حقوق والدین کا اسلامی تصور ( قرآن وحدیث کی روشنی میں)

Rate this item
(0 votes)
حقوق والدین کا اسلامی تصور ( قرآن وحدیث کی روشنی میں)
پہلی فصل
احترام والدین

الف۔قرآن کی روشنی میں
ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
(وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ لاَتَعْبُدُونَ إِلاَّ اﷲَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا )(١)
ترجمہ: اورجب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت اور پرستش نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔

تحلیل آیت:
اس آیت شریفہ میں اللہ تعا لی دو مطلب کی طرف پوری بشریت کی توجہ کو مبذول فرماتا ہے .توحید عبادی ،یعنی عبادت اور پر ستش کا مستحق صرف خدا ہے، عبادت اور پرستش میں کسی کو شریک قرار دنیااس آیت کے مطابق شرک ہے کیونکہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بقرۃ آیت ٨٣.

خدانے نفی اور اثبات کی شکل میں فرمایا: لاتعبدون الااﷲ یعنی سوائے خدا کے کسی کی عبادت نہ کرنا کہ یہ جملہ حقیقت میں تو حیدعبادی کو بیان کرناچاہتا ہے اور علم کلام میں تو حید کوچار قسموں میں تقسیم کیا ہے:
١۔ تو حید ذاتی کہ اس مطلب کو متعدد عقلی اور فلسفی دلیلوں سے ثابت کیا گیا ہے۔
٢۔ توحید صفاتی ۔
٣۔ تو حید افعالی۔
٤۔تو حید عبادی۔ توحیدعبادی سے مراد یہ ہے کہ صرف خدا کی عبادت کریں ۔کسی قسم کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھر ائیں ۔
لہٰذا ریا جیسی روحی بیماری کو شریعت اسلام میں شدت سے منع کیا گیا ہے اور شرک کو بد ترین گنا ہوں میں سے قراردیا گیا ہے ۔
جیسا کہ خدانے صریحاآیت شریفہ میں بیان کیا ہے کہ تما م گناہ تو بہ کے ذریعہ معاف ہو سکتے ہیں الاالشرک مگر شرک کے کہ اس گناہ کو کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا ۔
٢۔ دوسرا مطلب جو خدا نے تو حید عبادی کے ساتھ ذکر فرما یا ہے ''وباالوالدین احسانا''کا جملہ ہے یعنی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔
دنیا میں ہر انسان فطری طور پر اس چیز کا معتر ف ہے کہ وہ خود بخود وجود میں نہیں آیاہے بلکہ کسی اور انسان کے ذریعہ عدم کی تاریکی سے نکل کروجود کی نعمت سے مالا مال ہوا ۔ لہٰذاانبیاء الٰہی کی تعلیمات اور تاریخی حقائق کے مطالعہ کر نے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیدا ئش کے اعتبار سے پوری بشریت تین قسموں میں تقسیم ہوتی ہے :
١۔ یا تو انسان کو والدین کے بغیر خدا نے خلق کیا ہے یہ سنت کائنات میں صرف حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حواء کے ساتھ مخصوص ہے لیکن حضرت آدم کے بعد خدا نے بشر کی خلقت میں والدین کے وجود کو جزعلت قراردیاہے، یعنی والدین کے بغیر حضرت آدم(ع) اور حضرت حوا کے بعد کسی کو وجود نہیں بخشا ہے ۔
٢۔بشریت کی دوسری قسم کو صرف ماں کے ذریعے لباس وجود پہنایا ہے جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کہ اس قصہ کو خدانے قرآن مجید میں مفصل بیان کیا ہے ، پیدائش کا یہ طریقہ بھی محدود ہے اورصرف حضرت عیسیٰ سے مخصوص ہے۔
٣۔ تیسری قسم وہ انسان ہے جسے اللہ نے والدین کے ذریعہ وجودمیں لایا ہے۔
لہٰذا حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ باقی سارے انسان ماں باپ کے ذریعہ وجود میں آئے ہیں اسی لئے والدین کے ساتھ نیکی کرنا اورحسن سلوک کے ساتھ پیش آنا ہر انسان کی فطری خواہش ہے، اگر چہ معاشرہ اور دیگر عوامل کی تاثیرات اس فطری چاہت کو زندہ اور مردہ رکھنے میں حتمی کردار ادا کرتی ہیں۔
پس اگر معاشرہ اسلامی تہذیب وتمدن کا آئینہ دار ہو تو یہ فطری خواہشات روز بروز زندہ اور مستحکم ہو جاتی ہیں، لیکن اگر کسی معاشرہ پر غیر اسلامی تہذیب وتمدن کی حکمرانی ہو تو فطری خواہشات مردہ ہو جاتی ہیں اور والدین کے ساتھ وہی سلوک روا رکھتے ہیں جو حیوانات کے ساتھ رکھتے ہیں۔
لہٰذا دو ر حاضر میں بہت ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں کہ اکثر اولاد والدین کے ساتھ نہ صرف حسن سلوک نہیں رکھتے بلکہ بڑھاپے اورضعیف العمری میں بیمار ماں باپ کی احوال پرسی اور عیادت تک نہیں کرتے، حالانکہ اولاد اپنے وجود میں والدین کی مرہون منت ہیں اور ان کی کا میابی پرورش اور تربیت میں والدین کی زحمتوں اور جانفشانیوں کا عمل دخل ہے۔
لہٰذا روایت میں والدین سے طرز معاشرت کا سلیقہ اور ان کی عظمت اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ والدین کے ساتھ نیکی اور احسان یہ ہے کہ تم والدین کو کو ئی بھی تکلیف نہ پہنچنے دیں ،اگر تم سے کوئی چیز مانگے تو انکار نہ کریں، ان کی آواز پر اپنی آواز کو بلند نہ کرے ان کے پیش قدم نہ ہو ان کی طرف تیز نگاہ سے نہ دیکھو اگر وہ تمھیں مارے تو جواب میں کہو:
''خدا یا ان کے گناہوں کو بخش دے اور اگر وہ تمھیں اذیت دے تو انہیں اف تک نہ کہو''۔(١)

دوسری آیت :
( وَاعْبُدُوا اﷲَ وَلاَتُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا)(٢)
اور خدا ہی کی عبادت کر ے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھر اؤاور ماں باپ کے سا تھ اچھا سلوک کرو۔

تفسیرآیت :
خداوند کریم اس آیت شریفہ میں تین نکات کی طرف اشارہ فرماتا ہے:
١۔ اللہ کی عبادت کریں۔
٢۔ اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھرائیں ۔
٣۔ ماں باپ کے ساتھ اچھے رفتار سے پیش آئے ۔
تفسیر عیاشی میں ''وبالوالدین احسانا'' کے ذیل میں سلام جعفی نے امام محمد باقر علیہ السلام سے اور آبان بن تغلب نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے یوں نقل کیا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) ترجمہ حافظ فرمان علی ص ١٦ حاشیہ .
(٢) سورہ نساء آیت ٣٦.

''نزلتْ فی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم وفی علی علیہ السلام'' یعنی یہ آیت ( وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا )
حضرت پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی علیہ اسلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے یعنی کہ ان کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آئیں ۔نیز ابن جلبہ سے منقول روایت اس کی تائید کرتی ہے کہ حضور (ص) نے فرمایا:
'' اناوعلی ابوا ہذہ الامۃ''
یعنی میں اور علی علیہ السلام اس امت کے باپ ہیں پس ان دو رواتیوں کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ وبالوالدین احسانا سے حضرت پیغمبر اور حضرت علی مراد ہے لہٰذا سوال یہ ہے کہ کیوں پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی کے بارے میں وبالوالدین کا جملہ استعمال ہوا جب کہ عربی زبان میں والدین سے مراد ماں باپ ہیں ۔
جواب یہ ہے جیسا کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت اور ترقی وتکامل کے لئے ہر قسم کی زحمتیں اور مشکلات برداشت کرتے ہیں، حضرت پیغمبر (ص)اور حضرت علی علیہ السلام پوری زندگی امت اسلامی کی تربیت اور روحی وفکری نشوو نما کی خاطر ہر قسم کی سختیوں اور رکا وٹوں کو تحمل کرتے رہے۔
لہٰذا قرآن کی نظر میں جہاں والدین سے حسن سلوک ہر مسلمان کا بنیادی فریضہ ہے اسی طرح اولیاء خدا کی اطاعت وفرما نبرداری بھی ایمان کا لازمی حصہ ہے، اس لئے وبالوالدین احساناً حضرت رسول اکرم (ص) اور حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونا ہماری بات کے ساتھ نہیں ٹکرارہا ہے۔

تیسری آیت:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
( قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ أَلاَّ تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا)(١)
اے رسول کہدو کہ تم آؤ جو چیزیں تمہارے پروردگار نے حرام قراردیا ہے کہ وہ تمھیں پڑھ کر سناؤں وہ یہ ہے کہ کسی چیز کو خدا کے ساتھ شریک نہ ٹھراؤ اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو ۔
تفسیر آیت :
اللہ تعالی نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر٨٣/اور سورۃ انعام کی آیت نمبر ١٥٢/اور سورہ نساء کی آیت ٣٦/ میں ایک ہی مطلب کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں، صرف خدا کی عبادت کریں۔ اور کسی کو اللہ کا شریک نہ بنائیں کیونکہ شرک (جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوا ) اسلام میں سب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ انعام ١٥٢.

سے بڑا گنا ہ محسوب ہوتا ہے۔

چوتھی آیت :
ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
( وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا)(١)
اور تمہا رے پروردگارنے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ سے نیکی اور اچھا سلوک کرنا۔
تفسیر آیت:
چنانچہ اس آیت شریفہ میں دقت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آیات گذشتہ میں خدا نے تو حید عبادی کے ساتھ احترام والدین کا تذکرہ فرمایا ہے اسی طرح اس آیت میں بھی توحید عبادی کے ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کی نظر میں تو حید کے اقرار کے بعد اہم ترین ذمہ داری احترام والدین ہے کیوںکہ ان چاروں آیات میں خدا نے صریحا فرمایا کہ صرف میری عبادت کر ے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں تعجب آور بات ہے کہ بحیثیت مسلمان قرآن مجید کی شب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ اسرائیل آیت٢٣.

وروز تلاوت کے باوجود بعض افراد ایسی عظیم ذمہ داری سے شانہ خالی کئے بیٹھے ہیں لہٰذا ہر معاشر ے میں بہت سے والدین مشاہدہ میں آتے ہیں جو اپنی اولاد سے ناراض اور ناامید دنیا سے رخت سفر باندھ لیتے ہیں ۔

ب۔ فطرت کی روشنی میں
جب انسان عقل وشعور اور رشد فکری کا مرحلہ طے کرتا ہے تو اپنے اور کائینات کی دوسری مخلوقات کے بارے میں غورو فکر کرتا ہے اور یہ درک کر لیتا ہے کہ اس میں اور باقی مخلوقات میں فرق ہے، لہٰذا وہ اپنی زندگی کو ایک منظم اورباارادہ زندگی قرار دیتا ہے اور زندگی کے نشیب و فراز میں ما ں باپ ہی کو اپنا ہمدر داور مددگار تصور کرتا ہے، قدرتی طور پر اس کا دل والدین کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے ان کے چہرے کی زیارت تسکین قلب کا وسیلہ ہے جب کہ ان سے دوری انسان پر شاق گزرتی ہے ۔اور سب سے بڑھ کریہ کہ والدین کا احترام اور ان سے محبت کرنا زمان ومکان سے بالاتر فطری امر ہے۔
اگرچہ یہ بھی اپنی جگہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ معاشرتی او ربیرونی عوامل اس فطری اور طبیعی چاہت پر اثر انداز ہوجاتے ہیں اور اس کی شدت وضعف یا کمی بیشی کا باعث ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن کی متعدد آیات میں والدین کااحترام کرنا کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں کیا ہے ارشاد خداوندی ہے :
( وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا وَإِنْ جَاہَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلاَتُطِعْہُمَا إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ)(١)
اور ہم نے انسانو ں کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک برتا ؤ ں کرنے کی نصیحت کی ہے اور اگر وہ تمھیں میرے ساتھ کسی چیز کے شریک ٹھہرانے پر مجبور کر یں کہ جس کا تمھیں علم نہیں ہے تو ان کی اطاعت نہ کرنا (کیو نکہ ) تمھیں میری طرف ہی لوٹ کرآنا ہے پس جو کچھ تم نے(دنیامیں) انجام دیئے ہیں تمھیں خبر دوںکا۔

شان نزولآیت :
اس آیت شریفہ کا شان نزول یوںذکر ہوا ہے کہ سعد بن وقاص کہتا ہے کہ میں اپنی ماں کی بہت خدمت کیا کرتا تھا جب میں مسلمان ہوا تو ما ں نے کہا کہ تو نے یہ کو ن سا دین اختیا ر کیا ہے اس کو چھوڑ دے ورنہ میں کھا نا پینا ترک کروں گی یہا ں تک کہ مرجاؤں اور لوگ تجھے ملامت کریں گے کہ ما ں کا قاتل ہے میں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں آخر اس نے کھا نا پینا چھو ڑ دیا جب دو وقت گزر گئے تو میں نے کہا اے اماں اگر تیری سو جانیں ہوں اور ایک ایک مجھ سے جدا ہو اور میں دیکھتا رہوں تو بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سور ہ عنکبوت آیت ٨.

میں اپنا دین تر ک نہیں کر سکتا لہٰذا کھائیں اور پیئںورنہ تجھے اختیار ہے ۔

تفسیر آیہئ شریفہ :
خدا نے مذکورہ آیت میں انسانوں سے خطاب کرکے یہ بتلایا ہے کہ والدین کا احترام رکھنے کاجذبہ اور شعور اللہ تعالی نے پہلے سے ہی ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کررکھاہے ، دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر والدین اپنے کسی فرزند کو اسلامی اصول وضوابط اور احکام خداوندی پر عمل پیرا ہونے سے منع کرے تو واجب الا طاعت نہیں ہیں کہ حقیقت میں یہ جملہ والدین کے احترام کی حدبندی کی تو ضیح دینا چاہتا ہے۔

دوسری آیت:
( وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْنًا عَلَی وَہْنٍ وَفِصَالُہُ فِی عَامَیْنِ أَنْ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیرُ)(١)
اور ہم نے پورے انسانوں کو اپنے والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرنے کا حکم دیا ہے (کیونکہ ) اس کی ماں نے اس کو پیٹ میں سختی پر سختی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ لقمان آیت١٤.

کے ساتھ برداشت کیا ہے اور اس کی دودھ بڑھائی بھی دوسال میں ہوئی ہے ۔
لہٰذا میرا اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو کہ تمھاری باز گشت میر ی طرف ہی ہے۔

تفسیر آیت :
اس آیت شریفہ میں دو مطلب کی طرف اشارہ ہے:
١۔احترام والدین کا حکم فطرت انسان سے مربوط ہے لہٰذاحترام والدین مسلمانوں کے ساتھ مختص نہیں ہے ۔
٢۔ماں کے احترام او راس کے ساتھ نیکی کرنے کی علت بھی ذکر کی گئی ہے یعنی ماں کا احترام لازم ہے کیونکہ ماں نے نو ٩/ ماہ تک سختی کے ساتھ پیٹ میں تمھاری حفاظت کی ہے پھر دوسال تک دودھ پلانے کی خاطر زحمتیںاٹھائی ہیں، لہٰذا حقیقت میں دیکھا جائے تو ماں باپ فرزندان کے منعم او رمحسن ہیں اور ہر منعم فطری طورشکر گزاری کا مستحق ہے گویا اللہ تعالی یہ فرمارہا ہے کہ جس طرح میں تمھارا منعم ہوں، اسی طرح والدین بھی تمھارے منعم ہیں ، جس طرح اللہ پر اعتقاد رکھنا ، ان سے محبت کرنا فطری امر ہے اسی طرح والدین سے محبت کرنا اور انکا احترام رکھنا بھی فطرت کا تقاضاہے لہٰذا دونوں آیتوں میں وو صینا الانسان کو الف لام کے ساتھ ذکر کیا ہے ،جوتمام انسانوںکے اس امر میں مساوی ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
تیسری آیت:
( وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ إِحْسَانًا حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہًا وَوَضَعَتْہُ کُرْہًا)(١)
اور ہم نے انسان کو اپنے ما ں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کی نصیحت کی ہے (کیونکہ) اس کی ماں نے بہت رنج اور مشقت کے ساتھ شکم میں اس کو برداشت کیا ہے اور بہت ہی رنج کے ساتھ جنا ہے۔
تفسیر آیت :
ان تینوں آیات کا مدلول ایک چیزہے کہ خدا نے فرمایا ہے .کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین سے احترام اور اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے . دوسرا مطلب والدین کی اطاعت اور احترام کی حد بندی بھی کی گئی ہے یعنی خالق کی اطاعت کے بعد اولین واجب الاطاعت والدین ہیں لیکن والدین کی اطاعت اور احترام یہاں تک واجب ہے کہ وہ خالق کے مخالفت اور شریک ٹھرانے کا حکم نہ دیں اگر والدین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ احقاف آیت ١٥.

سے ایسا حکم صادر ہو جائے تو ماننا ضروری نہیںہے،تیسر امطلب یہ ہے کہ باپ سے بھی زیادہ ماں کا احترا م لازم ہے۔
لہٰذا ان آیات کی روشنی میں بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ والدین کا احترام رکھنا کسی خاص مذہب اور فرد کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اس لئے تو ریت میں احترام والدین کے بارے میں مستقل ایک فصل ہے یہا ں تک کہ والدین کے ساتھ بدگوئی کرنے یا نا سزا کہنے کی صورت میں پھانسی کا حکم مذ کورہے ۔

ج۔ سنت کی روشنی میں
چنا نچہ گذشتہ بحث سے بخوبی روشن ہوا کہ والدین کے ساتھ احترام اور ان سے نیک برتا ؤں کا حکم ادیان الٰہی میں سے صرف اسلام سے مخصوص نہیں ہے، جیسا کہ قرآن کریم تمام کتب آسمانی کا خلاصہ اور تر جمان کی حیثیت سے حضرت یحيٰعلیہ السلام کی یوں تو صیف کررہا ہے :
(وَکَانَ تَقِیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَیْہِ )(١)
اور وہ پر ہیز گار اور ماں باپ کے ساتھ نیکو کار تھے۔
. نیز حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہورہا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ مریم آیت ١٣، ١٤ .

( یَاأُخْتَ ہَارُونَ مَا کَانَ أَبُوکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیًّا فَأَشَارَتْ إِلَیْہِ قَالُوا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَہْدِ صَبِیًّا قَالَ إِنِّی عَبْدُ اﷲِ آتَانِی الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی نَبِیًّا وَجَعَلَنِی مُبَارَکًا أَیْنَ مَا کُنتُ 'وَأَوْصَانِی بِالصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَتِی وَلَمْ یَجْعَلْنِی جَبَّارًا شَقِیًّا )(١)
(ترجمہ )اے ہارون کی بہن نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تو تیری ماں بد کارہ تھی (لہٰذا یہ کیاکیا ہے )تو حضرت مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا (کہ کچھ پو چھنا ہے اس سے پوچھ لو ) وہ کہنے لگے کہ ہم پنگوڑے میں موجود بچے سے کیسے گفتگو کریں (اس وقت وہ بچہ ) بولنے لگا کہ بیشک میں خدا کابندہ ہوں مجھ کو اللہ نے کتاب (انجیل ) عطاکی ہے اور مجھ کو نبی قرار دیا ہے ۔اور جہاں کہیں رہوں خدا نے مجھ کو مبارک قرار دیا ہے اور جب تک زندہ رہوں نماز انجام دینے اور زکواۃ دینے کی نصیحت کی ہے اور مجھے اپنی ماں کا فرمانبردار بنایا ہے اور (الحمدللہ) نافرمان اور سرکش قرار نہیں دیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( ١)سورہ مریم آیت ٢٨ تا٣٢.

تفسیرآیت :
آیہئ شریفہ میں ایک مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چونکہ باپ کے بغیر وجود میں آئے جو عادت اور طبیعت کے خلاف تھا اس لئے حضرت مریم کے خاندان والوں نے ان کو برا بھلا کہا اور ان کی سرزنش کی یہاں تک کہ حضرت مریم (ع) کو ہارون نامی بدکار شخض کی بہن کہہ کے پکارا لیکن خدا نے اس تہمت کو اپنی قدرت سے یوں دورکیا کہ اللہ کے حکم سے حضرت عیسی علیہ السلام نے گہوارے میں ہی ان سے ہم کلام ہو کر انہیں لاجواب کردیا .دوسرا مطلب یہ ہے کہ دونوں آتیوںمیں حضرت عیسیٰ (ع) اور حضرت یحيٰ (ع) کی والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے کا تذکرہ ہوا ہے تا کہ یاد دہانی ہوجائے کہ والدین سے خیر وبھلائی کا حکم تمام آسمانی ادیان میں بیان ہوا ہے اور دین اسلام تمام ادیان الٰہی کا نچوڑہونے کی حیثیت سے اس کا ترجمانی کرتا ہے اسی لئے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔
جناب مرحوم کلینی نے اپنی گراں بہاکتاب اصول کافی میں مفصل ایک باب اسی عنوان کے ساتھ مخصوص کیا ہے،جس میں معصومین علیہم السلام سے مروی روایات کو جمع کیا ہے جن میں سے چند روایات بطور نمونہ ذکر کیا جا تا ہے ،ابن محبوب خالدبن نافع سے وہ محمد بن مروان سے روایت کرتا ہے:
قال : سمعت ابا عبد اللّٰہ علیہ السلام یقول ان رجلا اتی النیی صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم فقال یا رسول اللّٰہ اوصنی فقال لا تشرک باللّٰہ شیأاً وان حرقّت بالنار، وعذبت الا وقلبک مطمئن بالا یمان ووالدیک فاطعمھما وبرّھما حیین کا نا او میتین وان امراک ان تخرج من اھلک ومالک فافعل، فان ذالک من الایمان ۔(١)
(ترجمہ )محمد بن مروان نے کہا کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک دن ایک شخض پیغمبر اکرم (ص)کی خدمت میں آیا اور کہا اے خدا کے رسول (ص)مجھے کچھ نصیحت فرما ئیے ۔تو آپ (ص) نے فرمایا کبھی بھی خدا کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھر ائے اگر چہ تجھے آگ میں جلادیا جائے اور طرح طرح کی اذیتیں پہنچا دے پھر بھی اطمینان قلبی سے رہو، اپنے والدین کو کھانا کھلاتے رہو اور ان کے ساتھ نیکی کر وںچا ہے وہ زندہ ہوں یا مردہ اگر چہ وہ تجھے اپنے اہل وعیاں اور مال ودولت سے علیحد گی اختیار کرنے کا حکم دیں توپھر بھی اطاعت کریں کیونکہ یہی ایمان کی علامت ہے ۔

تفسیر وتحلیل:
اس حدیث شریف میں امام جعفرصادق علیہ السلام نے پیغمبر اکرم(ص) کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کافی ج٢ ص ١٢٦.

حوالے سے دو مطلب کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ ایک یہ کہ شرک بہت بڑا جرم ہے۔ کہ اس جرم کا کبھی بھی مرتکب نہ ہو دوسرا والدین کے ساتھ نیکی کرنا کہ ان دو چیزوں کی رعایت سے سعادت دنیوی واخروی سے بہر مند ہو سکتا ہے ۔

دوسری روایت :
دوسری روایت کو حسین بن محمد نے معلی بن محمد سے انہوں نے جناب وشاسے انھوں نے منصور بن حازم سے اور انہوں نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے :
''قال قلت ای الا عمال افضل قال الصلواۃ بوقتھا وبِرُّ الوالدین والجھاد فی سبیل اللّٰہ عز وجل ''(١)
(ترجمہ ) ابن حازم نے کہا کہ میں نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے پوچھا کہ اعمال میں سب سے بہترین کو ن سا عمل ہے ؟تو آپ نے فرمایا:
''نماز کو مقررہ وقت پر پڑھنا اوور والدین کے ساتھ نیکی کرنا اور راہ خدا میں جہاد کرنا۔''
اس حدیث میں تین ایسے کاموں کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو باقی سارے اعمال سے افضل ہیں نماز کو اس کے مقرر ہ وقت پر انجام دینا کہ ہمارے معاشرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کافی ج ١ص١٢٧ .

میںنماز تو انجام دیتے ہیں لیکن وقت کی رعایت نہیں کرتے ایسے افراد کو اگر چہ تارک الصلوۃنہیں کہا جاتا مگر نماز کو عذر شرعی کے بغیر اسکے مقررہ وقت پر انجا م نہ دینے کی خاطر ثواب میں کمی ہو جاتی ہے ۔
دوسرا والدین کی خدمت ہے .والدین عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے جتنے ضعیف ہوں ،بڑھاپے کی وجہ سے ظاہری حلیے میں تبدیلی آگئی ہو اورمزاج کے اعتبار سے ہمارے مخالف ہوں پھر بھی انکی خدمت خدا کی نظر میں بہتر ین کا موں میں سے ہے۔
تیسرا راہ خدا میں جہاد ہے جواس مادی دور میں انسان کے لئے بہت مشکل کا م ہے لیکن نتیجہ اور عاقبت کے لحاظ سے بہترین اعمال میں سے شمار ہوتاہے۔

تیسری روایت :
علی ابن ابراہیم نے محمد بن عیسی سے وہ یونس بن عبدالرحمن سے انہوں نے درست بن ابی منصور سے اور وہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں:
قال سئل رجل رسول اللّٰہ (ص) ماحق الوالد علی ولدہ قال لا یسمیہ بأ سمہ ولا یمشی بین یدیہ ولا یجلس قبلہ ولاسب لہ۔(١)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کافی ج٢ ص ١٢٧ .

ترجمہ: امام ہفتم (ع)نے فرمایا کہ ایک دن کسی شخص نے پیغمبر اکرم (ص)سے سوال کیا کہ باپ کا حق فرزند پر کیا ہے ؟
تو آپ نے فرمایا کبھی نام سے ان کو نہ پکارے پیش قدم نہ ہو ۔چلتے ہوئے ان کے آگے نہ ہو ان کو پشت کرکے نہ بیٹھیں اور گالی گلوچ نہ دے ۔

چوتھی روایت:
علی ابن ابراہیم نے محمد بن علی سے انہوں نے حکم بن مسکین سے اور انھوں نے محمد بن مروان سے اور وہ امام ششم سے نقل کرتے ہیں :
''قال ابوعبداللّٰہ علیہ السلام ما یمنع الرجل منکم ببر والدیہ حیین او متیین یصلی عنھما ویتصدق عنھما ویحج عنھما ویصوم عنھما فیکون الذی صنع لھما ولہ مثل ذالک فیزیدہ اللّٰہ عز وجل ببرّہ وصلتہ خیراً کثراً'' (١)
محمد بن مروان نے کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کون سی چیز تمہارے والدین کے ساتھ نیکی کرنے میں رکاوٹ ہے؟ چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ نیکی کرنا چاہئے ان کی طرف سے نماز پڑھے ان کے نام سے صدقہ دے اور ان کی طرف سے حج بجالائے اور ان کے حق میں روزہ رکھیں تاکہ خداوندعالم اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اصول کافی ج٢ ص ١٢٧.

نیک برتاؤ اور صلہ رحمی کی خاطر اسے خیر کثیر سے مالامال فرمائے۔

پانچوی روایت:
محمد بن یحيٰ نے احمد بن محمد بن عیسی سے انہوں نے معمر بن خلاد سے نقل کیا ہے:
''قلت لابی الحسن الرضا علیہ السلام ادعو لوالدی اذا کانا لا یعرفان الحق قال ادع لہما وتصدق عنہما وان کانا حیین لایعرفان الحق فدارہما فان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قال ان اللّٰہ بعثنی بالرحمۃ لا بالعقوق''
معمر بن خلاد کہتا ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا میں اپنے ماں باپ کے حق میں دعا کرسکتا ہوں جب کہ وہ دونوں حق سے بے خبر ہوں، تو آپ نے فرمایا کہ ان کے حق میں دعا کریں اور ان کی طرف سے صدقہ دیں اگر وہ زندہ ہیں اور حق سے بے خبر ہیں تو ان کے ساتھ مداراکریں، کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ خدا نے مجھے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے نہ جدائی ڈالنے اور آپس میںدوری کے لئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اصول کافی ج٢ ص ١٢٧.

چھٹی روایت:
علی بن ابراہیم نے اپنے باپ سے انھوں نے ابن ابی عمَیر سے انہوں نے ہشام بن سالم سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے:
''قال جاء رجل الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فقال یا رسول اللّٰہ (ص) من ابرُّ قال امّک قال ثم من، قال امّک، قال ثم من؟ قال امّک قال ثم من؟ قال اباک''(١)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک شخص پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں آیا اور پوچھا: اے خدا کے رسول (ص) کس کے ساتھ نیکی کروں؟ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر پوچھا پھر کس کے ساتھ فرمایا:اپنی ماں کے ساتھ، پھر پوچھا:اس کے بعدفرمایا: اپنی ماں چوتھی دفعہ پوچھا کس کے ساتھ فرمایااپنے باپ کے ساتھ نیکی کر۔
اس روایت میں سائل نے تین دفعہ پیغمبر اکرم (ص)سے پوچھا:آپ (ص)نے تینوں دفعہ ماں کی خدمت کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ماں کی خدمت باپ کی خدمت سے زیادہ اہم ہے ،انشاء اللہ اس سلسلے میںماں کی عظمت کے عنوان سے مفصل بحث ہو گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کافی ج٢ ص ١٢٨.

ساتویں روایت:
امام جعفرصادق علیہ السلام سے منقول ہے:
'' قال جاء رجل وسأل النبی (ص)عن برالوالدین فقال اَبرّر امک ابررامکّ ابرر اباک ابرر اباک وبداء بالامّ قبل الأب''(١)
امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک شخص پیغمبر (ص) کی خدمت میں آیا اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں پوچھا تو آنحضرت (ع) نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرے اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر(پھر فرمایا ) اپنے باپ کے ساتھ نیکی کراپنے باپ کے ساتھ نیکی کر اپنے باپ کے ساتھ نیکی کر پیغمبر (ص)نے باپ کی خدمت سے پہلے ماں کی خدمت کو ذکر فرمایا اس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ ماں کی عظمت اور اہمیت باپ سے زیادہ ہے۔

د ۔ سیرت انبیاء کی روشنی میں
اگر کو ئی شخص انبیا ء علیہم السلام کی سیرت کا مطا لعہ کرے تو بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ والدین کی خدمت انبیاء ،اورآئمہ معصومین کی سیرت ہے لہٰذا ہر نبی نے اپنے دور نبوّت میں اپنی امت سے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی سفارش کی ہے چنانچہ حضرت شیث بن آدم علیہ السلام نے سولہ نیک خصلتوں کی تاکید کی ہے ان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کافی ج ٢ ص ١٣٠ .

میں سے چوتھی خصلت والدین کی خدمت سے متعلق ہے نیز حضرت نوح علیہ السلام (جو دنیا سے گذرے ہوئے انبیا ء میں سے سب زیادہ دنیا میں زندگی کرنے والی ہستی ہے جیسا کہ روایت ہے :
''روی ان جبرئیل علیہ السلام قال لنوح علیہ السلام یا اطول الا نبیاء عمر ا کیف وجدت الدنیا قال کدارٍ لھا بابان دخلت من احد ھما وخرجت من الاخر''(١)
یعنی روایت کی گئی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت نوح علیہ السلام سے کہا اے سارے پیغمبر وں میں سب سے زیادہ لمبی عمر پانے والے بنی دنیا کو کیسے پایا آپ(ص) (ص)نے فرمایا دنیا کو ایک ایسے گھر کی مانند پایا کہ جس کے دو در وازے ہو کہ ایک سے داخل ہوا اور دوسرے سے خارج ہوا ) کی سیرت بھی برالوالدین ہے یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی حیات طیبہ بھی والدین کے احتر ام اور ان کی خدمت گزاری کے لحاظ سے ہمارے لئے مشعل ہدایت ہے چنانچہ ماں باپ کے حق میں آپ کی دعا ء کو قرآن کریم میں یوں حکایت کی ہے:
( رَبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِی مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلاَتَزِدْ الظَّالِمِینَ إِلاَّ تَبَارًا )(٢)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)ارزش پدر ومادر.
(٢)سورہ نوح آیت٢٨ )

خدا یا مجھ کواورمیرے ماں باپ کو اور جو مومن میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایماندار مردوں اور مومنہ عورتوں کو بخش دے اور ان ظالموں کی صرف تباہی زیادہ کر ۔
اسی طرح حضرت یحیی علیہ السلام کی سیرت طیبہ کو اللہ تبارک تعالیٰ قرآن مجید میں یوں حکایت کرتا ہے (وکان تقیا وبرا بوالدیہ ) یعنی آنحضرت پر ہیز گار اور ماں باپ کے ساتھ نیکو کار تھے نیز حضرت عیسی علیہ السلام کی سیرت'' وبرا بوالدتی'' تھی حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ایک روایت ہے کہ جب آپ (ص)نے مصر کی سلطنت سنبھالی تو حضرت یعقوب علیہ السلام آپ سے ملنے کے لئے وارد مصرہوئے حضرت یوسف علیہ السلام استقبال کے موقع پر مرکب پر سوار رہے اس وقت جناب جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے او رکہا اے یوسف ہاتھ کھولو جب یوسف نے ہاتھ کھولا تو ان کے ہاتھ سے ایک نورآسمان کی طرف گیا تو حضرت یوسف (ع) نے سوال کیا اے جبرئیل یہ نور کیا ہے ؟ جو آسمان کی طرف جارہا ہے تو جبرئیل نے فرمایا: یہ نور نبوت تھا جو تمہارے باپ کے استقبال کے موقع پر مرکب سے نہ اترنے کی وجہ سے آپ سے جدا ہوگیا ہے اب تمہارے صلب سے کوئی نبی نہیں ہوگا۔(١)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) ارزش پدر ومادر.

نیز حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سیرت بھی یہی تھی چنانچہ روایت ہے کہ حضرت اسماعیل (ع)اپنے والدگرامی حضرت ابراھیم علیہ السلام کے قدمگاہ کی جب بھی زیارت کرتے توفر ط محبت میں گریہ فرماتے اور بوسہ دیتے تھے اسی طرح حضرت ختمی مر تبت (ص)کی سیرت طیبہ سب سے نمایاں ہے اگر چہ آپ (ع)کے والد گرامی آپ کی تولد سے پہلے ہی وفات پاچکے تھے اور والدہ گرامی بھی کم سنی میں آپ سے جدا ہو گئی لیکن والدین کے احترام کا اندازہ یہیں سے لگاسکتے ہیں کہ آپ اپنی خواہر رضاعی کے احترام میںکھڑے ہوجاتے تھے اور ہمیشہ اپنی مادر رضاعی کے ساتھ نیکی کرنے اور ان کو خوش رکھنے کی سعی فرماتے اور ہمیشہ والدین کے احترام اور ان کے ساتھ نیک سلوک کی تاکید فرماتے تھے۔
 
Read 2718 times