ایکنا نیوز- حجتالاسلام والمسلمین محمد سروش محلاتی نے دعائے سحر کی تشریح کرتے ہوئے اس اقتباس «اَللَّـهُمَّ اِنّی اَسَئَلُکَ مِنْ نُورِکَ بِاَنْوَرِهِ وَکُلُّ نُورِکَ نَیِّرٌ؛ اے رب تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے نورانی ترین حق کے واسطے کہ تیرے سارے مراتب نورانی ہیں۔
روایات میں اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ دعا سحر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ نور کا دائرہ کار بہت وسیع ہے اور تمام اشیا میں اس نور کو دیکھا جاسکتا ہے۔
عدالت نور اور ظلم تاریکی ہے
قرآن کریم اور روایات ہمیں ایک اور انسانی نورانی عالم کی طرف لے جاتے ہیں ، تاریکی اور ظالم ایکدوسرے کے ہمنشین ہیں جہاں ظلم وہاں ظلمت ہے۔
جو ادبیات ہمیں نور کی طرف بلاتے ہیں وہ ظلم کے خلاف ہیں اور ظلم کو ہٹا کر نور کو اس کی جگہ لانے کی ضرورت ہے، رب العزت سورہ زمر میں فرماتا ہے:
«وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ.»
نور سے مقصود حسی نور نہیں، نور کیسے زندگی پر جلوہ گر ہوتا ہے؟ فیض کاشانی کا کہنا ہے کہ نور کا جلوہ گر ہونا اس وقت ممکن ہے جب زمین پر عدل کا نفاز ہو اور عدل کے خدا نے عدل کو نور کہا ہے اور جب شہروں میں عدل عام ہوتا ہے اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کیا جاتا ہے تو معاشرہ نورانی ہوتا ہے جیسے کہ ظلم تاریکی ہے۔/