انسان کا خدا سے رشتہ اور تعلق
قرآن کریم نے خدا کے ساتھ انسان کے رشتہ اور تعلق کو دلکش ترین انداز میں بیان کیا ہے‘ قرآن کا خدا‘ فلسفیوں کے خدا کے برخلاف ایک خشک و بے روح اور بشر سے یکسر بیگانہ وجود نہیں ہے۔ قرآن کا خدا انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس سے نزدیک ہے‘ انسان کے ساتھ لین دین رکھتا ہے اور اس کے مقابل میں انسان کو اپنی رضا و خوشنودی عطا کرتا ہے‘ اس کو اپنی طرف جذب کرتا ہے اور اس کے دل کے آرام و سکون اور اطمینان کا سرمایہ ہے: الابذکر اللّٰہ تطمئن القلوب( سورہ رعد‘ آیت ۲۸)
انسان خدا سے انسیت اور الفت رکھتا ہے‘ بلکہ تمام موجودات اس کو چاہتے ہیں اور اسی کو پکارتے ہیں۔ تمام موجودات عالم اپنے اپنے وجود کی گہرائی سے اس کے ساتھ رازدارانہ رابطہ اور تعلق رکھتے ہیں‘ اس کی حمد بجا لاتے ہیں اور اس کی تسبیح کرتے ہیں:
ان من شئی الا یسبح بحمدہ و لکن لا تفقہون تسبیحھم (سورہ اسراء‘ آیت ۴۴)۔
قرآن کا خدا انسان کی دلبستگی کا سرمایہ
فلسفیوں کا خدا جس کو وہ لوگ صرف محرک اول اور واجب الوجود کے نام سے پہچانتے ہیں اور بس ایک ایسا موجود ہے‘ جو بشر سے بالکل بیگانہ ہے‘ جس نے انسان کو صرف پیدا کر دیا ہے اور اسے دنیا میں بھیج دیا ہے‘ لیکن قرآن کا خدا ایک ”مطلوب“ ہے‘ انسان کی دلبستگی کا سرمایہ ہے‘ وہ انسان کو پرجوش بناتا اور ایثار و قربانی پر آمادہ کرتا ہے‘ کبھی کبھی تو اس کی رات کی نیند اور دن کے سکون کو بھی چھین لیتا ہے کیوں کہ وہ ایک غیر معمولی مقدس خیال و تصور کی صورت میں مجسم ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔
قرآن نے الٰہیات کو عروج بخشا
مسلمان فلاسفہ نے قرآن سے آشنا ہونے اور قرآنی مفاہیم و مطالب کو پیش کرنے کے نتیجے میں الٰہیات کی بحث کو اس عروج پر پہنچا دیا ہے۔ کیا یہ بات ممکن ہے کہ ایک اُمّی اور ناخواندہ شخص جس نے نہ تو کسی استاد کے پاس تعلیم حاصل کی اور نہ کسی مکتب میں گیا ہو‘ اس حد تک الٰہیات میں ترقی کر جائے کہ افلاطون اور ارسطو جیسے فلاسفہ سے ہزاروں سال آگے بڑھ جائے؟
کتاب: وحی اور نبوت، تالیف شہید مرتضی مطہری سے اقتباس