ماں کے حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں

Rate this item
(0 votes)
ماں کے حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
عرض مترجم
ماں اس ہستی کا نام ہے جو زندگی کے تمام دکھوں اور مصیبتوں کو اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے۔ اپنی زندگی اپنے بچوں کی خوشیوں، شادمانیوں میں صَرف کرتی چلی آئی ہے اور جب تک یہ دنیا قائم و دائم ہے یہی رسم جاری رہے گا۔یوں تو دنیا میں ہر انسان چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، چاہے کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو ماں ہر ایک  کے لیئے قابلِ قدر ہے۔ مگر خاص طور پر ہماری مشرقی ماں تو ہوتی ہی وفا کی پُتلی ہے۔ جو جیتی ہی اپنے بچوں کیلئے ہے ۔ ویسے تو دنیا نے ماں کیلئے ایک خاص دن کا تعین کر دیا ہے( 1)  چونکہ ہم حضورِ اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امتی ہیں اور اسلام ہی ہمارا مکمل مذہب ہے اس لئے یہاں یہ ذکر ضرور کروں گا کہ اسلامی تعلیم کی روشنی میں اللہ کی طرف سے ماں دنیا کا سب سے خوبصورت تحفہ ہے۔ ماں تو ایک ایسا پھول ہے جو رہتی دنیا تک ساری کائنات کو مہکاتی رہے گی۔ اس لئے تو کہتے ہیں کہ ماں کا وجود ہی ہمارے لئے باعثِ آرام و راحت، چین و سکون، مہر و محبت، صبر و رضا اور خلوص و وفا کی روشن دلیل ہے۔(2 )
مقالہ حاضر ایک فارسی مقالہ کا ترجمہ ہے جسے آیت اللہ اسماعیلی نے تحریر کیا تھا۔ استاد محترم قبلہ حجۃ الاسلام شیخ غلام قاسم تسنیمی کے زیر نظر میں نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اصل مقالہ کی نسبت ترجمہ میں چند باتوں کا خیال رکھا:- 1- کسی بھی آیت، حدیث یا عربی عبارت کو متن میں ذکر نہیں کیا بلکہ انہیں پاورقی میں درج کیا تاکہ اہل تحقیق حضرات کے لئے آسان ہو جائے۔ 2-  حوالہ دیتے وقت  قدیمی کتابوں کو زیادہ ترجیح دیا۔ 3- بہت سی احادیث جو اصل مقالہ میں واضح نہیں کیا تھا انہیں واضح کر کے  بمعہ حوالہ ذکر کیا۔ 4- آیتوں کا ترجمہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ کی بلاغ القرآن سے لیا ہے۔5۔ آخر میں کتابنامہ کو اضافہ کیا تاکہ اہل تحقیق کے لئے ہر مشکل کا سد باب ہو جائے۔
قم حرم اہل بیت علیہم السلام، ربیع الثانی  1437 ہ ق۔
مقدمہ مولف
ماں باپ اپنی اولاد کے لئے خدا کے فضل و کرم کا ذریعہ ہیں، اور خدا کی رضایت ان کی رضایت میں ہے؛ اسی لئے خدا نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا وہاں والدین  کے ساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا پس ہمیں بھی چاہیئے کہ  ان کے حقوق کو پہچان لیں اور انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں۔ البتہ ان کے حقوق کو ادا کرنا اس بات پر  منحصر ہے کہ پہلے ہم ان کے حقوق کو جان لیں۔
حقوق کی تعریف
حقوق حق کی جمع ہے اور حق "حقق" کے مادہ سے نکلا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ہر کام یا بات حقیقت میں جس انداز میں ہو  جسطرح واجب ہو  جس وقت واجب ہو اسے اسی طرح انجام دینا  ہے۔ کتاب مختار الصحاح میں آیا ہے کہ حق الشئ ای وجب کسی چیز کا حق اس کا واجب ہونا ہے۔
حقوق والدین کی اہمیت
قرآن کریم کی متعدد آیات میں توحید کے فورا بعد والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم آِیا ہے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں حقوق والدین کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ والدین کا احترام کرنا،  انبیاء علیہم السلام کی صفت ہے۔جیسے قرآن کریم میں خدا حضرت یحیٰ علیہ السلام کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتاہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے اور سرکش و نافرمان نہیں تھے( 3) ۔اور  حضرت عیسی علیہ السلام کی زبانی نقل ہوا ہے  کہ انہوں نے فرمایا کہ خدا نے مجھے اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے(4 )۔  اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی نے پوچھا کہ آدمی پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا والدین کا (5 )۔
ماں کون ہے؟
ماں کا لفظ اپنے عمومی اور بنیادی مفہوم میں اردو میں ایک ایسی ہستی کے لیے ادا کیا جاتا ہے کہ جس سے کسی بچے کی ولادت ہوئی ہو یعنی بچے کے والدین میں سے مونث رکن کو ماں کہا جاتا ہے۔ انسانی نسل کو آگے بڑھانے کے لئے عورت اور مرد کا جنسی اختلاط لازمی ہے۔ معاشرے میں اس قسم کے اختلاط کی قانونی شکل کو شادی کا نام دیا جاتا ہے، جس کی تفصیل تقریباًً تمام مذاہب میں موجود ہے۔ اس جنسی ملاپ کے دوران ماں ایک بیضۂ مخصبہ کا حمل اٹھاتی ہے جس کو ابتدا میں جنین اور پھر نو ہفتے کے بعد سے حمیل کہا جاتا ہے۔ حمل اٹھانے کا مقام جہاں حمیل اپنی پیدائش یا ولادت تک رہتا ہے اسے رحم  کہتے ہیں ، پیدائش کے بعد ماں کے پستان میں دودھ تخلیق پاتا ہے  جسے وہ اپنے بچے کو غذا فراہم کرنے کے لیے پلاتی ہے اس عمل کو رضاع کہا جاتا ہے۔ وہ عورت اور شریک مرد بچے کے حیاتیاتی اور معاشرتی باپ اور ماں کہلائے  جاتے ہیں۔ ماں باپ کے جوڑے کو والدین بھی کہا جاتا ہے۔
وجہ تسمیہ
ماں کے لیے دیگر الفاظ ؛ اماں ، امی ، ممی ، ماما اور مادر وغیرہ کے آتے ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا لفظ دنیا کی متعدد زبانوں میں خاصا یکسانیت رکھنے والا کلمہ ہے، اور اس کی منطقی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ماں کے لیے اختیار کیۓ جانے والے الفاظ کی اصل الکلمہ ایک کائناتی حیثیت کی حامل ہے اور اسے دنیا کی متعدد زبانوں میں ، اس دنیا میں آنے کے بعد انسان کے منہ سے ادا ہونے والی چند ابتدائی آوازوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ جب بچہ رونے اور چلانے کی آوازوں کی حدود توڑ کر کسی مخصوص قسم کی آواز نکالنے کے قابل ہوتا ہے اور بولنا سکھتا  ہے تو عام طور پر وہ اُم اُم / ما ما / مم مم / مما مما (پا پا) وغیرہ جیسی سادہ آوازیں نکالتا ہے اور محبت اور پیار کے جذبے سے سرشار والدین نے ان ابتدائی آوازوں کو اپنی جانب رجوع کر لیا جس سے ماں کے لیے ایسی آوازوں کا انتخاب ہوا کہ جو نسبتاً نرم سی ہوتی ہیں یعنی میم سے ابتدا کرنے والی اور باپ کے لیے عموماً پے سے شروع ہونے  والی آوازیں دنیا کی متعدد زبانوں میں پائی جاتی ہیں۔
ماں کو عربی زبان میں اُم کہتے ہیں‌، اُم قرآن مجید میں 84 مرتبہ آیا ہے ، اس کی جمع اُمھات ہے ، یہ لفظ قرآن مجید میں گیارہ مرتبہ آیا ہے ، صاحب محیط نے کہا ہے کہ لفظ اُم جامد ہے اور بچہ کی اس آواز سے مشتق ہے جب وہ بولنا سیکھتا ہے تو آغاز میں اُم اُم وغیرہ کہتا ہے اس سے اس کے اولین معنی ماں کے ہوگئے ، ویسے اُم کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کی اصل ، اُم حقیقت میں یہ تین حرف ہیں‌(ا+م+م ) یہ لفظ حقیقی ماں‌پر بولا جاتا ہے اور بعید ماں پہ بھی ۔ بعید ماں سے مراد نانی، دادی وغیرہ یہی وجہ ہے کہ حضرت حوا  رضی اللہ عنہا کو امنا ( ہماری ماں‌) کہا جاتا ہے ۔
خلیل نحوی کا قول ہے ۔ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات سما جائیں‌وہ ان کی اُم کہلاتی ہے ۔ جیسے لوح محفوظ کو اُم الکتاب کہا گیا کیونکہ وہ تمام علوم کا منبع ہے ، مکہ مکرمہ کو اُم القری کہتے ہیں کیونکہ وہ خطہ عرب کا مرکز ہے ، کہکشاں کو اُم النجوم کہتے ہیں کیونکہ اس میں بہت سے ستارے سمائے ہوتے ہیں ، جو بہت مہمانوں کو جمع کرے اُسے اُم الضیاف کہتے ہیں ، سالار لشکر کو اُم الجیش کہتے ہیں ۔ ابن فارس نے کہا ہے کہ اُم کے چار معنی ہیں :- (بنیاد و  اصل) (2) مرجع (6) جماعت (7) دین( 8)
ماں کا حق مقدم ہے
والدین میں سے ماں کا حق  مقدم ہے یہاں چند احادیث کی طرف اشارہ ہوگا  جن سے والدہ کے حق کا والد کے حق پر مقدم ہونا معلوم ہو جائے گا:
1-    ایک آدمی رسول خدا کےپاس آیا اور عرض کیا  کہ کون زیادہ حقدار ہے جس کے ساتھ میں نیک سلوک کروں؟ تو آپ نے فرمایا : تیری ماں۔ اس نے دوبارہ پوچھا کہ ماں کے بعد؟ تو آپ ص نے جواب دیا تیری ماں۔ اس نے پھر پوچھا اس کےبعد؟  پھر بھی آپ ص نے جواب دیا کہ تیری ماں۔ اس نے وہی سوال پھر تکرار کیا تو آپ ص نے فرمایا تیرا والد(9)۔
2-    اسی طرح ایک اور حدیث میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور والدین سے نیکی کرنے کے بارے میں پوچھا تو  آپ نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو، اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو، اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو ۔ اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرو، اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرو،  اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرو، رسول اللہ نے باپ سے پہلے ماں کا ذکر کیا( 10)۔
ان احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ماں کے ساتھ نیکی کرنا باپ سے پہلے ہےاور رسول اللہ کا ان دو نیکیوں کو تکرار کرنا ان کی اہمیت کی خاطر ہے۔
3-    ایک اور حدیث میں امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:  کہ حضرت موسی بن عمران علیہ السلام نے   خدا سے التجاء کی کہ پالنے والے ! مجھے  وصیت (نصیحت) کیجیئے تو خدا نے فرمایا میں تجھے میرے بارے میں وصیت کرتا ہوں ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے وہی سوال پھر دہرایا خدا نے دوبارہ وہی وصیت کی، حضرت موسی علیہ السلام نے پھر  سوال دہرایا تو خدا نے جواب میں فرمایا میں تجھے تیری ماں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں، حضرت موسی نے پھر التجاء کی تو خدا نے فرمایا: میں تجھے تیری ماں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں،   میں تجھے باپ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں(11 )۔
خدا نے حضرت موسی علیہ السلام کو دومرتبہ  اپنی ذات کے بارے میں سفارش کی  ، دو مرتبہ والدہ کے بارے میں اور ایک مرتبہ والد کے بارے میں ۔ اس حدیث سے کئی نکتے ہماری سمجھ میں آتے ہیں:
•    خدا وند عالم باپ سے پہلے ماں کی سفارش کرتاہے۔
•    خدا نے اپنے برابر ماں کی سفارش کی ہے۔
•    خدا وند عالم حضرت موسی علیہ السلام کو جو نبی اور معصوم ہیں، ماں کے بارے میں سفارش کر رہا ہے۔ اور اسے دو بار دہراتا ہے یہ حق ممتا کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔
4-    پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: ماں کا حق باپ کے دوگنا ہے(12 )۔
5-    علی ابن الحسین علیہما السلام فرماتے ہیں: حقوق میں سے جس ہستی کا حق تم پر سب سے زیادہ ہے وہ تیری ماں ہے اور اس کے بعد تیرا باپ۔(13 )
6-    اسی طرح روایت میں آیا ہے کہ ایک آدمی رسول خدا صلی اللہ علیہ  و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! والدین میں سے کس کا حق بڑا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسی کا جس نے تجھے اپنے دونوں پہلوؤں( 14) کے درمیان اٹھائے رکھا ہے( 15)۔
7-    اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: خدا تم لوگوں کو تمہاری ماؤں کے بارے میں سفارش کرتا ہے اور اس جملہ کو تین مرتبہ دہرایا پھر فرمایا کہ اس کے بعد رشتہ داری میں جو نزدیک سے نزدیک تر ہے اس کی سفارش کرتا ہے۔( 16)
8-    فقہ الرضا علیہ السلام میں امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: جان لو کہ ماں کا حق باپ سے زیادہ واجب اور لازم حقوق میں سے ہے( 17)۔ یہ بھی اہمیت ممتا کو اجاگر کرنے کے لئے ہے۔
9-    خدا نے حضرت موسی علیہ السلام کو فرمایا : آگاہ ہوجاؤ کہ ماں کی خوشنودی میری خوشنودی اور ماں کی ناراضگی میری ناراضگی ہے۔( 18)
حق مادر کی ادائیگی سے ناتوانی
امام  سجاد علیہ السلام رسالہ حقوق میں ارشاد فرماتے ہیں: ماں کا حق یہ ہے کہ تم اسے پہچانو کہ وہ کون ہے اور یہ جان لوکہ وہی اپنے شکم میں تمہارا بوجھ اٹھائے رہی اور اپنے تمام احساسات اور قوتوں کے ساتھ تمہاری حفاظت کرتی رہی۔ تمہیں بھوک و پیاس سے بچانے کے لئے خود بھوک و پیاس برداشت کرتی رہی۔ خود برہنہ تک رہی مگر تم کو لباس پہنایا۔ خود دھوپ میں رہی مگر تم کو سایے میں رکھا۔ تمہارے آرام کے ٖلئے وہ جاگتی رہی مگر تمہیں سلاتی رہی۔ تمہارے لئے اس نے گرمی ، سردی، بھوک، پیاس اور طرح طرح کی تکلیفیں جھیلیں تاکہ تم اس کےفرزند سعید بنو۔ اس کے احسانات اتنے ہیں کہ ممکن نہیں کہ تم بغیر اللہ کی مدد کے اس کے احسانات کا بدلہ دے سکو یا اس کا شکریہ ادا کر سکو( 19)۔
روایات میں آیا ہے کہ ایک دن کسی نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ  ماں کا حق کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب دیا  تم کھبی بھی اس کا حق ادا نہیں کرسکتے ہو۔ اگر فرزند صحرا کی ریت کے ذرات، بارش کے قطرات کے برابر بھی والدہ کے حق کو ادا کرنے کی کوشش کرے تو بھی اس ایک دن کے برابر نہیں ہو جائے  گا جس دن ماں نے اس کو اپنی شکم میں اٹھائے رکھا ہے۔( 20 )
اسی طرح ایک اور روایت میں مروی ہے کہ  کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور کہا کہ میری ماں بوڑھی ہو چکی ہے اور وہ اس وقت میرے پاس ہے میں اسے اپنے کاندھوں پہ اٹھاتا ہوں ، اپنےکسب و  مزدوری سے اسے کھلاتا ہوں اپنے ہاتھوں سے اس کے منہ ہاتھ صاف کرتا ہوں، ان تمام کے باوجود بھی شرمندگی سے میں اس سے منہ چھپاتا ہوں۔ کیا میں نے  اس کا حق ادا کیا ہے؟  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں ( تم نے پھر بھی اس کا حق ادا نہیں کیا ہے،   اور تم اس کا حق ادا کرو تو بھی کیسے کرو گےاس نے تمہیں اپنے شکم میں اٹھائے رکھا ہے) اس لئے کہ اس کا پیٹ تمہاری جگہ تھا اس کے پستان تمہاری  پیاس بجھانے کا سبب تھ  ۔۔۔۔۔۔ وہ یہ سب کرتی تھی اور ساتھ یہ بھی تمنا کرتی تھی کہ تم زندہ رہو اور تم اس کے ساتھ یہ سب  کر رہے ہو اور تیری خواہش ہے کہ وہ مر جائے۔( 21)
حقوق والدین
قرآن و حدیث میں ماں اور باپ کے حقوق ایک ساتھ ذکر ہوئے ہیں  ہم بھی یہاں پر اجمالا بعض مشترک حقوق اور بعض ماں کے ساتھ مخصوص حقوق کو بیان کریں گے:
1- نیک رفتاری
والدین اور مخصوصا ماں کو  اپنی دنیوی امور  کے سلسلے میں رنج و مشکلات میں نہیں ڈالنا چاہیئے۔اگر چہ والدین کافر ہی کیوں نہ ہوں۔جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ ان دونوں کے ساتھ دنیا میں اچھا برتاؤ کریں(22 )۔
2- دعا اور استغفار
اولاد پر ماں باپ کے حقوق میں سے ایک اور حق ان کے لئے دعا کرنا ہے؛ جیسا   کہ مستحب ہے کہ ان کے لئے یہ دعا پڑھی جائے قرآن کریم  سورہ مبارکہ اسراء  آئی ہے کہ وَ قُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيراً (23 ) اور دعا کرو: پروردگارا! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے پچپن میں (شفقت سے) پالا تھا۔
آیت اللہ جوادی آملی اس آیت کی شرح میں فرماتے ہیں کہ: اس آیت میں لفظ "ربیانی" آیا ہےیعنی مجھے بچپنے میں پالا(24 ) اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین پر ضروری ہے کہ اپنی اولاد کی تربیت پر توجہ دیں اس لئے کہ وہ جتنا اولاد کی پرورش کریں گے اور ان کی تربیت کریں گے اسی حساب سے اپنے اولاد پر حق رکھیں گے۔
3- والدین کا شکریہ ادا کرنا
خدا وند عالم قرآن کریم  میں ارشاد فرماتا ہے کہ: میرا شکر بجا لاؤ اور اپنے والدین کا بھی(شکر ادا کرو) ( 25)۔
اس آیت کی وضاحت میں ایک بات کی طرف اشارہ ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا کی ذات وہ ہستی ہے جس نے ہمیں نعمتیں دی ہیں اور عقل یہ کہتی ہے کہ نعمت دینے والے منعم کا شکر بجالانا واجب ہے اور خدا نے جو نعمتیں انسان کو دی ہیں ان میں سے ایک نعمت والدین ہیں۔ والدین کے ذریعے خدا  ہم پر احسان کرتا ہے، انسان کا وجود میں آنا ہے ان دونوں پر منحصر ہے۔پس والدین نعمت خدا ہیں اور منعم بھی ؛ اسی لئے پہلے ضروری ہے کہ خدا کا شکر ادا  کریں کہ اس نے  والدین کی نعمت سے ہمیں نوازا   اور پھر والدین کا شکر ادا کریں کہ وہ  سبب نزول نعمت ہیں ہماری خاطر یہ قسم قسم کی مشکلات جھیلتے ہیں۔ اب اولاد کی ذمہ داری ہے کہ ان مشکلات کے بدلے میں ان کے ساتھ نیکی کریں۔ ان نعمتوں کاخراج تحسین پیش کرنے کے لئے والدین کا شکریہ ادا کریں۔ خدا نے ان کے شکریہ ادا کرنے کو اپنے شکریہ ادا کرنے کے ساتھ قراردیا۔ ہاں شکریہ ادا کرنا صرف لقلقہ زبان  سے نہیں ہے بلکہ دل میں احترام،  عمل  سے نیکی اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کی خاطر قدم اٹھانا ہے۔ ایک شاعر  نے  اپنی ماں سے خطاب کر کے  کیا خوب کہا ہے:
جہاں جہاں ہے میری  دشمنی سبب میں ہوں *** جہاں جہاں ہے میرا احترام تم سے ہے( 26)۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اولاد پر والدین کے لئے تین چیزیں واجب ہیں:1- ہر حال میں ان کا شکر ادا کرنا۔ 2- والدین کی اطاعت کرنا معصیت کے علاوہ باقی تمام کاموں میں چاہے وہ کسی چیز کے کرنے کا حکم دیں یا کسی چیز  سے بچنے کا حکم دیں۔ 3- ان کے سامنے اور پیٹھ پیچھے ان کی بھلائی چاہنا۔( 27)
3- ادب کی رعایت اور  گلہ شکوہ سے پرہیز
قرآن کریم میں خدا ارشاد فرماتا ہے: انہیں اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا بلکہ ان سے عزت و تکریم کے ساتھ بات کرنا، اور مہر و محبت کے ساتھ ان کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو۔
اس آیت میں لفظ "اخفض"  کے ساتھ لفظ "ذل" آیا ہے دونوں کا معنی والدین کے ساتھ نرمی اور تواضع  سے پیش آنے کے ہیں، دو ہم معنی لفظ کا تکرار  اس کام کی تاکید پر دلالت کرتا ہے۔
والدین کے ساتھ نرمی اور تواضع محبت قلبی اور رحمت کی رو سے ہونہ کہ جبر و اکراہ سے۔
والدین کو "اف" تک کہنے سے پرہیز کے سلسلے میں امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: کم سے کم عاق اف کہنا ہے اگر خدا  کے  علم میں اس سے بھی کم تر اور آسان لفظ ہوتا تو اس سے بھی نہی فرماتے۔  پس چھوٹا سا کام یا رفتار بھی اگر ان کی اذیت کا باعث بنے تو اس سے بچنا چاہیئے۔
اسی طرح ایک اور روایت میں آیا ہے: اگر والدین تمہیں دکھ پہنچائیں تو بھی انہیں اف نہ کہنا اور نہ ہی انہیں جھڑکنا ، اگر وہ تمہیں ماریں تو کہنا  کہ "خدا تمہیں بخش دے" یہی سب سے اچھی بات ہے کہ خدا قرآن میں اس کا حکم دے رہا ہے،  اور والدین کی طرف مہربانی اور رحمت کے سوا نظر نہ کریں اپنی آواز کو ان کی آواز سے  اونچا نہ کریں اپنے ہاتھوں کو ان کے ہاتھوں سے اونچا نہ کریں اپنے پاؤں(قدموں) کو ان کے پاؤں سے آگے نہ کریں ( 28 )۔ہاتھوں کو اونچا کرنا ایک کنایہ ہے کہ عرب جب بات کرتے تھے ہاتھوں کو ہوا میں لہراتے تھے۔ جیسے اس دور میں بھی بعض لوگوں کی عادت ہے ہے بات کرتے وقت مسلسل اپنے ہاتھوں کو ہوا میں لہراتے ہیں۔
4- والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا
قرآن کریم میں کئی مقامات پر والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید ہوئی ہے۔  سورہ بقرہ میں ارشاد رب العزت ہے: اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا (اور کہا) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور  والدین پر احسان کرو (29 )۔ اس آیت مبارکہ میں تین باتوں کی طرف اشارہ ہوا ہے:
1-    والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا خدا کی عبادت اور بندگی کے ساتھ ہم  ردیف ہے۔
2-    والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم صرف پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ  و آلہ و سلم کے دین یعنی دین اسلام میں نہیں ہے بلکہ  باقی ادیان میں بھی تھا۔
3-    والدین کے ساتھ احسان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے خدا نے بنی اسرائیل سے اس چیز کا عہد لیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم باربار کیوں آیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو والدین کے حقوق کی  اہمیت کے لئے ہے، اور دوسری بات  یہ ہے کہ بڑھاپے میں ماں باپ کی دیکھ بھال کرنا بڑا کٹھن مرحلہ ہے اسی لئے قرآن کریم نے بار بار "اور اپنے والدین کے ساتھ نیکی کریں"کا جملہ دہرایا ہے۔
ایک دن ابو ولاد حناط نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے  "و بالوالدین احسانا" کے بارے میں پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا  احسان یہ ہے کہ ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ، اور ان کو دوست رکھو اور ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ رہن سہن کرنے سے دریغ نہ کرو اور انہیں مجبور نہ کرو کہ جس چیز کی ضرورت ہو اسے تم سے مانگیں اگر چہ وہ دونوں بے نیاز ہی کیوں نہ ہوں۔( 30)
خواجہ نصیر الدین طوسی والدین اور اولاد کا ایک دوسرے پر احسان کرنے سے متعلق فرماتے ہیں:
والدین کا اولاد سے محبت کرنا طبیعی  اور فطری ہے اور  اولاد کا والدین  سے محبت کرنا ارادہ اور اختیار سے ہے اسی لئے تمام ادیان میں اولاد کے لئے حکم ہے کہ وہ والدین کے ساتھ احسان کریں۔ والدین کے حقوق میں ماں اور باپ میں فرق ہے   والد کے حقوق روحانی اور معنوی ہیں اس لئے رشد فکری کے بعد  اس کا مرحلہ آتا ہے لیکن ماں کے حقوق جسمانی اور عاطفی ہے اس لئے اولاد بچپن میں ہی اس کو احساس کرتا ہے اور ماں کی طرف زیادہ رغبت رکھتا ہے۔اس لئے باپ کے حقوق اطاعت کرنے، اس کے لئے دعا کرنے اور اس کی امر و نہی  کو قبول کرنےسے ادا ہو جاتے ہیں لیکن ماں کے حقوق ادا کرنے کے لئے مال کی قربانی دینی پڑتی  ہے اور ان کاموں کو انجام دینا پڑتا ہے جن سے اس کے جسم کو آرامش پہنچے(31 )۔
5- والدین کے ساتھ نیکی  زندگی میں اور مرنے کے بعد
نیکی یا بر َ یہ ہے کہ جس چیز کو ہم چاہتے ہیں وہی  دے دیں اس لئے کہ ابرار کا مقام یہی ہے یعنی وہ اپنی محبوب شئ کو دے دیتے ہیں۔ امام صادق علیہ السلام والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں:  کون سی چیز ایسی ہے جو تمہارے  اور والدین کے ساتھ  ان کی زندگی اور مرنے کے بعد احسان کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہو؛ والدین کے لئے نماز پڑھیں، صدقہ دیں، حج بجا لائیں اور روزہ رکھیں اور اسی طرح کی نیکیاں بجا لائیں اس لئے کہ اس کام سے خدا تمہیں نیک اجر دے گا  اسی طرح روایت میں آیا ہے کہ کوئی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ مجھے نصیحت کیجیئے تو آپ نے فرمایا: والدین کی اطاعت کرو  ان کے ساتھ نیکی کرو چاہے وہ دونوں زندہ ہوں یا مر چکے ہوں۔ اگر وہ  دونوں تجھے حکم دیں کہ اپنے مال اور گھر سے ہاتھ اٹھاو  تو اسے بھی انجام دے دوچونکہ یہ کام بھی ایمان کا حصہ ہے( 32)۔
علامہ مجلسی ان والدین کے ساتھ احسان کرنے کے بارے میں جو زندہ نہیں ہیں ۔کہتے ہیں کہ: والدین کے لئے استغفار کرنے، ان کے قرضوں کو ادا کرنے، ان کی عبادتوں کی قضا بجالانے، ان کے لئے نیک کام کرنے، صدقہ دینے اور ہر ثواب والے کام کرنے کے ذریعے ان کے ساتھ احسان کریں( 33)۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: والدین کے ساتھ نیکی کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بندہ نے اپنے معبود کی معرفت حاصل کی ہے؛ اس لئے کہ کوئی بھی عبادت والدین کے ساتھ نیکی کرنے سے  زیادہ خدا کو جلدی راضی نہیں کر سکتی ہے؛ چونکہ والدین کے حقوق،  اللہ کے حقوق سے مشتق ہوئے ہیں۔(34 )
والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے اثرات
والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے بہت زیادہ اثرات ہیں:
1-    والدین کے ساتھ نیکی کرنے سے انسان کی اپنی اولاد اس سے نیکی کرے گی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرو کہ تمہاری اولاد بھی تمہارے ساتھ نیکی کرے ۔( 35)
2-    عمر میں برکت: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: جو کوئی اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرے گا اللہ اس کی عمر میں برکت دے گا( 36 )۔
3-    احتضار کے وقت سکرات موت میں آسانی: امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جو یہ چاہے کہ خدا اس کی سکرات الموت کو آسان کرے تو اس کو چاہیئے کہ صلہ ارحام کریں اور اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرے، اسی طرح خدا اس پر سکرات الموت کو آسان کرے گا۔( 37)
شہید اول اپنی کتاب "قواعد" ( 38) میں حقوق والدین میں سےبعض کو یوں بیان کرتے ہیں:1- مباح سفر یہاں تک کہ مستحب سفر والدین کی اذن کے بغیر حرام ہے۔ 2- ان کی اطاعت کرنا ہر کام میں واجب ہے اگر چہ وہ کام مشکوک ہی کیوں نہ ہو، جب تک گناہ کا کام نہ ہو۔ 3- اگر نماز کا وقت  آ پہنچا ہو اور والدین کسی کام کا حکم دیں تو پہلے وہ کام انجام دیں اور بعد میں نماز پڑھیں( 39)۔ 4- والدین کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی اولاد کو جہاد کفائی (یعنی وہ جہاد جسے اگر بعض لوگ انجام دیں تو دوسروں سے ساقط ہو جاتی ہے) سے روکیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: مرد کے لئے سزاوار نہیں کہ وہ جہاد  کے  لئے نکلے جب کہ اس کے لئے ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک ہو مگر  پہلے ان سے اذن لے( 40) ۔ علامہ حلی فرماتے ہیں : اگر کسی کے مسلمان والدین ہوں  تو ان کی اذن کے بغیر اس پر جہاد نہیں ہے( 41)۔
والدین پر انفاق
اسی طرح اگر والدین استطاعت نہ رکھتے ہوں تو ان  کا نفقہ  اولاد پر واجب ہے اور خدا کی راہ میں انفاق کئے جانے والے نفقوں میں سے یہ سب سے زیادہ با فضیلت نفقہ ہے۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: کیا تم لوگ جانتے ہیں کہ راہ خدا میں سب سے افضل نفقہ کون سا ہے؟ سب نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ اس وقت آپ ص نے فرمایا کہ سب سے افضل نفقہ اولاد کا اپنے والدین پرکیا  جانے والا نفقہ ہے( 42)۔
عاق والدین
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:  حقوق والدین کا پامال کرنا ، عاق ہونے والے اسباب میں سے ایک ہے(43 ) ۔  محقق خوانساری اس حدیث کی وضاحت میں رقمطراز ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین سے عاق ہونا صرف یہ نہیں کہ  ان کے ساتھ برا سلوک کیا جائے اور انہیں اذیت پہنچائی جائے بلکہ ان کے حقوق ادا نہ کرنے، ان کی اطاعت نہ کرنے جیسی حرکتیں بھی عاق ہونے کا باعث بن سکتی ہیں اور اس کا انجام بہت برا ہے( 44)۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ماں سے عاق ہونا حرام ہے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ماں سے عاق ہونے سے نہی فرمایا ہے( 45 )۔ آیت اللہ جوادی آملی فرماتے ہیں : والدین کا عاق ہونا گناہ کبیرہ ہے۔ بیوی بچوں کا عاق ہونا حرام نہیں ہے بلکہ والدین کا عاق ہونا حرام ہے۔ پس ہمیں چاہیئے کہ ان کاموں سے بچیں جن کی وجہ سے عاق ہو جاتے ہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: عاق والدین سے بچیں اس لئے کہ جنت کی خوشبو ایک ہزار سال راستے کے فاصلے سے آتی ہے لیکن کبھی بھی والدین کاعاق شدہ اسے نہیں سونگھ سکتا ہے۔(46 )
عاق ہونے والے عوامل
والدین کی طرف ٹیڑی آنکھوں سے دیکھنا  عاق ہونے والے اسباب میں سے ایک ہے۔امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں  انسان کا اپنے والدین کی طرف ٹیڑی آنکھوں سے دیکھنا  عاق ہونے کا باعث بنتا ہے( 47)۔ اگر چہ ماں باپ اپنی اولاد پر ظلم کرتے ہوں پھربھی اولاد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے ۔  اور والدین کے عاق ہونے کا نتیجہ، نماز کا قبول نہ ہونا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:   جو کوئی اپنے والدین  کی طرف نفرت سے دیکھے جب کہ والدین نے اس پر ظلم کیا ہو تو بھی  اس کی نماز قبول نہیں ہو گی(48 )۔
اسی طرح ہمیں معلوم ہونا چاہے کہ  ہوسکتا ہے کوئی والدین کی زندگی میں  ان کو راضی کرنے میں کامیاب رہے لیکن مرنے کے بعد  ان کے حقوق کو ادانہ کرنے کی باعث  عاق ہو جائے۔ اور اس کے برعکس کوئی ان کی زندگی میں تو عاق ہوجائے لیکن مرنے کے بعد  ان کے قرضوں کو ادا کرنےاور  ان کے لئے نیک کام کرنے  کی وجہ سے ان کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
ان باتوں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ والدین خاص کر ماں کے حقوق واجب حقوق میں سے ہیں اور آیات وروایات میں اس کی بہت زیادہ اہمیت وارد ہوئی ہے اور اس  کی  بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے۔

 

(1 ) ایران میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت کے دن کو ماں سے مخصوص کیا گیا ہے  اور اسے یوم مادر کہا جاتا ہے، اس دن وہ اولاد بھی جو سال بھر اپنی ماں کی ملاقات کو نہ  گئی ہو اس سے ملنے جاتے ہیں بیٹے بیٹیاں اپنی ماں کے لئے خصوصی تحفہ تحائف کا بندوبست کرتے ہیں۔ (مترجم)
(2 ) محمد جاوید اقبال صدیقی کی تحریر سے اقتباس۔ http://www.geourdu.com/columns-and-
( 3) سورہ مریم : 14۔
(4 ) سورہ مریم : 32
( 5) عن ابی جعفر ع قال" جاءت امراة الی النبی ص ... فقالت: یا رسول اللّہ من اعظم حقا علی الرجل قال: والداہ، (کاشانی، فیض، محمد محسن ابن شاہ مرتضی، الوافی الوافی؛ ج‌22، ص: 773)۔
(6 ) اردو ویکیپیڈیا، لفظ "ماں"۔
( 7) وَ جَاءَ فِی الْحَدِیثِ عَنْهُ ص أَنَّهُ قَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صِحَابَتِی قَالَ أُمُّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أُمُّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أَبُوكَ (احسایی، ابن ابی جمہور، محمد بن علی، عوالی اللئالی العزیزیة، ج‌1، ص: 444 باب اول مسلک الثالث، حدیث نمبر 165۔)
(8 ) عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ وَ سَأَلَ النَّبِيَّ ص عَنْ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ فَقَالَ ابْرَرْ أُمَّكَ ابْرَرْ أُمَّكَ ابْرَرْ أُمَّكَ ابْرَرْ أَبَاكَ ابْرَرْ أَبَاكَ ابْرَرْ أَبَاكَ وَ بَدَأَ بِالْأُمِّ قَبْلَ الْأَبِ. (کلینی، ابو جعفر، محمد بن یعقوب، الکافی، ج‌2، ص: 162)۔
( 9) عَنِ الْبَاقِرِ ع أَنَّهُ قَالَ: قَالَ مُوسَی بْنُ عِمْرَانَ ع يَا رَبِّ أَوْصِنِی قَالَ أُوصِیكَ بِی قَالَ فَقَالَ رَبِّ أَوْصِنِی قَالَ أُصِیكَ بِی ثَلَاثاً قَالَ يَا رَبِّ أَوْصِنِی قَالَ أُوصِیكَ بِأُمِّكَ قَالَ رَبِّ أَوْصِنِی قَالَ أُوصِیكَ بِأُمِّک قَالَ رَبِّ أَوْصِنِی قَالَ أُوصِیكَ بِأَبِیكَ قَالَ فَكَانَ يُقَالُ لِأَجْلِ ذَلِكَ أَنَّ لِلْأُمِّ ثُلُثَيِ الْبِرِّ وَ لِلْأَبِ الثُّلُثَ (نوری، محدث، میرزا حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج15، ص 181)۔
(10 ) خوانساری، جمال‏الدین محمد. شرح غررالحکم و دررالکلم. تہران: دانشگاہ تہران،  1373ج۔
( 11) وَ أَوْجَبُهَا عَلَيْكَ‏ حَقُ‏ أُمِّكَ‏ ثُمَ‏ حَقُّ أَبِیكَ (ابن بابویه، محمد بن علی، الخصال، ج2، ص565)۔
( 12) یعنی ماں کا جس نے تجهے نو مهینه اپنے پیٹ میں رکها اور تمام مشکلات کے باوجود تیری حفاظت کی۔
( 13) رُوِيَ: أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ ص يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْوَالِدَيْنِ‏ أَعْظَمُ‏  قَالَ الَّتِی حَمَلَتْهُ بَيْنَ الْجَنْبَيْن‏ (نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج‏15 ؛ ص182)۔
( 14) انّ اللَّه تعالی یوصیکم بامّہاتکم‏ ثلاثا، انّ اللَّه تعالی یوصیکم بآبائکم مرّتین انّ اللَّہ تعالی یوصیکم بالاقرب فالاقرب (پاینده، ابو القاسم، نہج الفصاحة (مجموعه کلمات قصار حضرت رسول صلی الله علیه و آله)، ص 312، حدیث نمبر 778)۔
(15 ) و اعلم ان حق الام الزم الحقوق و اوجبها (منسوب به امام رضا، علی بن موسی علیهما السلام، الفقه - فقه الرضا، ص 334)۔
(16 ) یا موسی الا انّ‏ رضاہا رضای و سخطہا سخطی (کبیر مدنی، سید علیخان بن احمد، ریاض السالکین فی شرح صحیفة سید الساجدین، ج 7، ص51)۔
( 17)  حریری، محمد یوسف، صدائے سجاد؛ ترجمہ سید حسن امداد، ص 115۔
(18 ) قِیلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا حَقُّ الْوَالِدِ قَالَ أَنْ تُطِیعَهُ مَا عَاشَ قِیلَ وَ مَا حَقُّ الْوَالِدَةِ فَقَالَ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لَوْ أَنَّهُ عَدَدَ رَمْلِ‏ عَالِجٍ‏ وَ قَطْرِ الْمَطَرِ أَيَّامَ الدُّنْيَا قَامَ بَيْنَ يَدَيْهَا مَا عَدَلَ ذَلِكَ يَوْمَ حَمَلَتْهُ فِی بَطْنِهَا (ابن ابی جمہور، محمد بن زین الدین، عوالی اللئالی العزیزیة فی الاحادیث الدینیة، ج1 ص 269)۔
(19 ) أَبُو الْقَاسِمِ الْكُوفِيُّ فِی كِتَابِ الْأَخْلَاقِ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِرَسُولِ اللَّهِ ص إِنَّ وَالِدَتِی بَلَغَهَا الْكِبَرُ وَ هِيَ عِنْدِی الْآنَ أَحْمِلُهَا عَلَی ظَهْرِی وَ أُطْعِمُهَا مِنْ كَسْبِی وَ أُمِیطُ عَنْهَا الْأَذَىَ بِيَدِی وَ أَصْرِفُ عَنْهَا مَعَ ذَلِكَ وَجْهِيَ اسْتِحْيَاءً مِنْهَا وَ إِعْظَاماً لَهَا فَهَلْ كَافَأْتُهَا قَالَ لَا لِأَنَّ بَطْنَهَا كَانَ لَكَ وِعَاءً وَ ثَدْيَهَا كَانَ لَكَ سِقَاءً وَ قَدَمَهَا لَكَ حِذَاءً وَ يَدَهَا لَكَ وِقَاءً وَ حِجْرَهَا لَكَ حِوَاءً وَ كَانَتْ‏ تَصْنَعُ‏ ذَلِكَ‏ لَكَ‏ وَ هِيَ تَمَنَّی حَيَاتَكَ وَ أَنْتَ تَصْنَعُ هَذَا بِهَا وَ تُحِبُّ مَمَاتَهَا (نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ج‏15 ؛ ص180)۔
( 20)وَ صَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْيَا مَعْرُوفاً سورہ لقمان : 15۔
(21 ) سورہ اسراء: 24۔
  یہ نہیں فرمایا "والدانی" مجھے پیدا کیا۔
(22 ) انِ اشْكُرْ لِی وَ لِوَالِدَيْكَ سورہ لقمان : 14۔
(23 ) وصی شاہ۔
( 24) وَ يَجِبُ لِلْوَالِدَيْنِ عَلَی الْوَلَدِ ثَلَاثَةُ أَشْيَاءَ شُكْرُهُمَا عَلَی كُلِّ حَالٍ وَ طَاعَتُهُمَا فِیمَا يَأْمُرَانِهِ وَ يَنْهَيَانِهِ عَنْهُ فِی غَيْرِ مَعْصِيَةِ اللَّهِ وَ نَصِیحَتُهُمَا فِی السِّرِّ وَ الْعَلَانِيَةِ (ابن شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ، ص 322)۔
( 25) عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع أَنَّهُ قَالَ: أَدْنَی الْعُقُوقِ أُفٍّ وَ لَوْ عَلِمَ‏ اللَّهُ‏ شَيْئاً أَهْوَنَ مِنَ الْأُفِّ لَنَهَی عَنْهُ. (ابن بابویه، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا علیه السلام، ج2؛ ص44)۔
(26 ) ان اضجراک فلا تقل لہما اف، وَ لا تَنْهَرْهُما ان ضرباک‏ قال: «وَ قُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِیماً» قال: یقول لهما: غفر الله لکما. فذلک منک قول کریم، و قال «وَ اخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ» قال لا تملا عینیک من النظر الیهما- الا برحمة و رقة- و لا ترفع صوتک فوق اصواتهما- و لا یدیک فوق ایدیهما و لا تتقدم قدامهما (عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، ج2؛ ص285)۔
( 27) سورہ اسرا : 17، سورہ عنکبوت : 29، سورہ احقاف : 46، سورہ بقرہ : 83۔
(28 ) وَ إِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللَّهَ وَ بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً (سورہ بقرہ : 83)۔
(29 ) عن ابی ولاد الحناط قال: سالت ابا عبد اللہ علیہ السلام عن قول الله عز و جل‏ «وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً» ما هذا الاحسان؟ فقال: الاحسان ان تحسن صحبتهما و ان لا یکلفهما ان یسالاک شیئا مما یحتاجان‏ الیه، و ان کانا مستغنیین‏ (العروسی الحویزی، عبد علی بن جمعة، تفسیر نور الثقلین، ج1، ص363)۔
(30 ) محمد سپهری. ترجمه و شرح رساله الحقوق امام سجاد، ص 134 و 135۔
(31 ) مَا يَمْنَعُ الرَّجُلَ مِنْكُمْ أَنْ يَبَرَّ وَالِدَيْهِ حَيَّيْنِ وَ مَيِّتَيْنِ؟ يُصَلِّی عَنْهُمَا، وَ يَتَصَدَّقُ عَنْهُمَا، وَ يَحُجُّ عَنْهُمَا، وَ يَصُومُ عَنْهُمَا فَيَكُونُ الَّذِی صَنَعَ لَهُمَا وَ لَهُ مِثْلُ ذَلِكَ فَيَزِیدُهُ اللَّهُ بِبِرِّهِ وَ صَلَاتِهِ‏ خَيْراً كَثِیراً. (شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، هدایة الامة الی احکام الائمة علیهم السلام، ج7)۔
( 32) مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ إِنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِيَّ ص فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْصِنِی فَقَالَ‏ ۔۔۔ وَ وَالِدَيْكَ فَأَطِعْهُمَا  وَ بَرَّهُمَا حَيَّيْنِ كَانَا أَوْ مَيِّتَيْنِ وَ إِنْ أَمَرَاكَ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ أَهْلِكَ وَ مَالِكَ فَافْعَلْ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنَ الْإِیمَانِ.( الکافی، ج‏2 ؛ ص158)۔
( 33) مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، مرآة العقول فی شرح اخبار آل الرسول، ج8، ص416۔
(34 ) بِرُّ الْوَالِدَيْنِ‏ مِنْ‏ حُسْنِ‏ مَعْرِفَةِ الْعَبْدِ بِاللَّهِ تَعَالَی إِذْ لَا عِبَادَةَ أَسْرَعُ بُلُوغاً لِصَاحِبِهَا إِلَی رِضَاءِ اللَّهِ مِنْ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ الْمُؤْمِنَيْنِ لِوَجْهِ اللَّهِ تَعَالَی لِأَنَّ حَقَّ الْوَالِدَيْنِ مُشْتَقٌّ مِنْ حَقِّ اللَّہ‏ (منسوب به جعفربن محمد علیه السلام، امام ششم علیه السلام، مصباح الشریعة، ص70)۔
( 35) بَرُّوا آبَائَكُمْ‏ يَبَرَّكُمْ أَبْنَاءُكُمْ. (لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم و المواعظ، ص 195 حدیث نمبر 3985)۔
( 36) مَنْ‏ بَرَّ بِوَالِدَيْهِ‏ زَادَ اللَّهُ فِی عُمُرِہ (طبرسی، علی بن حسن، مشکاة الانوار فی غرر الاخبار، ص 162)۔
( 37) وَ قَالَ الصَّادِقُ ع‏ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُخَفِّفَ‏ اللَّهُ‏ عَنْهُ‏ سَكَرَاتِ‏ الْمَوْتِ فَلْيَكُنْ بِقَرَابَتِهِ وَصُولًا وَ بِوَالِدَيْهِ بَارّاً فَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ هَوَّنَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَكَرَاتِ الْمَوْتِ (مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوارالجامعة لدرر اخبار الائمة الاطہار، ج79، ص65)۔
(38 ) قاعدة- 162 تتعلق بحقوق الوالدین (عاملی، شهید اول، محمد بن مکی، القواعد و الفوائد، ج‌2، ص: 46)۔
(39 ) (مترجم)یہاں وقت نماز سے مراد فضیلت کا وقت ہے وگرنہ اگر نماز کا وقت تنگ ہو اور ان کی اطاعت کرنے سے نماز چھوٹ جانے کا خطرہ ہو تو نماز ہی واجب ہے۔
(40 )(مترجم) لا ینبغی للرجل ان یخرج الی الجہاد و لہ اب او ام الا باذنہما۔ آیت اللہ اسماعیلی نے تو اسی عبارت کا حوالہ شرح رسالۃ الحقوق سے دیا ہے لیکن مذکورہ کتاب یا دوسری کتب حدیثی میں یہ جملہ مجھے نہیں ملا ، ہاں اسی مضمون میں کافی روایتیں موجود ہیں۔
( 41) فمن کان له ابوان مسلمان او احدهما لیس له الجهاد الّا باذنهما (حلّی، علامه، حسن بن یوسف بن مطهر اسدی، تذکرة الفقهاء، ج9 ، ص29)۔
( 42) أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص قَالَ: هَلْ تَعْلَمُونَ أَيُّ نَفَقَةٍ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَفْضَلُ قَالُوا اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ نَفَقَةُ الْوَلَدِ عَلَی‏ الْوَالِدَيْن‏(مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ؛ ج‏15 ؛ ص204)۔
(43 ) من العقوق اضاعة الحقوق‏ (آقا جمال خوانساری، محمد بن حسین، شرح آقا جمال الدین خوانساری بر غرر الحکم و درر الکلم، ج‏6 ؛ ص9)۔
( 44) شرح آقا جمال خوانساری بر غرر الحکم و درر الکلم ؛ ج‏6 ؛ ص9۔
(45 ) وَ نَهَی ص عَنْ عُقُوقِ الْأُمَّهَاتِ (قمّی، صدوق، محمّد بن علی بن بابویه، معانی الاخبار، ص 279)۔
( 46) عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص فِی كَلَامٍ لَهُ‏ إِيَّاكُمْ وَ عُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ فَإِنَّ رِیحَ الْجَنَّةِ تُوجَدُ مِنْ مَسِیرَةِ أَلْفِ عَامٍ وَ لَا يَجِدُهَا عَاق‏ (الکافی، ج‏2 ؛ ص349)۔
( 47) و من العقوق ان‏ ینظر الرجل‏ الی والدیه فیحد النظر الیهما. (تفسیر نور الثقلین ؛ ج‏3 ؛ ص149)۔
(48 ) مَنْ نَظَرَ إِلَی وَالِدَيْهِ نَظَرَ مَاقِتٍ وَ هُمَا ظَالِمَانِ لَهُ لَمْ‏ تُقْبَلْ‏ لَهُ‏ صَلَاة (مشکاة الانوار فی غرر الاخبار ؛ النص ؛ ص164)۔

 

: کتابنامہ
1.    ابن ابی جمہور، محمد بن زین الدین، عوالی اللئالی العزیزیة فی الاحادیث الدینیة، 4جلد، دار سید الشہداء للنشر - قم، چاپ: اول، 1405 ق۔
2.    ابن بابویہ، محمد بن علی، الخصال، 2جلد، جامعہ مدرسین - قم، چاپ: اول، 1362ش۔
3.    ابن بابویہ، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا علیہ السلام، 2جلد، نشر جہان - تہران، چاپ: اول، 1378ق۔
4.    ابن شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ، 1جلد، جامعہ مدرسین - قم، چاپ: دوم، 1404 / 1363ق.
5.    احسایی، ابن ابی جمہور، محمد بن علی، عوالی اللئالی العزیزیة، 4 جلد، دار سید الشہداء للنشر، قم - ایران، اول، 1405 ہ ق۔
6.    امام جعفربن محمد علیہ السلام سے منسوب، مصباح الشریعة، 1جلد، اعلمی - بیروت، چاپ: اول، 1400ق.
7.    آقا جمال خوانساری، محمد بن حسین، شرح آقا جمال الدین خوانساری بر غرر الحکم و درر الکلم، 7جلد، دانشگاہ تہران - تہران، چاپ: چہارم، 1366ش.
8.    پایندہ، ابو القاسم، نہج الفصاحة (مجموعہ کلمات قصار حضرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ)، 1جلد، دنیای دانش - تہران، چاپ: چہارم، 1382ش۔
9.    حر عاملی، محمد بن حسن، ہدایة الامة الی احکام الائمة علیہم السلام، 8جلد، آستانة الرضویة المقدسة، مجمع البحوث الاسلامیة - مشہد، چاپ: اول، 1414ق۔
10.    حریری، محمد یوسف، صدائے سجاد؛ ترجمہ سید حسن امداد، مطبوعہ ، دار الثقافہ لاسلامیہ، کراچی ، 1405 ہ ق۔
11.    حلّی، علامہ، حسن بن یوسف بن مطہر اسدی، تذکرة الفقہاء (ط - الحدیثة)، 14 جلد، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام، قم - ایران، اول، 1414 ہ‍ ق
12.    طبرسی، علی بن حسن، مشکاة الانوار فی غرر الاخبار، 1جلد، المکتبة الحیدریة - نجف، چاپ: دوم، 1385ق / 1965م / 1344ش.
13.    عاملی، شہید اول، محمد بن مکی، القواعد و الفوائد، 2 جلد، کتابفروشی مفید، قم - ایران، اول، ہ ق۔
14.    العروسی الحویزی، عبد علی بن جمعة، تفسیر نور الثقلین، 5جلد، اسماعیلیان - قم، چاپ: چہارم، 1415 ق۔
15.    عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، 2جلد، المطبعة العلمیة - تہران، چاپ: اول، 1380 ق۔
16.    قمّی، صدوق، محمّد بن علی بن بابویہ، معانی الاخبار، در یک جلد، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، قم - ایران، 1403 ہ ‍ق
17.    کاشانی، فیض، محمد محسن ابن شاہ مرتضی، الوافی، 26 جلد، کتابخانہ امام امیر المؤمنین علی علیہ السلام، اصفہان - ایران، اول، 1406 ہ ، ق۔
18.    کبیر مدنی، سید علیخان بن احمد، ریاض السالکین فی شرح صحیفة سید الساجدین، 7جلد، دفتر انتشارات اسلامی - ایران ؛ قم، چاپ: اول، 1409ق۔
19.    کلینی، ابو جعفر، محمد بن یعقوب، الکافی (ط - الاسلامیة)، 8 جلد، دار الکتب الاسلامیة، تہران - ایران، چہارم، 1407 ہ‍ ق۔
20.    لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم و المواعظ،1جلد، دار الحدیث - قم، چاپ: اول، 1376 ش۔
21.    مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوارالجامعة لدرر اخبار الائمة الاطہار (ط - بیروت)، 111جلد، دار احیاء التراث العربی - بیروت، چاپ: دوم، 1403 ق.
22.    مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، مرآة العقول فی شرح اخبار آل الرسول، 26جلد، دار الکتب الاسلامیة - تہران، چاپ: دوم، 1404 ق۔
23.    محمد سپہری. ترجمہ و شرح رسالہ الحقوق امام سجاد. قم: دارالعلم، 1375۔
24.    منسوب بہ امام رضا، علی بن موسی علیہما السلام، الفقہ - فقہ الرضا، در یک جلد، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام، مشہد - ایران، اول، 1406 ، ہ ق۔
25.    نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، 28جلد، مؤسسة آل البیت علیہم السلام - قم، چاپ: اول، 1408ق۔

 

 

مقالہ نگار: آیت اللہ اسماعیلی
مترجم:محمد عیسی روح اللہ    
پیشکش:امام حسین فاؤنڈیشن  

Read 418 times