کوئی بھی ماں نے اپنے بیٹے کو گناھگار پیدا نھیں کرتی، رحم مادر سے کوئی بچہ بھی عاصی او رخطاکار پیدا نھیںھوتا۔جب بچہ اس دنیا میں قدم رکھتا ھے تو علم و دانش اورفکر و نظر سے خالی ھوتا ھے، اور اپنے اطراف میں ھونے والے واقعات سے بالکل بے خبر رھتا ھے۔جس وقت بچہ اس دنیاکی فضا میں آتا ھے تو رونے اور ماں کا دودھ پینے کے علاوہ اور کچھ نھیں جانتا، بلکہ شروع شروع میں اس سے بھی غافل ھوتا ھے۔ لیکن آہستہ آہستہ اس میںاحساسات، خواہشیں اور شھوات پیدا ھونے لگتی ھیں، اپنے کارواں زندگی کو آگے بڑھانے کے لئے اپنے گھروالوںاور پھر باھر والوں سے سیکھتا جاتا ھے۔اسی طرح اس کی زندگی کے دوران اس کے بدن میں مختلف بیماریاں پیدا ھونے لگتی ھیں، اس کی فکر و روح، نفس اور قلب میں خطائیں ھوجاتی ھیں، اسی طرح عمل و اخلاق کے میدان میں گناھوںکا مرتکب ھونے لگتا ھے، پس معلوم یہ ھوا کہ گناہ بدن پر طاری ھونے والی ایک بیماری کی طرح عارضی چیز ھے، ذاتی نھیں ۔
انسان کے بدن کی بیماری طبیب کے تجویز کئے ھوئے نسخہ پر عمل کرنے سے ختم ھوجاتی ھے، بالکل اسی طرح اس کی باطنی بیماری یعنی فکر و روح اور نفس کی بیماری کا علاج بھی خداوندمھربان کے احکام پر عمل کرنے سے کیا جاسکتا ھے۔گناھگار جب خود کو پہچان لیتا ھے اور اپنے خالق کے بیان کردہ حلال و حرام کی معرفت حاصل کرلیتا ھے یقینااس روحانی طبیب کے نسخہ پر عمل کرتے ھوئے گناھوں سے توبہ کرنے پر آمادہ ھوجاتا ھے، اور خداوندمھربان کی ذات سے امید رکھتا ھے کہ وہ اس کو گناھوں کے دلدل سے باھرنکال دے گا اور پھر وہ اس طرح پاک ھوجاتا ھے جیسے شکم مادر سے ابھی پیدا ھواھو۔گناھگار یہ نھیں کہہ سکتا کہ میں توبہ کرنے کی طاقت نھیں رکھتا، کیونکہ جو شخص گناہ کرنے کی طاقت رکھتا ھے بے شک وہ توبہ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ھے۔
جی ھاں، انسان کھانے پینے، آنے جانے، کہنے سننے، شادی کرنے، کاروبار میں مشغول ھونے، ورزش کرنے، زندگی گذارنے اور زورآزمائی کے مظاھرے پر قدرت رکھتا ھے، وہ اپنی خاص بیماری کی وجہ سے ڈاکٹر کے کہنے پر بعض چیزوں سے پرھیز بھی کرسگتا ھے اور بیماری کے بڑھنے کے خوف سے جس طرح کچھ چیزیں نھیں کھاتا، اسی طرح جن گناھوں میں ملوث ھے ان سے بھی تو پرھیز کرسکتا ھے، اور جن نافرمانیوں میں مبتلا ھے اس سے بھی تو رک سکتا ھے۔
خداوندعالم کی بارگاہ میں توبہ کی قدرت نہ رکھنے کا عذر و بھانہ کرنا قابل قبول نھیں ھے، اگر گناھگار توبہ کی قدرت نہ رکھتا ھوتا تو خداوندعالم کبھی بھی توبہ کی دعوت نہ دیتا۔
گناھگار کو اس حقیقت پر یقین رکھنا چاہئے کہ وہ ھر موقع و محل پر تركِ گناہ پر قادرھے، اور قرآنی نقطہ نظر سے خداوندعالم کی ذات گرامی بھی تواب و رحیم ھے، وہ انسان کی توبہ قبول کرلیتا ھے، اور انسان کے تمام گناھوں کو اپنی رحمت و مغفرت کی بنا پر بخش دیتا ھے اگرچہ تمام ریگزاروں کے برابر ھی کیوں نہ ھوں، اور اس کے سیاہ نامہ اعمال کو اپنی مغفرت کی سفیدی سے مٹادیتا ھے۔
گناھگار کو اس چیزکا علم ھونا چاہئے کہ اگر تركِ گناہ اور اپنے ظاھر و باطن کی پاکیزگی کے لئے قدم نہ اٹھائے اور گناہ و معصیت میں اضافہ کرتا رھے، تو پھر خداوندعالم بھی اس کو دردناک عذاب میں گرفتار کردیتا ھے اور سخت سے سخت عقوبت اس کے لئے مقرر فرماتاھے۔
خداوندعالم نے قرآن مجید میں خود کو اس طرح سے پہچنوایا ھے:
((غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیدِ الْعِقَاب))۔ 1
"وہ گناھوں کا بخشنے والا، توبہ کا قبول کرنے والا اور شدید عذاب کرنے والا ھے "۔
امام معصوم علیہ السلام دعائے افتتاح میں خداوندعالم کی اس طرح حمد و ثنا فرماتے ھیں:
"وَاَیْقَنْتُ اَنَّكَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ فِی مَوْضِعِ الْعَفْوِوَالرَّحْمَةِ، وَاَشَدُّ المُعَاقِبِینَ فِی مَوْضِعِ النَّکالِ وَالنَّقِمَةِ"۔
"مجھے اس بات پر یقین ھے کہ تو رحمت و بخشش کے مقام میں سب سے زیادہ مھربان ھے، اور عذاب و عقاب کے مقام میں شدید ترین عذاب کرنے والاھے"۔
اسی طرح خداوندعالم نے قرآن مجید میں گناھگاروں سے خطاب فرمایا ھے:
((قُلْ یَاعِبَادِی الَّذِینَ اٴَسْرَفُوا عَلَی اٴَنْفُسِهم لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّه هوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ))۔ 2
"(اے )پیغمبر آپ پیغام پہنچا دیجئے کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ھے رحمت خدا سے مایوس نہ ھوں، اللہ تمام گناھوں کا
معاف کرنے والا ھے اور وہ یقینا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے"۔
لہٰذا ایک طرف خداوندعالم کا تواب و غفور ھونا اور دوسری طرف سے گناھگار انسان کا گناھوں کے ترک کرنے پر قادر ھونا اس کے علاوہ قرآن مجید کی آیات کا گناھگار انسان کو خدا کی رحمت و مغفرت کی بشارت دیناان تمام باتوں کے باوجود ایک گناھگار کو اپنے گناھوں کے ترک کرنے میں کوئی عذر و بھانہ باقی نھیں رہنا چاہئے، اسی لئے گناھگار کے لئے توبہ کرنا عقلی اور اخلاقی لحاظ سے "واجب فوری"ھے۔
اگر گناھگار توبہ کے لئے قدم نہ بڑھائے، اپنے گزشتہ کا جبران وتلافی نہ کرے اور اپنے ظاھر و باطن کو گناہ سے پاک نہ کرے، تو عقل و شرع، وجدان اور حکمت کی نظر میں اس دنیا میں بھی محکوم و مذموم ھے، اور آخرت میں بھی خداوندعالم کے نزدیک مستحق عذاب ھے۔ ایسا شخص روز قیامت حسرت و یاس اور ندامت و پشیمانی کے ساتھ فریاد کرے گا:
(( ۔ ۔ ۔ لَوْ اٴَنَّ لِی كَرَّةً فَاٴَكُونَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ))۔ 3
"اگر مجھے دوبارہ واپس جانے کا موقع مل جائے تو میں نیک کردار لوگوں میں سے ھو جاوٴں "۔
اس وقت خداوندعالم جواب دے گا:
((بَلَی قَدْ جَائَتْكَ آیَاتِی فَكَذَّبْتَ بِها وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنْ الْكَافِرِینَ))۔ 3
"ھاں ھاں تیرے پاس میری آیت یں آئی تھیں تو نے انھیں جھٹلا دیا اور تکبر سے کام لیا اور کافروں میں سے ھو گیا"۔
روز قیامت گناھگار شخص کی نجات کے لئے دین و عمل کے بدلے میں کوئی چیز قبول نہ ھوگی، اور اس کی پیشانی پر سزا کی مھر لگادی جائے گی:
((وَلَوْ اٴَنَّ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَه مَعَه لاَفْتَدَوْا بِه مِنْ سُوءِ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَبَدَا لَهم مِنْ اللهِ مَا لَمْ یَكُونُوا یَحْتَسِبُونَ))4
"اور اگر ظلم کرنے والوں کو زمین کی تمام کائنات مل جائے اور اتنا ھی اور بھی دیدیا جائے تو بھی یہ روز قیامت کے بدترین عذاب کے بدلے میں سب دیدیں گے، لیکن ان کے لئے خدا کی طرف سے وہ سب بھر حال ظاھر ھوگا جس کا یہ وھم و گمان بھی نھیں رکھتے تھے"۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام دعائے کمیل میں فرماتے ھیں :
خدا کی بارگاہ میں گناھگار کے توبہ نہ کرنے میں کوئی عذر قبول نھیں کیا جائے گا، کیونکہ خدا نے گناھگار پر اپنی حجت تمام کردی ھے:
" فَلَكَ الحُجةُ عَلَيَّ فی جَمیعِ ذٰلِكَ، وَلاٰحُجَّةَ لِی فِی مٰاجَریٰ عَلَيَّ فیه قَضٰاوُٴكَ"۔
"تمام معاملات میں میرے اوپر تیری حجت تمام ھوگئی ھے اور اسے پورا کرنے میں تیری حجت باقی نھیں رھی "۔
بندوں پر خدا کی حجت کے سلسلے میں ایک اھم روایت
"عبد الاعلیٰ مولیٰ آل سام کھتے ھیں : میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا: روز قیامت ایک حسین و جمیل عورت کو لایا جائے گا جس نے دنیا میں اپنے حسن و جمال کی وجہ سے گناہ ومعصیت کو اپنا شعار بنایا تھا، وہ اپنی بے گناھی ثابت کرنے کے لئے کھے گی: پالنے والے! تو نے مجھے خوبصورت پیدا کیا، لہٰذا میں اپنے حسن و جمال کی بنا پر گناھوں کی مرتکب ھوگئی، اس وقت جناب مریم (سلام اللہ علیھا) کو لایا جائے گا، اور کھا جائے گا: تو زیادہ خوبصورت ھے یا یہ باعظمت خاتون؟ ھم نے اس کو بھت زیادہ خوبصورت خلق فرمایا، لیکن پھر بھی انھوں نے اپنے کو محفوظ رکھا، برائیوں سے دور رھیں۔
اس کے بعد ایک خوبصورت مرد کو لایا جائے گاوہ بھی اپنی خوبصورتی کی بنا پر گناھوں میں غرق رھا، وہ بھی کھے گا: پالنے والے ! تو نے مجھے خوبصورت پیدا کیا، جس کی بنا پر میں نامحرم عورتوں کے ساتھ گناھوں میں ملوث رھا۔ اس وقت جناب یوسف (علیہ السلام) کو لایا جائے گا، اور کھا جائے گا: تو زیادہ خوبصورت ھے یا یہ عظیم الشان انسان، ھم نے انھیں بھی بھت خوبصورت پیدا کیا لیکن انھوں نے بھی اپنے آپ کو گناھوں سے محفوظ رکھااور فتنہ و فساد میں غرق نہ ھوئے۔
اس کے بعد ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا، جو بلاء اور مصیبتوں میںگرفتار رہ چکا تھا اور اسی وجہ سے اس نے اپنے کو گناھوں میں غرق کرلیا تھا، وہ بھی عرض کرے گا: پالنے والے! چونکہ تونے مجھے مصیبتوں اور بلاؤں میں گرفتار کردیا تھا جس سے میرا حوصلہ اور استقامت جاتی رھی اور میں گناھوں میں غرق ھوگیا، اس وقت جناب ایوب (علیہ السلام) کو لایا جائے گااور کھا جائے گا: تمھاری مصیبتیں زیادہ ھیں یا اس عظیم انسان کی، یہ بھی مصیبتوں میں گھرے رھے، لیکن انھوں اپنے آپ کو محفوظ رکھا اور فتنہ وفساد کے گڑھے میں نہ گرے" 5
مؤلف: حسین انصاریان ذرائع: کتاب(توبہ آغوش رحمت )
1. (ورہٴ موٴمن (غافر)آيت 3۔
2. سورہٴ زمر آيت 53۔
3. سورہٴ زمر آيت، 58۔
4. سورہٴ زمر آيت، 59۔
5. سورہٴ زمر آيت، 47۔