جھوٹ بولنا ايک انتہائي برى صفت ہے اور گناہان کبيرہ ميں ہے دنيا کى تمام قوميں اور ملتيں ، جھوٹ بولنے کى مذمت کرتى ہيں اور جھوٹ بولنے والے کو پست اورگھٹيا قرار ديتى ہيں جھوٹ بولنے والے شخص کا دنيا والوں کى نظر ميں کوئي عزت واعتبار نہيں ہوتا ايک شريف اور اچھا شخص جھوٹ نہيں بولتا اسلام نے بھى اس برى صفت کى مذمت کى ہے اور اسے گناہ کبيرہ اور حرام قرار ديا ہے امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ہيں: ( ”جھوٹ خرابى ايمان کى بنياد ہے ” حضرت صادق عليہ السلام فرماتے ہيں:
کہ حضرت عيسى عليہ السلام نے فرمايا جو زيادہ جھوٹ بولتا ہے اس کى کوئي عزت ( نہيں ہوتى)
حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں: ( کوى کام جھوٹ سے بڑھ کے گھٹيا نہيں الله کے سب نبيوں اور سب دينى رہنماؤ ں نے لوگوں کو سچائي کى دعوت دى ہے سچ ايک فطرى اور طبيعى چيز ہے اور انسان کى سرشت کا حصہ ہے سب سچ اور سچّے کو پسند کرتے ہيں اور جھوٹے سے نفرت کرتے ہيں يہاں تک کہ جھوٹ بولنے والا شخص بھى ايسا ہى ہے اگر بچے کو اس کے حال پہ چھوڑدياجائےتو فطرى طور پر اس کى تربيت ايسى ہوگى کہ وہ سچا ہوگا يہ تو خارجى عوامل اور اسباب ہيں کہ جو اسے خداداد فطرت سے منحرف کرديتے ہيں اور اسے دروغ گوئي کى طرف لے جاتے ہيں جھوٹ بولنا ايک ننھے بچے سے اصلاً ميں نہيں کھاتا بعد از آن اسسے منحرف ہوجائے اور جھوٹ بولنے کا عادى بن جائے تو بڑے ہوکر يہ عادت ترک کرنا اس کيلئے دشوار ہوگا اور زيادہ امکان يہى ہے کہ وہ اس سے دستبر دار نہيں ہوگا پھر اس پر نہ کوئي آيت اثر کرے گى نہ روايت اور نہ وعظ ونصيحت ماں باپ کى ذمہ دارى ہے کہ وہ بچپن ہى سے اس بات کى فکر کريں کہ ان کى اولاد سچى ہو جھوٹ کے علل و اسباب کوروکيں اور سچائي کو جو ان کى سرشت ميں شامل ہے اس کى پرورش کريں سچائي کى تربيت کو نظر انداز نہيں کرنا چاہيے اور نہ اسے بڑے ہونے پرٹال دينا چاہيے جو ماں باپ اپنى اولاد کى تربيت کے خواہشمند ہيں اور احساسذمہ دارى رکھتے ہيں توانہيں چاہيے کہ
مندرجہ ذيل امور کى طرف توجہ فرمائيں
1بچے کى تربيت پر اثر انداز ہونے واى ايک نہايت اہم چيز خاندان کا ماحول ہے خاندان کے ماحول ميں بچہ پروان چڑھتاہے اور وہ ماں باپ سے اور ساتھ رہنے والوں سے اخلاق سيکھتا ہے اور ان کى پيروى کرتا ہے اگر گھر کا ماحول سچائي اور درستى پر بنى ہو ، ماں باپ اور ديگر افراد صداقت اور سچائي سے ايک دوسرے کے ساتھ پيش آنے والے ہوں تو ان کے بچے بھى يہى سيکھيں گے اس کے برعکس اگر گھر کا ماحول ہى جھوٹ اور دروغ گوئي پر بنى ہو، ماں باپ ايک دوسرے سے اپنى اولاد سے اور ديگر افراد سے جھوٹ بولتے ہوں بے گناہ بچے جو ايسے ماحول ميں پرورش پائيں گے يہى برى عادت ماں باپ سے سيکھيں گے اور دروغ گو بن جائيںگے جن بچوں کے کان جھوٹ سے آشنا ہو گئے ہوں اور جو ہر روز ماں باپ سے دروغ گوئي کے مظاہر ديکھتے ہوں ان سے کيسے توقع کى جا سکتى ہے کہ وہ سچّے اور صادق پروا ن چڑھيں ايسے ماحول ميں يہ صلاحيت نہيں ہے کہ وہ جھوٹے اور فريبى شخص کے علاوہ کچھ تريت کرے ايسا زہر يلا ماحول ہى ہے کہ جو ايک حساس اور اثرات قبول کرنے والے بچے کى فطرت کو سچائي سے منحرف کرديتا ہے اور دروغ گوئي کا عادى بنا ديتا ہے بعض نادان ماں باپ نہ صرف يہ کہ خود جھوٹ بولتے ہيں بلکہ اپنے بچوں کو بھى جھوٹ بولنے کى تلقين کرتے ہيں باپ گھر پہ ہے ليکن بچے کو کہتا ہے فلان شخص سے کہو ابو گھر پہ نہيں ہيں بچہ جو ٹھيک ٹھاک تھا اور اس نے گھر کا کام نہيں کيا باپ اس سے کہتاہے استاد سے کہنا ميں بيمار تھا ايسے سينکڑوں جھوٹ ہيں جن کا بعض گھروں ميں ہر روز تکرار ہوتا ہے ايسے نادان ماں باپ اپنے بچوں سے بہت بڑى خيانت کے مرتکب ہوتے ہيں جھوٹ بولنا گناہ ہے ليکن جھوٹ سکھانا اس سے کہيں بڑا گناہ ے جھوٹے ماں باپ جھوٹ بولنے کى سزاکى علاوہ بھى بہت بڑى سزاپائيں گے اور وہ ہے جھوٹ بولنے کى تربيت دينا ماں باپ کہ جو خاندان کے سرپرست ہوتے ہيں وہ جھوٹ بوليں تو يہ کوئي معمولى گناہ نہيں ہے بلکہ ہمت بڑا گرناہ ہے اس کے ساتھ بہت بڑا گناہ نمسلک ہے اور وہ ہے بچوں کو جھوٹ سکھانا ايسے ماں باپ نہ صرف گناہ کبيرہ کے مرتکب ہوتے ہيں اور انہيں اس کى سزا ملے گى بلکہ وہ اپنے معصوم بچوں کے ساتھ بھى ايک بہت بڑى خيانت کے مرتکب ہوتے ہيں جب کہ يہ بچے ان کے پاس الله کى امانت ہيں اور يہ خيانت ان کى معاشرے کے ساتھ بھى ہے ايسے ماں باپ ہى ہيں جو ايک جھوٹے اور فريب کار معاشرے کو وجود ديتے ہيں لہذا جو ماں باپ چاہتے ہيں ان کے بچے سچے ہوں ان کے پاس اس کے علاوہ کوئي چارہ نہيں کہ وہ خود راست گوئي اختيار کريں اور اپنى اولاد کے ليے بہترين ماحول فراہم کريں اور ان کے ليے نمونہ عمل بنيں رسل لکھتا ہے ”اگر آپ چاہتے ہيں کہ بچے جھوٹ بولنا نہ سيکھيں تو اس کے علاوہ کوئي چارہ نہيں کہ بڑے پور ى توجہ سے ہميشہ بچوں کے سامنے سچائي ( اختيار کريں ”)