان کی باتوں کو زیادہ توجہ سننے اور ماننے لگیں گے۔ والدین محبت کے ذریعہ اپبے بچوں سے زیادہ عاطفی اور قلبی تعلق خاطر بنا سکتے ہیں اور انہیں نیک اور اچھے کاموں کی طرف راغب و ماءل کر سکتے ہیں اور برے اور خراب کاموں سے روک سکتے ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جو انسان کو کمال، تربیت اور بلندی کی طرف ھدایت کر سکتا ہے۔
 
Read 1702 times